27/5/24

امیر خسرو: ہندوستانی ثقافت کا امین، مضمون نگار: زبیر احمد بھاگلپوری

 

اردو دنیا، مارچ2024


ہندوستانی تاریخ میں چند ہی ایسی نابغہ روزگار شخصیتیں ہوئی ہیں، جنھوں نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے سبب نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی امتیازی شناخت قائم کرکے ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ ان میں ایک نمایاںنام ابوالحسن یمین الدین خسروعرف امیر خسرو کا بھی شامل ہے جن کی پیدائش 1253 میں ایٹا ضلعے کے پٹیالی گاؤں میں ہوئی۔ ان کے والد امیر سیف الدین محمد تیرہویں صدی کی شروعات میں منگولوںکے ظلم سے تنگ آکر ترکی سے ہندوستان آئے اور جلد ہی التمش کے دربار شاہی کے مقرب ہوگئے۔

اسلامی تصوف کے تناظر میں امیرخسرو کا نام بے انتہا محترم اورمعتبر تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ میدان تصوف سے، جس کے ابعاد (Dimentions) بذات خود طوالت زمانی کے متقاضی ہیں، کیسے ایک ایسا شخص ابھرتا ہے جو بیک وقت ایک کامیاب شاعر، موسیقار، ماہر لسانیات اور مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیائے تصوف کا رمز شناس بھی ہے اور اتنا کچھ انھوں نے اس حال میں کیا جب قلم کاغذ اور پرنٹنگ پریس وغیرہ کا نام و نشان نہیں تھا۔اپنی زندگی کے ان تمام پہلوؤں میں برتاؤ اور رچاؤ کے حوالے سے وہ پایۂ کمال کو پہنچے۔ بہ الفاظ دیگر ان کی تہہ دار زندگی کاکوئی گوشہ تشنہ نظر نہیں آتا۔ شاعری کی دلفریب دنیا میں قدم رکھا تو نہ صرف ہندوستان کی ’ہندوی‘ اور ’فارسی‘ کے عظیم ترین شاعرقرار پائے بلکہ اہل فارس کے ذریعے ہندوستان کے واحد مستند فارسی شاعر کا تمغۂ امتیاز بھی حاصل کیا۔ منطقہ ٔ موسیقی میں داخل ہوئے تو جودت طبع اور بے پناہ خلاقی ذہانت کے سبب کئی آلات موسیقی کے موجد بن گئے اور بالواسطہ سہی، اپنی نگارشات میں جن تواریخی حقائق کا اندراج کیا۔ ان کے ذکر کے بغیر نہ صرف عہد وسطیٰ کی تاریخ نامکمل ہے بلکہ چند حوالوں کے تناظر میں صرف آپ کی تحریر ہی Source of information ہے۔ ان کی اسی فطری صلاحیت سے متاثر ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کو کہنا پڑا کہ ہندوستان نے سات سو برسوں کی طویل مدت میں امیر خسرو جیسا باصلاحیت اور بے مثال دانشورپیدا نہیں کیا۔امیر خسرو کی عظمت کا اعتراف شبلی ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’ بلاشبہ فردوسی، سعدی، انوری، حافظ، عرفی منظومات کے شہنشاہ تھے لیکن وہ اپنی متعینہ حد سے باہر نہیں گئے۔ فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھے،سعدی قصیدے کے شعبے میں اختیار کلی حاصل نہیں کرسکے، انوری مثنوی اور غزل کو اپنے ماتحت نہیں کرسکے اور حافظ، عرفی و نظیری غزل کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے لیکن خسرو کے دائرۂ اختیار میں سبھی سمٹ آئے ہیں۔‘‘

ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے تناظر میں امیر خسرو کا مطالعہ ایک خوشگوار احساس کا سامان بایں سبب فراہم کرتاہے کہ انھوں نے نہ صرف سرزمین ہند کی ثقافت کو بام عروج تک پہنچانے میں بیش قیمتی خدمات پیش کیں بلکہ یہاں کی تہذیبی و ثقافتی بوقلمونی کے درمیان ایک توانا ہم آہنگی قائم کرنے کی مخلصانہ سعی بھی کی۔ معاشرتی خیرسگالی اور سماجی سمرستاکا جوقابل قدر سلسلہ ’صوفی تحریک‘ کی صورت میں عہد وسطیٰ میںبرادرانہ تفریق اور مذہبی شدت پسندی کی بنیاد کا قلع قمع کرتے ہوئے ملک بھرمیں محبت و اخوت کی ایک خوشگوار فضا قائم کرتا ہے، امیر خسرو اس کی ایک اہم کڑی کے بطور بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کے استحکام کے حوالے سے اپنی بھر پور موجودگی درج کرتے ہیں۔یہ مذہبی رواداری انھیں اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیا سے وراثت میں ملی تھی، جس کی ایک مثال اس واقعے کے ذیل میں ملتی ہے جس میں ایک دفعہ اپنی خانقاہ کی چھت پر کھڑے حضرت نظام الدین ؒنے کچھ فاصلے پر غسل اور پوجا پاٹھ کرتے چند ہندو کے بارے میں خسرو کے استفسار پر برجستہ ایک مصرع ’’ہرقوم راست دینے، راہے و قبلہ گاہے‘‘ (ہر قوم کا اپنا دین، اپنی راہ اور اپنی قبلہ گاہ ہے) پڑھا۔ اس کے جواب میں خسرو نے فوراً مصرع ثانی ’من قبلہ راست کردم برطرف کج کلاہے‘ پڑھا۔

ترکی النسل خسرو کی زبان کے حوالے سے اردو محققین کا خیال یہ ہے کہ خسرو کی زبان اردو کی ابتدائی صورت کی مثال ہے جب کہ اہل ہندی کا گمان یہ ہے کہ خسرو نے ابتدائی ہندی زبان میں شاعری کی۔ بہت حد تک یہ درست بھی ہے کہ خسرو کی شعری زبان ابتدائی اردو اور شروعاتی ہندی کی مثال ہے۔

خسرو نے ترکی، فارسی، عربی اور سنسکرت کا علم رکھنے کے باوجود اپنے دور کی عام بول چال کی زبان ’ہندوی‘ میں شاعری کی جس کابین ثبوت خسرو کے ان دو اشعار سے مل جاتا ہے      ؎

1            ترک ہندوستانیم من، ہندوی گویم جواب

  شکر مصری ندارم کز عرب گویم سخن

(میں ایک ہندوستانی ترک ہوں، میں ہندوی میں جو اب دیتا ہوں۔میرے پاس مصری شکر نہیں جو میںعربوں کی گفتگو کروں)

2        چوں من طوطیِ ہندم او راست پرسی

 زمن ہندوی پرس تا نغز گویم

(اگر صحیح پوچھو تو میں طوطیِ ہند ہوں۔ اگر تم مجھ سے شرینیِ گفتار چاہتے ہو تو ہندوی میں بات کرو)

اس ضمن میں ’سنسکریتی کے چار ادھیائے ‘ میں رام دھاری سنگھ دنکر، آچاریہ شیام سندر داس اور ڈاکٹررام کمار ورما جیسے ہندی کے عظیم دانشور خسرو کی شعری زبان کو ’کھڑی بولی‘ قراردیتے ہیں۔ بقول رام دھاری سنگھ دنکر-’’جب ہم کھڑی بولی کی تاریخ کو اٹھاتے ہیں تب یقینی طور سے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ اس زبان کا قدیم ترین تحریری ادب خسرو کا ہی ہے۔‘‘ اتنا ہی نہیں،دنکر مزید کہتے ہیں کہ’’کھڑی بولی‘ کو ادبی زبان کا درجہ دینے کا شرف مسلمانوں خصوصاً امیرخسرو کو ہی حاصل ہے۔ اسی طرح اردو کے معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر مسعود حسین خان اور ڈاکٹر شوکت سبز واری کا نظریہ اس ضمن میں یہ ہے کہ جدید اردو کی نشوو نما کھڑی بولی، ہریانی اور برج بھاشا کے بطن سے ہوئی۔ یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خسرو کی شعری زبان ’کھڑی بولی ‘ ہونے کے حوالے سے ہندی زبان کے ماہرین کی ادعائیت تسلیم کرلینے کی صورت میں خسرو کے ذریعے مستعمل زبان کو ہندی اور اردو دونوں کی مادرلسانی کے بطور قبول کرلینے کا مسئلہ از خود حل ہوجاتا ہے۔ یہاں ایک بات ذہن نشیں کرنے کی یہ ہے کہ خسرو ’’ہندوی‘‘ کی بات کرتے ہیںتو اس سے کوئی ایک زبان نہیں، بلکہ ہندوستان کی اس وقت کی ساری علاقائی بولیاں مراد ہیں جیسا کہ خود ’’نہہ سپہر‘‘ میں خسرو خود لکھتے ہیں-’’ ہندستان کے ہر ایک علاقے میں وہاں کی اپنی بولیاں ہیں، جن میں سندی(سندھی)، تیلنگی(تلگو)، گجر(گرجری)، ماوری (مالاباری) اور گوڈی (گوڈوا نے کی زبان) خاص ہیں بنگال اور اودھ میں وہاں کی اپنی بولیاں ہیں اور دلی کے آس پاس کے لوگوں کی بھی اپنی بولی ہے۔ یہ سبھی ’ہندوی‘ زبانیں ہیں۔‘‘

خسرو کی زندگی کے متنوع تہذیبی و ثقافتی پہلو پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے ہندوستان کی مروج علاقائی زبان میں اپنی شاعری کے ذریعے یہاں کی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی اور قومی ایکتا کے قیام میں بھی اہم رول ادا کیا۔ ان کی ثقافتی کارپردازی کے چند نمونے:

1         بحیثیت شاعر-امیر خسرو کی فارسی شاعری باعتبار معیار انتہائی اعلیٰ اور معتبر تصور کی جاتی ہے۔ خسرو ہندوستان کے واحد فارسی شاعر ہیں جنھیںاہل ایران کے ذریعے محترم اور مستند قرار دیاجاتاہے۔ ان کی خالص فارسی شاعری کا معتدبہ حصہ تو موجود ہے ہی، فارسی شاعری میں ہندوستانی زبان کے امتزاج کے ذریعے جو انھوں نے ایک نیا تجربہ کیاہے۔ وہ صرف خسرو کا خاصہ ہے اوران سے قبل اس نوع کی کوئی مثال نہیںملتی ہے۔ مثلاً      ؎

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل و چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں زمہرآں مہہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں نہ رنگ چیناں، نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

’خسرو نے ہندوی‘یا کھڑی بولی میں جو شعری نمونے چھوڑے ہیں، وہ ہندوستانی تہذیب کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جن میں دوہے،پہیلیاں، قوالی، کہہ مکرانیاں اور دوسخنے اور گیت وغیرہ شامل ہیں۔ مشتے نمونہ :

(الف)دوہے

1        خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ

تن میرو من پیو کو دؤو بھئے اک رنگ

2        گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس

3        بھائی رے ملاح ہم کو بار اتار

ہاتھ کو دیونگی منورا گلے کو دیونگی ہار

4        وہ گئے بالم وہ گئے ندیا کنار

آپے پار اتر گئے ہم تورہے ایہی پار

(ب)پہیلیاں

1        ایک گنُی نے یہ گن کینی

پر تل پنجرے میں دے دینی

دیکھا جادو گر کا حال

ڈالے ہرا نکالے لال

(پانی)

2        اک ناری کے سرپر نار

پی کی لگن میںکھڑی ناچار

سیسی چُنے اور چلے نہ چور

رو رو کر وہ کرے ہے بھور 

(شمع) 

 (ج) گیت

۱         چھاپ تلگ سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

بات ادھم کہہ دینہی رے موسے نیناں ملائے کے

گوری گوری بتیاں ہری ہری چوڑیاں

بئیاں  پکڑے دھر لینہی رے موسے نیناں ملائے کے

2        بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

کیسے میں بھرلاؤں مدھوا سے مٹکی

پنیاں بھرن کو جو میں گئی تھی

دوڑ جھپٹ موری مٹکی پٹکی

بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

(د) لوک گیت- امیر خسرو ہندوستانی میں روح کی گہرائی سے رچے بسے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے 1کلاسیکی غزل اور دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ مقامی لوک گیت میں بھی طبع آزمائی کی۔ مثال       ؎

اماں میرے بابا کو بھیجیوری کی ساون آیا

بیٹی تیرا بابا تو بوڑھاری کی ساون آیا

اماںمیرے بھیاکو  بھیجیوری کی ساون آیا

بیٹی تیرا بھیا تو بالا ری کی ساون آیا

اماں میرے ماما کو بھیجیوری کی ساون آیا

بیٹی تیرا ماما تو بانکاری کی ساون آیا

ان چند مثالوں سے امیر خسرو کے ہندوی کلام کے معیار و وقار کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ خسرو ہندوستانی ثقافت کے نہ صرف پرور دہ تھے بلکہ وہ عملی طور پر اس کے گرویدہ بھی تھے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دور کی شاید ہی کوئی صنف سخن ہو جس پر خسرو نے اپنی جولانیِ طبع کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔

2        بحیثیت موسیقار: ہندوستانی فن موسیقی کو بھی بام عروج پر پہنچانے میں امیر خسرو کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ چونکہ خسرو کی پیدائش ہندوستانی ماں کے شکم سے ہوئی، مزامیر کے اسلام میں ناجائزہونے کے باوجود وہ یہاں کی موسیقی سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ اسے عروج  و کمال عطا کرنے میں انتہائی اہم رول ادا کیا۔ ہندوستانی موسیقی کے عنوان پر شائع مستند کتاب ’’معارف النغمات‘‘ میں محمد علی خاں امیر خسرو کی موسیقی کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

’’سلاطین تغلق کے عہد میں امیر خسرو مشہور باکمال شاعر کی توجہ موسیقی ہند کی جانب مائل ہوئی۔ طبعی مناسبت اور خداداد ذہانت کے باعث اس فن میں انھوں نے ایسی مہارت حاصل کی کہ نائک گوپال، جو سرآمد روزگار تھا، ان کے کمال کا ثناخواں ہوا۔ اس نائک نے تغلق کے دربار کے تمام گویوں کو عاجز کردیا تھا۔ خسرو نے بادشاہ کے اصرار سے اس کے گانے کا طرز فارسی ترانے میں اسی کے سامنے ادا کرکے دکھایا۔ امیر خسرو نے عجمی و ہندوستانی موسیقی کے ملادینے کی کوشش کی اور بہت سے راگ ایجاد کیے جو آج تک مروج ہیں۔ غارا،سرپردہ اور زیلف وغیرہ ان کی طباعی کا نتیجہ ہیں۔‘‘

تاہم ڈاکٹر ملک محمد کی کتاب ’امیر خسرو ‘ میں شامل آچاریہ بریہسپتی نایک گوپال اور امیر خسرو کے فنی تقابل کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’گوپال نایک سے ملاقات کے قبل خسرو کا نظریہ کچھ بھی رہاہو لیکن گوپال نایک نے خسرو کو ہندوستانی موسیقی کا عظیم عقیدت مند بنادیا۔‘‘تاہم بریہسپتی جی یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں: ’’ ایرانی بارہ سو روں کی بنیاد پر راگ درجہ بندی کے طریقہ کا آغاز امیر خسرونے کیا اور اس لیے وہ عہد ساز ہیں‘‘

امیر خسرو نے ایرانی اور ہندوستانی اصول موسیقی کے امتزاج سے نہ صرف کئی نئے راگ کی ایجاد کی بلکہ کئی آلات موسیقی کے موجد بھی ٹھہرے۔ موجودہ طبلہ اور ستار کو بنیادی طورپر ایجاد کرنے کا سہرہ بھی امیر خسرو کو جاتا ہے۔  کچھ ہندوستانی دانشورستار کی ایجاد کو امیر خسرو کی بجائے مغل عہد کے خسروخان سے منسوب کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں 18 ویں صدی کے معروف ہندوستانی موسیقار کیلاش چند ردیوعرف ’آچاریہ وریہسپتی‘ ڈاکٹر ملک  محمد کے ذریعے مرتب کتاب ’امیر خسرو ‘ میں شامل اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں: ’’موجودہ ہندوستانی ستارکے موجد ’خسرو خان‘ تھے جو سدارنگ کے انج (چھوٹا بھائی) اور ادا رنگ کے والد تھے۔ شاہ عالم کی کتاب ’نادرات شاہی‘ میں ستار کاذکر پہلے پہل ملتا ہے۔ یہ کتاب 1798 میں مکمل ہوئی۔‘‘ لیکن آچاریہ ویہسپتی کا یہ دعویٰ اس وقت باطل نظر آتا ہے جب ہم راجستھان کے جودھاراجہ کی 1725 میں شائع مشہور کتاب ’ہمیر راسو ‘ میں ستار کا ذکر پاتے ہیں۔

دانشوروںکا وہ طبقہ جو ستارکو امیر خسرو کی ایجاد تسلیم نہیں کرتا، یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ خسرو نے اپنی تحریروں میں چنگ اوررباب وغیرہ جیسے آلات موسیقی کا توذکر کیا ہے لیکن انھوںنے کبھی بھی ’ستار‘ یا اس کی ایجاد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ دلیل اس لیے کمزور ہے کہ ممکن ہے کہ جب یہ آلہ خسرو نے ایجاد کیا اس وقت چونکہ اس کی ابتدائی شکل تھی، اس کا کوئی اس وقت نام نہیں دیاگیا ہو۔ اس سلسلے میں عبدالحلیم جعفر خان نے اپنی کتاب Amir Khusru and Hindustani Music میں لکھا ہے کہ ستار، طبلہ اور ڈھولک بھی امیر خسرو کے اختراع کردہ آلات موسیقی ہیں۔ عبدالحلیم صاحب کی بات اس لیے بھی معنویت رکھتی ہے کہ وہ خود ایک کامیاب موسیقار رہے ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ عہد وسطیٰ کے عظیم مؤرخ پروفیسر حسن عسکری عظیم آبادی کی تحقیق کے مطابق خسرو کے عہد میں آلہ موسیقی ’ایکتارا‘مروج تھا، جس میں ایک تار کا استعمال ہوتا تھا، جو آج بھی برصغیر ہندوپاک کے کئی علاقوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس میں امیر خسرو نے دو مزید تار کا اضافہ کرکے ایک نیا آلہ موسیقی ایجاد کیا جسے بعد میں لوگوں نے ستار کا نام دیا۔ان کے مطابق ستار دراصل ’سہ تار‘ کامخفف ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزارت تعلیم اسلام آباد سے شائع ایک کتاب ’امیر خسرو اور موسیقی‘ میں شامل اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر وحید مرزا بھی ستارکے سلسلے میں ایک دلچسپ نظریہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں- ’’ترکی اور فارسی شاعری کے بہت دیرینہ ادوار میں یہ نام ہے جس سے ترشح ہوتاہے کہ ستاراصل میں فارس یابلکہ کاکیشیامیں مروج تھا اور ہندوستان میں اس کے بعد آیا۔ ستارکاکیشیا اور جارجیا کا آج بھی قومی ساز ہے۔ غالباً انہی خطوں سے یہ ساز مغربی ممالک میں گیا جہاں یہ ’زتھار‘ یا ’گٹار‘ کہلایا۔

اسی طرح ’قوالی‘ اور ’ترانہ‘ جو امیر خسرو کی ایجادات تصور کیے جاتے ہیں، کے حوالے سے بھی دانشوروں کی آرا مختلف ہیں۔ رشیدملک اپنی کتاب ’موسیقی اور امیرخسرو‘ میں لکھتے ہیں-’’ قوالی اور ترانہ دونوں امیر خسرو سے پہلے کی چیزیں ہیںاور ہندوستان کی تاریخ میں بھی ہمیں ایسے شواہد ملتے ہیںجن کی بنیادپر ہم قوالی کاموجد امیر خسرو کو نہیں کہہ سکتے۔‘‘رشید ملک اور ان کے ہم خیال مورخوں کا نظریہ غالباً اس ’سماع ‘کی بنیاد پر قائم ہے جو واقعی امیر خسرو سے پہلے ہندوستان میں مروج تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خسرو سے پہلے لفظ قوالی پڑھنے کو نہیں ملتا۔  قوالی امیر خسرو کی ایجاد ہے یا نہیں، یہ موضوع بحث ہوسکتا ہے لیکن یہ ایک متفق علیہ حقیقت ہے کہ ’خیال‘ اور دیگر اصناف گلوکاری کے ساتھ ساتھ امیرخسرو نے ایک صنف ’قول‘ کی ایجاد کی تھی، جس میں غالباً رسول اکرمؐ کے اقوال پیش کیے جاتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ اس صنف کے گلوکاروں کو قوال اوران کی گلو کاری کو بعد میں قوالی کے طورپر تسلیم کیاجانے لگاہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سماع کے اندر جو سادگی اور عدم انضباط تھا، اسے امیر خسرو نے منظم کرکے قوالی کا نام دیاہو۔ بہر کیف ہندوستانی موسیقی کی ایجادات کے حوالے سے امیر خسرو کی خدمات پر تحقیق اور تفتیش کا سلسلہ ماضی میں جاری تھااور مستقبل میں بھی جارہی رہے گا۔

پنڈت جگدیش نارائن پاٹھک نے ’راگ درپن ‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستانی موسیقی کے بارہ راگ کے موجد امیر خسرو ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ دور کی ’خیال گائکی‘ بھی امیرخسرو کی پیداوار تسلیم کی جاتی ہے۔ اس طرح شعبہ موسیقی میں امیر خسرو کے قدکا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

بحیثیت مورخ:بطور مورخ امیر خسرو کی حیثیت یہ ہے کہ ان کے حوالے کے بغیر ہندوستان کے عہد وسطیٰ (Medieval period) کی تاریخ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

 خواہ منظوماتی تخلیق ہو خواہ منثوراتی۔ دونوں میں تاریخی حوالے کثرت سے موجود ہیں۔ 1291میں ان کا ایک شعری مجموعہ بعنوان ’غرۃ الکمال‘ تخلیق پذیر ہوا جس میں شامل مثنوی ’مفتاح الفتوح ‘ میں خسرو نے سلطان علاء الدین خلجی کی فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے سلطان قطب الدین مبارک کے حکم پر 718ھ میں مشہور مثنوی ’نہہ سپہر ‘ کی تخلیق کی جس کی نہ صرف تاریخی اہمیت ہے بلکہ اس میں اس وقت کی معاصر تہذیب و ثقافت کے عناصر بھی ترجیحی بنیادپر شامل کیے گئے ہیں۔ اس مثنوی میں سلطان قطب کی تخت نشینی سے لے کر شہزادہ محمد کی پیدائش تک کے تاریخی حوالوں کا تذکرہ ہے۔ خاص بات یہ کہ اس کے نو ابواب میں سے ایک میں ہندوستان کی عظمت کا بیان ہے۔ اس میں خسرو نے ہندوستان کو ’دنیا کی جنت‘ قرار دیاہے۔ ’تغلق نامہ‘ کو ان کی آخری تاریخی مثنوی تصور کیاجاتا ہے جس میں انھوں نے سلطان غیاث الدین تغلق کی حیات اور فتوحات کا تفصیلی ذکر کیاہے۔

خسرو کی ایک نثری تحریر کا نمونہ ’خزائن الفتوح‘ کے نام سے 711ھ میں منصہ شہود پر آتا ہے جس کا دوسرا نام ’تاریخ علائی‘ بھی ہے۔ اس میں انھوں نے علاء الدین خلجی کے دور کے کئی تاریخی واقعات قلم بند کیے ہیں۔ علاء الدین خلجی کی تاریخ کے حوالے سے یہ اہم ترین Source ماناجاتا ہے۔ ’خزائن الفتوح‘ اصلاً ایک اخبار ہے جس کی بنیاد پر خسرو کو اخبار نویس بھی کہاجاسکتاہے۔ اس کی تاریخی اہمیت تو ہے ہی، فارسی زبان کے اس اخبار کا اثر ہندوستانی سماج پر یہ پڑا کہ اس سے متاثر ہوکر مہاراشٹر کے حکمراں نے بھی مراٹھی اخبار نویسی کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس میں خصوصاً علاء الدین کی دیوگیری فتح کے لیے روانگی، اس کا نظام حکومت دہلی قلعے کی تعمیرنو، حوض ملتانی کی تعمیر، منگولوں کے خلاف اسلامی فوج کی جنگ اور فتح اور رنتھم بھور کی فتح وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تاریخی حوالے سے مثنوی ’قران السعدین‘ کی بھی خاص اہمیت ہے، جسے خسرو نے تین ماہ کی عرق ریزی کے بعد 688ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ اس مثنوی میں انھوںنے کیقباد اور بغراخاں کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ ’نہایت الکمال ‘ اور ’وسط الحیات‘ بھی خسرو کی ان تخلیقات میں شامل ہیں جن کی تاریخی اور ادبی دونوں سطح کی اہمیت تسلیم شدہ ہے۔

4        بحیثیت محب وطن:امیر خسرو محب وطن تو تھے ہی، وہ قومی ایکتا اور فرقہ وارانہ خیرسگالی کی علامت بھی تھے۔ گرچہ وہ فارسی، ترکی، عربی وغیرہ کئی زبانون کے عالم تھے لیکن ہندوستان کی مقامی بولی ہندوی (جو بعد میں ہندی بنی) کے ساتھ جو روحانی اور قلبی برتاؤہے، وہ ان کی حب الوطنی کا ہی ثبوت ہے۔ انھوںنے اس وقت مقامی ہندی زبان کو نہ صرف عملی طور پر اپنی منظومات میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا بلکہ تحریری طورپر بھی ہندی زبان کی کھلے دل سے تعریف کی۔ اپنی ایک مثنوی’عشقیہ‘ میں وہ لکھتے ہیں:

’’ہندی فارسی سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ جو لوگ ہندی کی اہمیت کم سمجھتے ہیں، وہ نادان ہیں۔ ہندی عربی کے مساوی ہے کیوں کہ ان دونوں میں کوئی مخلوط نہیں ہے۔ ذخیرہ ٔ الفاظ اور خیالات کے نظریے سے بھی ہندی کم نہیں ہے۔ ہندی میں بہت سے ایسے لفظ ہیں جو چھوٹے ہونے پر بھی معنوی گہرائی رکھتے ہیں۔ وہ ایک قطرے میں سمندر کی طاقت رکھنے والے ہیں۔‘‘

ہندوستان کی عظمت کا اعتراف خسرو نے اپنی مثنوی ’نہہ سپہر‘میں جس انداز میں کیا ہے۔ا س سے ہندوستان کے تئیں خسرو کے والہانہ جذبات کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ انھوںنے یہاں کی آب و ہوا، پھل پھول، چرند و پرند، تعلیم، زبان اور یہاں کے برہمنوں کے علمی تبحر وغیرہ کا مخلصانہ اظہار کیا ہے، جس سے ان کی حب الوطنی ٹپکتی ہے۔ خسرو نے اس مثنوی میںلکھا ہے کہ جو لوگ روم، خراساں اور ختن کے سامنے ہندوستان کے تئیں میری تعریف کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، اس کے جواب میں میں کہوں گا کہ میری نظر میں ہندوستان کے علو شان کے دو اسباب ہیں:’’ایک تو یہ ہے کہ ہندوستان میرا مادر وطن ہے اور خود پیغمبر حضرت محمد ؐ نے کہا ہے کہ حب الوطنی ایمان کی نشانی ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ اس ملک کا بادشاہ مبارک شاہ ہے جس کے مقابلے میں دنیا میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔‘‘

صفدر آہ کے لفطوں میں:

’’ خسروسچے وطن پرست اورہندوستان کے عاشق تھے۔ اپنے اشعار میں جہاں جہاں وہ ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں تو جیسے ان کی روح بو ل اٹھتی ہے۔ ہندوستان کی زمین، ہندوستان کا موسم، ہندوستان کے پرندے، ہندوستان کے پھل، ہندوستان کی ریت رواج، ہندوستان کے دانشوروغیرہ پر جس تاثر سے خسرو شعر کہتے ہیں، اس کی مثال غالباً سنسکرت سے لے کر ہندی اور اردو تک کسی ہندوستانی زبان میں نہیں مل سکے گی۔‘‘

خسرو جب پورے کشور ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں تو بول اٹھتے ہیں       ؎  

’’کشور ہند است بہشتی بزمیں‘‘

اور جب جنت ارضی کشمیر کو دیکھتے ہیں تو اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں          ؎      

اگر فردوس برروئے زمین است

ہمین است و ہمین است و ہمین است

خسرو کی کثیر الابعاد زندگی کی یہ چند جہات ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں ان کے اہم کردار کی تفہیم کے لیے کافی ہیں لیکن ان کے مکمل ادبی، علمی اور ثقافتی کردار کے ادراک کے لیے ناکافی ہیں۔ صحیح معنوں میں ’خسرو شناسی‘ کا مکمل تصور اس لیے بھی ناممکن ہے کہ ان کی تخلیقات کا نصف بھی آج دستیاب نہیں ہے۔ ’تاریخ فرشتہ‘ کے مطابق خسرو کے ذریعے لکھی کتابوں کی کل تعداد 92 ہے جب کہ جامی (1414-1492) نے اپنی کتاب ’نفحات الانس‘ میں لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی کل تعدا د 99 ہے۔ جب کہ فی الوقت ان کی دستیاب کتابوں کی تعدادمحض 22 ہے۔ اس طرح واضح ہے کہ امیر خسرو کی ادبی اور علمی وقعت کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

ماخذات

1         امیر خسرو :مؤلف ڈاکٹر ملک محمد

2        سنسکرتی کے چار ادھیائے۔ رام دھاری سنگھ دنکر

3        مقدمۂ تاریخ زبان اردو۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں

4        معارف النغمات۔ محمد علی خاں

5        امیر خسرو اور ان کی ہندی شاعری۔ ڈاکٹر شجاعت علی

6        امیر خسرو۔ سید غلام سمنانی

7        امیر خسرو۔ ڈاکٹر محمد وحیدمرزا

8        حیات خسرو۔ مولانا شبلی

9        خسرو بحیثیت ہندی شاعر۔ صفدرآہ

10      امیر خسرو اور موسیقی -وفاقی وزارت تعلیم، اسلام آباد۔

 

Zubair Ahmad Bhagalpuri

Bihar Legislative Council

Patna- 800001 (Bihar)

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...