29/11/23

مشتاق احمد نوری کے افسانوں کا آہنگ: شبانہ عشرت

 

اردو افسانہ نگار کی تاریخ میں نہ صرف ہند و پاک بلکہ خصوصاً بہار کے حوالے سے کئی افسانہ نگار ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اردو افسانے کو کئی موڑ عطا کیے۔ان افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام مشتاق احمد نوری کابھی ہے۔افسانہ کہنے کا ان کا ایک الگ انداز ہے۔ان کا مخصوص لہجہ، ان کی انفرادیت اور سب سے بڑھ کر ان کا بلند آہنگ دور سے پہچانا جاتا ہے۔مزے کی بات تویہ ہے کہ انھوں نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی سچی کہانیوں کو افسانے کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ مشتاق احمد نوری کے افسانوں کے کردار کوئی ماورائی کردار نہیں ہیں بلکہ اسی دنیا کے باسی ہیں۔

بلاشبہ مشتاق احمد نوری کا شمار ہمارے عہد کے ممتاز مقبول فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افسانوی مجموعوں میں’ ’تلاش‘ ‘،’ ’بند آنکھوں کا سفر‘‘کے علاوہ ایک اہم زیر اشاعت مجموعہ ’’چھت پہ ٹھہری دھوپ‘‘بھی ہے۔

 ’’جن کی سواری‘‘، ’’وردان‘‘، ’’لمبی ریس کا گھوڑا‘‘، ’’خودکشی‘‘، ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘، ’’سچ‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’کیل اندر اندر‘‘، ’’گلاب بابو‘‘، ’’حرف آخر‘‘، ’’کائیں کائیں‘‘، ’’پتھر کی لکیر‘‘، ’’لمبے قد کا بونا‘‘، ’’ترشول پر ٹنگی کہانی‘‘، ’’وہ ایک لمحہ‘‘، ’’شمائلہ‘‘وغیرہ۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ مشتاق احمد نوری نے فکشن کی دنیا میں ایک نئی راہ دکھائی ہے اور ملک اور سماج کے اہم مسائل کو بڑی خوبصورتی اور اثر انگیزی کے ساتھ اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے۔

مشتاق صاحب ایسی سج دھج اور شگفتگی سے کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ داستان کے سحر جیسا احساس ہوتا ہے اور وہ قاری کو اپنی یااپنے جانے پہچانے دیکھے بھالے لوگوں کی روداد معلوم ہوتی ہے۔ان کی بیشتر کہانیاں انسانی شعور و نفسیات کے خمیر سے اٹھی ہیں اور پر اثر انجام تک پہنچی ہیں۔ شکیل ا لرحمن جیسے مشہور ناقد نے اپنی فکشن یاترا میں مشتاق احمد نوری کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

’’مشتاق احمد نوری کئی بہت اچھے افسانے کے خالق ہیں۔یہ افسانے اردو فکشن میں اضافہ ہیں،مثلاً ’’جن کی سواری‘‘، ’’وردان‘‘، ’’لمبی ریس کا گھوڑا‘‘، ’’خودکشی‘‘، ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’کیل اندراندر‘‘، ’’گلاب بابو‘‘، ’’حرف آخر‘‘، ’’کائیں کائیں‘‘، ’’پتھر کی لکیر‘‘ وغیرہ۔ان کے فن کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ افسانہ نگار معمولی واقعات و کردار کے اندر غیر معمولی سچائیوں کو پانے کی کوشش کرتا ہے اور اسی میں کامیابی ہوتی ہے۔’’لمبے قد کا بونا‘‘ اس بات کی عمدہ مثال ہے ،معمولی واقعات اور معمولی عام جانے پہچانے کردار کے اندر افسانہ نگار نے غیر معمولی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو افسانے میں ایک بونے کی سائیکی (Psycha) میں جھانکنے کی یہ غالباً پہلی کوشش ہے۔فکشن کا اچھا فنکار زندگی اور اس کے مسائل کے تجربے حاصل تو کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی کسی نہ کسی معجزے کی تلاش میں بھی رہتاہے۔معجزہ ہوجاتاہے تو وہ خود حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور اپنے کردار کے باطن کا عطا کیا ہوا تحیر قاری کے حوالے اس طرح کر دیتا ہے کہ وہ معجزہ اور فنکار کا تحیر قاری کا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے۔کہانی کا مرکزی کردار راجن ہے جو بونا ہے۔اسی کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔اس کا تعلق پورنیہ شہر کے ایک دولت مند تاجر گھرانے سے ہے۔تعلیم یافتہ ہے،پورنیہ کالج سے انگریزی ادب میں آنرز ہے۔ بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے، اسے والدین کا پیار بھی نصیب ہے، لیکن وہ ہر وقت یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ والدین پیار سے زیادہ اس پر رحم کھارہے ہیں۔ان کے پیار کے اندر رحم کا جذبہ ہے۔یہ احساس اسے کاٹے کھائے جا رہا ہے۔ والدین کے پیار کو تضحیک سمجھتا ہے، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایسی چمک ہے جو دوسروں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ اچھے لباس کا شوقین ہے، کمر سے اوپر عام آدمیوں جیسا ہے صرف اس کے ہاتھ پائوں چھوٹے ہیں۔تین فٹ کا قد ہے اور اپنے قد کی وجہ سے مار کھا جاتا ہے۔کالج میں مذاق کا نشانہ بنتا ہے، لیکن جلد ہی اپنی صلاحیتوں سے ساتھیوں کو مرعوب کردیتا ہے۔اس کے باوجود اسے محسوس ہوتا ہے کہ کالج اور کالج کے باہر ہر شخص اس پر رحم ہی کھاتا رہتا ہے۔کوئی اسے مکمل آدمی نہیں سمجھتا۔اسی احساس کی شدت اس کی سائیکی کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے۔‘‘

(زبان و ادب، جون 2016 ،ص 61)

مشتاق احمد نوری کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات میں اتر کر مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں اور ایک ماہر معالج کی طرح علاج پیش کرتے ہیں۔ اس کام میں انھیں مہارت حاصل ہے۔یہ اقتباس دیکھتے چلیں :

’’ایک طرف تو لوگ ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیتے اور دوسری طرف انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس بونے نے ایک ایسی پھانس ان کے دلوں میں چبھودی ہے جس کو آسانی سے نکالا نہیں جا سکتا۔اپنے شو کی کامیابی کے نشے میں کبھی کبھی راجن کو سب بونے نظر آتے اور خود اپنا قد اسے سب سے اونچا نظر آتا ہے۔‘‘

(لمبے قد کا بونا)

مشتاق احمد کی کہانیوں میں ان کا ایک مخصوس انداز فکر نمایاں ہے۔ ان کے بہت سارے افسانوں میں کہیں کہیں ان کی اپنی شخصیت بھی جھلکنے لگتی ہے۔اس میں ان کے شعور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ لاشعوری طور پہ افسانوں کے آئینے میں سے ان کا اپنا عکس جھانکنے لگتا ہے۔جیسے کہ ’’جاڑے کی گلابی رات‘‘، ’’سچ‘‘، ’’ایک مٹھی تم‘‘، ’’خون کا قرض‘‘وغیرہ۔

مشتاق احمد نوری کا ہر افسانہ متاثر ضرور کرتا ہے، ان کے افسانوں کا مرکزی کردار کوئی بھی ہو سکتا ہے،یہاں تک کہ ایک مچھر کو بھی وہ اپنی کہانی میں پیش کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ معمولی کردار کو بھی غیر معمولی بنا کر پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور بہت خوب جانتے ہیں۔مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں موضوعاتی بوقلمونی بھی ہے، اسلوب اور تکنیک کا تنوع بھی ہے البتہ ان کے یہاں نثر کا آہنگ ہر جگہ ایک جیسا نہیں ہے اور نہ ہی کہانی کہنے کا انداز یکساں ہے۔ ان کے  یہاں بیانیہ تکنیک کے کئی طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔بعض افسانے غائب اور ہمہ داں راوی نے بیان کیے ہیں تو بعض میں راوی واحد متکلم ہے۔کسی میں راوی غائب ہے اور واقعات محض ایک شخص کے تاثرات و تجربات کی شکل میں سامنے آئے ہیں تو کہیں پوری کہانی مکالمات کے توسط سے بیان کی گئی ہے۔

ہر فنکار اپنی ایک الگ شناخت قائم کرتا ہے۔ان کے یہاں بھی اظہار کا ایک فنکارانہ شعور موجود ہے۔ان کی بظاہر صاف اورسادہ بیانیہ میں نظر آنے والی کہانیوں میں بھی شعور و آگہی کی ایک زریں لہر کا احساس تو اتر کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔یہی وہ بنیادی خوبی ہے جو ایک فنکار کے تجربے اور مشاہدے کو تہہ دار بناکر پیش کرتی ہے۔تخلیقی عمل شعور سے لا شعور تک کا ایک ایسا سفر ہے جس میں کہانی کار کو کئی انجان راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔باشعور فنکار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان پر خطر راہوں پر بھی اپنی شخصیت کو مسخ اوراپنے فن کو پامال ہونے سے بچالے جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں میں ان کی اپنی شخصیت کا عکس بھی کبھی کبھی نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔یہاں پر میں اپنی کوئی رائے دینے سے پہلے فکشن کے عظیم ناقد جناب شہاب ظفر اعظمی کی کتاب ’’مطالعات فکشن‘‘ سے چند اقتباس مستعار لے رہی ہوں :

’’مشتاق احمد نوری کی کئی کہانیاں تجربے اور مشاہدے کے امتزاج سے وجود میں آئی ہیں۔ ’شمائلہ‘، ’وردان‘، ’گہن چاند کا‘ وغیرہ ایسی ہی کہانیاں ہیں۔’وردان‘ ایک بدصورت لڑکی کی کہانی ہے جو محبت اور چاہت کی تلاش میں نفسیاتی طور پر ایسی مریض بن جاتی ہے کہ ریپ یا زنابالجبر ہی اس کی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے پروفیسر محمد محسن کے افسانے ’انوکھی مسکراہٹ‘ میں کسی کی موت لڑکی کے لبوں کی زندگی بن جاتی ہے۔’شمائلہ‘ ایک بچی کی معصومیت ، محبت اور جذباتی رشتے کی کہانی ہے، جس نے اپنی معصوم ادائوں ، بے لوث خدمات اور پیار سے گھر کے تمام افراد کے ساتھ ایسا مضبوط رشتہ بنا لیا ہے کہ اس کی موت ہر فرد کو محبت اور معصومیت کی موت محسوس ہوتی ہے۔ ’اعتبار‘ کی کہانی شک و شبہ سے پر موجودہ معاشرے کا قصہ ہے جہاں لوگ مکان بھی کرائے دار کو اس کا مذہب پوچھ کر دے رہے ہیں۔اسی ماحول میں کچھ لوگ ا پنی مذہبی رواداری، انسانیت اور نیک دلی سے امید کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ایسے ہی کردار مسٹر شکلاجن کی زبان بظاہر جتنی تلخ اور نفرت انگیز ہے دل اتنا ہی روشن میٹھا اور شفاف ہے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد اور عصبیت کے نتیجے میں بے گھری اور دربدری کا شکار خاندان کی کہانی ہے،’ترشول پر ٹنگی کہانی‘ کہانی میں گجرات فساد کا شکار ہونے والے ایک خاندان کی دہشت خوف المیے اور سراسمیہ کیفیات کی عکاسی حقیقی انداز میں کی گئی ہے۔یہ بڑی موثرٔ کہانی ہے کیوں کہ اس کی فضا خوف و ہراس ،تہمت، تشدد، عصیبت اور احتجاج ، بغاوت سے پر ہے۔’زاوئیے میں گم کہانی‘ تین مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ایسی کہانیاں جو انسانی بے حسی اور فرد کے منافقانہ رویوں کو بے لاگ انداز میں نمایاں کرتی ہیں۔رکشے والے کی ایمانداری، فنکار کی انا اور غیر ملکی لڑکی کا انسانی درد افسانہ نگار کے لیے متحیر کن ہے،کیوں کہ اسے معلوم ہے موجودہ معاشرے میں یہ چیزیں ناپید ہوچکی ہے۔ زرپرستی، اخلاقیات کے برج الٹا چکی ہے۔اغراض اورذاتی مقاصد رشتوں کی قلب ماہیت کرچکے ہیں۔ ایسے میں افسانہ نگار کو اگر رکشے والے، فنکار اور لڑکی کے رویے پر حیرت ہوتی ہے تو تعجب کیا؟دراصل مشتاق احمد نوری خواب دھند لکوں میں سفر کرتے ہوئے بھی شعور کو ساتھ رکھتے ہیں۔وہ افراد کی نفسیات اور ان کے سلوک کی راہ سے فرد ، خاندان، معاشرے اور قوم کی کج روی پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی زد میں فرد اور جماعت دونوں آجاتی ہیں۔آخر میں ایک احساس کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ مشتاق احمد نوری کی زیادہ تر کہانیوں میں خود ان کا عکس دکھائی دیتا ہے۔سرکاری ملازمت، پورنیہ، کشن گنج،پٹنہ آمد و رفت اور پروفیسر بیوی وغیرہ کے بار بار ذکر سے ہر کردار میں مصنف کا عکس جھلکتا ہے۔اچھا فن پارہ اسے کہا جاتا ہے جس میںParsonol impersonl بھی پرسنل بن جاتا ہے۔یعنی مشتاق احمد نوری دوسروں کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں تو ان میں وہ خود نظر آتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

 )مطالعات فکشن،ص 174۔175)

مشتاق احمد نوری کا افسانہ موجودہ دور میں ایک آئینہ ہے جس میں فرد ہی نہیں سماج کا چہرہ بھی پوری طرح بے نقاب ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ان کی بنائی ہوئی ہر تصویر حقیقت پر مبنی ہے۔آپ کو اگر یہ تصویریں بری لگ رہی ہیں تو اس میں قصور آپ کا ہے۔آپ کو از سر نو اپنے سراپے پہ غور کرنا چاہیے اور اس کی تعمیر و تشکیل نئے سرے سے کرنا چاہیے۔ایک فنکار کا کمال یہی تو ہوتا ہے کہ وہ سماج کی سچی منظر کشی کرتا ہے۔

مشتاق احمد نوری کے کچھ افسانے بار بار مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں اور غور و فکر پہ مجبور کرتے ہیں،ہر بار ایک نیا زاویہ اُبھرکر سامنے آتا ہے۔مثال کے طور پر ’’لمبے قد کا بونا‘‘، ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی، حق تلفی اور استحصال کے بڑھتے ہوئے قیامت خیز واقعات نے ایک دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا ہے۔جس میں ہر شخص خاموش تماشائی ہے، یہاں تک کہ خود مسلم قوم بھی احتجاج کرتے ہوئے گھبراتی ہے۔یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔

مشتاق احمد نوری کا افسانہ ’’کائیں کائیں‘‘ کی بات کریں تو اس کا موضوع کوئی اچھوتا نہیں ہے۔یہاں بھی ان کے فنکارانہ انداز بیاں نے ایک خاص تاثر پیداکر دیا ہے جو قاری کے دل پہ تا دیر قائم رہتا ہے۔یہ بھی ہمارے سماج کا ایک المیہ ہے۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کررہا ہے انسانی معاشرہ پستی کی طرف جا رہا ہے۔اب اپنی سگی اولادیں والدین کو بوجھ سمجھنے لگی ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ہر شہر میں Oldage home تعمیر ہونے لگے ہیں۔سماج کے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش افسانہ ’’کائیں کائیں‘‘ میں کی گئی ہے جو پوری طرح کامیاب ہے۔چونکہ ان کی نظر باریک بینی سے سماج کا مطالعہ کرتی رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ کوئی نہ کوئی غیر معمولی واقعہ ان کے افسانے میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہتا۔

مشتاق احمد نوری یقینا ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ان کی کہانیوں پر ترقی پسندی یا جدیدیت جیسا کوئی لیبل لگادینا آسان نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کسی ازم یا رحجان کے افکار و عقائد کی تاثیر یا اس کی فنی روش اور سفارش سے اپنی افسانہ نگاری کو شعوری طور پر غذا یافتہ نہیں بنایا ہے،بلکہ اپنے وژن ، اپنے مشاہدے، اپنے تجربے اور اپنے احساسات کی رہنمائی میں ہی اس ڈگر پر آگے بڑھتے رہے ہیں اور اپنے اظہار و اسلوب کی دنیا سجاتے رہے ہیں۔وہ فن اور قاری کے مثبت رشتہ پر یقین رکھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ عصری تناظر میں کھوئی ہوئی چیز اگر مل جائے اور اپنی اہمیت و افادیت اور نفسیات رسی کا احساس دلا جائے تو قاری کی پسند کے لحاظ سے یہی کامیابی کی کلید ہے ۔اچھا افسانہ نگاروہی ہوتا ہے جو صرف موضوع کی تلاش تک خود کو محدود نہیں رکھتا بلکہ اپنی کہانی کے ذریعہ قاری کو وہ سب کچھ بھی دکھا جاتا ہے جہاں تک اس کی نظر پہنچنے کا امکان موہوم رہا کرتا ہے۔وہ کرتب نہیں دکھاتا، کرشمات کی کوئی طلسمی دنیا نہیں سمجھاتا اور نہ ہی اس آرزو میں فطرت کے اصولوں سے جا ٹکراتا اور اسے دور کی کوڑی لانا سمجھ لیتا ہے بلکہ وہ فطرت، انسانی زندگی کے تجربے اور عام فکری قماش کے دائرے ساتھ لے کر چلتا ہے۔یہاں تک کہ جب اس کی کہانیوں کی اُٹھان ہوتی ہے، وہ اس کی ترتیب ارتقا و عروج سے گزرتے ہوئے عروج معکوس کے ساتھ اپنے کلائمکس پر پہنچتی ہے تو قاری کو کھلی دھوپ میں آجانے یا کج گلیوں سے گزر کر اچانک کلی شاہراہ پر پہنچ جانے کا وہ احساس دلاجاتی ہے جس میں مسرت بھی پنہاں ہوتی ہے اور بصیرت بھی جس سے نفسیاتی عقدے اچانک کھل جاتے ہیں اور کہانی میں ان کہے بول کا لطف سمٹ آتا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں یہ فنی اقدار کسی خصوصی تلاش کی محتاج نہیں ۔میں نے اس مضمون کے عنوان میں ’’بلند آہنگ‘‘ کا ٹکڑا دانستہ استعمال کیا ہے۔دنیا جانتی ہے اور میں بھی جانتی ہوں کہ یہ اصلاح قصیدوں اور نظموں کے لیے مستعمل ہے سوال یہ ہے کہ درباری شاعروں نے اس کا استعمال کیا۔جوش کو یہ طرز کیوں مرغوب رہی۔وجہ یہی ہے کہ ان کا مقصدد ور تک اور دیر تک توجہ کے تعاقب میں تھا،میں یہاں مقصد کی طرف نہیں جارہی ہوں، کہیں مقصد دست زر افشار سے حصہ پانا تھا، کہیں جذبات کو تیزی سے جگانا اور ابھارنا ، مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں جو بلند آہنگی ہے وہ بھی اپنا ایک مقصد رکھتی ہے اور وہ مقصد ہے حقیقت پسندی کی آواز کے وزن و وقار اور اثر و نفوذ کی طرف وقت کی بربادی اور ذہنی سست روی کے بغیر قاری کو لے آنا۔وہ چاہتے ہیں کہ ماجرا دل کو چھولے اور بیان ماجرا ذہن کو بلاتاخیر اہل کرنے میں ہی کامیاب نہ ہو بلکہ بلاتامل اور تعویق اپیل کرتے رہنے میں کامراں ہوجائے کیونکہ فن پارے کی زندگی فکر و ذہن کے گوشوں میں جگہ پالینے سے ہی عبارت ہے اور مشتاق احمد نوری کے افسانوں میں جو بلند آہنگ ملتا ہے وہ اس عظیم مرتبہ کو پالینے میں یقینا کامیاب ہے۔یہ بلند آہنگی نہ تو محض استعارے کی رہین منت ہے، نہ محض لفظوں سے کھیلنے کا صدقہ یا احتجاج کی صدائے برہم، بلکہ یہ قلبی احساسات سے پیدا ہونے والی صدائے فطرت ہے جو یقینا ان کی کہانیوں کو ایک ایسا امتیاز دے جاتی ہے جو ان کے معاصرین کے افسانوں میں اگر مل بھی جائے تو وہ اونٹ کے منھ میں زیرے والی کہاوت کے مصداق ہی ہوگی۔

 

Shabana Ishrat

C/o Md. Faizan Ahmad
Near Sona Medical, Dargah Road
Pathar Ki Masjid
Patna-800006 (Bihar)
Mob. 8409722347

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں