27/2/23

نازش پرتاب گڑھی انسانیت اور حب وطن کا شاعر: تابش مہدی


 

حضرتِ نازش پرتاب گڑھی (1924-1984) گزشتہ صدی کے عظیم، کہنہ مشق، مقبول ترین اور استاذ شاعر تھے۔ اُنھوں نے اپنی غیر معمولی وغیر مشروط مشق و مزاولت سے اردو دنیا کے ایک بڑے حصّے کو اپنی شاعری کی طرف متوجہ کرلیا تھا۔وہ ان خوش نصیب و کامیاب شعرا میں تھے، جنھوں نے اپنی شاعری سے مشاعروں کے اہل نظر سامعین کو بھی متاثر کیا اور موقر و قابل ذکر جرائد و رسائل کے قارئین کو بھی۔ وہ جتنی کثرت سے جرائد و رسائل میں چھپتے تھے، اتنی ہی کثرت سے چھوٹے بڑے اور باوقار مشاعروں میںبھی مدعو کیے جاتے تھے۔وہ جس طرح اپنی معیاری شاعری، گہری سوچ اور فکری و فنّی بلندی کے لیے مشہور تھے اور ارباب علم و دانش کے حلقوں میں عزت و توقیر سے دیکھے جاتے تھے، اسی طرح وہ اپنی خاندانی شرافت و نجابت اور سادگی و بے ریائی کے لیے بھی جانے پہچانے جاتے تھے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگ انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی غرض کہ انسانی برادری کے ہر طبقے میں انھیں عزت حاصل تھی۔ سب لوگ انھیں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے بھی اہمیت دیتے تھے اور ایک اچھے، بھلے اور بے ضرر انسان کی حیثیت سے بھی۔ ہندستان خصوصاً سر زمین اودھ کا ہر ہندو و مسلمان انھیں فخر و اعتبار کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔کسی نے فخر پرتاب گڑھ کہا تو  کسی نے ’نازش اودھ‘۔

نازش پرتاب گڑھی 14جولائی 1924 کو شہر پرتاب گڑھ سے پچھم کی جانب تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر سٹی پرتاب گڑھ کے نام سے مشہور ایک قصبے میں وہاں کے ایک معزّز، متمول اور زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آج ہم جسے پرتاب گڑھ کہتے ہیں، اسے ان دنوں بیلاکے نام سے جانا جاتا تھا۔ بل کہ آج بھی قرب و مضافات میں اُسے بیلا پرتاب گڑھ ہی کہا جاتا ہے۔ مطلقاً پرتاب گڑھ کے نام سے وہی قصبہ جانا جاتا تھا، جسے ہم اب سٹی پرتاب گڑھ کہتے ہیں اور جو حضرت نازش پرتاب گڑھی کا مولد ہے۔

نازش صاحب نے اپنے وطن ہی میں تعلیم و تربیت پائی۔ ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہ وجوہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ وہ طبعی و فطری طور پر شاعر تھے۔ ان کے خاندان اور اعزہ و اقربا میں بھی کسی نہ کسی درجے میں علم و ادب کا ذوق پایا جاتا تھا۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور خلیفہ اور اپنے زمانے کے استاد شاعر محترم مولوی نجم احسن نگرامی ثم پرتاب گڑھی ان کے سگے پھوپھا تھے، جو تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ وہیں وفات پائی۔ خاندان کے مخصوص ماحول نے ان کے ذوقِ شعری کو پروان چڑھایا اور وہ بہت کم عمری سے شعر کہنے لگے۔ ان کا اصل نام تو شیخ محمد احمد تھا، لیکن اپنے تخلص یا قلمی نام نازش پرتاب گڑھی کے نام سے پوری دنیا میں وہ جانے گئے۔

نازش پرتاب گڑھی شاعری میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شعری و فنّی جانشین علامہ سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔ اپنی اِس نسبت پر وہ ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ جب استاذ نے انھیں فارغ الاصلاح کردیا تو استاذ کے ایما سے انھوں نے چھترپور میں ادارۂ اصلاح و مشورہ کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی اور اس کے نظام کے تحت انھوں نے بھی نومشق اور مبتدی شعرا کو اصلاح دینی شروع کردی۔ کافی دنوں تک یہ سلسلہ رہا۔ اپنے زمانے کے مشہور شاعر محسن زیدی، مشتاق پردیسی، حسیب مغموم اور رامش پرتاب گڑھی ان کے مشہور تلامذہ میں ہیں۔ ہمارے زمانے کے مقبول ترین اور بزرگ سخن ور حضرت مہدی پرتاب گڑھی گوکہ ان کے باضابطہ شاگرد نہیں ہیں، لیکن انھوں نے بھی ان سے اِستفادہ کیا ہے۔ اپنے پرتاب گڑھ کے دوران قیام میں میں نے بعد نماز عصر ہمیشہ اُنھیں ان کے پاس پرتاب گڑھ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اے۔ایچ وھیلر بک اسٹال پر بیٹھا دیکھا ہے۔ وہ انھیں وہی عزت و توقیر دیتے تھے، جو کسی استاذ کو دینی چاہیے۔

نازش پرتاب گڑھی نے ہمیشہ اپنے محترم استاد حضرت سیماب اکبر آبادی کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا، ان کے دیے ہوے مشوروں اور ہدایات کا احترام کیا اور انھیں پیش نظر رکھا۔ محترم استاذ کے ادب و احترام کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے کبھی استاذ کی کسی زمین میں غزل نہیں کہی۔ سیماب صاحب کے مصرعوں پر منعقد ہونے والے قومی یا مقامی طرحی مشاعروں میں شرکت سے انکار کردیتے تھے۔

نازش صاحب کو ہمیشہ اپنے وطنی لاحقے پر فخر رہا۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پرتاب گڑھ فلاں و فلاں یا فلاں زمین دار و رئیس کی وجہ سے نہیں مشہور ہوا، یہ بندۂ ناچیز نازش کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ان کا بہت مشہور شعر ہے          ؎

وطن کے ذی حشم لوگوں سے اتنا بھی نہ ہو پایا

اُجالا کم سے کم پرتاب گڑھ کا نام ہی میں نے

ایک موقعے پر انھوں نے اہلِ وطن سے گِلہ کرتے ہوے کہا ہے            ؎

نازش دیار غیر میں مشہور ہوگیا

پرتاب گڑھ کے لوگ اُسے جانتے نہیں

یہ شعر بھی اِسی قبیل کا ہے           ؎

نازش! اِس شہر میں میری کوئی وقعت ہی نہیں

جس کو جانا گیا دنیا میں مرے نام کے ساتھ

اِس سلسلے کا یہ تغزل سے بھرپور شعر بھی سنتے چلیے         ؎

شہروں سے تو ہے شہر کی مٹی اچھی

کم سے کم لپٹی تو رہتی ہے مرے نام کے ساتھ

نازش پرتاب گڑھی ادبی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے میری وابستگی فیشن کے طور پر نہیں ہے، بل کہ اس کے شعری و ادبی رنگ و مزاج سے میں خود کو ہم آہنگ پاتا ہوں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی اخلاقی، سماجی، سیاسی اور اجتماعی شعور کے غیر شخصی اظہار کے ساتھ ایسے اشعار کثرت سے کہے ہیں، جن میں ان کی شخصیت، انفرادیت اور داخلیت کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے جس وقت شاعری شروع کی تھی، ترقی پسند، غیر ترقی پسند، سماجی، اصلاحی اور انقلابی وغیرہ کے عناوین لگاکر شاعری کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش شباب پر تھی۔ لیکن انھوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ انھوں نے اپنے اشعار میں وہی بات پیش کی، جو ان کے مزاج و طبیعت کا تقاضا تھا۔

جو لوگ غزلیہ شاعری کو محض عشق و عاشقی کی داستان پارینہ سمجھتے ہیں اور نئے زمانے کے لیے اُسے ناموزوں قرار دیتے ہیں، وہ اگر نازش پرتاب گڑھی کی غزلیں پڑھیں گے تو انھیں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ نازش پرتاب گڑھی کا کمال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انھوں نے غزل سے نظم کا بھی کام لیا ہے، لیکن تغزل کی روایت کو پامال نہیں ہونے دیا۔ اس لیے کہ ان پر یہ بات پوری طرح منکشف تھی کہ غزل ہی وہ صنفِ سخن ہے، جس میں خارجی رجحانات، افکار اور خیالات کو اپنے ذاتی احساسات میں تحلیل کرنے کی پوری گنجائش ہے۔ قاری جب ان کے یہ اشعار پڑھے گا تو اُسے میرا ہم خیال ہونا پڑے گا         ؎

بول اے خلوصِ درد! کہاں لے چلوں تجھے

کہتے ہیں اِک ضرورتِ شعری ہے ذکرِ غم

 

کچھ اور کھل کے غم دیگراں کی بات کہی

جب اپنی ذات کے اندر اتر گیا ہوں میں

 

اپنی شکست مان گیا بات بات پر

یاروں سے میری معرکہ آرائی کم ہوئی

 

اجداد کے افسانوں پہ تقریظ بھول جا

اپنے پہ کوئی نقد و نظر کرسکے تو کر

 

لوگوں کا ہے کام بنائیں میری بھلی تصویر ان سے

میں نے تو کاغذ پر نازش! صرف لکیریں کھینچی ہیں

میں نے نمونے کے طور پر چند اشعار نقل کیے ہیں۔ انھیں پڑھ کرقاری اِس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہے گا کہ نازش پرتاب گڑھی بیسویں صدی کے ان شعرا میں تھے، جنھوں نے اردو غزل کو جمالیاتی احساس اور شائستگی سے ہم کنار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے صرف اپنی مخصوص سوچ، وسیع جہت فکر اور لہجہ و اسلوب کی شگفتگی کی بنیاد پر غزل کے عظمت و وقار کو آگے بڑھایا ہے۔ منقولِ بالا اشعار گواہی دیتے ہیں کہ نازش پرتاب گڑھی نے اپنی غزلیہ شاعری کے ایک ایک شعر سے وہ کام لیا ہے، جس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے غزل کی روایت سے انحراف کیے بغیر اپنے عہد کی سچائیوں اور حقیقتوں کی ترجمانی کی ہے۔

ناقدین نے نازش پرتاب گڑھی کی غزلیہ شاعری کو تحسین و پسندیدگی کی نگاہ سے اس لیے دیکھا ہے کہ وہ اپنے حقیقی خط و خال کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس کے حسن و جمال کو کچھ اس طرح سنوارا ہے کہ کہیں اس کا رنگ متاثر نہیں ہوا ہے۔ بل کہ اس میں ایک طرح کا نکھار ہی پیدا ہوا ہے۔ خود انھیں بھی اپنی اس انفرادیت کا احساس تھا۔ کہتے ہیں          ؎

ہمارے دور کے اہل قلم نے

جو کچھ دیکھا ہے وہ لکھا نہیں ہے

نازش پرتاب گڑھی کے کلام کی نمایاں خصوصیت اس کی اثر آفرینی بھی ہے۔ اس میں اپنی پوری شاعرانہ شان و شوکت کے ساتھ جو منظم سا غم گھلا ہوا ملتا ہے، وہ دل میں پیوست ہوجاتا ہے۔ ان کے اشعار گراں بار یا بوجھل نہیں محسوس ہوتے۔ ان کے کلام میں نہ ان کے مزاج کی تندی ملتی ہے اورنہ ان کی گفتار کی تیزی، جو کہ ایک طرح سے ان کی پہچان بن گئی تھی۔ان کے یہاں ہم ضبطِ غم پاتے ہیں اظہارِ غم خال خال ہی پاسکیں گے۔ اِس ذیل میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ ان کے یہاں جو اظہار غم ملتا ہے، اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انداز نہ ملتجیانہ ہوتا ہے اور نہ داد خواہانہ۔ ان کے الفاظ سے ایسی بے بسی یا بے چارگی سامنے نہیں آتی کہ وہ رحم و کرم کی بھیک کے طالب نظر آئیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں           ؎

یہ مانا آئینہ جھوٹا نہیں ہے

مگر یہ تو مرا چہرہ نہیں ہے

 

لاکھ برہم ہو اپنے ماضی سے

آدمی مڑ کے دیکھتا ہے ضرور

 

جس راہ سے موجِ غم گئی ہے یارو

دنیا کی نگاہ کم گئی ہے یارو

 

تم جس کو سمجھتے ہو غزل کا اک شعر

لفظوں میں کراہ جم گئی ہے یارو

 

اک عمر میں جلاتا رہا ہوں چراغِ دل

جب جاکے روشنی میں مرے دوست آئے ہیں

 

یہ حادثے رونے نہ رلانے کے لیے ہیں

سویا ہوا احساس جگانے کے لیے ہیں

 

ہر صفحۂ تاریخ جنوں اس کا ہے شاہد

دیوانے سبھی صاحبِ افکار رہے ہیں

 

تاوقتے کہ ہاتھوں میں ہے دم لکھتے رہیں گے

گزرے گی جو انساں پہ وہ ہم لکھتے رہیں گے

 

قرطاس نہ پائیں گے تو صد پارۂ دل پر

تاریخ ستم، قصہ غم لکھتے رہیں گے

 

میں چپ رہوں تو اپنی نظر سے گرا رہوں

کھولوں زباں تو دوڑ کے سچّائیاں ڈسیں

نازش پرتاب گڑھی کے شعری ذخیرے میں ایسے اشعار بہ کثرت ملتے ہیں، جن سے ان کی وفاشعاری اور احباب نوازی کا پتا چلتا ہے۔ دلّی میں نازش صاحب کے ایک دوست دیرینہ جناب مشہود مفتی مرحوم رہتے تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی مشاعرے کے سلسلے میں وہ دلّی تشریف لائے اور کئی روز تک ان کے یہاں قیام کیا۔ انھوں نے ایک غزل کے مطلعے میں مفتی صاحب کے خلوص و محبت کو اِس طرح یاد کیا ہے        ؎

نازش! خلوصِ دوست کا مظہر کہیں جسے

دلّی میں جاکے ملتے ہیں، اس آدمی سے ہم

جناب غلام ربانی تاباں سے بھی ان کا دوستانہ تھا۔ ان کے کسی احسان کو اپنی ایک غزل کے مقطعے میں انھوں نے یوں یاد کیا ہے          ؎

نازش! اک انسان سے ملنے کو آئے ہیں یہاں

ورنہ دلّی سے ہمارا واسطہ کوئی نہیں

نازش پرتاب گڑھی نے کم و بیش ساٹھ سال کی عمر پائی۔ انھوں نے پوری عمر شعر و شاعری میں گزاردی۔ وہ گرچہ چھت اڑانے والے یا اسٹیج پر دھوم مچانے والے شاعر نہیں تھے۔ نہ یہ فن اُنھیں آتا تھا اور نہ اِس قسم کی باتوں کو وہ پسند کرتے تھے۔ وہ ان شعرا میں تھے، جو نقیب مشاعرہ کی دعوتِ سخن پر بڑی سنجیدگی سے مائک پر آتے ہیں اور کسی تمہید یا وضاحت کے بغیر کلام سنانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن سامعین انھیں بڑی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ سنتے تھے اور بھرپور داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ افسوس کہ یہ روایت اب تقریباً مفقود ہوچکی ہے۔ مشاعروں میں اُن کی نظمیں خصوصیت کے ساتھ پسند کی جاتی تھیں۔ ان کی نظموں میں اردو کی خدمت متاعِ قلم، لفظوں کا المیہ، زبان سے نفرت کیوں اور آخری بات اپنے دور کی معرکہ آرا نظمیں تھیں۔ مشاعروں میں بہت مقبول تھیں۔ فرمائش کرکے سنی جاتی تھیں۔ ان کی نظم’ آخری بات‘ کا یہ شعر تو آج تک زبان زد ہے          ؎

مرے قلم کو مرے ساتھ دفن کردینا

کہ یہ عذاب نئی نسل تک پہنچ نہ سکے

ہم نازش پرتاب گڑھی کی خواہ غزل پڑھیں، خواہ نظم یا کچھ اور ہر جگہ ان کی حب الوطنی اور انسان دوستی نمایاں رہتی ہے۔ یہ ان کا ایسا امتیاز ہے، جو ان کے کسی ہم عصر کے یہاں کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔ ان کی ایک طویل نظم ہے ’جواب آں عزیزم‘۔ یہ نظم انھوں نے 1964م میں لکھی تھی۔ اِس سال کے اوائل میں ہندستان کے مختلف مقامات پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی اِطّلاعات سے نازش صاحب کے وہ اعزہ و اقربا بہت متاثر تھے، جو تقسیم ملک کے وقت یہاں سے ہجرت کرگئے تھے۔ وہ اِن فسادات کے موقعے پر نازش صاحب اور ان کے خاندان کے سلسلے میں بے حد فکر مند تھے۔ اُنھیں ہر وقت تشویش رہتی تھی۔ ان کا مشورہ تھا کہ نازش صاحب بھی آل اولاد کے ساتھ پاکستان ہجرت کرجائیں۔ اس سلسلے میں ان کے چھوٹے بھائی نے تفصیلی خط لکھا تھا۔ یہ نظم دراصل اسی خط کا منظوم جواب ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی پیش کش اور مشورے کا شکریہ ادا کرتے ہوے لکھا ہے          ؎

مگر عزیز برادر! تمھیں یہ کیا معلوم

کہ میں نہ بے کس و بے بس ہوں اور نہ ہوں مغموم

 

یہ ظالموں کا وطن ہے، لکھا ہے تم نے مگر

مجھے تو صرف دعائیں ملی ہیں ہونٹوں پر

مختلف آسانیوں اور خصوصیات کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے        ؎

یہ میرا ملک ہے، میرا وطن ہے، میری زمیں

یہاں سبھی مرے اپنے ہیں کوئی غیر نہیں

آگے چل کر فرمایا           ؎

ہے واقعہ کہ جگر ہوں کوئی نہ جوش  ہوں میں

پلیٹ فارم پر ادنی کتب فروش ہوں میں

 

مگر خلوص بھی مجھ کو ملا محبت بھی

مجھے نصیب ہے عزّت بھی اور شہرت بھی

کتابی سائز کے گیارہ صفحات پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے اندر حب وطن اور انسان دوستی کا گراں قدر خزانہ سمیٹے ہوئے ہے۔ اِس نظم سے نازش پرتاب گڑھی کی حب الوطنی اور انسان دوستی کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اِس کا ایک ایک شعر تاریخ ہندکا اہم سرمایہ ہے۔ وہ خواہ کسی بھی تحریک یا گروہ سے تعلق رکھتے رہے ہوں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک سچے اور پکے محب وطن تھے۔ انھوں نے اپنے حب وطن کے جذبے کو کبھی مغلوب نہیں ہونے دیا۔

نازش پرتاب گڑھی نے اپنی عمر کا بڑا حصہ مشاعروں میں صرف کیا۔ بلکہ یہی چیز ان کے لیے ذریعۂ معاش کے درجے میں آگئی تھی۔ اس لیے کہ ان کا اور کوئی خاص کاروبار بھی نہیں تھا۔  جب کہ مصارف زیادہ تھے۔لیکن انھوں نے خود داری، وضع داری اور اپنی مزاجی و طبعی شرافت و نجابت کو کبھی دائو پر نہیں لگایا۔ ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کی، کسی بڑے یا چھوٹے مشاعرے کے لیے نہ کبھی کسی سے سفارش کرائی اور نہ کسی کنوینر مشاعرہ کی خوشامد کی۔ شرکت کا  دعوت نامہ ملا، منظوری دے دی۔ نہ کبھی دعوت نامے کے جواب میں نذرانے یا اعزازیے کے سلسلے میں کوئی شرط لگائی اور نہ ختم مشاعرہ کے بعد مشاعرے کی کمیٹی والوں سے اعزازیے کی کمی بیشی پر لڑے یا بحث کی۔ جب وہ اسٹیج پر بیٹھتے تھے تو بڑی خاموشی اور متانت کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ اور تمام شعرا کا کلام سنتے تھے۔ مشاعروں میں بیٹھ کر اغل بغل کے لوگوں سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنا یا کسی قسم کی کانا پھونسی انھیں بالکل پسند نہیں تھی۔ اسٹیج پر کسی شاعر کی غیرسنجیدہ حرکت پر اسے پہلے ایک دو بار سمجھاتے تھے پھر ڈانٹ دیا کرتے تھے۔

نازش پرتاب گڑھی کی شاعری کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ کسی ایک صنفِ سخن میں قید نہیں رہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی قصائد بھی کہے اور نعت و مناقب بھی اور قطعات و رباعیات بھی۔ ان کے عہد کے بڑے بڑے ناقدین فن اور ادب فہم دانش وروں نے ان کی قدرتِ کلام اور مہارتِ فن کا اعتراف کیا ہے۔ اِس سلسلے میں نیاز فتح پوری، ماہرالقادری، غلام ربانی تاباں اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ نیاز فتح پوری نے رسکن کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اچھی اور حسین عورت کہیں بھی ہو یا جو بھی ہو میرا اس سے رابطہ ازلی ہے۔‘—پھر لکھتے ہیں ’یہی عقیدہ میرا شاعری کے سلسلے میں ہے کہ اچھا شاعر کہیں بھی ہو، کسی بھی خطہ و دیار سے اس کا تعلق ہو، میں اُسے اپنا رفیق و انیس سمجھتاہوں۔ نازش پرتاب گڑھی کا کلام پڑھ کر میں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔‘

نازش پرتاپ گڑھی 14جولائی 1924 کو اِس جہانِ رنگ و بو میں وارد ہوئے اور 10اپریل 1984 کو تقریباً ساٹھ برس تک شعر و ادب سے بھرپور زندگی گزار کر رخصت ہوگئے۔ان کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے چالیس برس ہونے کو ہیں۔ لیکن اپنے انقلاب آفریں اشعار، معرکہ آرا نظموں اور تغزل و تفکر سے لبریز غزلوں کی وجہ سے وہ اب بھی زندہ ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے، جب تک شعر و ادب کی روایت زندہ  رہے گی۔

Dr. Tabish Mehdi

G5/A - Abul Fazl Enclave

Jamia Nagar, New Delhi - 110025 (INDIA)

Cell:  9818327947

E-mail: drtabishmehdi@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں