22/11/23

تامل ادب کے شاہکارـ’کوی کو ‘ عبدالرحمن — شخصیت اور فن: یس۔جی۔ انیسہ بیگم

 

        کوی کو عبد الرحمن 9 نومبر1937 کو سنگم ادب کے مرکز مدورائی میں پیدا ہوئے،آپ کے والد سید احمد عرف مہدی اور والدہ زینت بیگم تھیں۔شاعری آپ کو وراثت میں ملی تھی، آپ کے والد اردو کے شاعراور دادا بھی اردو وفارسی دونوں زبانوں کے نامور شاعر تھے۔ عبدالرحمن نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد مدورائی کے تھیاگ راسر کالج میں داخلہ لیا اور وہیں سے تمل ادب میں گریجویشن اور ماسڑزکی ڈگریاں حاصل کیں۔اس وقت کے ان کے استادوںمیں ڈاکڑراجہ مانیکا نار،اوی طورائی سوامی،اے۔کے۔پرنتھامنار وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔کالج کے زمانے سے ہی گرامر،ادب کا گہرا مطالعہ کیا اور ساتھ ہی شاعری بھی شروع کی ۔آپ مولانا جلال الدین رومی، علامہ اقبال،ٹیگور اور خلیل جبران وغیرہ کی شاعری کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان شعرا سے متاثر ہوکر انھیں کا انداز لانے کی ایک کامیاب کوشش کی۔آپ کالج میںمنعقد ہونے والے تمام شعری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے اور اول انعام کے حقدار قرار پاتے تھے۔آپ کی شاعری لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگی ،اسی وجہ سے آپ کو ’’کوی کو‘‘(lit.Emperor among poets) کے خطاب سے نوازا گیا۔

        ُٓاپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے کچھ عرصہ کے لیے تمل اخبار ’’تمل ناڈو ‘‘ میں ایڈیڑکے طور پر کام کیا۔پھر 1961 میں وانمباڑی کے اسلامیہ کالج میں بحیثیت تامل لکچرر آپ کا تقرر ہوا۔ آپ رفتہ رفتہ لکچرار ،اسسٹنٹ پروفیسر سے ترقی کرتے ہوئے ایسوسیٹ پروفیسر کے عہدے تک پہنچ کر 1991میں سبکدوش ہوئے ،اپنی ملازمت کے دوران بیس سال تک شعبہ تمل کے صدر کی حیثیت سے ا ٓپ اپنی گراںقدر خدمات انجام دیں۔اسی دوران ’’کوی راتری‘‘ کے نام سے جدید شاعری تھیڑکے پروگرام منعقد کیے۔ایک پروفیسر کے طور پر اپنے دور میں انھوں نے ہزاروں لوگوں کو  پدھو کاویدائی ((Pudhu Kavidhai سے لطف اندوز کیا۔طلباء کو نئی شاعری لکھنے پر اکسایا اور ان کی  نظمیں مرتب کیں اور انھیں کتابوں میں شائع کیا۔

آپ نے ’’پڈو کاویدیل کور یٹو‘‘ (Puddhu Kavidayil Kuriyedhu) کے موضوع پر تحقیق کرنے کے بعد مدراس یونیورسٹی سے ڈاکڑیٹ کی ڈگری حاصل کی۔دراوڈن ناڈو، دراوڈن، ٹینڈرل، انامکم ، منرم،وکاڈن  وغیرہ کئی رسائل میں آپ کی مختصر کہانیاں شائع ہوئیں۔اگرچہ آپ نے تمل ادب  کے کئی شعبوںمیں اپنی شناخت بنائی لیکن وہ ایک شاعر کے طور پر زیادہ مشہور ہیں۔آپ کی فلسفیانہ نظموں کو خوب پزیرائی ملی ۔آپ ’’وانمباڑی ‘‘ تحریک  کے ممتاز شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

        آپ کے شعری مجموعہ میں ’’پال ویدی ‘‘ کے علاوہ ’’ ّ نیر ویروپم‘‘(Nayyer Viruppam)’’ سوٹو ویرل ‘‘(Suttu Viral)اور ’’ پتھن ‘‘(Pitthan) وغیرہ مشہور ہیں۔ان کا مجمومہ ’’ پتّھن ‘‘ تامل ادب میں نایاب ہے۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’پال ویدی ‘‘ (Paal Veedhi) 1974 میں منظر عام پر آیا۔اس میں نئی نظمیں ہیں جن میں خیال اور تخئیل کو اس طرح جمع کیا گیا ہے جیسے دودھ کشید کرکے ایک دوسرے سے باندھ دیا گیا ہو۔پھر 1999 میں لکھے گئے شعری مجموعے ’’آلا پنائی ‘‘ (Aalapanai) کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا۔اس کے ذریعے آپ نے تمل کے لیے یہ اعزاز حاصل کیا جو تامل شاعری کوایک عرصے سے نہیں دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ’’کالین جر  ایوارڈ‘‘ (Kalaiger Award)’’کا لیمامنی ایوارڈ‘‘(Kalaimamani Award) ’’بھارتی داسن ایوارڈ ‘‘ (Bharathidasan Award)،’’کمبر ایوارڈ‘‘(Kamber Award)،’’عمر پولور ایوارڈ‘‘(Umaru Pulavar Award) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

        آپ کی نظم ’’بار کولے ناڈو‘‘(Barkulle Nadhu) میں سماجی مسائل کی عکاسی کی گئی ہیجوکہ جیل میں  رہنے والے قیدیوں کے بارے میں لکھی گئی تھی اس نظم میں جو لوگ بھوک کی تاب نہ لاکر چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے ہیں تو انھیں فوراــگرفتار کردیتے ہیں اور انھیں مجر م قرار دیتے ہیں حالانکہ بڑے بڑے چور ،غنڈہ گردی اور ڈکیتی کرنے وا لے با ہر آزا دانہ طور پر گھومتے ہیں۔اس بات کو آپ نے بڑے حساس طریقے سے اس نظم میں قلم بند کیا ہے۔

        تامل ادب کی مشہور شخصیت ’’کناداسن ‘‘ (Kannadasan)  کا قول ہے کہ  :

 ’’ میں جب بھی خلیل جبران کو پڑھتا ہوںتو تڑپ اٹھتا ہوں کہ تمل ادب میں اس طرح کا لکھنے والا کوئی نہیں ہے لیکن وہ پرانی یادیں اور باتیں اب دور ہوچکی ہیں کیونکہ وہ خلا پر کرنے کے لیے عبدالرحمن آگئے ہیں‘‘  ۔

         وہ روایتی شاعری کو بہترین انداز میں پیش کرتے تھے اور تمل شاعری میںہائیکو ،غزل اور قوالی جیسی مہارت کے ساتھ لکھ سکتے تھے۔تمل شاعری میں جنھوں نے’غزل‘ کی شکل متعارف کروائی وہ پہلے شخص آپ تھے جنھوں نے نظمی شاعری کے لیے اسٹیج لیاتھا۔ہندی اور اردو موسیقی کی بحروں(شکلوں)کو تامل میںمتعارف کرایا۔اردو کی عشقیہ شاعری کی غزل کو تمل شاعری میں تشکیل دی۔شاعری کی ان کتابوں کے علاوہ آپ کی دو تحقیقی کتابیں ادبی مضامین کی دس سے زائد کتابیں اور مضامین کی کئی جلدیں بھی شائع ہوچکی ہیں،جن میں آپ نے دوسری زبانوں سے بھی تمل ادب میں ترجمہ کیاہے۔محبت ،فطرت،سیاست،معاشرہ،سائنس ،روحانیت وغیرہ کوئی ایسا موضوع نہیںجس پر آپ نے قلم نہ اٹھایا ہو۔۔۔ان کی تحریروںمیں فکر انگیزی ،گہرے جذبات ،خالص احساسات پڑھنے کو ملتے ہیں۔نہ صرف تحریریں بلکہ آپ کی تقریریں بھی بڑی پراثر ہوتی ہیں۔ کئی ایسے موضوع ہیںجس پر وہ گھنٹوںبلا جھجک بات کرسکتے تھے ،جو کہ سامعین کو محظوظ کیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ایک جگہ خود لکھتے ہیں ’’ شاعری نے مجھے منتخب کیا،میں شاعر کے سوا کچھ اورنہیں ہوسکتا ‘‘۔آپ نہ صرف تمل زبان بلکہ انگریزی،عربی،اردو،فارسی اور ہندی وغیرہ زبانوں میں بھی عبور رکھتے تھے۔

        آپ کی شاعری کا خاص وصف پر کشش الفاظ اور مٹھاس فطری طور پر ظاہر ہوتی ہے،جو پڑھنے والے کے دل پر بہت اثر کرتی ہے اور آپ کی نثر بھی ایک منفرد انداز لیے ہوئے ہے جس میں تخلیقی صلاحیت ا بھر کر سامنے آتی ہے۔ساتھ ساتھ آپ کے انداز بیان میں تجسس بھی پایا جاتا ہے۔بہت سی شخصیتوں نے آپ کو فلموں میں گانے لکھنے کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن وہ اس کوچہ سے دور ہی رہے وجہ یہ ہے کہ آپ وہاںپر آزادانہ طور پر نہیں لکھ سکتے تھے۔آپ کی شاعرانہ صلاحیتیں شروع ہی سے پروان چڑھی ہوئی تھیں۔ آپ کی نظمیں ادبی انجمنوں کی ریڈیو نشریات اور سماجی و سیاسی تنظموں کے زیر اہتمام شعراء کی محفلوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچے۔ آپ نے خوبصورت رومانوی ادب تخلیق کیا۔عبدالرحمن صاحب کا عقیدہ تھا کہ اس زمانے کے زندہ ماحول کی وجہ سے زندگی کے احساسات اور مسائل کے اظہار کے لیے نئی شاعری مناسب شکل ہے۔

        تمل ناڈو وقف بورڈ کے بطور چیرٔمن 2009 سے 2011 تک آپ نے کام کیا۔جب قضا سامنے کھڑی تو زندگی مسکراکر لبیک کہہ پڑی ،2 جون 2017 کو آپ 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔آپ کی تمل ادب سے وابستگی اور سماجی ترقی میں دلچسپی کا مشاہدہ ان کی کتابوںمیں کیا جاسکتا ہے۔آپ کو تمل ادب کی تاریخ میں ایک خا ص مقام حا صل ہے۔یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تامل زبان سے رغبت رکھنے والے پسندیدہ شاعر عبدالرحمن کا نام تامل ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

       حوالہ جات:

  1. تامل یلاکِیتّل اسلامیر آرٹیہ تونڈو (Tamil Elakiyatthil Islamiyar Artiya Tondhu)، ص نمبر : 76
  2.  تامل یلا کیت تگا ول کالن جیم (Tamil Illakiyath Tagaval Kalanjiyam)،ص نمبر :349
  3.        مدراس  ریوئو  ،  (Madras Review, Arasiyal Telivu koll


S.G.Anisa Begum

Assistant Professor
Department of Urdu
Islamiah Women's Arts & Science College
Vaniyambadi- 635751 (Tamilnadu)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...