یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر کل کی طرح بڑے بڑے نہیں ہوتے تھے – بھیڑ بھی اتنی نہیں ہوتی تھی لیکن گاؤں اور قصبہ کی زندگی کہیں زیادہ پر سکون تھی -زیادہ تر لوگ کاشتکار تھے – ۔
مرادآباد شہر کے لاکڑی
والان ،مغل پورہ ،سید خاں کا گھیراور فیض گنج علاقه آپس میں جڑے ہوئے تھے – ان علاقوں
میں سید، پٹھان و مغلوں کی پرانی بستیاں آباد تھیں – ان لوگوں میں تعلیم بھی تھی اور
وہ اپنےرواجوں و رسموں کو بھی نبھاتے تھے
– ۔
زمیندار بختیا رحسین خود پٹھان تھے اور ان کی
بیوی سید انی تھیں۔ بہت سادہ دل انسان تھے اور زمینداروں کی طرح سخت گیر نہیں تھے
– ہمیشہ غریبوں کی مدد ایسے کرتے تھے کہ ایک ہاتھ دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ پہلے
ان کا ایک گاؤں تھا ، پرکھوں کے زمانے کا – آزادی کے بعد گاؤں تو اپنے نہیں رہے
تھے -ان کی اپنی کچھ زمینیں تھیں –، ڈ یرا تھا جہاں وہ جا کر ٹھہر تے تھے لیکن ان کے اچھے برتاؤ کی وجہ سے گاؤں
کے لوگ ان سےبہت پیار اور عزت کرتے تھے – ۔
ما ں حسن آرا بیگم
بڑی بردبار خاتون تھیں – وہ سید گھرانے کی تھیں – سانولا نمکین رنگ ، لمبا قد ، بھرا
بھرا جسم -اس زمانے میں اکثر سفید غرارہ اور کفوں والے جمپر پہننے کا رواج تھا – وہ
بھی وہی پہنتی تھیں – جارجٹ کے سفید دوپٹے پر جرمنی ،سکیا ، یا کوئی سنہری بیل لگی
ہوتی تھی – ان کی بہو خالدہ خانم گوری چٹی
تھیں – وہ بھی ساٹن کا غرارہ لیڈی ملٹن کا جمپر ، شفون کا لچکا لگا یا کامدانی کا دوپٹہ
ا و ڑھتی تھیں – گرمیوں میں د ریز ، وائل یا سوتی چکن کے دوپٹے اور جمپر ہوتے – بڑھیا
لٹھے یا پا پلیں کے غرارے پہنے جاتے – مہندی
کا بہت رواج تھا – بوڑھی عورتوں کے ہاتھ بھی مہندی سے رچے ہوتے تھے –، مہندی لگانا
کوئی معیوب بات نہیں تھی
-
اس وقت آج کی طرح
رشتوں میں دوریاں نہیں آ ئی تھیں – پاس کے ہی نہیں دور کے رشتےداروں میں بھی میل ملاپ اور آنا جانا رہتا تھا –۔ حسن آرا بیگم
یا خالدہ خانم کی کوئی نہ کوئی عزیز یا محلے والیاں شام کو ملنے آجاتیں – کسی کا بچہ
بیمار ہوتا تو تعویز لینے یا د م کاپانی لینے آتی تھیں – اللہ کے حکم سے اکثر شفا
بھی ہو جاتی تھی –۔ حسن آرا بیگم کو سب امی جا ن کہتے تھے، – کوئی خاتون کمزوری یا
چکر کی شکایات کرتیں تو کوئی معجون ،مربہ یا خمیرہ -
بد ہضمی کے لیے چورن
وغیرہ دے دیا کرتی تھیں۔ – ان کے والد حاجی ظفراللہ شہر کے نامی حکیم تھے، بچپن سے
ذہین تھیں – کوئی بیٹا تو تھا نہیں ، باپ بہت کچھ انھیں ہی بتاتے رہتے تھے – طب کی
کتابیں بھی پڑھ لیتی تھیں۔چھوٹی موٹی تکلیفوں کے نسخہ بھی معلوم ہو گئے تھے۔ – باپ
نے انتقال سے پہلے اپنی ساری دوائیں انھیں دے گئے تھے اور وصیت کر گئے تھے –۔
" بیٹی اپنا
علم تمھیں سونپ رہا ہوں – معمولی نزلہ زکام ، کھانسی ،سر درد ، بخارو د ست کی دوائیں
دینا تو جانتی ہی ہو – غریبوں کی مدد کروگی تو خدمت خلق بھی ہوگا اور ثواب بھی ملے
گا –۔
تقریباً بیس سال سے وہ غریبوں کا دکھ درد بانٹ
رہی تھیں – گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا -برابر دوائیں منگواتی رہتی تھیں ۔ – بختیار
حسین بھی غریبوں کی بھر پور مدد کرتے تھے -کتنے لوگوں کو اپنے اثر ورسوخ سے نوکری دلواتے
تھے -اسکول میں غریب بچوں کی فیس اور کاپی کتابیں مہیا کراتے تھے – ۔ غریب دامن پھیلا
کر انھیں دعا ئیں دیتے تھے
-
بختیار حسین کے بیٹے
تبریز حسین گاؤں سے ابھی لوٹے تھے ۔ – ہاشم گھر کے پرانے خادم تھے – وہ دوڑ کر چمچماتے
کٹورے میں پانی بھر لائے –۔
تخت پر حسن آرا بیگم
پا ن لگا رہی تھیں – بیٹے انھیں کے پاس بیٹھ گئے-
" امی جان
گاؤں کے سبھی لوگ بہت یاد کر رہے ہیں – کہہ رہے تھے کہ اماں جا ن اور بہو بیگم کو
آئے بہت عر صہ گزر گیا۔ – کچھ دن ہمارے ساتھ رہتی ہیں تو مولا قسم ہمارا دل خوش ہو
جاوے ہے – کیسی اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں – پیغمبروں کے قصے سناتی ہیں – "۔
ماں کے لبوں پر مسکراہٹ
آگئی – " ہم بھی یاد کرتے ہیں – ذرا سردی کھٹک جائے تو چلیں گے – عظیمہ کی بیٹی
کیسی ہے -دوا سے کچھ فائدہ ہوا اسے؟"
" با لکل
ٹھیک ہو گئی – بڑی د عا ئیں دے رہی تھی
– "
" دین دیال
رام پیاری کا جھونپڑا بنوا دیا تم نے – رسی بٹ بٹ کر ہاتھ میں گٹے پڑگئے ہیں بیچاروں
کے -مر ہم دے آئی تھی کہ روز رات کو لگا کر سونا -
"امی جان
اس لیے تو سب آپ کو یاد کرتے ہیں – اجمیر بی کی بیٹی کا گونا ہو گیا – وہ دوسرے گاؤں
چلی گئی ہے – آپ نے جو سامان دیا تھا اسے پا کر خوشی سے رونے لگی – بولی اماں جی نے
تو ہماری عزت بڑھا دی – ہم شکریہ کیسے ادا کریں – بیچار ے بابو لال کے دادا چل بسے
– " تبریز حسین نے پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوے کہا –۔
’’سائرہ کی
ماں نے بیٹی کا رشتہ کہیں پکا کیا یا نہیں ؟‘‘ حسن آرا نے پوچھا -
" ابھی نہیں
، ہاں ایک خوش خبری ہے – سرکار ہمارے گاؤں میں اسکول بنوانے کے لیے زمین دے رہی ہے
– میں نے عرضی دی تھی –۔
"
" یہ تو بڑی
اچھی خبر سنائی – تعلیم بہت ضروری ہے لڑکے لڑکیوں ، دونوں کے لیے –"
خالدہ خا نم باورچی
خا نے میں ناصرہ کے ساتھ کھانا بنوا رہی تھیں – ناصرہ ہاشم کی بیوی تھیں۔ – دونوں پچھلے
تیس سال سے حویلی کے پچھوا ڑ ے خادموں کے لیے
بنے چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے -وہیں دوسرے گھر میں سلیم اور نسیمہ رہتے تھے -ایک کواٹر
میں سکھیا اور اس کے بیوی بچے رہتے تھے – پہلے رواج تھا کی خادموں کے لیے حویلی کے
احاطے میں ہی گھر بنوا دیتے تھے – تاکہ انھیں آسرا مل جائے کیونکہ اکثر گھر گاؤں
والوں کے ہی ہوتے تھے –۔
ارے چھوٹو! ادھر تو
آ-
"جی مالکن
نمستے " – چھوٹو نے ہاتھ جوڑ د ئے –۔
" ابھی برسات شروع ہونے
والی ہے- کچھ اچھے پھولوں کے نئے پود ے لے آؤ-
کیلے ،آ م ، جامن
،انار ، پپیتے اور ہاں بانس کے بھی نئے پیڑ لگا دو – گھاس بھی بڑی ہو گئی ہے – پام
اور گل مہر کے درخت کے پودوں کو بھی لگاؤ –"۔
" جی میں
کل ہی لے کر آتا ہوں –۔
"
" گاؤں گئے
تھے اپنے ، ماں کیسی ہے ؟"
" کیا بتائیں
، بہت روتی تھی ، تو ہمیں چھوڑ کر مت جا – کون گھڑی بھگوان جی کا بلاوا آ جائے –"
" کون دیکھ
بھال کر رہا ہے۔ ؟"
" ہمارے بھائی
کی بٹیا میرا دیکھ بھال کر رہی ہے – پر اب وہ بھی کہہ رہی تھی کہ دادی کو غصہ بہت آوے
ہے – کھانا بھی نہیں کھاتی ہے – بہت منوہار کرکے کھلاوے ہیں – کتنا سمجا ت ہیں نہ کھا
ئے گی تو چل بھی نہیں پا ئے گی – پر کہنا مانے تب نا ! ہماری تو ایک نہ سنے ہے – بابا
تو ہی سمجھا۔ –"
" ماں کو
یہاں لے آؤ – علاج بھی ٹھیک سے ہو جائے گا – میں تو کتنے دن سے کہہ رہی ہوں – ماں
کو اپنے سا تھ رکھو – علاج بھی ہو جائے گا اور تمھیں دیکھ کر اس کا من چنگا رہے گا –"
" گلتی ہو
گئی – اگلی بار جا ئیں گے تو لوا لا ئیں گے –"
" نہیں ،
کل ہی جاکر اسے لے آؤ – کل کلاں کو کچھ ہو گیا تو ہم رب کو کیا منہ دکھائیں گے –
تمھارے ناتے ہماری بھی تو کچھ ذمہ داری ہے – اماں جی کی آواز میں غصہ تھا –۔
خالدہ خانم کی بیٹی
نکہت بمبئی پڑھنے گئی ہوئی تھی – خالدہ کی بہن سمینہ بمبئی میں تھیں- وہ گھاٹ کوپر
میں رہتی تھیں ۔ – بمبئی کی تعلیم بہت اچھی تھی –، سمینہ کی بیٹی آصفہ اور نکہت میں
بہت محبت تھی – دونوں چرچ گیٹ کے لا کالج میں پڑھ رہی تھیں۔ – اب دونوں فائنل ائیر
میں تھی – پہلے تبریز حسین کا خیال تھا کہ بیٹی کو علی گڑ ھ مسلم یو نیورسٹی میں بھیجیں
– لیکن آصفہ نے اپنے خا لو جا ن اور خالہ جان سے ضد کی کہ وہ اور نکہت ساتھ میں پڑھیں
گے۔ – نکہت کو بھی بڑے شہر میں پڑھنے کا شوق تھا – حالانکہ ماں باپ کی جدائی بھی شاق
تھی-ماں بھی اپنی اکلوتی بیٹی کو کسی صورت بھیجنے کو راضی نہیں تھیں- لیکن بیٹی کی
ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے- اب ہوتا یہ تھا کہ یا تو ماں باپ بیٹی سے ملنے بمبئی جاتے
تھے یا دیوالی کرسمس یا گرمی کی چھٹیوں میں سمینہ دونوں کو لے کر بہن کے گھر آجاتی
تھیں- وہ برسات کی ایک شام تھی - کالے کالے بادلوں کی پرت پر پرت چڑھی چلی آ رہی تھیں۔
ابھی شام کے پانچ ہی بج رہے تھے لیکن اندھیرا دیکھ کر لگتا تھا کہ سات بج رہے ہیں
– ہلکی ہلکی پھوار بھی آ رہی تھی -سامنے دورتک باغ پھیلا ہوا تھا – جس میں آ م، پپیتا،امرود
، کیلا ، بیل ،چکوترا، انار،املی اور جامن وغیرہ کے درخت تھے- دوسری طرف گل مہر ،پام
نیم کے سر سبز و شاداب درخت اگے ہوئے تھے –۔ باغ کے درمیان میں گلاب ،چمیلی ، ہار سنگھار
، چمپا ،گل عباس ،گل داؤدی ،موگرا اور بھی پھو لوں کے پو دے تھے۔ – گملوں میں بھی رنگ برنگ کے پودے تھے
– کئی طرح کے کیکٹس بھی تھے
-
شمالی سمت ترکاریوں
کے پودے اپنی بہار دکھلا رہے تھے۔ – مالی نے کل ہی بتایا تھا کہ اس نے ٹماٹر ،لیمو
، ہری مرچ، کریلا، تور ئی ،ہرا دھنیہ، پودینہ – بھنڈی کے نئے بیج بھی بوئے تھے – تاکہ
ترکاری کواٹر میں رہنے والوں کو مل جائے -
" ارے نکہت
بٹیا ! ہم تمھیں کھوج رہے تھے – ہم نے سب کے لیے گرما گرم چا ئے اور پکوڑیاں بنائی
ہیں -سب چمن والی چھتری میں آپکی راہ دیکھ رہے ہیں –۔
ناصرہ نے بڑی شفقت
سے نکہت کے سر پر ہاتھ پھیرا –۔
" ارے واہ
! اس وقت ہمارا جی چا ئے کے ساتھ سچ مچ گرما
گرم پکوڑیاں کھانےکو چاہ رہا تھا – تم کتنی اچھی ہو ،بوا ! "
نکہت نے مسکراتے ہوے
کہا – ناصرہ کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی ،وہ نکہت کو اپنی بیٹی جیسا ہی پیار کرتی
تھی –۔
چمن میں ایک بہت بڑی
اور خوبصورت چھتری بنی ہوئی تھی – بیچ بیچ میں کئی کئی بانس ساتھ میں لگے ہوئے تھے
اور ان پر پھولوں والی بیلیں لپٹی ہوئی تھیں –۔
بیچو بیچ آبنوسی لکڑی
کی ایک بڑی گول میز پڑی ہوئی تھی اور آبنوسی کرسیاں تھیں – گھر کے سبھی لوگ وہاں بیٹھے
تھے ۔
’’ السلام
علیکم !‘‘
’’ وعلیکم
السلا م ! آؤ بیٹی ،ہم تمھارے ہی منتظر تھے – " دادا جان نے اسے اپنے پاس والی
کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
" یہ بتا
یئے وکیل صاحبہ کہ آپ کی وکالت کیسی چل رہی ہے – آپ تو چاہتی ہوں گی کہ لوگ خوب جھگڑا
کریں تاکہ آپ کی وکالت چمکے – " دادا جان نے پوتی کو چھیڑا۔
" دادا جان
! اب ہم اتنے برے بھی نہیں ہیں کہ لوگوں کو جھگڑا کرتے دیکھ کر خوش ہوں کہ ہماری دکان
تو چل رہی ہے – سچ تو یہ ہے کہ لوگ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرتے ہیں کہ مجھے
بڑی کوفت ہوتی ہے – میں تو زیادہ تر اپنے آپ ہی دونوں فریقوں کے بیچ جھگڑا نپٹا دیتی
ہوں – عدالت پہنچنے ہی نہیں دیتی – خواہ مخواہ وقت اور پیسے کی بربادی -چھوٹی سی زندگی.....
اسے بھی جہنم بنا لینے میں کون سی عقل مندی ہے ؟"
" شاباش
! ہمیں اپنی بٹیا سے یہ ہی امید تھی – توڑنا بہت آسان ہوتا ہے – جوڑنا بہت مشکل اور
دشوار کام ہے -میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو زندگی بھر عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے
ہیں – نہایت افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کو دیکھ کر – دین ا ور دنیا دونوں برباد – ا
للہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا
–-
"دادی جان
مجھے آپ سے بہت شکایات ہیں –" نکہت نے منہ بسورتے ہوئے کہا – ۔
" اے بی بی
! خدا خیر کرے – تمھارے دشمنوں کی طبیعت تو کہیں ناساز نہیں ہے –"
" قطعی نہیں سب بھلے
چنگے ہیں – امی جان ذرا آپ ہی دادی جان کو بتائیے کہ ہمیں کیا شکایت ہے ؟"۔
" کیوں ہمیں
ناحق کانٹوں میں گھسیٹتی ہو – نکہت ! ہمیں تو تم نے کبھی کچھ نہیں کہا –" خالدہ
خانم نے گھبرا کر میاں کو دیکھا
-
"امی جان
بتا دیجیے نا ! چھپانے کی کوئی بات تھوڑی نہ ہے –" نکہت نے منہ بنا کر کہا –۔
" ا ے لڑکی
عقل کے ناخون لو – " خالدہ روہانسی ہو گئی –۔
" ارے خانم
ہماری بیٹی کو اگر ہم سے کوئی شکایت ہے تو بتانے میں حرج ہی کیا ہے ؟" دادی نے
پیار سے پوتی کو دیکھا –۔
" مجھے تو
اس نے کوئی شکایت نہیں کی –" ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے – ۔
" شکایت وکایت
--- یہ آج کون سا دکھڑا لے بیٹھی ہو ؟ "۔
" خا لدہ
حیرانی اور پریشانی سے بیٹی کو دیکھ رہی تھی انھوںنے تو کبھی شکایت کرنا سکھایا ہی
نہیں تھا – ۔
" آپ نہیں
بتاتی نا تو ہم بتاتے ہیں کہ ---کہ ہمیں اپنی پیاری دادی جان سے کیا شکایت ہے ؟ نکہت
نے اٹھ کر ما ں کے گلے میں با نہیں ڈال دی۔
’’ ہمیں تو
اپنی اتنی پیاری دادی جان سے کوئی شکایت ہی نہیں ہے‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس دی -
" الله قسم
! تم نے تو ہمیں کٹگھرے میں ہی کھڑا کر دیا تھا –"۔
" وکیل ہوں
نا ! نکہت ہنس پڑی – گھر کے سبھی لوگ ہنسی میں شامل ہو گئے –۔
" للن کو
ہم گاؤں بھیج رہے ہیں – ان کی بیٹی سریتا اور شیلا کی بیٹی نے بھی انٹر پاس کر لیا
ہے -اب وہ یہیں رہ کر اپنی تعلیم پوری کریںگی – کوٹھی کا ایک کمرہ ان کے لیے صاف کرا
دیجیے –"
" امی جان
! ناظمہ ، تسنیم اور عائشہ نے بھی انٹر پاس کر لیا ہے – انھیں بھی بلا لیجیے ، سب ساتھ
رہیں گی – میں تو چاہتا ہوں کہ گاؤں کی کوئی بھی بچی تعلیم سے محروم نہ رہیں –
" تبریز حسین نے کہا –۔
" انشاء الله
ایسا ہی ہوگا – سرکار نے جو زمین دی ہے – اس کا افتتاح اگلے ہفتے ہوگا۔ – ڈگری کالج
بن جائے گا تو سب وہیں رہ کر آگے پڑھ سکتے ہیں – لوگوں نے بھی بہت مدد کی ہے – بڑے
لوگوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دریا دلی سے ہمارے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مدد
کی ہے اور حکومت بھی بھرپور مدد کر رہی ہے۔ – لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ کالج ہوگا
– ہوسٹل بھی بنوائیں گے تاکہ اندر کے گاؤں سے آنے والے بچے بھی وہیں رہ کر پڑھ سکیں۔
– امی جان آپ کا خواب ضرور پوراہوگا – دین اور دنیاوی دونوں کی تعلیم ضروری ہے حکومت
بھی ہماری مدد کر رہی ہے
-
گاؤں میں جشن کا ماحول
ہے -کالج اور ہاسٹل بن کر تیار ہو چکے ہیں- آج وزیر تعلیم افتتاح کر رہے ہیں -حسن
آرا بیگم نہایت خوش ہیں –ا علی تعلیم سب حاصل کر سکیںگے – کوئی تعلیم سے محروم نہیں
رہے گا۔ – سورج نکلتا ہے تو روشنی چھا جاتی ہے – تعلیم روشنی ہی ہے – استاد استانیوں
کے رہنے کے لیے کالج کے ساتھ ہی بلڈنگیں بن چکی ہیں تاکہ جن لوگوں کے پریوار ہیں وہ
اپنے پریوار کے ساتھ رہ سکیں –۔
وزیر تعلیم نے کہا
--- " اس طرح اگر آپ لوگ آگے بڑھ کر خود کوشش کریں گے تو تعلیم کو بہت فروغ
ملے گا ۔ – گاؤں میں بدلاؤ لا ئے بنا ہماری ترقی ادھوری رہے گی- ہمیں دیہات ،قصبہ
اور چھوٹے شہروں کو مین اسٹریم میں شامل کرنا ہے – جس طرح چھوٹے پودے کو زیادہ دیکھ
بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ درخت بن جاتا ہے تو اپنے آپ پھلتا پھولتا ہے –۔ چھوٹے
شہر ،گاؤں ،قصبے کی ترقی کا مطلب ہے سب کی ترقی – اس لیے ہمارا مقصد سب کی بنیادی
ضرورتوں کو پورا کرنا ہے - تعلیم آج کی بنیادی
ضرورت بن چکی ہے – آج ہم آپ کو خوش خبری دینا چاہتے ہیں یہاں کرشی کالج بھی
بنے گا اور صاف صفائی کے لیے گاؤں کو ایوارڈ دیا گیا ہے - اس گاؤں نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر جذبہ سچا ہو
اور محنت بھرپور ہو ،دونوں میں کمی نہ ہو تو بہت جلد کایا پلٹ ہوسکتی ہے -حسن آرا
کو بھی وزیر تعلیم نےاعزاز دیا ہے۔
خواب تو انھیں کا تھا !
Dr.Nghma Javed Malik
B-1,Gautam Apartment
Seven Bungalows
Andheri West
Mumbai-400053 (M.S)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں