4/6/24

کوثر چاند پوری کی تخلیقی جہات، مضمون نگار: ایم اے کنول جعفری

 ماہنامہ اردو دنیا،اپریل 2024 



کوثر چاندپوری کا اصل نام علی کوثر ہے۔ اس خوش خصال شخصیت کو گھرکے اندر ابّا جی، طبی حلقوں میں حکیم سید علی کوثر، ادبی دنیا میں کوثر چاندپوری اور عوام و خواص میں کوثرصاحب کے نام سے جاناجاتا تھا۔ کوثر چاندپوری طب کی دنیا کے بہترین نبّاض ہی نہیں،  ادبی شاہراہوں کے نبض شناس اور اصناف ادب کے مزاج داں بھی تھے۔ ان کی پیدائش 18اگست 1900کو اترپردیش کے ضلع بجنور کے شہر چاندپور میں سلارا تالاب کے قریبی محلہ کٹارمل میں ہوئی تھی۔ کوثر چاندپوری کے والد کا نام حکیم سید مظفر علی اور دادا کا نام حکیم سید منصور علی ہے۔اِن کا شمار ضلع بجنور کے نامور طبیبوں میں ہوتا تھا۔حکیم سید مظفر علی کی شادی سیوہارہ میں ہوئی تھی،لیکن اہلیہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی چاندپور میں ہوئی۔ انھوں نے شادی کے کچھ دنوں بعد چاندپور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان کی دوسری بیوی سے پانچ بیٹے سید علی اظہر، سید علی اکبر، سید علی کوثر، سید علی غضنفر اور سید علی معطر پیدا ہوئے۔ طبیبوں کا یہ خانوادہ ضلع بجنور میں ممتازو معروف حیثیت کا حامل تھا۔ کوثر چاندپوری نے اپنی کتاب’اطبائے عہد مغلیہ‘ میں اپنے جد امجد  مولوی ظہوراﷲ کا سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے ملنے کی بابت تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔

 اس خاندان کے ایک فردمیراں سید یعقوب جاجرم سے ہندوستان آئے تھے اورزیدپور میں مقیم ہوئے۔ وہاں سے اترپردیش کے شہر جون پور اور بعد میں قصبہ نہٹور میں آباد ہوگئے۔ قدیم رسالہ’ زیدیہ‘ اور’تاریخ واسطیہ‘ میں ان امور کا تذکرہ قدرے تفصیل سے مرقوم ہے۔

 حکیم سید مظفرعلی طبیب کی حیثیت سے بیمار لوگوں کی خدمت میں لگ گئے۔ وہ فن طب کے ماہر ہونے کے علاوہ ایک اچھے شاعر اورعمدہ نثرنگار بھی تھے۔ اردوادب کا اعلیٰ ذوق اور علمی شعور رکھنے کی وجہ سے انھوں نے آزادی کی جستجو کے دوران تحریک خلافت اور کئی دیگر تحریکوں کی تشہیراور لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے کثیر تعداد میں نظمیں کہیں۔ اِن نظموں کو کتابچوں کی شکل میں بھی شائع کیا گیا،لیکن برطانوی حکومت نے ان نظموں اور کتابچوں کو ضبط کرکے ضائع کرا دیا۔ملک آزاد ہونے کے تین برس بعد1950میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں چاندپور کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

 حکیم سید مظفر علی کے پانچ بیٹے سید علی اظہر، سید علی اکبر، سید علی کوثر،سید علی غضنفر اور سید علی معطر تھے۔انھوں نے اپنے تمام بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔اسلامی روایات اور مذہبی اقدار کا پابند ہونے کی بنا پر سبھی کی تعلیم کی ابتدا دینیات سے ہوئی۔وہ خود فارسی اور اردو زبان کے ماہر ہونے کے علاوہ شاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی اولاد کو بھی فارسی زبان اور اس کے علمی افکار سے واقف کرایا۔ سید علی اظہر گوالیار اور جھانسی کے درمیان دینا ریاست میں چیف انجینئر کے عہدے پرفائز تھے۔ملک کی تقسیم ہوئی،تو یہ ہندوستان سے پاکستان چلے گئے۔دوسرے بیٹے حکیم سید علی اکبر نے پرنسز آصفیہ طبیہ کالج بھوپال سے یونانی طب کی تعلیم مکمل کی اور چاندپور میں مطب کھولنے پر اکتفا کیا۔تیسرے بیٹے سید علی کوثر محض14برس کی عمر میں 1914میں تعلیم کی غرض سے بھوپال گئے۔ انھوں نے آصفیہ طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور 1918میں طبیب کامل کی ڈگری حاصل کر وہیں سکونت اختیار کی۔ چوتھے بیٹے سید علی غضنفرریاست جاورہ میں کسٹم کمشنر کے اعلی منصب پر فائز رہے۔یہ بھی بڑے بھائی سید علی اظہر کی طرح آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے۔ پانچویں بیٹے سید علی معطرنے بھی اپنے اجداد کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے طبابت میں کمال حاصل کیا۔حکیم سید علی کوثر یعنی کوثرچاندپوری طبی خدمات کے دوران 1955 میں ریاست بھوپال میں افسرالاطبا کے عہدے پر فائز ہوئے اور ماہانہ وظیفہ حاصل کیا۔ 1965میں حکیم عبدالحمید کے اصرار پر دہلی آگئے اور ہمدرد نرسنگ ہوم میں میڈیکل آفیسر کے عہدے پر رہتے ہوئے طبی خدمات کو انجام دیا۔

 اس سے قبل کوثر چاندپوری جب کبھی دہلی آتے،تو ہمدرد دواخانہ کے مہمان ہوتے۔اسی طرح جب حکیم عبدالحمید کبھی بھوپال جاتے،تو کوثر چاندپوری کے مہمان ہوا کرتے۔ رسمی تکلفات سے دور اور برادرانہ تعلقات کی بنا پر دونوں کے درمیان خلوص کا دریا موجزن تھا۔حکیم جی کوکوثر چاندپوری پراس قدر اعتماد تھا کہ وہ ہمدرد کی دواؤں کے تعارفی کلمات اور مختلف امراض و معالجے کے مضامین انھیں سے لکھواتے تھے۔ دہلی آنے کے بعد ہمدرد نرسنگ ہوم کی اہم ذمے داری ان کے سپرد کی گئی۔ کوثر چاندپوری بلی ماران میں رہائش پذیر ہوئے۔روزانہ صبح نو بجے نرسنگ ہوم پہنچتے، دوپہر 12 بجے تک کیبن میں بیٹھ کر مریض دیکھتے۔تشخیص و تجویز کے عمل سے فراغت پاکر نرسنگ ہوم میں داخل مریضوںکے بستروں کے پاس جاکر ان سے ملاقات کرتے، حال چال دریافت کرتے اور رات بھر کی کیفیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔  اگر ضرورت محسوس کرتے،تو دوا میں کسی قدر تبدیلی کرتے، ورنہ اسی کو جاری رکھتے۔ایک بجے گھرسے آیا ہوا کھانا کھاتے اورکچھ دیر قیلولہ کرتے۔اس کے بعد یا تو لکھنے میں مشغول ہو جاتے یا پھر مطالعہ کرنے بیٹھ جاتے۔ دوست و احباب کی آمد ہوتی،تو قیلولہ ترک کردیتے۔ تیسرے پہر کی چائے نوش کرنے کے بعد نرسنگ ہوم چلے جاتے۔ شام کے سات بجے نرسنگ ہوم سے باہر نکل کر کبھی پیدل اور کبھی رکشے میں بیٹھ کر گھر پہنچ جاتے۔کوثر چاندپوری نے بڑی محنت،نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ مریضوں کا علاج کرکے نرسنگ ہوم کو خدمت کامقبول ترین مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 بھوپال میں رہائش کے دوران طالب علمی کے زمانے میں شاعری کی جانب رجحان ہوا،تو محمد زکریا مائل سے عروض کی واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ شعر کہنے شروع کردیے۔کچھ عرصے یہ سلسلہ چلا اور پھر ممتاز و معروف شاعر مولانا جمیل احمد سہسوانی سے اصلاح لینے لگے۔ رفتہ رفتہ شعوروآگہی میں اضافہ ہوا،تو پرانے طور طریقے کے استادشاعر جمیل احمد سہسوانی کو الوداع کہہ دیا اور مانی جائسی سے کلام پر اصلاح لینا شروع کردیا۔چونکہ کوثر چاندپوری عام قسم کے کلام سے ہٹ کر شاعری کرنے کا ذوق رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے اثرـ لکھنوی، عزیز لکھنوی، ہادی مچھلی شہری اور سیماب اکبر آبادی سے بھی اپنی غزلوں پراصلاح لے کر فیض حاصل کیا۔

کوثر چاندپوری ایک اچھے شاعر تھے، لیکن انھوں نے شاعری پر توجہ دینے کے علاوہ اردو کے معیاری جرائد اور نثری کتب کا کثرت سے مطالعہ کرناشرو ع کردیا۔اسی دوران وہ مضمون نگاری کی طرف راغب ہوگئے اور 1917 میں انشائیہ لکھنا شروع کر دیا۔ ان کے انشائیے اردو کی مشہور میگزین ’نگار‘ لکھنؤ، ’نیرنگ خیال‘ لاہور، ’ادبی دنیا‘ لاہور اور’ شاہکار‘ لاہور میں شائع ہوئے۔کوثر چاندپوری نے 1920تک انشائیہ نگاری کو اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کے لیے موزوں پایا اوراس صنف میں کافی کام کیا۔ کوثر چاندپوری کسی ایک مقام پرٹھہرنے یا کسی ایک صنف میں ہی طبع آزمائی کے قائل نہ تھے۔ انھوں نے جس طرح صرف شاعری پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی،ٹھیک اسی طرح وہ انشائیہ نگاری پربھی اکتفا کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ کوثر چاندپوری کے اندر چھپی صلاحیتیں انھیں کچھ اور کرنے کے لیے برابر اکسائے جا رہی تھیں۔ چونکہ انھوں نے مضافات شہر میں طویل مدت گزاری تھی،اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دیہی علاقوں کے سرسبزوشاداب ماحول سے متاثر اوراونچائی سے ڈھلان کی جانب بہتے دریاؤں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز نہ ہوں۔ دیہی ماحول کو چارچاند لگاتی شادابیت سے متاثرہونے کے نتیجے میں ان کا رجحان افسانہ نگاری کی طرف ہو گیا۔ یوں توکوثر چاندپوری نے 1922سے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے،لیکن ان کا پہلا افسانہ 1926میں شائع ہوا۔ان کے منجھلے صاحبزادے نعیم کوثر کے مطابق کوثر چاندپوری کا پہلا افسانہ’گداز محبت‘ ماہنامہ ’پیام ہستی‘ امرتسر میں شائع ہوا تھا۔ ظفر احمد نظامی، رشید انجم، ڈاکٹر نازنین، پروفیسر نعمان خان نے بھی ’گدازمحبت‘ کوان کا پہلا افسانہ قرار دیا ہے۔دوسری جانب خود کوثر چاندپوری کی تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پہلا افسانہ 1924 میں شائع ہوا تھا:

’میں اب تک ’گداز محبت‘ کو اپنا پہلا افسانہ سمجھتا رہا، جو امرتسر کے کسی رسالے میں نامکمل شائع ہوا تھا۔ لیکن پرانی کتابوں میں مجھے رسالہ’الکمال‘ لاہور دسمبر 1924 کا فائل ملا ہے۔ اس کے ماہ دسمبر 1924 میں میرا پہلا افسانہ’ فضائے برشگال کا ایک تیر‘ شائع ہوا ہے۔ اسی کو میں اپنا پہلا افسانہ سمجھتا ہوں۔جو آج سے54سال قبل شائع ہوا تھا۔رسالہ’الکمال‘ ریاض شیرانی کی ادارت میںلاہور سے چھپتا تھا۔میرا پہلا افسانہ کافی ترمیم و اصلاح کے بعد میرے پہلے افسانوں کے مجموعے’دل گداز افسانے‘ میں شامل ہوا۔لیکن ’الکمال‘ میں اصلی صورت میں شامل ہوا تھا۔‘

 (کوثر چاندپوری کی افسانہ نگاری:ڈاکٹر شاداب تبسم ’ادبی میراث ڈاٹ کام02مارچ2022)

 کوثر چاندپوری کی تحریر کے اس اقتباس سے یہ بات آئینے کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ ان کا پہلا افسانہ ’گداز محبت‘ نہیں، بلکہ ’فضائے برشگال کا ایک تیر‘ ہے۔ انھوںنے خوب لکھا اور زبردست لکھا۔ وہ مسلسل 65برس تک پوری طرح فعال رہ کراردو ادب کی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کے جیسی زودنویسی بہت کم قلمکاروں کے حصے میں آتی ہے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’دل گداز افسانے‘ 1926میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا، تو اسے خوب پسند کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھوپال کی ادبی سرزمین سے کتاب کی شکل میں شائع ہونے والا یہ پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔اِس میں شامل سبھی16افسانوں میں دیہاتی زندگی، تہذیب و تمدن اورمعاشرے کے منتخب موضوعات اور مسائل پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔اِس سے قبل بھوپال میں کسی فکشن نگار کا کوئی افسانوی مجموعہ شائع ہوکر منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ ’دل گداز افسانے‘ کے بعد کوثر چاندپوری کے مزید13افسانوی مجموعے اور شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ افسانہ نگار نعیم کوثر کا اپنے والد کوثر چاندپوری کی ڈائری کے حوالے سے کہنا ہے کہ قریب 23برس تک ان کا آل اِنڈیا ریڈیو سے رابطہ رہا۔انھوں نے اس دوران اپنی75کہانیاں ریڈیو پر سنائیں۔دہلی منتقل ہونے کے بعد بھی خارجہ سروس میں کئی افسانے براڈکاسٹ ہوئے۔ 

کوثرچاندپوری نے افسانہ نگاری کی طرح ناول نگاری میں بھی خوب نام کمایااور اردو فکشن کے بیش قیمتی خزانے میں 17 ناولوں کا اضافہ کیا۔ ایک بے نیاز مفکر، محقق، ناقد، افسانہ نگار،مضمون نگار اور حاذق طبیب نے بچوں کے لیے بھی مضامین اور کہانیاں لکھیں۔اس ہمہ جہت فنکار کی ادب اطفال سے خاصی انسیت اور گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے بچوں کی قلبی تسلی اور ذہنی سکون کے لیے بہت کام کیا۔  ان کے شوق و ذوق کے مدنظربڑی مفید اور دلچسپ کہانیاں لکھیں اور ایک کے بعد ایک 25کتابیں تحریر کیں۔ پرائمری اور مڈل کلاس کے بچے ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ کئی نامور ادبا نے اردو ادب میں کوثر چاندپوری کے مقام کو اہمیت دی ہے۔وہ بچوں کے لیے ڈھیروں دلچسپ اور ان کے شعور میں اضافہ کرنے والی کہانیاں لکھ کر بچوں کے قابل ادیب کے طور پر اپنی پہچان کرانے میں کامیاب رہے۔ ان کے بیٹے نعیم کوثر رقم طراز ہیں:

’اردو ادب میں کوثر چاندپوری کی بھی ایک مخصوص شناخت تھی اور ان کی تخلیقات کو ڈاکٹر اعجاز حسین، احتشام حسین، وقار عظیم،انورسدید، وزیر آغا اور عنوان چشتی نے ادب میں اہم مقام دیا ہے۔اس طویل سفر میں انھوں نے ننھے بچوںکو اپنی فہم وادراک سے دور نہیں کیا۔ان کے لیے بڑی مفید اور دلچسپ کہانیاں لکھیں اور25کتابیں تحریر کرکے خود کو بچوں کے ادیبوں میں شمار کرایا۔‘

(وقار علم و حکمت: کوثر چاندپوری،مصنفہ :ڈاکٹر نازنین خان، ص 23)

کوثر چاندپوری نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ زندگی کے تئیں ان کی سوچ ترقی پسندانہ تھی۔ان کے یہاں ترقی پسند فکر کی قربت اور اثر کی صورت نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ان کے یہاںہندوستان کے گاؤوں اور دیہاتوں سے اخذ کیا گیا مواد موجود ہے،جسے کافی سلیقے اور ہنرمندی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔

 ان کے افسانوں میں عام طور سے پلاٹ کافی مختصر ہوتا ہے۔اختصار کوکامیاب افسانے کی خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ضرورت کے مطابق کہی گئی بات کو پسندیدہ اور غیر ضروری جملوں کو افسانے کی خامی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات بڑی بے باکی سے وضاحت کے ساتھ کہنے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کی زبان و بیان اغلاط سے پاک، بے عیب اور شگفتہ ہے۔حکمت سے تعلق ہونے کی بنا پر افسانوں میں طبی نکات بھی دلچسپ انداز میں پیش کیے ہیں۔ تشبیہات کی فنکارانہ ایجاد کے علاوہ منظرآرائی پر بھی عبور حاصل ہے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں کے کردار اپنے وقت کی سچی نمائندگی اور ماحول کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں۔  انھوں نے زندگی کی حقیقت اور تلخ و شیریں تجربات کو بیان کرنے کے لیے ایک ماہر نباض کی طرح معاشرتی مسائل کو موضوع بناکر ان کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے،اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔وہ ہر طبقے اور جماعت کے ذریعے کہے جانے والے محاوروں کو بڑی ذہانت اور چابکدستی سے استعمال کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔

کوثر چاندپوری بہت سلجھے ہوئے انسان اور کشادہ ذہن کے مالک تھے۔صاف گوئی میں یقین رکھتے تھے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے تھے۔جو کہتے تھے،سچ کہتے تھے اور اسی پر قائم رہتے تھے۔ ایک مرتبہ پاکستان سے ماہنامہ ’افکار ‘کے مدیر کی جانب سے ہندوستان اور پاکستان میں رہنے والے افسانہ نگاروں اور تنقید نگاروں کو ایک سوال نامہ ارسال کرکے یہ معلوم کیا گیا تھا کہ ان کی رائے میں پریم چند کے بعداردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار کون ہے؟ اس سوال کے جواب میں کوثر چاندپوری نے جو کہا،اسے ڈاکٹر مظفرحنفی نے کوثر چاندپوری کی کتاب’وقار علم و حکمت کے شروعاتی مضمون’باتیں کوثرصاحب کی‘ میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

’کرش چندر کے بڑے قائل تھے۔ ماہنامہ ’افکار‘ کراچی  نے ایک سوالنامہ ہندوپاک کے افسانہ نویسوں  اور نقادوں کو بھیج کر دریافت کیا کہ پریم چند کے بعد ان کے خیال میں سب سے بڑا افسانہ نگار کون ہے؟ میں نے کوثر صاحب سے پوچھا،آپ کی رائے کس کے حق میں گئی؟ فرمایا کرشن چندر کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ پھر موصوف نے مجھ سے استفسارکیا،عرض کیا،میں نے تو جواب میںلکھا ہے کہ بشمول پریم چند اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار منٹو ہے۔کہنے لگے آپ کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے،لیکن کرشن چندر بہر حال سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔‘

(مضمون:باتین کوثر صاحب کی، ڈاکٹر مظفر حنفی، کتاب:وقار علم و حکمت:کوثر چاندپوری ص8)

کوثر چاندپوری کے بھتیجے ڈاکٹر حامد اکبرنے بتایا کہ چچامزاح پسندکرتے تھے۔ بچوں سے بھی مذاق کر لیتے تھے۔ چھوٹے بیٹے حلیم کوثر فوج میں ڈاکٹر تھے۔قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کرد دہلی میں کلینک کھول لیا تھا۔ ایک مرتبہ کوثرصاحب مطب پر پہنچے۔ سامنے قبرستان تھا۔ دور تک پھیلی قبروں پر نظر پڑتے ہی صاحبزادے سے بولے، ’بیٹا حلیم! تمھاری کلینک تو بہت اچھی چل رہی ہے۔‘حلیم سمجھ گئے اور مسکرا کر رہ گئے۔ کوثر صاحب مچھلی کے بہت شوقین تھے۔ ان کے نام اور خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ انتقال سے قبل مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی۔حلیم بہت عمدہ سنگھاڑا لے آئے۔مچھلی تیار کی گئی،لیکن کھا نہیں پائے۔ کہنے لگے،’دل نہیں کر رہا ہے۔‘

کوثر چاندپوری کی تخلیقات میں’دلگداز افسانے‘ 1929، دنیا کی حور، 1930، ’ماہ و انجم‘ 1937، ’دلچسپ افسانے‘ 1938،’ دنیا کی حور اور دیگر افسانے‘1938،’ گل و لالہ‘ 1938، ’شب نامچے ‘ 1941، ’عورتوں کے افسانے‘1941، ’رنگین سپنے‘1941، ’لیل و نہار‘ 1944، ’اشک و شرر ‘ 1944،  ’شعلۂ سنگ‘ 1963، ’رات کا سورج‘ 1963، ’آوازوں کی صلیب‘1973،اغوا، نوک جھونک 1944،فریدہ موہنی کی ڈائری، (ناول) 1958، ’اطبائے عہد مغلیہ‘1960، ’محبت اور سلطنت‘ (ناول) 1962، ’شام غزل‘ (ناول) 1964، پتھر کا گلاب 1968، مرجھائی کلیاں(ناول)1968،چالاک مرغا1946،چوہیا بیگم 1946،دانش و بینش،داستانیں،جادو کا خزانہ، طب قدیم میں دوسرے علوم کی آمیزش،1976، راکھ اور کلیاں (ناول)، دیدۂ بینا، کارواں ہمارا(دورپورتاژ) 1966، ماہنامہ افکار بھوپال میگزین شمارہ 004 (1946)،ماہنامہ جادہ، بھوپال1949،موجزالقانون،وقار علم و حکمت  وغیرہ شامل ہیں۔

کوثرچاندپوری نہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوںکے مالک تھے۔تحریروتصنیف و تالیف کی ایسی کون بھی نوع ہے، جس میں انھوں نے اپنے قلم سے قرطاس ابیض پر زبردست نقوش ثبت نہ کیے ہوں۔ تاریخ، سوانح طب، انشائیے، رپورتاژ، طنزومزاح، تنقیدوتحقیق،’ جادہ‘ میگزین کی ادارت اور نہ جانے کتنی مہمات میں ان کے تیزرفتار قلم نے اپنے جوہر دکھائے۔ کوثرچاندپوری نے ایک طبیب رہتے ہوئے بھی شعرگوئی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، انشائیہ نگاری، رپورتاژ،طنزومزاح نگاری، تنقید نگاری، تحقیق نگاری اور ادارت سمیت کئی اصناف میں طبع آزمائی کی۔  ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا شاید ہی کوئی اردو رسالہ یا اخبار ایسا ہو، جس میں کوثر چاندپوری کی تخلیقات شامل نہ ہوئی ہوں۔ کوثر چاندپوری کی شمولیت شاعر، بیسویں صدی، شمع، نیا دور،آجکل، نئی دنیا،ادبی دنیا،بانو، کھلونا، شمع جنتری اور روبی سمیت کتنی ہی میگزین کے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجانے کی ضمانت ہوتی تھی۔

بزرگ، جوان، بچے اور خواتین کوبازار میں ان کی کتاب یا کسی جریدے میں تخلیق آنے کا انتظار رہتا تھا۔ لیکن افسوس کہ ادبی دنیا کی ایسی نابغۂ روزگار اور ہمہ جہت شخصیت کی بیش بہا خدمات کا اس طرح اعتراف نہیں ہو پایا، جس کے وہ بجا طور پر حق دار تھے۔ ہندوستان اور ہندوستان سے باہراردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت کوثر چاندپوری کو یاد کیا جانا اور ان کے تذکرے ہونا نہ صرف اس لیے ضروری ہیں کہ اردو سے نابلد موجودہ نسلیں اس طبیب کامل، مفکرعالی،تحقیق نگار، تنقید نگار، افسانہ نگار، مضمون نگار، ناول نگار، رپورتاژ نگار، انشائیہ نگار، مزاح نگار، شاعر اوراول درجے کے صحافی کو بھولتی جا رہی ہیں، بلکہ اس لیے بھی لازمی ہے کہ زبان و ادب سے وابستہ نئی نسل ایسی باکمال شخصیت کے ادبی و تخلیقی کارناموں سے واقفیت حاصل کرے اور ان کی کما حقہ قدر شناسی ہوسکے۔

 

M. A. 'Kanwal' Jafri

127/2, Jama Masjid,

NEENDRU, Tehsil Dhampur

District: Bijnor (U.P.) 246761

09917767622,  09675767622  


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...