14/2/23

برجستہ گوئی اور فن اصلاح شعرکا ماہر: سید محمود الحسن صولت: مضمون نگار: راشد میاں


 ہندوستان میں صوبۂ راجستھان (سابق راجپوتانہ) جہاں اپنے کثیر علاقۂ ریگزار کے لیے مشہور ہے، وہیں راجستھان کو پورے ہندوستان میں یہ امتیازی حیثیت بھی حاصل ہے کہ فی زمانہ یہ ملک ہندوستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ راجستھان میں شعرو ادب کی آبادی کے لحاظ سے سابق ریاست ٹونک کی فضائیں بڑی زرخیر رہی ہیں۔ شعرائے ٹونک میں بھائی جان عاشق  ( نورتنِ داغ) اخترشیرانی وبسمل سعیدی کے علاوہ استاد سید محمودالحسن صولت کے نامِ نامی کی بڑی دھوم رہی ہے۔ حالانکہ ٹونک میں ان کے فن کی وہ قدر نہیں ہوئی جِس کے وہ مستحق تھے۔ اس سلسلے میں مشہور شاعر، صحافی و نقاد مخمور  سعیدی نے لکھا ہے کہ   

’’صولت صاحب نے اپنی تمام عمر ٹونک میں گزار دی اگر وہ باہر نکل آتے تو ان کے کمال کی قدر یقینااس سے کہیں زیادہ ہوتی جتنی وطن میں رہ کر ہوئی۔ اہلِ وطن نے صرف یہی سمجھا کہ وہ ایک منھ پھٹ انسان ہیں، اور جب جوجی میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ان کی ا س بے لاگ شخصیت کے اندر جوتعمیر ی روح مضمر تھی اسے کوئی نہ پہچان سکا۔‘‘

بحوالہ جرنل جلد 3  بابت سال  83 - 84  صولت نمبر صاحبزادہ شوکت علی خاں ڈائر یکٹر، عربک اینڈپرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ راجستھان، ٹونک ص 23)

فی البد یہہ شعر کہنے اور فنِ اصلاح شعر میں انھیں بڑی مہارت حاصل تھی خصوصاً بر سر مشاعرہ اصلاح میں انھوں نے کبھی مروت نہیں برتی خواہ کیسے ہی پائے کا شاعر ہوان کی مشفقانہ اصلاح کو بخوشی قبول کیے بنا نہیں رہتا۔

سید محمود الحسن صولت کی شروعاتی تعلیم ا ن کے گھر پر محلہ رجبن میں ہوئی۔  ا س کے بعد حفظِ قرآن کی تعلیم حافظ محمد امان صاحب اور حافِظ شمس الدین صاحب سے حاصل کی۔ فارسی زبان کی تعلیم مولوی عبدالکریم ولایتی اور مولوی علی رضاخاں سے حاصل کی توعربی زبان میں مولوی عبدالقادر، مولوی احمد مجتبیٰ اور مولوی خلیل الرحمن استاد رہے۔ مذکورہ اساتذہ کے علاوہ انھوں نے حضرت حکیم برکات احمدؒ سے بھی تحصیلِ علم کیا تھا۔ صاحبزادہ شوکت علی خاں کے مطابق اس کا اعتراف صولت صاحب نے یوں کیا تھا۔ ’’ حکیم برکات احمدؒ سے میں نے بھی ابتدائی دور میں کچھ کتابیں نکالی تھی۔ مولوی ننے  ( حضرت مولانا محمد علی خاں )  اس وقت اعلیٰ مدرا ج میں پڑھتے تھے، مجھے خوب یا د ہے کہ حکیم صاحب فرماتے تھے ’’میرے سیکڑوں شاگرد ہیں لیکن ننے  (محمد علی خاں )  جیسا ذہین کوئی نہیں ہے۔  ‘‘( بحوالہ جرنل جلد3 ص 42)

غالب کی مانند صولت  ٹونکی نے تاحیات کوئی ذاتی مکان نہیں بنوایا۔ بیشتر کرائے کے مکانوں میں ہی اپنی زندگی گزاری۔ ان کا زمانۂ بچپن ونو جوانی رجبن میں گزرا۔ اس محلے سے انھیں خصوصی لگائو تھا۔ وہاں کی گلیاں مکان فضائیں انھیں ہمیشہ یا د آتے رہے یہاں تک کہ رجبن کے علاوہ انھیں کہیں قرار حاصل نہ ہوا  بقول ان کے       ؎

کسی جگہ بھی زمانے میں اب قرار نہیں

بھٹکتے پھرتے ہیں جس روز سے چھٹا رجبن

صولت صاحب عربی النسل تھے ا ن کے والد قاری مولوی سید حامد 1896 میں بہ عہدِ نواب ابراہیم علی خاں مدینہ منورہ سے ٹونک تشریف لائے تھے۔ نواب صاحب نے انھیں ’معرفِ عرب‘  کے معزز عہدے پر فائز کیا۔ صولت صاحب کی ولادت ٹونک میں ہی 1898 میں ہوئی۔ بہ وقتِ انتقال ان کی عمر 70 سال تھی۔ صولت  صاحب کو زمانہ ٔ  طفولیت میں ہی صاحبزادہ عبداللہ خاں کی زوجہ رقیہ بیگم نے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ تقریباً اکتیس  (31) سال کی عمر تک وہ ان کے ساتھ رہے۔ رقیہ بیگم کے انتقال کے بعد انھیں زندگی کے مختلف نشیب وفراز سے دوچار ہوناپڑا۔ جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی ایام بڑی خوشگوار فضامیں گزرے۔ جوانی بھی بے فکری اورعیش وعشرت میں بسر ہوئی،  لیکن بعد کی زندگی خصوصاً بڑھاپے میں زندگی کے تلخ تجربات وآزمائش کے دور سے گزرنا پڑا۔ چونکہ رقیہ بیگم لاولد تھیںاور ان کی تمام جائداد سرکار نے ضبط کرلی تھی۔ اس جائداد میں سے بہت ہی قلیل و ظیفہ صولت صاحب کو ملاکر تاتھا کچھ وظیفہ والیانِ ٹونک کی جانب سے اہلِ عرب کے لیے موقوفہ جائداد سے بھی انھیں ملتا تھا۔ قلیل آمدنی کے باوجود ان کے صبر و شکر اور قناعت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی سے  محتاجگی ظاہر نہ کی۔ بلکہ خداوندِ قدوس  سے یہی آرزو اور دعا کرتے رہے        ؎

ہر بلندی سے ہر نشیب سے دے

پھر نہ مجھ کو کسی کی جیب سے دے

میری حاجت برآری کرنے کو

میرے پروردگار غیب سے دے

        وہ مصائب وآلام کو در گزر کرتے ہوئے ہر حال میں شکرِ خدا کرتے رہے اور بندگی بجا لاتے رہے         ؎

جو کچھ بھی ہوا اس کی ہی مرضی سے ہوا ہے

ہر حال میں صولت تو ادا شکرِ خدا کر

 صولت  صاحب ایک مختلف الصفات شخصیت ہونے کے باوجود گمنام زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ان کے معیارِ اخلاق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف صفات سے متصف ہونے کے بعد بھی وہ خود کو انتہائی ادنیٰ اور گنہگار شخص سمجھتے، ان کے مطابق وہ          ؎

اچھا ہے ہر اک شخص میری نظروں میں صولت

میں کس کو برا جانوں کہ ہوں سب سے برا میں

شاعری میں صولت  صاحب نے اولًا امام الشعرا  حضرت ِ کیف سے اصلاح لی، بعد ازاں جانشینِ داغ وحالی بھائی جان عاشق  کی شاگردی اختیار کی۔ اس سلسلے میں ان کے شاگرد منشی عبدالحمید خاں آرزو کو دی گئی سندِ اجازت وفراغتِ اصلاح میں وہ رقم طراز ہیں 

’’پرانے رسم و رواج اور دستور کے مطابق میں نے بھی یہ فن امام الشعرا حضرت عالمگیر کیف تلمیذرشید حضرت سلیمان خاں اسد لکھنوی اور جانشینِ داغ  وحالی حضرت صاحبزادہ احمد سعید خاں عاشق ؒ سے حاصل کیا۔

یہ دونوں حضرات اردو کے دوممتاز شعری دبستانوں دہلی اور لکھنؤ کے سر خیل تھے۔ اس طرح مجھے ان اساتذۂ کرام کے واسطوں سے شاعری کے ان دونوں اسکولوں کے خوشہ چیں ہونے کا فخر حاصل ہے۔ مجھے بچپن سے ہی شعر گوئی کا ذوق ہے اور13 , 14  سال کی عمر سے ہی میں اس دشت کی سیاحی میں مصروف ہوں۔ ‘‘

صولت  صاحب صرف ایک قادرِ الکلام شاعر ہی نہیں شاعر گر بھی تھے۔ ان کے طفیل بہت سے متبدی حضرات شاعر بن گئے لیکن صولت  صاحب نے ہمیشہ شہرت و ناموس سے فاصلہ بنائے رکھا۔ مولانا منظور الحسن برکاتی نے ایک مقام پر تحریر کیا ہے 

’’صولت صاحب نے بہت کہا ہے لیکن کم اپنے لیے اور بہت دوسروں کے لیے۔ تمام ہی مشہور قدیم اساتذہ ٔ سخن کی غزلوں پر انہوں نے غزلیں لکھی ہیں۔ مشکل سے مشکل اور سنگلاخ سے سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں شعر ان کی زبان و قلم سے نکلے ہیں لیکن چند غزلوں اور کچھ قصیدوں کے سِوا انہوں نے طبیعت کے استغنااور مزِاج کے لاابالی پن کی وجہ سے کلام جمع کرنے اور اس کے مرتب کرنے کا اہتمام کبھی نہیں کیا، نہ معلوم کتنا کلام ضائع ہو گیا اور نہ معلوم کتنا کلا م دوسروں کو بخش دیا۔‘‘ 

( بحوالہ جرنل جلد  3  بابت 83 - 84   ص 89)

صولت صاحب کوفی البد یہہ  اشعار کہنے پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ان کے مہارت ِ فن کا اندازہ ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اکثر مشاعروں میں فی الفور غزلیں کہہ کر پڑھیں۔  ا ن کی بدیہہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ خواہ کیسی ہی مشکل زمین ہو  چند ساعت میں غزل مکمل ہو جایا کرتی تھی۔ اور انداز ِ بیان کا معیار بھی ایسا کہ اس پر کبھی گرفت نہ ہوسکی۔

صولت صاحب نے غزل کے علاوہ نظمیں، قصیدے، قطعات و رباعیات، سہرے سہاگ و چار بیت و غیرہ اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن نعت گوئی پر انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ ان کے نعتیہ اشعارسے عشق رسول کی جو والہانہ کیفیت اور وار فتگی کا اظہار ہو اہے، وہ دیگر شعرا کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دراصل صولت صاحب صوم و صلوٰۃ اور دینی شعار کے پابند ایک سچے مسلمان تھے۔ آنحضرت حضورِ اکرم صلی اللہ وسلم کی ذات ِمبارک سے آپ کو خصوصی عشق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مشاعروں و دیگر محفلوں میں وہ نعتیہ شعر کو خصوصاً پسند کیا کرتے تھے۔ مشاعروں میں وہی شاعر ان کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتا جو نعتیہ شعر پڑھتا تھا۔ وہ ایک نعتیہ شعر کو کئی بار پوری غزل پر ترجیح دیا کرتے تھے۔

صولت  صاحب کے یہاں عشق رسولؐ صرف روایت کی پا سداری یارسم ورواج کے طور پرنہیں بلکہ یہ ان کی رگ وپے اورجسم و روح میں سرایت کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ ان کے کلام میں حمدیہ و نعتیہ اشعار کے ساتھ صوفیانہ رنگ غالب نظر آتا  ہے۔ وہ محافلِ میلاد النبیؐ اور مجالسِ سیرت النبی میں بڑے ذوق و شوق سے شرکت کرتے۔ صولت صاحب نے کثیر تعداد میں نعتیہ اور حمدیہ اشعار تحریر کیے ہیں۔ان کا اس نوعیت کا کلام آج بھی محافل میلادالنبیؐ اور مجالسِ چاربیت کی زنیت بنا ہوا ہے۔ میلاد و چاربیت پارٹیاں محافِل میں ان کو نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ مترنم آوازوں میں پڑھا کرتے ہیں۔

صولت صاحب نے شعری اصناف میں غزل میں ہی بنیادی طور پر اپنی فکرِ طبع کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ ا ن کی غزلیات میں دہلوی اور لکھنوی طرز سخن کے امتزاج کے ساتھ کلا سیکی اقدار  و  ر وایت کی پاسداری و احترام موجود ہے۔مشہور واقعہ ہے کہ جگر مرادآبادی نے صولت صاحب کی موجودگی میں کسی مشاعرے میں جب اپنا یہ مخصوص شعر ارشاد فرمایا           ؎

میری و حشت کی قسم آپ اٹھائیں تو نقاب

میرا ذمہ ہے کہ جلوے نہ پریشاں ہوں گے

 صولت صاحب نے بر جستہ فرمایا کہ جگر  صاحب یوں پڑھیے یوں            ؎

طور سینا کی قسم آپ اٹھائیں تو نقاب

میرا ذمہ ہے کہ جلوے نہ پریشاں ہوں گے

ایک لفظ کی تبدیلی سے صولت  صاحب کی استادی نے شعر کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ خاص بات یہ رہی کہ جگر  جیسے بڑے شاعر نے صولت  صاحب کی مذکورہ اصلاح کو بخوشی قبول بھی کیا۔

صولت صاحب غزل کو دیگر اصنافِ شاعری پر فوقیت دینے کے علاوہ اسے اردو شاعری کی جان بھی کہا کرتے تھے۔ وہ غزل کی قدیم روایات اور تراکیب کے ہمیشہ قائل رہے۔ صولت صاحب نے اپنی بیشتر غزلیات میں سادہ، سلیس، آسان، بامحاورہ اور پختہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ الفاظ کی بندش اور مخصوص اندازِ بیان کی بدولت ان کے بعض اشعار جاد‘و کا سا اثررکھتے ہیں۔ بطور ِ نمونہ چند اشعار پیش ہیں          ؎

زلف و رخ ان کے سلامت کیا غم شام وسحر

شام اک میرے لیے ہے اک سحر میرے لیے

پا کے بے پردہ انھیں بام پہ رونا آیا

حسن کی اس روشِ عام پہ رونا آیا

دیکھ کر آنکھ سے تیرے رخ و گیسو کی بہار

مجھ کو اپنے سحر و شام پہ رونا آیا

عمر بھر اتنی ہنسی بھی تو نہ آئی تھی کبھی

جس قدر اس دلِ ناکام پہ رونا آیا

دو عالم بھی قیمت نہیں تیرے غم کی

میں کب یہ متاعِ گراں بیچتا ہوں

نتیجہ کیا اگر انسان جیسی شکل پائی ہے

وہ ہے انسان جو انسان کے کام آئے مشکل میں

بھلا جو چاہا تو وہ مدتوں بھی نہ ہو سکا

برا نہ چاہا بھی ہم نے تو وہ شتاب ہوا

صولت کی غزلیات میں کہیں کہیں دہلوی رنگِ سخن کا غلبہ نظر آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ اولاً تو یہ ہے کہ وہ دہلوی استادنواب مرزا خاں داغ کے شاگرد بھائی جان عاشق   کے شاگردِ رشید تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ داغ  کی شاعری کا چرچا اس وقت پورے ملک میں تھا۔ داغ  کے رنگِ سخن کو اس عہد میں ایسا قبولِ عام حاصل تھا کہ کئی باکمال شعرا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ صولت کی شاعری پر بھی اس طرزِ سخن کا اثر پڑنا لازمی تھا۔ لہذاصولت کے یہاں بھی اشعار میں طرزِ داغ کی مانند زبان دانی و محاورہ بندی،بے ساختگی و حسن پرستی جیسے موضوعات پر اشعار مِل جاتے ہیں۔ چند اشعار پیش ہیں          ؎

معمولی حسن والا جہاں میں نہیں ہے تو

لاکھوں میں جس کو ایک کہیں وہ حسیں ہے تو

کیوں آستیں چڑھائے ہے باندھے کیوں کمر

کیا قتل کر سکے گا مجھے نازنیں ہے تو

غزل اور نعت کے علاوہ صولت صاحب نے ٹونک کی مقبول عام صنفِ سخن چاربیت میں بھی بخوبی طبع آزمائی کی ہے۔ چاربیت میں ادبیت پیدا کرنے والے حضرات میںشمشیر جنگ، استاد آبرو، استاد حیراں، وبسمل سعیدی کے ساتھ صولت صاحب کا نام بھی سرفہرست ہے۔ مذکورہ شعرا کے علاوہ جوہر، صائب، بصر ، شرر، فائز اورابنِ احسن بزمی وغیرہ شعرانے بھی اس سلسلے میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔ صولت صاحب کو غزل ہی کی طرح فنِ چار بیت اس کے رموز اور زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ ان کی بعض نعتیہ چاربیتیں آج بھی محافِل میں چاربیت پارٹیاں اپنے مخصوص طرز و انداز سے سنایا کرتی تھی۔ ان کی مشہور نعتیہ چاربیت کا مطلع اور بند ملاحظہ ہوں         ؎

سروری دونوں جہاں کی ہے سزاوار تمھیں

حق نے مختار کیا سیدِ ابرار تمھیں

ایسا رتبہ تو کسی اور نبیؐ کو نہ مِلا

جس کو اللہ نے محبوب بنایا اپنا

شبِ معراج میں بلواکے اٹھا کر پردہ

خوب اللہ نے دِکھلا دیا دیدار تمھیں

میں گنہگار ہوں، امت میں تمھاری تو ہوں

یہ تو ہرگز نہیں ہوگا کہ میں دوزخ میں جلوں

جاکے اَب روضۂ اقدس پہ یہ صولت کہدوں

چاہیے دھیان مِرا، اے مرے سرکار تمیں

 صولت  صاحب نے اپنے ایام شباب کے دوران احمدآباد کا سفر کیا تھا۔ وہ وہاں کی خوبصورتی اور حسنِ دلفریب مناظِر سے اس درجہ متا ثر ہوئے کہ ان کے قلم سے یہ اشعار نِکل پڑے        ؎

دم قدم سے ہے تیرے شوکت و شانِ گجرات

اے میں قربان تیرے سروردانِ گجرات

کیا کہوں میں تم سے داستانِ حسن

ہے نِرالی ہر ایک شانِ حسن

تازگی یہ ہے گلستانِ حسن

احمدآباد ہے جہانِ حسن

مذکورہ اشعار کے علاوہ بعض چاربیت گو حضرات کے مطابق ان کی ایک مشہور چاربیت کا شانِ نزول بھی گجرات ہی کا ایک حسین منظر تھا۔ چاربیت میں صولت  کے مظاہرۂ کمالِ فن کے ساتھ ان کے مخصوص جذبات واحساسات کی ترجمانی دل نشیں انداز میں ہوئی ہے۔ چاربیت کا مطلع یوں ہے        ؎

فریاد و فغاں کیا کرے تاثیر کسی کی

تدبیر سے برگشتہ ہے تقدیر کسی کی

کیا کوئی کہے سوزِ محبت کی کہانی

کس طرح دکھائے کوئی اشکوں کی روانی

مغرور ہے وہ حسن پہ اللہ رے جوانی

سنتا ہی نہیں وہ بتِ بے پیر کسی کی

چار بیت کا آخری بند اس طرح ہے        ؎

قسمت سے نظر آتا ہے انساں کو وہ منظر

صولت بخدا سانپ سے لہراتے ہیںدل پر

جب کوئی لبِ بام کھڑا ہوتا ہے آکر

بل کھاتی ہے جب زلفِ گرہ گیر کسی کی

یہاں سراپا نگاری کے علاوہ حسنِ بے پروا کی مغروریت و دلفریبی کے ساتھ شاعر کی قلبی کیفیت کا اظہار ہواہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ صولت صاحب کوفی الفور اور برجستہ اشعار کہنے پر بڑی قدرت اور ملکہ حاصل تھا۔ ان کی بدیہہ گوئی اور برجستہ شاعری سے متعلق کئی واقعات مشہور ہیں۔تاج الادبا فصیح الملک مولانا منظور الحسن برکاتی مرحوم نے اپنے ایک مقالے بعنوان’صولت صاحب اور ان کی شخصیت ‘  میں ایسے متعدد واقعات قلم بند کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ’شفامنزل‘ سے متعلق ہے۔وہ لکھتے ہیں 

اکتوبر66 کی بات ہے کہ ایک روز صولت  صاحب میرے غریب خانہ ’ شفامنزل‘ تشریف فرما تھے۔ مختلف موضوعات زیرِ بحث تھے۔ باتوں باتوں میں  ’ شفا منزل‘ موضوعِ سخن بن گئی۔ صولت صاحب قبلہ مرحوم نے فرمایا۔ یہ بڑا تاریخی اور علمی مقام ہے ...  پھر خودہی ذیل کا شعر ارشاد فرمایا          ؎

جس کو تم کہتے ہو شفا منزل

مرکزِ علم ہے یہ اے صولت

 اس مجلس میں صولت صاحب کے شاگرد  رشید جناب مراد سعیدی اور ٹونک کے ایک صاحبِ دیوان شاعرحافظ عبدالرحیم حافظ بھی شریک تھے۔ کچھ دیر کے بعد منشی احمد رضا خاں رضا  بھی آگئے۔تو صولت صاحب نے برجستہ فرمایا           ؎

مراد اور حافظ تو پہلے سے تھے

ہوا اور لیجے رضا کا اضافۂ

اس کے بعد گفتگو  کا رخ سجع گوئی کی طرف ہوگیا۔ صولت  صاحب نے فرمایا  میں نے قاضی الاسلام صاحب کا سجع بڑا ہی خوب اور پر معنی کہا ہے۔ اہلِ مجلس نے سننے کی خواہش کی تو فرمایا

خود محمد قاضی الاسلام ہے

...سجع گوئی کا سلسلہ جاری تھا کہ صاحبزادہ شوکت علی خاں صاحب اور محبوب عالم صاحب ایڈوکیٹ بھی آگئے۔ قاضی جی نے کہا میاں ! محبوب عالم کابھی سجع ارشاد فرمادیں۔     صولت صاحب نے فرمایا کہ محبوب عالم صاحب کا سجع تو بعدمیں کہوں گا۔ لوتم شوکت علی خاں کا سجع سن لو وہ ہوگیا         ؎

بابِ دیارِ علم کہا ہے حضورؐ نے

در اصل قصرِ علم کی شوکت علی سے ہے

اس کے بعد صولت صاحب نے محبوب عالم صاحب کے لیے ذیل کا سجع فرمایا    ع

اپنے حسنِ خلق سے محبوبِ عالم ہوگیا       

 طے ہوا کہ جِن حضرات کے اس وقت سجع ہوئے ہیں کل ان کی جانب سے پارٹی کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق دوسرے دن پارٹی منعقد ہوئی۔ پارٹی میں دارالعلوم خلیلیہ کے مدرس جناب حافظ محمد حسین خاں اور جناب قاری محمد علی بیگ صاحب بھی شریک تھے۔ اس موقع پر صولت صاحب نے ان دونوں حضرات کے بھی فی الفور سجع ارشاد فرمائے۔

حافظ محمد حسین خاں           ؎

رکھتے تھے اپنے دوشِ مبارک پہ آپ کو

کرتے تھے کتنی قدر محمدؐ حسین کی

 قاری محمد علی بیگ          ؎

بہت چاہتے تھے محمد علی کو

( بحوالہ جرنل  3،  ص  - 117  115)

اسی نوعیت کے ایک اور واقعہ کا بیان اس طرح ہے کہ 

’’اکتوبر  66 کی بات ہے حضرت صولت صاحب میرے غریب خانہ ’شفامنزل‘ میں تشریف فرماتھے۔ اتفاقاً اسی وقت میری تازہ تالیف ’ بسمل سعیدی اپنے وطن میں ‘ زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر پریس سے آئی۔ اس کتاب کی طباعت و اشاعت کے جملہ مصارف حضرت مراد سعیدی نے برداشت کیے تھے۔ حضرت صولت کی فرمائش پر میں اس کتاب کے چیدہ چیدہ حصے سنانے لگا، وہ بڑی دلچسپی اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ سماعت فرمانے لگے... بڑے خلوص و محبت سے تعریف و توصیف کے الفاظ سے ہمت افزائی فرمائی اور بے ساختہ و برجستہ خلوص ومحبت میں ڈوبا ہوا یہ دعائیہ شعر ارشاد فرمایا         ؎

تا ابدقائم رہیں یارب تہہِ چرخِ کہن

قاضی الاسلام صاحب اور منظور الحسن

(  بحوالہ جرنل  3  ص  117  )

صولت  صاحب کو ان کی زندگی کے آخری زمانے میں ان کے چہیتے فرزند احمد حسین عرف پیارے میاں داغِ مفارقت دے گئے۔ پسر کی اچانک موت نے انھیں جھنجھوڑ ڈالا۔ اس المناک حادثے نے نہ صرف ان کی کمر توڑی بلکہ زندگی میں ہی ان کی موت واقع ہوگئی۔ اب وہ صرف ایک کاغذی پیکر اور ہڈیوں کا مجسمہ رہ گئے تھے         ؎

دیکھ لو اب صرف کاغذی پیکر

مجھ میں اب دم و درود کچھ بھی نہیں

یہ زخمِ کاری کبھی نہ بھرنے والا تھا، لہٰذافرماتے ہیں         ؎

یہ زخم کبھی بھی نہ بھریگا مرے دل کا

بس کام یہ پورا ہی کرے گا مرے دل کا

یہ کیا بتاؤں تم کو کہ کیا رنگ ہوگیا

اب عرصۂ حیات مرا تنگ ہوگیا

اِن قطعات میں انھوں نے پیارے میاں کی موت سے خود کی زندگی ختم ہونے، زندگی کے موت سے بدتر ہونے کا ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں         ؎

شادمانی ختم ہو کر رہ گئی

کامرانی ختم ہو کر رہ گئی

تیرے جاتے ہی مرے پیارے میاں

زندگانی ختم ہو کر رہ گئی

بے مرے اس غم سے چھٹکارا نہیں

زندگی کا اب کوئی چارا نہیں

موت سے بدتر ہے صولت زندگی

کیا جیوں گا جب مرا پیارا نہیں

مشہور اردو رسالہ شانِ ہند دہلی، اپریل 1968 کے شمارے میں مدیر سرور تو نسوی  صولت صاحب کی وفات سے متعلق ایک تعزیتی تحریر میں یوں بیان کرتے ہیں 

’’ دراصل صولتؒ  کی قلبی موت تو اسی روز ہو چکی تھی جس روز ان کے چھوٹے صاحبزادے پیارے میا ں اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ اور یہی غم انھیں چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا اور وہ اپنے جواں مرگ صاحبزادہ کی قبر سے لپٹ کر فرماتے تھے کہ بیٹا بہت جلد تیرے پاس آرہا ہوں۔‘‘

صولت صاحب کی برجستہ گوئی اور فی الفور شعر کہنے کا سلسلہ تادمِ آخر جاری رہا۔ شدید بیماری اور عالمِ نزع میں بھی اشعار کہتے رہے۔ اسی عالم میں اپنی آخری رباعی انھوں نے اپنے محبِ خاص وخلیفۂ عزیز صاحبزادہ شوکت علی خاں کو لکھوائی تھی۔رباعی سے ظاہر ہے کہ موصوف کو عالمِ نزع میں بھی راحتِ جنت ملی تھی۔ یقینا یہ ثمرۂ خداوندی تھا جوانھیں حاصل ہوا        ؎

ہر قطرہ ہے پانی کا ثمر خلدِ بریں کا

صدقہ ہے یہ صولت بخدا سرورِ دیںِ کا

ہے نزع کے عالم میں مجھے راحتِ جنت

ثمرہ ہے یقینا یہ میرے حسنِ یقیںکا

ان کی وفاتِ پر ملال پر متعد د ہم عصر شعرا نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان گنت تعزیتی و تاریخی اشعار قلمبند کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے ہم عصر و دیرینہ رفیق مشہور کلا سیکی شاعر بسمل سعیدی نے جو اشعار بطورِنظم تحریر کیے ہیں وہ ان کی شخصی و فنی عظمت کے آئینہ دار ہیں        ؎

بستے تھے دِل کے دیس میں دو چار پانچ لوگ

پھر کیا رہا جو ان میں بھی دو چار مرگئے

اونا مراد اَب نہ کسی کی غم سے کھیلنا

اے دِل بہ ہوش باش کہ غم خوار مرگئے

ذی علم و فہم، صاحب فنِ، قادر الکلام

نباضِ فکر، ناقدِ اشعار مرگئے

دل دادۂ قدامت و خلق و خلوص و خیر

ساتھ اپنے لے کے کتنی ہی اقدار مرگئے

تھا دشمنوں کی موت کا بھی ذکر ناگوار

یہ کیا کیا کہ خود ہی مرے یار مرگئے

بسمل ہم اپنی خیر منائیں گے کب تلک

اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مرگئے

صولت  صاحب کے کلام کا بیشتر حصہ امتداد زمانہ کی نذر ہوگیا۔ زود گوشاعر ہونے کے باوجود ان کا کلام بہت کم دستیاب ہے کیونکہ انھوں نے خود کے لیے تو کم کہا اور دوسروں کے لیے بہت زیادہ ان کی اس وسیعالظرفی کے سبب بہت سے متبدی نہ صرف شاعر بلکہ صاحب دیوان تک بن گئے۔ استغنائے طبیعت کے باعث آپ نے کبھی اپناکلام یکجا بھی نہیں کیا۔ اس طرح ان کے درہائے سخن خذف ریزوں کے مول بکے۔ ان کی بعض غزلیات اور چاربیت ٹونک کے ان سے منسلک چند باذوق حضرات میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے شاگردِ رشید تاریخ گو شاعرمنشی عبدالبصیر بصررقمطراز ہیں 

’’آپ کا ذخیرۂ کلام گنتی کی غزلیں ہیں۔ ابتدائی دورکی غزلیں چاربیتیں ان کے اس دور کے ساتھیوں کے پاس ہیں۔ ان غزلوں اور چاربیتوں میں جو سقم و نقائص ہیں۔ وہ طالبِ علمی کے زمانے کی یادگار ہیں، ان کی اصلاح و درستی ممکن بھی نہیں وہ لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں۔اور زبانوںپر چڑھی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ جب زمانہ طالب ِ علمی کی غزل، چاربیت کوئی سناتاتو آپ دشمن کے شعر کی طرح سنتے اور تنفید فرماتے تھے اچھے کو اچھا برے کوبراہی کہتے تھے۔‘‘ 

(بحوالہ جرنل جلد  3  ص 59)

البتہ صولت ٹونکی کے خلیفہء عزیزصاحبزادہ شوکت علی خاں سابق ڈائریکٹر مولانا آزاد عربی وفارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ٹونک  (ادارۂ راجستھان سرکار)  نے مذکورہ ادارے کے سالانہ مجلہ ’جرنل‘ 3 کو نہ صرف ’صولت نمبر‘  کی حیثیت سے شائع کروایا۔ بلکہ اس میں صولت  ٹونکی کی حمد،نعت ومنقبت کے علاوہ غیر مطبوعہ 22، غزلیات کو جمع ویکجا کر کے شائع کیا۔ مذکورہ جرنل میں راجستھان و بیرونِ راجستھان کے متعدد ادبا و شعر اکے صولت صاحب سے متعلق تاثرات بھی شامل ہیں جو یوم صولت کے موقع پر ان حضرات نے تحریر کیے تھے۔

صولت صاحب کے آخری زمانے میں وفات سے کچھ ہی دن قبل قاضی شہر ٹونک کی تاریخ ساز حویلی میں خود ان کی صدارت میں شاعر سالک عزیزی کے اعزاز میں ایک مشاعرہ منعقد ہواتھا۔ یہاں انہوں نے اپنی غزل کے مقطع میں تقاضائے ملک الموت کا اظہار نہایت جذباتی انداز میں کیا تھا۔

سخت جاں تو بھی وہ صولت ہے کہ پرواہ ہی نہیں

کر رہا ہے ملک الموت تقاضا کب سے

 اختتامِ مقالہ سے قبل بطور ’ مشتے نمونہ ازخروارے‘ صولت کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں          ؎

مضطر ہجومِ رشک سے ہیں بزمِ یار میں

کانٹوں پہ ہم تو لوٹ رہے ہیں بہار میں

کمبخت لازمی ہے محبت میں بدظنی

پیوست نوکِ خارِ خزاں ہے بہار میں

وہ مسکراکے دیکھ رہے ہیں میری طرف

ہے آج کائنات مرے اختیار میں

اونچی نظر بھی کجیے تبسم کے ساتھ ساتھ

فرمائیے کچھ اور اضافہ بہار میں

گیسو وہ رخ پہ ڈالے ہوئے محوِ خواب ہیں

گویا چمن ہے سایۂ ابرِ بہار میں

حق گوئی میں کسی کا ہمیں کوئی ڈرنہیں

صولت جو بات کہنی ہو کہہ دیں ہزار میں

مآخذ 

  1.         ’جرنل‘ جلد3، صولت نمبر بابت سال83-84، مرتبہ صاحبزادہ شوکت علی خاں ڈائریکٹر وحکیم محمد عمران خاں
  2.        میرے عہد کی صدائیں    مخمور سعیدی 2000
  3.        شانِ ہند (رسالہ) دہلی، اپریل 1968 مدیرسرور تونسوی
  4.        ریاست ٹونک اور اردو شاعری    مختار شمیم1976
  5.        تذکرہ شعراے ٹونک    شمیم ٹونکی 1993
  6.        چار چاند    محمدالحئی فائز  1994
  7.        انجمن (دیوناگری میں ) ہنومان سنگل 1994
  8.        ٹونک میں اردو کافروغ    سید ساجد علی ٹونکی  2011
  9.        راجستھان میں شعری گلد ستوں کی روایت    ڈاکٹر نادرہ خاتون   2011
  10.      راجستھان میں اردو نعت گوئی ( غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ ) ڈاکٹر قائد علی خاں
  11.      راجستھان کے موجودہ اردو شاعر (دیوناگری میں ) پروفیسر پریم شنکر  شریواستو 1965
  12.      راجستھان کے موجودہ اردو شاعر (اردو میں ) مترجم و مرتب    ڈاکٹرعزیزاللہ شیرانی 2022

Dr. Rashid Miyan

Assistant Professor (Urdu)

Govt. P. G. College

Tonk- 304001 (Rajsthan)

Mob.: 7240302056                                         

Email : rashidmiyan356@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں