31/5/24

استاد راشد خان: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے، مضمون نگار: رضوان الحق

 ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2024

ہندستانی موسیقی کا نہایت تابناک ستارہ استاد راشد خان بالآخر ڈوب گیا۔ اسی کے ساتھ وہ امیدیں بھی ڈوب گئیں، جو ان سے بھارت رتن پنڈت بھیم سین جوشی نے کی تھیں، انھوںنے راشد خان کو سننے کے بعد ایک بار کہا تھا، ’’وہ ہندستانی موسیقی میں گائکی کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں۔‘‘ 1

اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔وہ کافی عرصے سے پروسٹیٹ کینسر سے لڑ رہے تھے اور آخر کار ہار گئے۔ ابھی وہ محض 55 برس کے تھے، موسیقی کو ان سے ابھی بے شمار توقعات تھیں، جو اب پوری نہ ہو سکیںگی۔ لیکن وہ دنیائے موسیقی کو جو کچھ دے کر گئے ہیں، وہ سرمایہ بھی معمولی نہیں ہے، اس کی قدر و قیمت کے تعین میں ایک زمانہ لگے گا۔ ان کے چاہنے والوں کے لیے یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ گونجتی رہے گی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ موسیقی کو رکارڈ کرنے کی تکنیک کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز میں ہی ہو سکا۔ اس سے قبل موسیقی کے بڑے سے بڑے اساتذہ کی آوازیں محفل میں گونجتی تھیں پھر ہمیشہ کے لیے دنیا سے فنا ہو جاتی تھیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں کہ فن کار کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اس کی موسیقی سے ہم محروم نہیں ہوںگے۔ غنیمت کی بات یہ ہے کہ راشد خان کی بے شمار رکارڈنگز ہمارے درمیان موجود ہیں اور آگے بھی رہیںگی۔

راشد خان (1 جولائی 1968 تا 9 جنوری 2024) اس وقت ہندستانی موسیقی کے شاید سب سے روشن ستارے تھے۔ تقریباً پچپن سال کی جواں عمر میں انھیں سنگیت ناٹک اکادمی، پدم شری اور پدم بھوشن جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا تھا اور ابھی نہ جانے کون کون سے اعزازات ان کے منتظر تھے لیکن اب وہ تمام امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ دنیائے موسیقی میں رام پور سہسوان گھرانے کا نام بڑے عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ اسی گھرانے میں اتر پردیش کے بدایوں میں پیدا ہوئے تھے، سہسوان بدایوں ضلعے کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس گھرانے کا آغاز محبوب خان نے کیا تھا، لیکن استاد عنایت حسین خان (1849-1919)کے ذریعے اس گھرانے کی بنیادیں مستحکم ہوئیں اور شناخت ملی۔ اس گھرانے کے دیگر معروف اساتذہ میں استاد حیدر خاں (1857-1927) اور پدم بھوشن مشتاق حسین خان (1878-1964) بہت اہم ہیں۔ راشد خان نے استاد نثار حسین خان (1906-1993) سے گنڈا بندھوا کر باقاعدہ شاگردی اختیار کی تھی، وہ ان کے نانا بھی تھے۔ اس گھرانے کی شناخت کسی ایک طرح کی گائکی یا باجے سے نہیں ہے بلکہ اس گھرانے میں الگ الگ زمانے میں کئی طرح کے فن کار پیدا ہوئے ہیں۔ کسی نے خیال گائکی میں نام پیدا کیا تو کسی نے ٹھمری میں اور کسی نے ترانہ میں کمال حاصل کیا۔ پھر بھی کچھ راگ اور بندشیں ایسی ہیں جنھیں اکثر استاد گایا کرتے تھے۔ مثلاً، دیش راگ میں ’’کرم کر دیجے ائو مرے خواجہ موحی الدین،۔۔۔‘‘ یا ’’جھنن جھنن باجے بچھوا ۔۔ باجے۔‘‘ وغیرہ۔

 راشد خان کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی، ان کا بچپن عام بچوں کی طرح ہی کھیل کود میں گزرا، شروع میں انھیں گائکی میں کچھ خاص دلچسپی نہ تھی، لیکن گھر کی روایت کے مطابق انھیں موسیقی میں تربیت دی جاتی رہی، جب تک انھیں کچھ پسند نہ آتا وہ اس کی تربیت میں دلچسپی نہ لیتے، ان کے استاد بھی اس بات کو لے کر پریشان رہا کرتے تھے۔ شروع میں غزل نے انھیں متاثر کیا تو وہ غزل گائکی کی طرف راغب ہوئے، محمد رفیع کے فلمی نغموں نے بھی متاثر کیا تھا۔ اسی زمانے میں گرِجا دیوی کی ٹھمری سن کر ٹھمری میں بھی ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ استاد نثار حسین خان نے ان کی صلاحیت کو پہچان لیا اور ان کی تربیت کو لے کر سنجیدہ ہو گئے۔ وہ راشد خان کو بہت صبح اٹھا دیتے، سخت نظم و ضبط کو ان پر لاگو کرتے، نیند میں ڈوبے راشد خان اس سختی سے گھبرا جاتے اور کئی بار موسیقی کے تئیں بے زاری کا بھی اظہار کرتے۔ مگر موسیقی ان کی سرشت میں شامل تھی، وہ اس کا ریاض ضابطے سے تو کم کرتے پھر بھی چلتے پھرتے اور کھیلتے کودتے راگوں اور ترانوں کا ریاض کر لیا کرتے۔ تان کاری عام طور پر بہت ریاضت کے بعد ہی آتی ہے لیکن راشد خان نے اسے کھیل کھیل میں ہی سیکھ لیا تھا۔ آہستہ آہستہ خود راشد خان کو احساس ہو گیا کہ ان کی آواز میں کچھ خاص کشش ہے اور انھیں اس کے تئیں سنجیدہ ہونا چاہیے۔

راشد خان ابھی محض 11 سال کے تھے کہ استاد نثار حسین خان انھیں کولکاتا کے ایک کلاسیکی موسیقی کے کنسرٹ میں لے گئے۔ اس کنسرٹ میں راشد خان کو سننے والوں میں پنڈت روی شنکر، پنڈت بھیم سین جوشی، علی اکبر خان، امجد علی خان، نکھل بنرجی جیسے دنیائے موسیقی کے آفتاب و ماہتاب موجود تھے۔ راشد خان نے راگ پردیپ میں ایک بندش لگائی ’لاگے توسے نین ائو پریتم۔‘ ایک چھوٹے بچے میں جو ایک ڈر اور جھجک ہوتی ہے وہ ان میں بھی تھی لیکن ایک بار جو گانا شروع کیا تو بس کمال ہی کرتے چلے گئے۔ گائکی کے بعد سب لوگوں نے راشد خان کی خوب تعریفیں کیں۔ 1980 میں کولکاتا کے آئی ٹی سی سنگیت ریسرچ اکادمی میں استاد نثار حسین خان کو بطور استاد دعوت نامہ ملا جسے انھوںنے قبول کر لیا۔ اس کے بعد راشد خان کو بھی اکادمی کے ضابطے کے مطابق داخلہ مل گیا۔ یہاں گرو شِشیہ پرمپرا کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی، اکادمی میں بھی استاد نثار حسین خاں راشد خان کے استاد مقرر ہو گئے۔ لیکن راشد خان یہاں نثار حسین خاں کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ سے بھی باقاعدہ موسیقی سیکھنے لگے۔ اس ادارے سے اس زمانے کے بڑے بڑے اساتذہ وابستہ تھے، کئی بار ایسا ہوتا کہ پنڈت روی شنکر، ولایت خاں یا گرجہ دیوی آئی ہوتیں اور وہ کہتیں کہ اس بچے کو بلا کر لائو ’راشد خان‘ کو سننے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے میں راشد خان ہمیشہ ان کی امیدوں پر کھرے اترتے اور خوب داد و تحسین حاصل کرتے۔ ان سب اساتذہ کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ رہتا تھا کہ وہ صرف راشد خان کی پرورش نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس کی شکل میں ہندستانی کلاسیکی موسیقی کے مستقبل کو سنوار رہے ہیں۔ بچے نے بھی سب کی باتوں کو خوب غور سے سنا اور سمجھا۔ ان دنوں سنگیت ریسرچ اکادمی کے ڈائریکٹر وجَے کِچلو تھے، وہ ہر طالب علم کا اس کے استاد کے ساتھ جائزہ لیتے تھے۔ ان کی ہم جماعت رہیں، ریکھا سوریا نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’وہ ہر اسکالر کی ہر ہفتہ مشترکہ طور پر حوصلہ افزائی اور تعینِ قدر کرتے تھے۔ راشد کے بارے میں وہ آپس میں کہتے، ’’ہم اس کا تعینِ قدر کرنے والے کون ہوتے ہیں، وہ ہمارا ہم پایہ اور ہمارے برابر ہے، ہم سے کم نہیں ہے۔‘‘ 2

ان کی تعلیم کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ جب تک یہ بڑی بڑی شخصیتیں اس دنیا میں رہیں وہ ان کے سامنے اسی طرح دو زانو ہو کر سیکھتے رہے اور وہ اساتذہ بھی اپنی شفقت سے انھیں نوازتے رہے۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتے عظیم فن کاروں سے رہنمائی اور مشورہ کرتے، باریکیوں کے بارے میں سوال کرتے۔ اگر رکارڈنگ میں جانے کا موقع ملتا تو وہاں بھی بڑے غور سے دیکھتے سنتے اور رکارڈنگ کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے، وہ سیکھنے کا کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے۔

ایک بار ڈور لین کولکاتا میں پنڈت بھیم سین جوشی کی رکارڈنگ تھی، یہ 1997 کا واقعہ ہے، راشد خان کو معلوم ہوا تو وہ بھی اسٹوڈیو کے رکارڈنگ روم میں ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر دیکھنے لگے، رکارڈنگ کرانے والوں نے ان سے باہر نکل جانے کو کہا۔ وہ لوگ راشد خان کو جانتے بھی تھے لیکن انھوںنے بے رخی سے جب نکال دیا تو راشد خان نے اسی وقت عزم کر لیا کہ وہ اتنی محنت کریںگے کہ ایک دن یہ لوگ ہی مجھ سے رکارڈنگ کے لیے خوشامد کریںگے۔ اور راشد خان نے اتنی محنت کی کہ ایک دن وہ وقت بھی آ گیا جب وہ لوگ راشد خان سے رکارڈنگ کے لیے التجائیں کر نے لگے۔ لیکن راشد خان نے اپنے فن پر کبھی غرور نہیں کیا، ان کے ساتھ رکارڈنگ کو قبول کر لیا۔ وہ اتنی محنت کرتے کہ ہر مشکل سے مشکل بندش اور راگ کو جذبات اور رس سے بھر پور بنا دیتے۔ راگ راگنیوں کا علم رکھنے والے اور تکنیکی طور پر ہندوستانی کلاسیکی موسیقی جاننے والے تو ان سے لطف اندوز ہوتے ہی تھے لیکن ایک عام انسان جس کے کانوں میں موسیقی کے حسن سے لطف اندوز ہونے کی تھوڑی بھی حس ہوتی، وہ بھی اس موسیقی سے لطف اندوز ہوئے بنا نہ رہ پاتا۔ وہ راگوں کے پیچ و خم کو تو سمجھتے ہی لیکن اس کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ زور دیتے۔ سُمیتا اوجھا نے راشد خان کے ایک پروگرام کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’الاپ کی مدھم آنچ پر دھیرے دھیرے راگداری کی ٹھہرائو بھری آواز پھیلنے لگی تھی اور گائک کی سُردار، خمدار آواز فضا میں گردش کرنے لگی تھی۔ بے شمار خیال کے پیکروں میں تھرک رہی آواز سامعین کو لگاتار حیرت میں ڈال رہی تھی کہ تبھی گائک نے ایک مرکی لی، تھوڑی سی ڈھیل دے کر سر کے تار کو اچانک کھینچ لیا... یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ موسیقی آسمان سے اتر رہی ہو۔‘‘ 3

استاد راشد خان سے میرا پہلا تعارف 2003 کے آس پاس ہوا، ایک بار میں معروف دستاویزی فلم ساز انور جمال کے ساتھ ان کی کار میں سفر کر رہا تھا، کار میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں راگوں کا ایک کیسٹ بج رہا تھا۔ انھوںنے مجھ سے کہا، ’’اس آواز کو پہچانتے ہو؟ میں نے آواز غور سے سنی اور پہچاننے کی کوشش کی، لیکن پہچان نہ سکا، پہچانتا بھی کیسے کیونکہ میں نے دانستہ طور پر کبھی انھیں سنا ہی نہیں تھا۔ جب میں غور سے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا، اس وقت احساس ہوا کہ یہ آواز اور گائکی بہت غیر معمولی ہے۔ انور جمال نے بتایا کہ یہ راشد خان ہیں اور  انھیں غور سے سننا چاہیے۔ اس کے بعد میں نے راشد خان کو انٹرنیٹ پر تلاش کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ زیادہ نہ مل سکا، اس زمانے میں انٹر نیٹ پر اتنے زیادہ آڈیو ویڈیو موجود نہ تھے۔ اس وقت تک یو ٹیوب بھی نہیں آیا تھا۔ ہندوستان میں یہ 2006 میں لانچ ہوا تھا۔ اس لیے انٹرنیٹ پر کچھ زیادہ تو نہ مل سکا لیکن جو بھی ملا اسے سنا۔ میں نے 2007 میں کلاسیکی موسیقی کا ایک سی ڈی البم خریدا، جس میں کلاسیکی موسیقی کی 18 سی ڈی تھیں، جس میں تقریباً تمام اساتذۂ موسیقی کے فن کاروں کے رکارڈز تھے۔ ہندوتانی اور کرناٹک دونوں طرح کی موسیقی کے رکارڈز۔ جس میں ووکل اور انسٹرومینٹل یعنی گائکی اور بجانے والے آلات دونوں طرح کی موسیقی کے استاد تھے۔ میرے لیے یہ بات بڑی خوشی کی تھی کہ اس البم میں جہاں کمار گندھرو، بھیم سین جوشی، پنڈت روی شنکر، گرجہ دیوی اور استاد بسم اﷲ خان جیسے اساتذہ تھے، وہیں میرے پسندیدہ استاد راشد خان بھی موجود تھے۔ میں نے راشد خان کی اس سی ڈی کو بار بار سنا۔

اب جو میں سوچتا ہوں وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے میں راشد خان کو بار بار سنتا تھا؟ میں موسیقی کا کوئی ماہر تو نہیں تھا، وہ ہندوستانی کلاسیکی گائکی میں تکنیکی طور پر کمال تو رکھتے ہی تھے، ان میں اختراع بھی کرتے تھے لیکن وہ موسیقی کی جمالیاتی خوبیوں کا بہت خیال رکھتے تھے، اور یہی وہ کمال تھا جس کی وجہ سے میں راشد خان سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ راشد خان کی ویب سائٹ پر ان کی گائکی کے بارے میں لکھا ہے:

’’راشد خان نے اپنے نانا نانی کی طرح اپنے وِلمبِت خیالوں میں آہستہ رفتار سے تفصیلات کو شامل کیا اور سرگم و سرگم تانکاری کے استعمال میں غیر معمولی مہارت بھی حاصل کی۔ وہ استاد امیر خان اور بھیم سین جوشی کے اسلوب سے متاثر ہیں۔ وہ اپنے استاد کی طرح ترانہ کے استاد ہیںلیکن انھیں اپنے طریقے سے گاتے ہیں، وہ باجوں کے اسٹروک - اساس اسلوب کی بجائے خیال گائکی کے اسلوب کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے لیے استاد نثار حسین مشہور تھے۔ ‘‘ 4

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ استاد راشد خان کا اصل کمال یہ ہے کہ ان کی گائکی اساتذہ کے اسلوب کو اچھے سے سمجھ کر اس میں جدت پیدا کرنے سے بنی ہے۔ یہ موسیقی سخت محنت، صحیح تکنیک اور مشکل راستوں پر چل کر ہی ممکن ہوئی ہے، راشد خان نے ان سب مہارتوں کو کامیابی کے ساتھ پار کیا ہے۔

استاد راشد خان کو یاد کرتے ہوئے مجھے بھوپال کی ایک خوبصورت شام یاد آ رہی ہے، ان دنوں سردیوں کی شدت ختم ہو چکی تھی اور گرمی آنے میں ابھی وقت تھا۔ بھارت بھون کے بہی رنگ اسٹیج میں استاد راشد خان کی گائکی جاری تھی، کھلی فضا کا یہ اسٹیج بھارت بھون کے پچھلے حصے میں ہے جو بھوپال کے معروف ’بڑا تالاب‘ سے متصل ہے۔ اس جھیل میں دور تک موجیں رواں دواں تھیں، شاید جھیل کے ِاس طرف سے اٹھنے والی ایک موج سے جھیل کی موجیں بھی سُر ملانا چاہ رہی تھیں، دور تک پھیلی جھیل کے اُس پار اور کہیں کہیں تالاب میں بھی کچھ دیے یوں ٹمٹما رہے تھے، جیسے راشد خان کی آواز سے ان میں بھی لہریں پیدا ہو رہی ہوں۔ اس سے قبل کہ استاد اپنی پسند کا کوئی راگ چھیڑتے، نئی نسل کے ان کے دیوانوں نے چیخنا شروع کر دیا، ’’آئوگے جب تم ائو ساجنا، انگنا پھول کھلیںگے۔‘‘ لوگ فلم ’جب وی میٹ‘ کا گانا سننا چاہ رہے تھے، استاد خیال گائکی سے شروعات کرنا چاہ رہے تھے لیکن چاہنے والوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے، بڑی خندہ پیشانی سے انھوںنے فلمی نغمے سے پروگرام کا آغاز کیا، اگرچہ مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ راشد خان کے پروگرام کا آغاز ان کے فلمی نغمے سے ہو، بہر حال سننا شروع کیا، لیکن جیسے ہی انھوںنے آلاپ لیا احساس ہو گیا کہ یہ فلمی نغمہ عام فلمی نغمہ نہیں ہے، اور یہ گائکی ان کی کلاسیکی گائکی سے الگ نہیں ہے۔ اول تو فلمی نغمے کے بول بہت اچھے تھے، دوم راشد خان کی گائکی نے اسے ایک نئی بلندی عطا کر دی تھی۔ جب وہ اس بند پر پہنچے تو انھوںنے فلمی نغمے سے تھوڑی آزادی لے کر اسے اپنی آواز سے مزید سنوار دیا۔ ’’نینا ترے کجرارے ہیں، نینوں  پہ ہم دل ہارے ہیں، انجانے ہی تیرے نینوں نے وعدے کیے، کئی سارے ہیں، سانسوں کی لَے مدھم چلے، تو سے کہیں برسے گا ساون۔۔ برسے گا ساون جھوم جھوم کے، دو دل ایسے ملیںگے۔‘‘ اس بند کو وہ ٹھہر کر دیر تک گاتے رہے۔ جیسے کہیں سے کوئی روحانی آواز اتر رہی ہو اور ہم سب اس میں ڈوبتے جا رہے ہوں۔ اس نغمے کے بعد انھوںنے کچھ اور فلمی گیتوں کی فرمائشیں پوری کیں۔ اس کے بعد استاد نے کہا اب جو کلاسیکی موسیقی کے سامعین ہیں، ان کی خواہش کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اب تک نوجوان بھی ان کے اصل کمال سے لطف اندوز ہونے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ اور انھوںنے کلاسیکی گائکی شروع کر دی۔ وہ مختلف راگ راگنیوں کو گاتے رہے، کومل سُروں کو وہ جس کمال سے لگا رہے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی مائورائی آواز ہو اور ان کے گلے سے رقص کرتے ہوئے نکل رہی ہو۔

میری کلاسیکی موسیقی میں تربیت تو نہیں ہے۔ کلاسیکی موسیقی کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھا ہے اور کلاسیکی موسیقی سنتا بھی رہا ہوں، میرے گلے میں سُر تو نہیں ہیں لیکن کانوں میں سُر ہیں، اور جب بھی کوئی سُر ٹوٹتا ہے تو کان بتا دیتے ہیں۔ جب میں نے اردو میں افسانے لکھنے شروع کیے تھے اور کچھ موقر رسالوں میں شائع ہونے لگے تھے تبھی سے میرے ذہن میں ایک بات گھر کر گئی تھی کہ اگر میں ادب میں داخل ہو چکا ہوں تو مجھے دوسرے فنون لطیفہ مثلاً کلاسیکی موسیقی، رقص، مصوری، تھیٹر اور سنیما سے بھی تھوڑی بہت واقفیت ہونی ہی چاہیے۔ سارے فنون میں اظہارِ خیال کی بنیادی باتیں معلوم ہونی چاہیے، فن کار کی طرح نہ سہی قاری یا سامع کی طرح ہی سہی، ان سے لطف اندوز ہونے کا فن تو آنا ہی چاہیے۔ ان تمام فنون لطیفہ میں تھیٹر اور سنیما میں تو کافی حد تک ادب شامل ہی ہوتا ہے۔ اس لیے ان فنون کی فہم آسان تھی، مصوری بھی رنگ، ساخت اور اشیا کے باہمی توازن سے تھوڑا بہت سمجھ میں آنے لگا تھا، اگرچہ جدید مصوری میں کافی مشکلیں آئیں لیکن اردو ادب میں استعاراتی، تجریدی اور علامتی افسانے پڑھنے کے بعد جدید مصوری بھی کسی حد تک سمجھ میں آنے لگی تھی۔ رقص میں تکنیکی باتیں نہ بھی معلوم ہوں لیکن آہستہ آہستہ اس کے جمالیاتی پہلو سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اب مسئلہ موسیقی کا تھا، وہ موسیقی جس میں شاعری یا لفظ نہیں تھے اور ما ہرِ موسیقی اسی کو خالص موسیقی مانتے تھے۔ لفظوں یا شاعری کو اکثر ماہرین موسیقی کی آلودگی مانتے ہیں۔ خالص کلاسیکی موسیقی میں بھی کئی بار ’ٹیپ‘ کے کچھ لفظ یا مصرعے ہوتے ہیں، جنھیں یہ لوگ بار بار دہراتے ہیں۔ لیکن موسیقی میں یہ لوگ ان لفظوں یا مصرعوں کو معنی کے لحاظ سے نہیں گاتے ہیں۔ کہ ہم ان کے معنی میں کھو جائیں بلکہ ان لفظوں کے بہانے وہ کسی اور جہاں کی سیر کراتے ہیں۔ کچھ اور احساس کراتے ہیں، وہ کسی بات یا کسی معنی کے پاس نہیں لے جاتے، بلکہ ایسے احساسات سے تعارف کراتے ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ وہ ہم کو کسی خواب تک لے جاتے ہیں، کسی حقیقت کا احساس کراتے ہیں، جہانِ تخیل کی سیر کراتے ہیں، اور خوف کا احساس کراتے ہیں، موسیقی احساسات کی سرحدیں بلرڈ کر دیتی ہے، جیسے خواب میں زمان و مکاں بلرڈ  (Blurred) ہو جاتے ہیں۔ موسیقی خوشی اور غم کا احساس کراتی ہے۔ خوشی اور غم کا ہی نہیں بلکہ اگر سنسکرت شعریات کی زبان میں کہیں تو موسیقی سبھی نو رسوں کا احساس کراتی ہے۔ راشد خان کی گائکی بھی انھیں رسوں سے روبرو کراتی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز تک راشد خان کلاسیکی موسیقی میں ایک شناخت اور مقام بنا چکے تھے لیکن عوامی حلقوں میں عام طور پر غیر معروف تھے۔ راشد خان نے 2004 میں ’کسنا‘ فلم سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ لیکن انھیں عوامی حلقوں میں 2007 میں ’جب وی میٹ‘ فلم سے شہرت ملی۔ یہ نغمہ ’’آئوگے جب تم ائو ساجنا، انگنا پھول کھلیںگے‘‘ آج بھی بہت مقبول ہے۔ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے اور اس کا شمار فلمی نغموں کے نو کلاسیکی نغموں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل انھیں فلموں میں گانے کے کئی آفر مل چکے تھے مگر وہ ٹھکرا دیتے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ نے بھی انھیں منع کر رکھا تھا کہ اگر فلموں کی طرف گئے تو کلاسیکی موسیقی کے نہیں رہو گے۔ ہوا کچھ یوں کہ اس نغمے کی موسیقی کے ہدایت کار سندیش شانڈلیہ (مجموعی طور پر اس فلم میں موسیقی پریتم کی ہے لیکن اس نغمے کی موسیقی سندیش شانڈلیہ کی ہے) نے فون کیا کہ آپ کو ایک فلم میں گانا گانا ہے، فون پر راشد خان نے منع کر دیا، تو کچھ روز بعد سندیش کولکاتا پہنچ گئے، اور ضد کر لی کہ جب تک ہاں نہیں کہیںگے تب تک واپس نہیں جائوںگا، بڑی بیٹی بھی کہنے لگی کہ اس فلم میں گائیے۔ تب انھوںنے کہا اچھا ٹھیک ہے بتائیے کیا گانا ہے، اس طرح گانے پر کام شروع ہوا، اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں، اس کے بعد یہ نغمہ وجود میں آیا۔ اس فلم کے بعد انھوںنے کئی اور فلمی نغمے گائے، پھر بھی انھوںنے فلموں کی لائن کبھی نہیں لگائی، اول تو صرف وہ نغمے گاتے جو ان کے مزاج کے مطابق ہوتے، دوم سال میں بس ایک دو فلمی نغمے ہی گاتے۔

اس کے بعد موسیقی کے کنسرٹ میں وہ جب بھی جاتے، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جمع ہو جاتے اور ان کے گائے فلمی نغموں کی فرمائش کرتے، وہ ان کی فرمائش کا احترام کرتے لیکن ان کی خواہش ہوتی کہ لوگ ان کی کلاسیکی گائکی کو زیادہ سے زیادہ سنیں اور ایسا ہوتا بھی۔ ان کے فلمی نغموں کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کی کلاسیکی گائیکی سننے کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ وہ دونوں طرح کی گائکی کے درمیان ایک پل بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔ فلموں کے ساتھ ساتھ راشد خان نے غزل گائکی کی طرف بھی توجہ دی اور ان کی غزلوں کا ایک البم ’عشق لمحے‘ رلیز ہوا۔ ’’لبوں پہ عشق کا دعویً ہزار دلوں میں سکوں؍ کیا اس طرح بھی محبت نبھائی جاتی ہے۔ (شاعرہ: امیتا پرسورام ’میتا‘) ان غزلوں سے انھیں بھی کافی شہرت ملی، وہ کولکاتا میں رہتے تھے اور کولکاتا میں رویندر سنگیت کے بغیر بات نہیں بنتی ہے تو انھوںنے رویندر سنگیت میں بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہاتھ آزمائے۔ فلمیں، غزلیں رویندر سنگیت یہ سب تجربے وہ کرتے رہے، لیکن راشد خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا اصل کمال کلاسیکی گائکی میں ہی ہے۔ انھوںنے اپنی توجہ کلاسیکی موسیقی سے کبھی نہیں ہٹنے دی۔

ایک بار مجھے راشد خان سے ذاتی طور پر بھی ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ دہلی میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں آئے ہوئے تھے، جہاں انور جمال نے ان سے میری ملاقات کرائی، انھوںنے بتایا کہ میں این سی ای آر ٹی میں اردو تدریس سے وابستہ ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے، انھوںنے اردو شاعری اور خاص طور سے غزلوں پر کچھ باتیں کیں، پھر انھوںنے بتایا کہ لندن کے معروف رائل البرٹ ہال میں کچھ عرصے بعد ان کا پروگرام ہونے والا ہے۔ اس میں جو لباس پہننے ہیں، اس لباس کی ناپ دینے کے لیے کل لندن جا رہا ہوں۔ خیال آیا کہ اگر لگن سچی ہو تو خدا یہ دن بھی دکھاتا ہے، کہ انسان کپڑوں کی ناپ دینے کے لیے بھی لندن جاتا ہے۔ یہ سب انھوںنے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا تھا۔ اس مقام پر پہنچ کر بھی وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے ملے، شاعری کے بارے میں مزید گفتگو کے وعدے کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ پھر کبھی ملنے کا اتفاق تو نہ ہو سکا، لیکن جس گرم جوشی سے انھوںنے ہاتھ ملایا تھا اور ملنے کا وعدہ کیا تھا وہ آج بھی یاد ہے۔

راشد خان جب ہندوستانی موسیقی کے افق پر ابھر رہے تھے، اس وقت استاد بسم اﷲ خان، پنڈت روی شنکر، بھیم سین جوشی ولایت خاں، گرجہ دیوی، ضیا محی الدین ڈاگر اور پنڈت جسراج جیسے بڑے بڑے اساتذہ حیات تھے لیکن ان سب کی زندگی کی شام ہو رہی تھی، اس وقت راشد خان فن کی اس بلندی پر نہ سہی، لیکن وہ فن میں پوری مہارت حاصل کر چکے تھے۔ ادب اور فنون لطیفہ میں 50-60 سال کی عمر جوانی کی عمر ہوتی ہے، جب فن اپنے عروج پر پہنچتا ہے، ابھی بہت کچھ آنا باقی تھا، فن کی اس جوانی میں ہی وہ ہم سے دور چلے گئے، اب موسیقی کے مداح حیران بھی ہیں اور مایوس بھی کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کون پُر کرے گا؟ کوئی تو ابھر کر آئے گا۔

حواشی

1-         https://en.wikipedia.org/wiki/             

  Rashid_Khan_(musician)

2-         https://thewire.in/the-arts/classical-

  musician-rashid-khan-obituary

3 -سْمیتا اوجھا، استاد راشد خان، لاگی توسے نین پریتم، سمالوچن، 14 جنوری 2024

4 https://ustadrashidkhan.com/# -         

  achievements

 

Dr Rizvanul Haque

MPD, CIET, NCERT

New Delhi-110016

Mob.: 9977006995

E-mail rizvanul@yahoo.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...