1/3/23

اردو شاعری میں گیتا: بلویندر سنگھ

اردو چونکہ ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اس کی نشوونما یہاں کی مٹی میں ہوئی۔ لہٰذا یہاں کے تہذیب و تمدن کے اثرات کا اردو پر پڑنا فطری اَمر ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اور قدیم ترین مذہب سناتن مذہب ہے، جس کی مقدس کتابیں سنسکرت میں موجود ہیں۔اردو زبان کی شعری و نثری تخلیقات میں ہندو مذہب اور فلسفے کی کارفرمائی ابتدائی زمانے سے ہی نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان وادب کے قلمکاروں نے ہندوستانی مذاہب کے رموز و نکات سے دلچسپی لی بلکہ اس کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔بالخصوص ہندو مذہب کی کتابوں کے تراجم اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اردو ادیبوں اور شاعروں نے ہندو مذہبی اور تہذیبی روایات کو اپنی تخلیقی اور تنقیدی تحریروں کا حوالہ بنایا۔

آج  وید، پران،شری مد بھگوت گیتا، رامائن، مہابھارت، رام چرت مانس جیسی سنسکرت زبان کی کتابیں اردو میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔آزادی سے قبل ہندو، مسلمان دونوں فرقوںنے مل کر اردو علم و ادب کی آبیاری کی تھی۔ اردو کے شعرا و ادبا نے سنسکرت اور ہندوستان کی دوسری مقامی زبانوں کے ترجمے بڑی فراخ دلی سے کیے ہیں۔اِس سلسلے میں بالخصوص شری مد بھگوت گیتا، رامائن اور مہابھارت کے جتنے بھی ترجمے اردو زبان میں کیے گئے ہیں شاید ہی ہندوستان کی کسی دوسری علاقائی یا مقامی زبان میں کیے گئے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہندوئوں نے اردو زبان کی ترقی وترویج سے بے اعتنائی سے کام لینا شروع کر دیا ہے اور آج یہ حالت ہے کہ گنگاجمنی تہذیب کی یہ زبان صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔

آزادی سے پہلے ہندوئوں کے بہت سے مذہبی گرنتھوں کے اردو میں منثور یا منظوم ترجمے شائع ہوا کرتے تھے۔آریہ سماج چوں کہ ہندو سماج کا ایک تبلیغی حصہ تھا اور ہے، اِس لیے آریہ سماج کے لٹریچر کی نثر و اشاعت کے لیے آریہ سماج کی طرف سے باقاعدہ کتابیں، کتابچے اور اخبارات شائع کیے جاتے تھے۔ کانپور کا مشہور علمی و ادبی ماہنامہ ’زمانہ ‘ منشی دیا نرائن نگم کی ملکیت تھا،  جس میں شری مد بھگوت گیتا،رامائن،  مہابھارت، رام چرت مانس سے متعلق مضامین تواترکے ساتھ شائع ہوتے رہے۔

شری مد بھگوت گیتا،وہ صحیفۂ آسمانی ہے جو دھرم چھیتر کرو چھیتر میں پرم برمبھ ماتما روحِ مطلق کی طرف سے نازل ہوا ہے۔کرہ ارض پر آباد ان تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو پریشان حال ہیں اور فرائض کی ادائیگی سے فراری اختیار کرنے کی حد تک مایوس ہیں،وسیلہ بنا ہے۔بھگوان شری کرشن اور مہارتھی ارجن کے درمیان کلام مستدام،بمقام میدان ِ جنگ،مابین افواج مستعد بر سرِ پیکر،بھگوان شری کرشن کے احکام وار شاد ِ اقدس کو مہارشی ’وید ویاس‘ نے دیووانی سنسکرت کے ساتھ 700 اشلوکوں میں قلم بند کیا جس کا اسم مبارک ’شری مد بھگوت گیتا ‘ہے۔شری مد بھگوت گیتا کے رموز ِ یزدانی کو سمجھنے کے لیے کپِل منی کے سانکھیہ درشن (فلسفہ )کے بنیادی اصلوں کی جانکاری درکار ہے۔لیکن ماوشما کے لیے تو ایسی رمز شناسی جوئے شیر لانے کے مصداق ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی میں آدی شنکر آچاریہ نے بڑے عالمانہ انداز میں شانکر بھاشیہ، (سنسکرت میں ’بھگوت گیتا‘ کی تفسیر )لکھی۔شانکر آچاریہ ایک اعلیٰ سنیاسی بزرگ تھے جن کی تشریحات کو سمجھنا معمولی آدمی کے بس کے باہر کی بات تھی۔پوری گیِتاکی دانشورانہ تشریح ’سانکھیہ یوگ ‘سے کم نہ تھی۔

جہاں تک اردو ترجمہ کا تعلق ہے اِس کی ایک متمول روایت موجود ہے۔ بیسوی صدی میں بال گنگا دھر تلک کے ’گیتا رہسیہ‘  نے تو بھگوت گیتا کی تشریح کے ذریعے ’کرم یوگ ‘ کا وہ شنکھ ناد کیا کہ ہندوستانی عوام کا ارجن جنگ ِ آزادی کے کرو چھیتر میں گانڈیوبکف ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر تو شری مد بھگوت گیتا کی تشریحات وتراجم کی وہ باڑھ آئی کہ گویا ساری عالمی زبانیں سیراب ہو گئیں۔

یہاںاکیسویں صدی میں شری مد بھگوت گیتا کے ایک ایسے منظوم ترجمے کا تذکرہ ضروری ہے جو بے حد مقبول ہوا۔یہ انور جلالپوری کی ’تفسیر ِاردو شاعری میں گیتا‘  ہے۔

’’شری مد بھگوت گیتا کا پہلا ترجمہ فارسی میں اکبر کے درباری شاعر علامہ فیضی نے کیا تھا جو منظوم اور آزاد ترجمہ ہے۔ یعنی اِس میں ہر شعر کا ترجمہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے پورے باب کے مفہوم کو فارسی میں نظم کر دیا گیا ہے۔ ‘‘1

مندرجہ بالا اقتباس مشہور محقق اور نقاد شارب ردولوی کے مضمون ’نسیم عرفان ‘ سے لیا گیا ہے جو دہلی کے اردو رسالہ ’آج کل ‘ کے اکتوبر 1968 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ آگے چل کر شارب ردولوی نے اِس ترجمے کے علاوہ دو اردو ترجموں کا تذکرہ کیا ہے جو لچھمن پرشاد صدر لکھنوی کی ’ بھگوت گیِتائے منظوم، اور عالم مظفر نگری کی ’بھگوت گیتا‘ کے نام سے ان کی فہرست میں درج ہیں۔ 

کہاں دربارِ اکبری، کہاں علامہ فیضی اور کہاں زبان فارسی۔ یہ حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں انور جلالپوری نے بھی شری مدبھگوت گیِتا کے مفہوم کو آزادانہ طور پر،کئی کئی شلوکوں کے مفہوم کو ایک ساتھ متعدد اشعار میں نظم کر کے مکمل بھگوت گیِتا کے مفہوم کا اردو میں منظوم ترجمہ پیش کر دیا ہے۔ علامہ فیضی  کی فارسی  ’ آہنگِ سرمدی ‘ اوراس کے دونوں اردو ترجمے بھلے ہی آج کامیاب یا نایاب ہو چکے ہوں، مگرانورجلالپوری کے ترجمے کے نغمٔہ علم وعمل کی باز گشت ارد وداں طبقے کے گوش فہم و ہوش میں برابر گونجتی رہے گی۔

      انورجلالپوری لکھتے ہیں

’’نہ جانے کیوں بچپن سے ہی شری مدبھگوت گیتا کی  باتوں سے اور اس کے واقعات سے مجھے بڑا ذہنی اور دلی لگاؤ تھا۔گیِتا کا فکر اور فلسفہ میرے اعصاب پر چھایا رہا... پانچ برس پہلے مجھے پھر ایک دھن سوار ہوئی اور میں شری مد بھگوت گیتا کے مطالعے میں لگ گیا... میں نے ہندی اور انگریزی کے ذریعے بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی...‘‘  2

مذکورہ بالااقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف مذہب،کلچر و زبان کے ہوتے ہوئے بھی انور جلالپوری کوشری مدبھگوت گیِتا کے فکر و فلسفے سے بچپن سے ہی بڑی گہری  دلچسپی تھی۔

یہاں اِس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں خود گیتا پڑھنے، سمجھنے اور اس کے راہ ِ عمل پر چلنے کے مراحل سے گذر رہا ہوں اِس لیے اِس کی دشواریوں سے بخوبی واقف ہوں۔ میں بچپن سے ہی شری مدبھگوت گیتا کا مطالعہ کرتا آرہا ہوں۔گیتا میں فلسفۂ عمل،فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ کائنات کو انتہائی غنائی جاذبیت،فکری بلندی اور جمالیاتی رعنائی،برنائی اور جس توانائی سے پیش کیا گیا ہے،میں اِس صحیفہ متبرک سے ہمیشہ متاثر ہوتا آیا ہوں۔

بہر کیف،انور جلالپوری نے جس لگن،جس مشقت اور جس عقیدت کے ساتھ جتنی جان دہی سے ’پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی شاعرانہ نہر ‘ نکالی ہے اور سارے اردو داں طبقے کو شری مد بھگوت گیتا کے فلسفۂ حیات سے روشناس کرایا ہے،وہ بے مثال ہے،انوکھا ہے۔انوکھا اِس لیے ہے کہ شری مدبھگوت گیتا کے منثور اور منظوم تراجم، تشریحات و تصریحات اور ترجمہ در ترجمے کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی ہے۔

 ڈاکٹر اجے مالوی جی نے بھگوت گیتا کے جن ترجموں پر تحقیق کیا ان کی ایک لمبی فہرست بہ عنوان ’اردو میں شری مد بھگوت گیتا کے تراجم پر ایک نظر‘ درج کی ہے۔ انھوںنے 82 تراجم کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں سے 61 تراجم خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ میں موجود ہیں۔ اِن کے علاوہ رضالابئریری،رام پور میں پانچ، پٹنہ اور الہ آباد میں دو دو ترجمے موجود ہیں۔الہ آباد یونیورسٹی،الہ آباد میں سات، بھارتی بھون لائبریری، الہ آباد میں چار، ہندوستانی لابئریری الہ آباد اور ہندوستانی اکاڈمی،الہ آباد میں ایک ایک نسخہ موجود ہے۔ انجمن ترقی اردو (ہند)کے بک ڈپو میں تین اور سینٹرل لابئریری،الہ آباد میں دو نسخے موجود ہیں۔ کتاب میں جو فہرست پیش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر حیدر علی نے اپنے مضمون ’اردو میں ہندو مذہبی صحیفوں کی کتابیات‘ میں شری مد بھگوت گیتا کے 137 تراجم کی فہرست دی ہے، اِس فہرست میں ایک ہی ترجمے کے تین سے پانچ ایڈیشن شامل ہیں۔  3

’بابائے اردو اور برادران ِ یوسف ‘ نام کی اپنی کتاب میں مشہور محقق،تنقید نگار اور تخلیق کار مانک ٹالہ نے ’بھگوت گیتا کے اردو تراجم ‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔جس میں انھوں نے منثور اور منظوم تراجم کے کل 81نسخوں کا حوالہ دیا ہے۔ 4

راقم الحروف کو بھی خدا بخش لائبریری میں تحقیقی حوالے سے جانے کا موقع ملا اور میری نظر سے 63 ترجمے گزرے ہیں۔ ترسٹھواں ترجمہ بہ عنوان ’بھگوت گیتا قرآن کی روشنی میں‘ ہے جس کے مصنف ڈاکٹر ساجد احمد صدیقی ہیں اوریہ ترجمہ حال ہی میںمنظر ِ عام پر آیا ہے۔ شری مد بھگوت گیتا کے چند منظوم اور منثور اردو تراجم جن پر میراتحقیقی کام ہو چکا ہے

1       شری مد بھگوت گیِتا موسوم بہ گنجینۂ معرفت،از رائے بہادر شنکردیال، درنظامی پریس وکٹوریہ اسریٹ لکھنؤ 1931

2       کلام ِ ربانی،از پنڈت یوگی راج نظرسوہانوی،چندر گپت پریس دہلی 1934

3       آہنگ سر مدی (گیتا ئے منظوم)،از۔ الم مظفرنگری، مکتبۂ برہان اردو بازار جامع مسجد دہلی 1954

4       بھگوت گیتا منظوم موسومہ نسیم عرفان ازمنشی بشیشور پرساد منور لکھنوی،کورنیش پرنٹنگ ورکس دہلی 1935

5       بھگوت گیتا منظومۂ تمنا،از منشی رام سہائے تمنا لکھنوی،منشی نولکشور پریس لکھنؤ 1913

6       شری مد بھگوت گیتابا تصاویر موسوم فلسفہ الوہیت، از رائے بہادر پنڈت جانکی ناتھ مدن دہلوی، رام نراین پریس متھرا 1930

7       مہا گیتا،از مہرشی سوامی دیال آتم درشی،دیال پرنٹنگ پریس ہوشیار پور پنجاب 1867

8       بھگوت گیتا (اردو منظوم)،از شان الحق حقی،انجمن ترقی اردو (ہند )نئی دہلی 2011

9       اردو شاعری میں گیتا (نغمۂ علم وعمل)،ازانور جلالپوری،نعمانی پرنٹنگ پریس گولہ گنج لکھنؤ 2013

10     دل کی گیتا، از خواجہ دل محمد، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،نئی دہلی 2004

11     شری مد بھگوت گیتا، از منشی پنّا لال بھارگو (مرتب ) ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ 2021

12     شری مد بھگوت گیِتا(اردو منظوم ترجمہ و تفسیر)،از۔ سروانند کول پریمی،سِگماانٹر پرائز،نئی دہلی2009

13     فضیلت خیال(شری مد بھگوت گیتا کا اردو منظوم ترجمہ)،ازلکشمی چند نسیم نو ر محلی1961

14     مخزن اسرار ا،ازپنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی 1930

15     بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ صلو چودھری،ملینیم آڈیسی، کلکتہ 2013

16     شری مدبھگوت گیتا، ازپنڈت رام لال پرشاد، نولکشور پریس لکھنؤ 1906

17     صدرکی گیتا موسومہ بھگوت گیتا ئے منظوم،ازمنشی لچھمن پرشاد صدر لکھنوی،محبوب المطابع اردو بازار دہلی 1910

18     نغمۂ عرفان،از ٹی این سریواستو، زرنگار باگڑبلی، مدن پورہ، وارانسی 2006

19     شری مد بھگوت گیِتا مع گیِتا بودھ،از مہاتما گاندھی، پروپرائٹرز جامعہ لمٹیڈپٹوڈی ہاوس،دریا گنج،نئی دہلی 1991

20     شری مد بھگوت گیتا،ازحسن الدین احمد،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی 1997

21     من کی گیتا،ازمن موہن لال چھابڑا، وجیتا آف سٹ پرنٹرز،نئی دہلی 1988

22     گیتا امرت عرف بھگوان کا گیت، ازست پال بھاردواج دیوراج صوری،چوپڑاہ پرنٹنگ پریس باغ کرم بخش جالندھر 1982

23     بھگوت گیتا، ازپنڈت لکشمی نارائن مصرا،ہری کرشن مہتاب وزیر اعظم اڑیسہ۔

24     نغمۂ جاوید،از نواب مرزا جعفرعلی خاں اثر لکھنوی، پریم پرنٹنگ پریس جمو ں۔

25     گیتا اور قرآن،ازپنڈت سندر لال، خدا بخش اورنیٹل پبلک لائبریری،پٹنہ 1999

26     کرشن گیتا،از سیماب اکبر آبادی،انڈین پریس لمیٹڈ الہ آباد1940

27     بھگوت گیتا مع ترجمہ اردو،از سندر لال،منشی نول کشور پریس لکھنؤ 1912

28     بھگوت گیتا اردو،ازبابو بھگوان داس بھَارگو پنشز، منشی نو ل کشور لکھنؤ 1945

29     کرشن گیتا،از لالہ بالکشن بترہ ابر،ہفتہ وار اخبار اقبال ملتان 1939

30     گیِتا امرت،از چودھری روشن لال،میسر زجے،ایس سنت سنگھ اینڈ سنزچوک متی لاہور 1942

31     بھگودگیتا( اصلی صورت میں )،از ترجمہ یشیہ پال باٹیہ،رئیس اردو اکادمی،لاہور 1990

32     شریمد بھگوت گیتا اصلی صورت میں، ازسوامی شریلہ پربھوپاد، بھگتی ویدانت بک ٹرسٹ،ممبئی 2013

33     شری مد بھگوت گیتا (نغمہ یزدانی)،ازڈاکٹر اجے مالوی،ناگری پریس،اللہ پور،الہ آباد 2006

بھگوت گیتا کے مفہوم کو ذہن نشین کر کے،اسے دل کی آواز بنا کر اشعار کے سر گم میں پیش کرنا انورجلالپوری کا ہی کرشمہ ہے۔ واقعات کا پورا پس منظر اور پھر باتوں باتوں میں ہی شلوک کا ترجمہ (بھائو انواد ہی سہی )پیش کر دینا کوئی آسان کام نہیں۔نمونے کے طور پر پہلے باب کے اشلوک نمبر ایک کو ہی لیتے ہیں۔سات اشعار میں پس منظر بیان کرتے ہوئے آٹھویں اور نویں اشعار کے ذریعے شلوک کا ترجمہ بھی پیش کر دیا ہے       ؎

کہانی    تو   سنجے   سنا تا   رہا

ہے  میدان  میں  کیا  بتاتا  رہا

وہ میداں جو تھا جنگ ہی کے لیے

وہیں سے جلے دھرم کے بھی دیے6

خیر،گیتا کے شلوکوں کا ترجمہ یہاں پر شاعر کا مقصد نہیں ہے بلکہ منظوم مفہوم کے ذریعے گیِتا کو فہمیدنی بنانے کا مقصد ہے۔ غور فرمائیے        ؎

 دھرت راشٹ آنکھوں سے محروم تھے

  مگر   یہ   نہ  سمجھو کہ  معصوم  تھے6

شعر کا مصرع ثانی کیسا لاثانی ہے۔ایک لفظ ’معصوم ‘کے ذریعے شاعر نے کتنی معصومیت سے آج کے خود غرض اور موہ میں اندھے انسان کی تصویر کھینچ دی ہے۔دھرت راشٹر کا پورا کردار ہی اِس کی علامت ہے۔جس نے بھارت ہی نہیں دنیا میں مہابھارت چھیڑ رکھی ہے۔یہ ہے شاعرانہ انداز۔ یہاں پر عرض کرتا چلو ں کہ اگر’دھرت راشٹ ‘ کے بجائے صحیح نام ’دھرت راشٹر ‘ لکھیں اور پڑھیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔

’ٹ‘ اور ’ٹر‘ کی آواز (تلفظ )سے شعر کے ’وزن ‘میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نام بھی صحیح ہو جائے گا۔

’سانکھیہ یوگ‘یعنی علم کا فلسفہ نام کے دوسرے باب میں ارجن شری کرشن بھگوان سے مخاطب ہوکر ’’استھت پرگیہ ‘‘ یعنی مستحکم روحانیت میں قائم شخص کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔’’اے کیشو،جس شخص کا شعور روحانیت میں قائم ہو تو ا س کی کیا علامات ہیں ؟ وہ کیسے بولتا ہے اور اِس کی زبان کیا ہے ؟ وہ کیسے بیٹھتاہے اور کس طرح چلتا پھرتا ہے۔‘‘ انور جلالپوری نے بڑ ے موثر انداز میں ارجن اور شری کرشن بھگوان کے مابین مکالمے کو شعری قالب میں ڈھالا ہے۔اشلوک نمبر45 ملاحظہ کیجیے     ؎

یہ سن سن کر ارجن بھی بے چین تھا

سوال اِس نے کیشو سے ہی کر  دیا

بتائیں  مجھے  کون  ہے مطمئن

مرے   واسطے  ہے  سمجھنا کٹھن

کسے گیان  اور دھیان  والا کہوں

حقیقت سمجھ کر  میں کس کی  سنوں

مکمل  انھیں  دیکھنا ہے   مجھے

وہ کیا  ہیں  انھیں جانناہے مجھے7

55اشلوک سے شری کرشن بھگوان جی کا جواب شروع ہو جاتا ہے اور کئی باتوں کے بعد 58 اشلوک میں کہتے ہیں

 جیسے کچھوا اپنے اعضا کو خول میں سمیٹ لیتا ہے، اِسی طرح جو شخص اپنے حواس کو محسوسات اور تمام اعضا کو ان کی لذّتوں کے ساتھ سب طرح سے سمیٹ لیتاہے تب وہ انسان کامل آگاہی میں قائم ہے۔

شاعرانور جلالپوری نے اپنی سادہ زبان میں اِن فلسفیانہ باتوں کو کتنی آسانی سے سمجھایا ہے اِس کی مثال درج ذیل اشعار میں پیش ہے۔شلوک نمبر 58-62 کے پہلے تین اشعار ملاحظہ کیجیے       ؎

جو محسوس ہووے کہیں کچھ خطر

تو فوراً سمٹ جائے کچھوے کا سر

یونہی جو بھی انسان ہے خودشناس

وہ رکھتا ہے قابو میں اپنے حواس

جو ہے نیک لالچ سے ہے خودشناس

ہر اک طرح کی خواہشوں سے ہے دور8

قارئین کی دلچسپی کے لیے ریئس پٹھاری کا ترجمہ ’نغمۂ عرفان ‘ سے 54اور 58 اشلوکوںکو  درج کیے جا رہا ہے۔ اشلوک حسب ذیل ہیں      ؎

ا  شلوک 54

 کہو کیشو !  کیا  علامت  حالت  لاہوت  کی    

کس طرح بے حِس وحرکت،مثل  بت بیٹھا کوئی

جو   لگائے  ہو  ’سمادھی ‘   بولتا   چلتا  ہے  وہ

 کس  طرح آد م ’سمادھی ‘  میں  رہا کرتا ہے کوئی9

اشلوک نمبر58

کھینچتا جس طرح ہے اعضائے جسمانی کشف                 

 اور  ہو کر مطمئن گم صم  پڑا  رہتا  ہے  وہ

 فرد بھی جب کھنیچ لیتا نفس کو  ہے  عضو  سے  نفس کش  ہو کر سمادھی میں چلا جاتا  ہے  وہ

اگران دونوں تراجم کا موازنہ کیا جائے اور  انور جلالپوری کی بات کی جائے تو انھوں نے شری مد بھگوت گیتا کے مفہوم کو جس طرح سے نظم کے قالب میں ڈھالا ہے،اِس کا جواب نہیں۔

بھگوت گیتا کے چوتھے باب کا تیرہواں شلوک بڑا ہی معنی خیز ہے۔وہ ہندئووں کی ورن ویوستھا(نام نہاد ذاتی نظام )کی تفسیر کرتا ہے۔ اشلوک ملاحظہ کیجیے        ؎

مِری بات  سن لے جو ہے مختصر

گنوں  اور کرموں کی  بنیا د  پر

برہمن کوئی،چھتری ہے کوئی

کوئی  ویش ہے،شودر بھی ہے کوئی

 یہ سچ ہے انھیں میں نے پیدا کیا

کئی   رنگ  اِن   میں  ہوید ا کیا       

 مگر  پھر بھی  مجھ کو نہ کرتا سمجھ

ہر اک کرم  سے  مجھ کو  بالا سمجھ10

بھگوان نے انسان کے ملکاتِ طبعی، سَت،رَج اور تَم کے جو صفات،جس مقدار میں ان میں موجود ہیں،کے مطابق انھیں چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان کے کام بانٹے۔ یہ برہمن،چھتری،ویش اور شودر کا بٹوارہ ـ’گن اور کرم ‘ کی بنیاد پر تھا نہ کہ جنم اور خاندان کی بنیاد پر جیسا کہ بعد میں تصور کیا گیا ہے۔

انور جلالپوری نے مفہوم کا ترجمہ تو بالکل صحیح کیا ہے لیکن اپنی کتاب کے صفحہ128 پر ’گیتا کے مخصوص پہلو ‘پر روشنی ڈالتے ہوئے،ہندو سماج میں پھیلائے گئے غلط خیال کے مطابق لکھ دیا ہے۔

شری مد بھگوت گیتا میں ہندو سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔اِس خیال خام نے ہندو سماج کو بری طرح منتشر کر دیا ہے اور وہ بھی بھگوان کے نام پر۔ذائقہ بدلنے کے لیے یہاں میں دو تراجم کے شلوک نمبر13 پیش کر رہا ہوں          ؎

بنائے ہیں میں نے جو یہ ورن چار

کہ کرموں گنوں کی ہے تقسیم کار

میں خالق  ہوں ان کا مگر بالضرور 

عمل سے بری ہوں، تغیر سے دور11

   چار  صیغے  میں  کیا تقسیم  میں  نے خلق کو   

   دیکھ کر موزونیِ  وصف  و  طبع  ہر  فرد  کا

   ادا  اس کے  ہی  مطابق  کار  کی  تقسیم کی

   کار کردہ  سب مِرے پھر بھی نہ غافل کرد کا12

زیر مطالعہ کتاب میں ’بھگوت گیِتا کی کہانی‘،’گیِتا کا مرکزی خیال‘ اور ’گیتا کے مخصوص پہلو‘وغیرہ کے عنوانات نے کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے،خاص طور سے گیِتا کے مبتدی قارئین کے لیے ’شری مد بھگوت کے کرداروں کا تعارف‘کے عنوان سے غلطیاں در آئی ہیں۔ یہ غلطیاں زیادہ تر (خاص طور سے نا م وغیرہ سے متعلق ) تلفظ، ہجا اور اِملا وغیرہ کی وجہ سے، کمپیوٹر ٹائپنگ میں آجاتی ہیں اور پروف ریڈنگ اور پروف چکنگ میں بھی صحت نہیں ہوتیں۔ارد و رسم الخط میںاِعراب اور تشدید وغیرہ کے استعمال میں کوتاہی برتنے سے بھی دِقّت آتی ہے۔ ایسی صورت میںسنسکرت سے نابلد قاری کے لیے غلط جانکاری فراہم ہو جاتی ہے۔کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔

صفحہ نمبر 41 پر شری کرشن کا نام لکھا ہے ’ہری کیش‘ یہ نام ہری کیش نہیں بلکہ ہرشی کیش ہے۔ہرشیک +ایش = ’ہرشیک‘ کے معنی اعضااور’ایش‘ کے معنی مالک۔ہرشیک کے معنی ہوئے اندریوں کا سوامی جو اعضائے انسانی میں چھپی کسی بھی بات کو جانتا ہے اِسی کو انتریامی،اور صرف بھگوان کی ہی ذات انتریامی ہو سکتی ہے۔  

صفحہ نمبر 42 پر لفظ ’کیشو‘ کا ہجا تو ٹھیک ہے مگر معنی ٹھیک نہیں ہے۔ کیشی نام سے ایک بڑے طاقتور دیتیہ کو کرشن بھگوان جی نے اپنے عنفوان ِ شباب میں ہی مار گرایا تھا۔تب نارد منی نے انھیں’ کیشو‘نام دیا تھا۔شری کرشن جی کے تیج یعنی (جاہ و جلال) کو بھی کیش کہتے ہیں اِس لیے انھیں کیشوکہاجاتا ہے لیکن کیش بہ معنی بال سے اِ س نام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

’اپان ‘ سانس کو اندر کھینچنے والی ہوا نہیں ہوتی۔ سانس لیتے وقت جو ہوا اندر جاتی ہے اسے پران وایو (ہوا) کہتے ہیں۔اپان وایو(ہوا )جسم کے نچلی طرف جاتی ہے،اِس کا مقام ناف سے پائوں تک ہوتا ہے۔

’سوم دتّ‘کے بیٹے کا نام بھومی شروا نہیں بلکہ ’بھوری شروا‘ تھا،اور بھی چھوٹی موٹی غلطیاں ہیں جنھیں کمپیوٹر غلطیاں سمجھ کر در گذر کیا جا سکتا ہے،لیکن جو انجان ہیں انھیں غلط جانکاری ملے گی۔ ویسے ناموں کی فہرست کی ضرورت نہیں تھی۔ اِن کی جگہ اگر انورجلالپوری تلمیحات کی وضاحت کرتے تو موزوں ہوتا جیسے پِنڈدان، پِتروسرجن،ورن سنکر،اترّاین، شرادّھ وغیرہ وغیرہ۔ انور جلالپوری پر کرشنا کریم کا خاص کرم تھا کہ انھیں اپنی باتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفق عطافرمائی تھی۔

بہرکیف شری مد بھگوت گیِتا جیسے عالمی صحیفے کے ترجمے،تبصرے اور تحقیقات تو ہوتے رہیں گے لیکن انور جلالپوری کے ترجمے ’اردو شاعری میں گیتا‘کا اپنا منفرد مقام ہے،مرتبہ ہے اور معیار ہے۔مصنف نے بھگوت گیتا کے نفسِ مطلب کو ذہن میں رکھ کر اور دِل میں اتار کر جس چابکدستی سے،عام فہم، بامحاورہ اور خود ساختہ طور پر استعارات سے مزین،ہماری اور آپ کی ہندوستانی زبان میں تفصیل کے ساتھ منظوم پیکر میں پیش کر دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔میرے خیال میں تو انور جلالپوری نے شری مد بھگوت گیِتا کے مفہوم کو اِیسی عرفانی مثنوی کے پیرہن میں ملبوس کر دیا ہے کہ قاری کا دماغ سمجھتا رہے، دل محسوس کرتا رہے اور اِدراک عرفان کے سمندر میں ڈوبتا اترتا رہے۔ 

واقعی انوکھا ہے انور جلالپوری کا انداز ِ تفہیم اور ادبی کار ِ عظیم،رسمی طور پر نہیں بلکہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’اردو شاعری میں گیتا ‘اردو کے خزینۂ ادب میں ایک بیش قیمتی اضافے کی حیثیت رکھاتا ہے۔

حواشی

1       مضمون ’نسیم عرفان‘شارب ردولوی،رسالہ’ آج کل‘ نئی دہلی، اکتوبر1968

2       اردو شاعری میں گیتا(نغمہ علم و عمل)،از۔انورجلالپوری نغمانی پرنٹنگ پریس گولہ گنج لکھنو، ص26

3       مضمون ’اردو میں ہندو مذہبی صحیفوں کی کتابیات‘ حیدر علی، رسالہ فکر و تحقیق، جولائی۔ستمبر جلد 23،شمارہ 30،2020 ص 87

4       بابائے اردو اور بردرانِ یوسف،از مانک ٹالہ،موڈرن پبلشنگ ہاوس گول مارکیٹ،دریا گنج نئی دہلی،ص59-62

5       اردو شاعری میں گیتا(نغمہ علم و عمل)، ازانورجلالپوری، ص47

6       ایضاً،ص46

7       ایضاً،ص 91

8       ایضاً،ص 93

9       نغمۂ عرفان،از رئیس پٹھاری، زرنگار باگڑ، مدن پورہ ،وارانسی، ص 75-77

10     اردو شاعری میں گیتا (نغمۂ علم و عمل)، از انورجلالپوری، ص128

11     دل کی گیِتا،ازخواجہ دل محمد،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 2011 ص66

12     نغمۂ عرفان،ازرئیس پٹھاری ص117


Balvinder Singh

Research Scholar, Dept of Urdu, BHU

Varanasi- 221005 (UP)

Mob.: 6006038989

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں