5/6/24

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی ادبی جہات، مضمون نگار: محمد شفیع بھٹ

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024

 


اردوادب کے سرمائے میں مردوں کے دوش بدوش جن خواتین نے بیش بہا اضافہ کیا ہے ان میں ایک نام ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کا بھی ہے۔آپ کا تعلق اورنگ آباد سے تھا جو کہ ہندوستان کا وہ علاقہ ہے جہاں سے اردو زبان وادب کے تناور درخت کی تخم ریزی ہوئی ہے۔آپ عثمانیہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھیں۔ یہ ادارہ ہندوستان کی سیاسی، سماجی،ادبی،علمی اور تہذیبی زندگی کے اعتبار سے ایک منفرداور اعلیٰ مقام ومرتبہ رکھتا ہے۔ اردو زبان کے جید علما،  ادبا اور شعرا کی گہری وابستگی اس ادارے سے رہی ہے اور رفیعہ سلطانہ بھی اس تابندہ وتابناک ادارے سے منسلک رہی ہیں۔آپ اس ادارے کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے آپ میں علمی وادبی ذوق وشوق اور اعلیٰ تعلیم کی حصولیابی کی روح پھونکی ہے۔آپ خوش قسمت تھیں کہ آپ کو جامعہ عثمانیہ میں اردو ادب کی قدآور ہستیوں سے کسبِ فیض کا موقع ملا۔ جن ادبی ہستیوں کی صحبت ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو میسر رہی ان میں پروفیسر عبدالقادر سروری، ڈاکٹر محی الدین قادری زور،حکیم شمس اللہ قادری شامل ہیں۔ آپ نے ایک متنوع اور ہمہ جہت زندگی گزاری ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے تئیںآپ کی گراں قدر خدمات ہیں۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ بیک وقت محقق، نقاد، مدون، فکشن نگار اور اعلیٰ پایے کی استاد تھیں۔ انھیں فارسی اور انگریزی زبان وادب سے گہرا شغف تھا۔اردو زبان پر بھی انھیں عبور حاصل تھا اور اپنی تقاریر اور تصانیف میں کوثر میں دھلی ہوئی زبان کو برتا ہے۔ وہ انگریزی ادب اور مغرب کی جدید تحریکوں سے بے حد متاثر تھیں۔انھوں نے اپنے مضامین کے توسط سے اردو والوں کو نہ صرف ان تحریکوں سے روشناس کرایاہے بلکہ جدید ادب اور نئے ادیبوں کے ساتھ کلاسیکی ادب اور اساتذہ کو بھی ان عصری تحریکوں کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک کتابچے بعنوان ’حیدرآباد‘ سے کیا ہے۔ اس کتابچے کو انھوں نے 1944 میں ادارہ ادبیاتِ اردو حیدرآباد کی فرمائش پر تحریر کیا تھا۔یہ کتابچہ نہ صرف مصنفہ کے اپنے وطنِ عزیز کی محبت ومودت اور فطری لگاؤ کا آئینہ دار ہے بلکہ ادبِ اطفال کا بھی ایک قابلِ قدر نمونہ ہے۔چھ ابواب میں منقسم اس کتابچے کو حیدر آبادی بچوں کے لیے لکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے شہر کی تاریخ وروایات، تہذیب وثقافت اور مشہور تاریخی مقامات سے واقف ہوجائیں۔مصنفہ نے اس مختصر تصنیف میں نہایت ہی آسان، سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے اور اس بات کابھی خاص طور پر لحاظ رکھا کہ کوئی ایسی بات یاکوئی ایسی تفصیل سامنے نہ آئے جو بچوں کی سمجھ سے بالا تر ہو۔ ’موتیوں کاشہر‘ کے نام سے مشہور شہرِ حیدر آباد کی مختصر تاریخ، قدرتی وسائل، تہذیب وروایات، شائستگی وآداب، رہن سہن، آثارِ قدیمہ، تاریخی مقامات،ذرائع نقل وحمل غرض پورے شہر کانقشہ اس کتابچے میں بڑے دلچسپ انداز میں کھینچا گیا ہے۔ 

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی پہلی تحقیقی تصنیف ’اردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ‘ ہے۔یہ تحقیقی کام انھوں نے ایم اے کے مقالے کے لیے تحریر کیا اور 1962 میںمجلس تحقیقاتِ اردو، حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اس میں مصنفہ نے اردو ادب کی نشو ونما میں خواتین کی حصے داری کو سامنے لایا ہے۔ اس سے قبل کسی بھی ناقد یا ادیب نے خواتین کی ادبی خدمات کے اس اہم رول کی جانب توجہ نہیں کی۔ مصنفہ حرفِ اول میں لکھتی ہیں:

’’اردو ادب اور خواتین ایسا موضوع ہے جس پر اب تک کسی اہلِ قلم نے قلم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔چند تذکرے خواتین کی شاعری کے متعلق لکھے گئے۔ لیکن وہ اول تو صرف شاعری سے تعلق رکھتے تھے۔ دوسرے ان میں تحقیقی مواد کدو کاوش سے فراہم نہیں کیا گیا تھا۔‘‘

(اردو ادب کی ترقی میںخواتین کا حصہ،ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ،مجلس تحقیقاتِ اردو، حیدرآباد،1962،ص الف)

سات ابواب پر مشتمل کتاب ہذا میں مصنفہ نے مختلف ادوار کے تحت شاعرات اور خواتین نثر نگاروں کے مکمل ادبی کارناموں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔قدیم اد ب کی نشوونما دکن میں ہوئی، مرد شعرا کے ساتھ ساتھ وہاں کی شاعرات کی بھی کثیر تعداد ملتی ہے۔ ان کے ادبی کارناموں سے اردو دنیا کو روشناس کرانا مصنفہ کی بے پناہ محنت ومشقت کا بین ثبوت ہے۔ دورِ جدید خاص تحقیق وکاوش سے ترتیب دیا گیا ہے۔اس میں مصنفہ نے ادب کی مختلف اصناف بالخصوص ناول، افسانہ اور شاعری کے الگ الگ باب قائم کرکے خواتین قلم کاروں کی ادبی خدمات کا تفصیلی وتنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔اس طرح یہ تصنیف اردو ادب میں خواتین کے اہم کردار پر قابلِ تحسین تحقیق ہے۔

’اردونثر کا آغاز وارتقا (19 ویں صدی کے اوائل تک)‘ مصنفہ کی دوسری تصنیف ہے۔ یہ ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان تھا جسے انھوں نے پروفیسر عبدالقادر سروری کی زیرِنگرانی1955 میں پایۂ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ گیارہ ابواب پر مشتمل یہ مقالہ 1962 کو کتابی صورت میں منصۂ شہود پر آیا۔اس تحقیقی کام کے لیے مصنفہ نے اچھوتے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس موضوع سے متعلق مواد کے لیے انھیں مختلف ہندوستانی کتب خانوں کی خاک چھاننی پڑی اور کافی محنت ومشقت اور عرق ریزی کے بعد اس دقت طلب کام کو انجام تک پہنچا دیا۔ فورٹ ولیم کالج سے قبل کے اردو نثری کارناموں کا تذکرہ بہت ہی مختصر تھا۔قدیم نثر کی مکمل تاریخ اور کئی اہم نثری شہ پاروں سے اردو دنیا کو واقف کرانے کے لیے مصنفہ کایہ تحقیقی کام بیش قیمت اور ناقابلِ فراموش ہے۔

’فن اور فنکار‘ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے گیارہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ جو مختلف اوقات میں مختلف موضوعات پر قلم بند کیے گئے ہیں۔کتاب میں شامل سبھی مضامین تنقیدی نظریہ کے حامل ہیں جس سے مصنفہ کا تنقیدی نقطۂ نظر واضح ہوجاتا ہے۔ ان تنقیدی تحریروں سے انھوں نے اپنے نئے زاویوں اور معیاروں سے اردو ادب کے نامور کلاسیکی شعرا وادبا جیسے میر تقی میر، بہادر شاہ ظفر اور نذیر احمد کے فن پاروں کو پرکھنے اور جانچنے کی سعی کی ہے۔ مذکورہ مجموعے کے تنقیدی مضامین کو پڑھنے کے بعدمرتبِ مضامین کے مطالعے کی وسعت اور تنقیدی ادراک کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔سیدہ جعفر رقمطراز ہیں:

’’ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’فن اور فنکار‘ خواتین کے ادب کا ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے یہ مضامین ان کی علمیت اور تنقید کے فن سے گہری واقفیت کے غماز ہیں... ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی تنقیدیں وقیع اور ان کی رائیں متوازن ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین میں فنی اصول کا احترام موجود ہے۔ انصاف پسندی ان کی تنقید نگاری کا جوہر ہے۔اپنے تنقیدی مضامین میں وہ دوسروں کے ادبی محاکموں اور انتقادی فیصلوں کو دہرا کر مطمئن نہیں ہوگئی ہیں۔اپنی ناقدانہ صلاحیتوں اور علمی نقطۂ نظر پر ان کا یہ اعتماد ان کی تنقید نگاری کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔‘‘

(سیدہ جعفر،خواتین اور تنقید نگاری،مشمولہ:اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ، مرتبہ: قیصر جہاںشعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، 2004، ص221,224)

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کا ایک اور کارنامہ ’اقبال سخن‘ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے نابغۂ عصر شاعر علامہ اقبال کی حیات اور ان کے کلام کی روح کو سادہ وسلیس انداز میں اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس میں اقبال کا مطالعہ ایک نئے زاویۂ نظر سے کیا گیا ہے۔علامہ اقبال کے کلام اور شخصیت پربہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ ان پر مزید لکھنے میں اکثر وبیشتر دہراؤ سا محسوس ہوتا ہے لیکن رفیعہ سلطانہ نے مذکورالذکر کتاب کی ترتیب ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے دی ہے جو ابتدائی جماعتوں کے طالب علموں کے لیے نہایت ہی سود مند اور ممد ومعاون ثابت ہوںگے۔مرتبِ تصنیف دیباچہ میں لکھتی ہیں:

’اقبال سخن‘ کو میں نے بعض جامعات کے اساتذۂ اردو کے مشورے سے مرتب کیا تھا۔اس کی ضرورت یہ محسوس کی گئی تھی کہ جامعہ کی جماعتوں کے لیے اقبال کے کلام کا ایک ایسا انتخاب وقت کا بڑا تقاضا تھا،جو ان کی شاعری کی نشو ونما کے سارے ادوار اور خصوصیات پر حاوی ہو اور ساتھ ہی مختصر اور مفید بھی ہو۔‘‘

(ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، اقبال سخن،نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، چار کمان حیدرآباد دکن، 1958)

تحقیق وتنقید کے علاوہ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے تدوینِ متن میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلا وقیع کام اردو کے ابتدائی دور کے شاعر برہان الدین جانم کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق‘ کی ترتیب وتدوین ہے۔ مرتبہ نے اس قدیم رسالے کو چار نسخوں کی بنیاد پر مرتب کرکے 1961 میں مجلس تحقیقاتِ اردو، حیدر آباد دکن سے شائع کیا ہے۔اس کے شروع میں انھوں نے بڑا جامع اور ہمہ گیر قسم کا مقدمہ لکھا ہے جس میں مصنف کے احوالِ زندگی، ادبی کارنامے اور اسلوبِ نگارش پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے بعدرفیعہ سلطانہ نے 1967 میں آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی کے اربابِ اقتدار کے ایما پر ’دکنی نثر پارے(انتخاب نثر)‘ مرتب کیا ہے۔ قدیم دور کے دکنی مصنفین کے نثری شہ پاروں کو تین عناوین گنجینۂ فکر، وجدانِ فن اور سبدِ گل کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ مرتبہ نے اس پر ایک مبسوط مقدمہ تحریر کرکے آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی سے شائع کیا۔

نثری کارناموں کی تدوین وترتیب کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو شاعری کے عہدِ زریں کے غیر معروف شاعر ’جگت استاد‘ حافظ عبدالرحمن خان احسان کی کلیات کو مدون ومرتب کرکے 1968 میں شائع کیا۔احسان میر وسودا اور ذوق وغالب کے ہم عصر تھے اور شاہ نصیر، ذوق اور ممنون سے ادبی چشمک بھی رہی ہے۔احسان مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے استاد رہ چکے ہیں۔ عربی وفارسی کے ماہر تھے اور علمِ عروض میں طاق بھی۔’کلیاتِ احسان‘ میں مولفہ ومرتبہ نے احسان کے کلام کی ترتیب وتہذیب کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان، ان کی ولادت، ان کا عہد، سفرِ لکھنؤ، احسان کا نظریہ شعر، اپنے عہدکی عکاسی، اولاد، ذاتی وجاہت اور وفات ومدفن تک کے احوال پر بہت تحقیقی معلومات فراہم کی ہیں۔مرتبہ نے اس اہم کارنامے سے نہ صرف اردو قارئین کو اس گمنام استادِشاعر سے روشناس کرایا ہے بلکہ اردوکے کلاسیکی ادب میں بیش بہا اضافہ بھی کیا ہے۔

تخلیقی ادب میںڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے فکشن کی دو کتابیں ’دودِ چراغِ محفل‘ اور ’کچے دھاگے‘ یادگار چھوڑی ہیں۔ ’دودِ چراغِ محفل‘ غالب پر لکھا ہوا ڈراما ہے اور ’کچے دھاگے‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔اول الذکر تصنیف اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی حیات اور ان کے کارناموں پر مبنی ایک ڈراما ہے۔ڈرامے کا عنوان مصنفہ نے غالب کے ہی شعر سے منتخب کیا ہے۔ شعر یوں ہے      ؎

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا،سو پریشان نکلا

ڈراما ہذا تین ایکٹ اور تیرہ مناظر پر مشتمل ہے۔ڈرامے کے پہلے ایکٹ کو ولادت، دوسرے کو جوانی اور تیسرے ایکٹ کو ادھیڑپن کا عنوان دیا گیا ہے۔ہر ایکٹ کو زمان ومکان کے لحاظ سے منقسم کیا گیا ہے۔پہلا ایکٹ آگرہ میں 1797 سے 1816 تک پھیلا ہوا ہے۔اس میں تین مناظر ہیں جن میں غالب کی پیدائش سے لڑکپن تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔دوسرا ایکٹ دہلی میں1816 سے 1847 پر محیط ہے۔ پانچ مناظر کے اس ایکٹ میں مصنفہ نے مرزا غالب کی زندگی کے درمیانی حصے کو پیش کیا ہے۔ اس میں غالب کے ایام ِ شباب دکھائے گئے ہیں اوروہ ہمہ وقت شعر پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔تیسرے ایکٹ میں بھی پانچ مناظر ہیں اور یہ ایکٹ بھی دہلی میں 1847 سے1869 کے دور کا احاطہ کرتا ہے۔اس میں غالب کا بڑھاپے میں قدم رکھنے سے وفات تک کے واقعات سے روبرو کروایا گیا ہے اور غدر کے پر آشوب دور کا ذکربھی ہوا ہے۔غالب غدر کی خونریزی سے بچ جاتے ہیں لیکن فرنگی لٹیرے ان کے بھائی یوسف مرزا کو قتل کردیتے ہیں۔غالب کی حویلی میں بھی فرنگی سپاہی گھس آتے ہیں اور غالب پر بھی گرفتاری کی نوبت آتی ہے لیکن کسی طرح محفوظ رہتے ہیں۔ڈراما ہذا کے آخری سین میں غالب اورحالی ایک دوسرے سے ہم کلام ہیںبعد ازاں حالی کی موجودگی میں ہی غالب کی موت واقع ہوجا تی ہے۔

افسانوی مجموعہ ’کچے دھاگے‘ نو افسانوں پر مشتمل ہے۔جس میں زیر وبم، نئے پرانے، کچے دھاگے، کھنڈر، بیس سال بعد،  بھنور ارسیا، دلِ ناداں، نور وظلمت اور رومیو جولیٹ جیسے افسانے شامل ہیں۔ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے افسانوں کا کینوس جاذبِ توجہ ہے جس میں زندگی کے متنوع رنگ موجود ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوں میں صنف اِناث کے مسائل،فرسودہ رسوم و روایات کے خلاف احتجاج، غمِ ذات اور غمِ عشق کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کا تنوع، اس کا حزن و یاس، اس کی مسرت وانبساط اور اس کی ستم شعاری جیسے موضوعات کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

غرض جامعہ عثمانیہ کی مایہ ناز خاتون ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اردو ادب کے مختلف میدانوں تنقید، تحقیق، تدوین وترتیب اور تخلیق میں لازوال کارنامے انجام دیے ہیں۔ اردو کے تحقیقی وتنقیدی میدان میں خواتین کی شراکت نہایت قلیل ہے اور جن خواتین نے فقط قدیم ادب کی تحقیق و تنقید کو کارِ ادب کے طور پر اختیار کیا ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔رفیعہ سلطانہ ان ہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ماضی کی گرد میں گم شدہ دفینوں کی نقاب کشائی ان کی عرق ریزی اور جانفشانی کا ثبوت ہے۔ اردو ادب کے تئیں ان کی یہ خدمات بے حد وقیع، موقر اور قابلِ رشک ہیں۔

 

Dr Mohd Shafi Bhat

Lecturer (C), Model Govt. Degree College

Charar-i-Sharief, Budgam-191112 (J&K)

Mob:6005706273

Email:bhattshafi786@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

محمود ایاز کی نظمیہ شاعری،مضمون نگار: منظور احمد دکنی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 محمود ایاز کے ادبی کارناموں میں ادبی صحافت، تنقیدی تحریریں اور شاعری شامل ہیں۔ وہ شاعر و ادیب سے زیادہ ادبی صحافی...