کسی بھی میدان میں
خواتین کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اردو ادب میں جس طرح افسانہ نگار خواتین،
ناول نگارخواتین اور شاعرات نے اپنا منفرد مقام حاصل کیا اور اپنی پہچان بنائی ہیں
اسی ہی طرح اردو ادب کی اہم صنف ڈرامہ نگاری میں بھی خواتین مردڈرامہ نگاروں کے شانہ
بشانہ نظر آتی ہیں۔ اس میدان میں مردوں کے دوش بدوش عورتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اردو ادب کی تر قی پسند تحریک نے خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم کا کام کیا ہے۔اس تحریک
نے نو عمر اور نو مشق ادیبوں کو لکھنے کی ترغیب دی ۔ ترقی پسند تحریک کی متحرک رکن
رشید جہاں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ڈرامے بھی لکھے ہیں۔تحقیق کے مطابق اردو کی پہلی
ڈرامہ نگار خاتون مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں ہیں۔ رشید جہاں کے ہی نقش قدم پر
چلتے ہوئے عصمت چغتائی، آمنہ نازلی ، صالحہ عابد حسین،ساجدہ زیدی،قدسیہ زیدی، زاہدہ
زیدی وغیرہ نے ڈرامے لکھے۔ ان ڈرامہ نگار خواتین میں سے کچھ نے ادب اطفال، کچھ نے اصلاح
نسواں اور کچھ نے ذاتی تسکین کے لیے لکھا۔
قدسیہ زیدی ان چند
بے مثال ہستیوںمیں سے ایک تھیںجن کو قدرت اپنی بے پناہ فیاضیوں سے سر فراز کرتی ہے
اور جس کی سیرت و صورت دونوں کا حسن و جمال دلوں کو تسخیر اور آنکھوں کو خیرہ کرتا
ہے۔ قدسیہ، خان بہادر عبداللہ صاحب کی چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ ہماری زبان کے مشہور مزاح
نگار پر وفیسر سید احمد شاہ بخاری پطرس کی بیگم زبیدہ ان کی بڑی بہن تھیں۔عبد اللہ
صاحب دراصل کشمیری برہمنوں کے چشم و چراغ تھے۔
قدسیہ زیدی23دسمبر1914کو دلی میں پیدا ہوئیں،
جہاں ان دنوں ان کے والد عبداللہ صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ ان کا اصلی نام ’’امتہ
القدوس ‘‘تھا۔ جب یہ کالج میں پہنچیں تو نام کی طوالت کے باعث اسا تذہ اور طلبا سب
انھیں سہولت کی وجہ سے ـ’’امتل ‘‘ کہہ کر پکارنے
لگے، لہٰذا انھوں نے اپنا نام بدل کر قدسیہ کر لیا۔ قدسیہ دو ڈھائی سال کی تھیں کہ
ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آٹھ نو برس بعد خان بہادر عبداللہ بھی اللہ کو پیارے
ہو گئے۔ اس کے بعد قدسیہ اپنی بڑی ہمشیر زبیدہ اور ان کے شوہر احمد شاہ بخاری پطرس
کے ساتھ رہنے لگیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ وہ خواتین کے کینیڈ
کالج کی طالبہ تھیں، جہاں سے انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ خاندان کی یہ سب سے
ذہین اور سب کی لاڈ لی تھی۔ اس لیے باپ نے اعلیٰ تعلیم دلانے کا فیصلہ کیاقدسیہ کو
کتابی اور اسکولی تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ وہ قہقہے لگ لگا کر سنایا کرتیں کہ
ہم نے کبھی امتحان تھرڈ کلاس سے زیادہ نمبروں میں پاس ہی کر کے نہ دیا۔ بقول صالحہ
عابد حسین:
’’ قدسیہ کا دل کتنا درد مند اور حساس تھا۔
بچپن ہی سے انھیں کتنے صدمے سہنے پڑے، اسے کم ہی لوگ جانتے تھے۔ ان کے کھنکتے قہقہے،
باغ و بہار طبیعت، دلچسپ گفتگو اور پھڑکتے فقرے سن کر کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس
دل میں کتنے داغ ہیں؟ وہ غم کو ایسی دولت سمجھتی تھیں جس میں کسی کو شریک نہیں کیا
جاتا۔ ‘‘
قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ زیدی،صا لحہ عابد حسین ص۔31
بچپن میں ماں کی جدائی، نو عمری میں باپ کی مفارقت پھر اکلوتے جو ان بھائی کا داغ، شادی کے بعد اپنے پہلے بچے کا غم انھوں نے بڑے حوصلے سے یہ سب صدمے سہے مگردل اتنا حساس اور درد مند تھا کہ ہر کسی کے دکھ اورغم میں تڑپ اٹھا اور وہ غمزدہ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتیں۔قدسیہ زیدی کے قریبی دوستوںکا ماننا ہے کہ قدسیہ زیدی کی شخصیت کو نکھارنے میں درد مند دل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ قدسیہ زیدی کو بچوں کے ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ ہر ایسے کام میں مدد دینے کے لیے تیار رہتی تھی جس میں بچوں کی ذہنی نشوونمااور جس کا مقصد بچوں کی چھپی صلاحیتوں کو اجا گر کرنا تھا۔قدسیہ زیدی کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے شوہر زیدی صاحب نے محض کتابوںکو عمدہ طریقے سے شائع کروانے کی خاطر کتابی دنیا کے نام سے اشاعتی ادرہ قائم کیا۔ مالک رام کی زبانی:
’’ ـان کے اس
خوابیدہ شوق کا اولین مظاہرہ اس وقت ہوا، جب شنکر نے 1954 میں بچوں کے ڈرامہ میلے کا
انعقاد کیا۔ قدسیہ نے اس موقع پر بعض ایسے انگریزی ڈراموں کا ترجمہ کیا،جو جانوروں
اور جنگل کے متعلق تھے۔سید امتیاز علی تاج نے جیردم کے بعض مزاحیہ کہانیوں کا ترجمہ
چچا چھکن کے عنوان سے کیا تھا؛ اور اسی رنگ کی چند طبع زاد کہانیاں بھی لکھی تھیں۔قدسیہ
نے ان میں سے بعض کو ڈرامہ کی شکل دے دی،اور انھیں اسٹیج کیااور دیویانی کرشنا سے ان
کے لیے تصویریں بنواکر شائع کرادیا۔ قدسیہ سے درخواست کی گئی کہ کے ڈرامہ آگرہ بازار
کی سرپرستی قبول فرمائیں۔ اس ڈرامے کا پلاٹ نظیراکبر آبادی کی زندگی کے حالات زندگی
سے بنا گیا ہے۔ قدسیہ بیگم نے نہ صرف یہ درخواست قبول کرلی بلکہ اجازت دے دی کہ ڈرامے
کی ریہرسل ان کے مکان پر کی جائے۔ اس دن ہے وہ ڈراما اور اسٹیج کے لیے گویا وقف ہو
کے رہ گئیں۔ ‘‘
قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضموں: قدسیہ: ما لک رام، ص۔22
اچھے ڈراموں کے لیے
اچھے اسٹیج کی ضرورت ہوتی ہے اور ہندوستان میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قدسیہ زیدی
نے ہندوستانی تھیٹر کی بنیاد ڈالی ۔اس تھئیٹر کے لیے انھوں نے بہت ساری قربانیاں بھی
دیں۔آل احمد سرور کے مطابق:
’’ہندوستانی
تھیٹر کے ذریعے سے وہ ہندوستانی ڈراما کے معیار کو بلند کرنا چاہتی تھیں۔ وہ جانتی
تھیں کہ ہندستان میں مغرب کے تجربوں کی اندھی تقلید مضر ہوگی بلکہ ہمیں ڈراما کے لیے
ایسے فارم کو اپنا نا ہوگا جس کی روح ہندستانی ہو اور جس میں ہماری روایات سے پورا
پورا فائدہ اٹھایا گیا ہو۔ اس غرض سے انھوں نے سنسکرت کے شاہکاروں کے ترجمے کی طرف
توجہ کی۔ ہندستان تھیٹر کا مقصد ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تربیت تھی جو محض تفریح
کام نہ کریں بلکہ ایک طرف ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہوں اور دوسری طرف اس فن کے لیے اپنا
سارا وقت دے سکیں۔ ہر بڑے کام میں بتائی منزلیں نہایت صبر آزما ہوتی ہیں۔ انھوں نے
جس تن دہی، انہماک، جوش اور جذبے سے کچھ نہیں سے بہت کچھ تک کے مرحلے طے کیے۔ اس کا
پورا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے کسی قومی کام کے لیے نہ صرف اپنے آپ
کو وقف کرد یا ہو، بلکہ اس وجہ سے اپنی زندگی کو ایک خاص پروگرام کے سانچے میں ڈھال
دیا ہو۔ انھوں نے ذاتی آسائش کا خیال نہ کیا، بلکہ اس تھیٹر کے کام کے لیے زمین،دفتر،
عمارت، فن کاروں کی تربیت اور سبھی کاموں کی دیکھ بھال کی۔‘‘
قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:ایسی چنگاری بھی یا رب۔آ ل احمد سرورـ، ص۔50
قدسیہ کے انگریزی سے
اردو میں کیے گئے تراجم میں شامل ڈرامے اور کہانیاں کچھ اس طرح ہیں۔
٭ گاندھی بابا کی کہانی
پیش لفظ از پنڈت جواہر
لال نہرو ۔ اس کے ترجمے ہندی اور انگریزی میں بھی شائع ہوئے
٭ آذر کا خواب -
برناڈ شا کے بگھیلین
کا ترجمہ
٭خالد کی
خالہ
چار لینز آئنٹ پر
مبنی ڈراما
٭ گڑیاگھر
بسن کے ڈائز ہاؤس کا ترجمہ
٭ جان ہار
ڈراما،شکنتلا،کالید
اس کے سنسکرت ڈرامے کا ہندستانی میں ترجمہ
٭ مدرا راکشس کا ہندستانی
میں ترجمہ
٭ مٹی کی گاڑی شو درک کے
مرچھ کٹک کا ہندستانی ترجمہ
قدسیہ زیدی اپنی منفرد
شخصیت اور اپنی ذہانت کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ قدسیہ زیدی نے البسن اورشا
کے ڈراموں کے تر جمے کااز سرنو آغاز کیا۔ان انگریزی ڈراموں نے اردو میں بیش بہا اضا
فہ کیا۔ان کا رجحان پھر سنسکرت کی طرف گیا انھوں نے سنسکرت کے ڈراموں کے بھی اردو اور
ہندی میں ترجمے کیے۔انھوں نے خود ظبع زاد ڈرامے نہیں لکھے اس کے باوجود ڈراموں کے اجزائے
ترکیبی ، ڈراموں کے نازک لمحات ، مکالموں کے درمیان پیچ و خم سے بخوبی واقف تھیں۔ اردو
میں ڈراموں کا شعور کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے غیر زبانوں کے اردو تر جمے کرنے کی
ضرورت محسوس کیں۔ اطہر پر و یز لکھتے ہیں:
’’بہتوں کو کہتے سنا ہے کہ کام عبادت ہے۔لیکن
قدسیہ آپا کو سچ مچ عبادت کرتے دیکھا ہے۔وہ بڑے خشوع و خضوع سے عبادت کرتی تھیں۔ ان
کی فطری سادگی اور شخصی پا کیزگی ، تقدس پیدا کر دیتی تھیںـ’۔۔ وہ
محض کسی کام کواپنے ذمے لیتی تھیں، انھیں تو دھن سوار ہو جاتی تھی۔ پھر وہ نہ دن دیکھتی
تھیں نہ رات۔ سردی دیکھتی تھیں نہ گرمی۔ وہ تو کام میں لگ جاتی تھیں۔ ہر چیز سے بے
خبر۔ اور جب تک اسے ختم نہ کرلیتی تھیں، چین سے نہ بیٹھتی تھیں۔
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ آپا۔اطہر پر ویز ـ، ص۔55
قدسیہ زیدی نے بچوں
کے لیے ان گنت کتا بیں لکھیں جیسے:
٭ بھن بھن بانو
٭ جانبازسپاہی
٭ بن کے باسی
٭ گلا بوچو ہیا اور غبارے
٭ سرخ جوتے
٭ بجو بھیا کی عقلمندی
٭ گھلا ہوچو ہیا اور پری
زاد
٭ جنگل میں شیر
٭ البیلی بچھیا
٭ منی کی مانو
٭ انوکھی دکان
٭ ان تھک جاں
اطہر پرویز کو قدسیہ
زیدی میں ،نور جہاں محل، قدسیہ محل،اور قرۃ العین حیدر کی جھلک نظر آ تی ہیں ۔ انھوں
نے ڈرامہ ’’انار کلی ‘‘ کو اسٹیج کی ضروریات کی روشنی میں پھر سے ترتیب دیا اور بعض
بے حد خو بصورت اضافے کیے۔ ماہر ادیب کے مطا بق’’بیگم قدسیہ زیدی کے کارنامے یقینا
آنے والی نسلوں کے لیے بڑی اہمیت رکھیں گے۔آج کی ضرورت ہے کہ ان پر تحقیقی کام کیا
جائے،ان کے کارناموں کا جائزہ لیا جائے۔وہ ترجمہ کرتی تھیں۔ ریاضت اور عبادت کا ایک
حسین امتزاج تھا۔اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے انھیں عبادت و ریاضت کرتے
ہوئے دیکھا۔‘‘
اطہر پرویز نے بہت قریب سے قدسیہ زیدی کو دیکھا
ان کے ساتھ علمی ادبی کاموں میں ہمہ وقت مشغول رہے۔ عصمت چغتائی بھی قدسیہ زیدی کی
شخصیت سے متاثر ہے اور اس کا خود اعتراف انھوں نے خود اپنی ایک تحریر میں کیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قدسیہ زیدی، اس وقت شدت
سے یاد آئیں گی جب تہذیب، شرافت،نیکی، حسن درد مندی ، انسان دوستی کا ذکر ہوگا۔ قدسیہ
زیدی ایسی شخصیت ہے جو اپنے نقوش کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انھوں نے زندگی کو
بڑے سلیقے سے برتا ۔اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کو قدسیہ زیدی کے سلسلے میںاپنی
ذمہ دار ی کو محسوس کرنا ہے۔قدسیہ زیدی ایک فرد نہیں،ایک تہذیب تھیں۔ قدسیہ زیدی کی
وفات 27 دسمبر 1960 کو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، اس وقت وہ صرف 46 برس کی تھیں۔شخص
فنا ہوجاتا ہے، شخصیت اپنے نقوش کے ذریعہ سے زندہ رہتی ہے۔ قدسیہ زیدی کی شخصیت ان
کے کارناموں کی وجہ سے غیرفانی ہے اور ان کے ذریعے سے وہی روشنی کی کرن، وہی کردار
کی پاکیزگی اور لطافت جو ان کی ذات میں تھی،کائنات کے لیے ایک متاع عزیزبن جاتی ہے۔
حواشی
o
قدسیہ زیدی: مرتب بشیر
حسین زیدی ،اشاعت اول2013
o
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیر حسین زیدی،مضمون:قدسیہ زیدی،صا لحہ عابد حسین ص۔31
o
مشتاق علی،اردو ادب
میں مہاراشٹر خواتین کا حصہ
o
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیر حسین زیدی ،مضموں: قدسیہ: ما لک رام، ص۔22
o
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیرحسین زیدی،مضمون:قدسیہ زیدی ازصالحہ عابدحسین، ص۔33
o
رفیعہ سلطانہ،اردو
ادب کی ترقی میںخواتین کا حصہ،دہلی:مجلس تحقیقات اردو حمایت نگر
o
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیر حسین زیدی ، مضمون:ایسی چنگاری بھی یا رب۔ آل احمد سرورـ، ص۔50
o
قد سیہ زیدی: مرتب
بشیر حسین زیدی ، مضمون:قدسیہ آپا۔اطہر پر ویز، ص۔55
o قد سیہ زیدی: مرتب بشیر حسین زیدی ، مضمون:تم زندہ ہو،عصمت چغتا ئی ص۔76
Sana Bano
D/o Mohammad Khizar
Add: Madina Masjid Main Road
Kamptee,
District Nagpur-441002 (M.S)
Mob: 9021546617/ 9335412491
E-Mail: sanakhizar65@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں