2024اردو دنیا، مارچ
محمود ایوبی ارود دنیا میں افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ واقعات کوافسانے میں ڈھالنے کے ہنر آشناایوبی صاحب کا وِژن اور زاویۂ نگاہ بھی معاصرین سے خاصا مختلف ہے۔ ان کے یہاں موضوع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ زیادہ تر کہانیاں عام فہم زبان وبیان اور انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی افسانے کا بنیادی ڈھانچہ سفاک حقیقت نگاری کی ترسیل کی نائو پر سوار ہوتا ہے۔ زبان بہت سادہ، دل آویز جس میں تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ تکنیکی مہارت کے لوازمات سے پرے زبان کہانی کی تخلیق کے ساتھ از خود ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ ایوبی صاحب کو مختلف طبقوں کی زبان، ماحول، طرزِ زندگی اور اس کے تخلیقی اظہار پر قدرت حاصل ہے۔ وہ پیش کردہ مسائل، کرداروں کی نفسیات، حالات کے پیچ وخم، فضا آفرینی اور لاشعورکے وسیلے سے حقیقت کا ادراک یہ ایسی خصوصیات ہیں جو قاری کی توجہ مبذول کرلیتی ہیں۔
ایوبی
صاحب ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں 10فروری 1939کو پیدا ہوئے۔ ایسے درویش صفت انسان
کی خوش اخلاقی وخوش مزاجی کا ہر شناسا قائل ہے۔ جس محفل میں جاتے اپنی بذلہ سنجی، برجستگی
اور شگفتہ جملوں سے اہلِ محفل کا دل جیت لیتے۔ محفل کو لالہ زار بنادیتے۔ فطرت کی بے
نیازی ایسی کہ افسانے کو زندگی کا ترجمان بناتے رہے اور گردِ شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے
نہ دیا۔
معروف
شاعر، ادیب ومبصررفیق جعفر نے لکھا۔۔۔ ’’محمود ایوبی کے افسانوں کے موضوعات عصری مسائل
پر منحصر ہیں۔ ان کے افسانوں میں ابہام اور علامت نام کو نہیں۔ زبان سادہ اور طرزِ
بیان اثر انگیزہے۔ قاری افسانے کی بنائی ہوئی فضا میں کھوسا جاتا ہے اور اختتام پر
چونک اٹھتا ہے۔‘‘
ایوبی
صاحب زمین سے جڑے اس تہذیبی روایت کے پاسدار ہیں جس پر پریم چند اور راجندر سنگھ بیدی
کے نقش پا مرتسم تھے۔ کہانی کی ایسی بنت کاری کہ کردارزندہ و جاوید، زندگی کی حقیقتوںسے
بھرپور اور طرزِ تحریر حقیقت بیانی کا مرقع معلوم ہونے لگی۔ لفظوں اور سوچوں کے دریا
میں ڈوبتا ابھرتاقاری ان کے ست گن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
عام
انسانوں کی مجبوریوں اور مسائل پر ان کا نہ صرف دل دھڑکتابلکہ نگاہیں مظلوموں کو تلاش
کرتیں۔ سیدھی سادی مہذب زندگی کے ساتھ انسان دوستی کے قائل اور امن وامان پسند سماج
پر وہ مائل رہے۔ تا عمر قلم کی مزدوری کی۔ فطری طور پر فکشن رائٹررہے، ساتھ ہی ایک
ایماندار وبیباک صحافی بھی، مگر صحافتی ذمے داریاں اس طرح دامن گیر رہیں کہ افسانوی
ادب کو تنگ دامنی کا شکوہ ہی رہا۔ وہ نہ بسیار نویس رہے نہ نام ونمود کی خاطر افسانے
لکھے۔ جتنا لکھا اس میں انسانی دکھ درد کی ترجمانی اور سماجی مسائل کی بیباک ومعیاری
ماجرا سازی کی۔کسی سنجیدہ تخلیق کار کا فنی حسن بھی یہی ہے کہ کہانی قاری کے ذہن ودل
میں نقش ہوجائے ۔کہانیوں میں کیے تجربات کی نظیر دیگر ہم عصر فنکاروں میں بمشکل ہی
دیکھنے کو ملتی ہے۔
موصوف
نے اپنی روحانی تسکین اور ضمیر کی آواز پر صحافت کا پیشہ اپنایا۔ فکر وشعورکے اس سفر
کو پوری ذمے داریوں سے نبھایا۔ اخبار کے دفتر میںخبروں کی خبر لیتے، املے جملے درست
کرتے، خبروں میں خبر تلاش کرتے، روزانہ سیکڑوں صفحات سیاہ کرتے کہ یہی ذریعۂ معاش
اور غم روزگار رہا۔جس سے برسوں نباہ کیا۔ صحافت کا پیشہ دراصل اپنے اردگرددیگرمصروفیات
میں سرکھپا نے کی نہ مہلت دیتاہے اور نہ افسانوی ادب اور ادبی وفنی کارنامے کو پورے
طور پر منصہ شہود پر آنے کا موقع۔ ایک صحافی کی مصروفیات ہمیشہ ایک افسانہ نویس پر
حاوی رہیں جس نے قلم کی جولانی کو مہمیز کیا اور ادب سے بھرپور لگائو میں بھی رخنہ
اندازبنی۔
اپنی
طویل صحافتی زندگی میں انھوں نے صحافت کے تین باہم شعبوں میںکام کیا۔ ادب، صحافت اور
افسانہ نویسی۔ مختلف اخبارات اور رسائل میںلکھے ان کے اداریے، شذرات اور مضامین پوری
علمی شان رکھتے ہیں۔ اپنی ان نثری تحریروں سے وہ ایک متوازن ومتنوع سوچ مبصر اور مضمون
نگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
محمودایوبی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد کلکتہ چلے آئے۔ایک عرصہ تک روزنامہ
’آزادہند‘ سے منسلک رہے۔ بعد ازاں غلام سرور کی ادارت میں پٹنہ سے نکلنے والے روزنامہ
’سنگم‘ میں بحیثیت نیوز ایڈیٹر بحالی ہوئی۔ ایوبی صاحب کی صحافتی، ذاتی اور شخصی خوبیوں
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انگریزی، ہندی اور اردو
ہفت روزبلٹز کے مدیراعلیٰ آرکے کرنجیا نے انہیں ہفت روزہ بلٹزکے اردو ایڈیشن کا سب ایڈیٹر اور پھر
ڈپٹی ایڈیٹر سے ایگزیکیٹیوایڈیٹر مقرر کردیا۔ اپنے دور کا انتہائی بااعتبار اور معیاری
صحافت کا ترجمان یہ اخبار رہا۔
ایک
زمانہ ایوبی صاحب کی صلاحیتوں کا معترف رہا۔ مزاج اور منہاج کے زاویے سے حقیقت پسند
صحافی وافسانہ نگار۔ ادبی زندگی کا آغاز رسالوں کی ادارت سے ہوا۔ ادب میں کلاسیکی
روایتوں کے پرستار رہے۔ سفر حیات کا مطالعہ وتجزیہ کرنے والے اس بات سے واقف ہوں گے
کہ موصوف بنیادی طور پر ایک سچے، مخلص انسان اور تجربہ کار صحافی اور زندگی کی حقیقتوں
کو افسانے میںاجالتے تخلیق کار رہے۔ زندگی اسی دشت کی سیاحی میں گزاری۔ اپنی کہانیوں
میں نہ تکنیکی تجربے کیے، نہ تخیل کی اونچی اڑانیں بھریں، نہ علامت نگاری کی اور نہ
استعارہ سازی سے اپنی تحریرکو بوجھل کیا بلکہ عام لوگوں کے حالات وواقعات پر عقابی
نظر رکھا۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’دوسری مخلوق‘ 1990 اور ’پری کتھا‘2009 میں شائع ہوا۔
’پری کتھا‘ افسانوی مجموعے میں گیارہ کہانیاں شامل ہیں۔ ’دوسری مخلوق ‘میں شائع افسانہ
’جنازہ‘ کا آسامی ،ہندی،مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ چھپا، ساتھ ہی ایک اور
افسانہ ’بن باس‘ پر ٹیلی فلم بنی۔ جوگندرپال نے لکھا۔۔۔ ’’آپ کی سبھی کہانیاں میںنے
بڑی دلچسپی اور انہماک سے پڑھی ہیںاور آپ کے اعجاز کار سادگی، دردمندی اور بے چینی
سے ازحد متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی کہانی’جنازہ‘ تو دل ودماغ میں اتنی رچ بس گئی مانو اسے
فضلوہی کے مانند جی لیا ہو۔‘‘
محمود
ایوبی صاحب کے بلٹز سے ایکزیکٹیوایڈیٹر کی حیثیت سے ریٹائرہونے کے بعد افسانوی مجموعہ
’دوسری مخلوق‘ شائع ہوا تو ادب کے قارئین ان کے افسانہ نگار ہونے پر حیرت زدہ رہ گئے
کہ ایسے متحرک زندہ دل صحافی مگر اتنے لاپرواہ وہ بھی اپنی کہانیوں کے تعلق سے۔ بلٹز
سے پچیس سالہ وابستگی کے دوران ان کے اندر کا صحافی، افسانہ نگار پر اتنا حاوی رہا
کہ ان پچیس سالوں میں ان کے صرف تین افسانے بلٹز میں شائع ہوئے۔ کسی نے جانا تو کسی
کو پتہ بھی نہ چلا۔ دل کے نہاں خانے میں سویا افسانہ نگار جب جاگتا تو وہ افسانے کی
بساط سجا لیتے ورنہ کیا صحافت کے باڑے میں پھنسا انسان اتنی آسانی سے گلو خلاصی پاسکتا
ہے۔
ایوبی
صاحب جیسے دیدہ بیں فنکار نے اپنے افسانوی مجموعے کو ترتیب دیا تو بڑی غور وفکر کے
بعد دس افسانوں پر مشتمل مجموعے کو مکمل کردیا جو تخلیقی وتجزیاتی اعتبار سے انتہائی
کامیاب سماجی وتمدنی زندگی کے عکاس وترجمان ہیں۔ ان دس افسانوں نے ان کی افسانوی زندگی
پر ایسا کامیاب اور مثبت اثر ڈالا کہ آج تک انہیں یاد کیا جاتا ہے۔
1970کے بعد بیسویں
صدی کی آخری دہائیوں میں اردو افسانہ نویسی کے افق پر چند افسانہ نگار نے نہ صرف ادب
کے شائقین کی توجہ مبذول کی بلکہ ادب عالیہ میںاپنی منفرد شناخت بھی بنائی۔ اس سلسلے
میں محمود ایوبی صاحب کا نام بڑا معتبر ٹھہرا۔ ان کے فکر وفن کی عظمت کا راز بے ریا
وبیباک حقیقت نگاری، فنی نکتوںپر مضبوط گرفت، پلاٹ کی منظم بنّت اورکردار نگاری بلاشبہ
دل آویز ہے۔ ایوبی صاحب کا افسانہ خواہ وہ کسی بھی موضوع اور خیال کا احاطہ کرتا ہومگر
زیریں لہریں سماجی حقیقتوں کو منعکس کرتی ہیں۔ ساتھ ہی افسانے کا مزاج اور خاصہ اس
حقیقت کو آشکار کرتا ہے جسے آنکھوں دیکھا حال یا جھیلا ہوا سچ کہتے ہیں۔ خود گرداب
میں پھنسے تو قاری کو بھی بھنور کا مزہ چکھا دیتے۔ بہرحال یہ سب زندگی کے مشاہدے اور
تجربات کا حصہ رہے،جو زندگی سے بھرپور اور عصری حسیت سے لبریز ہے۔
محمودایوبی
کے افسانوں کاخاص وصف ان کی زبان اور برجستہ مکالمے ہیں۔ انھوںنے اپنی کہانیوں میں
سماجی وعصری مسائل پر بھرپورتوجہ دی جس میں احتجاج کی ایک زیریں لہر ابھرتی ہے اور
افسانہ حقیقت سے ہم کنار ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ’چیخ ، بن باس
، سیوک، آتنک‘فرسودہ روایات اور سیاسی جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے والے افسانے ہیں
تو وہیں ’ندیا بہے دھیرے دھیرے ‘ تنہائی کے کرب اور بڑھتی عمر میں رفیقِ حیات کی ضرورت
اور اہمیت پر کسک بھرا کامیاب افسانہ ہے۔ افسانے میں پُراثر مکالمے اور مزاح کی چاشنی
نے موصوف کے فن کو بلندی عطا کی ہے۔
ایسالگتاکہ
کہانیاںلکھتے وقت ان کے اندر کاصحافی بیدار ہوجاتاتوافسانوی متن میںاخبار نویسی کی
لفظیات اور طرزِ تحریر میں صحافتی زبان کی جھلک در آتی جسے بآسانی محسوس کیا جاسکتا
ہے۔ افسانہ ’سیوک‘ کا مطالعہ افسانہ نگار کی صحافتی طرزِ تحریر کی بہترین مثا ل ہے۔
’’ …گائوں اب
وہ گائوں نہیں رہاتھا۔ وہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔پچھڑی ذات کے لوگ جو اب دلت کہلانے
لگے تھے، کاشتکاروں کے بندۂ بے دام ہوا کرتے
تھے۔ اب مقابلے پر اتر آئے تھے اور سرکار کے مقرر کردہ نرخ پر اجرت کا مطالبہ کرنے
لگے تھے۔ انھیں اگر وہ مزدوری ملتی تو کام کرتے ورنہ کام کی تلاش میں یہ لوگ شہر بھاگنے
لگے تھے۔ جو بھاگتے نہیں وہ اپنے حق اور عزت کی لڑائی لڑنے لگے تھے، ہتھیار بند لڑائی
۔سخت سے سخت سزا جھیل لینے والے اب خون خرابے پر اتر آئے تھے...‘‘
افسانے
کی ہیروئن سونندا اپنے شوہر کوبتاتی ہے کہ اس کے گائوں سے آنے والا ولاس کس سماجی
طبقے سے تعلق رکھتا ہے…جو راست صحافتی اطلاع کی طرح شروع ہوتا ہے۔
’’…مظلوم اور
دلت عوام کے حقوق کی بات آئین میں بھی کہی گئی ہے بلکہ انھیں انصاف دلانے کے لیے آئین
میں ترمیم بھی کی گئی ہے۔تحریکیں بھی چلائی جارہی تھیںاور کمیشن بھی بٹھائے گئے تھے۔
جن کا الیکشن کے زمانے میں زیادہ زور وشور سے ذکر ہوتا تھااور وقت گزر جانے پر پھر
سناٹاچھا جاتا تھا…‘‘
محمودایوبی
نے شہری انتظامیہ، میونسپل آفیسرزاور کرمچاریوں پر بھی اپنی کہانیوںمیں طنز برائے
اصلاح کیا ہے،وہ بھی بالکل صحافتی اندازمیں۔
’’…ان کی اچھائیوں
کے بارے میں ،اگر کوئی اچھائی تھی تو، کچھ بتانے میں اخبار والوں کو بخار چڑھتا تھا…‘‘
بنیادی
طور پر وہ ایسے کہانی کار جو شکست اقدار، کرپشن اور انتظامیہ کی سر دمہری سے بے نیاز
نہیں رہے۔ زندگی اور فن دونوں میں خلوص وسادگی کے قائل رہے۔ حقیقت نگاری پر مشتمل کہانی
کے خالق فن کو تاثیرکی شدت سے محروم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ انھوںنے فرقہ وارانہ فسادات،
میڈیا کا رول، نئے شہر کے لیے مسائل اور اقتصادی بدحالی سے نبرد آزما ایک عام انسان،
مزدوروں کے مسائل جسے ایک اصول پسند ،حساس اور ایماندار صحافی کی عینک سے دیکھا کیے۔
مشہور افسانہ نگار سلام بن رزاق نے لکھا۔۔۔ ’’محمود ایوبی نے پورے کمٹ مِنٹ کے ساتھ
لکھا۔ان کے افسانے سماجی سروکارکے افسانے ہیں۔ لہٰذا ان کے تقریباً سبھی افسانوں میں
احتجاج کا رنگ حاوی نظر آتا ہے۔‘‘
محمود
ایوبی صاحب کی کہانیوں کے پس منظر کے تعلق سے قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ بیشتر کردار
ہجرت نصیب ہیں۔ وہ جنھوں نے دور دراز علاقوں سے حصولِ روزگار کی خاطر دوسرے شہروں میں
سکونت اختیار کی لیکن نئے کلچر، نئے طور طریق کا سامنا،اس پر شہر کے چھوٹے چھوٹے گھٹن
بھرے ماحول میں کسک بھری زندگی جن کا مقدر بن جاتی ہے وہ ماضی اور حال سے سمجھوتہ نہیں
کرپاتے۔ یہ ایسی ہجرت جو نہ کلی طور پر انھیں گائوں سے الگ ہونے دیتی، نہ اپنی مٹی
کی سوندھی خوشبو وہ بھول پاتے ہیں اور نہ شہر کی آب وہوا انھیں راس آتی ہے۔لہٰذا
نفسیاتی کشمکش اور تہذیبی تصادم کے درمیان پستے انسان کی یہ ایسی کہانیاں جن میں افسانہ
نگار نے اپنی ذات کو ان کے درمیان فردواحد کی طرح تنہا پایا اور ان کا ذاتی دکھ درد
انہی کمزور طبقے کی زبانی چھلک پڑا۔ اپنی ذہانت ،بالیدہ گہری فکر ، وسیع النظری، انسانیت
سے سرفراز زندگی کے وہ قائل رہے۔ دیانتدار ی، غیر جانبداری کے ساتھ بیانیے کی سادگی
اور سلاست نے کہانیوں کو ایک امتیازبخشا۔ادب کی دنیا میں خود کو کسی تحریک یا ازم سے
وابستہ نہیں کیا۔ سماج کے استحصال زدہ طبقے کے فرد کو نوکِ قلم سے حیات دی تو کردار
جاوداں ہوگئے۔ کہانیوں کے ذریعے اپنے عہد اور سماجی رویے پر سوال کھڑے کیے۔ موجودہ
دور میں وہ سوال مزید پیچیدہ ہوگئے اور جواب آج بھی ندارد ہیں۔۔۔۔؟
مجموعے
میں شامل افسانہ جنازہ، اکھوا، آتنک، گھٹن،
ڈگر، دوسری مخلوق ، سیوک، انجام کار، جوکھم ، بن باس ان کے علاوہ مجموعے کا پیش لفظ ’ہم پہ جو گزری
‘ یہ بھی کسی افسانے سے کم نہیں۔ وہ قاری کو اپنا ہمسفر ہی نہیں ہم خیال بنانے کا ہنر
جانتے ہیں۔ مشاہدات وتخیلات کی کرشمہ سازیاںایسی کہ ہر کردار اپنی انفرادی شناخت کے
ساتھ قاری کے ذہن ودل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ نئے نئے کردار خلق کرنااور انہیں
یاد گار بنانے میں انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ ’اکھوا‘ کا نصرو، ’آتنک‘ کا سعید بھائی،
’جنازہ‘ کا فضلو، ’سودا‘ کی لتا، ’وہ عورت‘ کی نور جہاں۔۔۔ طلاق شدہ عورت کے مسائل
اورحلالے کے موضوع پر بھی انھوں نے کامیاب افسانے لکھے۔لیکن کہانی ’جنازہ‘ کا پلاٹ
انتہائی جامع اور گٹھا ہوا ہے۔اس کے زندہ کردار فضلو اور مردہ کردار جملو کو پڑھ کر
پریم چند کاافسانہ ’کفن‘ کی بدھیا یاد آتی ہے۔
Shama
Akhtar Kazmi
Wing
C, Flat No: 904, Archana Hill Town
N.l.B.M
Road, Kausar Baugh, Kondhwa
Pune-
411048 (Maharashtra)
Mob.:
9284690949
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں