31/5/24

زبان اور اس کے رموز، مضمون نگار: مصطفی ندیم خان غوری

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024


 

انسان زبان کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کرنے اور اپنے مقابل کو کسی خیر سے آگاہ کرنے اور اسے اپنے ارادے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی زبان نہ صرف انسان بلکہ پالتو اور جنگلی جانور تک سبھی سمجھ جاتے ہیں۔ مثلاً جانوروں کو ان کی مرغوب غذا دکھاکر پاس بلانا یا پھر ڈنڈا دکھاکر دور بھگانا۔ مگر یہ میٹھی یا ترش زبان بلکہ اس کے علاوہ سریلی زبان انسان کو کس نے کب اور کہاں سکھائی ہوگی باہمی تجربات نے اس کے اپنے ماحول نے یا پھر اس کے ایجاد کردہ میٹھے سروں، لسانی بحور اور اس ساز و سامان نے یا ان سب نے اجتماعی طور پر۔ انسانی مزاج اور طبیعتیں فرداً افرداً یا ایک فرد میں موقع بموقع جداگانہ ہوتی ہیں۔

زبان سیکھنے کے کئی ذرائع (نظریے)پیش کیے گئے ہیں۔ زبان کے آغاز کے سلسلے میں کچھ بنیادی باتیں اس طرح ہیں:

الوہی نظریہ:  اکثر مذاہب1 اپنے کو قدیم ترین مذاہب گرانتے ہیں۔ ان میں بھارت کا الوہی نظریہ پیش پیش رہا ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہندو دھرم یعنی سناتن دھرم قدیم ترین دھرم ہے۔ ان میں سنسکرت زبان کو دیوبانی کہا جاتا ہے جبکہ بدھ مت کے مطابق پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ چنانچہ انسان آسمانوں میں دیوی دیوتاؤں کے ساتھ سنسکرت زبان میں ہی بات کیا کرتا ہوگا۔ ظاہر ہے جسے دیوتاؤں نے ایجاد کیا ہوگا۔ چنانچہ تمام تر مخلوق بشمول انسان اور جانور باہم سنسکرت میں ہی باتیں کیا کرتے ہوں گے۔ ہندو ازم کے علاوہ کئی مشابہ نظریے بھی دیگر مذاہب میں قائم رہے ہیں۔ مثلاً بدھوں کے قریب پالی پراکرت قدیم ترین زبان ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نے سب سے پہلے یہی زبان سیکھی ہوگی۔ جینیوں کی دانست میں تیر تھنکروں کے اردھ ماگدھی اپدیشوں کو انسان کے علاوہ حیوانات بھی سمجھتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک اصل زبان عبرانی تھی جبکہ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد انھیں کئی اشیا کے نام سکھائے گئے جن سے فرشتے ناواقف تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام عربی زبان میں ازبر کرائے گئے ہوں گے۔ اس طرح تو انسان کی پہلی زبان عربی قرار دی جاسکتی ہے۔ وللہ عالم بالصواب۔

فطری نظریہ:اس نظریے کو فیثاغورث چھٹی صدی ق۔م۔ (قبل مسیح) ، ہیراگرٹس 576تا 480ق۔م۔) اور افلاطون (492تا347ق۔م۔)  نے باہمی طور پر پیش کیا تھا کہ فطرت نے کسی جبلی ضرورت کے تحت زبان کو جنم دیا تھا ۔ چنانچہ اشیا اور ان کے ناموں میں کوئی فطری تعلق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ایک فلسفیانہ خیال ہے۔ اس لیے ماہرین نے اسے علمی اہمیت نہ دی۔

حیوانی آوازوں کی نقل:   اس نظریے کے مطابق انسان نے برّی، بحری اور فضائی آوازوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل میں زبان کے اولین الفاظ اختراع کیے ہوں گے۔ مثلاً میاؤں، میاں، بھوں بھوں، دریا سمندر کے لہروں کی آوازیں، جنگلی اور پالتو پرندوں اور جانوروں کی آوازیں جن سے انسان اپنی زبان کے اولین حروف تراش لیے لیکن اس پر نمایاں اعتراض یہ ہوا کہ ہر آواز اور ہر لفظ کی ہر زبان میں تعمیم ممکن نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انسان جوکہ اشرف المخلوقات ہے وہ کیونکر جانوروں کی زبانوں کا دست نگر ہوگا۔ اس لیے یہ نظریہ لغو ہے۔ مزید اور بھی کئی نظریے تو ہیں لیکن غیر موضوعی بحث بیجا طوالت کا باعث ہوگی۔

بنی نوع انسان کے لیے زبان از بس ضروری ہے کیوں کہ یہ علم کی ترسیل کا بھی مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ یعنی جو سنا وہ سیکھا بولا سنایا لکھا اور اگلی پشتوں تک پہنچایا۔

موجودہ حالات میں زبانیں غیر عسکری تہذیبوں جیسے وادیِ سندھ کی تہذیب، مصری تہذیب، ہڑپہ موہنجودارو وغیرہ میں پروان چڑھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی کسی تہذیب یا علاقے میں ان کی اپنی زبان پنپتی ہے جس کے خصائص دوسری تہذیب یا علاقوں سے یکسر جدا ہوتے ہیں۔ مثلاً دراوڑی زبانیں، آریائی زبانیں، یونانی، لاطینی ، انگریزی، فرانسیسی ، فارسی، عربی۔ ذرا غور کریں تو محسوس ہوگا کہ آہستہ آہستہ ان زبانوں پر علاقائی چھاپ واضح ہوتی چلی جائیگی۔ مثلاً انگریزی اور فرانسیسی کو لیجیے۔ ان کے الفاظ اپنے ڈھب کے اعتبار سے انگلستان اور فرانس کو واضح کریں گے۔ ویسے اطالوی ، جرمنی، روسی، چینی وغیرہ۔برصغیر میں آئیں تو پشتو، پنجابی، اودھی، تامل، تیلگو، کنڑی، مراٹھی۔ سب کا مزاج سب سے جدا ۔ اگر یکسانیت کی کوئی جھلک دکھائی تو محض اتفاقی۔ لیکن ہم دو متصل علاقوں کے درمیان یوں خط فاصل بھی تو عائد نہیں کرسکتے کیوں کہ زبانیں بدلتے بدلتے بدلتی ہیں۔

موقع محل کے اعتبار سے زبان کے کئی مفاہیم ہوتے ہیں۔ ایک تووہی زبان جو ہر جاندار کے جبڑوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے زبان برائے اشاعتِ علم جیسے سنسکرت، عربی، فارسی جیسی زبانیں یا پھر وہ بھی زبانیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’بے زبان جانوروں پر رحم کھاؤ‘‘۔ یہ باتیں کئی لوگ سیکھتے اور سکھاتے بھی ہیں جیسے کسی زبان کی قواعد سکھانا۔ اغلاط کی تصحیح، نظم نگاری، مضمون نویسی یا فن خطابت و خوش بیانی۔ ان علوم کے اکتساب سے کئی ایک مقاصد جیسے عمدہ ادیب و شاعر خطیب، خوش گفتارو پیروکار(وکیل) حاصل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں صوت و آہنگ کی کرشمہ سازیاں ہوتی ہیں۔زبان و آہنگ کے منظم مطالعے کو صوتیات کہتے ہیں۔ ماہر صوتیات و سائنسداں ہوتا ہے جس میں انسانی آوازوں کو سمجھنے کی تمیز ان میں تفریق و تجزیہ کی مہارت ہوتی ہے۔ 2یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں زبان سے مراد بولی جانے والی زبان ہے اسے محفوظ رکھنے کا فن فن تحریر کہلاتا ہے۔

اس تمام بیان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو زبانوں کے ترقیاتی دور اور ترمیمی لوازم کی تفصیل کچھ یوں ہوگی کہ کوئی ایک لاکھ سال تا 40 ہزار سال قبل تک سندھ، مصر ، جنوبی افریقہ، چین، وسط ایشیا میں ترقیمی اشیاء، احمرین روغن ، کوئلہ، گوند وغیرہ سے تیار ہوا کرتی تھیں جبکہ سطح ترقیم غیر منقولہ یعنی بھاری چٹانیں،کتبے وغیرہ ہوا کرتے تھے اور منقولہ تعویذ نقوش وغیرہ جن پر ہڈیوں کے نوکدار قلم سے لکھا جاتا تھا۔ پھر 4000(قبل مسیح) تا 400(ق۔م۔) معمولی سی پیش رفت مصر، جنوبی افریقہ ،چین، ہندوستان میں دیکھی گئی ہے۔ جس کے دوران گوند نباتی ہے۔ عرق بطور روشنائی استعمال ہوتے تھے۔ جبکہ سطح ترقیم میں چٹانیں سیپیاں تختیاں کھالیں یا پائرس وغیرہ دستیاب تھے۔ اور قلم کے لیے ہڈیاں سرکنڈ ے بانس مستعمل تھے۔ جو 256ق۔م۔ تک رائج رہے۔ پہلی صدی عیسوی تک ایران ،سندھ ،اسلامی پرتگال کاغذ پر روشنائی کا استعمال ہوا جبکہ 1041ء میں چین میں طباعت شروع ہوچکی تھی۔ 1450ء میں یورپ میں پرنٹنگ پریس شروع ہوچکا تھا اور انیسویں صدی میں کانپور دہلی لکھنؤ کلکتہ میں اُردو کتابوں کی طباعت جاری ہوچکی تھی جن میں 42کتابوں کے کوئی 11458نسخے شائع ہوچکے تھے۔ بیسویں صدی میں کمپیوٹر سے تمام زبانوں میں ایک انقلاب رونما ہوا 3 اور اکیسویں صدی میں تو انٹرنیٹ ، واٹس اپ ، یوٹیوب ،سوشل میڈیا وغیرہ نے تہلکہ مچادیا۔

زبان کی ادائیگی میں دماغ کا حصہ:اب تک ہم نے زبان کا علم لسانیات کی روشنی میں جائزہ لیا جس کے دوران ہمیں ماحولیاتی عوامل کی کار فرمائیاں نظر آئیں۔ اب زبان کی اُپچ اور ادائیگی میں انسانی دماغ کے کردار پر نظر ڈالیں گے ۔ واضح رہے کہ انسانی دماغ کے غیاب میں زبان کا کوئی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس موضوع پر گفتگو سے قبل اگر انسان کی دماغی ساخت پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو معاملے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

انسانی دماغ کا سۂ سر میں ہر جانب محفوظ و محصور رہتا ہے۔ اس کی سب سے اوپری پرت بھورے رنگ کی ہوا کرتی ہے اور جس کی موٹائی کم و بیش 3ملی میٹر ہوتی ہے۔ یہ دماغ کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے اور دماغ کے پیچیدہ ترین امور جیسے اشعار کی موزونیت میں غور وفکر کرنا، تحقیق و تنقید کے مسائل کا حل وغیرہ اسی سے انجام پاتے ہیں۔ جانوروں میں اس کا فقدان ہوتا ہے ۔ البتہ بندروں میں یہ ہلکی سی نشوونما پاتی ہے مگر بے اثر ہوتی ہے۔ انسانی دماغ جسے مغز (Cerebrum) کہا جاتا ہے ایک درز کے ذریعے دو متشاکل ، متوازن و مساوی نصف کروں میں منقسم ہوتا ہے۔ اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دایاں نصف کرہ بدن کے بائیں حصے کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ بایاں نصف کرہ بدن کے دائیں حصے پر اپنا قابو رکھتا ہے۔ ہر نصف کرہ مزید ایک تڑقن کے ذریعہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ اس طرح پورے دماغ کے چار حصہ ہوئے۔ ان میں سے دو حصوں میں زبان و بیان کو کنٹرول کرنے والے حصے ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔

بروکا ایریا(Broca's Area) :دماغ کے اس حصے کا نام نامور نفسیاتی طبیب پال بروکا(1824  تا  1880)  (Paul Broca)  کے نام سے موسوم ہے۔ اپنے معالجہ کے دوران اس کے مشاہدے میں کچھ ایسے مریض آئے جنھیں الفاظ کی اُپچ (Language Production)   میں رکاوٹ اور ادائیگی میں لکنت کے مسائل حائل تھے۔ ان مسائل کے حل کے دوران اس نے غور کیا کہ کہیں اس بگاڑ کا تعلق دماغ یا اس کے کسی حصے سے تو نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے چند مریضوں کے دماغ کی جراحت کی تاکہ ناقص حصوں کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جاسکے۔ اس جراحت کے دوران اس نے پایا کہ مریضوں کے بائیں پیش دماغ لختہ (Left frontal lobe)  5 ناقص و ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس طرح فتور گوئی (Aphasia) 6 کے علاج کے دوران دماغ کے بائیں نصف کرہ (Left hemisphere)   میں اس نے پایا کہ گویائی اُپچ(Speech Production)اور تصویت(Articulation) 7 سے مربوط ہوتا ہے اور دماغ کے اسی حصے کو دریافت کرکے اس نے اپنے نام پر ہی بروکا ایریا کانام دیا۔ بروکا کو اپنے اس نظریے پر یہ شرف حاصل ہے کہ دماغ میں گویائی کے اپچ کا مرکز دماغ کے بائیں جانب قائم ہے۔ اپنے اس ہدف یعنی بروکا ایریا کو بعینہہ متعین کرنے کے لیے بھی اسے ناموری حاصل رہی۔ اس نے دماغ کے اس حصے کو دریافت کیا تھا جو خلل زبان کا باعث تھا یعنی جو قشر (Cerebral Cortex)  کے پیش دماغ لختہ (Frontal Lobe) کی بائیں جانب قائم رہتا ہے۔ اسے یہ کامیابی ضررِ دماغ (Brain damage) اور خلل گویائی(Speech Disorder)  کے متعدد مریضوں کے مشاہدوں کے بعد حاصل ہوئی۔

دراصل ہماری ادائیگی الفاظ، نارمل بات چیت، تصورات، نیز تقریری و تحریری زبان میں صحت الفاظ کی بخوبی ادائیگی دماغ کے اسی اہم ترین حصے سے منسوب ہے۔ بروکا ایریا کو حرکی کلامیہ (Motor Speech)   حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حرکی قشر دماغ(Motor Cortex)   کے قریب درون پیش تلفیف (Inferior Frontal Gyrus)   میں واقع ہوتا ہے۔ یہ حصہ بات چیت اور گفتگو کے دوران سانسوں کے زیر و بم پر قابو رکھتا ہے تاکہ بات چیت نارمل انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔ اس ضمن میں مزید پیش رفت ہوتی رہی اور یہ اندازہ لگایاگیا کہ بروکا ایریا اور دماغ کے دیگر حصوں میں مزید کوئی ارتباط تسلسل کے امکانات کی تلاش جاری رہی۔ اس سلسلے میں کارل وِرِنِکی کی تحقیق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔8

کارل وِرِنِکی1848)  تا(1905   (Carl Wernicke):  یہ ایک جرمن طبیب تھا جو بطور عصب نفسی معالج (Neuropsychiatrist)   جیسے پیشے سے عملاً وابستہ تھا۔ نیز اس نے دماغی ترکیب و ساخت (Brain anatomy)   اور امراضیات جیسے میدانوں میں نہایت اہم دریافتیں کیں، اس کا یقین تھا کہ قشر دماغ9  (Cerebral Cortex)   کے حصوں کی خصوصی شناخت کے ذریعے کئی ذہنی فتور کا سدِّباب کیا جاسکتا ہے وار اس طرح دماغ کے ان حصوں کے افعال کا تعین اور درستی کی جاسکتی ہے۔ وہ بطور ایک ماہر کلامیہ زبان (Speech Language Pathologist) کے بڑی شہرت رکھتا تھا کیوں کہ اس نے فتور گوئی(Aphasid) کے مطالعے کے دوران مغز (Cerebrum)  کا گہرا مشاہدہ کیا تھا اور یہ پایا کہ انسانی مغز یعنی دماغ ہی زبان اور گویائی جیسے مظاہر (Phenomena) کا طرف دماغ لختہ (کنپٹی) (Temporal Lobe)   کی دماغی تلفیف (Superior Gyrus)   میں حصول کرتے ہیں۔

ورنکی کا پیش کردہ یہ ماڈل دماغ کے ایسے خصوصی حصص کے درمیان اتصال کو ظاہر کرتا ہے یعنی دماغ کے مختلف حصے الفاظ کی ادائیگی سے قبل ان کی معنویت سے متعلق اطلاعات مجتمع کرنے کی خاطر باہم ربط قائم کرتے ہیں تبھی وہ زبان کے حرکی حصے کو تحریک دے پاتے ہیں۔

بروکا ایریا اور ورنکی ایریا کا فرق: بروکا ایریا اور ورنکی ایریا دماغ کے وہ حصے ہیں جو زبان کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بروکا ایریا زبان کی اُپچ (Language Production)  سے منسوب ہوتا ہے جبکہ ورنکی ایریا زبان و بیان کے افہام و ادراک سے تعلق رکھتاے۔ ورنکی ایریا اس عمل پر بالضرور زور دیتا ہے کہ بیان کردہ زبان بامطلب ہو، جبکہ بروکا ایریا اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ بیان میں روانی و برجستگی پائی جائے۔ ورنکی ایریا زبان و بیان میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عقبی اعلیٰ طرف دماغ لختہ10 (Posterior Superior Temporal Lobe) (یعنی کنپٹی) کو ایک عصبی ردعمل کے ذریعے بروکا ایریا سے مربوط کرتا ہے۔ شہادتوں کی بناپر یہ ایریا تحریری و تقریری زبان کے طریقہ عمل جیسے صحت الفاظ تجدید یا تخلیق نو کا ردّعمل سے وابستہ رہا ہے۔ شکل ملاحظہ کریں:

 


شکل:  دماغ کے وہ حصے جو گویائی کی اُپچ اور گفتگو پر قابو رکھتے ہیں۔

 

ورنکی نے ایک نظریہ تحصیر (Theory of Localisation)  11تجویز کیا تھا ۔ اسے یقین تھا کہ دماغ کے ایسے متعدد حصوں کی شناخت کی جاسکتی ہے جو مختلف انسانی اطوار پر نہ صرف اپنا قابو رکھتے ہیں بلکہ اسے اپنے ردعمل سے مزید کردار و برتاؤ نمودار کرسکتے ہیں۔ بروکا اور ورنکی حصوں کا یہی معاملہ تھا جو باہم ردعمل کے ذریعہ ایک صحت مند زبان کی جانب گامزن تھا۔

حواشی و حوالے

1 -لسانی مطالعے۔ از گیان چند جین، ترقی اُردو بورڈ، نئی دہلی۔ دوسرا ایڈیشن، 1979، ص32

2 -صوتیات اور فونیمیات۔ اقتدار حسین خان۔ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی2013،ص1

3-سہ ماہی فکر و تحقیق، جولائی ستمبر2015-، قومی کونسل فروئے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص20-23

4 -ایضاً، ص24

5 -فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،  1988،  ص 186

6 -ایضاً، ص 30

7 -ایضاً، ص34

8 -انٹرنیٹ سے برآمد

9 -فرہنگ ِ اصطلاحات۔ فلسفہ نفسیات اور تعلیم۔ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی،  1988،  ص55

10-ایضاً، ص186

11ا-یضاً، ص186

 

Mustafa Nadeem Khan Gauri

Zarrin Village

B.11, Green Valley, Roza Bagh

Aurangabad - 431001 (MS)

Mob: 9604957100

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...