3/6/24

مولانا عبد الشکور آہ مظفر پوری کی غزلیہ شاعری، مضمون نگار: شکیل احمد

 

ماہنامہ اردو دنیاِ، اپریل 2024

 


مولانا عبدالشکور آہ  مظفر پوریؒ ایک ایسے علمی خانوادے کے فرد گزرے ہیں جہاں صدیوں سے علم و معرفت کی روشنی بکھرتی رہی تھی۔ آپ نے تعلیم و تعلم کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور اسی ماحول میں ابتدائی تعلیم بھی پائی۔ کانپور میں  اپنے وقت کے نامور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور فراغت کے بعد تدریس سے وابستہ ہو کر بقیہ زندگی اسی میدان میں گزار دی۔ آپ نے مدرسہ شمس الہدی پٹنہ ، مدرسہ جامع العلوم مظفر پور اور مدرسہ دارالعلوم مئو میں مسند درس سنبھالی، صدرالمدرسین رہے۔ آپ نے سلوک و معرفت کی راہ میں بھی اپنے نقوش قائم کیے جس کی اثرات دور تک اور کئی نسلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان اوصاف حسنہ کے ساتھ اللہ نے آپ کو شعر گوئی کی دولت سے بھی نوازا تھا، جس کا آپ نے بھرپور اور بخوبی استعمال کیا۔ شعر گوئی کی خدا داد صلاحیت ہونے کے باوجود آپ نے اپنے اس فن پر کبھی فخر کا احساس نہیں کرایا اور نہ ہی آپ کی غزلوں میں دیگر شعراکی طرح تعلّی کے اشعار ہیں۔ حالانکہ آپ کی کلیات کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ آپ کی شاعری میں آمد کے ساتھ روانی اور قادر الکلامی موجود ہے۔

آپ ایک پر گو اور مختلف اصناف شاعری پر پوری دسترس رکھنے والے شاعر تھے مقام حیرت ہے کہ مدرسے میں جملہ تدریسی ذمے داریاں سنبھالنے کے ساتھ خانقاہ اور اس کے تمام متعلقات میں بھی پورا شغف رکھتے تھے اور آپ کی شہرت سلوک و عرفان کے حلقے میں دور تک تھی۔ اس پر مستزاد آپ کی شاعری اور اس مقام و معیار کی شاعری کہ تقریباً ایک صدی گزرنے کو آئے مگر اس میں تازگی اور اثر انگیزی اب بھی موجود ہے خاص بات یہ کہ اپنی منصبی ذمے داریوں کو سنبھالنے کے ساتھ اپنا کلام ڈائری میں لکھ کر محفوظ بھی کرتے گئے۔ الحمدللہ کہ ایک مدت کے بعد آپ کے پڑپوتے مولانا اختر امام عادل صاحب کے ہاتھوں اس کی اشاعت اہتمام کے ساتھ مقدر تھی جنھوں نے اس کلام کی تلاش میں قابل تحسین کوششیں فرمائیں اور ماشاء اللہ کامیاب رہے۔

حضرت آہ  مظفر پوری کی غزل گوئی میری گفتگو کا موضوع ہے۔تذکرہ حضرت آہ مظفر پوری ’مع کلیات آہ‘  شائع ہونے کا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت مرحوم کی جملہ سرگرمیاں، خاندانی حالات، عہد و ماحول، اساتذہ و مربیان رفقا و  ورثا سے واقف ہونے کے ساتھ آپ کی شاعری کا پس منظر سمجھنے میں بہت آسانی ہوگئی۔ مرتب محترم نے کلیات کو منتخب کلام کا نام اس احتیاط کے باعث دیا ہے کہ یقینا ًحضرت آہ کا کچھ کلام دست برد زمانہ کا شکار بھی ہوا ہوگا جس کی تفصیل کتاب کے صفحات میں موجود ہے ۔

کلیات دو سو صفحات اور ستر غزلوں پر مشتمل ہے۔ تقریبا ساٹھ صفحات میں مختلف اصناف شاعری اور ایک سو چالیس صفحات میں غزلیں شائع ہوئی ہیں۔غزلوں کے مطالعے کے دوران یہ بات  بطور خاص سامنے آئی کہ پانچ سے لے کر نو اشعار پر مشتمل غزلوں کی تعداد صرف بیس ہے جب کہ دس سے لے کر چوبیس اشعار پر مشتمل غزلوں کی تعداد تقریبا پچاس ہے۔ ان میں بھی دس غزلیں تو اٹھارہ اور اس سے زیادہ چوبیس اشعار پر مشتمل ہیں۔ ڈیڑھ دو صدی کی مدت میں بہت کم ایسے شعراگزرے ہوں گے جنھوں نے دو درجن اشعار پر مشتمل غزلیں کہی ہوں گی یہی نہیں غیر مروجہ بحر میں بھی ایسی غزل موجود ہے جو چوبیس اشعار پر مشتمل ہے جیسے         ؎

 ہم تمھیں سے پوچھتے ہیں یہ خبر سچ ہے کہ جھوٹ ... والی غزل۔ اس قدر قادر الکلامی جس شاعر میں موجود ہو وہاں مضامین کی وسعت کا کیا پوچھنا۔

حضرت آہ کی غزلوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی غزلوں کا عنوان اسی غزل کے کسی مصرعے کو بنایا ہے۔ جیسے ’سچ ہے کہ جھوٹ‘والی غزل جس کا ابھی ذکر ہوا۔ چھوٹی بحر میں غزل گوئی مشکل بھی ہوتی ہے اور فنی پختگی کی متقاضی بھی۔حضرت آہ کی غزلوں میں چھوٹی بحر پر مشتمل ایک درجن غزلیں ہیں ،جیسے       ؎

تیر دل میں اتر گئے ہوتے

 دیکھنے والے تر گئے ہوتے 

یا یہ غزل       ؎

تم لب بام نہ آیا کرتے

سارے عالم کو نہ شیدا کرتے

 ان چھوٹی بحر کی غزلوں میں بھی مضامین کی آمد ہی آمد ہے۔ زبان بھی نہایت شگفتہ رواں،سادہ اور کہیں کہیں بامحاورہ بھی ہے اوسط اور بڑی بحر کی غزلوں میں بھی زبان کی سلاست وشستگی پر قربان جائیے جہاںروانی اور بے ساختگی کا ایک چشمہ پھوٹتا نظر آتا ہے        ؎

بہت سے ماہ وشوں کو جہاں تہاں دیکھا

ترستی آنکھ نے لیکن وہ پی کہاں دیکھا  

13 اشعار پر مشتمل اس غزل کو بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے، جس کا مزیدایک شعر ملاحظہ فرمائیں           ؎

کمال درد کی لذت کا یہ کرشمہ ہے

ہزار رنج میں بھی دل کو شادماں دیکھا

غزل کی ایک اصطلاح ’حکایت بایار گفتن‘ بھی ہے اور غزل کو اردو شاعری کی آبرو بھی کہا گیا ہے ’ادب برائے ادب‘ اور ’ادب برائے زندگی‘ کی سرد و گرم آب وہوا کے دوران بھی اُردو غزل کا چراغ ہمیشہ روشن رہا دو صدیوں کے دوران مضامین کی وسعت نے بڑا طویل سفر طے کر لیا ہے لیکن آج بھی غم جاناں اْردو غزل کا محبوب موضوع ہے اور جس دوران حضرت آہ  نے غزل گوئی شروع کی اس وقت غم جاناں اپنی تمام تر رعنائیوں، نزاکتوں اور دلفریبیوں کے ساتھ اردو غزل پر سایہ فگن تھا۔ اس سے باہر کی طرف رخ کرنا ، روش زمانہ کے خلاف گردانا جاتا تھا۔چنانچہ آہ  کی غزلوں میں معاملات و مراحلِ عشق اپنی تمام رنگینیوں، چاہتوں، خلوتوں اور نزاکتوں کے ساتھ موجود ہیں لیکن یہ بات حیرت کی نہیں کہ آپ کی غزلوں میں عشق مجازی کے ساتھ بلکہ اس سے بھی نمایاں عشقِ حقیقی کے جلوے نظر آتے ہیں اگرچہ یہاں بھی عرفان و سلوک کی باتیں بادہ و ساغر کے سہارے کہنے کی روایت برقرار رہی ہے یہاں چند اشعار پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں           ؎

 زمیں کیا ،آسماں کیا ،لامکاں تک دیکھ آئیں گے

اڑا کرلے چلے گا جب ہمیں اعجاز ساقی کا

قوتِ برقی رگوں میں عشق نے ایسی بھری

تیرے عاشق اڑ کے پہنچے عرش پر سچ ہے کہ جھوٹ

 مزہ اے آہ   جب سے خلوت توحید کا پایا

  بھرے مجمع میں رہتے ہیں، مگر سب سے کنارے ہیں

قید تنہائی ہمارے حق میں اچھی ہوگئی

خلوتِ توحید میں سب سے جدا ہم ہو گئے

گردش میں آفتاب بھی ہے، ماہتاب بھی

منزل کا تیری ملتا کسی کو نشاں نہیں

اٹھا دے پردۂ پندار پی لے جام وحدت کا

ذرا آ دیکھ کیا کیا اس میں ہیں لعل و گہر رکھے

اردو غزل کی روایت زاہد و شیخ سے چھیڑ چھاڑ کی بھی رہی ہے۔حضرت آہ  نے جس دور میں شاعری کی دنیا میں قدم رکھا یہ مضمون اکثر شعراکی غزلوں میں بھی پایا جاتا تھا اردو غزل کے اسی مزاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے موقع بہ موقع  شوخی و طنز کے پیرایے میں اسی رنگ و آہنگ کے شعر بھی کہے اور زبان و بیان کے لطف کے ساتھ زندہ دلی اور قدرے دل لگی کا لہجہ بھی اپنایا            ؎

جناب شیخ کو بھی کر لیا ہے اپنا دیوانہ

پرانی بدچلن بنت عنب معلوم ہوتی ہے

واعظ کو کبھی عشق بتاں ہو نہیں سکتا

پتھر پہ کوئی رنگ عیاں ہو نہیں سکتا

 حضرت آہ کی غزلوں میں چند باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں جو یقیناً آپ کی غزل گوئی کے بنیادی اوصاف میں شامل ہیں۔ جیسے رواں اور شستہ لب و لہجے کے ساتھ  بامحاورہ زبان کا استعمال، استفہامیہ انداز کلام اور مضامین کی کثرت۔ آپ کی خمریاتی شاعری ہو یا عام نظمیں، سہرے ہوں یا تہنیتی نظمیں، رباعیات ہوں یا قطعات۔ سب میں یہ خوبی موجود ہے جو آپ کی شاعری میں آمد اور برجستگی کی دلیل ہے۔اگلی سطور  میں آپ کی غزل گوئی کے جس پہلو پر بھی گفتگو ہو گی ان میں یہ خوبیاں نمایاں طور پر سامنے آئیں گی۔

اردو غزل، جس بنیاد پر مقبول خاص و عام ہے وہ ہے مضامین حسن و عشق اور اس کی جزئیات کا بیان۔ حالانکہ وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آئیں اور نئے مضامین  و خیالات بھی وقت کے ساتھ اس میں شامل ہوتے گئے لیکن  کلاسیکی رنگ و آہنگ کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ حضرت آہ کا دور عشقیہ مضامین اور معاملات حسن و شباب کے ذکر کا بھی دور شباب تھا۔جس کے نمایاں اثرات آپ کی غزلوں میں نظر آتے ہیں ذیل کے اشعار سوز و ساز زندگی، مراحل حسن و نظر،اور سوزش عشق کی اثر انگیزیوں سے مملو نظر آئیں گے        ؎

حجابِ حسن میں چھپ کے بنالیا مشتاق

ہوائے دید میں ہر پیر کو جواں دیکھا

جلوۂ یار نہ دیکھے تو وہ بینائی کیا

درد فرقت سے نہ روئیں تو ہیں پتھر آنکھیں

 جگر کے ٹکڑے اڑے دل بھی پاش پاش ہوا

تمہارے تیر نظر کا غضب نشانہ تھا

میرے آنسو کو تم قطرے نہ سمجھو صرف پانی کے

یہ تیزاب محبت ہیں، اسی سے دل پگھلتے ہیں

بکھر آئیں زلفیں جو رخسار پر

گہن لگ گیا روز شب ہو گیا

بیڑیاں پاؤں میں زلفوں کی پڑی ہیں جب سے

کوچۂ یار سے دشوار نکلنا دیکھا

کتاب عشق کے جس  جس ورق کو دیکھا آہ

لہو کی بوند سے لکھا ہوا فسانہ تھا

خیالی صورتیں اچھی سے اچھی دیکھ لیتے  ہیں

مگر ارمان جس کا ہے وہ کوئی اور صورت ہے

پڑھ اے آہ پھر مطلع  چلے اب دور  مینائی

ہوا ہے، ابر ہے، ساقی ہے،مے ہے، اچھی صحبت ہے

کتنی پر کیف ہیں متوالی ہیں دلبر آنکھیں

گویا چلتی ہیں چڑھا کئی ساغر آنکھیں

نشاط و سرشاری، نالہ و فغاں،عشق و وفا اور راز و نیازکے یہی مضامین جب سوالیہ لب و لہجے میں اور کب کیوں میں نظم ہوتے ہیں تو تاثیر میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے۔ انداز کلام میں مزید نکھار کا احساس ہوتا ہے۔ اس استفہام میں جب تجاہل عارفانہ بھی شامل ہو تو شعر کی لذت  و رنگینی بھی بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے         ؎

کیوں بھٹکتے پھر رہے ہو در بدر اے آہ تم

کچھ تو سوچو کیوں دل برباد ویرانہ بنا

یہی طریقِ  محبت ہے کیا زمانے میں

ہوا ہر ایک  الگ جس سے دوستانہ تھا

یہ کیسے مست ہیں، مستی میں بھی ہوشیار رہتے ہیں

بہک کر  بھی نہیں کہتے کبھی کچھ راز ساقی کا

کس کی آمد کے منتظر ہو تم

کیوں نرالا ہے رنگ محفل کا

 بادۂ مستی کا آنکھوں میں بھرا ہے کیوں خمار

  ہاں کہیں ڈھلتی رہی ہے رات بھر سچ ہے کہ جھوٹ

نالہ کیا ہے اور فغاں کیسی

کچھ کہوں بھی تو ماجرا دل کا

جہاں  ہمدم نہ ہو کوئی کسی کا

رہیں اے آہ کیوں ایسے مکاں میں

کس دن ترا خیال ہمیں جان جاں نہیں

گزری وہ کون رات کہ آہ  و فغاں نہیں

آہ  پہلو میں درد رکھتے ہیں

تابکے نالہ و بکا نہ کریں

ان اشعار میں باتیں تو مستی اور  ہوشیاری یا آہ  و فغاں اور بنت عنب کی ہوئی ہیں لیکن سوالیہ انداز کلام نے بات میں خوبصورتی اور تاثیر میں اضافہ کیا ہے، جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

غزل کے مذکورہ مضامین کو شاعر نے جب محاروں کے سہارے نظم کیا تو زبان کی  حلاوت اور تاثیر کی لذت دو چند محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی غزلوں میں سیکڑوں محاورے بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم ہوئے ہیں ذیل میں کچھ اشعار پیش کیے جا رہے ہیں          ؎

نگاہ ناز سے دیکھا ہمیں جب

اشاروں میں بلائیں لیں نظر کی

( بلائیں لینا)

ادھر کوئی رخصت طلب ہوگیا

ادھر آہ میں جاں بہ لب ہوگیا

( جاں بہ لب ہونا)

لحد میں نکیرین ہم کو نہ چھیڑیں

مسافر ہیں غربت کے مارے ہوئے ہیں

( غربت کا مارا ہونا)

وقتِ شانہ جو گرا غنچۂ دل چوٹی سے

  زلف بل کھانے لگی سانپ کا من چھوٹ گیا

(من چھوٹ جانا)

غیر نے پٹی پڑھائی آپ کو

ورنہ اپنے قول سے پھر جائیں آپ

( پٹی پڑھانا)

گر گیا شیشہ نظر سے پڑ گیا جب اس میں بال

  جان دی کس نے خط و رخسار پر سچ ہے کہ جھوٹ

(بال پڑ جانا)(نظر سے گرنا)

الفت کا راز آہ کھلا بھی تو کب کھلا

مر مٹ چکے گزر گئے جب اپنے جی سے ہم

(جی سے گزر جانا)

مذکورہ اشعار اور خاص موضوع سے متعلق اشعار کے علاوہ حضرت آہ کی غزلوں میں متعدد اشعار ایسے ہیں جنھیں ذیل میں اس لیے نقل کرنا چاہتا ہوں کہ ان اشعار کی تازگی لہجے اور تاثیر میں تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ذرا سی کمی نہیں محسوس ہوئی یہ اشعار حضرت آ ہ کے چنندہ اشعار میں نشان زد کیے جانے کے لائق ہیں          ؎

بے وفائی کس نے کی ،کس نے وفا

خود ہی اس کا فیصلہ فرمائیں آپ

سبب کوچہ گردی کا ہم سے نہ پوچھو

 جنون اور وحشت کے مارے ہوئے ہیں

لٹ لٹا کر آ رہا ہوں  بزم سے

مال کیا،پہلو سے تو دل تک گیا

مکتب عشق میں جس دن سے قدم رکھا آہ

اپنی ہستی بھی فراموش ہوئی جاتی ہے

غزلوں کے کسی بھی مجموعے کے مطالعے کے دوران اس بات پر بھی نظر رہتی ہے کہ یہاں کتنی غزلیں ایسی ہیں جن کے بیشتر اشعار اعلیٰ پایے کے اور بے حد پر کشش ہیں جن میں خیالات و محسوسات کی یک رنگی موجود ہو اور جو قاری کی توجہ کو فوراً اپنی طرف مبذول کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ کلیات آہ کے مطالعے کے دوران ایسی کئی غزلیں سامنے آئیں جن پر نظر ٹک گئی، توجہ مرکوز ہوگئی اور ذہن و فکر کو کچھ نئے پن کا احساس بھی ہوا ان میں صرف ایک غزل جو چھوٹی بحر میں صرف سات اشعار پر مشتمل ہے نقل کرتا ہوں جو میرے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں          ؎

تم اگر قبر پر گئے ہوتے

مرنے والے تو تر گئے ہوتے

مکتبِ عشق کا تقاضا تھا

وہ جدھر،ہم ادھر گئے ہوتے

توڑ کر تختہ ہم نکل آتے

تم اگر قبر پر گئے ہوتے

ضبط نالہ سے کام ہے ورنہ

آسماں تک شرر گئے ہوتے

ایک دو جام بھی اگر پیتے

شیخ صاحب سدھر گئے ہوتے

مرتے دم حسرتیں نکلتیں آہ

وہ جو آکر ٹھہر گئے ہوتے

 

Dr. Shakeel Ahmad

Doman Pura Chungi,

Maunath Bhanja (UP

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...