3/6/24

اردو زبان کی تدریس میں قواعد کی اہمیت، مضمون نگار: محمد ارشد

 

ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024 

 

زبان اظہار رائے اور ادائے مطلب کا سب سے مؤثر اور بہترین وسیلہ ہے۔ جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات ومعلومات کرتا ہے اور اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کرتا ہے۔ عام طور پر زبان معاشرے کے تقاضوں اور سماجی ماحول کے اعتبار سے ظہور پذیر ہوتی ہے اور پروان چڑھتی ہے۔ زبان کی تاریخ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں ضروریات اور تقاضوں کے تحت زبان نے عہد بہ عہد ارتقا کے مدارج طے کی ہیں۔

زبان صرف وسیلۂ اظہار ہی نہیں ہے بلکہ مختلف علوم وفنون کے حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ سماجی رابطے اور میل جول کا ایک اہم سبب بھی۔ زبان کا انسان کے ذہنی ارتقا سے گہرا تعلق ہے۔ انسانی تہذیب وتمدن نے نظریۂ ارتقا پر عمل کرتے ہوئے مختلف علوم وفنون کو جنم دیا۔ مثلاً فلسفہ وتاریخ، منطق وہیئت، ریاضی وہندسہ، قانون وطب،سماجی علوم، سائنسی حقائق، تقریروتحریر، تعلیم وتعمیر وغیرہ۔ یہ تمام علوم زبان ہی کی رہینِ منت ہیں۔ دیگر علوم کی طرح زبان بھی بذات خود ایک علم ہے۔جسے ’علم السنہ‘ کہا جاتا ہے۔ شاعر اور ادیب کو عوام الناس میں اس لیے برتری حاصل ہے کہ وہ زبان وبیان پر پوری قدرت رکھتا ہے اور الفاظ کے ذریعے کسی واقعہ یاجذبہ واحساس کی ایسی مؤثر تصویر کشی کرتا ہے کہ عام انسانی ذہن کی رسائی وہاں تک نہیں ہو پاتی۔

زبان کا علم لغت، صرف ونحو، علم معانی وبیان اور علم بدیع وغیرہ پر مشتمل ہے۔ شاعری اور نثر کی مختلف اصناف کو بھی زبان کی قلمرومیںشامل کیا جاسکتا ہے۔ مجموعی طور پر اسے علم ادب کہتے ہیں۔ اول الذکر میں زبان کی لفظیات، مبادیات، اس کی صرفی ونحوی خصوصیات اور فنی محاسن سے بحث کی جاتی ہے، جب کہ موخر الذکرمیں زبان کے منثور ومنظوم سرمایے یعنی ادبی تخلیقات سے سروکار رکھا جاتا ہے۔

زبان کا سرمایہ الفاظ ہیں۔ الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کلمہ اور مہمل۔ یعنی بامعنی اور بے معنی الفاظ۔ چونکہ قواعد میں صرف با معنی الفاظ سے بحث کی جاتی ہے۔ اور مہمل الفاظ اپنی کم مائگی کی وجہ سے جلد ہی اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ اس لیے قواعد میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کلمے ہی سے کلام میں کام لیا جا تا ہے۔ اگر چند لفظو ں میں باہمی ربط وتناسب قائم ہو اور صحیح معنی سامع یا قاری تک پہنچے تو الفاظ کے اس مجموعے کو کلام کہتے ہیں۔

قواعد عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنیٰ ضابطہ، قانون، اصول، طریقہ، اور بنیاد کے ہوتے ہیں۔ نظم وضبط،تنظیم اورایک خاص نوع کی ترتیب کا مفہوم بھی قواعد میں شامل ہے۔ جب کہ اصطلاح میں قواعد کا مطلب زبان کی تشکیل ونتظیم کے بنیادی عناصر ہیں۔ کسی زبان کا لفظی ومعنوی ڈھانچہ جن اصولوںپر قائم ہے، اس کا مطالعہ قواعد کا خاص موضوع ہے۔ اس طرح قواعد زبان وبیان کے اس علم کو کہتے ہیں جس میں کسی زبان کی ساخت، مبادیات، الفاظ کی بناوٹ، حالت، اس کے باہمی ربط وضبط، ان کے اقسام، سابقہ ولاحقہ، واحد جمع، تذکیروتانیث اور تراکیب وجملوں کی ترتیب سے بحث کی جاتی ہے۔ قواعد ہی میں الفاظ بنانے کے طریقے، اسما وافعال، ان کی قسمیں، فاعل فعل اورمفعول کی پہچان، مرکبات، جملوں کی شناخت، ان کی ترکیب اور اس طرح کے دیگر مسائل وامور کے مطالعے سے بحث کی جاتی ہے۔

قواعد لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے، جس کا مطالعہ زبان پر دسترس حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی بھی زبان کے درست اور صحیح استعمال کا شعور قواعد کے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ زبان انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور اسی معاشرتی اہمیت کے تحت زبان میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی ہے۔ ہر زبان کی تنظیم وتشکیل میں ایک خاص نوع کی ترکیب کارفرما ہوتی ہے۔ اسی کے مطالعے کے لیے قواعد کی ضرورت پڑتی ہے۔

زبان کی آموزش کے لیے قواعد کی ضرورت ہے یا نہیں؟۔ اس سلسلے میں ماہرین ِتعلیم اور اہلِ زبان کے اختلافات ہیں۔ بعض اہل زبان کا خیال ہے کہ قواعد کی تدریس ہر سطح کے طلبا کے لیے ایک الگ مضمون کی حیثیت سے منضبط طریقے سے پڑھانا نہ صرف ضروری ہے، بلکہ زبان پر عبور حاصل کرنے کے لیے قواعد کا مطالعہ ایک ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ ان ماہرین ِ زبان کی رائے ہے کہ بغیر قواعد کی تدریس کے زبان میں بہتر صلاحیت ممکن نہیں۔ قواعد کے مطالعے کے بغیر کوئی زبان کی نکتہ رسیوں، باریکیوں اور اس کے اصول وضوابط سے بہتر طور سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ بعض ماہرین لسانیات اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ زبان دانی اور اس میں مہارت وصلاحیت حاصل کرنے کے لیے قواعد کی چند اں ضرورت نہیں۔ با لخصوص ابتدائی جماعتوں میںتو اس کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ رائے ہے کہ قواعد کو ایک الگ مضمون کی حیثیت سے پڑھانے سے زبان کی آموزش کا عمل اور دشوار ہوجاتا ہے اور بچہ زبان سیکھنے کے عمل کو بوجھ محسوس کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ زبان قواعد کی پابند نہیں ہوتی۔ بلکہ بچہ اپنے سماج اور ماحول سے زبان سیکھ لیتا ہے اور غیر شعوری طور پر زبان کے عملی استعمال سے اس کے بنیادی اصولوں سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔ کچھ اہلِ زبان دونوں رویوں کی نفی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ حسب ضرورت ثانوی جماعتوں میں قواعد کی جزوی تدریس کی جانی چاہیے۔ تاکہ کالج اور یونیورسٹی سطح پر تدریس میں درپیش مسائل کو بہ آسانی حل کیا جاسکے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زبان اور قواعد میں گہرا تعلق ہے۔ اگر مڈل اور ثانوی جماعتوں میں ان ذمے داریوں کو صحیح طور پر محسوس کیا جائے تو اعلیٰ سطح پر پیش آنے والے لسانی مسائل پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

قواعد کی تدریس طلبا کی لسانی استعداد، ذہنی صلاحیت اور اسباق کی ضرورت کے تحت ہونی چاہیے۔ ابتدائی درجات میں اگر کوئی کام کسی اصول اور سلیقے سے کیا جائے تو اس سے نہ صرف سہولت پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس میں ایک طرح کا حسن اور نکھار پیدا ہوتا ہے اور طلبہ کے اندر زبان کی آموزش کا عمل مزید آسان ہوجاتا ہے۔ گویا اردو زبان میں مہارت پید اکرنے کے لیے اہلِ زبان نے کچھ اصول اور قواعد مقرر کیے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان زبان کے استعمال میں غلطی سے بچا رہے اور اپنا مدعا صحیح معنوں میں سامع یا قاری تک پہنچا سکے۔ یہ اصول ابتدائی صورت میں صرف ونحو کہلاتے ہیں اور انتہائی صورت میں فصاحت وبلاغت کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی زبان قواعد اور اصولوں کے ذریعے پیدا نہیں ہوتی، اور نہ ہی کُلی طور پر قواعد کی پابندہوتی ہے۔ پہلے زبان وجود میں آتی ہے۔ بعد میں قواعد مرتب کیے جاتے ہیں۔ اگر چہ زبان کا کچھ حصہ قواعد کی گرفت اور پابندی سے آزاد ہوتا ہے۔مگر کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی تنظیم میں قواعد کا عمل دخل موجود رہتا ہے۔ اس لیے زبان کی صحیح جانکاری اور بہتر معلومات کے لیے ان اصول وضوابط پر عمل در آمد کرنا ضروری ہے۔ قواعد کی صحیح جانکاری سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملے گی اور آگے چل کر لسانی خوبیوں اور فنی محاسن سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ طلبا کے اندر قواعد کے متعلق جتنی صحیح معلومات ہوںگی، ان کی ذہنی تربیت اور لسانی تفہیم میں اتنی ہی زیادہ مددملے گی۔

قواعد نویسوں نے لفظوں اور جملوں کو بہ آسانی سمجھنے کے لیے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جسے علم ہجا،علم صرف اور علم نحو کہتے ہیں۔

علم ہجا: وہ علم جس میں زبان کے حروف تہجی کوعلیحدہ علیحدہ کرنے، ہجوں کی ساخت اور املا کے بارے میں اظہارِ خیال کیا جا تا ہے۔ اس میں حرکات وسکنات یعنی اصوات (آوازوں) اور اعراب کے متعلق وضاحت کی جاتی ہے۔اس علم سے حروف کا صحیح تلفظ معلوم ہوجاتا ہے اور اس کا صحیح معیار قائم رہتا ہے۔

علم صرف: قواعد کی وہ قسم جس میں الفاظ کی مختلف حالتوں اور کیفیتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس مطالعے میں الفاظ کی تشکیل، اقسام اور اس میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں کا ذکر شامل ہے۔ الفاظ کے باہمی تعلقات اور اس کے تشکیلی مراحل کی شناخت کا علم اس کا خاص موضوع ہے۔

علم نحو: زبان ولسانیات کا وہ حصہ ہے جس میں ہم مرکبات اور جملوں کی بناوٹ کا علم حاصل کرتے ہیں، اور جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کی مختلف حیثیتوں پر بحث کرتے ہیں۔

حروف تہجی: دوسری زبانوں کی طرح اردو زبان کے بھی اپنے حروف تہجی ہیں۔ اس کی تعداد کے سلسلے میں محققین کے اختلافات ہیں۔ کچھ اہل زبان کے نزدیک اردو کے حروف تہجی کی تعداد 36 ہے۔ بعض کے نزدیک 37 یا 38 ہے اور کچھ اہلِ زبان اس کی تعداد 51 یا 52 بتاتے ہیں۔ اردو زبان عربی،فارسی اور ہندی سے مل کر بنی ہے۔ اس لیے اس کے حروف تہجی میں تینوں زبانوں کے حروف شامل ہیں۔ حروف تہجی دو قسم کے ہوتے ہیں مفرد حروف اور مرکب حروف۔ مفرد حروف کی تعداد 36ہے، جن میں سے بیشتر عربی زبان سے اخذ کیے گئے ہیں۔ جب کہ 5 حروف (پ،چ،ژ،گ، ے) فارسی سے مستعار ہیں۔ اور باقی تین حروف(ٹ،ڈ،ڑ) ہندی الاصل ہیں۔ اس اعتبار سے اردو کے بنیادی حروف تہجی کی تعداد (28+ 5+3=36) ہوجاتی ہیں۔ فارسی زبان سے لیے گئے حروف میں سے ’ژ‘ کے علاوہ باقی چار حروف ہندی میں بھی مستعمل ہیں جب کہ ’ژ‘ خالص فارسی حرف ہیں، جو فارسی میں بھی چند الفاظ میں استعمال ہوئے ہیں۔

اس کے بعد مرکب حروف۔ وہ حروف جو ہائے دوچشمی ھ (مخلوط) سے مل کر بنتے ہیں۔ یہ کل تعداد میں 15 ہیں۔بھ،پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ۔ اس طرح 15 ہکاری آوازوں کو ملاکر حروف تہجی کی تعداد 51 ہوجاتی ہے۔ ہمزہ(ء) کے بارے میں ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا ہے کہ یہ حرف ہے یا علامت۔ چونکہ یہ زیادہ تر بطور اضافت/علامت کے استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے ذرائع، نتائج وغیرہ۔ مگر پرانی اردو کتابوں میں یہ حرف کے طور پر بھی لکھا گیا ہے۔ اور کہیں کہیں یہ بطورِ علامت بھی استعمال ہواہے۔ جیسے دائرہ، مسئلہ وغیرہ۔ در اصل حروف تہجی کا مسئلہ خالصتاً لسانیاتی اور صوتیاتی ہے۔ اس لیے اسی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ’آ‘ اور ’لا یہ مرکب حروف ہیں۔ اس لیے اب ان کا بھی شمار بنیادی حروف تہجی میں نہیں ہوتا ہے۔ اردو میں حروف عِلت(Vowel)  تین ہیں’ا‘’و‘ اور ’ی‘۔ انھیں لسانیات میں مصوتہ کہتے ہیں، جن کے استعمال سے لفظ میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ باقی آوازیں حروف صحیح (Consonant) ہیں جنھیںمصمۃّکہتے ہیں،جو کسی علامت یا حرکت (زیر، زبر، پیش،) کے ملائے بغیر کوئی آواز پیدا نہیں کرتے۔ اردو کا حروف تہجی دیگر زبانوں کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے جس میں ہر قسم کی آواز کو ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس اعتبار سے اردو زبان کا ابجد دنیا کی بیشتر زبانوں میں خصوصی امتیازات کا حامل ہے۔

یہ بات مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو میں حروف تہجی کی کئی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ اور ایک ہی حرف کے کئی اشکال ہوتے ہیں۔ ان کو کئی طریقوں سے لکھا جاتا ہے  اور کچھ حروف مخلوط طریقے سے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ عام طور پر اردو میں حروف تہجی کی دوشکلیں ہوتی ہیں۔ چھوٹی اور بڑی شکل یا آدھی اور مکمل شکل۔ کچھ حروف کی دونوں شکلیں ہوتی ہیں اور کچھ ایسے حروف ہیں، جہاں لکھے جاتے ہیں مکمل ہی لکھے جاتے ہیںجیسے (ا، د، ذ، ڈ،ر،ز،ڑ،ط،ظ، و)۔ ہندی کی بہ نسبت اردو زبان کا املا اور رسم الخط قدرے دشوار اور پیچیدہ ہے۔ تحریری عمل کے دوران ایک ہی حرف کی شکل اپنے محل استعمال کے اعتبار سے بدل جاتی ہے۔ کسی لفظ کے شروع میں اس کی شکل کچھ ہوتی ہے۔ جب کہ درمیان اور آخر میں اس کی لکھاوٹ یکسر مختلف ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ کسی لفظ کے شروع اور درمیان میں کسی حرف کی آدھی یا چھوٹی شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔ بہ اثتثنائے (ا، د، ذ، ڈ، ر، ز، ڑ، ط، ظ، و)  وغیرہ کیونکہ یہ حروف جہاں بھی آتے ہیں بعینہٖ لکھے جاتے ہیں۔ کسی حرف کی بڑی یا مکمل شکل صرف لفظ کے آخر میں ہی عموماً استعمال ہوتی ہے۔ اردو زبان کے حروف تہجی کے لکھنے کے دوران سب سے بڑا مسئلہ حروف کے جوڑنے اور ملانے کا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی ایسا اصول وضع نہیں کیا گیا ہے جو ہماری رہنمائی کرسکے۔ کیونکہ زبان کی آموزش کے دوران خود بخود یہ ہمارے مزاج سے ہم آہنگ ہوکر ہمارے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔املا اور نقل کے دوران ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں کہ کس حرف کو کس سے ملاکر لکھاجائے، اور کس سے الگ رکھا جائے۔ یہاں پر دوباتوں کا ذکرکرنا ضروری ہے، جس سے لکھنے کا عمل آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔ وہ حروف جن کی آدھی شکل ہوتی ہے یا سرے والے حروف جیسے(ب،ج، س، ض، ط، ع،ف،ق) وغیرہ۔ یہ خود بھی دوسرے حروف سے جڑجاتے ہیں اور دوسرے حروف کو اپنے ساتھ ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ آٹھ حروف (ا،د،ذ، ڈ،ر،ز،ر،و) باقی حروف کی بہ نسبت قدرے مختلف ہیں۔ کیونکہ ان حروف کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے پہلے آنے والے حرف سے تو جڑ جاتے ہیں۔ لیکن اپنے بعد آنے والے حرف سے نہیں جڑپاتے۔ جیسے ب+ا=با، ا+ب=اب۔ اس بات کو لفظ قسطنطنیہ اور ’واردات‘سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔پہلے لفظ میں آٹھ حروف جو باہم مربوط ہیں۔ جب کہ دوسرے لفظ میں چھ حروف ہیں جو سب الگ الگ لکھے گئے ہیں۔ کیونکہ ان میں سارے حروف ان اصول کے تحت آتے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ باقی سارے الفاظ کا اطلاق انھیں اصولوں پر کیا جاسکتا ہے۔ اگر دورانِ تدریس لکھنے کے عمل کے دوران ان اصولوں اور طریقوں کو ملحوظ رکھا جائے تو تحریری عمل کو دلچسپ،مؤثر اور نسبتاً آسان بنایا جاسکتا ہے۔

ہائے ہوز(ہ) اور ہائے دوچشمی(ھ) میں فرق: عربی اور فارسی میں ہائیہ اور ہکاری آوازیں نہیں ہوتیں۔ اس لیے ان میں ہ اورھ میں کوئی فرق نہیں ہے۔لیکن اردو میں ان کے درمیان بنیادی فرق موجود ہے۔ جس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اردو میں ’ہ‘ مفرد حرف ہے، جس کی باقاعدہ مستقل آواز ہے۔ جب کہ ھ کبھی تنہا نہیں آتا۔ اردو میں ھ کا استعمال ہکاریت کو واضح کرنے کے لیے یا مرکب حروف تہجی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کا بنیادی مقصد مخلوط آواز کو ظاہر کرنا ہے۔ جیسے بھ، جھ، دھ، کھ، گھ، لھ وغیرہ۔ اردو میں ھ کی کوئی مستقل آواز نہیں۔ بلکہ ہمیشہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملاکر پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ اور نہ ہی کبھی کسی لفظ کے شروع میں استعمال ہوتاہے۔ھ اردو میں ہندی کے توسط سے آئی ہے، جو صرف چند حرفوں کے ساتھ مستعمل ہوئی ہے۔ قدیم اردو عبارتوں میں عربی کا رواج عام تھا، جس سے ہ اور ھ میں کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب جدید املا اور قواعد میں ان دونوں کو باقاعدہ الگ کردیا گیا ہے۔ اس لیے اب ’ھمارا‘ھادی‘اور ’ھوا‘ کو ہمارا‘ ہادی اور ہوا کے طور پر لکھنا مناسب اور درست ہے۔

پڑھنے والا اگر بکر ہے تو ہم کہیں گے کہ بکر فاعل ہے۔ جب کہ اسم فاعل میں نام واضح نہیں کرتے۔ بلکہ یہ کہیں گے کہ’پڑھنے والے نے پڑھا‘تو اس جملے میں ’پڑھنے والے ‘اسم فاعل ہے۔ یہی صورت حال ضمیر کے ساتھ ہے۔ ضمیر اردو میں جن معنوں میں مستعمل ہے،اس سے بڑھ کرلوگوں کو نہیں معلوم کہ اس کا ضمیر زندہ ہے یا مرچکا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اسم کی جگہ استعمال ہونے والے الفاظ ضمیر کہلاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ضمیر کو کسی عام فہم اردو الفاظ سے بدل کر اس کی تدریس کا کوئی آسان طریقہ اختیار کرناچاہیے۔

جمع اور اسم جمع کے مابین فرق: طلبہ اکثر وبیشتر جمع اور اسم جمع کو ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں۔ قواعدِ زبان میں ایسالفظ جو بظاہر واحد معلوم ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت کئی اسموں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اسم جمع کہلاتا ہے۔ جیسے ’فوج‘ قوم‘ جماعت‘ لشکر‘ ہیں۔ محفل‘ انجمن‘ گروہ‘ بھیڑ‘ قطار  وغیرہ الفاظ اسم جمع کہلاتے ہیں۔

جمع اور اسم جمع میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمع کے مقابلے میں واحد موجود ہوتا ہے۔ جیسے مضامین،مساجد، خطوط وغیرہ کی واحد مضمون،مسجد اور خط ہے۔ مگر اسم جمع کے مقابلے میں واحد نہیں ہوتا۔ جیسے فوج،لشکر،جماعت وغیرہ۔مگر ہاں واحد کی طرح اسم جمع کو جمع بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے لشکر سے لشکروں، قوم سے قوموں وغیرہ۔

واحد اور جمع کے اصول: واحد اور جمع کا مسئلہ قواعد کی اس شاخ سے تعلق رکھتا ہے جس میں لفظوں کی صرفی خصوصیات سے بحث کی جاتی ہے۔ عربی اور فارسی بہ نسبت اردو میں یہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ کیونکہ اردو میں واحد اور جمع کے بارے میں تین طرح کے قواعد اصول مستعمل ہیں:

(1)  فارسی طرز کے اصول (2) عربی طرز کے اصول اور (3)  ہندی طرز کے اصول۔

مثال کے طورپر غالب نے اپنے ایک شعر میں ’نوازش‘ کی جمع’نوازش ہا‘ اور شکایت ‘ کی جمع ’شکایت ہا‘ استعمال کی ہے۔ کسی اسم کے آخر میں’ہا بڑھا کر جمع بنانے کا یہ طریقہ فارسی سے مختص ہے۔ عربی اصول پر ان کی جمع نوازشات اور شکایات ہوںگی۔جب کہ ہندی قاعدے کے مطابق ان الفاظ کی جمع نوازشوں اور شکایتوں ہوگی۔

جمع بنانے کا یہ طریقہ اب صرف مرکبات کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔شاعری سے الگ شاذ و نادر ہی اس کا استعمال ملتا ہے،  جو صرف شاعری اور اعلیٰ نثر کے لیے موزوں ہے۔ اس طرح اقبال  نے ایک جگہ’لغت ہائے حجازی‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ اردو شاعری پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو اس طرح کی بے شمار ترکیبیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاً پارہ ہائے دل، نسخہ ہائے وفا، مژہائے دراز، نوازہائے راز وغیرہ۔رو زمرہ اور بول چال کی زبان میں عموماً ہندی طریقہ مروج ہے۔ جب کہ علمی زبان اور ادبی تحریروں میں ہندی کے ساتھ عربی اصول بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہندی طرز واحد جمع کے ساتھ عربی کے چند ایسے اوزان بالخصوص جمع سالم،جمع مکسر اور جمع الجمع سے واقفیت نہایت ضروری ہے، جن میں ڈھلے ہوئے صیغے جمع کے الفاظ اردومیں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اشجار، علوم، اقسام،احکام،اطبا اور مکاتیب وغیرہ۔

اردو میں تذکیروتانیث دو طرح کے ہوتے ہیں۔ جنس حقیقی اور جنس غیر حقیقی۔ جنس حقیقی میں مذکر ومؤنث الفاظ کی شناخت کرنا نسبتاً آسان ہے۔کیونکہ ان میں تذکیرو تانیث فطری اصول کے تابع ہوتے ہیں۔ واحد اور جمع کی طرح مذکر اور مؤنث کے تعین کے لیے واضح اصول موجود ہیں۔ جیسے غلام باندی، شہزادہ شہزادی،جمیل جمیلہ ہاتھی ہتھنی وغیرہ۔ لیکن جنس غیر حقیقی کی تذکیروتانیث کا مسئلہ سراسر قیاسی اور سماعی ہے۔ ان میں نراور مادے کاکوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ان میں کسی لفظ کے مذکر ومؤ نث ہونے کا انحصار بنیادی طور پراس بات پر ہے کہ اہل زبان انھیں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

بعض اہل زبان اور قواعد نویسوں نے بے جان چیزوں کی تذکیر وتانیث کے لیے کچھ اصول اور قاعدے بیان کیے ہیں، جس سے آگاہی رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں طے شدہ لسانی روایات کو سامنے رکھ کر کچھ اشارے ضرور اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی اسم کے شروع میں ضمیر کی اضافی حالت لگانے سے بھی تذکیروتانیث کی پہچان کی جاسکتی ہے۔ جیسے میرا گھر، تمھاری کتاب،ہمارا ملک، اس کی کرسی وغیرہ۔  اگر کسی اسم کے شروع میں اس کا، تمھارا میرا /ہمارا لگا ہو تو وہ مذکر ہوگا۔ اگر اس کی، تمھاری،میری وغیرہ کا استعمال ہو تو وہ مؤنث کہلائے گا۔

اصطلاحاً دو الفاظ کے درمیان نسبت یا تعلق ظاہر کرنے کی علامت ہی اضافت کہلاتی ہے۔ جب ایک اسم کی دوسرے اسم سے نسبت یا تعلق بیان کی جائے تو قواعد کی رو سے اسے اضافت کہتے ہیں۔ جس اسم کا تعلق ظاہر کیاجائے اسے مضاف اور جس سے نسبت یاتعلق قائم ہو اسے مضاف الیہ کہتے ہیں۔ دونوں کے مجموعے کو مرکب اضافی کہتے ہیں۔ جیسے اکبرکا قلم، برسات کا پانی، احمد کا گھوڑا وغیرہ۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے۔

اردو میں مستعمل فارسی قاعدے کے مطابق مضاف مقدم اور کسرۂ اضافت اسے مضاف الیہ سے ملاتا ہے۔ جیسے دردِ دل،خانۂ خدا، شدت غم وغیرہ۔ اردو میں اضافتیں تین طرح سے استعمال کی جاتی ہیں۔

(1)       جب دو عربی یا فارسی الفاظ اکٹھے جمع ہوں اور پہلے لفظ کا آخری حرف’الف‘ یا ’واو‘ پر ختم ہو تو وہاںیائے اضافت کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے بوئے گل، افشائے راز، ابتدائے عشق، شعرائے بنارس، صدائے وقت وغیرہ۔

(2)       اگر مضاف کے آخر میں‘ہ ‘یا’ی‘ ہو تو وہاں اضافت کے لیے ہمزہ لگائیں گے۔

جیسے نقطۂ نظر،سایۂ دیوار، ناقۂ لیلیٰ،کرۂ ارض وغیرہ، لیکن جن الفاظ کے آخری حرف ’ہ‘ میں ایک ہی مکمل آواز نکلتی ہے تو وہاں کسرہ کا استعمال زیادہ مناسب ہے جیسے نگاہِ کرم، راہِ نجات وغیرہ۔

(3)       یائے اضافت اور ہمزہ اضافت کو چھوڑکر باقی تمام جگہ کسرہ اضافت(   ِ ) استعمال ہوگی۔ محبوبِ حقیقی،آزادیِ وطن،قابلِ تحسین، رعنائیِ خیال وغیرہ۔

زیر،ہمزہ اور یائے کی مدد سے جن دوالفاظ میں تعلق ظاہر کیاجائے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایک ہی زبان کے الفاظ ہوں۔ ہندی اور فارسی کا مرکب درست نہیں مانا جاتا۔جیسے گل لالہ کی جگہ پھول لالہ کی ترکیب معیوب سمجھی جائے گی۔ اسی طرح عربی فارسی کا مرکب بنانا بھی قواعد ے کی رو سے صحیح نہیں ہوگا۔ جیسے راہِ مستقیم، اور صراطِ راست، کی جگہ ’صراط مستقیم‘ اورراہِ راست لکھنا ہی زیادہ فصیح مانا جائے گا۔ تاہم اردو میں کچھ مستثنیات ہیں جو راہ پاچکی ہیں اور جنھیں قبول کر لیا گیا ہے۔جیسے ہندی اور فارسی کا مرکب لبِ سڑک اور موسمِ برسات۔اسی طرح عربی اور فارسی کا امتزاج بھی رائج ہے۔ جیسے شبِ قدر، روزِ قیامت وغیرہ۔

فارسی زبان سے عدم واقفیت کی وجہ ہم ان خوبصورت الفاظ وتراکیب سے بے بہرہ ہورہے ہیں، جو اردو زبان کا فطری جوہر ہے۔ آج کل طلبہ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اساتذہ اور شاعر وادیب بھی ان تراکیب کے استعمال میں فاش غلطی کربیٹھتے ہیں۔ جہاں اضافت کا استعمال ہونا چاہیے، فارسی زبان سے ناآشنا ئی کی وجہ سے وہاں اضافت چھوڑ دیتے ہیں۔جہاں اضافت نہیں ہونی چاہیے وہاں اضافت کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے پس منظر (پس کسرۂ اضافت کے بغیر) دست نگر(دست بغیر کسرۂ اضافت کے) جان آفریں (جاں کسرۂ اضافت کے بغیر)۔ اس طرح کی ترکیب کو بھی اضافت کہتے ہیں، مگر اس کا شمار اضافت مقلوب میں ہوتا ہے۔

کسرۂ اضافت کے غلط استعمال سے اردو زبان کا حسن غارت ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میں اعراب لگانے کا رواج یکسر ختم ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے کسرۂ اضافت بھی چھوڑدیا جاتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہورہا ہے کہ اب اس کی وجہ بے ڈھڑک ’ے ‘ لکھتے چلے جاتے ہیں جس سے زبان کی خوبصورتی بگڑ رہی ہے۔ جیسے نامے خدا، قابلے تعریف، تہے دل، صمیمے قلب وغیرہ۔ اس طرح کی صریح غلطی آجکل دوران عام ہوتی جارہی ہے۔

دولفظوں کو آپس میں ملانے کے لیے جس ’و‘ کا استعمال ہوتا ہے اسے واو  عطف کہتے ہیں۔ اس کے استعمال کے لیے  درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(1)       جن دولفظوں کے درمیان ’و‘ لانی ہو وہ دونوں واحد ہونے چاہئیں یا دونوں جمع۔ ایک جمع اور ایک واحد تو وہاں’و‘ کا استعمال کرنا مناسب نہیں۔ جیسے گل وبلبلیں اور حقوق وفرض کی جگہ گل وبلبل اور حقوق وفرائض لکھنا درست ہے۔

(2)       جن دو لفظوں کے درمیان ’و‘ کا استعمال ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایک ہی زبان کے لفظ ہوں جیسے ارض وسماء،جدوجہد۔ عربی فارسی کی ترکیب مناسب ہے جیسے امید ویاس۔ لیکن فارسی اور اردو کی ترکیب درست نہیں جیسے روزورات کی جگہ روز وشب ہی فصیح ہے۔

(3)       جن دولفظوں کے درمیان ’و‘ لایا جائے انھیں املا کی رو سے الگ لکھنا  چاہیے لیکن اسے ملاکر پڑھنا چاہیے۔

اردو، عربی، فارسی اور دیگر زبانوں میں اوقاف وعلامات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا لحاظ نہ رکھا گیا تو عبارت کا مطلب کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات تو اس کا مفہوم بالکل برعکس ہوجاتا ہے۔ اس لیے املا اور عبارت نویسی کے دوران اردو میں مستعمل ہونے والی خاص علامتیں جیسے ختمہ(-)،سوالیہ /استفہامیہ(؟ )، سکتہ(،) واوین(’’  ‘‘) اور قوسین() کا علم ہونا اور اس کے برمحل استعمال کا سلیقہ ہونا اشد ضروری ہے۔تاکہ عبارت یا جملے کا درست اور صحیح مطلب سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم بطور اساتذہ طالب علموں کو صرف اردو پڑھانے پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ اس کی لسانی خصوصیات، صوتی حسن، صرفی ونحوی خصوصیات، سماجی اہمیت،تہذیبی ومعاشرتی افادیت اور ہمہ گیر یت کا احساس وشعور بھی کرائیں۔ کسی زبان پر مکمل عبور اور اس کی کلاسیکی ادبی روایات سے آگہی کے لیے ضرور ی ہے کہ زبان وبیان کے اسرار ورموز سے واقفیت ہو۔ اس کے بنیادی نکات کا علم ہو۔ زبان کے لسانی مطالعے کی اہمیت سے باخبر ہو۔ قواعد واملا کے اصولوں سے شناسائی ہو۔ تہذیبی روایات کا اچھا شعور رکھتا ہو۔ یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ اس عمل میں استاد کس حد تک جدت طرازی سے کام لیتا ہے۔ اس لیے اب طلبہ کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کی نوک پلک سنوارنا، حتی کہ املا ونقل سے لے کر رسم الخط اور تلفظ کی درستگی تک منازل طے کرانا اساتذہ کی اضافی ذمے داری ہے۔ کیونکہ اب اردو کے تعلیمی میدان میں جو نسلیں آرہی ہیں ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہیں جن کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ ان کی اردو تعلیم واجبی ہوتی ہے۔ ان کی بنیادیں بہت کمزور ہوتی ہیں۔ان کا پس منظر نہ اردوزبان ہے نہ ہی کلچر۔ نہ ہی زبان کی ثقافتی قدروقیمت سے باخبر ہیں۔ ان کے گھر،خاندان اور اطراف میں اردو زبان کانہ وہ رواج اور چلن باقی ہے جو ہماری تہذیبی معاشرت کا حصہ ہے۔ وہ اردو زبان کی دلکشی ولطافت کے قائل تو ہیں، لیکن اس زبان کے سیکھنے کے تئیں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ان کے گھروں میں اردو زبان کے تئیں محبت اوراپنائیت کی جگہ اجنبیت اور کمتری کے احساس نے لے لی ہے۔ بہ حالت مجبوری وہ اردو کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ لیکن اسے اپنے مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرپارہے ہیں۔یہی طلبہ جب کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو املا اور تلفظ کے حوالے سے انھیں بہت سی لسانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے اندر اس بات کی فہم نہیں ہوتی ہے کہ کہاں’ہ‘ کا استعمال ہونا چاہیے اور کہاں’ھ‘ کااور ’ح‘مستعمل ہونی چاہیے۔اس لیے زیادہ تر جنھیں کی جگہ جنہیں اور تمھارا کے بجائے تمہارا لکھ دیتے ہیں۔ ہم آواز حروف کے استعمال میں امتیاز نہیں کرپاتے۔ رموز واوقاف نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات طالب علموں کو بہت مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کہاں قوسین اور کہاں واوین کا استعمال ہونا چاہیے۔ ان کے اندر استفہامیہ، خطابیہ اور اختتامیہ جیسے جملوں کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ وہ جملہ سازی کے وقت فاعل،فعل اور مفعول کی موزوں ترکیب کا خیال نہیں رکھ پاتے، جس سے خوبصورت اور فصیح وبلیغ جملہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ کیونکہ ایک اچھے جملے میں لفظوں کی ترکیب کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ یعنی جملہ بناتے وقت الفاظ کی وہی ترکیب بامعنی اور مناسب ہوگی جو عام طول چال کے مطابق ہو۔ اسی قسم کی بے شمار غلطیاں ثانوی سطح پر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سطح پر عام ہوتی جارہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قواعد کے اصولوں اور بنیادی نکات سے عدم واقفیت اور اسکولی سطح پر اردو کی تعلیم میں قواعد کی تدریس پر عدم توجہی بھی ہوسکتی ہے۔

اہل مغرب نے اٹھارہویں صدی کے اوائل سے ہی اردو قواعد کی تدوین وترتیب شروع کردی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نام جان جو شوا کئیلر کا ہے جنھوں نے  لاطینی زبان میں 1715 میں اردو قواعد مرتب کی۔ انیسویں صدی تک اس حوالے سے بنجامن شلزے، جارج ہیڈلے، پلاٹ، فوربس اور مسٹر گلسٹن اور جانِ گل کرائسٹ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

ہندوستانی مصنفین میں سب سے پہلا نام امانت اللہ شیدا کا ہے جنھوں نے 1806 میں ایک رسالہ ’صرف ونحو‘ لکھا۔ جس میں اردو قواعد کے ابتدائی اصولوں سے بحث کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نام انشاء اللہ خاں انشا کا ہے جنھوں نے 1807 میں قواعد کے حوالے سے ’دریائے لطافت‘ لکھی، جو اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر خصوصیی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی زمانے میں میر بہادر علی حسینی نے ’گل کرائسٹ کی‘قواعد اردو ‘ کا ترجمہ کیا۔ محمد ابراہیم نے 1823 میں اپنی قواعد مرتب کی۔ مولوی احمد علی دہلوی کی فیض کا چشمہ (1825)،سرسید احمد خان کا رسالہ اردو صرف ونحو (1842) اور مولوی امام بخش صہبائی کی اردو صرف ونحو (1849) اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ مذکورہ ہندوستانی مصنفین کی کتابیں عربی، فارسی قواعدکے زیر اثر لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں اردو کو ایک مقامی زبان کے طور پر دیکھنے کا رجحان نہیں ملتا۔ مولوی عبد الحق اردو کے پہلے قواعد نویس ہیں،جنھوں نے اردو کو ایک ہندآریائی زبان کے طور پر دیکھا۔اور انھوں نے آریائی پراکرت کے تتبع میں مفصل اور معیاری کتاب قواعد اردو (1916)  مرتب کی۔ اس کے بعد سیکڑوں کتابیں منظر عام پر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مولوی عبد الحق کی قوعد اردو کے معیار تک نہیں پہنچ پائی۔

 

Dr. Mohammad Arshad  

Assistant Professor (Urdu)

M.B.S. P. G. College

Gangapur, Varanasi, 221302

Mob.: 9793890815

Email ID-ma881486@gmail.com

     

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...