اردو دنیا، مارچ 2024
کلاسیکی دور سے عصر حاضر تک غزل نے ایک طویل سفر طے کیا۔ معتوب
بھی ہوئی اور معشوق بھی رہی۔ تحریکات و رحجانات سے انفرادی آوازوں تک اس کی محبوبیت
پر کوئی سوالیہ نشان ( چندآوازوں کے استثنا کے ساتھ) نہیں لگا۔ وہ جنھوں نے غزل کے
روایتی مزاج پر پے درپے وار کیے،وہ بھی اس
کی کشش سے مسحور ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ سخت ترین تنقید کے باوجود حالی کی غزل میں اس روایتی رنگ کی کھنک سنائی دیتی ہے ؎
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو
نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
نیم وحشی صنف سخن اور جاگیر دارانہ تہذیب کی ترجمان ہو نے
کا الزام لگنے کے باوجود اس صنف نے مجروح جیسا
’سجیلا غزل گو‘ اور فیض جیسا کلاسیکی رچاؤ والا شاعر اردو کو دیا۔ غزل کی روایت نے سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو موضوعاتی
اور اسلوبیاتی دونوں سطحوں پر قبول کیا۔
ان تبدیلیوں کا اثر مظہر امام
کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کی غزلوں کی کلیات ’ پالکی کہکشاں کی‘ چار حصوں پر
مشتمل ہے۔ ادوار کی اس تقسیم سے ان کے شعری سفر کے ارتقا کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔روایت کی جس پاس داری
کا ذکر کْچھ دیر پہلے کیا گیا، 1943 سے
1961 کے درمیان کا عرصہ روایت سے اسی وابستگی
کی مثال ہے۔ یہ اس ابتدائی دور کی غزل ہے جو ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ ہے۔
اس تحریک نے شاعری کو نئے موضوعات تو دیے مگر
اس وقت تک ان موضوعات کے اظہار کے لیے نئی
لفظیات تلاش نہیں کر سکی لہٰذا کلاسیکی شعری اسلوب ولفظیات ہی نئے معنی کے ساتھ ان
موضوعات کے اظہار کا وسیلہ بنیں۔لہٰذا ترقی پسند شعرا کے یہاں شمع، چراغاں، قفس، جنوں، خوش نوا وغیرہ لفظیات،
استعاروں کی اسی تحدید کا نتیجہ تھی
؎
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر
ساری لویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہرو ماہ سلامت جشن چراغاں
تم سے زیادہ
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے
پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو چار
گریباں تم سے زیادہ
( مجروح)
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ
تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار
چلے
جنھیں خبر تھی کہ شرط نوا
گری کیا ہے
وہ خوش نوا گلۂ قید و بند
کیا کرتے
(فیض)
البتہ معنی کی جدت نے اس کو
محض تقلید کے الزام سے بچا کر روایت کی توسیع بنا دیا۔
ہر ادیب و شاعر خواہ اس کی نظریاتی
وابستگی تحریک سے ہو یا نہ ہو، اس سے متاثر ضرور رہا۔ مظہر امام صرف شاعر ہی
نہیں ہیں بلکہ ایک باخبر فرد اور ادبی حلقوں
کی فعال شخصیت تھے۔ تحریک سے نظریاتی طور پر متفق بھی تھے اور متاثر بھی مگر اس کے باوجود ان کے ابتدائی دور کی غزل نے صرف اسلوب
اور لفظیات ہی نہیں بلکہ موضوعات کے اعتبار سے بھی اپنا رشتہ شعر کی اسی دنیا سے استوار رکھا جس میں روایتی عشق
کو مرکزیت حاصل تھی۔ غزل کا مخصوص مترنم اور
رواں لہجہ اس دور کی غزل کا امتیاز ہے
؎
ترا جمال نظر آفریں رہے اے
دوست
مری نگاہ کا کیا ہے رہی رہی
نہ رہی
پھر آپ نے دیکھا ہے محبت
کی نظر سے
گزرے نہ کہیں گردش دوراں بھی
ادھر سے
جب آپ خود ہی اپنی ادائیں
نہ گن سکے
میں اپنے داغ دل کا کروں کس
طرح شمار
کبھی انداز تغافل میں بھی
لطف آیا ہے
کبھی طرز محبت بھی گراں گزری
ہے
دل نازک تک آنچ آئی ہے
شعلۂ غم تری دہائی ہے
جب ہجر کی راتیں آتی تھیں
خوابوں کے کنول جل اٹھتے تھے
شبنم کی سی نرمی ہو جس میں
اس آگ کو ٹھنڈا کیوں کرتے
زخموں میں تازہ ہیں اب تک
اس دست حنائی کی یادیں
جو ٹیس بھی ہے وہ رنگیں ہے
اس رنگ کو پھیکا کیا کرتے
مگر پرانے رستوں پر چلتے ہوئے
آنے والی تبدیلی کی ایک ہلکی آہٹ بھی کہیں کہیں سنائی دے جاتی ہے۔ حسن کو عشق کے
کوچے میں دیکھ کر اس خیال کا آنا کہ کسی نئی روایت کی داغ بیل پڑ رہی ہے خود ان کی
شاعری کے بدلتے ہوئے رنگ کی تمہید بھی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی اچانک وارد
ہونے کے بجائے آہستگی سے آئی ہے۔ یہ دور
1961 سے 1975 کے درمیان کا ہے۔ جب ایک عہد ساز تحریک اپنا کام اور اپنا وقت پورا کر
کے تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اس کی جگہ ایک نیا رحجان پنپنا شروع ہو گیا تھا۔ یہ رحجان جس نے اپنے سے پہلے ہر رحجان کو مسترد کیا اور ایک بالکل نئی زمین ،نئی فضا ، نیا ما حول، نئے موضوع اور
نئی لفظیات کے ساتھ ادبی دنیا پر چھا گیا۔گو کہ اس نسل کے شعرا کی جڑیں بھی اسی پرانی
زمین میں پیوست تھیں مگر اس کے برگ و بار نئے تھے۔ یہاں ایک سوال یہ قائم کیا جا سکتا ہے
کہ جڑیں اسی پرانی زمین میں پیوست ہیں تو ہم نیا پن کسے کہیں گے۔ ظاہر ہے کہ غزل کی بنیادی
ضرورت اس کا وہ سانچا ہے جس کے بنا اس صنف کی علاحدہ شناخت کی جانی ممکن
نہیں ہے۔ تو پھر یہ تبدیلی خیال اور لفظ کی سطح پر ہی ممکن ہے۔محمود ایاز کے مطابق:
" شاعری میں ہر نیا عہد، ہر نئی تحریک اپنے ذخیرۂ الفاظ، اپنی
علامات اور اپنے استعاروں سے پہچانی جاتی ہے۔ ہر اسلوب اور ہر طرز بیان علامات اور
استعارات کا ہر نظام مخصوص ذہنی ضروریات اور فکری پس منظر کے ساتھ وجود میں آتا ہے ( محمود ایاز، جدید نظم نمبر، سوغات)
خیال کے ساتھ لفظ کے معنی
کی یہ تبدیلی ترقی پسند تحریک کے ساتھ بلکہ اس
سے قبل رونما ہو چکی تھی۔ مگر غزل کی
زبان کے نئے سانچوں کی تشکیل اس نئے رحجان کی
مرہون منت ہے ، جسے ہم جدیدیت کے رحجان کے عنوان سے جانتے ہیں۔ اس رحجان نے اظہار کے نئے سانچے ہی فراہم نہیں کیے
بلکہ غزلیہ شاعری کی پوری دنیا ہی بدل ڈالی ؎
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
(ناصر کاظمی)
میں راکھ ہو گیا دیوار سنگ
کو تکتے ہوئے
سنا سوال، نہ اس نے کوئی جواب
دیا
جارہے تھے سر جھکائے سب کہیں میں بھی
ان میں تھا عجب اسرار تھا
( زیب غوری)
ہوئی رات میں اپنے اندر گرا
مری آنکھ سے پھر سمندر گرا
اکیلا تھا کسے آواز دیتا
اترتی رات سے تنہا لڑا میں
میں نوحہ گر بھٹکتے ہوئے قبیلوں
کا
اجڑے شہر کی گرتی ہوئی فصیلوں
کا
( محمد علوی)
یہ تبدیلی اتنی تیز اور اتنی
حیران کن تھی کہ بہتوں کے قدم ڈگمگا گئے۔لیکن مظہر اما م نے توازن کو ہاتھ سے نہ جانے
دیا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ؎
ساتھ بہتے ہوئے دھارے کے نہیں
بہہ سکتے
میر کے رنگ میں ہم شعر نہیں
کہہ سکتے
انھوں نے آہستہ خرامی کے اس نئے رنگ کے کچھ شیڈس کو استعمال کیا، اسی لیے ان کی اس دور کی غزلیہ شاعری ایک ملا جلا رنگ لیے ہوئے ہے اور وہ بیزاری، اکیلا
پن، زرد اداسی، خلا اور ایک آسیبی فضا جس کے لیے جدیدیت کا نام بھی ہوا اور بدنامی بھی، مظہر امام کے یہاں
اس شدت سے نظر نہیں آتی۔ البتہ لہجے میں تبدیلی اتنی واضح ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا
جا سکتا ؎
ابھی سے ٹوٹتے لمحوں کی گرد
اڑنے لگی
یہ راستہ تو بہت دور جانے
والا تھا
یہ تو سچ ہے کہ اسے پیار نہیں
تھا یارو
میں بھی کچھ ایسا وفا دار نہیں
تھا یارو
دشت میں تھے تو یہ زنجیر ملاقات
نہ تھی
ہم ترے شہر میں پہنچے تو گرفتار
ہوئے
جو َ اَب مڑے تو نگاہیں بھی
نور کھو دیں گی
کہ اپنی پشت پہ گرد پس سفر
بھی ہے
میں دیوار تمنا سے اترتی ہوئی
دھوپ
اپنی تنہائی کے آنگن میں
بٹھا لو مجھ کو
اپنی ہی چیخ چار طرف سے ابھر
گئی
آواز دوستو کو لگائی جو کو
بہ کو
چیخوں کے اژدہام میں تنہا
ہے آدمی
اے زندگی بتا کدھر جا رہی
ہے تو
یہ رنگ جدیدیت کی
لہر سے متاثر ہے مگر اس کے ساتھ ہی رنگ قدیم بھی چپکے چپکے ساتھ چل رہا ہے۔ بلبل وگل و خار سے دامن چھڑانا یوں بھی آسان نہیں
ہے اسی لیے اس دور میں نئے اور پرانے کی آمیزش
سے کہیں کوئی نیا رنگ بنایا گیاہے اور کہیں طرز کہنہ کو براہ راست اختیار کیا گیا ہے۔ خا ص طور پر
پنبہ در گوش، تندیِ صہبا، برگ نسترن
اور خاک چمن جیسی تراکیب اور الفاظ
کے استعمال میں یہ روایتی انداز صاف
نظر آتا ہے ؎
کچھ اور سلسلہ ہے ہمارا گلوں
کے ساتھ
مثل نسیم، خاک چمن چھانتے
نہیں
پنبہ در گوش ہیں سب حال سناتے
ہو عبث
بوجھ الفاظ کا ہونٹوں پہ اْٹھاتے
ہو عبث
وہاں تھی تندیِ صہبا یہاں
شکستہ وجود
یہ سنگ صبح ہے وہ شب کا آبگینہ تھا
دھلی ہوئی ہے فضا برگ نسترن کی
طرح
لباس درد بھی بے داغ ہے کفن
کی طرح
موضوعات کے معاملے میں بھی وہ سنبھل سنبھل کے قدم اٹھاتے ہیں۔ عقیدوں کی شکست و ریخت پر ماتم
کناں ہونے کے بجائے اکثر اس کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ نئی نسل کی تشکیک اور ہر شے کو پرکھنے پر اصرار انھیں شاید پسند ہے اس لیے اس نوع کے اشعار میں
کہیں کوئی شکوہ یا تنقید نہیں بس ایک بیان ہے۔کبھی کبھی ناسٹلجیا کی کیفیت سے گزرنے کے باوجود خوش خیالی
اور خوش خوابی کو عزیز رکھتے ہیں کہ یہ خواب ہی ان کی پناہ گاہ بھی ہیں ؎
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں
چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ
ہوں
اب لوگ صرف آنکھ سے پہچانتے
نہیں
چھو کر جسے نہ دیکھیں اسے
مانتے نہیں
نئے مکاں میں عقیدے کی کوئی
جا ہی نہیں
خدا تو ہے پہ کہیں بندۂ خدا
ہی نہیں
دیار خواب ہے آؤ یہیں قیام
کریں
یہاں سے یوں بھی نکلنے کا
رستہ ہی نہیں
دن کا سورج آگ اگل کر آخر
خود بھی راکھ ہوا
سوکھی پیاسی رات پہ اپنے سپنوں
کی برسات کروں
وقت کے ساتھ داخلی اور خارجی دونوں
سطحوں پر ارتقا کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ دوسرے دور میں دو رنگوں کی یہ جھلملاہٹ ان کے
تیسرے اور چوتھے دور کی شاعری میں کچھ اور کھل کر سامنے آئی ہے۔ انھوں نے اپنے وقت کے ماحول کا اثر قبول تو کیا
مگر اپنے کلام پر کسی خارجی دباؤ کو اس حد
تک حاوی نہیں ہونے دیا کہ اس کے بوجھ تلے ان کی انفرادیت دبنے لگے۔ ان کی سچائی کسی
دوسری سچائی سے متصادم نہیں ہے۔ کبھی غزل کا تمام حسن زبان کی صنعت گری میں تھا، آج موضوع کو زبان پر اور
اسلوب کو لفظ پرفوقیت حاصل ہے۔ تخلیق کار کے وجدان اور قاری کے درمیان اکثرایک خلیج حائل رہتی ہے۔ بعض اوقات قاری اس خلیج
کو عبور کرکے فن پارے کی روح کو پا لیتا ہے
مگر اکثر وہ اپنے معنی کے کنارے سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔یہ خیال کہ ایک بار اپنے قاری تک پہنچنے کے بعد فن پارے پر فنکار کا حق نہیں رہ جاتا ہے ۔ وہ اس
سے جو معنی چاہے اخذ کرے ، اس حد تک تو درست ہو سکتا ہے کہ پڑھنے یا سننے والا اپنے
خیال یا کیفیت کے مطابق اس کی تعبیر کر لے مگر فن پارہ کس تخلیقی وفور کے زیر اثر وجود
میں آیا وہ صرف تخلیق کار جانتا ہے۔ یوں معنی
کی مکمل تفہیم و تیریا کا دعویٰ بہت سچا نہیں ہو سکتا۔ یہ پیچیدگی خاص طور پر
فن کے گنجان اورعلامتی اظہار میں پیش آتی ہے۔ غزل کی شاعری میں تعبیر و تفہیم کے ا لجھاؤ اکثراظہار
کی ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔مظہر
اما م کی شاعری میں الفاظ کی شعبدہ گری نہیں
ہے اسی لیے اظہار کی لا چاری
بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی
ہے ان کی غزل کے نکھار میں جو رنگ غالب ہے وہ ارضی اور انسانی عشق کا سنجیدہ اور باوقاررنگ ہے۔یوں تو یہ
رنگ ان کے یہاں ابتدائی دور سے ہی نمایاں ہے، مگر اس دور کی غزل میں اس عشق کی تازہ
کاریاں جا بہ جا اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔
نئے زمانے کے نئے عشق کی واردات میں بدن بھی ہے اور روح بھی، بے خودی بھی ہے، خواب بھی اور ان خوابوں کی گمشدگی کا افسوس بھی۔ مگر
یہ افسوس ، افسوس کی حد سے گزر کر نوحہ نہیں بنتا۔ عشق کے بنتے بگڑتے دائروں کے درمیان
جذبوں کے لرزتے عکس سے مزین ان اشعار میں دل اور دنیا دونوں شامل ہیں ؎
سپردگی کا نشہ بھی عجیب نشّہ
تھا
وہ سر پاؤں تلک التماس لگتا
تھا
تم کو پتا ہوگا کہ ہمراہ تمھیں
تھے
دنیا مرے خوابوں کو کدھر لے
کے گئی ہے
یوں نہ مرجھا کہ مجھے خود
پہ بھروسہ نہ رہے
پچھلے موسم ترے ساتھ کھلا
ہوں میں بھی
جسم کی آگ پہ پھول کھلتے
ہوئے
ایک گھر تیز بارش میں جلتا
ہوا
تھا دیکھنے میں سادہ رو مگر
بڑا ذہین تھا
مجھے گناہگار کر کے وہ ثواب
لے گیا۔
یہ تجربہ بھی کروں یہ غم بھی
اْٹھاؤں میں
کہ خود یاد رکھوں اس کو بھول جاؤں
میں
جانے کس سمت چلوں کون سے رخ
مڑ جاؤں
مجھ سے مت مل کہ زمانے کی
ہوا ہوں میں بھی
گو کہ چوتھا ا ور آخری حصہ
جس میں 1989 سے 2000 تک کی غزلیں شامل ہیں ان میں رجائیت کا یہ رنگ اڑتا ہوا سا محسوس
ہوتا ہے ؎
اور کیا ہے بس اک کاسۂ انا
کے سوا
وہ دن کہ رقص گِل کوزہ گر
سے رغبت تھی
گرتی ہوئی دیوار کو سب دیکھ
رہے تھے
اس شہر میں کچھ اور تماشا بھی نہیں
تھا
وہ اپنے نقش قدم پہ فریفتہ
تھا بہت
نئے خیال نئی آواز پا سے
ڈرتا تھا
کیسا خیال کس کا تصور، کہاں
کی یاد
کن بے خیالیوں میں گزرنے لگی
ہے شام
ان کی شاعری میں بہت سے رنگوں
کی آمیزش اسے یک رنگی ہونے کے الزام سے بچا لیتی ہے۔ اس غزل کا ایک اختصاص اس کا رجائی پہلو بھی ہے۔
مظہر امام کا شمار شعرا کی اس نسل میں ہوتا ہے
جن کے سامنے ادبی افق پر کئی رنگ ابھر کر ڈوب گئے اور جنھوں نے ان سب رنگوں
سے استفادہ کیا مگر کسی ایک رنگ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
یہی قوس قزح ان کی انفرادیت بھی ہے۔
غزل پر بات کرنے کے لیے اسے
دو سطحوں پر دیکھنا ہوتا ہے۔ ایک ہیئت اور دوسرا اسلوب و الفاظ۔ غزل کی ہیئت میں تبدیلی
کی گنجائش تقریباً نہیں کے برابر ہے کہ یہ
ہیئت ہی ہے جس کے سبب اس کی دوسری
اصناف شاعری سے علاحدہ شناخت قائم ہوتی ہے۔گو کہ ماضی قریب میں اس کی ہیئت پر تجربے
کرنے کی کوشش کی گئی آزاد غزل کا تجربہ تو خود مظہر امام صاحب نے کیا بلکہ انھیں آزاد
غزل کا موجد بھی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ کچھ ناقدین نے اس دعوے پر سوالیہ نشان بھی
لگاتے۔ بہرحال اس وقت اولیت کا معاملہ زیر
بحث نہیں ہے۔مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس تجربے کو خود مظہر امام صاحب بہت دور تک ساتھ لے کر نہیں چل سکے۔ان کی کلیات
’پالکی کہکشاں کی‘ میں آزاد غزلوں کی مجموعی تعداد دس ہے جو 1945 سے 1993 تک کہی گئیں۔
غزل کی ہیئت کے تجربوں کی ناکامی کا یہ مدلل ثبوت ہے کہ خود موجد بھی اپنے کلام میں اسے
اپنے مخصوص اسٹائل کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ جیسا کہ ابھی کہا گیا کہ نظم
کے بر خلاف غزل کے خاکے میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن بھی نہیں اسی لیے زیادہ سے زیادہ
ارکان کی کمی بیشی سے کوئی نئی صورت تشکیل دی جا سکتی ہے ۔ مظہر امام نے خود بھی اس فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"آزاد غزل اور پابند غزل کی ہیئت میں بنیادی فرق ایک ہی ہے یعنی مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی ورنہ
تمام لوازمات قدرے مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔یعنی بحر،ردیف ،قافیہ، اشعار کی تعداد
وغیرہ‘‘ اس ضمن انھوں نے ایک اور دل چسپ بات
لکھی ہے’’مسلسل غزل کی طرح مسلسل آزاد غزل بھی ہو سکتی ہے۔اگر مسلسل غزل کو نظم کا
نام دیا جا سکتا ہے تو مسلسل آزاد غزل کو بھی آزاد نظم کہنے میں کوئی قباحت نہیں
ہے۔" ( آتی جاتی لہریں ، ص68-69)
اب ذہن میں سوال اْٹھنا لازمی
ہے پھر آپ آزاد غزل اور آزاد نظم میں فرق کیسے اور کیوں کریں۔اور پھر یہ ایک نیا
تجربہ کیوں کر کہا جائے۔
شمس الرحمن فاروقی نے لکھا
ہے کہ :
"کسی بھی روایت میں توسیع یا تبدیلی یا اضافہ اسی وقت ممکن ہے
جب خود شاعر اس روایت پر پوری طرح حاوی ہو پھر دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں توسیع
یا تبدیلی سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی اینڈا بینڈا شعر کہہ دیا جائے اور یہ دعویٰ کیا
جائے کہ صاحب ہم نے تو روایت میں تبدیلی یا توسیع و اضافہ کیا ہے۔تبدیلی ہو یا توسیع
و اضافہ اس کی شرط یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی نہج پر روایت کے ساتھ ہم آہنگ ہو اس میں
کھپ سکے یعنی جو تبدیلی ہو وہ روایت سے متغائر و متحارب نہ ہو اس سلسلے میں تبدیلی
سے زیادہ تبدیلی کو برتنے کا طریقہ یعنی شاعرکا اسلوب اہم ہے۔"
قطع نظر اس کے کہ آزاد
غزل واقعی کوئی کامیاب تجربہ تھا یا نہیں یہ بات تو طے ہے کہ مظہر اما م نے ارکان اس
کمی بیشی کے باوجود غزل کے مخصوص مزاج کو تجربے کی نذر نہیں کیا ؎
اس قدر مسحور تھے اس کے حسن
بیان سے
اس کے لفظوں کی طرف ہم نے دیکھا
ہی نہیں
شاخ در شاخ گلابوں کی دھنک
پھوٹی ہے
اک پرندہ تھا یہیں رہتا تھا
خاک اڑتی ہوئی دیکھی تو دلوں
کی یاد آئی
کیا یہاں کوئی حسیں رہتا تھا
یوں بھی جی لیتے ہیں جینے
والے
کوئی تصویر سہی آپ کا پیکر
نہ سہی
آزاد غزل کی یہ مثالیں کم
ازکم لفظیات کی سطح پر روایت سے ان کی وابستگی
کی نشان دہی تو ضرور کرتی ہیں۔ ان اشعار میں روایت کی توسیع ہو یا نہ ہو مگر
اس کی پاس داری ضرور ہے۔
آزاد غزل کے ذاتی تجربے یا بازیافت کے ساتھ وقتاً فوقتاً کیے جانے والے شعری
تجربوں کو بھی انھوں نے کم ازکم چھونے کی حد تک ضرور برتا۔ اینٹی غزل نے ایک دور میں مقبولیت تو خیر حاصل نہیں کی مگر شعری اور تنقیدی حلقوں میں موضوع
گفتگو ضرور رہی۔ اب خدا جانے اس میں کوئی کشش تھی یا محض ذائقہ بدلنے کی خاطر مگر مظہر
امام نے یہ تجربہ کیا گو کہ اس کی مثال میں ان کی کلیات سے ایک آدھ مثال ہی پیش کی
جاسکتی ہے۔ ذہنی طور پر متحرک تخلیق کار ہر نئے
رنگ کو ایک بار تجربے کی کسوٹی پر ضرور
پرکھنا چاہتا تھا۔ مظہر امام تو یوں بھی تجربوں کے شوقین ہیں۔ ہر تیز رو کے ساتھ تھوڑی دور چل لینے کے شوق میں
انھوں نے بھی چند مہمل شعر اس اعتراف کے ساتھ
کہہ ڈالے ؎
چند مہمل سے شعر بھی کہیے
شاعری کے نئے تقاضے ہیں
اینٹی غزل کے تجربے کے طور
پر ان کی کلیات میں ایک ہی غزل شامل ہے۔
اک انجانی لاش کے آگے
پاگل کتا بھونک رہا تھا
فٹ پاتھوں پر نیند پڑی تھی
سورج سر پر آن پڑا تھا
سایہ سایہ آگ لگی تھی
پتہ پتہ ہانپ رہا تھا
مگر روایت سے تربیت پانے والے
شاعر ایسے تجربوں کے ساتھ ذہنی مطابقت نہیں
رکھتے۔ سو وہ بھی اس مختصر سے تجربے کے ساتھ دور تک نہیں چل سکے اور اپنی راہ پر لوٹ گئے اور مظہر امام ہی کیا، جن شعرا نے
خاصے طمطراق کے ساتھ اس غیر شاعرانہ غزل کی
وکالت کی تھی کچھ وقت بعد وہ خود بھی اس سے تائب ہوئے۔
مظہر امام کی غزلیہ شاعری
کے ان رنگوں میں ان کی شاعری کی جو تصویر بنتی ہے وہ رنگ خاص نہ سہی مگر ایک ایسی دھنک
کا تصور ضرور پیش کرتی ہے جس میں یکسانیت کے
بجائے ایک نوع کی رنگینی ہے۔
Najma Rahmani
Dept of Urdu
Delhi University
Delhi- 110007
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں