28/2/23

ظہیر دہلوی کی غزل گوئی: حمیرا حیات


 ہنگامہ غدر 1857 کے بعد دہلی کو خیرباد کہنے والے شاعروں میںسید ظہیر دہلوی کا نام قابل ذکر ہے۔ظہیر دہلوی کی ولادت 1835 میں دہلی میں ہوئی۔ان کے والد میر جلال الدین حیدراپنے عہد کے اچھے خوش نویسوں میںشما ر ہوتے تھے۔جلال الدین حیدرکو بادشاہ ابو ظفر نے مرصع رقم صلاح الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ظہیر دہلوی نے ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔دوران تعلیم ہی شعرو سخن کی ابتدا  ہوچکی تھی۔سب سے پہلی غزل حافظ قطب الدین صاحب مشیر شاگرد شاہ نصیر کے منعقد کردہ مشاعرے میں پڑھی۔ تیرہ برس کی عمر میںآپ نے شاہی ملازمت اختیار کی اور بائیس برس کی عمر تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ظہیر دہلوی دہلی کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب دہلی اجڑ رہی تھی۔دہلی کی بزم شعرا دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہی تھی۔ہنگامہ غدر 1857میں ظہیرنے بھی دہلی کو خیرباد کہا۔پانی پت میں کچھ روز قیام کیا پھر بریلی تشریف لے گئے۔لیکن کہیں بھی عافیت نظر نہیں آئی۔آخر نواب یوسف علی خاں والی رام پورکے دربار میں پناہ لی ظہیر تقریبا چار سال کے قریب رام پور ہی میں رہے۔ اس کے بعد پھر دہلی آئے لیکن دوبارہ قیام دہلی ان کے لیے سودمندثابت نہ ہوا۔کیونکہ دہلی میں اب پہلی جیسی نہ رونقیں تھیںنہ آرام،حالات بد سے بدتر تھے۔دہلی بری طرح ویران ہو چکی تھی۔ظہیر دہلوی کو دہلی کے مٹنے کابہت غم تھا۔اس غم کو وہ اپنی غزلوںمیں کچھ یوں بیاں کرتے ہیں         ؎

ہم نشیں قصہ دہلی نہ سنانا ہرگز

زخم نو داغ کہن پر نہ لگانا ہر گز

بھولے ہوئے افسانہ دل یاد کریں گے

اجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کریں گے

بہہ گئے سیل فنا میں شہر والے اے ظہیر

بے کسی آباد ہے اب تو جہاں آباد میں

کچھ دن بلند شہر کے’جلوہ طور‘اخبار میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔لیکن دہلی میں ان کو سکون نہ ملاکوئی نہ کوئی دکھ پریشانی ان کی جاں کے ساتھ لگے رہتے۔فرماتے ہیں        ؎

کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا

ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آہی جاتی ہے

سخت جانی کی بدولت طے ہوئے سب مرحلے

کام جو دشوار تھے آساں سے آساں ہوگئے

   الور کے مہاراجہ شیو دان سنگھ علم دوست اور ادب پرور تھے۔خود بھی عالم تھے اور عالموں کی قدر کرتے تھے۔انھوں نے بہت سے ادبا اور شعرا کو اپنے دربار سے وابستہ کر لیا تھا۔ظہیر کی علمیت و قابلیت سے متاثر ہوکر مہاراجہ نے انھیں الور بلا لیا۔چار سال ملازمت کرنے کے بعد دہلی آگئے۔دہلی میں نواب مصطفی خاں شیفتہ سے مراسم تھے لہذا ان کی سفارش پر ریاست جے پور کے محکمہ پولیس میں تھانیدار ہوگئے۔انیس سال تک ملازمت کی اور پھر سبکدوش ہوگئے۔ریاست ٹونک کے نواب محمد ابراہیم علی خاں نے اپنے پاس بلالیا۔پندرہ سولہ برس ٹونک میں رہے۔شعرو شاعری کے لحاظ سے یہ دور بہت ہی خاص رہا۔ٹونک میں ان کی شاعری بہت مقبول ہوئی۔ایک باوقار شاعر کی حیثیت سے وہاں رہے۔اسی دوران شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔جن میں سے بعد میں کئی شاگرد مقبول ہوئے۔اس کے بعد حیدرآباد بھی گئے آخر کار27مارچ 1911 کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

ظہیر دہلوی کی زندگی کا بڑا حصہ صدموں اور پریشانیوںمیں گزرا۔ان کی غزلوں میں اس داستانِ حیات کی بدحالی کا بیان ملتا ہے         ؎

پھر گئیں چشم زدن میں وہ نگاہیں کیسی

دیکھتے دیکھتے بدلا ہے زمانہ کیسا

یہ طاقت ہے یہ قدرت ہے اسی ناچیز مٹی کو

فلک سے جو نہیں اٹھتا اسے انساں اٹھاتے ہیں

کون بنتا ہے مکیں اس خانہ برباد کا

یہ دل ویراں نمونہ ہے جہاں آبادکا

ظہیر دہلو ی نے غزلیں،قصائد،قطعات،اور رباعیات تقریبا سب ہی اصناف سخن میںطبع آزمائی کی۔لیکن وہ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر تھے۔ان کے شعری سرمائے میں تین دیوان موجود ہیں۔پہلا ’گلستان سخن 1899 ٹونک میںمرتب ہواجس کے انتخاب وترتیب کا کام انھوں نے اپنے شاگرد عزیز عاشق ٹونک کے سپرد کیاتھا۔اس دیوان میں حمدیہ اور نعتیہ غزلیں،شہر آشوب،رباعیات،قصائد،سہرا،تاریخی قطعات بھی شامل ہیں۔لیکن اس میں تاریخی ترتیب نہیں ہے۔باوجود اس کے اس دیوان میں غدر کے بعد اور ٹونک کی ملازمت کے دوران جتنا شعری سرمایہ تھا تقریبا سب ہی جمع ہوگیا ہے۔

بقول عاشق ’’استاد صاحب نے شاگردنوازی فرما کر مجھے عزت بخشی۔میں نے نہایت شرم سے اس کام کو کیا‘‘(ہماری زبان،دہلی شمارہ یکم ستمبر74،ص8)

جگن ناتھ پرشاد فیض تذکرہ ’گلزار سخن ‘ میں لکھتے ہیںکہ

’’آپ کے تین دیوان ریاست ٹونک میں شائع ہوچکے ہیں۔چوتھا بھی قریب اختتام ہے۔‘‘(گلزار سخن از جگن ناتھ پرشادفیض،مطبوعہ1908،ص278)

گلستان سخن کے علاوہ ظہیر دہلوی کے دو دیوان ’شبستان عبرت 1329ھ، دفترخیال 1330ھ ان کی حیات ہی میں حیدرآباد میں ترتیب پائے گئے تھے۔ظہیر نے ان دونوں دواوین اور ایک قلمی مسودے کا ذکر اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔

’’تازمان انطباع دیوان دوم بھی ترتیب پا گیا۔مگر بعد اس قدر استطاعت نہ ہوئی کہ وہ بھی چھپوایا جاتا۔اب عنایت ایزدی سے تین دیوان کا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے اور ایک جلد کے قریب مرثیے،سلام،رباعیات وغیرہ فراہم ہوگئے ہیں۔خداوند تعالی اپنے خزانہ غیب سے کوئی سامان مہیا کردے گا تو وہ بھی طبع ہوجائیںگے۔ظاہرا تو کوئی سامان مہیا نظر نہیں آتا۔(داستان غدر،ص313)

 ظہیردہلوی کے چوتھے دیوان کے متعلق کوئی خاص معلومات توحاصل نہیں ہوتی۔لہٰذا ان کے چوتھے دیوان کے حوالے سے مدبر علی زیدی فرماتے ہیں۔

’’دیوان چہارم شائع نہیں ہوسکا اور 1947 کے ہنگامہ میں ضائع ہوگیا ‘‘

(تنقیدی جائزے،مدبر علی زیدی،ص152)

نثرکے حوالے سے ظہیر دہلوی کی تصنیف’داستان غدر‘ایک اہم کتاب ہے۔جو 1910 میں شائع ہوئی۔داستان غدرایک خودنوشت سوانح حیات ہونے کے ساتھ ساتھ غدر کی مستند تاریخ بھی ہے۔اس کتاب میں ظہیر نے غدر کے چشم دید حالات نہایت روانی و سادگی سے بیان کیے ہیں۔نہ صرف غدر بلکہ وہ واقعات بھی ہیں جو ان کے گھر والوں پر بیتے تھے۔اس وقت کے بیتے ہر منظر کو بیان کرتی ہے جو خودظہیر کی زندگی سے جڑے تھے۔انگریزوں کے سیاسی قانون،عوام اور بادشاہ کے ساتھ کی گئی سیاست، فسادات، وغیرہ کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔علاوہ ازیں دوسری طرف قلعہ معلی کی معاشرت، آداب ورسوم مجلسی اور ان کے ہمعصر شعرا کی زندگی اور شاعری کے حوالے سے مفید اور اہم معلومات کتاب میںپیش کی گئی  ہیں۔علاوہ ازیںوالیان ریاست کے مزاج، فیاضیوں اور ان کے عادت و اطوارکی عکاسی بڑے دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ظہیر دہلوی نے اس دور میںریاستوں کی تہذیب و معاشرت کی سچی تصویر یںپیش کی ہیں۔

جہاں تک شعری دیوان کا تعلق ہے ظہیر دہلوی کے دیوان اول میں جو لطف تغزل ہے وہ باقی دواوین میںنہیں ملتا۔شاید اس کی وجہ دیوان اول کی تکمیل کے زمانے میں ظہیر دہلوی ذہنی و مالی اعتبار سے پریشان حال نہ ہونا تھا۔جبکہ دیوان دوم،سوم کے زمانے میں وہ بہت پریشانیوں میں مبتلا رہے۔خیر وجہ جو بھی رہی ہو لیکن ان کی شاعری اور اندازبیان دبستان دہلی کے صف اول کے شعرا میںبلند مقام دلانے کے لیے کافی ہے۔

ظہیر دہلوی نے شاعری کی ابتدا ایک ایسے دور میں کی جب اردو شاعری میں غالب،مومن،ظفر اور ذوق کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔ ظہیر بھی ان شعرا کی صحبت سے فیضیاب ہو ئے۔ذوق کی شاگردی اختیار کی ساتھ ہی مومن کے رنگ سخن سے متاثر تھے لہذا اس طرز کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔بہادر شاہ ظفر کی سر پرستی میں ہونے والے مشاعروں اور دوسری ادبی و علمی محفلوںمیں ظہیر بھی شرکت کرتے تھے ذوق، غالب، مومن کی صحبتوں سے انھیںخوب فیض حاصل ہوا۔ان صحبتوں سے ظہیر کی علمی تشنگی،ذوق مطالعہ پیدا ہواساتھ ہی ان کی ذاتی صلاحیت نے ان کی شخصیت کوجلا بخشی جس سے ان کے مزاج میں علم وادب کا میلان رچ بس گیا۔

ظہیر دہلوی اپنے عہد کے معیار شعر سے آگاہ تھے۔انھیں معلوم تھا کہ شعر میں الفاظ کی نشست،محاورے کے برجستہ استعمال،روز مرہ کے جادو اور تخیل کی کیا قدرو قیمت ہے۔اس دور کے شعرا کے کلام کی سب سے اہم خوبی لطف زبان ہے۔یہی ان کی غزلوں کی سب سے اہم خصوصیت بھی ہے۔ان کے کلام میں کلاسیکی روایات کا پرتو نظر آتا ہے۔ زبان کی صفائی،روانی اور سلاست ان کے کلام کو پر اثر بناتی ہے۔ظہیر دہلوی نے الفاظ وتراکیب کی بندش و چستی،محاورے،صنائع و بدائع کا استعمال پر خاص توجہ دی ہے۔ ظہیر اپنا مخصوص لب و لہجہ رکھتے ہیں۔تکرار لفظی،رعایت لفظی اور صنعت تضاد کے استعمال سے شعر میں لطف اور حسن پیدا کردیتے ہیں۔روز مرہ اور محاوروں کے برجستہ استعمال میں انھیں ماہرانہ قدرت حاصل ہے۔ان اشعار سے ان کے رنگ سخن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مثلا       ؎

تم تھے جہاں جہاں وہیں دل بھی ضرور تھا

میں بدگمانیوں سے بہت دور دور تھا

دیکھیے کیا گل کھلائے فصل گل آئی تو ہے

ہاتھ ابھی سے دوڑتے ہیں جیب و داماں کی طرف

ظہیر ایک فطری شاعر تھے مشکل زمینوں میںطبع آزمائی کرنا ان کے لیے مشکل نہ تھا۔ یوں لگتا ہے اپنے پیش رو شاعر اور استاد شعرا ذوق،غالب اور مومن کی زمینوں میں شعر کہنے میں انھیںلطف آتا ہے۔اپنے استاد ذوق کی طرح ہی وہ قافیہ پیمائی کا ہنر دکھاتے ہیں۔ان شعرا کے اندازبیان کو بڑی خوبی سے نبھاتے ہوئے اپنا جوہر چمکاتے ہیں۔مثلا         ؎

کیا نباہی طرز مومن اے ظہیر

طاق ہیں لاریب اپنے فن میں ہم

سودائے محبت میں جو سر جائے تو اچھا

یہ بوجھ میرے سر سے اتر جائے تو اچھا

یہ کانٹا بھی نکل جائے شب ہجر

کہ دم کے ساتھ کھٹکا ہے سحر کا

ظہیر دہلوی اساتذہ کی زبان کی تقلید کا دامن تھا مے ہوئے اپنی غزلوں میں روایتی علامتیں،تشبیہات،استعارات کا خوب استعمال کرتے ہیں۔کلام میں زور بیان روانی اور ترنم پیدا کرنے کے لیے تکرار لفظی،رعایت لفظی اور صنعت تضاد بھی جابہ جا مل جاتے ہیں۔ مثلا        ؎

ہوتے ہوتے ہی کہیں صبر کی عادت ہوگی

 رفتہ رفتہ ہی سنبھلتے ہیں سنبھلتے والے

اک اک خطا شعار کو رحمت سے ہے لگائو

الجھا ہے خار خار سے دامن نسیم کا

تمھارے دل میں ہوکس طور سے گزر میرا

نہ شوق ہوں نہ محبت نہ اعتبار ہوں میں

اپنے ہم عصرشعرا مومن و داغ کی طرح ظہیر دہلوی نے شوخی و طنز و تعریض کواس طور برتا ہے کہ یہ رنگ تقلیدی و رسمی معلوم ہوتا ہے۔غور کریں توان کے کلام میں حسن و عشق کی نیرنگیوں اور ان سے متعلق نازک و لطیف جذبات و احساسات کی دلکش عکاسی ملتی ہے لیکن یہ رنگینی،شوخی،طنزو تعریض کا یہ رنگ اس حد تک نہیں ہے جتنا مومن و داغ کے یہاں ملتا ہے۔مثلا         ؎

کب وہ سنتے ہیں کہ ہے کون دہائی دیتا

اونچے لوگوں کو ہے اونچا ہی سنائی دیتا

خوش ہوئے تو کہہ دیا چل دور ہو

واہ کیا اخلاص ہے کیا پیار ہے

ظہیر دہلوی کے رنگ تغزل میںچند ایسی امتیازی خصوصیات ہیں جو انھیں دوسرے شعرا سے منفرد کرتی ہیں۔ان میں سب سے اہم دہلی کی ٹکسالی زبان ہے۔ظہیر دہلوی کواس پر قدرت حاصل تھی۔دہلی کی زبان،صفائی اور سادگی،ترنم اور شیریں بیانی یہ وہ عناصر ہیں جوان کے کلام میں تاثیر پیدا کرتے ہیں۔چونکہ انھوں نے اپنے اسلوب کے لیے ذوق کی زبان،غالب کی بندش اور مومن کی طرز کو مستعار لیتے ہوئے اپنی راہ جدا  نکالنے کی کوشش کی ہے اس لیے روزمرہ محاورے کی صفائی زبان وبیان کی شستگی اور طرز ادا میںایک تاثیرپیدا ہوگئی ہے۔ تغزل کی چاشنی اور سوزوگداز ان کے کلام میں پر اثر انداز میں موجود ہے         ؎

کیوں کسی سے وفا کرے کوئی

خود برے ہوں تو کیا کرے کوئی

موت کا نام بے وفائی ہے

ہائے کب تک وفا کرے کوئی

درد اور درد بھی جدائی کا

ایسے بیمار کی دعا کب تک

جہاں تک بات غزل کے داخلی پیکرکی ہے تواس کو سجانے وسنوارنے میں صنعت گری کے علاوہ رمزو کنایہ، نازک خیالی،جدت ادا،فصاحت و بلاغت،سوزوگدازاور جمالیاتی کیف کی اہمیت زیادہ نظرآتی ہے۔چونکہ تغزل کا تعلق وجدان اور ذوق سے ہے اس لیے اس کی کوئی منطقی تعریف ممکن نہیں ہے۔بعض اوقات الفاظ کے بہترین انتخاب،دلی جذبے کی سچی ترجمانی سے بھی تغزل کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔بہ شرط شعر میں تاثیر ہو اور سیدھا دل میں اتر جائے۔ظہیر دہلوی کے کلام میںجمالیاتی کیفیت اور نازک خیالی کی کمی نہیں ہے۔مثلا       ؎

ہوتی ہے حسن و عشق میں کتنی مناسبت

میرے بیاں کا رنگ تمھاری ادا میں ہے

قیامت پر نہ رکھو فیصلہ دل کا خدا جانے

تمھارے منہ سے کیا نکلے ہمارے منہ سے کیا نکلے

مختصر یہ کہ دبستان دہلی کے شعرا ئے متا خرین میں صف اول کے شعرا میں جن شعرا کو بلند و ممتازمقام حاصل ہوا ان میںظہیر دہلوی کا نام بہت اہم ہے۔ظہیر دہلوی کے معاصرین میںاسد لکھنوی،مضطر خیر آبادی، راقم،قربان علی بیگ سالک،محمد علی تشنہ جیسے اساتذہ فن شامل ہیں۔اردو غزل کو سنوارنے وسجانے اور مقبول عام بنانے میں ان شعرا نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ظہیر کے شاگردوں میں صاحبزادہ احمد علی خاں رونق،مولوی نادر علی برتر،منشی نجم الدین ثاقب بدایونی،صاحبزادہ احمد سعید خاں عاشق ٹونکی اول درجے میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ظہیر دہلوی نے اپنے کلام سے نا صرف دہلی بلکہ الور،جے پوراور ٹونک کی ادبی فضاؤں میں ایک نئی روح پھونکی۔اردو زبان خاص طور پر دہلی کی شیریں زبان کو دوسری ریاستوں میں پھیلانے میں ظہیر دہلوی نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

Humera Hayat

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں