اردو دنیا، مارچ 2024
سماجی، سیاسی، ثقافتی، اقتصادی،
ادبی اور تانیثی زندگی پر جس تیزی کے ساتھ صحافت کا مثبت اور منفی اثر پڑتا ہے، وہ
آج کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحافت نے بڑی بڑی تحریکوں اور انقلابات
کو جنم دیا ہے۔ عالمی سطح پر ایسے واقعات بار بار رونما ہوئے جب صحافت کی عظیم طاقت،
اس کی مقبولیت اور اس کی جرح و تنقید سے مرعوب ہو کر اسے پابندی کی زنجیروں میں جکڑ
دیا گیا۔ صوبہ بہار تحریکی اعتبار سے ہمیشہ سے سرگرم بلکہ بعض تحریکیں تو بہار ہی سے
اٹھیں اور ملک کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ یہاں اردوصحافت کی ایک شاندار روایت رہی
ہے۔ گرچہ اس کی شروعات اردو صحافت کے آغاز (1822) کے اکتیس برس بعد 1853میں ہوئی۔ جولائی 1853میں بہار کا پہلا رسالہ
’نور الانوار‘ آرہ سے جاری ہوا۔ اس کے بعد بہار کی سرزمین سے متعدد رسالے نکلے۔ لیکن
دسمبر1926سے قبل جو بھی رسالے جاری ہوئے، وہ سب کے سب عام رسالے تھے، کسی صنف سے مخصوص
نہیں تھے۔ان میں سے ایک بھی رسالہ ایسا نہیں تھا جو طبقہ نسواں کی ترجمانی کر سکے۔اس
کمی کو سب سے پہلے صالحہ خاتون نے محسوس کیا اور تعلیم و اصلاح نسواں کی مہم چھیڑ دی
اور اس کے آرگن کے طور پر ایک رسالہ ’عفت‘ کے نام سے دسمبر 1926میں جاری کیا۔ یہ رسالہ
خالصتاً طبقہ نسواں پر مرکوز تھا۔ اس طرح یہ بہار کا پہلا جریدہ نسواں بھی ہے۔
رسالہ ’عفت‘ آستانہ گورگانواں
ڈاکخانہ کھگول پٹنہ سے شائع ہوتا تھا اور صالحہ خاتون اس کی ایڈیٹر تھیں۔ صالحہ خاتون
کے احوال و کوائف سے آگاہی نہیں ہو سکی ہے کیونکہ کسی نے ان کے بارے میں کچھ نہیں
لکھا ہے۔ یہ بہار اور بنگال کا پہلا نسائی مجلہ تھا۔ ’عفت‘ کے سر ورق پر یہ وضاحت ملتی
ہے کہ’’ بہار و بنگال کا واحد زنانہ ماہوار صحیفہ۔‘‘ یہ بھی مرقوم ہے کہ یہ ’’مسلم
خواتین کی ادبی سہیلی‘‘ ہے۔ یہ رسالہ کب تک نکلا اور کب بند ہوا، اس سلسلے میں کوئی
جانکاری نہیں ملتی۔محترمہ خضر بانو خیری بہاری نے اپنے مضمون ’بہار کی صحافت‘ میں اس
رسالے کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’یہ رسالہ صوبہ بہار کا واحد زنانہ ماہوار
مجلہ تھا، خدا کرے پھر شائع ہو۔‘‘(ندیم، بہار نمبر 1935)۔ گویا 1935سے قبل ہی یہ رسالہ
بند ہوچکا تھا۔اس کے صرف تین شمارے؛ جلد 1؍
شمارہ 1؍
دسمبر 1926، جلد 1؍
شمارہ2؍جنوری
اورجلد 1؍
شمارہ3؍
فروری 1927خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں۔
ذمہ دارانِ رسالہ عفت نے اس
کے کچھ قواعد متعین کیے تھے۔ چنانچہ سر ورق کی پشت پر قواعد کے ضمن میں سات ہدایات
مندرج ہیں اور وہ اس طرح ہیں:
(1) رسالہ عفت ہر مہینے کے پہلے عشرہ میں شائع ہوا کرے گا۔(2) عام شائقین
سے سالانہ تین روپئے، معاونین سے سالانہ دس روپئے، ممالک غیر سے چھ شلنگ پیشگی قیمت
علاوہ محصول ڈاک لی جائے گی۔ والیان ریاست اور سرپرستان عفت جو عطا فرمائیں بصد شکریہ
قبول کیا جائے گا۔ (3) نمونہ کے پرچے کے لیے چار پیسہ کے ٹکٹ آنے چاہئیں۔ (4) منی
آرڈر بھیجتے وقت کوپن پر اپنا نام اور پتہ صاف اور خوش خط تحریر کریں۔ (5) رسالہ پہنچنے کی اطلاع دفتر میں ہر ماہ کی بیس تاریخ
کے بعد اور بیس سے پہلے پہنچ جانی چاہیے۔ اس کے بعد شکایت لکھنے والوں کو رسالہ قیمتاً
بھیجا جائے گا۔(6) خط و کتابت کے وقت اپنا نمبر خریداری ضرور تحریر فرمایا کریں۔
(7) شرمناک اور فحش مضمون کا کوئی اشتہار کسی طرح درج رسالہ نہیں کیا جائے گا۔ ضمیمہ
شائع کرنے کی اجرت اور رعایتی نرخنامہ اشتہارات خط و کتابت سے طے کریں۔
مضمون نگاروں کے تعلق سے بھی
آٹھ ہدایتیں درج کی گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(1) مضمون ہر مہینہ کی پہلی تاریخ تک دفتر میں آجانا چاہیے۔(2) نا
مکمل مضمون شائع نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہمیشہ مضمون پورا کرکے بھیجنا چاہیے۔
(3) مضمون کاغذ کی ایک ہی طرف خوش خط اور روشن سیاہی سے صاف صاف لکھنا چاہیے۔ (4) اگر
مضمون کسی کتاب یا رسالہ سے ماخوذ، مقتبس یا ترجمہ ہو تو اس کا حوالہ ضرور دینا چاہیے۔
(5) مضمون کے ساتھ راقم مضمون کا نام اور پورا پتہ لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ اگر اپنا
نام شائع کرنا منظور نہ ہو تو اس کی اطلاع کر دی جائے۔(6) ایسا مضمون جس میں کسی مذہبی
فرقہ کی دل آزاری یا ذاتیات کا تعلق ہو شائع نہیں کیا جائے گا۔ (7) جو مضامین رسالہ
کے معیار کے مطابق نہ ہوں گے طلب کرنے پر واپس کر دیے جائیں گے۔ (8) عفتی بہنوں اور
جملہ نامہ نگاروں کی خط و کتابت پورے احتیاط اور سختی کے ساتھ پوشیدہ رکھی جائے گی۔
اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے
کہ رسالہ ’عفت‘ ان لوگوں کے لیے جو پانچ سالانہ خریدار مہیا کرائیں گے، ان کی خدمت
میں ’عفت‘ ایک سال تک مفت ملتا رہے گا۔ آخری صفحے پر اشاعت اور اہتمام کے تعلق سے
یہ معلومات درج کی گئی ہے: باہتمام سید عبد الرحیم پرنٹر و پبلشر برقی پریس مراد پور
پٹنہ میں چھپ کر دفتر عفت گورگانواں ڈاکخانہ کھگول پٹنہ سے شائع ہوا۔
ماہنامہ عفت پٹنہ کے صرف تین
شمارے ہی دستیاب ہو سکے۔ ان تینوں شماروں کے مشمولات پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
دسمبر 1926: نظم پروین؍
بیگم مرزا محمد مجتبی۔ عرض حال؍
ایڈیٹر۔ خواتین اسلام کا جذبۂ تبلیغ؍
ماخوذ۔ خیر مقدم؍
مولانا تمنا عمادی۔ عورت کا زیور؍
بیگم ادریس۔ ام المومنین حضرت خدیجہ طاہرہؓ؍
ثریا بیگم۔ دل کی پکار؍
شہزادی بیگم۔ بیوی کے حقوق۔ گدگدیاں۔ نام کا پردہ؍
مولانا سید مرتضی حسن شفق۔ نحوست؍
ام العرفان۔ صنف نازک؍
سید شاہ منظور الرحمن۔ انمول موتی۔ حفظان صحت؍
محمودہ خاتون۔ پرورش اطفال؍
ماخوذ۔ حیرت انگیز ایجادات اور دلچسپ معلومات۔ مجلس عفت؍
معاونین عفت۔ نقد و تبصرہ؍
ایڈیٹر۔
جنوری1927: شذرات؍
ایڈیٹر۔ حضرت زینبؓ؍
سیدہ بیگم مظفرالدین ندوی۔شادی؍
آغا حشر کاشمیری۔ بتول بنت الرسولؓ؍
سید مرتضی حسن شفق۔ عفت اور عورت؍
حافظ جمال صاحبہ۔ بوڑھی ماما؍
شکری پاشا۔ احسان خاص و عام؍
سید ابوالعاص۔ گدگدیاں۔ نام کا پردہ؍
بیگم مرزا محمد مجتبی آفندی۔ آزادی کے گھر چرخہ۔ بیوی کے فرائض۔ نوحہ غمگین؍
خدیجہ الکبری۔ حیرت انگیز ایجادات۔ کام کی باتیں۔ خیر مقدم کے مختلف طریقے۔ حفظان صحت۔
مجلس عفت۔ نقد و تبصرہ؍
ایڈیٹر۔ اشتہارات۔
فروری1927: شذرات؍
ایڈیٹر۔ شمع رسالت کے پروانے؍
خواجہ سعید احمد۔ رقیہ بنت رسولؓ؍
سیدہ بیگم سید مظفرالدین ندوی۔ غریب الوطن؍
بلقیس بانو۔ زن و شو کے تعلقات؍
سید مظفرالدین ندوی۔ حاضر حوابی؍
شہر بانو۔ پرورش اطفال۔ پردہ؍
سید محمود شیر۔ فضول خرچی کا نتیجہ کارٹون۔ کام باتیں۔ اشتہارات۔
ان مشمولات سے اندازہ ہوتا
ہے کہ رسالہ ’عفت‘ کی مدیرہ صالحہ خاتون نے یہ کوشش کی ہے کہ خواتین کے تعلق سے جو
مفید اور کارآمد باتیں ہو سکتی ہیں، ان کو احسن طریقے سے پروسا جائے تاکہ خواتین ان
کے مطالعے سے اپنی زندگی سنوار سکیں۔ اس تعلق سے چند مضامین پر نظر ڈالتے چلیں۔
محترمہ شہزادی بیگم نے اپنے
مضمون ’دل کی پکار‘ میں نسائی تعلیم کے سلسلے میں قوموں کی سرد مہری کا شکوہ اور نسائی
تعلیم کی افادیت اور اہمیت کا اظہار اور رہبرانِ قوم سے یہ اپیل کی ہے کہ:
’’پس ایسے خود غرض اور حجت پسند بزرگان قوم سے میری سب سے پہلے التجا
ہے کہ برائے خدا وہ اس طرح کے لغو اعتراضات اور فضول گویوں پر نیز نسائی تعلیم کے طے
شدہ مسئلہ کے بحث و مباحثہ میں اپنے گراں قدر اوقات اور قوت عمل کو بیکار ضائع کرکے
چلتی ہوئی گاڑی میں روڑے نے اٹکائیں بلکہ خدا توفیق دے تو سبھوں کے ساتھ متحد و متفق
ہو کر باہمی جوش و خروش سے اس مبارک و مسعود تحریک کو کامیاب بنانے کی سعی فرمائیں ؎
دو دل یک شود بہ شکند کوہ
را
پراگندگی آرد انبوہ را
'خواتین اسلام کا جذبۂ تبلیغ’ کہیں سے ماخوذ ہے۔ چار پانچ سطروں میں
اس تعلق سے کار آمد تحریر پیش کی گئی ہے۔ ’گدگدیاں‘ کے تحت دو سبق آموز قصے درج کیے
گئے ہیں۔ ’نحوست‘ میں دنوں اور چیزوں کو نحس سمجھنے پر تنبیہ کی گئی ہے اور اسلام کی
رو سے اس کی تردید کی گئی ہے۔ ’حفظان صحت‘ کے ضمن میں مکھیوں کے مضر اثرات کو سائنسی
طور پر بیان کیا گیا ہے۔ دسمبر1926 کے شمارے میں’نقد و تبصرہ‘ میں مولوی سید معین الدین
احمد قیس رضوی عظیم آبادی کی کتاب ’گلشن حیات‘ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ یہ کتاب شاد
عظیم آبادی کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے۔ اور جنوری1927کے شمارے میں معارف، امارت،
المبشر، غریب نواز، اتحاد، ادبستان، الاکرام اور مسیحا جیسے اردو رسائل کا تعارف کرایا
گیا ہے۔اور فروری1927کے شمارے میں نقد و تبصرے کا کالم نہیں ہے۔’ گلشن حیات‘ پر رسالہ
عفت کی مدیرہ نے جو تبصرہ کیا ہے، اس کاایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"اس کتاب گلشن حیات میں حضرت
شاد مد فیوضہ کے خاندانی حالات، تعلیم و تربیت، آغاز شاعری اور علمی مشاغل اور شاعری
کے عروج کے عنوانات کے جو مضامین ہیں، وہ بے حد مفید اور سبق آموز ہیں۔ بالخصوص مولانا
شاد کی اصلاحیں تو اپنی جگہ بے مثل ہیں اور ہر وہ شخص جو ادب اردو سے شغف و دلچسپی
رکھتا ہے خاطر خواہ بہرہ ور اور لذت اندوز ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کتاب کی قدر کرنا
نہ صرف اس کے مصنف کا حوصلہ بڑھانا ہے بلکہ زبان اردو کی نشو ونما میں مدد کرنا ہے۔
یہ مفید علمی کتاب اس لائق ہے کہ اسے نصاب تعلیم میں داخل کر لیا جائے تو زبان اردو
کے لیے بے حد منفعت رساں ثابت ہوگی۔ (دسمبر1926)۔
مدیرہ صالحہ خاتون نے اس کا
بھی التزام کیا ہے کہ مضمون نگاروں کا تعارف پیش کیا جائے۔ چنانچہ ہر تخلیق اور نگارش
سے پہلے وہ صاحب تخلیق و نگارش کا تعارف پیش کرتی ہیں پھر تخلیق و نگارش کا آغاز ہوتا
ہے۔ حضرت تمنا عمادی مجیبی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتی ہیں:
"حضرۃ المکرم جناب حسان الہند مولانا محی الدین صاحب تمنا پھلواروی
ابنائے سخن میں اس قدر مشہور و معروف ہیں کہ آپ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
آپ کے دل میں طبقۂ نسواں کی جو ہمدردی بدرجہ اتم موجود ہے، اس پر ہم جس قدر بھی فخر
و مباہات کا اظہار کریں تھوڑا ہے۔ آپ نے عفت کے اجرا کی خبر پا کر جس خوش خلوص کے
ساتھ اس کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے قیمتی نصائح سے خاکسار مدیرہ کو سرفراز فرمایا
ہے، اس کا شکریہ ہمارے زبان قلم سے ادا نہیں ہو سکتا۔ ہماری آرزومندانہ امید ہے کہ
آپ اپنے پر تنویر افکار اور نصائح عالیہ سے عفت کے صفحات کو اسی طرح برابر زینت بخشتے
رہیں گے۔''
محترمہ سیدہ بنت قمر بیگم
مظفرالدین صاحب ندوی ، ایم، اے کا تعارف اس انداز میں پیش کرتی ہیں:
"محترمہ مقالہ نگار کا اسم گرامی محتاج تعارف نہیں، آپ متعدد کتب کی مصنفہ اور بہار
کی مشہور انشا پرداز خاتون ہیں۔ ارباب ذوق نے آپ کے مضامین اردو کے زنانہ رسائل علی
الخصوص ’حور‘ میں کثرت سے دیکھے ہوں گے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے ہماری دعوت
پر فوراً لبیک کہا اور آئندہ قلمی امداد کی امید دلائی۔"
جہاں تک اداریے کا تعلق ہے
تو دسمبر1926کے شمارے میں ’عرض حال ‘ کے عنوان سے مدیرہ صالحہ خاتون نے اردو رسائل
کی صورت حال اور جریدۂ نسواں کی کمیابی پر اظہار خیال کیا اور رسالہ ’عفت‘ کے جاری
کرنے کے کیا اسباب تھے اور اس سے کون سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں، اس کا بیان کیا
گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"اس رسالہ کو محض مضامین کا پشتارے کی طرح پیش کرنا نہیں ہے۔ بلکہ
ہماری دلی خواہش و تمنا یہ ہے کہ مثل بہترین رسالوں کے اس کو مفید اور دل نواز بنائیں۔
حتی الوسع اس میں تصویریں بھی ہوں۔ ہندوستان اور بیرون ہند کے اخبارات و رسائل کے مفید
اقتباسات خاص طور پر ترجمہ کر کے درج کیے جائیں۔ غرض یہ کہ دلچسپ ہونے کے علاوہ ہر
حیثیت سے ’عفت‘ کا وجود کار آمد و مفید ثابت ہوں۔"
جنوری1927کا اداریہ ’شذرات‘
کے نام سے ہے۔ یہ اداریہ بایں طور اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مولانا عبد الحلیم شرر
لکھنوی اور حضرت شاد عظیم آبادی کی وفات کا ذکر ہوا ہے اور اسی ضمن میں ان دونوں حضرات
کے علمی و ادبی کانامے پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں یہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
"دسمبر کا عفت پریس سے نکل جانے کے بعد یکایک ہمیں اپنے واجب الاحترام
ادیب اور مایہ ناز مورخ جناب مولانا عبد الحلیم صاحب شرر لکھنوی کے بعارضہ فالج 17جمادی
الثانی1345ھ جمعہ کے دن انتقال فرمانے کی روح فرسا خبر ملی۔ اس حادثہ عظیم کی زہرہ
گداز خبر سے ہمارے دل پر کیا گزری زبان و قلم اس کے اظہار سے قاصر ہے۔ اس دور قحط الرجال
میں آپ جیسی بلند پایہ اور مغتنم شخصیت کا اٹھ جانا ہماری سخت بد نصیبی اور بلا شبہ
ایک شدید قومی نقصان ہے۔ آہ! آج دنیائے شعر و ادب تاریک ہے کہ اپنے وقت کے مجدد اعظم
اور اردو لٹریچر اور اسلامی تاریخ کے ایک مستقل مدرسہ کا بانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم
سے جدا ہو گیا اور افسوس کہ اس کی جگہ پُر کرنے کے لیے بظاہر اس کا کوئی صحیح جانشیں
نظر نہیں آتا۔ "
"لیجیے ابھی خلد آشیاں جناب شرر مرحوم کی جانکاہ موت پر ہماری
آنکھیں خونبار ہی تھیں کہ پیر فلک نے ہمارے خرمن دل پر ایک اور بجلی گرائی۔
آہ! آج خانہ اردو بے چراغ
اور سنسان ہے کہ غالب و مومن اور میر کی آخری یادگار بہار کا مشہور ادیب، ہندوستان
کا نامور شاعر خان بہادر سید علی محمد شاد 83 سال کی عمر میں 8؍جنوری
1927 سنیچر کا دن گزار کر بوقت شب گیارہ بج کر اٹھارہ منٹ پر چل بسا۔ انا للہ و انا
الیہ راجعون۔ دل مچل مچل کر تڑپتا اور طبیعت رہ رہ کر بگڑتی ہے۔ جب یہ خیال آتا ہے
کہ ’عفت‘ کے پچھلے نمبر میں ہم نے مرحوم کی سوانح عمری ’گلشن حیات‘ پر تبصرہ کیا تھا۔ھیھات!
آج ہمارا قلم اس جلیل القدر اور عالی مرتبت ہستی کی اندوہناک جدائی پر وقف ماتم ہے۔
مولانائے مرحوم کی ذات سے ہماری بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ آپ نے ’عفت‘ کے اجرا پر
دلی ابتہاج اور خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے غایت شفقت کے ساتھ ہماری امداد کا وعدہ
فرمایا تھا مگر اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔"
فروری1927کا اداریہ رسالہ
’عفت‘ کے ممبرشپ کے تعلق سے جن خواتین و حضرات نے مدد فرمائی، ان کا شکریہ ادا کیا
گیا ہے اور ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ:
" کیا یہ افسوس و شرم کی بات نہیں ہے کہ وہ حضرات جو زبان اردو
کی ترویج و اشاعت کے لیے آہ و واویلا مچاتے اور اپنی عورتوں کی تعلیم و اصلاح کے لیے
ٹسوے بہاتے ہیں، ان کے ہاں ان کی خاص طلبی...
ایک خط کے ساتھ عفت کا پرچہ نمونتاً بھیجا جاتا ہے اور درخواست کی جاتی ہے کہ اگر خریداری
قبول ہو تو قیمت بذریعہ منی آرڈر بھیج دیں اور اگر خریداری قبول نہ ہو تو ایک امتناعی کا لکھ دیں...مگر اس تاکید کے باوجود
بھی۔۔ ایک مہینہ تک کوئی جواب نہیں آتا۔"
رسالہ ’عفت‘ کی پذیرائی میں
ارباب سخن نے کوئی کنجوسی نہیں کی بلکہ اس اقدام کو خوب سراہا گیا۔مولانا تمنا عمادی
اتنے متأثر ہوئے کہ ’خیر مقدم‘ کے عنوان سے نظم بغرض اشاعت بھیجا جس میں رسالے اور
اس کی مدیرہ صالحہ خاتون کی دیدہ وری اور دور اندیشی کی تعریف کی گئی ہے۔ چند اشعار
ملاحظہ ہو ؎
بہار آنے کو آئی ہر چمن
میں ہر گلستاں میں
اداسی ہی مگر تھی طبقۂ محصوم
نسواں میں
اسی طبقے میں سے اک شخص یہ
کہتی ہوئی اٹھی
نہ رکھوں گی اٹھا کر ہو جو
کوشش حد امکاں میں
مبارک صالحہ تجھ کو مبارک
صالحہ رجھ کو
صدا یہ گونج اٹھی گنبد گردوں
گرداں میں
محترمہ بیگم مرزا محمد مجتبی
آفندی صاحبہ نے بھی رسالہ عفت کے اجرا کے تعلق سے ایک نظم لکھی۔ چند اشعار پیش خدمت
ہیں ؎
یہ رسالہ دیار مشرق میں
روح عصمت ہے جانِ عفت ہے
صائب الرائے صالحہ خاتون
نکتہ رس نکتہ دانِ عفت ہے
کیا صفات حمیدہ کا ہو بیاں
کوکب آسمان عفت ہے
رسالہ اردو، اورنگ آباد دکن
کے جنوری 1927کے شمارے میں رسالہ عفت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
"یہ ماہانہ رسالہ عورتوں کی اصلاح و فلاح کی غرض سے گورگانواں
ڈاکخانہ کھگول پٹنہ سے شائع ہوا ہے۔ صالحہ خاتون صاحبہ اس کی ایڈیٹر ہیں۔ بہار کا غالباً
یہ پہلا رسالہ ہے جو اس مقصد کے ساتھ نکلا ہے۔ مضامین کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
جو مقصد اس کے پیش نظر ہے، اس میں ضرور کامیاب ہوگا۔لکھنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین
کی ہے۔ ایسی مجلسیں اور انجمنیں، اخبار اور رسالے جن کی غرض تعلیم و اصلاح نسواں ہے،
ان میں جب تک عورتیں خود شریک نہ ہوں، ان کے فرائض انجام نہ دیں گی، کبھی کامیابی نہ
ہوگی۔ اس رسالے کے چلنے اور کامیابی کی توقع اس لیے ہوتی ہے کہ اس کی کارپرداز اور
لکھنے والی زیادہ تر عورتیں ہیں (ص 72)"
جمیل اختر صاحب اپنی کتاب’اردو
جرائد نسواں کی تاریخ‘ کی پہلی جلد میں اس رسالے کے متعلق لکھتے ہیں:
"مضامین کا انتخاب معیاری ہے اور حصول مقصد کی شہادت دے رہا ہے۔
تربیت و اصلاح کا جذبہ صادق ہے۔ لکھنے والے تمام کے تمام اپنے عہد کے نامور لوگ ہیں۔
ایک معیاری رسالے کے تمام گُن اس کے اندر ہیں"(ص 288)۔
Dr. Mohd Zakir Husain
Nadwi
Khuda Bakhsh Library
Patna- 800004 (Bihar)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں