اردو دنیا، مارچ2024
سراپا درد ہوں‘ ایک ہستی محرومِ
درماں ہوں
میری فطرت کا ہر ذرہ ہے محوِ خود
فراموشی
بظاہر آئینہ ہوں اور بباطن راز
پنہاں ہوں
مثالِ شمع گریاںہوں برنگِ
نے ہوں فریادی
کبھی ویرانہ مسکن ہے کبھی زیبِ
گلستاں ہوں
یہ دھیمی سی نوا ‘ تفسیرہے
جذباتِ پنہاں کی
نہ شاعر ہوں‘ نہ اہلِ فن ‘ نہ ہم
بزمِ سخنداں ہوں 1
معنویت سے بھر پور جذب و تاثیر
میں ڈوبے درجہ بالا مذکور اشعار بشیر النساء بشیر کی فکر ودانش، ان کی خود آگہی اور
شاعرانہ کمال کے ترجمان ہیں۔ بشیر النساء بشیر حیدرآباد کی مایہ ناز شاعرہ تھیں۔ وہ
ایک حساس قلم کار تھیں۔ ان کی شخصیت میں سیاسی وسماجی شعور بہ درجہ اتم موجود تھا۔ان
کی تحریریں عصری آگہی اور فن کاری کا بہترین امتزاج ہیں۔انھوں نے شاعری کے علاوہ مضامین
بھی تحریر کیے ‘لیکن زیادہ تر توجہ شاعری پر ہی مرکوز رکھی۔انھوںنے مختلف اصنافِ سخن
میں طبع آزمائی کی‘ اور ہر صنف کو اپنا خونِ جگر دے کر ادبی شاہکار بنادیا۔ بشیر النساء
بشیر‘ صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ان کا دیوان
’آ بگینۂ شعر ‘ کے عنوان سے 1948 میں ادارہ ادبیاتِ اردو‘ حیدرآباد سے شائع ہوا۔
’آبگینہ شعر‘‘ کا دیباچہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے لکھا۔بقول ڈاکٹر زور :
’’ محترمہ بشیرالنساء بیگم صاحبہ عہدِحاضر کی باکمال خاتون ہیں جن کا
کلام اردو دنیا میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے۔‘‘ 2
بشیر النساء بشیر اپنے وقت
کی انتہائی مقبول اور کہنہ مشق شاعرہ تھیں۔ان کا کلام ہندوستان کے موقر رسائل میں شائع
ہوتا تھا۔بشیر نے یوں تو ابتدائی عمر سے ہی مشقِ سخن شروع کردی تھی لیکن ان کے کلام
کی اشاعت کا سلسلہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں شروع ہوا۔اس حقیقت سے تقریباً سب
ہی کما حقہ واقف ہیں کہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اردو ادب‘ خاص کر ’ نسائی
ادب‘ کو بہت فروغ ملا۔اصنافِ ادب، موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے اس دور کو عروج کا
دور بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔خواتین کو لکھنے پڑھنے اور تخلیقی اظہار کے ساتھ ساتھ
انھیں شائع کروانے کے بھی مواقع ملنے لگے۔ جس کے نتیجے میں بہ حیثیت ادیبہ یا شاعرہ‘
کئی قلم کار خواتین کے نام اردو کے ادبی افق پر جگمگانے لگے تھے۔ ایسے ادبی ماحول میں
بشیر نے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا۔ گذرے برسوں کی تخلیق کار خواتین کے مقابلے میں بشیر
النساء بشیر کو حیدرآباد کے سازگار ادبی ماحول کے علاوہ ورثے میںنسائی شاعری کی بڑی
توانا روایت بھی ملی تھی۔
بشیر النساء بشیر کے حالاتِ
زندگی
بشیر النساء بشیر 1915 میں شہرِ
حیدرآباد میںپیدا ہوئیں3 وہ انتہائی مذہبی اور ادب کے شیدا خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد مولوی عبدالرحمن
‘ پنجاب کے رہنے والے تھے۔وہ پنجاب کے مشہور ملک خاندان کے چشم وچراغ تھے۔روزگار کے
مسائل نے انھیں پنجاب سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو وہ ملازمت کے سلسلے سے حیدرآباد
آگئے تھے۔وہ حکومتِ نظام کے محکمہ سیاسیات میں مدد گار کے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں
اردو، فارسی اور عربی زبان میں خاصی مہارت حاصل تھی۔ بشیر کی والدہ شمس النساء بیگم
کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ وہ مرزا صادق علی بیگ ‘ تعلقدارکی بھانجی تھیں۔ شمس النساء
بیگم کی پرورش ان ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ مرزا صادق علی بیگ نے گھر پر اپنی نگرانی میں
شمس النساء بیگم کی تعلیم کا انتظام کیا تھا۔وہ عربی اور فارسی میں خاصی مہارت رکھتی
تھیں اور ان کا ادبی ذوق بھی بلند تھا۔علاوہ ازیں خطاطی اور خوش نویسی میں بھی مہارت
حاصل کرلی تھیں۔وہ خطِ نستعلیق میں بڑی خوبصورت تحریر لکھتی تھیں۔ اس خصوصیت کی بناء
پر انھیں ’ شمس رقم‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔4شمس النسا بیگم کا شمار اس وقت کی
بیدار مغز خاتون میں ہوتا تھا۔ چونکہ خطابت کے فن سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھیں‘ اسی
لیے میلاد کی زنانہ محفلوں اور محرم کی مجالس میں خاص طور پر مدعو کی جاتی تھیں۔بہترین
خطابت کی وجہ سے وہ کافی مشہور ہوگئی تھیں۔5
بشیر نے اپنے والدین کے انتقال
پر جو نظمیں لکھی ہیںان کے اشعار میں محبت وعقیدت کے بے پناہ جذبات کی فراوانی کو محسوس
کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنی والدہ کی رحلت پر نظم’ ورقِ غم‘ اور والد کی یاد میں
ایک نظم بہ عنوان’’ یادش بخیر‘‘ لکھی تھی۔دونوں نظموں کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے ؎
(الف)
اے میری غم خوار مادر تجھ
کو میں پائوں کہاں
عہدِ طفلی میں تری آغوش تھی
میرا مکاں
کتنے جو کھم میں رہی ہے میری جانِ
ناتواں
بات کرنے سے بھی واقف نہ تھی میری
زباں
ہم نے تیرے شیر سے جوشِ نمو حاصل کیا
تو نے گاڑھے وقت میں حلِ عقد،شکل
کیا
فکر سے،غم سے، مصیبت سے ہمیں
غافل کیا
تو نے کن کن محنتوں سے ہم
کو اس قابل کیا
(نظم ورقِ غم)6
(ب)
مرعوب تیرے سامنے ہر با کمال
تھا
وہ تیری بارگاہ میں جاہ و جلال
تھا
وابستہ تیرے نام سے میری حیات ہے
تیرا ہی التفات مری کائنات ہے
تجھ سے مری نگاہ کو ذوقِ نظر
ملا
تیرے کمال ہی سے جلالِ ہنر ملا
تیری شعائیں جذب ہیں میری حیات
میں
تیرے تاثرات ہیں ضم میری ذات میں
(نظم یادش بخیر)7
بشیر النساء بشیر کی تعلیم
باقاعدہ طور پراسکول میں انجام نہیں پائی ‘بلکہ علمی استعداد‘ انھیں گھر پر ہی حاصل
ہو ئی۔ اردو،عربی اور فارسی کی تعلیم گھر پر دی گئی۔ نامور شعرا اور ادیبوں کی نگارشات
کے مطالعے اور گھر کے ادبی ماحول کے نتیجے میں ان میں ابتدائی عمر سے ہی ادبی ذوق پیدا
ہوگیا تھا۔بعد کے برسوں میں ادب کے وسیع مطالعے اور زندگی کے مختلف رموز کے مشاہدات
نے ان کی فکر کو گہرائی و گیرائی عطا کی۔ کم عمری سے ہی ان کے مشقِ سخن کی ابتدا ہو
گئی تھی‘ لیکن اس میں مزید نکھار ان کی شادی کے بعد آتا گیا۔بشیر کی یہ خوش قسمتی
تھی کہ انھیں والدین کے علاوہ سسرال میں بھی ادب دوست ماحول نصیب ہوا۔ سسرال کے سازگار علمی وادبی ماحول میں بشیر کی شاعرانہ صلاحیتیں حد درجہ نکھرتی گئیں۔ان کے
شوہر مرزا ضامن علی غازی اور سسر‘ اکرام علی صفوی ‘کی حوصلہ افزائیوں نے بشیر کو ادبی
وسماجی سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے کے قابل بنایا۔
بشیر اپنے سسر کے کہنے پر
صادق حسین غبار کے علاوہ ‘علی حیدر نظم طبا طبائی اور ابو ظفر عبدالواحد عاقل سے بھی مشورۂ سخن کرتی رہیں اور اپنے ذوقِ ادب
کو جلا بخشتی رہیں۔ بشیر کے دل میں اپنے سسر
کی بہت عزت تھی۔ بشیر کی ادبی نگارشات کو سب سے پہلے سننے اورسراہنے والوں میں ان کے سسر ہی ہوا کرتے
تھے۔ نظم ’رودادِ دلخراش‘ میں اکرام علی صفوی کے لیے بشیر کے جذبات اور بشیر کی ادبی
زندگی میں ان کے اہم مقام کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم بشیر نے اپنے سسر کی رحلت
پر لکھی تھی۔ ایسی مثال اردو ادب میں شاید ہی دیکھنے کو ملے ؎
ہائے کیا کیجیے بیاں‘ لطف
ِ بیاں جاتا رہا
اب کہاں قدرِ سخن جب قدر داں جاتا
رہا
لوگ کہتے ہیں مجھے ذوقِ سخن
اب کیوں نہیں
ذوق کیا باقی رہے جب ذوق داں
جاتا رہا
داد دے گا کون اب سن کرمیرے
اشعار کی
شمع محفل اور چراغ ِ خاندان جاتا
رہا
پھول گلشن میں کھلیں لاکھوں
مگر اب کیا فائدہ
سب بہاریں ہیچ ہیں جب باغباں جاتا
رہا8
بشیر النساء بشیر کے شاعرانہ
کمالات:
بشیر کا دیوان 1944 میں مرتب ہوچکا
تھا‘لیکن اس کی اشاعت 1948 میں عمل میں آئی۔ اس دیوان کی اشاعت سے قبل ان کی دوطویل
نظمیں علیحدہ کتابی صورت میں شائع ہوئی تھیں۔ نظم ’رافتِ سلطانی‘ نواب میر عثمان علی خاں کی تخت نشینی کے پچیس برس
کی تکمیل پر’ جشنِ سیمیں ‘کے موقع پر لکھی گئی‘ اور ’انجمن سراج الخواتین ‘ کی جانب
سے 1355ھ مطابق 1936میںمنعقدہ ایک باوقار تقریب میں پڑھی گئی ‘جبکہ ’ جانباز ملت ‘
قائدِ ملت بہادر یار جنگ کی رحلت پر لکھی گئی نظم ہے ‘ جو 1363ھ مطابق 1943 میں کتابی
شکل میں شائع ہوئی۔ دونوں نظمیں معمولی رد وبدل کے ساتھ ان کے دیوان ’ آ بگینۂ شعر‘
میں بھی شامل ہیں۔ ’آبگینہ شعر‘ میں 1927 سے لکھا گیا کلام شامل کیا گیا ہے اور مختلف
عنوانات کے تحت سنہ وار ترتیب دیا گیا ہے۔ عنوانات کچھ اس طرح ہیں۔حضورِ یزداں
میں، نذرِ رسالت، افکار و اذکار۔حدیث ِ دکن، خانوادہ آصفی،سازِ غزل،یادِ رفتگان،سوز
وساز۔کلام کی اس طرزِ ترتیب سے ان کے فکر وخیال اور طرزِ اظہار کے ارتقا کو بھی سمجھا
جا سکتا ہے۔ بشیر ’ آبگینۂ شعر‘ کی ابتدا ان اشعار سے کرتی ہیں ؎
مرا ضمیر ہے بے تاب ِ جستجو
اس میں
جھلک رہی ہے مرے دل کی آرزو اس
میں
بشیر کیا کہوں کیا شئے ہے
’آبگینۂ شعر ‘
مری سرشت ہے خود میرے روبرو اس
میں
بشیر النساء بشیر کے دیوان میں متنوع موضوعات اور مختلف اصنافِ شاعری
موجود ہے۔ دیوان میں فکر انگیز اور درد بھری نظمیں، شخصی غم و اندوہ سے بھرے مرثیے،
عقیدت میں ڈوبے حمد،نعت اور منقبت، بہترین قطعات و رباعیات اور تغزل اور سوز وگداز
سے بھری غزلیں شامل ہیں۔ان کا کلام زبان وبیان کی دلکشی،خیال کی بلندی اور جدت آفرینی
کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ان کے کلام میں عام فرد کی زندگی سے جڑے موضوعات کا اتنا زیادہ تنوع
موجودہے کہ وہ مختلف سطحوں پر انسانی فکر کو ایک طرف مہمیز کرتا ہے تودوسری طرف اس
کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔
بشیر النساء بشیر نے غزل گوئی میںغالب اور مومن کے رنگ کو کسی حد تک اپنایا ‘لیکن ان کے
کلام کے مطالعے سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علامہ اقبال کی شاعری اور ان کی فکر
ی جہات سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ انھوںنے علا مہ اقبال کے کلام سے خوب اکتساب کیا ہے۔اقبال کا رنگ ان کی نظموں اور غزلوں دونوں میں موجود ہے۔انھوں
نے اقبال کی طرز میں غزلیں بھی کہی ہیں اورکائنات میں انسان کے وجود کی اہمیت سے متعلق
فکر وخیال سے اپنی نظموں کو بھی خوب سجایا
ہے۔ ایک پر درد نظم میں اقبال کا رنگ ملاحظہ فر مائیے ؎
حقیقت میں وہی انسان ہیں جو کچھ
کام کرتے ہیں
سر اپنا دے کے اپنی سر زمیں کا
نام کرتے ہیں
یوں ہی گر بے عمل بیٹھے رہیں ہم
آشیانوں میں
’’ ہماری داستاں تک بھی نہ
ہوگی داستانوں میں‘‘
(نظم شعبہ نسواں)9
بشیر نے نظموں کی بہ نسبت
غزلیں کم کہی ہیں‘ لیکن ان کی غزلیں بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔ نظموں کی طرح
بشیر نے غزلوں میں بھی روایتی موضوعات سے پرہیز کیا ہے۔ان کی غزلوں میں بھی وہی فلسفۂ
زندگی نظر آتا ہے‘ جو مثبت سوچ وفکر کا حامل ہے۔ان کی غزلوں کی خصوصیات کا جائزہ لیتے
ہوئے کہکشاں تبسم لکھتی ہیں:
’’ ان کی غزلوں میں انسانی ہم دردی، قومی جذبات، نسائی وقار و عظمت
کے ساتھ فکر و خیال کی بلندی اور پا کیزگی بھی نمایاں ہے۔لہجہ پر لطف اور پرسوز ہے۔‘‘10
بشیر النساء بشیر کی شاعری
میں نسائی حسیت
بشیر النساء بشیر کی شاعری
میں خواتین کی پست حیثیت کے متعلق فکر مندی اور حقوقِ نسواں کی حصول یابی کی تڑپ کا
پہلو نمایاں نظر آتا ‘ہے۔ سماج میں خواتین کی ارزاں حیثیت،ان کے وجود کی اہمیت وعظمت
اور ان کے متعلق سماجی نظریات کے موضوع پر
بشیر نے کئی فکر انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں ‘نظامِ ہستی اور ہم1938، حدیثِ
نسواں، فریضۂ امہات (1942)، عورت (1943) بیداریِ اناث1944، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ
دیگر نظموں‘ جیسے نذرِ دکن،غنچۂ نورس،شعبئہ نسواں،تاسیس مدرسئہ بالغات، رافتِ سلطانی وغیرہ میں بھی تعلیم وترقی نسواں کے
متعلق ان کے فکر وخیال اور تدبر کے کئی عکس نظر آتے ہیں۔ بشیر کائنات میں عورت کے
متعلق اگرچہ کوئی انقلابی فکر نہیں رکھتی تھیں لیکن وہ اس کے تقدس اور خاندان وسماج
میں اس کی عظمت و اہمیت سے واقف تھیں اسی لیے اپنے کلام میں اس کی وضاحت کرتی ہیں ؎
قائم وجودِ زن ہی پہ غیرت
ہے قوم کی
ان ناتوان ہاتھوں میں عزت
ہے قوم کی
عورت سے ہے مکان مکانوں سے
شہر ہے
شہروں سے ملک‘ ملک سے قائم
یہ دہر ہے
روزی معاش ‘ رزق کمانے میں کچھ
نہیں
عورت ہی جب نہیں تو زمانے
میں کچھ نہیں 11
خواتین کی فلاح وبہبود میں بشیر
نے جو کچھ لکھا ‘وہ تمام ادبیات کسی نہ کسی زاویے سے دعوت غور وفکر دیتی ہیں۔ بشیر نے حقوقِ نسواں کی جہد کار کی طرح سماجی سطح پر
انقلابی نعرے نہیں لگائے لیکن اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے بڑی خاموشی سے خواتین
میں اپنے مقام ومرتبے اور حقوق کے متعلق بیداری پیدا کرنے کی نہایت کامیاب کو شش کی۔
بشیر کی فکر انگیز نظمیں سن کر محفل میں موجود خواتین اپنے وجود کی اہمیت اور فعال
سماجی زندگی کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتی تھیں۔ ہندوستانی سماج میں عورت کے وجود
کی ارزانی اور قومی ترقی کے لیے اس کی بھر پور حصے داری کی ضرورت کا بھرپور احساس تھا۔تاریخی
ادوار میں عورت نے جو اہم کردار اداکیے تھے ان پر وہ فخر کرتی تھیں اور دوبارہ اسی مقام و مرتبے کو حاصل کر نے کے لیے خواتین کو آمادہ
کر تی تھیں۔ اس ضمن میںچند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
صنفِ نازک جسے کہتے ہیں یہ
اربابِ نظر
ہے اسی ذات پہ قوموں کی ترقی
کا مدار
لازمی ہے کہ بنے قابلِ خدمت
یہ بھی
کام کیوں کر وہ کرے جس کا ہو بازو
بے کار
اپنی تاریخ پہ جس وقت نظر
پڑ تی ہے
ہم پہ ہو تے ہے عیاں اپنے
نمایاں کردار
کس قدر زودِ فراموش ہے بے حس دنیا
آج کہتی ہے ہمیں ’ ناقص و عضو
بے کار‘
تھا قدم عالم ِ اسلام میں
پہلا کس کا
کس کی جراء ت پر تھے انگشتہ دنداں
کنار
چاند بن کر کیا دنیا کو منور کس
نے
کس نے اکبر کے مقابل میں اٹھائی
تلوار
کس کے افسانے سے توقیر ہے
جھانسی کی سوا
سطوتِ نور جہاں سے ہے کسی
کو انکار
یاد رکھو کہ ہے یہ عالم ِ
ہستی ہم سے
ہم جو مٹ جائیں تو مٹ جا ئیں گے
یہ لیل و نہار 12
بشیر اس حقیقت سے اچھی طرح
واقف تھیں کہ مرد اساس سماج کی قید و بند کے نتیجے میں عورت پسماندگی کا شکار ہو گئی۔اسے
اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اورسماج میں باشعور وفعال فرد کی طرح زندگی گزارنے کا موقع
نہیں دیا گیا۔ اسے ہمیشہ بے عقل، محکوم اور کمزور سمجھا گیا۔ان نظریات کو عورت نے بھی
قبول کرلیا تھا اور خود آگہی سے دور چلی گئی تھی۔ان خیالات کو بشیر نظم ’ حدیثِ نسواں
(دورِ عثمانی میںخواتینِ دکن کی ہر جہتی ترقی کی اجمالی روئداد)‘ میں پیش کیا ہے۔وہ
لکھتی ہیں ؎
علم وخرد سے عاری ہمارا کلام تھا
تعلیم کا خیال نہ کچھ انتظام تھا
محکوم سب کے ہم تھے،یہی اپنا کام
تھا
اور ’ناقصات العقل‘ ہمارا
ہی نام تھا
ہم سب کے سر کا بوجھ تھے دنیا
پہ بار تھے
خود اپنی ہی نظر میں ذلیل
اور خوار تھے13
وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سماج
میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور عورت کی تعلیم اور ترقی کے نظریات عام ہونے لگے۔اس ضمن
میں مختلف کو ششیں کی گئیں ‘جس کے نتیجے میں تعلیمِ نسواں کا فروغ ہوتا گیا۔ چونکہ
مملکتِ آصفیہ میں بھی عرصے تک تعلیمِ نسواں کا کو ئی باقاعدہ نظم نہیں تھا۔ گھریلو
سطح پر لڑکیوں کی تعلیم ہوا کرتی تھی۔ لیکن نظام ششم نواب میر محبوب علی خان کے دور
میں سر براہانِ حکومت کے ساتھ ساتھ ذی شعور افراد نے اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دی
اور لڑکیوں کے لیے مدارس قائم کرنے شروع کیے۔ پھر نظام ہفتم میر عثمان علی خاں کے عہد
میں تعلیم اور ترقی ِ نسواں کے ضمن میں مختلف النوع کو ششیں کی گئیں‘جس کے نتیجے میں
خواتین کی تعلیمی و سماجی حیثیت میں ایک انقلاب آفریں تبدیلی آتی گئی۔جس کا حوالہ بشیر النساء بشیر کی اسی نظم ’حدیث ِ نسواں‘میں
ملتاہے۔ وہ لکھتی ہیں ؎
علم و ادب سے آج ہر اک گھر
ہے بوستاں
فنی، تمدنی، ہوئیں حاصل ترقیاں
یہ اک کرشمہ شہ عثمان ہے اب
یہاں
لڑکوں کی طرح پاتی ہیں اسناد لڑکیاں
بنیاد عہد شہ میں ہوئی گرل
گائیڈ کی
اس دور میں زنانہ کلب کی بنا ہوئی
قائم ہوئی ہیں انجمنیں اور
بھی یہاں
جلسے کہیں ہیں اور کہیں بزمِ
سخنوراں
محرومِ علم اب نہ تو لڑکے نہ لڑکیاں
گھر گھر سے اب ترقی تعلیم
ہے عیاں
ممنون و مطمئن نظر آتے ہیں آج
ہم
سرکار کے طفیل سے کرتے ہیں راج
ہم14
بشیر النساء بشیر کی مذکورہ
نظم سماج میں عورت کے بدلتے موقف کی ایک مکمل تاریخ ہے۔تاریخ رقم کرنے میں کئی سو صفحات
درکار ہوتے ہیں ‘لیکن بشیر نے اس نظم میں سادہ زبان اور رواں اسلوب میں انتہائی چابکدستی
سے دورِ عثمانی کی مکمل معاشرتی تاریخ رقم کردی ہے۔اس نظم کے آئینے میں ماضی تا حال
دکن کی خواتین کے بدلتے موقف کے ساتھ ساتھ ترقی نسواں کی تمام ترسرگرمیوں کی واضح تصویر
دیکھی جاسکتی ہے۔جیسا کہ اس نظم کا عنوان ہی بشیر نے ’’ خواتینِ دکن کی ہر جہتی ترقی
کی اجمالی روئدادا‘‘ دیا ہے اور اس عنوان سے پورا انصاف کیا ہے۔ زیرِ بحث نظم کے حوالے
سے نہ صرف بشیر کے سماجی شعور کا پتہ چلتا ہے‘ بلکہ طبقہ نسواں کی پسماندگی پر ان کی
تڑپ اور تعلیم وترقی نسواںسے متعلق ان کی حد درجہ دلچسپی کو بھی محسوس کیا جا سکتا
ہے۔بشیر نے تعلیم وترقی نسواں کے لیے صرف قلم کا ہی سہارا نہیں لیا ‘ بلکہ عملی طور
پر بھی انھوں نے حصے داری نبھائی۔ وہ ادارہ ادبیاتِ اردو کے’شعبۂ نسواں‘‘ سے وابستہ
تھیں۔ یہ شعبہ 1939میں قائم کیا گیا۔ اس شعبے کے تحت ’ مدرسہ بالغات‘ کی شروعات کی
گئی تھی اور ایسی لڑکیوں و خواتین کے لیے تعلیم کے حصول کا نظم کیا گیا تھا جنھوں نے
کسی وجہ سے تعلیم ترک کردی تھی۔ شعبے کی سر گرمیوں میں وہ بھر پور حصہ لیا کرتی تھیں۔
بشیر النساء بشیر نے ‘نہ صرف اپنے فکر انگیز کلام سے اردو ادب کے
سر مایے میںگوناگوں اضافہ کیا ‘بلکہ مختلف علمی وادبی موضوعات پر نثری تحریروں سے بھی
اردو زبان کو سر فراز کیا۔ اگر چہ انھوں نے نثر پر کم توجہ دی اور شاعرانہ اظہار کو
اپنی فکر کے اظہار کا ذریعہ بنائے رکھا لیکن جو مضامین لکھے وہ اعلیٰ معیار کی نثر
میں شمار ہوتے ہیں۔ خواتین کے جلسوں میں انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین بھی پیش
کیے۔ان کے مضامین موقر رسائل میں شائع بھی ہوئے۔اس کے علاوہ ان کے مضامین ریڈیو سے
بھی نشر ہوئے۔ بقول خواجہ حمیدالدین شاہد‘ وہ ایک اچھی انشا پرداز ہیں۔مختلف مو ضوعات
پر ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں‘‘15جبکہ ڈاکٹر حفیظ قتیل ان کی نثر کے متعلق لکھتے
ہیں:
’’ بشیر النساء بشیر اچھی انشا پرداز بھی ہیں۔کئی مضامین، کتابوں کے
مقدمے، اور ریڈیو کے لیے تقریریں لکھتی رہی ہیں۔ان کے مضامین کا مجموعہ مرتب ہوچکا
ہے۔‘‘ 16
الغرض بشیر النساء بشیر نے
اپنی شاعری اور نثری تحریروں سے اردو زبان کے سرمایے میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ اس
کے معیار اور خاص کر نسائی ادب کے حوالے سے خواتین کے وقار کو بلند کرنے کا باعث بنیں۔قابلِ
ذکر بات یہ ہے کہ بشیر جب تک حیات تھیں تب تک وہ مسلسل مشقِ سخن کرتی رہیں۔ آخر کے
چند برسوں میں وہ فریش رہیں لیکن ماباقی برس ذہنی وجسمانی طور پر بہتر تھیں۔ حیدرآباد
کی اس دانشور خاتون اور باکمال شاعرہ کا کلام رسائل میں شائع ہوتا رہا لیکن ان کے دیوان( اشاعت 1948 )
کی اشاعت کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی‘ جبکہ وہ 1972 تک زندہ رہیں۔انھوں
نے اس پورے عرصے میں بہت کچھ لکھا اور اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔جیسا کہ ڈاکٹر
رضیہ صدیقی بصیر لکھتی ہیں:
’ آبگینہ شعر‘ کے علاوہ ان کا غیر مطبوعہ کلام کافی تعداد میں موجود
ہے۔اس غیر مطبوعہ کلام کا ذخیرہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر اسے کاٹ چھانٹ کر بھی چھاپا جائے
تو کم از کم دو تین مجموعے اور نکل سکتے ہیں۔ایک خالص مقالہ دو حصوں میں بعنوان ’ اقبال
ہماری نظر میں اور ہم اقبال کی نظر میں‘ لکھا گیا ہے۔جس پر کچھ اضافہ کے ساتھ پی ایچ
ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے۔اس کی نثر بڑی مسجع اور بڑی عرق ریزی سے تیار ہوئی ہے۔‘‘ 17
یہ حیرت کا مقام ہے کہ بشیر
النساء بشیر کے انتقال کو کئی برس گذر گئے لیکن ان کے غیر مطبوعہ کلام یا ان کے مضامین
کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوسکا۔کسی ادارے یا انجمن نے اس جانب پہل نہیں کی اور نہ ان
کے افرادِ خاندان میں کسی نے یہ کوشش کی۔ اس ضمن میں مزید تلاش وتحقیق کے نتیجے میں
یہ حقیقت بھی کھلی کہ اب ان کا غیر مطبوعہ کلام یا ان کے مضامین کسی کے پاسبھی دستیاب
نہیں ہیں۔ا ن کی نگارشات کو محفوظ نہیں ر کھا گیا۔افسوس کہ ایک ایسی شاعرہ اور ادیبہ
جو ساری عمر اپنے وطن اور ہم وطنوں پر محبت وعقیدت کے پھول نچھاور کرتی رہی اور اپنے
فکر و دانش بھرے افکارسے نہ صرف معاشرے کی رہنمائی کرتی رہی بلکہ گنج ہائے گراں مایہ
ادبیات سے اردو کا دامن بھرتی رہی‘ اس خاتون کو بھلادیا گیا۔ اردو کی عاشق اوربے لوث
خدمت گذار کی خدمات کو اردو کے وطن میں ہی وقت کی آندھی کے سپرد کردیا گیا۔ بشیر کے
انتقال پرسعید شہیدی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کتنا صحیح لکھا تھا ؎
اے بشیر خوش بیانِ روح و رواں ِ علم وفن
تیری شمع فکر سے روشن تھی ہر ایک
انجمن
تیرے ماتم میںہے اردو کا گریباں
تار تار
ہوگئی رخصت بہار اور رہ گئی یادِ
بہار
حواشی
1 بشیر النساء بشیر،
’ آبگینۂ شعر‘، ادراہ ادبیاتِ اردو۔حیدرآباد،
1948،ص 147,148
2 محی الدین قادری
زور(ڈاکٹر)، ’دیباچہ۔ آبگینۂ شعر‘، ادراہ
ادبیاتِ اردو،حیدرآباد،1948
3 خواجہ حمید الدین
شاہد، حیدرآباد کے شاعر،آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی،حید رآباد، 1958
4 محمد محمود حسین،
مضمون ’خاک میں کیا ہوںگی ‘ مشمولہ ماہنامہ
سب رس (بشیر النساء بشیر نمبر)، جولائی 1972،ص 39-40
5 محمد محفوظ علی: مضمون
، بشیر النساء بشیر۔ایک نجی جائزہ ، مشمولہ
ماہنامہ سب رس (بشیر النساء بشیر نمبر)، جولائی 1972،ص 58-59
6 بشیر النساء بشیر
،’ نظم ورقِ غم۔آبگینۂ شعر‘، ادراہ ادبیاتِ
اردو۔حیدرآباد،1948،ص165-166
7 سید بشیر احمد: سخنورانِ
حیدرآباد، ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2007،ص
160-165
8 نظم ’رودادِ خراش‘ مشمولہ، ’آبگینۂ شعر‘، ادراہ ادبیاتِ اردو۔حیدرآباد، 1948،ص170
9 نظم شعبہ نسواں،’
آبگینۂ شعر‘، ادراہ ادبیاتِ اردو، حیدرآباد
1948
10 کہکشاں تبسم، نسائی
شعری آفاق، بھاگل پور، 2015،ص41
11 نظم ’ فریضۂ امہات‘
مشمولہ، ’ آبگینۂ شعر‘، ادراہ ادبیاتِ اردو۔
حیدرآباد، 1948، ص43
12 نظم ’نظامِ ہستی اور
ہم‘، ایضاً۔ص 41 تا 42
13 نظم ’ حدیثِ نسواں (دورِ عثمانی میںخواتینِ دکن
کی ہر جہتی ترقی کی اجمالی روئداد)‘ مشمولہ نذردکن۔ مرتبہ سکینہ بیگم، 1939، ص99 تا
101
14 ایضاً۔
15 خواجہ حمیدالدین شاہد،(مرتب
)حیدرآباد کے شاعر، 1958، ص 52
16 حفیظ قتیل، راہ رو
اور کارواں، حیدرآباد،1955،ص 44
17 رضیہ صدیقی بصیر،
مضمون’ بشیر النساء بیگم بشیر۔دکن کی صاحبِ دیوان شاعرہ، مشمولہ رسالہ’ بزم ِ ادب‘
حیدرآباد، 2020،ص 51
Prof. Ameena Tahseen
Dept. of Women Education
MANUU
Hyderabad- 500032
(Telangana)
Mob.: 9885017560
Email.: amtahseen123@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں