اردو دنیا، مارچ 2024
نسائی لہجے کی شاعرہ ڈاکٹر
ترنم ریاض ایک اہم شاعرہ کے طور پر ادبی دنیا میں متعارف ہیں۔ ان کے ادبی کارناموں
میںغزل،نظمیں، ناول،افسانے اور دیگر تحقیقی وتنقیدی مضامین بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان کا اصل نام فریدہ ترنم تھا لیکن ادبی دنیا میں وہ ترنم ریاض کے قلمی نام سے جانی
جاتی ہیں۔ان کی پیدائش سرینگر کے کرن نگر علاقے میں اگست 1963 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم
کرن نگر سرینگر میںہی حاصل کی لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے کشمیر یونیورسٹی کا رخ کرکے
پہلے وہاں سے ایم اے ایجوکیشن اور بعد میں ایجوکیشن میں ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ
نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کہانیوں سے کیا، سب سے پہلے 1973 میں آپ کی پہلی کہانی
روزنامہ ’آفتاب‘ میں شائع ہوئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ نے 1983 میں پروفیسر ریاض
پنجابی سے شادی کرلی جس سے وہ فریدہ ترنم سے ترنم ریاض بن گئیں۔ ترنم ریاض ایک فعال
اور کامیاب افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم شاعرہ بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی شاعری
میں عورتوں کے مسائل کو جس بے باکانہ انداز میں بیان کیا ہے وہ چونکانے والا ہے۔ان
کے پہلے شعری مجموعے ’پرانی کتابوں کی خوشبو‘ کے فلیپ پر بلراج کومل کے یہ الفاظ درج
ہیں:
''ترنم ریاض کی شاعری کائنات میں مناظر فطرت سے لے کر انسانی مسائل
اور انسانی رشتوں کی گوناگوں کیفیات کی فنکارانہ تجسیم سے وابستہ ہے لیکن اس عمل میں
نہ تو وہ موضوعات کی میزان سازی کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی اشتہاری اعلان نامہ تیار کرتی
ہیں۔ ان کی نظمیں اپنے متنوع دائرہ کار میں انسانی ردِ عمل کی انتہائی نرم ونازک مثال ہیں۔ ان کی شاعری انسانی
ہمدردیوں سے معمور ہونے کے علاوہ محبت اور امن کا پیغام دیتی ہیں۔''
(پرانی کتابوں کی خوشبو ، فلیپ
سے، بلراج کومل،ص15)
ان کے کل چار شعری مجموعے
شائع ہوچکے ہیں جن میں پرانی کتانوں کی خوشبو، زیرِسبزہ محوِ خواب، بھادوں کے چاند
تلے (ماہیوں کا مجموعہ) اور ’چاند لڑکی‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔جہاں تک ان کی غزل
گوئی کا تعلق ہے۔ان کی غزلوں میں پرانی روایات سے انحراف نہیں ملتا ہے بلکہ وہی عشق
وعاشقی کے قصے جنھیں غزل میں عام طور پر برتا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں عشق
وعاشقی کو نت نئی خوبیوں کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح اس کے سارے امکانات
اور وسعتوں کو کوزے میں بند کر دیاہے۔ان کے پہلے شعری مجموعے ’پرانی کتابوں کی خوشبو‘کو
ناقدین ادب نے جس طرح سمجھا اور جو نتائج اخذ
کیے ہیںاسی بنیاد پر ان کی شعری کائنات میں موجود فکری شعور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
وہ اکیسویں صدی کی ایک اہم تانیثی آگہی کی پختہ شاعرہ اور فکشن نگار تسلیم کی جاتی
ہیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد
اردو ادب بہت ساری تحریکات ورجحانات سے متعارف ہوا،جس میںجدیدیت،مابعد جدیدیت، ساختیات
پس ِساختیات کے علاوہ تانیثیت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دوسری تحریکات ورجحانات
کی طرح ہمارے یہاں تانیثیت کا تصور بھی مغرب سے ماخوذ ہے۔مغرب سے پنپنے والے اس رجحان
نے مشرقی افکار وخیالات میں بھی بہت جلد اپنے گہرے نقوش مرتسم کیے ہیں۔ یہاں کے ادیبوںنے
اس نئی فکر کو بہت جلد محسوس کرکے اس کے واضح محرکات کو پیش کیا۔ گویا اس مشرقی تہذیب
ومعاشرت نے اس نئے مغربی تصور کو کچھ نئے تحفظات کے ساتھ قبول کیا۔ 1980 کے بعد ترنم
ریاض کی غزلوں میں مخصوص تانیثی فکروفلسفے اور اندازِ بیان کے ساتھ ساتھ مرد کی محکومیت
اور جبر واستحصال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی مل جاتا ہے۔جس میں انھوں نے اس بات کی
طرف اشارہ کیا ہے کہ عورت معاشرے میں کسی سے کم نہیں ہے اور نہ اس کے شعوری عرفان میں
کسی قسم کی کمی ہے بلکہ عورت ابتدا سے ہی تغیر پذیر رہی ہے اس لیے انھوں نے احتجاجی
ادب کی طرف بھی خصوصی توجہ مرکوز کی۔مندرجہ ذیل اشعار میں ترنم صاحبہ نے مرد کی حاکمیت،
صنفِ نازک کی دلی ہمدردی اور اپنی فکری بلندی کو جس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ چیزے
دیگر معلوم ہوتی ہے ؎
شجر کو دیتی ہوں پانی وہ
آگ اگلتا ہے
میں فصل خار کی چننے کو پھول بوتی ہوں
میں درد جاگتی ہوں زخم زخم سوتی ہوں
نہنگ جس کو نگل جائے ایسا موتی ہوں
وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے
میں آگہی کے تجسس کو خون روتی
ہوں
فضامیں پھیل گیا ہے،تری زبان کا زہر
میں سانس لینے کی دشواریوں
پہ روتی ہوں
اردو کی مشہور شاعرات میں بالخصوص
ترنم ریاض کے یہاں یہ تصور ایک نئے سیاق میں پیش ہوا ہے۔ انھوں نے عورت کی جبلی اور
فطری خصوصیات کو تانیثیت کی رو سے دیکھا اور پیش کیا۔اس سلسلے میں ان کی نظمیں خاص
طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ اپنے شعری مجموعے ’زیرہ سبزہ محو خواب‘ کے دیباچے میں انھوں
نے کائنات کی اصل محافظ اور معمار اول عورت کو قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک عورت مرد کے
مقابلے میںنرم دل،جذبہ محبت سے سرشاراور تعمیری سوچ کی حامل مخلوق ہے۔وہ ہمیشہ کائنات
کے نظام کو خوب سے خوب تر بنانے کی سعی میںمصروف رہتی ہیں۔موصوفہ کے مطابق:
''جن ماؤں کے احساسات زیادہ شدید تھے رفتہ رفتہ ان ہی کی نسلیں بڑھتی
رہیںاور محفوظ رہیں۔ اُن میں یہ اشرف المخلوق بھی پائی جاتی ہے۔گویا قدرت نے حیات کے
تحفظ کا کام عورت کو سونپ دیا اور انا پرست مرد نے یہ سمجھ لیا کہ وہ ہتھیار بنا کر
جب چاہے زندگی ختم کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔اس نے بستیوں کو اجاڑنا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا۔اور
اس شوق کی تسکین کے لیے نت نئے ہتھیار تخلیق کرنا اپنے اولین فرائض میں شمار کر لیا۔''
(دیباچہ،’زیر سبزہ محو خواب‘از ترنم ریاض،ص 7)
ترنم ریاض کی شاعری کا خاص
موضوع عشق رہا ہے۔ اس کے عشق کا کوئی عاشق یا محبوب کوئی خیالی محبوب نہیں رہا ہے،
بلکہ اسی کرہ ارضی پر چلنے والا خالقِ لم یزل کا تخلیق کردہ بنی نوع انسان ہی ہے۔ ان
کا یہ خیال ہے کہ محبوب کی خاموشی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ انھوں نے محبوب کی جدائی
کوصحراؤں کی خاموشی سے تعبیر کیا ہے۔ان کے اس جذبے کو مندرجہ ذیل اشعار سے بڑی خوبی
کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔
کہیں خلوص پہ آئے نہ
عشق کی تہمت
میرے حواس پہ
چھاؤ نہ
خوشبوؤں کی طرح
تمھاری چپ سے نہ
ہم پہ سکوت چھا جائے
اندھیری رات کے
ویران مقبروں کی طرح
متذکرہ شاعرہ نے محبوب کی
جدائی اور زندگی کی شکست وریخت کا تذکرہ جگہ جگہ کیا ہے۔بلکہ محبوب کی بے رخی، بے وفائی
اور خود غرضانہ رویے کا تذکرہ بھی اپنے اشعار
میں برملا کیا ہے۔ شاعرہ اپنے محبوب کو دعاؤں میں مانگا کرتی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ
جس طرح ایک شعر کے اندر دو مصرعے آپس میں مفاہمت اور ربط رکھتے ہیں اسی طرح شاعرہ
اپنی زندگی کو محبوب کے ساتھ بِتانا چاہتی تھیں۔ ذیل کے کچھ اشعار سے شاعرہ کی چاہت
کی عکاسی موثر انداز میں کی گئی ہے
؎
گُم نہ ہوجانا سرابوں کی
طرح
تم کو مانگا
ہے دعاؤں کی طرح
خود میں وہ اور ہیں اندیشوں
میں گُم
ساتھ میں شعر
کے مصرعوں کی طرح
ترنم ریاض نے زندگی کے نشیب
وفراز میں بہت سارے دُکھ، درد، احساسِ کمتری اور مایوسی کے کئی کٹھن راستوںکو عبور
کیا ہے۔ زندگی کے نشیب وفراز میں وہ اپنے نصیب کو ہمیشہ برا بھلا کہتی رہی ہیں، اور
اپنی زندگی کے سارے بھید اشاروں اور کنایوں میں بیان کرنے کی دلکش تحریک چلائی ہے۔
انھیں اس بات کا مصمم یقین تھاکہ میری دعائیں اور التجائیں بے اثر اور نامراد ہوکر
ہی رہ جاتی ہیں۔ ان کے مطابق درختوں اور دیگر پودوں کی آبپاشی کرنے سے حسن وسرسبزی
نکل آتی ہے لیکن بدلے میں درخت وہاں سے آگ اگلتے ہیں۔ پھول جیسے حسین وجمیل اور خوشبو
دینے والے بیج بونے کے بعد وہاں سے پھول نہیں بلکہ کانٹے نکل آتے ہیں۔ زندگی سے اس
حد تک بیزاری اختیار کرنا قنوطیت سے ہی تعبیر کیا جائے گا، اس کے علاوہ شاعرہ کے مطابق
زندگی کی اس بے وفائی کی آلودگی میں سانس لینا بھی کارِ دارد والا معاملہ معلوم ہوتا
ہے۔نیز انھوں نے صنفِ نازک کے ساتھ دقیانوسی تصور رکھنے والوں کو بھی اس بات سے آگاہ
کیا ہے کہ اکیسویں صدی کی خواتین تغیر وتبدل کی راہ میں مثالی کردار ادا کرنے میں کسی
سے کم نہیں ہیں، بلکہ عصری زندگی کے مطالبات سے بھی ہم آہنگ ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی
ہیں ؎
مر ی دعا میں
نہیں معجزوں کی تاثیریں
نصیب کھوجنے والی میں کون ہوتی ہوں
شجر کو دیتی ہوں پانی وہ آگ ا گلتا ہے میں فصل خار کی چننے کو پھول بوتی ہوں
فضا میں چھوڑ دیے ہیں زباں
کے رنگ اس نے
میں سانس لینے کی دشواریوں پہ روتی
ہوں
ترنم ریاض کے مطابق انسان امن ومحبت کا ایک قیمتی ذخیرہ
ہے۔ لہٰذا انسانوں کے درمیان ہمیشہ امن وآشتی، محبت، خلوص، بھائی چارہ، یگانگت، اتحادواتفاق
اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کو ہی اولین ترجیح دی ہے۔
وہ اپنی غزلوں میں ہمیشہ اس بات
پر زور دیتی رہی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مستحکم رشتے بننے سے امن وآشتی
کا ماحول نکھر کر آسکتا ہے۔ ان کے کئی اشعار
میں جدید دور کے مشینی کلچر سے منافرت اور بیزاری کی فکربھی عیاں ہے کیو ں کہ ان کے
مطابق جدید زہریلی ادویات اور مشینوں سے نکلنے والا دھواں،زہریلی گیس اور کمیکلس سے
مناظر فطرت پر کافی حد تک اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کے مطابق جدید سائنسی مصنوعات سے انسانی،
نباتیاتی ا ورحیواناتی زندگی کافی حد تک متاثر نظر آنے لگی ہے۔ اس طرح ان جدید مصنوعات
سے نہ صرف انسانی زندگی متاثر ہوئی بلکہ ان چیزوں کے استعمال نے جانوروں اور پرندوں
کے آشیانوں کو جلا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیے ہیں ؎
وحشتوں نے دیکھ ڈالا عظمتوں کا آگے
گھر
کچھ سر مقتل
ہیں کچھ سہمے ہوئے ہیں آجکل
اس جگہ پیڑوں کے جھرمٹ آشیاں
چڑیوں کے تھے
کچھ دوکانیں،گاڑیاں،کچھ گھر
کھڑے ہیںآجکل
ان کے ماہیوں کا ایک مجموعہ’بھادوں
کے چاند تلے‘ بھی منظر عام پر آیا ہے جس میں انھوں نے زندگی کو دیگر راستوں اور مشاہدات
کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس مجموعے میں بھی اکثر اس بات کا گماں غالب نظر آرہا
ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر انھیں انسانی زندگی سے محبت تھی اور وہ ہمیشہ بنی نوع انسان
کو شفقت آمیز اور محبت شعار رہنے کی تلقین کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اشعار
میںزندگی کی تلخ سچائیوں کے ساتھ ساتھ زمانے کی کرب ناکی کااظہار بھی کھل کر کیا ہے۔اس
بارے میں میر بشیر احمد لکھتے ہیں:
"ایک طرف ترنم ریاض روایات کا رنگ نہیں چھوڑ رہیں اور اس خوشبو
سے مالا مال ہیںتو دوسری طرف انھیں زمانے کا کرب بہت ستا رہا ہے۔ انھیں دشمنوں کی بھی
فکر ہے اور سرحدوں کی بھی۔نظموں میں جو عکس ابھرتے ہیں وہ آفاقی ہیں اور اکثر شاعری
میں انھوںنے انسانی کرب کو موضوع بنایا ہے۔تخلیقی زبان سے لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور
نئی تراکیب واسالیب سے ترنم واقف کرواتی نظرآتی ہیں۔انتہائی سادگی اور اختصار کے ساتھ
ایک فنی معجزہ تیار کرنا ترنم کی عظمت ہے۔"
(ترنم ریاض،شعری مجموعہ،بھادوں کے چاند تلے،ص 223)
موصوفہ اپنی تخلیقی نگارشات میں
مرد کو ہدف تنقید نہیں بناتی ہیں اور نہ ہی مرد کی ذات کے تئیں کسی قسم کی منافرت دیکھنے
کو ملتی ہے۔بلکہ ان کی تخلیقات میں ایک طرح سے مرد کی اصلاح کا عنصرپوشیدہ نظر آرہاہے۔
وہ مرد اور عورت کے مقام ومنصب کی بات ہمیشہ کرتی آئی ہیں۔اُن کا ماننا ہے کہ مشرقی
عورت کو تانیثیت جیسے تصور سے حد درجہ احتیاط برتنا چاہیے، لیکن اس کا قطعاََ یہ مطلب
نہیں کہ انھوں نے مشرقی مرد اساس سماج اور پدرانہ معاشرے کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے
ہیں۔وہ عورت کو آزاد اور مضبوط ہونے کا احساس بار بار دلاتی ہیں۔اسے مجبور ومقہور
زندگی گزارنے سے بیدار کرتی ہیں۔اس کی عظمت اور احساس برتری کے لیے گُن گاتی ہیںاور
دنیا کے تمام شعبوں میں اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے میں آ ہنی طاقت کا حوصلہ دلاتی
ہیں۔ان کی غزلوںکے چند اشعارنمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ؎
بہت اب بھی
ہے باقی سنگھرش
اس کا
ہیں تازہ
ہوائیں ہی سنکلپ اس کا
جو آبرو اٹھے
تو سمجھنا درانتی
جو ٹوٹے گا
کنگن،بنے گی کٹاری
جو مجھ کو آنکھ دکھائے گا،تہذیب
پہ داغ لگائے گا
پتھر کے دور کا انساں بھی
پانی پانی ہوجائے گا
یا تم مجھ سے وفا کرو، یا
میں ہر جائی بن جاؤں
مجھ سی ہوجاؤ ورنہ پھر تم
جیسی ہوجاؤں گی
ترنم ریاض کو اپنے دو شعری مجموعوں ’پرانی کتابوں کی
خوشبو‘ اور’زیر سبزہ محو خواب‘کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ ان مجموعوں نے انھیں
عہدِ حاضر کے شاعرات میں نمایاں مقام عطا کیا۔ ان کی شاعری میں تحرک، امید، صبحِ نو
کی تلاش اور آزادانہ زندگی کے قیمتی جوہر مل جاتے ہیں۔ ترنم صاحبہ ایک حساس،شائستہ،مخلص
اور خلق عظیم سے مزین جیسی پیکر رکھنے والی صفات اور انفرادی لب ولہجہ جیسی شاعرات
میں شمار کی جاتی ہیں۔ ان کے یہاں فکر وشعور کی جو داستان ملتی ہے اس میں متعدد مضامین
وموضوعات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے۔عورت کی جبلت میں ودیعت ایزدی کے طور پر بہت سارے روپ
پیوست کر دیے گئے ہیں۔ موصوفہ کا تعلق طبقہ نسواں سے تھا اس لیے انھیں عورتوں کے جذبات
ومحسوسات کو سمجھنے میں کسی قسم کی دقت نہیں آئی ہوگی۔ انھوں نے اپنی ایک مرتب کردہ
کتاب میں اس بات کا تذکرہ بخوبی کیا ہے:
"خواتین فطرتاً قصہ گو اور شاعرات ہوتی ہیں۔ اپنے بچوں کو اصلی
یا فرضی قصے کہانیاں سنانا،شعروں کو لوریوں کی مدھم دھنوں میں سموکر دھیرے دھیرے بچوں
کو سنا کر سلانا، دنیا کی ہر عورت کا،خواہ وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو، محبوب
مشغلہ ہے۔اس لحاظ سے ہرعورت کو ایک فطری کہانی کار یا شاعرہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج
نہیں ہے۔اسی لیے عورت کو غالباً’ام القصص‘بتایا جاتا ہے۔"
(ترنم ریاض،’بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب‘ ساہتیہ اکادمی دہلی
2004،ص7)
ان کی شاعری میں ہمیں متنوع موضوعات
مل جاتے ہیں جن میںفطری،معاشی،سماجی، سیاسی اور ملکی غرض ہر طرح کے مضامین مل جاتے
ہیں۔ انھوں نے اپنی غزل گوئی میں دورِ حاضر میں پیدا شدہ مسائل کو بھی سلیقہ مندی کے
ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی زندگی تغیر وتبدل سے مملو ہے اس لیے ان کی شاعری
بھی وقتی تغیرات سے آراستہ وپیراستہ ہے۔ انھوں نے الفاظ کی ترتیب وتزئین میںاپنے تخیل
کی بلند پروازی سے ایسا حسن پیدا کیا ہے جس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ان کی شاعری
عہدِ نو کی شاعری ہے جس نے انھیں اردوکی دنیائے شاعری میں یگانہ وقار عطا کیا۔
Manzoor Ahmad Ganie
Academic Counsellor Urdu
(IGNOU)
Govt Womens Degree
College
Anantnag - 192124
(Kashmir)
Mob.: 6005903959
Email: mganie283@ gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں