15/2/23

میر غلام رسول نازکی: ایک غزل دو ‍‍قرات: مضمون نگار شاکر علی صدیقی




 

ادبی دنیا  میں میر غلام نازکی ایک غیر معروف شخصیت کا نام ہے، لیکن ان کا کلام اپنی اصابت فکر و فن کی بنیاد پر معرفت کا حق دار ہے۔مناسب ہے کہ پہلے ان کی شخصیت سے متعارف ہوا جائے،کیونکہ بدون شخصیت کسی کے فکر و فن کو سمجھنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بقول آل احمد سرور ’’ شخصیت کااتنا مطالعہ ناگزیر ہے جو فن کی تفہیم میں معاون ہو۔‘‘ شخصیت کا پرتو تخلیق پر کبھی تند اور کبھی مدھم منعکس ہوتا ہے۔کبھی تو شخصیت کی بنیاد پر متن کا مفہوم واضح ہوتا ہے اور کبھی متن کی اساس پر شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ لہٰذا شخصیت اور فکر و فن میں ایک عمیق ربط ہے۔

نازکی سری نگر( کشمیر) کے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد ماجد میر غلام مصطفی نازکی اپنے وقت کے ایک جید عالم اور سخن شناس تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ اس کے بعد بانڈی پورا کے لوور مڈل اسکول،اسلامیہ ہائی اسکول سری نگراورپنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔منشی عالم 1931، میٹرک 1933،منشی فاضل 1935، ادیب فاضل 1937، ایف اے 1939 اور بی اے 1949 میں سندیاب ہوئے۔حصول تعلیم کے دوران معاشی تنگی کے باعث کئی ملازمتوں سے منسلک رہے۔ بالآخر ناظم تعلیمات خواجہ غلام السیدین نے 1943 میں انھیں لٹریری اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز کیا۔مزید برآں ان کو ٹیچرس ٹریننگ کالج کااستاد اور پھر کچھ ہی مدت کے بعداسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف ا سکولز کے منصب پر مقرر کرکے 1947 تک خدمت کا موقع عنایت کیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کم و بیش دو سال ریڈیو کشمیر جموں میں کام کیا۔ 1950 میں ان کا ریڈیو کشمیر سری نگر تبادلہ ہوگیا اور یہیں سبکدوشی تک اپنے فرائض منصبی میں منہمک رہے۔

نازکی کا ادبی ذوق و شوق ان کے والد کا رہین منت ہے۔بچپن ہی میں ان کی ایسی تعلیم و تربیت کا بند و بست کیا گیا کہ انھیں شعر و سخن کی نزاکتوں اور نفاستوں سے حد درجہ قلبی وابستگی پیدا ہو گئی۔شروع میں تو فارسی شعر و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے لیکن ’آب حیات‘ کے مطالعہ کے بعداردو شاعری کی طرف اس قدر مائل ہوئے کہ اپنے جذبات اور تجربات کو اردو شعر وسخن کے قالب میں ڈھالنے لگے۔ انھوں نے اپنی سخن گوئی میں غزل،قطعہ، رباعی،نظم،مناجات اورنعت و درود وغیرہ مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی۔ان کے کلام کا مطالعہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کی شاعری سے واقف ہونے کے لیے شعری مجموعے ’نزاکت‘، ’چراغ راہ‘ اور بطور خاص دو شعری مجموعے ’دیدۂ تر‘ اور’متاع فقیر‘ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ ابتداً ان کی شاعری کا انداز تخاطب اور نفس مضمون روایتی تھا، لیکن بعد کا کلام ایک مخصوص طرز فکر و فن کا گلدستہ  بن گیا، جس میں شخصی تجربات و مشاہدات کی جلوہ گری ملتی ہے۔ صداقت بیانی اور خلوص و سادگی ان کے کلام کا تمغۂ امتیاز ہے۔ بہر کیف یہاں پر ان کی پوری شاعری کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ ایک غزل کا تجزیہ آپ کے پیش نظر ہے، لہٰذا نازکی کی  مندرج ذیل غزل ملاحظہ کیجیے          ؎

آج حد درجہ اداسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

التجا ایک ذرا سی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

ٓٓآج کی رات بھیانک ہے میرے ساتھ رہو

اور قیامت بھی بپاسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

آج اس شہر پہ نازل ہے خداؤں کا عتاب

تو بھی اس شہر کا باسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

آسماں برسرپیکار ہے نظریں نہ چرا

یہ زمیں خون کی پیاسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

میں اکیلا ہوں سمندر کا تلاطم ہے محیط

رات اک کالی بلاسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

کربلا آج بھی ہے دیکھ ادھر خون حسین

وہ محمد کی نواسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

پہلی  قرأت

یہ غزل مسلسل مجموعی طور پر ایک مطلع اور پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔اس کے قوافی .1 اداسی، ذراسی۔ .2 بپاسی، .3 باسی، .4 پیاسی، .5 بلاسی اور.6 نواسی غزل میں غیر معمولی حسن کو محفوظ کرتے ہیں۔ جہاں تک ردیف کا تعلق ہے ’ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ‘ غزل کا خود مکتفی رکن ہے۔ کیونکہ شاعر کے عندیے کی تکمیل کی اساس ردیف پر ہی منحصر ہے۔یہ شاعر کا اپنا مخصوص ہنر ہے کہ ردیف کی تکرار ہر شعر کے نت نئے معنیاتی نظام سے مربوط ہے۔ دوسری مخصوص خوبی یہ ہے کہ یہ غزل لفظ ’آج‘ کی قطعیت سے شروع ہوکر ماضی بعید کے تلمیحی نشان ’کربلا‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ غزل اپنے موضوع کے اعتبار سے تنگ ہے لیکن وسعت فکر کے لحاظ سے بہت بلند ہے۔ اس کا بنیادی موضوع ’تنہائی‘ ہے،لیکن جیسے جیسے ’تنہائی‘ کا تعین ہوتا جاتا ہے اس کی معنوعی سطح بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔مطلع کی قرأت کیجیے        ؎

آج حد درجہ اداسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

التجا ایک ذرا سی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

غزل کامرکزی کردار اپنے دل کی کیفیت ’اداسی‘کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا متمنی ہے کہ اس کا ہم نوا،ہم خیال یاہم مکتب دوست اس کے شریک حال رہے۔ حالانکہ شاعر نے ردیف ’مرا ساتھ نہ چھوڑ‘ کے ذریعے اس طرف بلیغ اشارہ کیا ہے کہ اس کا مخاطَب ساتھ دینے پر کسی طرح آمادہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ شاعر نے مصرعۂ ثانی میں لفظ ’التجا‘ کا التزام کرکے کردار کے خوشامدی پہلو کو نمایاں کیا ہے۔اس شعر میں شاعر کا فن عروج پر ہے۔ ایک طرف تو اس نے’حد درجہ اداسی ‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزل کے کردار کی کیفیت /ضرورت کا تعین کیا ہے، تو دوسری سمت ردیف اور لفظ ’التجا‘ سے مخاطِب اور مخاطَب کے مابین کشمکش/تضاد کی صورت کو دکھلایا ہے۔ اس مطلع میںیہ نکتہ بھی قابل غور ہے شاعر نے دوسرے مصرعہ میں التجا کے ساتھ قافیہ ’ذرا سی‘کیوں کر باندھاہے ؟’التجا ایک ذراسی ہے‘سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطَب اپنے مخاطِب کی مسیحائی پر قادر ہے اور اس کی عدم تنہائی کی شدتوں کا وہی بنیادی سبب ہے۔اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کا مخاطَب کون ہے اور وہ کس حیثیت کا مالک ہے؟یہ کسی قوم کا رہبر بھی ہو سکتا ہے!،یہ مذہبی پیشوا بھی ہو سکتا ہے!،یا پھر معشوق!۔بہر حال یہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ اپنے مخاطِب کادرماں اور مسیحا ہے۔ اس لیے شاعر نے غزل کے کردار کی کلیدی کیفیت ’اداسی‘ کے اسباب و علل کو بڑے شد و مد کے ساتھ تفصیلاً بیان کیا ہے تاکہ اس کا مسیحا باعث وجوہ ساتھ چھوڑنے سے باز رہے،مثلاً      ؎

پہلا سبب

’’آج ‘‘کی رات بھیانک ہے،

دوسرا سبب

اور قیامت بھی بپاسی ہے،

تیسرا سبب

رات اک کالی بلا سی ہے،

چوتھا سبب

کربلا آج بھی ہے،

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آج کی رات بھیانک کیوں ہے؟،قیامت کیوں کر بپا ہے؟، رات ایک کالی بلا’سی‘ کیوں ہے؟ اور آج کربلا کیوں کر ہے؟، توشاعر نے اس کی بھی وضاحت شعر نمبر 2,3,5 میں کی ہے،ملاحظہ ہو

پہلی علت

 ’’آج‘‘اس شہر پہ نازل ہے خداؤں کا عتاب،

دوسری علت

آسماں بر سر پیکار ہے،

تیسری علت

’’یہ‘‘ زمیں خون کی پیاسی ہے،

چوتھی علت

دیکھ ادھرخون حسین،

اب مذکورہ ترتیب کی روشنی میں غزل کی ایک بار پھر قرات کیجیے اور غزل کے اس کلیدی مصرعے پر ٹھہریے

’’میں اکیلا ہوں سمندر کا تلاطم ہے محیط‘‘

 اور پھر اس کے فوراً بعد اس مصرعے کی قرات کیجیے          ؎

 ’’ تو بھی اس شہر کا باسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ‘‘

 توایک طرف غزل کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ تودوسری طرف مخاطِب اور مخاطَب کے مابین ارتباطی نوعیت کااندازہ ہوتا ہے اور دونوں کی انتشاری کیفیت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ یہاں پرشاعر کی فنی پختگی اور اس کی چابک دستی کی داد دینی پڑتی ہے کہ یہی دونوں مصرعے بیت الغزل ہیں،جو باقی مصرعوں کے پیش خیمہ ہیں۔ جس کو شاعر نے دو متضاد کیفیات کی ترجمانی کے ذریعہ حال کو ماضی سے روشناس /متناظرکرکے اپنے خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔

 دوسری  قرأت

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ نازکی نے اپنی شاعری میں بیشتر ان مضامین کو باندھا ہے جو ان کے تجربات اور مشاہدات کے غماز ہیں۔یہ غزل بھی اسی نوع کی عمدہ دلیل ہے۔یہ غزل عصر حاضر کی اس خاص صورت حال کی ترجمان ہے جس میں قوم انتشار پذیری کی زندگی گزار رہی ہے دوست اور دشمن میں امتیاز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے اور سماج میں اپنائیت نام کی چیزباقی نہیں رہی۔ بڑی تیزی سے اپنائیت غیر اپنائیت میں بدلتی جا رہی ہے اور مادی نقشوں نے قوم کو حریص الطبع بنا دیا ہے۔ اس لیے شاعر نے’آج حد درجہ اداسی‘ کے ذریعے عصر حاضر کی نامساعد کیفیات کا نقشہ کھینچاہے اور وہ متفکر ہے کہ آج قوم کے دلوں کی اداسی اور بے چینی کس طرح ختم کی جائے۔ اس نے اس کا تریاق بھی تلاش کر لیا ہے کہ اس کا واحد حل باہمی اتحاد ہے،ا س لیے وہ ملتجی بن کر اصرارکرتا ہے ’’مراساتھ نہ چھوڑ،مراساتھ نہ چھوڑ‘‘اس تکرار سے وہ ٹوٹے ہوئے رشتوں کو باہم مربوط کرناچاہتا ہے،کیونکہ شاعر ان نتائج سے با خبر ہے جو پیش آرہے ہیں یا آنے والے ہیں، اس لیے اس نے دوسرے شعر میں’’آج کی رات بھیانک ہے‘‘ اور’’ قیامت بھی بپا ہے‘‘ (یہ ظلم و جبر کی وہ علامت ہے جو اپنے انتہائی مراحل میں ہے)کا ذکر کرکے اپنے مدوعین کو بیدار کیا ہے۔دوسرانکتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تیسرے شعر کے مصرعۂ ثانی میں جھنجھوڑتے ہوئے کہتا ہے’’تو بھی اس شہر کا باسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ‘‘بہرحال وہ ہر ممکن کوشش پیہم میں ہمہ تن منہمک ہے کہ آپسی ارتباط منہدم نہ ہوں۔مزید آگے وہ اپنی قوم کو ان خدشات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے جو ان پر دانستہ نازل کیے جا رہے ہیں         ؎

’’آج اس شہر پہ نازل ہے خداؤں کا عتاب‘‘

آسماں برسرپیکار ہے نظریں نہ چرا

یہ زمیں خون کی پیاسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ

’’کربلاآج بھی ہے دیکھ ادھر خون حسین‘‘

پہلا مصرعہ ایک مخصوص منظر کو بیان کرتا ہے جو اس قوم کا مقدر بنا ہوا ہے، یہ حکمراں، قومی رہبر یا صاحب اقتدار ظلم و جبر کے ذریعے اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں اور اپنی وقتی طاقت کے باعث اپنے کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں، شاعر نے دوسرے مصرعے میں یہ کہہ کر’’تو بھی اس شہر کا باسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ‘‘قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔آج اس قوم کی بدنصیبی یہی ہے کہ دوسروں پر پڑنے والے مظالم اور مصائب کووہ اپنا رنج و غم نہیں سمجھتا ہے،بلکہ حد تو یہ ہے کہ ان خداؤں نے ہمارے دل کو اس قدر منحرف اورمبتذل کر دیا ہے کہ ہم دوسروں کے ناگفتہ بہ مسائل کو یہ کہہ کر ٹال جاتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس قوم کا ہر فرد دوسرے کے رنج و غم کو اپنا سمجھ کر شریک عمل رہتااور متحدومنظم ہوکرمرتب لائحۂ عمل کے ذریعے ایسے عملی اقدام اٹھاتا جس سے باطل قوت اپنے جابرانہ رویے سے باز رہتی۔

چوتھے شعر میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہماری قوم کی بد اعمالیوں کے باعث غیبی طاقت نے ہمارا ساتھ دینے کے بجائے مخالفت کاراستہ اختیار کر لیا ہے۔ یہاں تک کہ آسماں بھی برسر پیکا رہے اور زمین بھی ہمارے خون کی پیاسی ہے اور ہماری بے توجہی کی انتہا یہ ہے کہ ان تمام سانحات سے نہ تو عبرت حاصل کرتاہوں اور نہ ہی نصیحت۔بقول غالب  ’’بے دلی ہاے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق - بے کسی ہاے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں‘‘ نازکی نے خود طنزیہ کہا ہے کہ          ؎

ایماں بقدر طول امل بیچتا ہوں

لیکن ضمیر پہلے پہل بیچتا ہوں

اپنی سیاہ فرد عمل لے کے ہاتھ میں

پیغمبر خدا کا عمل بیچتا ہوں

توحید میرے زور بیاں سے مستفید

خلوت میں جا کے لات و ہُبل بیچتا ہوں

بہر کیف مصرعۂ اولیٰ کے اس ٹکڑے پر غور کیجیے ’ نظریں نہ چرا‘، ’نظر چرانا‘ ایک اردو محاورہ ہے۔فیروز اللغات میں یہ معنی درج ہیں (نظر بچانا،کترانا،نظر ملا کر نہ دیکھنا،کام سے پہلو تہی کرنا۔) ان سب معنی کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ قصداً کسی فعل / عمل سے بے پرواہی برتنا۔جب کہ اس قوم کی یہ خوبیاںتھیں کہ یہی روے زمین کی خلیفہ تھی، حساس قلبی اس کی بنیادی صفت تھی،اخوت و بھائی چارگی اس کی خو تھی، اعانت و معاونت اس کی فطرت تھی،عدل و انصاف اس کی سرشت میں داخل تھا اورامن وامان اس کا عمل تھا، عبادت و ریاضت اس کے مقاصد زندگی تھے۔ جب تک یہ قوم ان تمام خصوصیات کی متحمل اور نفاذ و شیوع کی پابندرہی،تو آسماں بھی اس کی موافقت پر مامور تھا اور زمیں بھی اس کی معاونتی محکوم تھی۔ہاے! لیکن جب جملہ خصوصیات سے بے توجہی اورغفلت برتی جانے لگی اور نظریں چرائی جانے لگیں توآسماں بھی ہم سے بر سرپیکار ہو گیا اور زمیں بھی ہمارے خون کی پیاسی ہو گئی، یعنی غیبی طاقت امداد کے بجائے عتاب نازل کرنے لگی۔ بحیثیت مجموعی اس شعر میں شاعر نے داعیانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ماضی کی طرف سر دست پلٹنے کی اہمیت بیان کی ہے۔

پانچواں شعر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعرنے اپنے عندیے کی تکمیل ’میں اکیلا ہوں‘ میں پوشیدہ رکھی ہے۔ یہاں پر ’میںاکیلا ہوں ‘ سے مرا د پوری قوم ہے۔ اور ’سمندر کا تلاطم‘ باطل قوت کی دیگر قومیںہیں جو ہر ممکن اور ہر سمت سمندر کی موجوں کی طرح مسلسل اور متواتر تھپیڑیں ماررہی ہیں۔

آخری شعر میں شاعر نے’کر بلا آج بھی ہے‘ کے ذریعے قوم کو حق و باطل کے معرکہ خیز تصادم کے نتائج سے باخبر کیا ہے،یعنی ہر زمانے اور ہر قریے میں حق اور باطل نبرد آزما رہے،آخر کار ہمیشہ حق کو فتح اور باطل کو شکست ہاتھ آئی۔ لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوا کہ حق پر باطل غالب رہا۔ جب کہ حقیقتاًحق اور حق پرست بامراد ہوئے، جس کی تمثیل شاعر نے حضرت امام حسینؓ کے واقعۂ کربلا سے پیش کی۔ اس واقعے سے ایک طرف شاعر نے قومی حمیت کو للکارہ ہے تودوسری طرف قوم کے دلوں سے بزدلی، اداسی،انتشاری اور مایوسی کی کیفیت دور کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔حضرت امام حسینؓ نے عملی اقدام کسی ذاتی اغراض و مقاصد یا دولت و حکومت کی حصولیابی کے تحت نہیں اٹھائے، بلکہ انھوں نے اپنے نانا جان حضرت محمدؐ کے دین اور ان کے ماننے والے مسلمانوںکی بقا اور حفاظت کی خاطر اپنی اور اہل بیت کی گردنیں کٹواکر اسلامی پرچم کو لہرایا تھا۔ شاعر نے مصرعۂ ثانی میں یہ کہہ کر ’’وہ محمدؐ کی نواسی ہے‘‘ قوم کے لیے لمحۂ فکریہ پیدا کر دیا، کیونکہ حضرت امام حسینؓ کی بہن حضرت زینبؓ نے تو اپنے دونوں بیٹے عون اور محمد کو ہمارے لیے قربان کر دیا تھا،اور آج ہم ایسے بزدل اور ضمیر فروش ہو گئے کہ دین اور قوم دونوں سے پہلو تہی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے عصر حاضر میں یہ قوم نا مساعد حالات سے دو چار ہے۔

بحیثیت مجموعی زیر تجزیہ غزل قوم کے عصری منظر نامے کو پیش کرتی ہے۔نازکی نے جس مضمون کا ا نتخاب کیا ہے وہ ان کی قوت مشاہدات و تجربات کی جلوہ گری کی عمدہ دلیل ہے،اور انھوں نے فنی نقطۂ نظر کے تحت دو متضاد کیفیت کو اس سلیقے سے باندھا ہے کہ پوری غزل ایک خاص تحرک اور جمالیاتی احساس سے متصف ہو گئی ہے۔شاعر کا یہ کمال ہے کہ ایک مخصوص موضوع کی ترسیل کے لیے جو وسیلۂ اظہار اختیار کیا ہے وہ پر تاثیر ہے۔ دوسرانکتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ نازکی نے اپنے خیالات کی پیش کش میں نہ ہی فن کو مجروح کیا اور نہ ہی مضامین کو۔لہٰذا یہ غزل فکر اور فن دونوں لحاظ سے بلند مرتبے کی حامل ہے۔

 

n

Dr. Shakir Ali Siddiqui

Assistant Professor, Discipline of Urdu

School of Humanities,

Indira Gandhi National Open University,

New Delhi-110068

Mob.: 9891579220

Email.: sasiddiqui1@ignou.ac.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں