20/11/23

لذت کش آلام کا شاعر: سید فضل المتین چشتی:نورین علی حق

اجمیر شریف آٹھ صدیوں سے نہ صرف مذہبی طور پر برصغیر ایشیا کا مرکز رہا ہے بلکہ معتدل و متوازن مذہبی افکار کا مرکز بھی رہا ہے اور وہاں کے خدام و سید زادگان نے ہمیشہ دانشوری کا بھی ثبوت دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اجمیر شریف کے خدام اور سید زادگان کی نمائندگی رہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی ذاتی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے بلکہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی نظر کرم بھی ہے کہ وہاں سے ہمیشہ علم و تعلم کا تعلق مضبوط و مستحکم رہا ہے۔ انہی با اثر، ذی علم اور دانشورحضرات میں ایک اہم نام حضرت مولانا سید فضل المتین چشتی  کا بھی ہے، جن کی پیدائش اجمیر شریف میں 1939 میں ہوئی اور وفات بھی اجمیر شریف میں ہی2023 میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ خادم خواجہ کی حیثیت سے پورے ملک میں شہرت رکھتے ہیں،اس کے ساتھ ہی وہ ایک شیخ طریقت کے طور پر بھی بخوبی جانے جاتے ہیں۔

 سید فضل المتین چشتی اپنی سادگی، تواضع، انکساری اور اخلاق کی وجہ سے بھی عوام میں خاصے مقبول رہے ہیں، ان کے مریدین و متوسلین اور عقیدت مندوں کا حلقہ حیدرآباد دکن سے بنگال تک اور کشمیر سے کنیاکماری تک پھیلا ہوا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے حلقے میں بھی ان کی ایک منفرد اور ممتاز شناخت رہی ہے۔ سید فضل المتین چشتی کو اگر ہم علمی پیمانے پر پرکھنے اور ناپنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں بحیثیت مدیر، بحیثیت شاعر، بحیثیت نثر نگار اور بحیثیت دانشور بہت نمایاں نظر آتے ہیں، بحیثیت مصنف بھی ان کا مقام اور مرتبہ مسلم ہے۔ ان کی متعدد کتابوں میں ایک شعری مجموعہ جس کا عنوان ہے کلام، 1973 میں راجستھان ساہتیہ اکادمی، ادے پور سے شائع ہوا، اس کے علاوہ انھوں نے اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی کہ بر صغیر ہندو پاک کے اردو حلقے کو اجمیر شریف کے شعراسے متعارف کرایا جائے، چنانچہ انھوں نے موجودہ اور نمائندہ شعرائے اجمیر کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جومرجع کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے علاوہ ہم سب جانتے ہیں کہ برصغیر ہندو پاک میں چشتی صوفیا نے ہم آہنگی، مساوات، یگانگت، اعتدال اور توازن کا جو درس دیا ہے، اس کے بانی مبانی حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں لہٰذا انہیں نہ صرف برصغیر ایشیا بلکہ پوری دنیا میں ایک عظیم صوفی کے طور پر شہرت حاصل ہے، ان کے علاوہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت خواجہ نظام الدین اولیااور حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے علمی و فکری، مذہبی اور صوفیانہ و خانقاہی خدمات سے بھی ہم سب آشناہیں۔حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلیؒ کے مرید و خلیفہ حضرت علامہ کمال الدین چشتیؒ ہیں، جن کے بارے میں عمومی طور پر صوفی تذکرے اور صوفی تاریخ کی اہم کتابیں بھی خاموش ہیں لیکن سید فضل المتین چشتی نے حضرت علامہ کمال الدین چشتیؒ پر تحقیقی کارنامہ انجام دیا اور تذکرہ خواجگان چشت گجرات کے عنوان سے کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں نہ صرف علامہ کمال الدین چشتی اور ان کی اولاد و امجاد کی تفصیلات درج ہیں بلکہ ان کے اہم خلفااور خلفاکے خلفاکی سوانح اور تذکرے بھی موجود ہیں، جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سید فضل المتین چشتی کا اشہب قلم اپنی جودت اور توانائی کا ثبوت دیتا ہے وہیں وہ بحیثیت خطیب بھی شہرت رکھتے ہیں۔ سید فضل المتین چشتی کے دو خطبوں کا مجموعہ’متین میاں کی دو تقریریں‘ کے عنوان سے بھی شائع ہو چکا ہے۔ سید فضل المتین چشتی مصنف کے علاوہ اہم مدیر بھی ثابت ہوئے ہیں یہ حسن اتفاق ہے کہ راجستھان ساہتیہ اکادمی نے جب 1964 میں اپنا اردو ترجمان نخلستان، ادے پور شائع کرنا شروع کیا تو آپ اس رسالے کے پہلے مدیر نامزدکیے گئے اور اپنی صحافیانہ مدبرانہ، دانشورانہ اور مدیرانہ صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ ان کے اداریے اختصار میں ایجاز کا بین ثبوت ہیں۔ سید فضل المتین چشتی دو بار رسالہ نخلستان، ادے پور کے مدیر رہے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ذاتی صرفے پر اجمیر شریف سے بارگاہ کے عنوان سے ایک ماہنامہ جاری کیا، اس رسالے میں انھوں نے جہاں ادبی مضامین، ادبی تحقیقات، ادبی تنقید اور شاعری کوشائع کرنے کا التزام کیا، وہیں اس بات کا بھی بھرپور خیال رکھا کہ صوفی ادب کو اس کی اپنی اصلی شناخت کے ساتھ پیش کیا جائے، صوفی ادب کو جس نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ انھوں نے پیش کیا وہ دیگر متصوفانہ رسائل شائع کرنے والے مدیران کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سید فضل المتین چشتی جہاں مدیر، مصنف اورمحقق کی حیثیت سے ادبی دنیا میں متعارف ہیں، وہیں ان کی شناخت بحیثیت شاعر بھی بہت توانا اور مستحکم ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ ان کی دیگر علمی اور فکری خدمات سے زیادہ ان کی شاعری شہرت رکھتی ہے وہ نہ صرف غزل کے بہترین شاعر تھے بلکہ پر گو نظم نگار بھی تھے ان کے کلام بیسویں صدی کی ساتویں، آٹھویں اور نویں دہائیوں میں بکثرت شب خون، تحریک، نخلستان اور بارگاہ، اجمیر میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے معروف رسالے استعارہ نے بھی انھیں خاصا مقام دیا اور ان کے کلام کو شائع کیا۔

ان کے شعری سرمایے میں تنہائی غالب عنصر کے طور پر سامنے آتی ہے ان کی غزلیں ہوں یا نظمیں ہر جگہ تنہائی اور تنہائی کی رنگا رنگی، زندگی اور زندگی کی نیرنگیاں  بکھری نظر آتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ سید فضل المتین چشتی انسانی تاریخ کی تنہائی کے احساس کو اپنی روح میں شامل کر کے عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں، ہر دوسرے، تیسرے شعر میں تنہائی جا بجا اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہے، تنہائی ان کے یہاں کسی ایک معنی میں نہیں آتی، کسی ایک رنگ میں نہیں آتی، تنہائی وہاں متنوع ہے، رنگا رنگ ہے۔ کہتے ہیں انسان کی روح اور اس کے دشت جسم میں تنہائی کا احساس ہر زمانے اور ہر عہد میں رہا ہے جس کا اظہار اپنے اپنے طریقے اور سلیقے سے انسان کرتا رہا ہے لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں سید فضل المتین چشتی جس طرح تنہائی کا اظہار اور تنہائی کے احساس کا اظہار کرتے ہیں وہ لائق دیدوداد ہے۔ اتنی تنہائی اتنی اداسی اتنی مایوسی اتنی سیاہی جہاں کہیں ہمیں نظر آتی ہے ہم حیران و ششدر رہ جاتے ہیں، ہم اس کے طلسم ہائے معانی پر غور کرنے لگتے ہیں لیکن ہم طلسم ہائے معانی پر بس غور ہی کر سکتے ہیں۔ شاعر جس احساس یا جس حسی پیکر کے ساتھ تنہائی کو پیش کرتا ہے اس کے تجربے سے گزرنا ہمارے لیے یا عام فہم لوگوں کے لیے یا کہنا چاہیے کہ غیر شاعر کے لیے آسان کام نہیں ہے       ؎

میں اجنبی نہیں ہوں تیرا ترجمان ہوں

خاموشیوں کے شہر کبھی دے صدا مجھے

میرا وجود بن گیا صحرا کی تشنگی

تیرے بدن کی چاہیے اب تو گھٹا مجھے

 جن سے تھی پہچان وہ سب جا بسے ہیں دور دیس

میری بستی میں رہا میرا شناسا کون ہے

خون کے رشتے بھی جھوٹے ہو گئے ثابت متین

 کس کو میں اپنا کہوں میرا شناسا کون ہے

تنہائیوں میں ہجر کی یاد آگیا ہے کون

کھلنے لگے ہیں زخم مہکنے لگی ہے رات

 زندگی تجھ سے کسی روز بچھڑ جاؤں گا

 ایک پتے کی طرح شاخ سے جھڑ جاؤں گا

 مت پوچھو کہ کیا ہم پہ گزرتی ہے تیرے بعد

بیٹھے ہیں جہاں صبح وہیں شام ہوئی ہے

مجھ کو تنہا جو پا رہی ہے رات

خوف سے سہمی جا رہی ہے رات

کتنے سنسان راستے ہیں متین

کتنی چپ چاپ جا رہی ہے رات

 جانشیں کس کو کریں اپنا بنائیں کس کو

 کوئی ہم راہ نہیں راہ دکھائیں کس کو

 دشت تنہائی ہے اور درد کا لمبا رستہ

 ہم سفر کوئی نہیں حال سنائیں کس کو

سید فضل المتین چشتی کے اشعار میں موجود تنہائی جس طرح اپنے بال و پر پھیلاتی ہے اور وسیع تر امکانات پر پھیل جاتی ہے تنہائی کا یہ احساس ان کے یہاں غیر شعوری طور پر نہیں آیا ہے. ان کی تنہائی کا اپنا ایک ذاتی تصور ہے اس کی ایک ذاتی تعبیر ہے، جس سے وہ سر مو انحراف کرنا گوارا نہیں کرتے، چونکہ ان کی ادبی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کا جو عہد اور زمانہ ہے،وہ جدیدیت کا زمانہ ہے اور جدیدیت کے زمانے میں تنہائی کو جو اہمیت حاصل تھی یا تنہائی کی جو افادیت تھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ہم سب اس افادیت اور اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ نہ صرف سید فضل المتین چشتی بلکہ خود شمس الرحمن فاروقی صاحب بھی تنہائی کی وکالت میں سرگرداں نظر آتے ہیں، سید فضل المتین چشتی تنہائی کے حوالے سے رسالہ تحریک دہلی، مئی 1977 کے شمارے میں مباحثے کے کالم کے تحت یوں گویا ہیں:

’’ تنہائی کا احساس انسان کا مقدر ہے، یہ المیہ اس کے جبلی احساس کا جزو لا ینفک ہے۔ تنہائی کے احساس کا اگر سماجی نظاموں سے کوئی تعلق پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ محض نسبتی اور وقتی تعلق ہوگا، وسیع کائنات میں انسان کی ذات از ازل تا ابد تنہا ہے۔ تنہائی کی تعریف آسان نہیں ہے، یہ مستقل اور مفصل بحث کا موضوع ہے۔‘‘

چشتی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ تنہائیوں کی بات کرتے ہوئے صرف انسانوں کی عدم موجودگی یا ایسے انسانوں کی عدم موجودگی کا نوحہ نہیں پڑھتے، جس سے بات کی جا سکے بلکہ وہ تنہائیوں کی بات کرتے ہوئے طرح طرح سے تنہائیوں کے معانی اپنے اشعار میں پیدا کرتے ہیں اور ندرت و لطافت پیداکرتے ہیں۔ کئی مقام پر طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے کہ اس طرح سے بھی تنہائی کو دور کرنے کا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے، جیسے مندرجہ بالا اشعار میں ایک شعر میں نے نقل کیا ہے           ؎

میں اجنبی نہیں ہوں تیرا ترجمان ہوں

خاموشیوں کے شہر کبھی دے صدا مجھے

 بظاہر دیکھا جائے تو اس میں تنہائی کی تو بات ہو رہی ہے لیکن آپ غور کریں کہ مصرعہ ثانی میں وہ شہر خموشاں کو مخاطب کر رہے ہیں، اپنی تنہائیوں سے ایک انسان اس طرح  مضطرب و مضمحل اور پریشان ہے کہ وہ جمادات کو مخاطب کر رہا ہے کہ تو مجھے آواز دے، یہ جو ندرت ہے، اس طرح کی ندرتیں سید فضل المتین چشتی کی شاعری کو حسی اور محسوساتی شاعری میں امتیازی مقام پر لا کھڑا کرتی ہیں. جمادات نباتات اس طرح کی اشیاکو مخاطب کرنے کا چلن ہمارے یہاں کم کم ہے لیکن جن شعرا، ادبااور تخلیق کاروں کے یہاں یہ طرز اور یہ ادا پائی جاتی ہے ان کے ادب کا کینڈا ذرا مختلف اور منفرد نظر آنے لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ مقامات ہیں یا کہنا چاہیے کہ یہی وہ مجذوبانہ اور قلندرانہ اوصاف ہیں، جو سید فضل المتین چشتی کے مقام کو بحیثیت شاعر مسلم کرتے ہیں، ایک جگہ اور آپ دیکھیں کہ   ؎

 مجھ کو تنہا جو پا رہی ہے رات

 خوف سے سہمی جا رہی ہے رات

 اس شعر کے مصرعہ ثانی میں پھر وہ ایک کھیل کھیلتے ہیں جسے ہم تقلیب لفظ و معنی کا کھیل کہہ سکتے ہیں۔رات علامت ہے خاموشی کی، رات تنہائی کا، اداسی کا سیاہی کا استعارہ ہے، جس سے انسان خوف کھاتا ہے، رات کے سناٹے میں انسان تنہا اور اکیلا کہیں جانا بھی پسند نہیں کرتا چونکہ اسے خوف آتا ہے، وہ اپنے ارد گرد آس پاس دیکھتا ہے خوف کے مارے، ڈر کے مارے، لیکن سید فضل المتین چشتی یہاں تقلیب لفظ و معنی کا کھیل کھیل رہے ہیں کہ یہاں اس شعر کے مصرعہ ثانی میں رات خوف سے سہمی جا رہی ہے، انسان خوف سے نہیں سہم رہا ہے،رات سے انسان ڈر نہیں رہا ہے، بلکہ رات خوف سے سہمی جا رہی ہے، انسان کی درندگی کا یہ چہرہ اردو شاعری میں شاذ و نادر ہی پیش کیاگیا ہے، جہاں رات، انسان کی تنہائی، اس کے باطن کی سیاہی، اجاڑپن، تاریکی اور تنہائی کے خلاف اس کے خاموش مرثیے سے سہمی جارہی ہے۔

بے جان اشیاکے منھ  میں زبان رکھنے اور ان کی آنکھوں میں بصارت رکھ دینے کا عمل ان کے یہاں مسلسل جاری رہتا ہے، وہ کہیں ٹھہرتے نہیں، وہ ٹھہر کر یہ نہیں سوچتے کہ ہم بے جان اشیا سے کس طرح بات کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں یا انہیں دیکھنے کے لیے مخاطب کر سکتے ہیں یا ان سے دیکھنے کا تقاضا کر سکتے ہیں۔ قدرت کی تمام تخلیق کردہ اشیاان کی شاعری کے دائرہ کار میں آتی ہیں وہ اشیااور اجرام فلکی پر غور کرتے ہیں اور انھیں مخاطب کرتے ہیں تو کہیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ ہو رہے ہیں۔ عام فہم اذہان جن اشیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے وہ وہاں بھی زبان اور آنکھیں رکھ دیتے ہیں پھر ان سے باتیں کرتے ہیں         ؎

مے لاؤ غزل گاؤ قریب آؤ شب ماہ

شرمندہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی ہے

شاعر یہاں اپنی تنہائی اور اداسی سے اکتا گیا ہے اور اکتا کر  چودھویں کی شب کے چاند سے شرمندہ ہو رہا ہے کہ اس پورے چاند کی رات میں بھی مجھ پر اداسی اور تنہائی کا احساس غالب ہے، یہ جو اداسی کا ماحول ہے اسے وہ ختم کرنا چاہتا ہے، اسی لیے کہتا ہے مے لاؤ غزل گاؤ قریب آؤ شب ماہ شرمندہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی ہے،اجرام فلکی کی طرف مخاطب ہو کر انھوں نے چاند کو مخاطب کیا ہے بلکہ چاند کے شرمندہ ہونے کی بات کی ہے۔

چشتی صاحب زندگی کرنے کے لیے بھی خاصی تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں، زندگی کو مختلف چشموں سے وہ دیکھتے ہیں، زندگی کی رنگارنگی پر غور کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کے تمام رنگوں کو وہ قریب سے دیکھ سکیں لیکن زندگی کو دیکھنے اور زندگی کو سمجھنے کی فکر میں چلتے چلتے وہ تھک بھی جاتے ہیں ٹوٹنے لگتے ہیں ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں وجودی جھنجھلاہٹ در آئی ہے، زندگی کے حوالے سے ان کی شاعری میں طرح طرح کے اشعار آئے ہیں، کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ختم ہوتے ہوتے لودے اٹھتی ہے تو کہیں چلتے چلتے تھک کر بکھر جانا چاہتی ہے، یہ زندگی کے آلام، مصائب غموم، اضطراب، اضمحلال اور مسائل کو جتنے ماہرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ زندگی یا شاید زندگیوں سے کافی گہرا رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کی تفہیم کی فکر میں انھوں نے اپنی زندگی گزار دی ہو، جس طرح ان کی شاعری میں تنہائی اپنا رنگ چولااور لباس بدل بدل کر آتی ہے، اسی طرح زندگی بھی اپنا رنگ و روغن اور اپنے چہرے بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے        ؎

کیسے بچائیں دامن احساس و آگہی

لودے اٹھی ہے آج تو خاموشیِ حیات

زندگی تجھ سے کسی روز بچھڑ جاؤں گا

ایک پتے کی طرح شاخ سے جھڑ جاؤں گا

وہ زیست جو لذت کش آلام رہی ہے

وہ زیست ترے نام سے منسوب ہوئی ہے

لٹ گیا ساتھ ترے کچھ نہ رہا زاد سفر

زندگی اور ترا قرض چکائیں کیسے

 مرنے کی ہوس ہے ہمیں دیوانے ہوئے ہیں

جینے کے اگر پاس ہوں آداب تو دیجے

   نظم زندگی

 زندگی/تہ بہ تہ دھند میں/ اپنا چہرہ لپیٹے ہوئے/ چاہتی ہے کہ چھپتی رہے/ کس میں ہمت ہے جو/  اس کو دیکھے! اسے جان لے/ اس کو پہچان لے!!!

زندگی اور اس کے مصائب، موت، خودکشی، گردش ایام، زخم تازہ کا مطالبہ اور جنونی شعری اظہار میرے خیال میں فلسفہ وجودیت کے عناصر اور خام مواد ہیں۔

 یہ فرط فرداً یا اجتماعی طور پر اظہار کا وسیلہ بنیں، بہرحال فلسفہ وجودیت کی تشکیل کرتے ہیں اس طور پر دیکھا جائے تو سید فضل المتین چشتی کی شاعری وجودی بحثوں سے اٹی پڑی ہے، وہ کہتے ہیں        ؎

شعلہ صفت وہ آگ اگلتا دکھائی دے

میرا وجود مجھ کو پگھلتا دکھائی دے

 ٹوٹ کر بکھرا ہے میرے ہاتھ سے میرا وجود

اس جہاں میں مجھ سامحروم تمنا کون ہے

اے گردش ایام کوئی زخم نیا اور

اک موڑ پہ اب عمر رواں ٹھہر گئی ہے

مدت سے کسی درد کا تحفہ نہیں آیا

یا گردش ایام ہمیں بھول گئی ہے

ہر طرف ہے سکوت غم طاری

داستاں کیا سنا رہی ہے رات

ہم سنگ گراں ہیں خس و خاشاک ہیں کیا ہیں

معلوم ہو پہلے کوئی سیلاب تو دیجے

اے گزرے ہوئے لمحو! کوئی نقش ابھارو

آئینہ تخییل پہ اب گرد جمی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سید فضل المتین چشتی کی شاعری میں وجودیت کے تمام عناصر اور اقسام اکٹھا ہو گئے ہیں اور ہر طرح سے وہ اپنے شعر کو وجودی فلسفے سے جوڑتے نظر آتے ہیں، اس کی کئی وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ جب ان کی شاعری اپنی معراج کو پا رہی تھی تو وہ عہد جدیدیت کا عہد تھا اور دوسری طرف وہ خود ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، جس کا گہرا تعلق فلسفہ وحدۃ الوجود سے ہے، بالخصوص ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے صوفیوں نے اپنے اپنے طریقے پر فلسفہ وحدۃ الوجود کی تشریح و تعبیر کا کارنامہ انجام دیا ہے، ادیب ہونے کی حیثیت سے فلسفہ وجودیت اورچشتی صوفی ہونے کی حیثیت سے فلسفہ وحدۃ الوجود کا تعلق سید فضل المتین چشتی سے گہرا رہاہے۔ انھوں نے دونوں فلسفیانہ نظریوں سے استفادہ کیا۔

سید فضل المتین چشتی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فلسفے کی ان دونوں قسموں کے سرچشموں سے سیراب ہوتے ہیں اور جب وہ اپنے شعری اظہار کا وسیلہ وجودیت کو بناتے ہیں تو ان کی وجودیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

ان کی نظموں کے موضوعات بھی عموما زندگی کے مسائل، تنہائیاں، تاریکیاں اور دیگر وجودی مسائل سے لبریز ہیں، انھوں  نے جہاں پوری مہارت کے ساتھ غزل گوئی کی، وہیں انھوں نے نظم پر بھی ایک مضبوط ہاتھ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے، اس زمانے میں جب نظم کی ہیئت پر بہت سے سوالات اٹھ رہے تھے تو انھوں نے کہا تھا:

’’موضوع اور ہیئت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، موضوع کے تقاضے ہیئت کو جنم دیتے ہیں اور جدید ادب کے نئے موضوعات کے سبب جو نئی ہیئتی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ لازمی تھیں، یہ تبدیلیاں ادب کے سرمایے میں اضافے کا سبب ہوئی  ہیں، کار آمد ہیں، مفید ہیں اور چراغ سے چراغ جلتا ہے کے مصداق یہ تبدیلیاں اور بھی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔‘‘

ان کی دونوں نظمیں دیکھیں اور ان نظموں میں زندگی سے ان کی دلچسپیوں کا اندازہ کریں۔

انجام

چمکتا ہوا گرم سورج پگھلنے لگا ہے/ جھکا آرہا ہے/ زمیں رقص کرتی ہوئی دھنس رہی ہے/ ہٹی جارہی ہے/ اب انجام اپنا نظر آ رہا ہے:

ایک نظم

زوال آمادہ زندگی کو /بشر کی فکر رسا کے ہاتھوں / گرفت کر کے/ ازل ابد کے تمام رشتے / تلاش کر لو/ کہ حاصل کائنات یہ ہے/یہی ہے سودا وہ آخرت کا / صلے میں جس کے/ ملے گی /اپنی وہ کھوئی جنت/جہاں سے ہم نے سفر کیا تھا/ ہمیں سفر کی سزاملی تھی

سید فضل المتین چشتی نرے شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے بلکہ وہ جہاں ایک باشعور شاعر کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہیں تو وہ ایک دانشور کے طور پر بھی اردو حلقے میں معروف ہیں۔ ان کی کتابیں مختلف حلقوں میں تحسین کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں ان کے اشعار اور ان کا شعری نظریہ نہ صرف جدیدیت پسندوں، بلکہ ما بعد جدید عہد کے پرستاروں کے لیے بھی یکساں طور پر دلچسپی کا سامان ہے، ان کی مذہبی شاعری ہو یا ادبی شاعری غزلیہ شاعری ہو یا نظمیہ ہر جگہ شعور وآگہی کی ایک گہری لکیر نظر آتی ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے، چشتی صاحب نے جو شعری سرمایہ چھوڑا ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، چونکہ اس شعری سرمایے میں نہ صرف عصری حسیت موجود ہے بلکہ مستقبل قریب کے ادبا اور شعراکے لیے وہ شعری سرمایہ نشان راہ بھی ہے۔

 

Dr. Noorain Ali Haque

Near Adam Seva Bhawan

Gali No-5, Wazirabad Village

Delhi- 110084

Mob.: 7011529033, 9210284453

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...