ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین
صنف ہے۔اس میں ایجاز و اختصار کا جو حسن ہے وہ صاحب ذوق حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرتا
ہے۔غزل میں ایمائیت کے ذریعے حسن پیدا کیا جاتا ہے۔ایمائیت اور اشاریت شعری تخلیقات
کو معنی خیزبناتی ہیں۔شاعر ان کے ذریعے غیرمعمولی مطالب کو بڑے معنی خیز انداز میں
بیان کرتا ہے۔
اورنگ آباد کی سرزمین شعرو
شاعری کے اعتبار سے بڑی زر خیز ہے۔شفق عماد پوری، واعظ الحق مسرور اورنگ آبادی، سید
احمد عروج قادری، ذبیح کیراپی، گستاخ کٹمبوی،
زکی اورنگ آبادی سے لے کر محفوظ الحسن اشعری، مناظر احسن فرید، جمال الدین
ساحل، ناشاد اورنگ آبادی، شبیر حسن شبیر، تسلیم انجم اورنظام قریشی کے ساتھ بالکل
نئی نسل میں گلفام صدیقی، یوسف جمیل، اقبال دل، آفتاب رانا، شبلی فردوسی تک ایک طویل
سلسلہ ہنوز قائم ہے۔ ان میں سے بیشتر شعرا کی ادبی وشعری سرگرمیوں سے اردو دنیا خوب
واقف ہے لیکن چند ایسے قلمکار بھی ہیں جو خاموشی سے اردو کے شعری گلشن میں گل بوٹے
ٹانکتے رہے مگر اس کے باوجود بہار کی شعری تاریخ میں ان کا تعارف اب تک نامکمل ہے اور
اردو کے معتبر نقادوں نے ان کے فن پر قلم اٹھانے سے گریز کیا ہے۔ نعیم الحق مسرور اورنگ
آبادی کے دوشعری مجموعے ’فریب زندگی‘ اور ’نوائے مسرور‘ شائع ہو چکے ہیں اور جس کے
مرتبین بالترتیب ڈاکٹر زین رامش اور ڈاکٹر ریاض الدین نیر ہیں۔ اس کے علاوہ جناب نعیم
الحق مسرور اورنگ آبادی کی شخصیت اور شاعری پرتیسری کتاب بعنوان ’مسرور اورنگ آبادی
: شخصیت اور فن‘ کے مرتب ڈاکٹر سید اعتصام الحق ہیں۔ اس کتاب میں نعیم الحق
مسرور کے دونوں شعری مجموعوں ’فریب زندگی‘ اور’ نوائے مسرور‘ کی غزلوں اور نظموں کا
انتخاب بھی شامل ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس شاعر کے کھاتے میں دو شعری مجموعے اور اس
کے فن وشخصیت پر ایک مکمل کتاب موجود ہو اور قارئین کے لیے یہ خبر بھی مسرت بخش ہوگی
کہ راقم السطور کی نگرانی میں ڈاکٹر سنجر امام کو دسمبر 2016 میں مگدھ یونیورسٹی، بودھ
گیا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بعنوان ’نعیم الحق مسرور:حیات
اور شاعری‘ تفویض کی جا چکی ہے، ایسے شاعر کا شمار بہار کی اردو غزل گوئی کی تاریخ
میں نہ کیا جانا دیانت داری نہیں ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ متعدد قلمکاروں کی طرح
نعیم الحق مسرور کوبھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ چند اہل قلم حضرات نے
ان کے کلام پر اپنی رائے دی ہے مگر احتیاط کے ساتھ۔ جب کہ ان کی غزلوں کا مطالعہ انھیں
ایک کامیاب اور قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے۔
نعیم الحق مسرور بنیادی طور
پر غزل کے شاعر ہیں۔ انھوں نے نظمیں بھی کہی اور قطعات بھی لکھے ہیں مگر غزلوں میں
ان کا تخلیقی جوہر زیادہ کھلتا ہے۔ ان کی غزلوں میں فکر وخیال کی رعنائیاں بھی ملتی
ہیں اور رنج وغم میں ڈوبے تصورات بھی ، مگر ان کی شادابیِ فکر، غم و الم کے مواقع اور
نامساعد حالات میں بھی خوش دلی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔اشعا ر دیکھیے ؎
چمن اداس ہے جان بہار آجائو
ہجوم غم میں بھی مسرور پھر
غزل خواں ہے
غم میرا شناسا ہے دل غم کاشناسا
ہے
یہ میرا مقدر ہے یہ زیست کا
ساماں ہے
چمن کا پتّا پتّا جانتا ہے
اس حقیقت کو
کہ کس کس طور سے ہم نے گزارا
ہے یہاں ساقی
غم دل کی قسم مسرور ہوں میں
اپنی حالت پر
کہ لے پیر فلک جتنا بھی چاہے
امتحاں ساقی
غم دل اور ہجوم غم جیسی ترکیبیں
مسرور اورنگ آبادی کی غزل کے حسن میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ اس طرح کے اشعار غم کی
مختلف کیفیتوں کا اظہارہیں۔ شاعر نے اپنے چمن کو غم دل اور ہجوم غم سے آباد کیا ہے۔
ان کی غزل میں غم دل اور ہجوم غم ہی سرمایہ حیات بن گئے ہیں۔ ان کے یہاں غم دل میں
بھی ایک سرور اور سرشاری کی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو مسرور اورنگ
آبادی نے اپنے دل میں بسے ہوئے غموں سے بخوبی زندگی کا کام لیا ہے۔
نعیم الحق مسرور اورنگ آبادی
کی غزلوں کی ایک خوبی سادگی اور سلاست ہے۔وہ روایتی اور کلاسیکی رنگ کی غزلوں کی تخلیق
میں اپنے ہم عصروں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ لطیف اظہار بیان کی خوبصورت مثال دیکھیے ؎
مسرور آشنائے محبت سے پوچھ
لو
جو لطف ہے دعا میں کہاں وہ
اثر میں ہے
آپ چن لیجیے درّ نایاب
ہم بھی دامن میں سنگ بھر لیں
گے
اپنے آئینۂ دل میں بھی ہے
صورت ان کی
اک مسلماں کو بھی الفت ہے
صنم خانے سے
ان اشعار کو اگر بغور دیکھا
جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسرور اورنگ آبادی نے نہ صرف اردو کی شعری روایت سے استفادہ
کیا ہے بلکہ اپنے لطیف جذبے اور احساس کے اظہار میں سادگی اور لطافت سے کام لیا ہے
اور زندگی کے سنگلاخ تجربوں کو جس طرح آسانی کے ساتھ پیش کیا ہے اس کی مثال آج کم
شاعروں کے یہاں نظر آتی ہے۔ غزل کے یہ اشعار زندگی کے مثبت رویوں کا پتہ دیتے ہیں۔
نعیم الحق مسرو ر پر جب غم
والم کا پہاڑ ٹوٹا اور ان کا پیارا بیٹا رانچی کے مہیب اندھیروں میں گم ہو گیا تو ان
کے صبر و ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ خود کو روک نہیں پائے اور خدا سے یوں شکوہ سنج
ہوئے ؎
کیوں مرا محبوب یوں چھینا
گیا
اب خدا کے گھر میں بھی کچھ
کم ہے کیا
لیکن جلدہی وہ اپنے غموں سے
سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ اشعار دیکھیے
؎
مانوس ہو چکا ہوں غم زندگی
سے میں
اب اضطراب دل کی شکایت نہیں
رہی
اس چمن سے بہار روٹھ گئی
ہم خزاں سے بھی صلح کر لیں
گے
نعیم الحق مسرور کی غزل کے
یہ وہ اشعا ر ہیں جو اردو غزل کی کلاسیکی شعری روایت کی توسیع کرتے نظر آتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر
کا تجربہ زندگی کی حقیقتوں سے آشکار ہے۔ زندگی کی مشکلوں اور کلفتوں سے اسے آشنائی
ہوچکی ہے۔ زندگی کے تجربوں میں استحکام کی صورت نظر آنے لگی ہے۔زندگی کے غم و آلام
سے نہ اس کے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور نہ اس کی طبیعت میں بے چینی پیدا کرتے ہیں۔ شاعر
نے زندگی کی تمام کلفتوں اور مشکلوں پر قابو پالیا ہے۔
نعیم الحق مسرور کی غزلوں
میں ترغیب ، تلقین اور نئی نسل کے لیے پیغامات بھی موجود ہیں وہ ایک دردمند شاعر کا
دل رکھتے ہیں اس لیے قوم کی زبوں حالی اور نوجوانوں کی بے راہ روی سے جب ان کا دل دکھتا ہے تو وہ گلستاں کی تعمیر کے لیے
نوجوانوں کو یہ سود مند مشورہ بھی دیتے ہیں ؎
تونے دولت کو سمجھ رکھا ہے
اصل زندگی
قوم زندہ رہتی ہے اعمال سے
کردار سے
یہ زندگی جسے بزم ہائو ہو
کہیے
یہ شور و شر کا تماشہ ہے زندگی
کیا ہے
اپنے عہد وفا کا پاس رہے
عزم میں پھر کوئی نہ خم آئے
فکر تعمیر گلستاں کیجیے
دل اس غم میں گھلتا جاتا ہے
ان اشعار کو دیکھ کر معلوم
ہوتا ہے کہ شاعر کو زندگی کی حقیقتوں کا ادراک ہوگیا ہے۔ اس نے زندگی کا راز پالیا
ہے۔ انسانی زندگی میں نعمتوں کی فراوانی اب اس کے داخل کامسئلہ نہیں ہے۔ دولت و شہرت
اور اس نوع کی دیگر چیزیں اب شاعر کے پائوں کی زنجیر نہیں بن سکتیں۔ وہ زندگی کے اس
شور و شر کوہائوہو سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ دراصل یہی باتیں زندگی کی حقیقتوں کا
ادراک ہیں۔
نعیم الحق مسرور کی شاعری
متصوفانہ خیالات کے بیان کا بھی عرفان رکھتی ہے۔در اصل شاعر کا تعلق ایک صوفی خانوادے
سے ہے اس لیے ان کی غزلوں میں صوفی فکر کا اظہار بھی موجود ہے۔اشعار دیکھیے ؎
حرم و دیر و کلیسا ہو یا مرا
گھر ہو
ترے بغیر کہیں کوئی روشنی
نہ ہوئی
مجھے صحرا نوردی دشت پیمائی
سے الفت ہے
کوئی عالم ہو میرے دل کی حیرانی
نہیں جاتی
تخلیق کائنات کی گرمی شرر
میں ہے
درس تجلیات بھی شوق نظر میں
ہے
مٹا دے مرے دل سے ہر نقش باطل
بس اک اپنی تصویر مسطور کر
دے
انسان جب زندگی کے راز پالے
تو پھر ان حدود میں داخل ہو جاتا ہے جسے ہم راہ سلوک و طریقت کے نام سے جانتے ہیں۔
مسرور اورنگ آبادی کی غزل میں متصوفانہ مضامین بہت نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ یہ صوفیانہ مضامین شاعر کے ادراک کا ماحصل ہیں۔ شاعر اس حوالے سے پوری کائنات
کوموضوع گفتگو بناتا ہے۔ وہ کائنات کے عظیم سفر پر ہے۔ کائنات کے عکس اور مناظر اس
کاشعری حوالہ بن گئے ہیں۔ اس کی نگاہ کائنات کی تخلیق، تجلی اور روشنی کی طرف متوجہ
ہے۔ وہ کائنات کی ان تصویروں اور مناظر میں حقیقت کے رنگ تلاش کر رہا ہے۔ اس طرح کے
موضوعات نے مسرور اورنگ آبادی کی غزل کو خالص متصوفانہ بنا دیا ہے۔
غزل ایمائیت کا فن ہے۔نعیم
الحق مسرور اورنگ آبادی کی غزلوں میں ایمائی طرز اظہار کے چند خوبصورت نمونے دیکھیے ؎
چاند میں چاندنی تاروں میں
چمک باقی ہے
کس کی یادوں کی ہوائوں میں
مہک باقی ہے
ہزار بات اڑے گی تمھیں خبر
بھی ہے
نہ مجھ سے آنکھ چرا کر اِدھر
اُدھر دیکھو
فلک پر جو ماہ تمام آگیا
ستاروں کی محفل ادھر ہو گئی
ان اشعار میں ایمائیت سے بخوبی
کام لیا گیا ہے۔ اشاروں میں کہی گئی بات کا حسن دوبالاہوگیا ہے۔ ان اشعار میں اشارے
اس قدر تخلیقی اور شعلہ پرداز ہیں کہ قاری کے فکر وخیال کی وادی جل اٹھتی ہے ؎
ہزار بات اڑے گی تمھیں خبر
بھی ہے
نہ مجھ سے آنکھ چراکر اِدھر
اُدھر دیکھو
نعیم الحق مسرور اورنگ آبادی
کی غزل پڑھ کر بارہا کلاسیکی شعرا کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں۔ مذکورہ بالا شعر کو
ذہن میں رکھ کر حکیم مومن خاں مومن کا یہ شعر دیکھیے ؎
محفل میں تم اغیار کو دزدیدہ
نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز
تو دیکھو
ان دونوں اشعار میں ایک ہی
بات کہی گئی ہے۔ مسرور اورنگ آبادی کی غزل میں اس نوع کے اشعار اس بات کی خبر دیتے
ہیں کہ انھوں نے اردو کی شعری روایت کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اردو کے شعری سرمائے
پر ان کی نظر تھی۔
نعیم الحق مسرور کی غزلیں
سہل ممتنع کی بھی عمدہ مثالیں ہیں۔سہل ممتنع کی شاعری قاری کو اپنی طرف نہ صرف متوجہ
کرتی ہے بلکہ شاعر کی صناعی اور اس کی کامیاب تخلیقی قوت کا اعتراف بھی کرتی ہے۔جناب
مسرور کی غزلوں کے ان اشعار میں سادگی ، لطافت ،شگفتگی اور دلکشی کا کمال دیکھیے جوشاعرکی
فکری وفنی صلابتو ں کا اظہار ہے ؎
اب کہاں ہے وفا زمانے میں
خوب جور وستم کی بات کرو
کیا شکایت ہے آپ کو مجھ سے
سارا الزام اپنے سرلیں گے
کون مسرور ہے زمانے میں
کیوں مری چشم نم کی بات کرو
کیوں نہ مسرور ہوں بھلا مسرور
بعد مدت کے یار آتا ہے
ان پہ مسرور ناز کرتا ہوں
جو مجھے بے وفا سمجھتے ہیں
ان اشعار میں بلاکی سلاست
اور روانی ہے۔ اس طرح کے اشعار کہنا آسان نہیں ہے۔ ان اشعار کو پڑھیے تو معلوم ہوتا
ہے کہ گفتگو کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ شعر میں گفتگو کا انداز اختیار کرنا مشکل
کام ہے۔ اسے ہی ہم سہل ممتنع کہتے ہیں یعنی شعر دیکھنے میں تو آسان اور عام فہم نظر
آئے لیکن اس طرح کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ طبیعت میں موزونی ہو تو تخلیق اظہار
طرح طرح کے فنّی جوہر دکھاتے ہیں لیکن اس طرح کی سادگی اور گفتگو کا یہ انداز عام طور
پر بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ مسرور اورنگ آبادی کی غزل میں بیان اور اظہار کا یہ
انداز مختلف جگہوں پرموجود ہے۔
نعیم الحق مسرور اورنگ آبادی
کی غزلوں کے اشعار کے وسیلے سے راقم نے ان کے شعری محاسن پر مختلف پہلوئوں سے گفتگو
کرنے کی کوشش کی ہے اور مسرور کے شعری اختصاص کو نمایاں کیاہے۔میرے خیال میں سید نعیم
الحق مسرور کی غزلیں اس لائق ہیں کہ ان کا شمار بہار کی اردو غزل گوئی کی تاریخ میں
ہونا ہی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ان کے سرمائے سے ان کی محبوب ترین شے ان کی نظروں
سے اوجھل ہو گئی تو خود ان کی طبیعت میں بے نیازی اور بیزاری کا عنصر شامل ہوگیا اور
شاعری کا بہترین ذوق، مشق ومزاولت اور قادر الکلامی کے باوجود وہ خود اپنی شاعری کو
قابل اعتنا سمجھنے سے گریز کرنے لگے تھے جب کہ ان کی شاعری میں زندہ رہنے کے تمام امکانات
موجود ہیں اور خود قنوطی رنگ وآہنگ میں ڈوبا ہوا ان کا یہ شعر جناب نعیم الحق مسرور
کے شعری امتیاز وانفراد کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے ؎
نہ کوئی مونس ومایہ نہ کچھ
متاع ہنر
فریب خوردہ مسافر کی شاعری
کیا ہے
Dr. Qasim Fareedi
Qazi Mohalla
Aurangabad-
824101 (Bihar)
Mob.: 9431632576
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں