مختصر نظمیں لکھنا بھی ایک مشکل فن ہے اورہر شاعر اس فن میں ماہر نہیں ہوتا ۔اخترالایمان نے تقریباََ 100 سے زائد مختصر نظمیں لکھی ہیں ۔ یہ نظمیں اپنے انداز بیان کے اعتبار سے بہت دلکش ہیں۔ اخترالایمان نے کافی خوش اسلوبی سے ان نظموں کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے،جوتاثر ان کی طویل نظموں کے ذریعے ذہن پر مرتب ہوتا ہے بالکل ویسی ہی اثر انگیزی ان کی مختصر نظموں میں موجود ہے، ہر چند کہ شاعر کیفیات کی تفصیل پیش نہیں کرتا ۔اس کے باوجود ،جزئیات کی تفصیلات خودبخود ذ ہن میں روشن ہوتی چلی جاتی ہیں ۔مختصر نظموں کے بارے میں اخترالایمان اپنے مجموعہ کلام ’’یادیں‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’میری شاعری کا ایک اہم جزو مختصر نظمیں بھی ہیں ۔کئی نقادوں نے ان
نظموں کا محرک جاپانی شاعری کو بتایا ہے۔ انھیں ان نظموں میں جاپانی شاعری کی جھلک
نظر آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوا مجھے معلوم نہیں مختصر نظم کہنے کی تحریک مجھے جہاں سے
ملی تھی، وہ ساودے کی ایک نظم ہے۔ نظم اس وقت میرے ذہن میں نہیں صرف ایک مصرع یاد ہے:
کبھی میرا بھی ایک گھر تھا
یہ چھ سات مصرعوں کی نظم تھی اور تاثر سے بھر پور تھی یامجھے
بھرپور نظر آئی تھی یا محسوس ہوئی تھی۔ ایسی نظمیں خالصتاََ احساس کی نظمیں ہوتی ہیں
۔یہ اس قدر مختصر ہوتی ہیںکہ ان میں کسی موضوع کو دخل ہو ہی نہیں سکتا ۔یہ نظمیں دراصل
اڑتے ہوئے رنگ پکڑنے والی بات ہے ۔ مجھے یہ صنف اسی لیے بہت اچھی لگتی تھی کہ اس میں
تاثر اور احساس بھر پور آتا ہے۔یہ نظمیںدراصل چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ تتلیاں ہیں ،جو
ہر طرف اڑتی پھرتی ہیں اور جو کبھی پکڑ میں آجاتی ہیں کبھی نہیں آتی۔‘‘
(یادیں،اخترالایمان،رخشندہ کتاب گھر ،بمبئی،1961،ص۔13)
اخترالایمان کے یہ جملے بے حد معنی خیز ہیں۔ انھوں نے اپنی مختصر نظموں کا وصف
احساس اور تاثر کی شکل میں پیش کیا ہے۔ہر انسان کے محسوس کرنے کا زاویہ اور پیمانہ
مختلف ہوتا ہے ،جو چیزیں ہمارے احساس کے تاروں کو کو چھیڑتی ہیں کوئی ضروری نہیں کہ
دو سرے لوگ بھی
انھیں کیفیات سے سرشار ہوں۔تاثر کی سطحیں بھی مختلف ہوتی
ہیں ۔اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ہم کچھ کیفیات کا زیادہ اثر قبول کر سکتے ہیں اور کچھ
کیفیات کے حوالے سے لاتعلق اور بے پروا بھی ہو سکتے ہیں ۔شاعر کا احساس اور تاثر ،قاری
کا احساس اور تاثراسی وقت بن سکتا ہے، جب وہ نفسیات کی باریکیوں سے واقف اور گہرے مشاہدے
کی خوبیوں سے متصف ہو ۔ اخترالایمان کے تخلیقی ذہن میں یہ دونوں پہلو شامل تھے اور
اسی بنا پر مختصر نظموں میں ان کا انفرادی احساس اور تاثر ،قاری کے اجتماعی احساس اور
تاثر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔درج بالا اقتباس میں انھوں نے ایک اور بنیادی بات یہ کہی
ہے کہ احساس پر مشتمل ان کی مختصر نظمیں ،دراصل رنگ برنگ چھوٹی چھوٹی تتلیاں ہیں ،جو
کبھی تو پکڑمیں آجاتی ہیں اور کبھی نہیں آ پاتیں۔کسی مخصوص کیفیت یا احساس کو گرفت
میں لینا بلا شبہ تتلیوں کو پکڑنے جیسا عمل ہے۔اس میں اگر کامیابی مل جائے تو ذہن سرشار
ہو جاتا ہے اور ناکامی کی صورت میں ازسرنو جہدوعمل کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔رنگ برنگ
تتلوں کے پیچھے بھاگنا از خود سرشاری کا عمل ہے۔ تتلیاں کبھی نگاہوں کی دسترس میں ہوتی
ہیں اور کبھی پلک جھپکتے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں،لیکن اپنے آپ کو ان کے تعاقب
کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنا بھی، بہرحال ایک خوش گوار تجربہ ہوتا ہے اور اس نوع
کے انوکھے تجربے اخترالایمان کی مختصر نظموں میں قدم قدم پر اپنی اہمیت کا احساس کراتے
ہیں۔ تخلیقی عمل کے لیے فکر اور فلسفے کی فنکارانہ آمیزش بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور
مختلف کیفیتوں کو سلسلے وار طریقے سے ایک لڑی میں پرونا نظم نگار کی تخلیقی ترجیحات
میں شامل ہوتا ہے،لیکن بعض اوقات، لمحاتی سرشاری بھی ہمیں اندر سے نہال کر دیتی ہے۔
بڑی خوشیاں زندگی میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں، لیکن اگر ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں زندگی
کا حسن تلاش کریں توہمیں مسرت اور شادمانی کے مواقع زیادہ میسر آ سکتے ہیں ۔ اخترالایمان
کی مختصر نظموں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
مختصر نظموں کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کہ کتنے
مصرعوں تک کی نظم کو مختصر نظموں میں شامل کیا جائے۔ تاہم یہاں یہ کوشش کی گئی ہے کہ
اخترالایمان کی جو نظمیں 15 مصرعوں تک مشتمل ہیں، ان کو مختصر نظموں میں شامل کیا گیا
ہے۔
اخترا لایمان کی ان نظموں میں تنہائی کا احساس ، شہری زندگی
کا کرب ، امید کی لو، انسان کی عظمت کا احساس، ماضی وحال کا تضاد،انسان کی حیوانیت
اور معصومیت ، زیاں کاری،حالات کی ستم ظریفی،عشق کی ناکامی،فطرت سے دوری ، نئی اور
پرانی قدروں کی کشمکش،وقت کی توانائی کا احساس ،سیاسی و سماجی صو رتحال اورزندگی کا
تصور ملتا ہے۔
اخترالایمان کے کلیات میں جو سب سے مختصر نظم ہمیں ملتی ہے
وہ چار مصرعوں پر مشتمل نظم’’نیاز‘‘ہے۔اس نظم میں معاشرے کے رسم و رواج اور انسان کی
عادت وخصلت پر طنز کیا گیا ہے۔انسان اب روحانیت سے دور ہوتا جا رہا ہے اور مادیت کے
فریب میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ نظم نیاز ملاحظہ ہو۔
قرآں کی آیتوں کے ساتھ ارواح اب وجد کو
خمیری روٹیوں اور قورمے کے ساتھ رخصت کر دیا ہم نے
خدا بھی خوش ہوا ہوگا کہ زیبائے جہاں خوش ہیں
عمل سے اپنا منہ کھولے تھے دوزخ بھر دیا ہم نے
(نیاز)
اخترالایمان کی عشقیہ نظموں میں یاد کا عنصر لازمی طور پر دیکھنے کو ملتا ہے
اور اس یاد میں وقت کا جبر کسی نہ کسی صورت میں موجودہے ۔ عشق پر موت،حالات اور وقت
کا غلبہ دکھائی دیتا ہے، جس سے وہ عشق کی ناکامی کا اعتراف بھی کرتا ہے اور محبوب سے
اس بات کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وقت اور حالات کے آگے یہ عشق بھی ناپائدار ہو جائے
گا ۔ اخترالایمان کی عشقیہ نظموں میں عہد وفا ، تبدیلی،اتفاق ، جب اوراب ،دور کی آواز،شفقی،دو
پربت،برندابن کی گوپی،جان شیریں،میں اور تو،آخر شب،اشعار، رابطہ، مرگ نغمات وغیرہ
خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
نظم’’ جان شیریں ‘‘میں شاعر براہ راست اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ تم سے سوائے
رنج ومصیبت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔تمھارے پیچھے پڑنے سے میرا ہی نقصان ہوگا لیکن
اس کے باوجود بھی اس کی خواہش اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہی ۔اب بھی خواہش مجھے یہ کہہ
کر تسلی دے رہی ہے کہ ان شب و روز کی زد میں آنے سے جو لمحات بچ گئے ہیں ان کو پائیدار
کر لیا جائے ۔
تم سے ہمیں اور کیاملے گا
بر بادی دل خرابی جان
دیکھو تو ذرا تسلیوں کو
تھوڑا سا اگر ہے کوئی امکاں
یہ گردش روزگار و غم سے
لمحے جو بچے ہیں جان شیریں
ہم بھی انھیں پائدار کر لیں
آلام کو داغدر کر لیں
(جان شیریں)
اخترالایمان نے اپنی نظموں میں ذاتی تجربے کو اس طرح پیش
کیا ہے کہ وہ ذاتی نہ رہ کر آفاقی بن گئے ہیں۔صنعتی نظام کے سبب انسان کا فطرت سے
جو رشتہ تھا وہ اب ٹوٹ گیا ہے۔نئے شہروں نے انسان سے اس کی معصومیت چھین لی ہے۔پرانی
قدروں اور نئی قدروں میں تصادم کی یلغار ہے۔ انسان خود فریبی اور خوشامد پسندی میں
مبتلا ہوتا جا رہا ہے ۔ان نئے شہروں نے انسان سے اس کے رشتوں کی اہمیت کا احساس ختم
کر دیاہے۔ وہ مادیت کے فریب میں آکر شہروں میں منتقل ہو رہا ہے۔ ان کیفیات کو ان کی
مختلف مختصر نظموں مثلاََ عہد وفا ، تبدیلی، پس وپیس، شیشہ کا آدمی، نیا شہر، مداوا،
صبح کاذب، تلاش کی پہلی اڑان، خلاوغیرہ میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
نظم’’خلا‘‘میں انسانی زندگی کا کرب بیان کیا ہے۔یہ خلا وہ
کیوں محسوس کر رہا ہے جبکہ اس کے ذہن میں بچپن کی یادیں تازہ ہیں ،فطرت کے وہ خوبصورت
مناظر اسے یاد ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنے اندر خلا محسوس کر رہا ہے کیونکہ آج
وہ ان سب چیزوں سے محروم ہے ۔اسے اس کیفیت کا لطف لینے کے لیے اپنے ذہن کے دریچہ کو
کھولنا پڑتا ہے۔ صنعتی شہر نے فطرت کی رنگینیوں و ررعنائیوںکو مسخ کر دیا ہے ۔یہی وجہ
ہے کہ بھرا پرا شہر ہونے کے باوجود بھی انسان ایک خلا محسوس کر رہا ہے۔یہ نظم استفہامیہ
انداز میں شروع ہوتی ہے:
خلا کیوں پر نہیں ہوتا
پرندوں کے ہزاروں رنگ
آموں سے بھری ڈالی
لسوڑوں کے ہرے خوشے
لٹکتی جامنیں کالی
میں بھولا تو نہیں پھر کیوں
مسلسل کرب رہتا ہے
خلا کیوں پرنہیں ہوتا (خلا)
وقت کی کارفرمائی اخترالایمان کی اکثر نظموں میں سیل رواں کی طرح جاری وساری
ہے۔کبھی یہ رو بہت تیز ہو جاتی ہے اور کبھی آہستہ۔وقت اخترالایمان کے یہاں انسان کے
درد کا درماں بھی ہے اور زخموں پر نمک بھی چھڑکتا ہے۔لمحہ گریزیت کا احساس، شاعر پل
پل محسوس کرتا ہے۔جن مختصر نظموں میں وقت کی کارفرمائی براہ راست دیکھی جا سکتی ہیںان
میںپکار،سحر، سر راہگزارے،وقت کی کہانی، بنت لمحات،خود فریبی، معمول،میری گھڑی، مہایدھ،بیداد،زیاںکار،کاوش،بے
تعلقی، ستترویں سالگرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
نظم ’’بے تعلقی ‘‘میں شاعر اپنی گزری ہوئی زندگی کو وقت کے
حوالے سے یاد کر رہا ہے ۔وقت جو اس نظم کے متکلم سے خاموش گزر رہا ہے جسے دیکھ کر اسے
احساس ہوتا ہے کہ گویا وہ زندگی کی کشمکش میں مبتلا نہیں ہے، جب وہ زندگی کی کشمکش
میں شامل تھا تو یہی وقت اس کے لیے کتنا تنگ تھا ۔ اسے اپنی ضروریات کو ایک محدود وقت
میں پورا کرنا پڑتا تھا جس کے لیے اسے بہت سی صعوبتیں اٹھا نی پڑتی تھیں۔یہ وقت جو
کبھی ہمالہ،عقدہ، سنگ گراں اور اشک بن کر اس پر گزرا ،آج وہ اس شخص سے چپ چاپ گزر
کر جا رہا ہے:
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں
جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خون جگر بن کے مژہ پہ آیا
آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے
جیسے میں کشمکش زیست میں شامل ہی نہیں
(بے تعلقی)
انسان کی معصومیت اور حیوانیت ،زیاں کاری،زندگی کا تصور،
سیاسی و سماجی حالات کی عکاسی بھی اخترالایمان کی مختصرنظموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔انسان
کی حیوانیت کو تسلیم کبھی وہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی صورت میں کرتے ہیں۔کبھی قابیل
،کبھی ثمود و عاد کا فرد مان کر تسلیم کرتے ہیں جس سے شاعر کے انداز بیان میں تلخی شامل
ہو گئی ہے۔عہد حاضر میں انسان آج جس بر بریت اور ہنگامہ خیزی کا مظاہرہ کر رہا ہے
اس کو دیکھ کر شاعر کادل تڑپ گیا ہے۔ وہ اس بات پر یقین کرنے سے گریزاں ہے کہ انسان
کیسے ایسی حیوانیت برپا کر سکتا ہے ،جب اس کی تخلیق ایک ہی مٹی سے ہوئی ہے تو وہ کیسے
اس قدر وحشیانہ سلوک کر رہا ہے ۔نظم ــ’’تسکین‘‘ میں شاید شاعر نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈھ لیا
ہے ۔جو شاعر کا خود کا نہیں بلکہ کسی محقق کا مفروضہ ہے ۔کسی محقق نے جب انسان کو بند
ر کہا تو وہ بڑا خوش ہوا کیونکہ آج تک وہ جس لیے شرمندہ تھا ،اس کا جواب اسے مل گیاہے۔
ایک محقق نے انسان کو بوزنہ جب کہا
میں وہیں سجدئے شکر میں گر گیا
اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کے لیے
آفرینش سے اب تک جو شرمندہ تھا
آج وہ بوجھ بارے ذرا کم ہو گیا (تسکین)
نظم ’’تادیب ‘‘میں خود احتسابی کا عمل ہے ۔انسان اپنے نامۂ اعمال کا جواب دہ
خود ہوگا ۔ اس نظم میں جو احساس اور تاثر پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان خود
پہلے اپنی اصلاح کر لے اور اگر اس طرح ہر انسان اپنی اصلاح کر لے تو دنیا میں برائی
باقی نہ رہے لیکن انسان خود کو چھوڑ کر دوسروں کے تجسس میں لگا رہتا ہے اور یہی اس
کی کمزوری کا سبب ہے۔
دوسروں کو سدھارنے مت جاؤ
اپنی اصلاح پر نظر رکھو
لوگ کیا کر رہے ہیں چھوڑو انھیں
اپنے افعال کی خبر رکھو
سر زنش اپنی خوب کرتے رہو
ایک شہدا جہاں میں کم ہوگا (تادیب)
نظم ’’اعتماد‘‘ میں انسان کی عظمت کا احساس تمثیلی ڈرامائی
انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔نظم کا آخری مصرعہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔نظم میں قدرتی
وسائل کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیاہے ۔ہر چیز اپنی انا اور خود اعتمادی کے آگے
انسان کو ہیچ سمجھتی ہے۔ نظم کا ہر مصرعہ ارتقائی شان سے آگے بڑھتا ہوا نظم کو ایک
معنوی سطح سے ہم کنار کرتا ہے اور یہی اخترالایمان کی انفرادیت ہے۔ انھوںنے نظم کے
اس روایتی تصور کو توڑنے کی کوشش کی ہے جو اس سے پہلے ہماری شعری روایت میں جاگزیں
تھی۔نظم کو اخترالایمان نے ایک اکائی اور وحدت کی شکل میں پیش کیا ہے۔
بولی خود سر ہو ا ایک ذرّہ ہے تو
یوں اڑا دوں گی میں، موج دریا بڑھی
بولی میرے لیے، ایک تنکا ہے تو
یوں اڑا دوں گی میں ، آتش تند کی
اک لپٹ نے کہا ،میں جلا ڈالوں گی
اور زمیں نے کہا ،میں نگل جاؤںگی
میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی نقا ب
اور ہنس کر کہا ،میں سلیمان ہوں
ابن آدم ہوں میں ،یعنی انسان ہوں
(اعتماد)
نظم ’’اور اب سوچتے ہیں‘‘ میں زندگی کے آخری موڑ پر ندامت
کا احساس ہے کہ انسان اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کو پورا کرنے کی تکمیل میں مسلسل جدوجہد
کرتا رہتا ہے اور اس جدوجہد میں انسان اپنی اہمیت کو بھول جاتا ہے کہ اصل میں اس کی
منزل مقصود کیا ہونی چاہیے تھی لیکن وہ دنیا اور اس کی آرزوؤںکے فریب میں آکر کرب
اور صعوبتوں کو جھیلتا ہوا زندگی کے آخری موڑ پر پہنچتا ہے تو اسے اپنی منزل کا پتا
ہی نہیں رہتا ۔گویا اس نے کوئی غلط راہ اختیار کر لی تھیں یا اس نے اتنی جدوجہد کی
کہ آخر میں اسے اپنی منزل مقصود بھی یاد نہ رہی۔
دور تھی منزل مقصود مگر چلتے رہے
ہفت خواں طے کیے ، ظلمات سے گزرے بھٹکے
وسعت دشت تمنا ،سراسیمہ، زبوں، آبلہ پا
رات دن چلتے رہے ایک لگن دل میں لیے
راہ کی گرد چھٹے کرب سے مل جائے نجات
دور تھی منزل مقصود مگر چلتے رہے
عمر کے موڑ پر آئے تو شش و پنج میں ہیں
اور اب سوچتے ہیں منزل مقصود تھی کیا
(اور اب سوچتے ہیں)
اخترالایمان کی شاعری میں درد مندی اور ایک حزنیہ کیفیت کی فضا چھائی ہوئی ہے
، لیکن انھوں نے اپنی تمام مختصر نظموں میں متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ان نظموں میں
گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے ،معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ نظمیں رمزیت کی حامل ہیں۔ایک
دوسرے مصرعے کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ کہیں بھی خلا کا احساس نہیں ہوتا ۔کچھ نظموں
کا خاتمہ یعنی آخری مصرعہ کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔بقول یعقوب راہی:
’’اخترالایمان کی مختصر نظمیں بھی منفرد اور دوسروں سے مختلف ہیں۔اگر
چہ مختصرنظموں کا چلن اب عام ہو چکا ہے لیکن اخترالایمان کی یہ مختصر نظمیں اردو شاعری
میں مختصر نظموں کے باب میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں ۔یہ نہ غزل کے شعر ہیں،نہ دوہا،
نہ رباعی، نہ قطعہ ۔ موضوع کے جس پہلو کو بیان کرنا ہوتا ہے یہ نظمیں جامعیت کے ساتھ
بیان کرتی ہیں ۔ ان میں وحدت فکر بھی ہے، اشارے کی معنی خیزی بھی ہے، انداز بیان کی
ندرت بھی ہے ، چونکا دینے کی صلاحیت بھی اور اخترالایمان کی اپنی پہچان بھی۔‘‘
(اخترالایمان عکس
اور جہتیں،مرتبہ شاہد ماہلی،معیار پبلی کیشنز، 2000، ص۔332)
اخترالایمان کی نظموں کا اسلوب جداگانہ ہے۔ کہیں نثریت ہے
،کہیں خود کلامی، کہیں ڈرامائی انداز، کہیں تمثیل نگاری، کہیں طنزیہ انداز، کہیں تشبیہاتی
و استعاراتی پیکر کا استعمال وغیرہ۔یعنی فنی اعتبار سے بیش تر نظمیں مربوط ہیں،جن میں
غضب کی اثر انگیزی شامل ہے۔
بحیثیت مجموعی جدید نظم میں اخترالایمان نے نہ صرف متنوع
موضوعات و اسالیب کے ذریعے ادب میں اپنی انفرادیت قائم کی ہے بلکہ مختصر نظموں کے ذریعے
بھی اردو نظم میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔اخترالایمان کی ان مختصر نظموں کی اہمیت
اردو ادب میں ہمیشہ قائم رہے گی۔
Darakshan Anjum
Research Scholar
Dept. of Urdu
Aligarh Muslim
University
Aligarh-202001 (U.P)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں