اردو دنیا، مارچ2024
ڈاکٹر الیاس وسیم
صدیقی کا آبائی وطن ٹانڈہ اترپردیش تھا۔ جہاں سے ان کے آبا و اجداد نے نقل
مکانی کرکے مالیگائوں میں مستقل سکونت اختیار کی۔ شہر مالیگائوں میں یکم مارچ 1945
کو محمد حنیف اور زہرہ صدیقی کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی، جس کا نام محمد الیاس
تجویز کیا گیا۔ یہی بچہ ادب کے افق پر نصف
صدی سے زائد عرصے تک روشن رہا اور اپنی ضیا
پاشیوں اور ضیا باریوں سے ایک جہان کو منور
کرتا رہا۔ وہ آفتاب علم و فن جو معلم، محقق،
ناقد، مبصر، شاعر اور افسانہ نگار تھا۔ اردو، عربی اور فارسی میں کامل دسترس رکھتا
تھا۔ ایک ایسا قانون داں جوادب کی باریکیوں، نزاکتوں اور لطافتوں سے نہ صرف واقف تھا
بلکہ ان کا مبلغ اور مدرس بھی تھا۔ عروض کا ماہر اور شاستریہ سنگیت کا مزاج داں، جس
کا اظہار کتاب ’ قندیل حرف‘ سے ہوتا ہے۔ جس میں انھوں نے نہ صرف اردو اور ہندی زبان
کا استعمال کیا ہے بلکہ میوزیکل نوٹیشن کو بھی درج کیا ہے، جو ماہر موسیقی رمضان فیمس
کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ نوٹیشن پنڈت بھات کھنڈے
کے طریقے پر لکھے گئے ہیں۔
) قندیل حرف:ڈاکٹر الیاس
صدیقی، 2013، ص 71(
ڈاکٹر موصوف نے بچوں کے لیے لوریاں بھی قلم بند کی ہیں اور ان کی دھنیں بنواکر
’آجارے نندیا ‘ کے نام سے ایک البم بھی ریلیز کیا تھا۔ لوریاں بھی اس کتاب کا حصہ
ہیں۔ ’آجارے نندیا ‘ کو مغنیہ ’جیوتسا راجوریہ ‘ نے آواز اور ’شیو راجوریہ‘ نے میوزک
سے آراستہ کیا ہے۔ ان کا نوٹیشن بھی کتاب
میں دیکھا جاسکتا ہے۔یہ لوریاں ادب اطفال میں ان کا گراں قدر تعاون ہیں۔
بحیثیت شاعر انھوں نے حمد، نعت پاک، نظمیں، غزلیں، منقبت،
سہرے، رخصتی، تہنیت نامے، اسکولی ترانے، استقبالیہ گیت و الوداعی گیت وغیرہ سپرد قلم
کیے تو افسانے او ر کتابوں پر تبصرے بھی لکھے۔
جہاں انھوں نے اپنے ساتھی اساتذہ کی
سبکدوشی پر الوداعی گیت لکھے ہیں تو وہیں اپنی ملازمت کی تکمیل پر بھی ’ہم تو چلے یاران
محفل ‘ کے ایک عنوان سے ایک نظم سپرد خامہ کی ہے۔ کہتے ہیں ؎
ہم تو چلے یاران محفل ! سارے کام تمام ہوئے
جیسے کوئی پرندہ اپنے گھر لوٹے شام ہوئے
ہم ایک تھے، ہم ایک ہیں، ترانے کا اولین بند ملاحظہ فرمائیں ؎
پھر حق و صداقت کا علم لے کے اٹھیں گے
بے خواب سی آنکھوں
میں نئے خواب بنیں گے
مٹی کی محبت میں ہر الزام سہیں گے
دھرتی پہ لہو سے نئی تحریر لکھیں گے
ہر وادی پرخار کو گلزار کریں گے
ہم ایک تھے، ہم ایک ہیں، ہم ایک رہیں گے
غزلوں میں بھی حضرت وسیم کا رنگ انفرادیت کا حامل ہے۔ عصری حسیت، روایتی موضوعات، حسن و عشق کے قصے؛ لیکن جب یہی صدیقی صاحب کے جادوئی قلم سے نکلتے
ہیں تو ان میں ایسا نور جلوہ فگن ہوتا ہے جو ہر ایک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتا
ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
خون بہاتا نہیں ہم جنوں کا کوئی حیواں
کام یہ وہ ہے جسے صرف بشر کرتے ہیں
مضمون پرانا ہے لیکن برتنے کے انداز نے اسے منفرد بنادیا
ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے ؎
یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی تاریخ ہنوز
کتنا ذلیل کرتی ہیں انساں کو کرسیاں
اردو زبان کی زبوں حالی، اپنوں کی بے اعتنائی، غیروں کی
بے وفائی پر بے شمار اشعار کہے گئے ہیں لیکن اس شعر میں یقیناکچھ خاص ہے ؎
کون سو سو بار ہوکر قتل بھی زندہ ہے آج
بار خاطر گر نہ ہو اردو زباں کہہ لیجیے
’قندیل
حرف‘ کا ہر صفحہ ایسے ہی بامعنی اشعار سے روشن ہے۔’شعر فہمی اور فن شاعری‘ اپنی نوعیت
کی منفرد کتاب ہے۔ 2007 میں انھوں نے شہر کے
اہل علم کی فرمائش پر شعر فہمی کی کلاس شروع کی تھی،جس میں طلبہ، اساتذہ، ادبا و شعرا شریک ہوتے تھے۔ شعر کی خواندگی سے لے کر اس کی تفہیم و تشریح اور
محاسن و معائب پر رہنمائی کیا کرتے تھے۔ اسی کلاس کے نوٹس کو مزید بہتر بناکر افادہ
عام کے لیے ’شعر فہمی اور فن شاعری‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ جس کے متعدد ایڈیشن طبع
ہوچکے ہیں۔ اسی طرز پر فارسی آموزی کی کلاس بھی جاری کی تھی، جس میں شرکا کو فارسی
کی ابتدائی معلومات، اردو میں مستعمل فارسی الفاظ، تراکیب، گرامر اور مصرعوں اور محاوروں
پر رہنمائی کیا کرتے تھے۔ مذکورہ دونوں کلاسوں سے ایک بڑی تعداد نے فیض حاصل کیا۔
طنز و ظرافت کے میدان میں صدیقی صاحب کا طوطی کچھ یوں بولتا
تھا کہ زندہ دلان حیدرآباد کی طرز پر جب مالیگائوں میں زندہ دلان مالیگائوں کا قیام
عمل میں آیا تو ذمے داروں نے ان کی غیر موجودگی میںانھیں اپنی انجمن کا صدر منتخب
کیا تھا۔ اس بزم نے صدیقی صاحب کی زیر نگرانی ترقی کے مدارج طے کیے۔سال بھر میں ایک
دو عمدہ اور معیاری اور یادگار پروگرام انجمن
منعقد کرتی تھی۔ ان پروگراموں کی گونج شہر میں ایک عرصے تک سنائی دیتی تھی۔ ان کے مضامین ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد میں تواتر
سے شائع ہوتے تھے۔ شہری مسائل پر طنزیہ و مزاحیہ
انداز میں لکھے ہوئے مضامین ’جاگ مرے شہر‘ کے عنوان سے ایک مقامی اخبار شامنامہ میں
شائع ہوتے تھے،ان مضامین کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ مضمون کے لیے اخبار کا انتظار
کیا کرتے تھے۔ جسے بعد میں اسی نام سے کتابی
شکل دی گئی۔ اس کتاب کا اولین ایڈیشن اجرا
کے موقع پر ہی ختم ہوگیا تھا۔ جاگ مرے شہر یوں تو مالیگائوں کے مسلم معاشرے کی سماجی
اور معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کے ارادے سے لکھی گئی لیکن اس میں برصغیر کے مسلم معاشرے کی مکمل جھلک دکھائی دیتی ہے۔جاگ
مرے شہر کی قہقہہ بردوش تحریریں زندگی کے بوجھل لمحوں میں تبسم بکھیرتی ہیں۔ 2015 میں
’ظرافت آمیز‘ کے عنوان سے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا دوسرا مجموعہ منصہ شہود پر آیا۔
ان مضامین سے ان کی حس مزاح، مزاح نوازی اور مزاح شناسی کا اندازہ ہوتا ہے،ظرافت آمیز
کا ہر مضمون اپنی مثال آپ ہے۔ صدیقی صاحب
کی طنز و ظرافت آمیز تحریروں کے تعلق سے مجتبی حسین کی رائے ہے:
’’
میں بھی آپ کی تحریروں کا بہت عرصے سے مداح ہوں۔ آپ کے
مضامین شگوفہ میں پڑھتا رہا ہوں۔آپ کی تحریروں میں وہ شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہے جو
مزاحیہ ادب کی جان ہے۔‘‘
)پس و پیش: مجتبیٰ حسین،مشمولہ
ظرافت آمیز، ڈاکٹر الیاس صدیقی، ص10(
’ظرافت
آمیز‘ کا پہلا مضمون ’گالی‘ ہے۔ جس کی ابتدا
اس طرح ہوتی ہے:
ــ’’گالی ہماری زبان کا ایک
خوبصورت لفظ ہے۔ اس کی فصاحت اور سلاست اظہر
من الشمس ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ لفظ اپنے معنی کی سیدھی ترسیل کرتا ہے۔ اس
لیے ترسیل کا کوئی المیہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
)ظرافت
آمیز: ڈاکٹر الیاس صدیقی، ص 17(
طنز و مزاح کے بعد جب ہم صدیقی صاحب کی سنجیدہ تحریروں کا
رخ کرتے ہیں تو ہماری نگاہ سفر نامہ حج ’رب اغفر وارحم‘ پر ٹھہر جاتی ہے، جس میں انھوں
نے سفر حج کی تیاریوں، اثرات، محرکات اور پیغامات کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا
ہے۔ احرام سفر حج کا ایک لازمی جز ہے۔ اس کو ایسے دیکھتے ہیں:
’’سفید
رنگ کے دو بظاہر معمولی کپڑوں کے ٹکڑوں نے احساس عمل میں کیسا انقلاب برپا کردیا ہے۔بالکل
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جہان رنگ و بو اور بیت اللہ کے درمیان احرام کا کپڑا (یا احرام
یا جذبہ) دیوار بن کر حائل ہوچکا ہے۔ (رب اغفر وارحم: ڈاکٹر الیاس صدیقی، 2001 ص 19)
اس مقدس سفر کے دوران انھوں نے اجتماعیت، اتحاد و یک جہتی
کا مظاہرہ مسلمانوں کے اندر دیکھا کہ لسانی، علاقائی، تہذیبی، ثقافتی اور فقہی اختلافات
کے باوجود سب ایک ساتھ ’ایک‘ کی عبادت میں مستغرق ہیں۔اسی ’ایک‘ سے لو لگائے ہوئے ہیں
تو بے ساختہ ان کے دل نے اسی ’ایک‘ سے دعا کی کہ
اپنے محبوب کی امت کو ان کے اپنے وطنوں میں بھی اسی طرح ’ایک‘کردے۔
تخلیق کے ساتھ تنقید و تحقیق کے میدان میں بھی ان کی خدمات
قابل رشک ہیں۔ ’مالیگائوں میں اردو نثر نگاری‘ ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر ساوتری
بائی پھلے پونے یونیورسٹی نے ا نھیں ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ عمر کے آخری پڑائو پر بغیر
کسی مالی منفعت کے صرف اردو زبان و ادب سے لگائو، تنقید و تحقیق سے الفت اور اپنے شہر
کی محبت نے انھیں اس موضوع پر تحقیق کے لیے اکسایا۔ انھوں نے روایتی طور پر کام کرکے
محض ڈگری نہیں لی بلکہ اس کا حق ادا کرنے کی مکمل سعی کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے
۔ اور کیوں نہ ہوتے کہ انھیں ڈاکٹرا شفاق انجم جیسا گائیڈ ملا تھا، جن کا ادبی قد کسی
سے پوشیدہ نہیں ہے۔ڈاکٹر الیاس صدیقی سے پہلے اور بعد میں بھی انھیں ایسا نکتہ رس،
نکتہ سنج بزرگ اسکالر نہیں مل سکا۔ اس کتاب میں انھوں نے شہر مالیگائوں کے تقریبا 166 نثرنگاروںاور ان کی تخلیقات کا تجزیہ پیش کیا
ہے۔یہ کتاب تقریبا ایک صدی کی ادبی تاریخ کی مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔معروف
افسانہ نگار سلطان سبحانی ایک ایسا کارنامہ قرار دیتے ہیں جو ایک تاریخ کی شکل میں
ہمیشہ روشن رہے گا۔ رسائل اور ادبی انجمنوں کا جائزہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ کسی علاقے
کا ادبی جائزہ لینے کے خواہاں ریسرچ اسکالرس کے لیے یہ کتاب بے حد سود مند ہے۔ مالیگائوں
کی سیاسی اور سماجی تاریخ 2005 میں منظر عام
پر آئی۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اس میں شہر عزیز کی سیاسی اور سماجی تاریخ
پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کا مراٹھی میں ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا اور
2018 میں حکومت مہاراشٹر نے اس کے مراٹھی ترجمے کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔جس کے مترجم
محمود شیخ ہیں۔
تنقید و تبصرہ کے میدان میں بھی آپ سالار کارواں تھے۔ افسانوی
ادب ہو یا غیر افسانوی ادب، دونوں پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔ آپ کے ہم عصر بلکہ سینئر،
جونیئر اور نو آموز ادبا و شعرا آپ سے اپنی کتابوں پر پیش لفظ، مقدمہ اور تقریظ وغیرہ
لکھوایا کرتے تھے۔اس نوع کے مضامین کو ترتیب دے کر اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے جس
کا نام ہے، ’ادبی تبصرات و تعارف‘۔ یہ کتاب آپ کی تنقیدی بصیرت اور تبصراتی و تجزیاتی
صلاحیتوں کی شاہد ہے۔ یہ تقریبا48 قلم کاروں اور ان کی تخلیقات کے جائزے پر محیط ہے،
جس میں ان کے پی ایچ ڈی کے گائیڈ ڈاکٹر اشفاق انجم کی کتاب ’پس نوشت‘ کا تنقیدی جائزہ بھی ہے، جو ڈاکٹر الیاس صدیقی کی
ادبی حیثیت کو مزید افتخار عطا کرتا ہے۔معروف ناظم مشاعرہ غلام مصطفی اثر صدیقی، جمیل
احمد جمیل،رمضان فیمس اور ہارون اختر وغیرہ
کی کتابوں میں آپ کے تبصرے اور مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں تین مضامین رونق
افروز، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور مقیم اثر بیاولی سے ہونے والی ادبی بحث پر مبنی
ہیں۔یہ کتاب بھی طلبہ و اساتذہ کے لیے رہنما ہے۔
ماہنامہ اخبار ’گلشن روزگار‘ ان کے فرزند اعجاز صدیقی کی
ادارت میں شائع ہوتا ہے۔یہ اخبار بھی ڈاکٹر الیاس صدیقی کی تخلیقی سوچ اور اپنوں کے تئیں درد مندی اور کچھ کرگزرنے کے جذبے
کی دین ہے۔ اس میں اداریہ نویسی کا فریضہ بھی آپ بحسن خوبی انجام دیا کرتے تھے۔ یکم
نومبر 2021کے اداریے کا عنوان تھا ’زبان سنبھال کے صاحب‘۔ آپ کے لکھے ہوئے اداریے
بھی غور وفکر اور جدو جہد اور حرکت و عمل کی دعوت پر مبنی ہوا کرتے تھے۔
شہر میں ہونے والی ادبی تقاریب میں پابندی سے شریک ہونا،
برمحل اور بے لاگ تبصرے کرنا آپ کا خا صہ تھا۔ تحریر کے ساتھ تقریر کے فن میں بھی
طاق تھے۔ محفل اور مجمعے کی نفسیات کو فورا جان لیتے تھے۔ کسی محفل میں آپ کی شرکت
کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔سیاسی جلسوں میں بھی خطابت کا جادو جگاتے تھے۔ وہ شہر کے ایک ایسے فن
کار تھے جن کو اہل اردو کی طرح اہل مراٹھی بھی اپنا سرپرست تسلیم کرتے تھے۔ شہر مالیگائوں
میں 2021 میں ہونے والے قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان کے کتاب میلے کی اولین میٹنگ کی صدارت آپ نے ہی کی تھی مگر افسوس کہ میلے
کے انعقاد سے قبل ہی مورخہ 2 نومبر 2021 کو آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب
کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے شہر کا ادبی کنبہ اب تک محسوس کرتا ہے۔
آپ کی مطبوعہ کتب کے علاوہ غیر مطبوعہ کلام اور مضامین
بھی کافی تعداد میں ہیں،جو اشاعت کے منتظر ہیں۔ اہالیان مالیگائوں اور ان کے اہل خانہ
کی ذمے داری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو ادبی دنیا کے سامنے پیش کریں
کہ یہی ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا۔
Dr. Mubeen Nazeer
Gulshan A Aaiesha, Momin Pura
Malegaon Dist. Nashik (M.S)
Mobile: 8983152574
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں