4/6/24

فراق شناس افغان اللہ خاں، مضمون نگار: ذاکر حسین ذاکر

 ماہنامہ اردو دنیا،اپریل 2024



پروفیسر افغان اللہ خان 1948-2008 کی ولادت اعظم گڑھ کے خالص پور میں ہوئی تھی۔ ان کے والد محمد یحییٰ خاں خالص پور اعظم گڑھ کے ایک ممتاز زمیندار خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد نے ریلوے میں نوکری کر لی اور گورکھپورمیں آباد ہو گئے۔افغان اللہ خاں کی ابتدائی تعلیم خالص پور میں ہی ہوئی۔ مگر وہ بہت جلد گورکھپور آگئے۔وہ گورکھپور میں پلے بڑھے اور ان کی تعلیم وتربیت گورکھپور میں مکمل ہوئی اورانھوں نے اپنی کارزار زندگی کی شروعات بھی گورکھپور سے ہی کی۔ گورکھپور کے قدیم اسلامیہ کالج سے انٹر کرنے کے بعد انھوںنے گورکھپور یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

گورکھپو ریونیورسٹی سے انھوںنے سماجیات اور پھر بعد میں اردو سے پوسٹ گریجویشن کیا۔شعبہ اردو میں وہ گولڈمیڈ لسٹ تھے۔ انھوں نے پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں تحقیق کی شروعات کی۔پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع فراق کی شاعری تھا۔انھوںنے فراق کی شاعری پربلیغ مقالہ لکھا‘جو بعد میں فراق کی شاعری کے عنوان سے شائع ہوا۔ 1980میں گورکھپور  یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بطور لکچرار ان کی تقرری ہو گئی۔ پروفیسر افغان اللہ سرزمین گورکھپورکے ادبی ‘سماجی اور سیاسی زندگی سے اتنی گہرائی سے منضبط تھے کہ انھیں اعظمی کہنا بالکل بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ وہ گورکھپور کے ادب اور معاشرے کا جز ولاینفک تھے۔صحیح معنوں میں وہ گورکھپور کے ادبی شاہین تھے۔

افغان اللہ خاں کی عملی زندگی کی اصل شناخت اس وقت شروع ہوتی ہے‘ جب انھوں نے 1998 میں گورکھپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا چارج سنبھالا۔ یک بہ یک شعبہ اردو نہ صرف آرٹ فیکلٹی کا مرکز اور محور بن گیا بلکہ گورکھپور کی ادبی ا نجمنیں اور ادبی شخصیات بھی اس کے اہم حصے میں شمار ہونے لگے۔ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ افغان اللہ صاحب نے پہلے سے پلان مرتب کر کے رکھا ہواتھاکہ صدر شعبہ بننے کے بعدانھیں کیا کیا کرنا ہے۔جب موقع ملا تو اچانک اس پلان پر کارروائی شروع ہو گئی۔ اس دوران انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی سے ملحق ایک درجن کالجوں میں بی اے اور پی جی میں اردو موضوع کی منظوری دلوائی۔وہ خود ان کے پینل میں شریک رہتے اور یونیورسٹی کے دیگر ارکان پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اردو موضوع منظور کراتے۔یہ ایک کام ایسا ہے جو ان کے سارے کاموں پر فوقیت رکھتا ہے۔

2001کے بعد جب افغان اللہ خان پروفیسرکے عہدے پرفائز ہوئے، اس کے بعد شعبہ اردو میں سمیناروں‘ نشستوں اور ادبی پروگراموں کی باڑھ سی آگئی۔یہاں پہلی بار ریفریشر کورسیز چلائے گئے‘ جن میں پورے ہندوستان سے مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو کے لکچرارنے شرکت کی۔اس سے گورکھپور کے علمی اور ادبی ماحول کا دائرہ کافی وسیع ہوا۔جیساکہ ظاہر ہے انھوں نے شعبہ اردو اور شہر کو ایک دوسرے سے مربوط کر دیا تھا۔ جیسے شہر کی دوسری اردو داں شخصیات کا شعبہ اردو میں آنا جانا شروع ہوا اسی طرح یونیورسٹی کے دوسرے شعبہ جات کے بڑے بڑے پروفیسران بھی شعبہ اردو میں اپنا وقت گزارنے لگے۔ پروفیسر متل، پروفیسر سکسینہ، پروفیسر رضوی، پروفیسر لال، پرفیسر کے ڈی شکل، پروفیسر اصحاب علی،پروفیسر سی پی سریواستو، ڈاکٹر انکور وغیرہ کے لیے شعبہ اردو کبھی بالکل انجانا تھا اب گلشن جیسا معلوم ہونے لگا  تھا۔ان کی موجودگی سے شعبہ اردو گلزار بنا رہتا۔  شعبہ تاریخ کے پروفیسر چندربھوشن انکورنے بڑے پتے کی بات کی ہے۔’’مجھے حیرت یہ ہوتی تھی کہ کبھی بھی انھوں نے اردو کے سنگل مین ڈیپارٹمنٹ ہونے کا رونا نہیں رویااور اکیلے ہی سال میں ایک یا دوجلسے اورلکچر وہ شعبہ اردومیں کروالیتے تھے‘جو ان کے ٹھیک نیچے واقع  دس ارکان والے شعبہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوپاتا تھا۔ اردوادب کی معروف شخصیات سے ملاقات انھیں کے توسط سے ہوجاتی تھی۔شہر میں بھی ان کے جاننے والے بہتیرے تھے۔‘جن میں ایک دم معمولی آدمی سے لے کر اعلیٰ شخصیات تک شمار تھیں۔وہ سب سے برابری کا تعلق رکھتے تھے۔نہ تو میں نے انھیں جھکتے دیکھا اور نہ ہی بے وجہ اکڑتے دیکھا۔‘‘

(نقوش افغان از پروفیسر افغان اللہ میموریل کمیٹی گورکھپور مضمون جسے انسان ہونا میسر تھا از ڈاکٹر چندر بھوشن انکور )

افغا ن اللہ خاں شاعر تھے اور ادیب تھے۔ انھوں نے شاعری میں اس لیے بہت وقت نہیںگنوایاکیونکہ انھیں نثر زیادہ پسند تھی۔

(دبستان گورکھپور از مسلم انصاری فیضی پریس گورکھپور، ص562)

مگر شاعری سے ان کا ناطہ اس وقت سے تھا ‘جب انھوں نے فراق گورکھپوری پر تحقیقی مقالہ لکھناشروع کیا۔ فراق پر تحقیق بڑی جانفشانی کا کام تھا۔فراق عام آدمی کو ٹکنے نہیں دیتے تھے۔ فراق کے ساتھ کام کرنے والا شخص انتہائی بڑے دل گردے کا مالک ہوگا۔یہ ڈاکٹر افغان اللہ خان کے لیے ایک سند توصیف ہے۔ انھوں نے کام بھی بہت لگن اور محنت سے کیا اورفراق پر اتھارٹی ہو گئے۔ چونکہ فراق کی شاعری پر بہت ہی گہرا اور معنی خیز کام افغان اللہ خان نے کیا ہے اس لیے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ شاعری کی چھٹی حس سے ضرورواقف تھے اور اچھے شعر کہتے تھے       ؎

بند کرنا تھا کتابوںکا کہ آنکھیں کھل گئیں

 زندگی جب سامنے آئی تو صورت اور تھی

سامنے آتے ہوئے نیزوں کا بڑھ کر چومنا

پیٹھ میں چبھتے ہوئے خنجر کی لذت اور تھی

ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے          ؎

جسم کے جنگل میں آوارہ پھرے ہے آرزو

دست وبازوہو رہے ہیں اپنے صحراآشنا

حافظے کی لوح پر محفوظ ہیںلمحات دوست

روح میں پیوست ہے اک اک پرانا آشنا

روزن زنداں صلیبوں کے مکاں زہریلا شہر

کربلائے روز وشب میں کون کس کا آشنا

پروفیسر افغان اللہ خاںنے داستان‘تاریخ اور سماجیات اور ہندی اردو تنازعہ پر کام کیا۔انھوںنے انشاء اللہ خاں کی ہندوی داستان رانی کیتکی کی کہانی پر بسیط مقدمہ لکھ کر شائع کیا۔رانی کیتکی کی کہانی کا تیسراایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔پروفیسر افغان اللہ خاں کہتے ہیں۔’’رانی کیتکی کی کہانی تاریخی اور لسانی اہمیت کی حامل ہے۔نہ صرف اردو بلکہ ہندی ادب کے محقق اور نقادان کا شمار ان ادیبوں میں کرتے ہیں جنھوں نے کھڑی بولی کو ترقی دی‘جس پر ہندی زبان کی بنیاد رکھی گئی۔حالانکہ اردو کی بنیاد بھی کھڑی بولی ہے‘اس لیے رانی کیتکی کی زبان کو ہندوستانی یا ہندوی کہنا ہی زیادہ صحیح ہے‘جس میں بیرونی زبانوں کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا ہندی محققوں کا خیال ہے کہ ٹھیٹھ کھڑی بولی کی بنیاد رام پرساد نرجن نے رکھی تھی۔انھوںنے 1742 میں بھاشا یوگ وششٹھ لکھ کر کھڑی بولی میں تصنیف کی ابتدا کر دی تھی۔

(رانی کیتکی کی کہانی از انشاء اللہ خاں مقدمہ ڈاکٹر افغان اللہ خاں۔ آصف آرٹس گورکھپوردوسری اشاعت 2019ص 16)

اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر افغان اللہ کہتے ہیں کہ:

بہر حال انشا کی ذہانت تھی کہ انھوںنے بلا کسی منصوبے یا تحریک کے ایسی نثر ترتیب دی جو زبان ہندوی ہندوستانی کی اہم مثال ہے جو آج ہندی اور اردو دونوں میں یکساں طورپر مقبول ہے۔ زبان کے آغاز وارتقاکا جائزہ لینے والے ماہر لسانیات اور محققوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے کیوں کہ مقامی بولیوں نے بعد میں چل کر مختلف زبانوں کا روپ اختیار کیا۔ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے علمائے ادب اس بات پر متفق ہیں کہ انشا اپنے دعوے پر کہ اس رانی کیتکی کی کہانی میں ہندوی چھٹ کسی اور بولی کا پٹ نہ ملے۔باہر کی بولی اور گنواری کچھ اس کے بیچ میں نہ ہو بس جیسے بھلے لوگ اچھوں سے آپس میں بولتے چالتے ہیںجیوں کا تیوں ڈول رہے اور چھانہہ بھی کسی کی نہ ہو۔

(رانی کیتکی کی کہانی، ص 18)

پروفیسر افغان اللہ خاں کی زندگی میں ایک موڑ اس وقت آتا ہے‘ جب انھوںنے اپنے قدیمی ورثے کو سمجھنے کا فیصلہ کیا۔انھوںنے ان بکھری وراثتوں کو ادبی روایتوں سے جوڑ دیا۔اس سلسلے میں انھوںنے کئی اہم پروجیکٹ پر کام شروع کیا۔اس میںسب سے اہم 1857کی نئی تفہیم تھی۔پروفیسر نے پہلی بار 1912 میں شائع ظہیر دہلوی کی مشہورو معروف کتاب داستان غدر عرف طراز ظہیر ی پر بلیغ مقالہ لکھ کر ازسرنو شائع کیا۔اپنے طویل مقدمے میں پروفیسر افغان اللہ خاں نے نہ صرف حالات ظہیر دہلوی کا مفصل تذکرہ کیا ہے‘ بلکہ ان کی شاعری اور نثر نگاری کے انداز کا بھی مکمل جائزہ لیا ہے۔ ولیم ڈیلریمپل نے اپنے ناول د لاسٹ مغل میں کئی باراس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول کئی چاند تھے سرآسماں میںبھی افغان اللہ خان کے شکریے کے ساتھ طراز ظہیری کا حوالہ دیاہے۔ پروفیسرافغان اللہ نے طراز ظہیری کی اشاعت کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:

’’غدر 1857 کے متعلق متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیںمگر تعجب کی بات ہے کہ ان کتابوں میں درج معلومات تقریباًیکساں ہیں۔بعض محققین ضرورایسے ہیں جو شعروادب کے حوالے سے اسباب غدر کے متعلق نئے گوشے دریافت کرتے ہیںلیکن تعجب کی بات تو یہ ہے ظہیر دہلوی اور ان کی خودنوشت جو غدر کے چشم دید حالات پر مبنی ہے نظر انداز کردی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ظہیر دہلوی کی رائے اورفیصلے سے اتفاق نہ کیا جائے۔ لیکن انقلاب 1857 پر کام کرنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب دواعتبار سے اہم ہے۔غدر یا انقلاب 1857کے چشم دید حالات جو اس خودنوشت میں درج ہیںوہ نہ صرف غدر کی ابتداسے انتہاتک روداد پیش کرتی ہیں بلکہ اس دورکے سیاسی سماجی اور تہذیبی پس منظر کو بڑی تفصیل سے پیش کرتی ہیں۔

(طراز ظہیری از ظہیر دہلوی مقدمہ اور پیش کش ڈاکٹر افغان اللہ خاں، آفسیٹ پریس گورکھپور2003ص 8)

اپنے ورثے کو سمجھنے اور اس کی تفہیم کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے تحریک آزادی اور چوری چورا کیس پر گہری تحقیق کی۔ انھوں نے آزادی کی تحریک اور چوری چورا کیس کے عنوان سے ایک مقدمہ لکھا‘ جو ان کی کتاب نیرنگ نظر میں پہلی بار شائع ہوا۔ اس مقالے میں پروفیسرنے چوری چورا واردات سے قبل کے حالات سے لے کر عدم تعاون تحریک کے بعد عوام کے غصے کے نتیجے میں چوری چورا واردات وقوع پذیر ہونے تک‘ پوری تفصیل لکھی ہے۔’’چوری چورا گورکھپور شہر سے پچیس کلومیٹر مشرق میں واقع ہے یہاں عبداللہ نامی شخص کی کوششوں سے موضع ڈومری خرد میں منڈل کانگریس کمیٹی کا مکمل انقلابی لڑاکودستہ ظہور میں آیا۔کمیٹی میں لال محمد‘ نذر علی ‘شکاری جولاہا‘موضع ڈومری اور منڈیرا بازار کے بھگوتی پردھان مقررکیے گئے۔چوری چوراکے کانگریسی پردھانوں نے اپنے رضاکاروں کوانقلابی بنانے کی غرض سے قواعد سکھانے کی ضرورت محسوس کی۔ضلع کانگریس کمیٹی گورکھپور کودرخواست بھیج کرقواعد کی اجازت مانگی گئی۔ضلع کانگریس کمیٹی نے فوجی ڈھنگ کی قواعد کی درخواست کو ردکردیا۔لیکن نذر علی نے عبداللہ اور اپنے دیگر ساتھیوں سے مشورہ کرکے بھگوان یادوکو ڈرل ماسٹر مقرر کر کے لال محمد کے دروازے پر باقاعدہ قواعد کا بندوبست کیا۔ شروع میں تعداد کم تھی لیکن دھیرے دھیرے رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔رضاکاروں کے اندراسی طرح کی ٹریننگ سے ایک نئی ترنگ اور ایک نئی بیداری پیداہوئی۔رضاکار پوری طرح حب الوطنی کے جذبے سے شرابور ہو گئے۔

(نیرنگ نظراز افغان اللہ خاں۔ادبی مرکز جامع مسجد گورکھپور 2000، ص 134)

آگے انھوںنے جنگ آزادی کے انقلابی نوجوانوں کی رہنمائی کرنے والے نڈراور بہادر مجاہد رام پرساد بسمل کی شخصیت پر مبسوط مقالہ تحریر کیا۔یہ مضامین ایسے ہیں جو براہ راست ادبی مواد فراہم نہیں کرتے مگر ان سے ہم اپنی سیاسی اورجنگ آزادی کی جڑوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ جیساکہ پروفیسر افغان اللہ خاں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر اشفاق احمد کہتے ہیں۔’’رام پرساد بسمل افغان اللہ خاں کا نیرنگ نظر میں شامل ایک اہم مضمون ہے۔اسے اگر بسمل کا سوانحی خاکہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔اس مضمون میں افغان اللہ خاں نے بسمل کے حوالے سے تمام معلومات فراہم کی ہیں۔انھوںنے بسمل کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں کوبھی اپنے اس مضمون میں بڑے دلکش انداز میں بیان کیاہے۔‘‘

(افغان اللہ خاں کی علمی وادبی جہتیں از ڈاکٹراشفاق احمدایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی2022، ص 124-125)

پروفیسر افغان اللہ خاں نے رام پرساد بسمل پر لکھے اپنے مقالے کا ماخذگنیش شنکر ودیارتھی کی کتاب رام پرساد بسمل کا نیم سوانحی خاکہ’ کاکوری کا شہید‘ کو بنایاہے ‘بسمل کی سوانح عمری کو ودیارتھی نے مرتب کیا تھا۔بعدمیں یہ کتاب امرشہید کے عنوان سے شائع ہوئی۔اسے دوبارہ بنارسی داس چترویدی نے طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔اس مقالے میں رام پرساد بسمل کی زندگی اور ان کے کارنامے کی بہت عرق ریزی سے عکاسی کی گئی ہے ‘جو اردو کے لیے بیحد اہم ہے۔اس مقالے سے معلوم ہوتا ہے کہ رام پرساد بسمل ایک کٹر آریہ سماجی ہونے کے باوجود وہ بے حد نرم دل اور ہمدرد انسان تھے۔وہ ایک خالص مسلمان اشفاق اللہ خاں سے بہت متاثر تھے‘اور ان پر بے انتہابھروسہ بھی کرتے تھے۔بسمل کے سوانحی خاکے میں اشفاق اللہ خاں کا ذکر باربار ملتاہے۔بسمل اعتراف کرتے ہیں کہ تم ایک سچے اور حق پرست مسلمان ہو۔ اپنی پھانسی سے تین دن قبل بھی بسمل جو تین صفحات تحریرکر تے ہیں‘ اس میں اشفاق اللہ خاں کو یاد کرنا نہیں بھولتے۔’’رام پرساد اپنے دوستوں میں کسی سے متاثر تھے تو وہ اشفاق اللہ تھے۔وہ اشفاق اللہ کو اپنے چھوٹے بھائی کی طرح مانتے تھے۔حالانکہ وہ بڑی حدتک آریہ سماجی تھے...سبھوں کو تعجب ہوا کہ میں ایک کٹر آریہ سماجی اور تم ایک مسلمان دونوں کا کیا میل۔میں نے مسلمانوں کی شدھی کیا تھا۔کچھ ہمارے ساتھی تم سے مسلمان ہونے کی وجہ سے نفرت بھی کرتے تھے...مگر تمہاری صاف گوئی نے میرادل جیت لیا۔کبھی کبھی دوستوں کی محفل میں بات چھڑتی کہ کہیں مسلمان پر اعتبار کرکے دھوکہ نہ کھاجائیں۔ مگر جیت تمہاری ہوئی۔  (نیرنگ نظر، ص 123-124)

انقلاب اودھ اور نواب واجد علی شاہ بہت دلچسپ تجزیاتی مضمون ہے۔یہ مضمون شیخ محمد یعقوب ندیم صہبائی فیروزپوری کے نیم تاریخی ناول نواب واجد علی شاہ عرف انقلاب اودھ پر تبصرہ وتجزیہ پر مبنی ہے۔پروفیسر افغان اللہ خاں نے اپنی تحقیق کے دوران نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ندیم صہبائی نے اپنی معلومات کا ماخذ نجم الغنی خاں نجمی رام پوری کی معروف کتاب تاریخ اودھ کی جلد چہارم کو بنایا ہے۔نجمی کے پیش نظر منشی رام سہائے تمنا کی کتاب احسن التواریخ بھی ضرور رہی ہوگی‘ جس میں انتزاع سلطنت اودھ پر اچھی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ندیم صہبائی خود کو نقاش فطرت کہا کرتے تھے۔ندیم صہبائی بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کے پاپولر ناول نگار تھے ‘جو دوسچے عاشقوں کی موت ‘محبت کے عاشقانہ خطوط ‘ترکی شیر عرف معشوقہ انگور‘رنگیلی دلہن کی پہلی رات ٹائپ کے ناول لکھا کرتے تھے۔ ندیم صہبائی کے ناول میں کچھ بے حد دلچسپ معلومات فراہم کی گئی  ہیں ‘جو تاریخ اودھ میں نہیں ہیں۔یہ پتہ نہیں چل پاتا ہے کہ ان معلومات کے لیے ندیم صہبائی کاماخذ کیا ہے۔ بہر حال یہ ناول واجد علی شاہ کے معاشقے‘ ان کی شاعری اور ان کے پری خانے کی پوری تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ہی اس صورت حال پر بھی بحث کرتاہے‘ جس میںانتزاع سلطنت اودھ کے لیے انگریزوں کو ذہنی طورپر تیار ہونا پڑا۔اس میں اجودھیا کے ہنومان گڑھی میں ہونے والے فساد کا بھی ذکر ہے‘ اس فساد میںواجد علی شاہ نے فسادیوں کے خلاف سخت ایکشن لیاتھا۔

افغان اللہ خاں نے ملک محمد جائسی کی پدماوت پر کام کیا اور ملک محمد جائسی کی حیات وخدمات پر مبسوط مقالہ لکھا۔پروفیسر نے ملک محمد جائسی کا جائزہ اختلافات کے آئینے میں لیا ہے۔یہ ایک اہم مضمون ہے‘جس میں ہندی نقادوں کے اختلافات کا مفصل بیان ہے۔افغان اللہ خاں اعتراف کرتے ہیں کہ جائسی پر جتنا کچھ لکھا گیا اختلافات بڑھتے ہی گئے۔ڈاکٹر افغان اللہ خاں کہتے ہیں کہ ہندی کے محقق جائسی کے متعلق صرف دو باتوں پر متفق ہیں ایک ان کے نام کے ساتھ محمد جڑا ہواہے اور دوسرے وہ جائس کے رہنے والے تھے۔اسی کے ساتھ انھوںنے ہندی اردو تنازعے پر بھی ایک مضمون لکھا ہے‘ جسے سمجھنے کے لیے جائسی کا مطالعہ بہت اہم تھا۔ان کی اہم کتاب نیرنگ نظرمیں جتنے مضامین شامل ہیں وہ سب تاریخی نقطہ نظر سے لکھے گئے ہیں۔اگر ان مضامین کو ہم مروجہ ادبی روایت کے حوالے سے دیکھیں تو وہ سبھی مضامین اس کی نفی کرتے نظر آئیں گے۔لیکن ادب میں ان کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرتے ہوئے افغان اللہ خاں کہتے ہیں۔ ’’ادب کو سماجی معنویت کاحامل ہونا چاہیے۔ اس لیے میں ہمیشہ ترقی پسند خیالات اور رجحانات کا طرفدار رہا ہوں ‘لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ میں ادب کی جمالیاتی اور فنی قدروں کو اہمیت نہیںدیتایا اس کی نفی کررہا ہوں۔ادب اس وقت تک عظیم ادب ہو ہی نہیں سکتاجب تک کہ وہ فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو پورانہ کرتا ہو۔ادب محض تفنن طبع کی چیز نہیں ہے‘ادب کے نام پر لایعنی تخلیق وتجربہ نقصان دہ بھی ہے اور گمراہ کن بھی ‘بالکل اسی طرح نظریاتی وابستگی میںشدت پسندی اور ماضی کے ادب کو فرسودہ قراردینے کا بھی مخالف ہوں۔‘‘

(نیرنگ نظر،ص5)

جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے پروفیسر افغان اللہ خاں کا سب سے اہم کارنامہ’ فراق کی شاعری ‘ہے۔فراق کی شاعری ایک تحقیقی مقالہ ہے ‘جس پر افغان اللہ صاحب کو 1978میں گورکھپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔مگر یہ مقالہ دس سال بعد 1988میں شائع ہوا۔691صفحے پر محیط یہ مقالہ جلدہی فراق کی زندگی اورفن پر ایک اہم ماخذ کے طورپر استعمال ہونے لگا۔ پروفیسر افغان اللہ نے فراق کی شاعری پر کام کرتے ہوئے فراق کو مختلف زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جب مقالہ لکھا گیا تو فراق زندہ تھے۔جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو ان کی وفات ہو چکی تھی۔افغان اللہ نے اپنے مقالے کو کتابی شکل میں شائع کرنے سے قبل گزشتہ دس سالوں میں ہونے والی تبدیلوں کو بھی شامل کیا ہے۔فراق کی وفات کے بعد ماہنامہ نیا دورلکھنؤ نے فراق نمبر شائع کیا۔اس میں دنیابھر سے اتنے مضامین آگئے کہ نیادور کو دوسال کے اندر دوشماروں میں ان مضامین کوسمیٹنا پڑا۔ان میں فراق کی خامیوں اورشخصی کوتاہیوں کے متعلق ایسے ایسے مضامین شامل ہوئے‘ جنھیں ان کی زندگی میں کوئی لکھنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔افغان اللہ کہتے ہیں ’’اس نمبرمیں کچھ مضامین ایسے ہیں جو صرف اظہار عقیدت کی حیثیت رکھتے ہیںاور چند مضامین تو ایسے ہیں جیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون نگار حضرات شاید اس بات کے منتظر تھے کہ فراق کب مریں اور کب وہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑیں۔‘‘

(فراق کی شاعری از ڈاکٹر افغان اللہ خاں ‘آفسیٹ پریس نخاس گورکھپور  1988، ص679)

 فراق کی شاعری کی اشاعت کے بارہ سال بعد ان کی کتاب’ دستاویز انسانی ‘میں فراق پر کئی اہم مضامین شائع ہوئے۔جیسے فراق اور پنڈت جواہر لال نہرو‘ فراق اور پریم چند‘فراق بحیثیت رباعی نگار،فراق کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب اور اس کا تشخص‘فراق کی شاعری پر مغربی ادب کے اثرات وغیرہ۔ان تمام مضامین کی بنیاد ان کی کتاب’ فراق کی شاعری ‘ فراہم کرتی ہے۔ دستاویز انسانی میں شامل ایک اہم مضمون ’فراق کے الٹے سیدھے معاملات میں ‘پروفیسر نے اس صورت حال کا بھی محاسبہ کیا ہے جنھیں وہ اپنی تھیسس میں شامل نہیں کر سکے تھے۔ انھوںنے فراق کا تصور حسن وعشق کے موضوع پر مقالہ تحریر کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فراق بطور شاعر بہت عظیم تھے مگر وہ ایک ناقد کی حیثیت سے بھی اہمیت کے حامل تھے۔اردو میں عام طورپر فراق کی تنقید پر خاطر خواہ روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔پروفیسر افغان اللہ کہتے ہیں۔’’یہ صحیح ہے کہ فراق بنیادی طورپر شاعرتھے ‘مگر ساتھ ہی ساتھ ایک اچھے صاحب طرز نثر نگار بھی تھے اور نقاد بھی ‘جب فراق پر کچھ لکھا جاتا ہے ان کے نثری کارناموں کو نظراندازکر دیا جاتاہے۔یا یوں کہا جائے کہ فراق کے بڑے شاعروالی امیج ‘ان کے دیگر کارناموں پر حاوی ہو جاتی ہے ‘اور ان کے نثر پارے پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ بحیثیت نقاد فراق کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’ اندازے‘ کے نام سے ان کی زندگی ہی میں منظرعام پر آکر  قبول عام حاصل کر چکا تھا... ان کا مختصرساکتابچہ اردو کی عشقیہ شاعری اپنی نوعیت کی پہلی اور بہترین کتاب ہے۔ فراق نے شاعری کو نئے انداز اور نئے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(فراق کی شاعری، ص 682)

افغان اللہ خاںکی نثر میں بہت سادگی اور صفائی ہے۔ انھوں نے آسان لفظیات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا تانابانا تیارکیا ہے۔ان کی کتاب فراق کی شاعری چالیس سال پہلے لکھی گئی مگر اس کی نثر میں آج بھی تازگی کا احساس ہوتاہے۔بعد کے دنوںمیں انھوں نے اپنی نثر میں مزید سادگی پیداکرنے کی کوشش کی۔ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے مجموعے دستاویزانسانی ‘نیرنگ خیال‘لا تنقیص اور انتخاب کلام فراق میں‘ان کی تحریرکا جوانداز ہے‘ اس میںبھاری بھرکم نظریا ت کوبھی بے حد آسان اور بے تکلف پیرایۂ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ جو بات کہنا چاہتے ہیں اس میں وزن ہوتاہے مگر اسے وہ بہت آسان لفظیات کے ساتھ قاری کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے جملوں میں اضافتوں اور انجانی ترکیبوں کا استعمال مفقود ہے۔فراق کی شاعری کے حرف آغاز میں انھوںنے فراق کی شاعری کے فکری پہلو کو بہت سادگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔افغان اللہ خاں کی ان چند سطور کو ہم ان کے پیرایۂ بیان کے معیار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔’’فراق کی شاعری کا بتدریج ارتقاکا جائزہ لینے کے بعد یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں روایتی اسلوب کے پیرو تھے۔ موضوع کے لحاظ سے بھی اردو اسلوب کے اعتبار سے بھی۔مختصراً یو ں کہا جائے کہ اس زمانے میں فراق کی شاعری کا اپنا کوئی کردارنہیں تھا‘اور نہ اس طرح کی کوئی پہچان یا شناخت تھی جس کی بناپر آج وہ جانے پہچانے جاتے ہیںاور ایساہونا ضروری بھی تھا کیونکہ ہر شاعراپنی شاعری کے ابتدائی دنوں میں مشق سخن کے لیے اساتذہ کی پیروی کرتاہے۔‘‘

(فراق کی شاعری، ص569-570)

 

Zakir Husain Zakir

Shanti Nagar Ward No 10

Near Sant Pushpa School

Distt & Post: Deoria- 274001

Mob.: 9415276138

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...