21/5/24

خطوط صفیہ اختر، نسائ ادب کا گراں قدر سرمایہ، مضمون نگار: شاداب تبسم

 اردو دنیا، مارچ 2024

دیگر عالمی زبانوں کی طرح اردو میں بھی خطوط نگاری ایک صنف کی حیثیت سے شامل ہے۔ اردو ادب میں مشاہیر کے خطوط کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ مرزا محمد قتیل، غلام امام شہید، غلام غوث بے خبر، رجب علی بیگ سرور، واجد علی شاہ، غالب، حالی، سرسید، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد، مہدی افادی، اکبر الہ آبادی، ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور عبدالحق کے علاوہ دیگر خواتین و حضرات خطوط نگاروں کی بھی طویل فہرست ہے جن کے خطوط، مجموعوں اور رسائل و جرائد میں بکھرے پڑے ہیں۔ اب تک کی تتحقیق کے مطابق اردو کا پہلا دستیاب شدہ خط ایک خاتون کا تحریر کردہ ہے جن کا نام فقیرہ بیگم تھا۔ 1803 میں تحریر کردہ یہ خط کتاب ’واقعات اظفری‘ میںدرج ہے۔ فقیرہ بیگم کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔

خواتین مکتوب نگاری کی فہرست صفیہ اختر کے خطوط کو شامل کیے  بغیر مکمل نہیں کی جاسکتی۔ صفیہ اختر 25 جنوری 1918 کو لکھنؤ کے قصبہ ردولی میں پیدا ہوئیں۔ صفیہ اخترنے علی گڑ ھ اور لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ شاعر اسرار الحق مجاز  اور ادیبہ حمیدہ سالم کی حقیقی بہن، مشہور شاعر جاں نثار اختر کی بیوی اور موجودہ دور کے مشہور شاعر جاوید اختر کی والدہ تھیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بھوپال کے حمیدیہ کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کا انتقال 18جنوری 1953 کو لکھنؤ میں ہوا۔

صفیہ اختر کی شہرت دراصل ان کے خطوط کے منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی۔ جو ان کے انتقال کے بعد ان کے شوہر جاں نثار اختر نے ’حرفِ آشنا‘ (21ستمبر 1958) اور ’زیرِ لب‘ (1954) کے عنوان سے شائع کرائے۔ ’حرف آشنا‘ میں وہ خطوط شامل ہیں جو صفیہ اختر نے اکتوبر 1943 اور نومبر 1947 کے درمیان علی گڑھ، لکھنؤ اور نینی تال سے تحریر کیے تھے۔ ’حرفِ آشنا‘ میں وہ خط بھی شامل ہے جو صفیہ اختر نے شادی سے قبل جاں نثار اختر کو اپنی نسبت کے تعلق سے ارسال کیا تھا۔ 22دسمبر 1949 اور 29دسمبر 1952 کے درمیانی عرصے میں بھوپال، نینی تال اور لکھنؤسے تحریر کیے گئے خطوط ’زیرِ لب‘ میں شامل ہیں۔ یہ خطوط اس وقت تحریر کیے گئے جب صفیہ اختر بھوپال میںتنہا تھیں اور جاں نثار اختر نے سیاسی حالات کے باعث اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے ممبئی کی راہ اختیار کی تھی۔  راقمہ کے  پیش  نظر کتاب ’  صفیہ کے خطوط۔جاں نثار اختر کے نام‘ ہے۔اس کتاب میں دونوں مجموعے ’حرفِ آشنا ‘ اور’زیرِ لب‘ شامل ہیں۔

صفیہ اختر کے خطوط ایک عورت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا وہ لہو ہے جس میں رفیق زندگی کے لیے والہانہ محبت، بے اختیار انہ یاد اور اذیت ناک جدائی کا رنگ گھلا ہوا ہے۔ خطوط کا ایک ایک لفظ روح کی گہرائی سے نکلا ہوا ہے جو جذبات کی شدت، محبت کی پاسداری و وسعت اور صداقت کا آئینہ دار ہے۔ یہ خطوط کیونکہ ایک مشرقی عورت کے ذریعے اپنے شوہر کے نام تحریر کیے گئے ہیں اس لیے ان میں ہندوستانی گھرانے کی تصویر ملتی ہے۔ان خطوط میں بچوں، نوکروں، گاؤتکیوں، فرش پر بچھی ہوئی چاندنی، تخت پوشوں، بلاؤزوں اور ساڑیوں اور بچوں کی معصوم شرارتوں کا ذکر ملتا ہے۔ ساتھ میں ایک شوہر پرست بیوی کے متلاطم جذبات ہلکور ے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صفیہ اختر کے خطوط پڑھنے کے بعد کرشن چندر، جاں نثار اختر کے نام ایک خط میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مجھے معلوم ہوتا ہے جیسے صفیہ کی یہ نازک نسائی تحریر یں ڈاک سے نہیں بھیجی گئی ہیں۔ بادل کے ٹکڑوں پر اتاری گئی ہیں۔ شفق کی موہنی، برسات کی السائی ہوئی شام، آنسوؤں کی طرح چپ چاپ گرتی ہوئی بوندیاں اور محبوب کی یاد، صفیہ کے خطوں میں یہ محسوسات ہمارے پرانے کلچر کی حسین ترین یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے پرانے ادب اور کلچر میں تم جانتے ہو عورت بے زبان اور گونگی نہیں ہے اس کا اپنا کردار ہے اور وقار ہے، جس طرح زندگی کے دوسرے کا موں میں وہ برابر کی حصہ دار ہے، اسی طرح عشق میں بھی وہ برابر کی حصہ دار ہے اور مرد کو اپنا محبوب تصور کرتی ہے۔ اور اس کے اظہار کو گناہ نہیں سمجھتی بلکہ انہیں جذباتی زندگی کی معراج سمجھتی ہے۔ صفیہ نے اس جذبے کو اپنے خطوں میں جس خلوص پاکیز گی اور نسائی خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔وہ اس کے رفعتِ احساس کی دلیل ہے۔‘‘1

 فراق گورکھپوری  رقمطراز ہیں:

’’ذاتی تعلقات اور گھریلو زندگی سے متعلق شوہر کے نام بیوی کے خطوط میں انسانیت کی اتنی قدر یں، مانوسیت اور ہم آہنگی کی اتنی پاکیزہ مثالیں، اسلوب بیان کی بے تکلفی، خلوص صداقت، نیک مزاجی و بلند کرداری کی اتنی جھلکیاں ظرافت کا نمک صحیح معنوں میں جیون ساتھی کا لب و لہجہ جس طرح یہ قدراول کی چیزیں اس کتاب میں موجود ہیں۔ شاید ہی اردو یاکسی بھی زبان میں شوہر کے نام بی بی کے خطوط کے کسی دوسرے مجموعے میں نظر آئیں۔‘‘2

فراق گورکھپوری کی محو لہ بالا رائے سے صفیہ اختر کے خطوط پر بھر پور روشنی پڑتی ہے۔ ’حرف آشنا‘ اور ’زیرلب‘ کا ہر خط صفیہ کا ہی نہیں بلکہ ہر مشرقی عورت کے جذبات کی ترجمانی اور احساسات لطیف کا جیتا جاگتامرقع ہے۔ ان خطوط میں ہندوستانی عورت کی ایک ایسی تصویر نظر آتی ہے جو گھر کی چاردیوری سے نکل کر اپنے شوہر کی زندگی اپنے سماج اور معاشرے میں ایک ذمے دار فرد کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ صفیہ اختر کے نزدیک شوہر کا تصور ایک حکمراں یا دیوتا کا نہیں بلکہ ایک دوست کا تصور ہے۔ اس بات کا اظہار ’حرف آشنا‘ کے دوسرے ہی خط میں اس طرح کرتی ہیں:

’’شوہر کا تصور اب میرے لیے ایک دیوتا کا تصور نہیں۔  ایک دوست کا تصوّر ہے، لیکن ایک ایسے دوست کا جو مجھ سے بہت سی باتوں میں فوقیت رکھتا ہو۔ خیالات میں، ارادوںمیں، عمل میں اور پھر اس فوقیت کو تسلیم کرنے میں مجھے ایک ابدی سکون حاصل ہوتا ہے۔‘‘ 3

صفیہ اختر نے اپنے خطوط میں مرد اور عورت کی   دوستی کے تصور کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے خطوط میں لفظ ’دوست‘ ایسا لفظ ہے جس میں ساری محبتیں اور نزاکتیں سموگئی ہیں۔شوہر کے لیے لفظ ’دوست‘ کا استعمال جگہ جگہ ملتا ہے۔لکھتی ہیں:

’’آؤ تمہاری تھکی تھکی آنکھوں کو پیار کر لوں۔ خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین رہوںگی دوست‘‘4

’’میرے لیے تم ہی سب کچھ ہو، میری عزت کے محافظ، میرے بچوں کے نگراں، میرے دوست، ساتھی اور پھر ایک ہندوستانی عورت کے ساجن۔‘‘5

محبت کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ماں کی محبت بے لوث، بے غرض، جو سب کچھ دے کر ہی سب کچھ پالیتی ہے۔ بہن کی محبت پیار اور لگاؤ کے بدلے پیار اور لگاؤ چاہتی ہے۔ بیوی کی محبت سب کچھ دیتی ہے اور سب کچھ پانے کی دعویدار اور خواہشمند ہوتی ہے۔ صفیہ اختر کے خطوط میں پیار کے سارے رنگ یکجا ہوتے نظر آتے ہیں اور اس امتزاج سے ایک نیارنگ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک عورت جو اپنے شوہر کی دوست ہے۔ اس کی ہمراز ہے۔اس پر جملے کستی ہے۔ کبھی ماں کی ممتا جتاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کبھی بہن کا پیاردکھاتی ہے۔کبھی بھائی کی طرح بازوؤں میں بازو ڈال کر چلتی ہے۔ کبھی ایک عجیب انداز سے شفیق باپ کی طرح سمجھاتی ہے۔ ’زیر لب‘ میں شامل ایک خط میں لکھتی ہیں:

’’آؤ تمھاری پیشانی پر ایسا پیار کرلوں جس میں ماں کی شفقت، بہن کا فخر، بیوی کا ایثار اور دوست کی ملائمت سب کچھ شامل ہومیری جان۔‘‘6

خطوط میں ماں کی بے لوث محبت پیار اور دوست کا جذبہ جھلکتا ہے۔ لکھتی ہیں:

’’اچھا آؤ معصوم بچوں کی طرح ہر آلودگی سے پاک ہوکر میرے سینے پر سررکھ دواختر! میں کبھی کبھی تمھیں وہ محبت بھی دے سکتی ہوں جو بچے کو ماں سے ملتی ہے۔ تاکہ وہ پروان چڑھ سکے۔‘‘ 7

مذکورہ بالا تحریر کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تراشے گئے جملے جاں نثار اختر کے ’گھرآنگن‘ کی رباعیوں کے محرک بنے۔ جاں نثار اختر کی رباعی ملاحظہ فرمائیں           ؎

ہر مصیبت سے بچانے کو تمھیں

ہر طرح کی بات خود پر لے سکتی ہوں

کہتی ہے کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے

میں ماں کا بھی پیار تم کو دے سکتی ہوں8

   صفیہ اختر نے اگر یہ خطوط نہ تحریر کیے ہوتے تو جاں نثار کی شاعری ان رباعیوں سے محروم رہ جاتی۔ ایک خط میں لکھتی ہیں:

’’اختر میری عادت ہوچکی ہے کہ تم فیصلہ کرو اور میں اس پر عمل کروں اس میں مجھے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اگر کبھی اپنی مرضی تم سے منوا لیتی ہوں تو احساس جرم کی کھٹک سی باقی رہتی ہے۔‘‘9

جاں نثار اختر کی رباعی میں اس خیال کی آواز بازگشت اس طرح سنائی دیتی ہے         ؎

میں وہی کروں جو وہ کہیں وہ چاہیں

مجھ کو بھی تو اس بات میں چین آتا ہے

منوا بھی لوں ان سے اپنی مرضی جو کبھی

ہفتوں کو میرا سکون چھن جاتا ہے10

تمام خطوط میں جذبات کی شدت، وفا کا گہرا جذبہ اور ایثار ہی ایثار نمایاں ہے۔یایوں کہا جائے کہ خودسپردگی، بے پناہ محبت اور اپنا سب کچھ قربان کردینے کی شدید آرزو، چاہنے اورچاہے جانے کی تمنا لفظوں میں سمٹ کر صفحۂ قرطاس پر بکھر گئی ہے۔ لکھتی ہیں:

’’میں تمھاری ‘ ہوں اور تمھاری ہر مشکل میری ہے۔ میں ہر مشکل کو راحت میں تبدیل کردوں گی اور ہر دشواری کو تمھارے لیے آسان بناؤں گی۔مجھ پر بھروسہ کرواور خود پر بھی۔ پھر یہ شکست کا احساس تم میں نہ ابھرے گا، ساتھی۔‘‘11

صفیہ اختر کے خطوط کو پڑھتے وقت ناول یا افسانے کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے بھی یہ خطوط منفرد ہیں۔ خطوط کے مطالعے سے ان کی شخصیت کی یہ خوبی بھی اجاگر ہوتی کہ ان کی نظر زندگی کے روشن پہلوئوں پر تھی۔ زندگی کی ہزاروں پریشانیوں کا سامنا کرکے مسلسل علیل رہنے اور شوہر کی بے اعتنائی کے باوجود صفیہ اختر نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہی آہنی عزم اور استقلال ایک عورت کے بلند کردار، صبر اور قوت برداشت کاثبوت ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

’’تم اس طرح جینے کے مفہوم کو بعض اوقات محدودنہ کرلیا کرو۔خود کے لیے نہیں دوسروں کے لیے جیوں، پھر غم تمھار ے پاس نہ پھٹکے گا۔‘12

’’مجھے تمہاری محبت، سرپرستی، تمھارا اعتماد سبھی کچھ حاصل ہے اور تمھیں میری پوری زندگی پھر ہم اپنے کو ہارے ہوئے انسانوں میں کیوں سمجھیں؟ تھک مت جاؤ۔ساتھی۔‘‘13

صفیہ اختر کے خطوط میں چاہنے اور بے پناہ محبت کرنے والی بیوی کی طرف سے اپنے شوہر کے لیے محبت بھرے جذبات کا اظہار ہی نہیں ملتا بلکہ اپنے دونوں بیٹوں جادو(جاوید اختر) اور اویس(سلمان اختر) کی شرارتوں، کپڑوں، اسکول کی تعلیم، ان کی بیماری کا ذکر بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود صفیہ اختر اپنے خطوط میں انسانی رشتوں کے لیے بے چین نظرآتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ انسانی اقدار کی قائل تھیں۔خطوط کے مطالعے سے تمام فرائض بخوبی انجام دینے والی ذمے دار عورت اور چراغ خانہ ہونے کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے کی علالت کا ذکر ایک خط میں اس طرح کرتی ہیں:

’’اچھا اختر دعا کرو میرا بیٹا اچھا ہوجائے۔ میری دولت تو یہی ہے میری زندگی انھیں بیساکھیوں پر قائم ہے۔‘‘14

صفیہ اختر کے خطوط میں عورت کی طرف سے جو گرم جوشی، محبت اور تصور عشق کا جذبہ ہر لفظ میں اپنی تمام رنگینیوں، وسعتوں، سرمستی اور سوزوگداز کے ساتھ نظر آتا ہے۔اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ہندی شاعری میں تو عورت کی طرف سے فریفتگی اور خود سپردگی کا اظہار ملتا ہے۔ لیکن فارسی اور اردو شاعری میں عورت کی طرف سے اظہار محبت مختصر اور بڑی حدتک تخیلی ہے۔ صفیہ اختر نے محبت کے جذبے کو جس خلوص، پاکیزگی اور نسائی خوبصورتی سے ادا کیا ہے اس پر شاعری کو بھی رشک آجائے۔

صفیہ اختر کے نزدیک ذہنی وابستگی ازدواجی زندگی کی محبت اور پاکیزگی کی سب سے اہم اور بڑی بنیاد ہے۔ ذہنی وابستگی کے بغیر دوزندگیوں کا تصور بے معنی ہے۔ ایک خط میں لکھتی ہیں:

’’اب تم زندگی کے خارجی مناظر میں ایک رفیق کا اضافہ کرچکے ہو، یہ رفاقت ذہنی دنیا کے لیے بھی تو ضروری ہے۔ اگر میری ذات تمہارے لیے Intellectual Companionنہ بھی ہو تو پھر یہ ظاہری رفاقت جلد ہی تمھارے لیے وبال ِ دوش بن جائے گی۔‘‘ 15

صفیہ اختر کے خطوط سادگی، سلاست، بے ساختگی اور ساتھ ساتھ رنگینی و رعنائی الفاظ کے حسن انتخاب کے ایسے نمونے ہیں جو ادب نوازی اور ادب شناسی کی پوری طرح غمازی کرتے ہیں۔ خطوط میں جگہ جگہ اشعار کا حوالہ نکھرے ہوئے ادبی ذوق، طبیعت و مزاج کی لطافت و موزونیت کا ثبوت ہیں۔اشعار کے علاوہ تنقید ی شعور بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اجاگر ہے۔ سرور اور احتشام حسین کی تنقید نگاری پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’سرور صاحب کا حال تو بس یوں بھی ہے اور یوں بھی والا ہے۔ احتشام صاحب شریف نقاد۔ دراصل ہمارے ادب کو ایک بلنسکی کی ضرورت ہے۔ نقاد کا Attitude مصنف کی طرف ہمدردانہ ہونا چاہیے۔لیکن تنقیدی اصولوں کو نرم کرنے کی چھوٹ تو نہیں دی جاسکتی۔‘‘16

 خطوط میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے جواہر پارے مل جاتے ہیں۔ جوان کی علمی معلومات اور فکر کی گہرائی کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔ کچھ خطوط ایسے بھی ہیں جن میں انھوں نے اپنی عزیز ترین ہستی یعنی جاں نثار اختر پر بھی انگلی اٹھانے سے گریز نہیں کیا ہے۔

30اپریل 1952 کو صفیہ اختر علاج کی خاطر بھوپال سے لکھنؤ سے روانہ ہوگئیں۔ کافی علاج ہوا لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ جسم کی کھال خشک اور سکڑتی رہی۔ بیماری کی وجہ سے قلم ہاتھ سے پکڑا نہیں جاتا تھا۔ اس لیے زندگی کے آخری دور میں اپنی بہن حمیدہ سالم سے خط لکھوایا کرتی تھیں۔لکھتی ہیں:

’’آخر یہ خاموشی کیوں تمھارا تغافل کل کا مرتا آج ہی مار ڈالے گا تم میری حالت آکر تو دیکھو۔ میرے خط جلدی نہیں ملتے تو روٹھ جاتے ہو۔ میری جان میرا جسم اکڑ کر رہ گیا ہے۔ انگلیوں کا حال یہ ہے کہ قلم تک نہیں پکڑا جاتا۔ نہ جانے کیسے کر کے چند سطریں لکھ لیتی ہوں۔ اختر اب حمیدہ سے خط لکھوایا کروں گی۔ تم اس تجویز سے ناراض نہ ہونا۔‘‘17

 صفیہ اختر کے خطوط میں ہجر ووصال کا ذکر رنگین ہے، محبت کی فراوانی ہے۔خطوط کی زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ ان میں مختلف قسم کے مسائل ہیں لیکن تلخی اور غیظ و غضب کہیں نہیں ہے۔ خطوط میں کسی فلسفے کا اظہار نہیں ہوتا اور نہ ہی تصنع اور بناوٹ ہے۔ صاف گوئی، وقار، ٹھہراؤ، تہذیب، اور سچی محبت کی جلوہ گری کے ساتھ خطوط میں جذبات کا بہاؤ ہے تو فکر کا ٹھہراؤ بھی موجود ہے۔ بقول فراق گورکھپوری:

’’یہ خطوط ایک ایسا انسانی نوشتہ یادستاویز (Human document) ہیں جس کی مثال بسااوقات اچھے اور کامیاب ادب میں بھی نہیں ملتی۔ ان خطوط کی ادبیت اگر تابناک ہے تو ان کی انسانیت تابناک تر ہے۔ ہر خط میں ایک من موہنی شخصیت کا دل دھڑکتا ہوا سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔ آپ بیتی اور جگ بیتی کا سنگم ہر خط میں نظر آتا ہے۔ کاش اردو میں ایسی کتابیں دستیاب ہوتیں، لیکن آئے دن ایسی کتابیں کہاں شائع ہوتی ہیں۔‘‘18

صفیہ اختر اردو ادب میں ایسے اسلوب نگارش کی نمائندگی کرتی ہیں جو بقول ’’باقر مہدی درد کی آنچ اور شبنم کی خنکی کا امتزاج ہے۔‘‘ مطالعہ وسیع اور شعور پختہ ہے۔ ساتھ ہی ان اقدار کی نمائندگی بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ جو آج کی عورت کی منزل ہے۔ جو آج کی Feminist تحریک کی بنیاد ہے۔ خود اعتمادی، اپنے مسائل کا مقابلہ کرنے کی جرأت، اور مرد کے شانہ بہ شانہ چلنے کی سکت ساتھ ہی نسائیت کی ملائمت اور نفاست، ممتا کا جذبہ، ایثار ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفیہ اختر کے خطوط اردو مکتوب نگاری میں گنج گراں مایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

 

حواشی

1          صفیہ کے خطوط: جاں نثار اختر کے نام،ترتیب پبلشر ز، میاں مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ اردو بازار، لاہور،ص 215

2          ایضاً، ص 207

3          ایضاً، ص23

4          ایضاً، ص152

5          ایضاً، ص152

6          صفیہ کے خطوط،ص 230

7          ایضاً، ص 348

8          گھر آنگن:جاں نثاراختر، مکتبہ شاہراہ، اردو بازار،دہلی، 1971،ص83

9          صفیہ کے خطوط، ص312

10        گھر آنگن: جاں نثار اختر،ص85

11        صفیہ کے خطوط،ص348

12        ایضاً، ص 349

13        زیرلب، ص180-82

14        حرف آشنا،ص189

15        ایضاً، ص41

16        ایضاً، ص414

17        ایضاً، ص445

18        ہم ساتھ تھے۔حمیدہ سالم۔انجمن ترقی اردو( ہند ) نئی دہلی، 1999،ص208

 

 

Dr. Shadab Tabassum

R/O, 23/14,  Zakir Nagar, Okhla

New Delhi- 110025

Mob.: 09999149012 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ تمدن ہند، مصنف: محمد مجیب

  اردو دنیا۔ اکتوبر 2024 فن تعمیر آٹھویںصدی تک مندر کے نقشے اور اس کے لازمی اجزا کا تعین ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تعمیری سرگرمی کا ایک دور ...