17/11/23

ناشاد اورنگ آبادی: ساحر داؤد نگری

 

اورنگ آباد ضلع سے کچھ دور تاریخی شہر داؤد نگر کے نزد یک قصبہ شمشیر نگر میں عین الحق خاں ناشاد اورنگ آبادی ابن محمد ہدایت اللہ خاں 15 جنوری 1935 کو پیدا ہوئے۔ اس قصبے کو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے دور میں نواب شمشیر خاں نے آباد کیا تھا جو اس دور میں اس علاقے کے صوبے دار تھے۔ جس کا ذکر صوبہ بہا رکے پہلے گورنر جناب آر آر دیواکر نے اپنی تاریخی کتاب ’گلمس آف بہار‘ میں بھی کیا ہے۔ اسی قصبے سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہسپورہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا پھر بی کام کرنے کے بعد وہ محکمہ ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ ریلوے کی ملازمت کے سلسلے میں ناشاد کو گھر سے دور کئی شہروں میں قیام کرنا پڑا، جہاں شعر و ادب کی محفلیں اکثر و بیشتر سجا کرتی تھیں۔ کئی اساتذہ اور مشاہیر شعرا کی صحبت سے فیضیاب ہو نے کے مواقع ان کو ملتے گئے جس کی وجہ سے ان کا شعری ذوق بڑھتا گیا اور شعری صلاحیت بھی نکھرتی گئی۔  اپنے ایک ’چو بولے ‘ میں ناشاد اپنا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں           ؎

مولد ہے شمشیر نگر نزد اورنگ آباد

خوش دل اور خوش ذوق ہیں عین الحق ناشاد

عین الحق ناشاد ہیں شعرا میں مشہور

بچپن ہی سے  رہے گھر سے کوسوں دور

کبھی فرید آباد میں کبھی سمستی پور

ان کو بھول نہ پائے گا ہر گز گورکھپور

ناشاد اورنگ آبادی نے 1965سے باضابطہ شاعری شروع کی، ان کے کئی شعری مجموعے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں پروازِ سخن، لمحے لمحے کا سفر، رختِ سفر، ہم سفر غزلیں قابل ذکر ہیں تو ہندی میں میل کا پتھر، ہم سفر غزلیں شائع ہوئی ہیں۔ ان مجموعوں میں ان کی نظمیں ا ور قطعات بھی ہیں، حمد و نعت بھی، غزلیں بھی۔ اس کے علاوہ ایک کتاب ’غزل کیسے لکھیں‘ دیوناگری میں شائع ہوئی جس میں غزل کے تعلق سے مضامین اور ہندی اردو شعرا کی غزلیں شامل ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ناشاد کو جتنی مقبولیت اردو حلقوں میں ملی ہے اتنی ہی مقبولیت انھیں ہندی میں بھی حاصل ہے۔  ناشاد اورنگ آبادی کی غزلیں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کی غزلیں اور نظمیں داؤد نگر کی مولانا حالی لائبریری کے ترجمان سہ ماہی ’حالی‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں جس کی ادارت خاکسار کے ذمے تھی۔

ناشاد اورنگ آبادی نے گوکہ اردو کی بیشتر اصناف میں شاعری کی ہے لیکن ان کی  اصل شناخت غزلیہ شاعری سے ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری خونِ دل سے لکھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ناشاد کی غزل میں کلا سیکیت کا عنصر ہے لیکن انھوں نے جدیدیت سے بھی رشتہ قائم کیا ہے۔  وہ اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار بالعموم سلیس اور شائستہ انداز میں کرتے ہیں۔ انھیں الفاظ و محاورات کے مؤثر استعمال کا سلیقہ بھی ہے۔ انھو ں نے جہاں اپنے درد کو بیان کیا ہے وہیں زمانے کے تبدیل ہوتے رنگ اور بدلتی قدروں کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔

ناشاد اورنگ آبادی نے زندگی کے ہر چھوٹے بڑے تجربے کو نہایت عمدگی سے اپنے شعری قالب میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کیا۔اشعار سہل، سادہ اورشگفتہ ہیں،جنھیں پڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ نا شاد صاحب کو زبان پرقدرت حاصل ہے۔ انھیں اپنی زبان دانی اور غزل گوئی پر ناز ہے۔

ناشاد اورنگ آبادی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، لیکن انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور ان کی ساری نظمیں پابند ہیں۔ان کی ایک بہت ہی مشہور نظم ہے:

اردو زباں کو سیکڑوں لعل و گہر ملے

خسرو رضا و سید شاد و شرر ملے

فانی ولی و حق سلیمان کی طرح

سودا و ذوق و مومن و داغ و ظفر ملے

یکتائے فن امیر، حسن، درد، اور نسیم

وہ مصحفی و انشا و یاد و اثر ملے

دریائے علم شبلی و حالی سے عہد ساز

اقبال و میر، غالب و جوش و جگر ملے

ساحر، قتیل، حفیظ، خدا بخش سے سپوت

شاداں، شکیل و راسخ و برق و شجر ملے

بیدی و کرشن و پریم و جگن ناتھ و جانثار

اس کو ہر ایک دور میں لختِ جگر ملے

منٹو، سریر، و عصمت و حیدر سے اہل فن

عاکف، یگانہ اور عدم وقت پر ملے

نارنگ و جین کومل و آنند اور سوز

اس کو رفیق وقت کئی بااثر ملے

اعجاز و افتخار و فصا نادم و سرور

فاروقی و سیماب سے کچھ دیدہ ور ملے

مائل، تلوک، کام و آغاز و امتیاز

اوزان اور بحور سے سب باخبر ملے

کشمیری لال و صادق و جاوید اور خموش

اہل کمال و فن کئی اہل نظر ملے

کچھ لوگ اس پہ دل و جاں سے ہیں نثار

ان میں عقیل و حامد و غافل کنور ملے

ہندی کے ساتھ ساتھ جو اردو نواز ہیں

ان میں ترون و شرون و سورج امر ملے

ناشاد کی غزلوں میں دبستان دہلی بھی دیکھنے کوملے گا اور دبستان لکھنؤ بھی لیکن وہ دبستان عظیم آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔  انھوں نے اپنی غزلوں میں جہاں اپنے ذاتی محسوسات اور مشاہدات کو پیش کیا  وہیں وہ اپنے عہد کے مسائل سے بھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ خاص طور پر جس طرح کے مسائل کا موجودہ عہد کو سامنا ہے ان مسائل کی بہت ہی خوبصورت انداز میں انھوں نے اپنی شاعری میں عکاسی کی ہے۔ یہ اشعار  دیکھیے جن میں آپ کو آج کے عہد کا رنگ نظر آئے گا          ؎

کوئی روٹی کو پریشان تو روزی کو کوئی

خوش نہیں ہے کوئی انسان سنو یا نہ سنو

ہے کہیں شور، کہیں چیخ کہیں ہنگامہ

آنے ہی والا ہے طوفان سنو یا نہ سنو

اسی طرح یہ اشعار بھی دیکھیں        ؎

ہم جلاتے رہیں ہر روز وفاؤں کے چراغ

اور وہ جان کے وعدوں سے مکرتے جائیں

ان کی شاعری عام فہم الفاظ سے مزین ہے جو سامعین اور کم تر درجے کے لوگ بھی بآسانی سمجھ جاتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیں کتنے سادہ اور سلیس ہیں:

سیکڑوں سنگ میل سے گزرا

نہ ملا پیڑ سایہ دار مجھے

چاہتا ہوں کہ چاند کو چھو لوں

اپنی اوقات بھول جاتا ہوں

انھوں نے اردو کے مشاہیر شعرا کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے جس کا اثر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے کلام اقبال کا نہایت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اگر یہ مطالعہ نہ ہوتا تو شاید اس رنگ میں وہ یہ اشعار نہ کہہ پاتے       ؎

جو ہوسکے تو حیاتِ دوام پیدا کر

’’نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر‘‘

بدل کے رکھ دیں زمانے کا جو نظام کہن

کچھ ایسے لوگ، کچھ ایسے عوام پیدا کر

 ناشاداورنگ آبادی ہندوستان گیر پیمانے پر ہی نہیں معروف تھے بلکہ اردو دنیا کے ہر مکتبہ فکر کے لوگ انھیں بخوبی جانتے اور ان کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ناشاد اور نگ آبادی کی غزلوں میں ان کی انفرادیت صاف جھلکتی ہے۔وہ اپنی غزلوں سے محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں        ؎

 ہم تو ہیں غزل گو ہمیں رغبت ہے غزل سے

غزلوں کا کسی بزم میں سودا نہیں کرتے

غزل کہنے سے پہلے میں غزل کو دیکھ لیتا ہوں

کسی تالاب میں کھلتے کنول کو دیکھ لیتا ہوں

ناشاد کی نظمیںحب الوطنی سے مملو ہیں۔ ان میںان کے جذبے اور خلوص کو دیکھا جاسکتا ہے اور خواہ مخواہ کے نعرے لگا نے والے یا کھوکھلے الفاظ کا استعمال کر نے والے شاعر نہیںبلکہ وہی صفحہ قرطاس پر لاتے ہیں جو کچھ ایمانداری سے محسوس کرتے ہیں۔ ناشاد اور نگ آبادی کی چند نظمیں میرے سامنے ہیں قومی یکجہتی اور قومی ایکتا عنوان سے، ان دونوں نظموں میں انھوں نے اتحاد کے بارے میں بڑے اچھے انداز سے قوم کو مخاطب کیا ہے  اور یقین دلایا ہے کہ اگر ہم سب متحد ہو جائیں تو دنیا کا کوئی بھی ملک ہم سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح ’قومی ترانہ‘ میں نا شاد صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔یہ نظم ایک تاریخ بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہولی، جان سے پیارا وطن، قومی ایکتااور عید ملن بہت ہی پیاری نظمیں ہیں۔ انھوںنے اپنے دوستوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی عقیدت کے پھول پیش کیے ہیںجس سے ان کی وسیع المشر بی اور رواداری ظاہر ہوتی ہے۔ رمز کے لیے انھوں نے لکھا تھا       ؎

آج ناشاد بھی اے رمز عظیم آبادی

تیرا گرویدہ ہے اور مدح سرا بھی تیرا

مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انھوں نے شاعری کی ہر صنف میںطبع آزمائی کی ہے اور کامیاب رہے ہیں۔ شاعری میں وہ صرف کلا سیکی قدروں کے قائل نہیں بلکہ نئی روایات کو بھی برتا ہے         ؎

میرے اشعار میںجدت بھی روایات بھی ہیں 

دل کی باتوں کو بہ انداز غزل کہتا ہوں

’ پرواز سخن ‘ کی نظمیں ایک طرف مشتر کہ قومی تہذیب اور مخلوط قومی معا شرے کی فوز و فلاح کے سلسلہ میںصالح اور صحت مند شعور کی غمازی کرتی ہیں تو  دوسری طرف عصری حالات کی تلخیوں اور سختیوں کی حساس مصوری کرتی ہیں۔ ان نظموں میں انسانیت دوستی کا شفا ف جذبہ بھی ہے اور قومیت پسندی حب الوطنی کا احساس بے پایاںبھی ،کہیں پر نہ کوئی تکلف ہے نہ تصنع۔ ’پرواز سخن‘ کی شاعری جدید ترین شعری سرمائے کا ایک دلکش تحفہ ہے۔

ناشاد اورنگ آبادی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے اشعار میں عربی فارسی کے ادق الفاظ نہیں ملتے بلکہ ان کے اشعار عام فہم، آسان اور روز مرہ کی زبان سے مزین ہوتے ہیں۔

ناشاد صاحب کے یہاں زبان کی سلاست کے ساتھ جمالیاتی حسن بھی ہے۔ سادگی، رعایت لفظی، اسلوبیاتی جدت نے ان کی غزلیہ شاعری کو ایک منفرد انداز عطا کیا ہے۔

ناشاد اورنگ آبادی ہندی حلقوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔ کوی سمیلن اور دیگر ادبی سر گرمیوں میں بھی یہ اچھا خاصا وقت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی کی کئی ادبی انجمنوں نے بھی انھیں انعام و اکرام سے نوازا ہے۔ ریلوے بورڈ نئی دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ کل ہند کوی سمیلنوں اور مشاعروں میں انھوں نے کئی بار اپنے ڈویزن اور ژون کی نمائندگی کی ان میں دہلی بنگلور، سکندر آباد (حیدر آباد ) اور پونے میں حاصل ہونے والے ایوارڈس قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سو لبھ انٹر نیشنل ہندی اکادمی ایوارڈ نئی دہلی، ملینیئم انٹر نیشنل ایوارڈ نئی دہلی، خاموش سر حدی ایوارڈ فریدآباد، ہر یانہ بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد سمستی پور کا ڈاکٹر ترون ایوارڈ اور بہار ساہتیہ سمیلن ایوارڈ پٹنہ وغیرہ بھی انھیں پیش کیے گئے۔

ناشاد اورنگ آبادی نے 17 جون 2023 بمقام راجہ بازار، پٹنہ میںاس دار فانی کو الوداع کہا۔

 

Sahir Daudnagri

6/275 Lalita Park, Laxmi Nagar

Delhi- 110092

Mob.: 8800489404

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...