28/2/23

مہاربھارت کے اردو تراجم: شاہ نواز فیاض


 

زبان کے حیرت انگیز کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام الناس کے افکاروخیالات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ دنیا میں تقریباً تمام علوم کی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے، اس کا جو فائدہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح سے مذہبی کتابوں کا بھی دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، جس سے مذہب کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ بات صرف مہابھارت کے حوالے سے کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں مہابھارت سے متعلق اور اس کے تراجم کے حوالے سے تقریباً تین درجن کتابیں موجود ہیں۔ میری معلومات کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ طوطا رام نے 1862 میں کیا تھا، جسے نول کشور پریس نے شائع کیا تھا۔اس کتاب پر کہیں سنہ اشاعت درج نہیں ہے، لیکن کتاب کے بالکل آخری صفحے پر تاریخ طبع کتاب درج ہے، جس کامادہ 1862 نکلتا ہے، اسی طرح سے ہجری میں 1278 درج ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مہابھارت کا پہلا اردو ترجمہ 1862 میں شائع ہوا۔ نند کشور وکرم نے عالمی ادب کے دھارمک نمبرمیں اس ترجمے کا سنہ اشاعت 1874 لکھا ہے، جب کہ قطعۂ تاریخ سے کچھ اور واضح ہوتا ہے۔ دھارمک نمبر کے حساب سے اردو میں مہابھارت کا پہلا ترجمہ سی۔ پی۔ کھٹاو نے کیا ہے، جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ دوسرا ترجمہ سی پی کھٹاو نے’مہابھارت‘کے عنوا ن سے 1867 میں کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اردو ترجمے کے ابتدائی زمانے میں مذہبی صحائف کے ترجمے کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔

مہابھارت کو بچوں کے لیے بھی پیش کیا گیا، اس سلسلے میں شیو ناتھ رائے کی کتاب’بچوں کے لیے مہابھارت‘ کافی اہم ہے۔ اس طرح کے کام کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے جو کتابیں تیار کی جاتی ہیں، اس کا مقصد صرف کتاب تیار کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کرکتاب کچھ اس طرح سے مرتب کی جاتی ہے کہ مکمل طور پر کتاب کا مقصد پوراہوسکے۔ اس طرح کی کتابوں سے بچوں کی ذہن سازی میں بہت مدد ملتی ہے۔

مہابھارت ہندو مت کا ایک بے حد معروف ومشہورر زمیہ ہے۔دراصل مہابھارت ہندوستان کی بہت قدیم اور طویل منظوم داستان ہے، جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں بڑا اعتبار حاصل ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ بے حدمتنوع ہے، کیونکہ اس میں جنگ، راج دربار، محبت اور مذہب سب کچھ شامل ہے یا یہ کہیں کہ مہابھارت چار بنیادی مقصد حیات دھرم، کام، ارتھ اور موُ کش کا مرکب ہے۔ مہابھارت سنسکرت کے مشہور عالم وید ویاس کی تصنیف ہے، البتہ اس سلسلے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ اصل مہابھارت میں بعد کے علما نے اضافہ کیا ہے، جس سے اس کے شلوکوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، یہ ایک تحقیق طلب امر ہے۔ اس کے اصل مصنف کے بارے میںسب متفق ہیں۔ مہابھارت کی کہانی کوروؤں اور پانڈوؤں کے خاندان اور ان کے مابین ہونے والی جنگ ہے۔ اس میں حق کی باطل پر جس طرح سے جیت دکھائی گئی ہے،وہی کتاب کے مصنف کا اصل مقصد اور اس کا مرکزی موضوع بھی ہے۔ مہابھارت میں شری کرشن جی کی جو اہمیت ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چونکہ شری کرشن جی ان دونوں کے قریبی رشتے دار ہیں، اس لیے انھوں نے خود کو غیر جانب دار رہنے اور ہتھیار نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ البتہ شری کرشن جی نے ارجن کو جو درس دیا ہے، وہ غیر معمولی اور آفاقی ہے۔ انھوں نے ارجن کو روح کی عظمت اور حق کی حفاظت کے لیے جان تک کی بازی لگادینے کا درس دیا۔ مہابھارت میں ہندو مذہب کے نصائح کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی اعلی خیالات موجود ہیں۔ اردو میں مہابھارت کے کئی تراجم منظر عام پر آئے، جس کا ذکر اوپر کیا گیاہے، اسی سلسلے کا ایک ترجمہ جلال افسر سنبھلی کابھی ہے، جو1989 میں منظر عام پر آیا۔اس ترجمے کے متعلق جلال افسر نے لکھا ہے

’’اس نظم میں نہایت اعلی خیالات اور ہندو نصا ئح کا ذخیرہ موجود ہے اس لیے اس کے ترجمے متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں مگر پھر بھی عوام الناس اس لافانی نظم سے فیض یاب نہیں پائے..... راقم الحروف نے مہابھارت کو سلیس اردو زبان میںمختصر اً پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(مہابھات،مترجم جلال افسرسنبھلی1989، ص، 5-6)

جلال افسر کا اصل نام جلال الدین ہے۔ ان کی پیدائش یکم دسمبر1949 میں ہوئی۔ انھوں نے بیسک ایجوکیشن بورڈ کے جونیئر ہائی اسکول میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے تین مجلوں کی ادارت کی، دوکتاب ترتیب دی اور چھ ایسی کتابیں ہیں جو ان کی باقاعدہ تصنیف اور ترجمے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے۔ مہابھارت کا ترجمہ کرتے وقت انھوں نے کمال کی فنی ہنر مندی کا ثبوت دیاہے۔ جلال افسر نے جس طرح سے اس کا ترجمہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں تخلیق ہے، منظوم تراجم میں تخلیقی ہنر مندی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مہابھارت میں کرشن جی کی نورانی شخصیت ارجن کو جودرس حیات دیتی ہے، وہ آج بھی حیات انسانی کی منزل مقصود ہے۔ کرشن جی نے ارجن کو کس طرح سے درس دیا ہے، اس حصے کو جلال افسر نے کچھ اس انداز میں نظم کیا ہے       ؎

فکر باطل کی نہ کر، بزدل نہ ہو، ناداں نہ بن

موت سے ڈرتے نہیں ہیں رہروِ حق جان من

حق امر ہے اس کا کوئی مارنے والا نہیں

اور باطل اپنی کوئی اہمیت رکھتا نہیں

اس لیے حق کی حفاظت فرض ہے ہر شخص پر

زندگی اور موت کا اس پر نہیں ہوتا اثر

کون ہے وہ جس کو ارجن ایک دن مرنا نہیں

کون ہے جس کو عدم کی راہ طے کرنا نہیں

جسمِ خاکی کی حقیقت کچھ نہیں ہے جان لے

روح صادق ہے حقیقت میں اسے پہچان لے

یہ واقعہ ہے جب ارجن میدان جنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا  اور خون کا پیاسا دیکھتے ہیں، تو وہ جنگ کے مقصد کو لے کر پیش و پیش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جنگ وجدل سے کیا فائدہ؟ مہابھارت کے پورے اخلاقی ڈرامے میں نفسیاتی طور پر یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ اس حصے کا جلال افسر نے جس انداز میں ترجمہ کیا ہے، اس کو اوپر ملاحظہ کیا گیاہے۔ روح کی عظمت اور غیر فانی حیثیت کے بارے جو کچھ کہا گیا ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں            ؎

عنصری قالب کی ناداں فکر کرتا ہے عبث

جنگ سے باطل پرستوں کی توڈرتا ہے عبث

جس طرح انساں بدلتا رہتا ہے اپنا لباس

روح بھی بالکل یونہی اپنا بدلتی ہے لباس

روح آتش سے کسی حالت میں جل سکتی نہیں

آب کیا سیلاب سے بھی یہ تو گل سکتی نہیں

اس پہ بادِ تند کا کوئی نہیں ہوتا اثر

کاٹنے میں روح کو عاجز ہے تیغِ تیز تر

مارنا اس کو الگ ہے دیکھنا بھی ہے محال

ہے وجود اس کا مرے نزدیک ارجن لا زوال

جلال افسرنے جس طرح سے مہابھارت کو اردومیں نظم کیاہے، وہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ انھوں نے اس ترجمے کے ذریعے اردو زبان وادب میںایک گرانقدر اضافہ کیا ہے، لیکن کیا کہا جائے کہ جلال افسر کے اس ترجمے کی جتنی پذیرائی ہونی تھی، وہ ہو نہ سکی۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، لیکن زبان وادب میں شاعری کی جو اہمیت ہے، وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ جلال افسر نے بہت ہی عام فہم الفاظ کا سہارا لیاہے، جس سے یقینا خواص کے ساتھ ساتھ عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ ابتدا میں انھوں نے کہاں کی اور کس کی کہانی ہے کے ساتھ کیسے چھوٹے بیٹے کو باپ کی جگہ ملتی ہے، اس حصے کو کچھ یوں نظم کیاہے         ؎

ہستِنا پور کی کہانی وہاں دو بھائی تھے

ایک نابینا تھے دیگر صاحب بینائی تھے

دونوں بھائی پرتوِ نورِ نگاہِ شاہ تھے

اور جنتا کی نظر میں دونوں ہی ذی جاہ تھے

شاہ جب رخصت ہوا دنیا سے تو اٹھا سوال

کون کر سکتا ہے ملک وقوم کی اب دیکھ بھال

عالموں کے سامنے جب مسئلہ رکھا گیا

کافی غور وخوض کرنے پر ہوا یہ فیصلا

اندھا ہونے کے سبب پہلے کو مستثنیٰ رکھو

اور چھوٹے بھائی کو سب لوگ راجہ مان لو

اس طرح پانڈو کو آخر تاجِ والد مل گیا

مژدہ یہ سن کر سبھی کا غنچۂ دل کھل گیا

دِھرِت راشٹربڑے تھے، بنیادی طور پر تاجِ والد ان کا حق تھا، لیکن اندھے پن کی وجہ سے انھیں محروم کر دیا گیااور چھوٹے بھائی پانڈو کو راجہ بنا دیا گیا۔

مہابھارت کے مطالعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے، یقینا اس پر عمل کر کے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہمارا موجودہ سماج بہت سی برائیوں سے دو چار ہے۔ کاش کہ مہابھارت کے درس کو عام کیا جاتا تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لالچ ایک بری عادت ہے، کیونکہ یہ کسی کو بھی تباہ وبرباد کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے نہ صرف وہ خود نقصان اٹھاتا ہے، بلکہ حمایتی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ مہابھارت میں اگر دریودھن لالچ نہ کرتااور یدھشٹر اور اس کے بھائیوں کو اس کا حصہ دے دیتا تو لڑائی ہی ممکن نہ ہوتی اور اپنی جان دے کر لالچ کی قیمت نہیں چکانی ہوتی۔ اس نے روپیوں کا لالچ کیا اور اپنی جان کے ساتھ ساتھ بہت کچھ نقصان کر گیا۔

مہابھارت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ آپسی اتحاد کبھی ختم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ بھائیوں کا اتحاد اور بڑے کو اہمیت دینا بسا اوقات کامیابی کی ضمانت ہے۔ مہابھارت میں پانڈوؤں کو کس طرح سے پیارو محبت سے رہتے ہوئے دکھایا گیاہے، ارجن، بھیم، نَکل اور سہدیو نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی یدھشٹرکی بات مانی اور بڑا بھائی بھی چھوٹوں پر شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرتارہا۔ اس اتحاد کا جو نتیجہ ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ مہابھارت کے مطالعے سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے، چاہے کتنی ہی مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ دریودھن کے پاس کس چیز کی کمی تھی۔ فوج، ہاتھی، گھوڑے اور جرنیل کتنی تعداد میں تھے، لیکن اسے شکست سے دو چار ہونا  پڑا۔  اسی طرح سے کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے، بعض حالات میں مذاق ایک بڑی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سبق اور ملتا ہے کہ عورتوں کی عزت کرنا چاہیے، کبھی کسی عورت پر بری نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے۔ گویا کہ مہابھارت میںعقل وخرد رکھنے والوں کے لیے بہت سے درس ہیں۔

مہابھارت میں دریودھن کے مرنے کے ساتھ ہی جنگ کا خاتمہ ہوا۔جنگ کے خاتمے کے بعد بھیشم نے یدھشٹر سے جو پندو نصائح کیے ہیں، وہ یقینا ایک کامیاب اور باوقار زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس حصے کو جلال افسر نے آسان لفظوں میں کچھ اس انداز سے شعری قالب میں ڈھالا ہے        ؎

 اس کے مرنے پر ہوا جنگ وجدل کا اختتام

اور مضطر پانڈووں کو مل گئی فتح دوام

بھیشم دادا ان دنوں بھی تیروں کے بستر پہ تھے

اس لیے ان سے یدھشٹر پہلی فرصت میںملے

بھیشم نے اس دم یدھشٹر کو بتائے کچھ اصول

اور پھر بخشے ہدایت کے انھیں انمول پھول

جن کی خوشبو سے معطر ہوگیا ان کا دماغ

اور تا وقتِ اجل جن سے رہے وہ باغ باغ

بھیشم کے پند ونصائح کا تھا یہ لب لباب

راہِ حق کے راہرو ہوتے ہیں ہر سو کامیاب

بھیشم نے یہ بھی یدھشٹر کو بتایا تھا تبھی

دھرم کے رستے پہ چل کر ملتی ہے آسودگی

اس لیے کرنا حکومت دھرم اور انصاف سے

اور ہر اک کام کرنا دامن حق تھام کے

یاد رکھنا یہ ہمیشہ دھرم ہوتا ہے جہاں

کامیابی اور ظفر کا راج ہوتا ہے وہاں

سیکھ کر باتیں بہت سی بھیشم سے وہ باوفا

ہستِنا پور کی حکومت اس طرح کرنے لگا

بھیشم جی نے جس طرح سے یدھشٹر کو ایمانداری سے کام کرنے کا درس دیا ہے، اس میں بیک وقت بہت کچھ چھپا ہے۔ ایک کامیاب حکومت کے لیے بھیشم جی کے درس بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو، بصورت دیگر انجام سے بے پرواہ لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔

مہابھارت میں زندگی کے فلسفے کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ جلال افسر کا کارنامہ یہ کہ انھوں نے فلسفیانہ بلاغت کے ساتھ پیش کی گئی اس مثنوی کی روح کو اشعار کی شکل میں کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ مہابھارت میں پوشیدہ رموز ونکات سے عوام مستفید ہوسکیں۔ یقینا جلال افسر اپنے اس مقصد میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ انھوں نے قصے کو بہت خوبی سے نظم کیا ہے، جس کو پڑھنے سے تسلسل میں کوئی فقدان نظر نہیں آتا۔ البتہ مہابھارت کے جتنے بھی منظوم تراجم منظر عام پر آئے ہیں، ان سب کا موازنہ ہونا چاہیے، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مترجم کس حد تک کامیاب ہو سکے ہے۔

مذہبی کتابوں کے حوالے سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ان صحائف میں انسانیت اور بھائی چارے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حقوق العباد سے صرف نظر کرنے کے لیے کسی بھی مذہب نے تائید نہیں کی ہے۔

n

Dr. Shahnewaz Faiyaz

Guest Faculty, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob.: 9891438766

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں