ماہنامہ اردو دنیا،اپریل 2024
صوبۂ راجستھان سیاست اور
تاریخ کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ علم وادب کے لحاظ سے بھی بڑی قدر ومنزلت کا مستحق ہے۔
یہاں اردو زبان وادب نے خوب ترقی کی منزلیں طے کیں۔ راجپوتانہ کی اس سرزمین میں اردو
زبان وادب کے ایسے ماہرین ہوئے جنھوں نے اردو شعر وادب کے فروغ میں اپنا اہم رول اداکیا۔
راجستھان کی ان شخصیات میں پروفیسر محمودشیرانی، اخترشیرانی، ثابت لکھنوی، بسمل سعیدی،
مشتاق احمدیوسفی وغیرہ پیش پیش رہے ہیں۔
پروفیسر محمودشیرانی اردو
تحقیق کی تاریخ میں نقش اول تسلیم کیے جاتے ہیں۔ صوبۂ راجستھان کے لیے یہ ایک اہم
بات ہے کہ محمود شیرانی کے بعدسرزمین جے پور سے تعلق رکھنے والے سلیم جعفرنے ان کی
روایت کونہ صرف آگے بڑھایا بلکہ آگے بڑھاکرتنقید وتحقیق کے میدان کومزید روشن کیا۔
سلیم جعفر، محمودشیرانی کے بعد راجستھان کے دوسرے بڑے اہم محقق تسلیم کیے جاسکتے ہیں۔
مگر افسوس ہے کہ سلیم جعفر
جیسے ماہرلسانیات، محقق اور عروضی کی مستند سوانح کی شیرازہ بندی ابھی تک نہ ہوسکی
ان کے مفصل اور مستند سوانحی کوائف کی کوئی تصنیف ہمیں حاصل نہیں ہوئی ہے تاہم راقم
نے جوں توں ان کے حالاتِ زندگی کو یکجاکرنے کی کوشش کی ہے۔ سلیم جعفر کااصل نام محمد
حسیب اللہ قریشی تھا۔ اردو شاعری میں ان کاتخلص حسیب تھا۔ آپ اردو نثرمیں قلمی نام ’سلیم جعفر‘ اور
ہندی، سنسکرت میں ’اربدیش‘ اختیار کرتے تھے۔
سلیم جعفر قصبہ کرسی ضلع بارہ
بنکی صوبہ اترپردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش سے متعلق مصنفین میں اختلافات
دیکھنے کوملتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کی تاریخ پیدائش 1890 کے آس پاس بتائی
ہے جب کہ ڈاکٹرشاہداحمدجمالی نے سلیم جعفر
کی تاریخ پیدائش 1893 لکھی ہے اور احترام الدین احمدشاغل نے تذکرہ شعرائے جے پور میں
لکھاہے کہ حسیب 1301ھ میں بروز شب برأت کرسی میں پیداہوئے۔
ان سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا
ہے کہ سلیم جعفر کی تاریخ پیدائش کے متعلق احترام الدین احمد شاغل کابیان زیادہ قرینِ
قیاس اور مستند معلوم ہوتا ہے جس کی تائید پروفیسر فیروز احمد نے بھی کی ہے۔ پروفیسر
فیروز احمداپنی تصنیف ’تحقیقات‘ میں لکھتے ہیں کہ سلیم جعفر کرسی ضلع بارہ بنکی (اترپردیش)
میں 1301ھ مطابق 1884 میں پیداہوئے تھے۔
سلیم جعفر کے والدکانام محمدنوراللہ
تھا۔ جو جے پور ریاست میں ملازم تھے۔ اس لیے سلیم جعفر کم عمری میں ہی والد کے پاس
جے پور چلے آئے تھے۔ ان کی تقریباً چار شادیاں ہوئیں۔
انھوں نے جے پور میں ہی تعلیم
حاصل کی تھی۔ احترام الدین احمدشاغل تذکرہ شعرائے جے پور میں رقمطراز ہیں :
’’بچپن ہی میں اس وجہ سے جے پور آگئے کہ آپ
کے والد یہاں ریاست میں ملازم تھے اول گھر پر تعلیم پائی پھر یہیں کے مدارس سے’منشی
عالم‘ اور ’ایف-اے ‘پاس کیا۔ ہندی اور سنسکرت کے عالموں سے یہ دونوں زبانیں بھی سیکھیں
اور کثرت مطالعہ سے اچھی استعداد حاصل کرلی۔‘‘
(تذکرہ شعرائے جے پور از احترام الدین احمدشاغل،
1958، ص 220-21 )
سلیم جعفر نے تعلیم جاری رکھی۔
انھوں نے بی اے میں داخلہ لیاتھا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ سلیم جعفر کی
تعلیم وتربیت اور مختلف زبانوں میں ان کی مہارت کے متعلق الیاس عشقی لکھتے ہیں :
’’بی اے میں ناکام ہونے کے بعد انھوں نے تعلیم
کوخیرباد کہہ کر پہلے غالباً ریلوے میں کلرکی کی تھی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کے پولیٹکل
ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی تھی۔ تعلیم میں ناکامی سنسکرت
میں ان کی غیرمعمولی شغف کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اصل میں جو وقت انھیں کالج کی تعلیم کودیناچاہیے
تھا وہ سنسکرت کی زبان کے حصول کے سلسلے میں پنڈتوں کی خدمت میں گزار دیاتھا اور وہ
اس پر کبھی افسردہ یاشرمندہ نہ ہوئے تھے۔ ہمارے شہر جے پور کاسنسکرت کالج برصغیرکے
دوقدیم اور مشہور کالجوں میں سے ایک ہے۔ اس میں علوم سنسکرت کے چندعظیم ترین عالم اور
ماہر اساتذہ موجود تھے او راس کے ادھیکیش (پرنسپل) مہامہو پادھیائے شری گردھر شرماتھے۔
میں نے اس کالج کے بعض اساتذہ کو قریشی صاحب کے متعلق یہ کہتے سنا ہے کہ مسلمان ہونے
کے باوجود انھوںنے سنسکرت زبان وادب میں غیر معمولی استعداد پیداکرلی ہے اور یہ بہت
بڑی بات ہے۔ سنسکرت کی طرح ہندی بھی انھوں نے پنڈتوں سے پڑھی تھی۔ انھیں عربی زبان
خاطرخواہ معیار تک نہیں سیکھ سکنے کاہمیشہ افسوس رہا۔ وہ فرانسیسی اور جرمن زبانیں
بقول خود اپنے (Workable)کام چلانے کے قابل جانتے تھے۔ لاطینی، یونانی، عبرانی اور قدیم فارسی
(پہلوی) انھوں نے سیکھی تھی۔ مرہٹی، گجراتی، راجستھانی وہ بولتے اور سمجھتے تھے۔ انگریزی
فارسی اور اردو پر قادر تھے۔‘‘
(حسیب اللہ قریشی (سلیم جعفر/اربدیش)از الیاس
عشقی ماہنامہ سیپ،کراچی، شمارہ 66، ص142)
سلیم جعفر انگریزی حکومت میں
ملازم رہے تھے۔
احترام الدین احمدشاغل ان
کی ملازمت کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
’’اول آپ ڈی ٹی ایس آفس بھٹنڈہ میں ملازم ہوگئے
پھر دہلی میں رہے اور ایک عرصے تک آبو میں رہے۔ 1919-20 میں سیتان علاقہ ایران میں
بھی مامور ہونے کاموقع ملا۔ گورنمنٹ ہند کی ملازمت سے پنشن کے بعد 1945 سے 1947 تک
ریاست قرولی کی کونسل کے سکریٹری رہے وہاں سے مستعفی ہوکر جے پور چلے آئے اور
1948 میں پاکستان چلے گئے۔ ‘‘
(تذکرہ شعرائے جے پور از احترام الدین احمدشاغل،
ص 221)
سلیم جعفر اور دیانرائن نگم
کے درمیان گہری دوستی تھی۔ سلیم جعفر ان کے اخبار ’زمانہ‘ کانپور کے ایک اہم قلمکار
تھے۔ میری تحقیق یہ کہتی ہے کہ زمانہ کانپور میں منشی پریم چند کے بعدسلیم جعفر نے
سب سے زیادہ مضمون لکھے ہیں۔ سلیم جعفر اور دیانرائن نگم کی دوستی اور محبت کا اندازہ
ان خطوط سے بھی ہوتا ہے جووقتاً فوقتاً دیانرائن نگم نے سلیم جعفر کولکھے تھے۔ محمد
ایوب واقف نے ’مکاتیبِ نگم‘ میں دیانرائن کے وہ تین خطوط شامل کیے جوسلیم جعفر کو لکھے
گئے تھے۔ ان خطوط سے یہ واضح ہوتاہے کہ دونوں میں گہری دوستی اور دلی محبت تھی۔ دیانرائن
کوان سے ملنے کابڑا اشتیاق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ سلیم جعفر ان کے پاس آکررہنے لگیں۔
دیانرائن جب علیل ہوئے تو ایک لمبے عرصے تک سلیم جعفر نے ’زمانہ‘ رسالے کی ادارت آبو،
راجستھان میں رہتے ہوئے سرانجام دی۔ الیاس عشقی اپنے مضمون میں اس کاذکرکرتے ہوئے رقمطراز
ہیں:
’’آخری تقریباً پندرہ سالہ سال میںپہلے وہ زمانہ
کے حصہ نثر اور نثرسمیت پورے رسالے کوایڈٹ کرتے رہے لیکن ادارت کے باوجود انھوں نے
کبھی رسالے پربحیثیت ایڈیٹریامعاون مدیرکے اپنانام چھپواناپسندنہ کیا، مدیریت کاکام
انھوں نے پہلے منشی دیانرائن نگم (ایڈیٹر زمانہ) کی طویل علالت کے دوران نثرکے حصے
کی ادارت سے شروع کیا تھا اس زمانے میں ایڈیٹر کی حیثیت سے نگم صاحب کانام چھپتارہا
جب رفتہ رفتہ سارے رسالے کی ادارت کی ذمہ داری ان پر آپڑی تب بھی انھوں نے اپنانام
رسالے پرنہ چھپوایا۔ دیانرائن نگم چاہتے تھے کہ قریشی صاحب اپنا اصلی یاقلمی نام رسالے
پر ان کے ساتھ چھپوائیں مگرقریشی صاحب اس پررضامندنہ ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ رسالے
کودیانرائن نگم کے انداز میں اس رسالے کی روایت کے مطابق مرتب کرتے تھے۔ یہ ان کارسالہ
تھا۔‘‘
(حسیب اللہ قریشی(سلیم جعفر/اربدیش)از الیاس عشقی،
ماہنامہ سیپ، کراچی، شمارہ 66، ص134)
سلیم جعفر کااہم کارنامہ
’گلزارِ نظیر‘ ہے۔ انھوں نے نظیراکبرآبادی کے کلام کو ’گلزارِ نظیر‘ کے نام سے مرتب
کیا۔ گلزار نظیرتدوینِ متین کااہم کارنامہ ہے۔ یہ کتاب 1951 میں ہندوستانی اکیڈمی، صوبۂ متحدہ الٰہ آباد
سے شائع ہوئی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں
سلیم جعفر نے طویل مقدمے کے ساتھ نظیراکبرآبادی کے کلام کوتین حصوں میں تقسیم کیا
ہے اور آخرمیں کلام نظیرکی مبسوط فرہنگ پیش کی ہے۔ سلیم جعفر نظیریات کے ماہرتھے۔
اردو کے ناقدین نے نظیراکبر آبادی کوقابلِ اعتنا نہیں سمجھا جبکہ سلیم جعفر ان ناقدین
کے خیالات کے سخت خلاف تھے۔ شیفتہ نے نظیراکبرآبادی کو ایک بازاری شاعر کہہ کر ان
کی تمام تخلیقات کوشاعری ماننے سے انکا رکردیاتھا۔ سلیم جعفر شیفتہ کے اس متعصبانہ
رویہ سے حیران تھے۔ جب کہ رشیدحسن خاں نے ’انتخابِ نظیراکبرآبادی‘ کے دیباچے میں
’گلزارِ نظیر‘کوقابل قدر تسلیم کیاہے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ:
’’نظیرکاکلیات باربار چھپا ہے۔ سب سے اچھانسخہ
وہ ہے جسے مولوی عبدالغفار شہباز نے مرتب کیاتھا اور 1900 میں مطبع نول شکور سے شائع
ہواتھا۔ مخمورآبادی کا مرتبہ انتخاب روحِ
نظیر اور سلیم جعفر کاانتخاب گلزارِ نظیر
(شائع کردہ ہندوستانی اکیڈمی) بھی قابلِ لحاظ ہیں۔ ان دونوں میں کچھ نہ کچھ
اضافے اور تصحیحات ہیں۔ … ’گلزارِنظیر‘ سے خاص طورپر مددلی گئی ہے۔‘‘
(انتخاب نظیراکبرآبادی، مرتبہ رشیدحسن خاں، مکتبہ
جامعہ،دہلی، 1992، ص8)
سلیم جعفر کی دوسری اہم تصنیف
’تحقیق اللغات‘ ہے۔ یہ ابھی تک غیرمطبوعہ ہے۔ اس کانسخہ ہندوستان میں موجود نہیں ہے۔
میرپورخاص پاکستان کے باشندے بشیرعنوان صاحب کے پاس اس کاقلمی نسخہ محفوظ ہے۔ بشیر
عنوان تحقیق اللغات سے متعلق لکھتے ہیں کہ :
’’انھوں نے 1954سے 1956کے درمیانی عرصے میں ’تحقیق
اللغات‘ کے نام سے ایک اشتقاتی لغت بھی تالیف کی۔ اس لغت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں
قریشی صاحب نے اردو زبان میں رائج ایسے الفاظ کے اشتقاقات بتائے ہیں جو ہندی اور فارسی
زبانوں سے اردو میں داخل ہوئے ہیں اگر چہ لغت اگست 1956 میں مکمل ہوچکی تھی مگر تاحال
شائع نہیں ہوسکی۔‘‘
(بشیرعنوان، میرپور خاص، رسالہ دنیازادکتابی سلسلہ،کراچی،شمارہ
نمبر 15، اگست 2005، 281)
آپ اپنے عہدکے ہندوپاک کے
مشہور ومعروف رسائل میں کثرت سے لکھاکرتے تھے۔آپ کے تقریبا ً سو سے زیادہ مضامین دستیاب
ہوچکے ہیں۔ جومدینہ، زمانہ، اردوادب، ہندوستانی،
ساقی، نگار، خیام، عالمگیر، ہمایوں، نیادور (کراچی)،پھول، قومی زبان(پاکستان) وغیرہ
رسائل میں شائع ہوکر اردوادب کے قیمتی زیور کی حیثیت بنے ہوئے ہیں۔ آپ کے مضامین تحقیقی،
تنقیدی، لسانی، شخصی، تبصراتی، سماجیاتی، تاریخی، علم عروض اور ترجمہ سے متعلق ہیں۔
اس طرح سلیم جعفر کے مضامین مختلف نوعیت کے ہیں جن سے آپ کی علمی استعداد کاعلم ہوتاہے۔
سلیم جعفر نے اپنی بہت سی
کتابیں دوستوں کولکھ کر دیں جو آج ان کے نام سے منسوب ہیں۔ ان کی کچھ تصانیف شائع
بھی نہ ہوسکیں جیسے مطالعاتِ فارسی، تحقیق اللغات،کلامِ کبیر، شیکسپیئر کے ڈراموں کے
اردو ترجمے وغیرہ۔ سلیم جعفر کابیشتر ادبی سرمایہ مضامین ومقالات کی شکل میں حاصل ہوتا
ہے جومختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ اگران مضامین ومقالات کو کتابی شکل دی جائے تو تقریباً
تین چار کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔
Faheemuddin
Research Scholar,
Govt Arts College
Kota University-
324001 (Rajasthan)
Mob.: 9829991733
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں