16/11/23

استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی مزاحمت: مولانا آزاد اور ہندوستانی قوم کی تعمیر:مبصر: نایاب حسن

 


ممتازمجاہد آزادی،پہلے وزیر تعلیم اور نابغۂ روزگار مفکر،عالم دین، دانشور و ادیب مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور افکار پر اردو سمیت مختلف زبانوں میں سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور وقفے وقفے سے اب بھی ان پراہل علم و دانش لکھ رہے ہیں۔ اِس سال کے اوائل میں معروف مؤرخ سید عرفان حبیب کی انگریزی میں ایک کتاب ’ابوالکلام آزاد: اے لائف‘ آئی تھی جس میں کئی خامیاں بھی ہیں، مگر من حیث المجموع انگریزی خواں طبقے کو نئے زمانے میں مولانا کی سوانحی معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے قابل ذکر ہے۔ ابھی جولائی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ایک کتاب ’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی مزاحمت:مولانا آزاد اور ہندوستانی قوم کی تعمیر‘ کے نام سے شائع کی ہے۔یہ کتاب اصلاً انگریزی زبان میں ہے،جس کا نام Resisting Colonialism & Communal Politics: Maulana Azad & the Making of the Indian Nation ہے اور اس کی اولین اشاعت منوہر پبلی کیشنز کے زیر اہتمام 2011 میں عمل میں آئی تھی، 2012 میں اس کا پیپر بیک ایڈیشن آیا تھا۔اس کے مصنف رضوان قیصر مرحوم ہیں،جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂتاریخ میں پروفیسر تھے،مئی 2021 میں کورونا وبا کے دوران ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صہیب عالم نے’ابو الکلام آزاد و تشکل الامة الہندیة فی مناھضة الاستعمار والسیاسات الطائفیة‘ کے نام سے کیا،جو 2013 میں مؤسسة الفکر العربی بیروت سے شائع ہوا ہے۔زیر نظر اردو ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے کیا ہے۔

یہ کتاب مروجہ معنوں میں مولانا کی سوانح حیات نہیں ہے؛بلکہ اس میں مولانا کے سیاسی افکار کی تشکیل، آزادی کی تحریک میں ان کے کنٹری بیوشن، کانگریس کی صدارت اور اس کی پالیسیوں،اقدامات میں ان کی حصے داری،تقسیم ہند کے تعلق سے ان کے نظریے، تقسیم کو ٹالنے کی ان کی عملی کوششوں اور اس ضمن میں کانگریس کے مختلف لیڈران سے ان کے اختلافات اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

کتاب بنیادی طورپر(طبع اول و دوم) کے دود یباچوں، اظہارِ تشکر، چھ ابواب، اختتامیہ اور کتابیات پر مشتمل ہے۔ دیباچے میں مصنف نے مولانا پر دستیاب لٹریچر کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے ان کی سیاسی فکر کے ارتقا کے حوالے سے مختلف پہلؤں کی طرف اشارے کیے ہیں۔کتاب کا پہلا باب ہے ’تاریخی پس منظر:آزاد مستحکم نظریاتی اور سیاسی بنیادوں کی تلاش میں (1906-1918) ‘ اس میں انھوں نے عابد حسین،محمد مجیب، ایان ہنڈرسن ڈگلس،وی این دتا،پی این چوپڑا، اعجاز احمد،فاروق قریشی، سیدہ سیدین حمید وغیرہ جیسے دانشوران اور مصنفین کے اقوال و آرا کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا کے نیشنلسٹ سیاسی رجحانات کے آغاز کا سراغ لگایا ہے اور خود ’الہلال‘ وغیرہ کی تحریروں کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا جن دنوں پان اسلامزم یا جامعہ اسلامیہ کی دعوت دے رہے تھے،ان دنوں بھی وہ مشترکہ قومی جدوجہد میں ہی یقین رکھتے تھے اور اس دوران بھی انھوں نے جب جب ہندوستان کی جدوجہد آزادی پر لکھا یا اظہار خیال کیا،تو ہندوستان کے تمام شہریوں کے اشتراک پر زور دیا۔اسی باب میں 1902 سے 1910 تک کے عرصے میں مولانا کی مذہب سے دوری،تامل و تفکر اور بازواپسی کی روداد بھی بیان کی گئی ہے۔ بنگال کے انقلاب پسندوں سے وابستگی اور شیام سندر چکرورتی سے رابطہ، 1912 میں ’الہلال‘ کی شروعات اور اس کے پلیٹ فارم سے قومی جدوجہد میں باضابطہ داخلہ،حکومتی عتاب، ’الہلال‘ کی بندش اور رانچی کے مورا باڑی میں مولانا کی نظربندی پر اس باب کا اختتام ہوتا ہے۔

کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ہے ’پان اسلامزم اور ہندوستانی قوم پرستی کے درمیان ہم آہنگی کی کوششیں(1919-1922)‘ اس کا آغاز مصنف نے مولانا کی رانچی میں نظربندی کے دنوں کی مصروفیتوں کی تفصیلات سے کیا ہے،کہ مولانا نے وہیں اپنی مشہور کتاب ’تذکرہ‘ لکھنا شروع کی، لوگوں سے ربط و ارتباط بڑھا یا اور ان کی سماجی و اخلاقی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے،انجمن اسلامیہ قائم کیا اور اس کے تحت ایک مدرسہ بھی شروع کیا گیا،قرآن کریم کا خصوصی مطالعہ کرتے رہے،جس کے نتیجے میں ان کی معرکة الآرا ترجمہ و تفسیر قرآن ’ترجمان القرآن‘ منظر عام پر آئی۔رانچی میں مولانا کی سرگرمیوں پر جمشید قمر(مولانا آزاد کا قیامِ رانچی:احوال و آثار) اور پروفیسر منظر حسین (مولانا آزاد کی علمی و دینی خدمات قیام رانچی کے حوالے سے) کی کتابیں تفصیلی روشنی ڈالتی ہیں۔مصنف نے اس باب میں یہ بھی بتایا ہے کہ نظربندی کے دنوں میں بھی مولانا ملکی سیاست سے بے خبر نہ تھے، سید سلیمان ندوی،محمد علی قصوری اور دِگر مختلف الخیال شخصیات سے سیاسی، علمی و فکری معاملات پر ان کی مراسلت جاری تھی۔دسمبر 1919 کے اواخر میں مولانا کی رہائی عمل میں آئی،اوائلِ جنوری تک وہ رانچی میں ہی رہے، 18 جنوری 1920 کو مولاناکی گاندھی جی سے پہلی ملاقات ہوئی۔باہر آئے تو ملکی سیاست کا احوال بدلا ہوا تھا،تحریک خلافت کاڈول اکتوبر-نومبر1919 میں ہی ڈالا جاچکا تھا، مختلف سطحوں پر قائدین اس حوالے سے سرگرم تھے،اس کے ساتھ ہی ترکِ موالات کی تحریک بھی شروع کی گئی،مولانا باہر آنے کے بعد ان تحریکوں میں شامل ہوگئے۔مصنف نے قدرے تفصیل سے تحریک خلافت و ترک موالات کے مختلف عناصر کا جائزہ پیش کیا ہے۔یہ دونوں تحریکیں اصلی ہدف کے حصول کے اعتبار سے ناکام رہیں،ترکی میں خلافت کے خاتمے سے تحریکِ خلافت کی معنویت جاتی رہی اور گورکھپور کے چوراچوری میں تشدد کا ایک واقعہ رونما ہوا،جس کے بعد گاندھی نے دوسرے رہنماؤں سے مشورہ کیے بغیر تحریک ترک موالات کی واپسی کا اعلان کردیا، اس وقت تحریک کے دگر بہت سے رہنماؤں کے ساتھ مولانا آزاد بھی علی پور جیل میں بند تھے، ان کے مقدمے کی سماعت چل رہی تھی،اسی موقعے سے انھوں نے اپنا تحریری بیان دیا تھا،جو ’قولِ فیصل‘ کے نام سے مشہور و متداول ہے اور مولانا کی بے خوبی و بے باکی،اپنے نصب العین کے تئیں غیر متزلزل وابستگی اور فکر و نظر کے استحکام پر دلالت کرتا ہے۔تحریک خلافت و ترکِ موالات کے دوران ملک کے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان غیر معمولی اتحاد و اتفاق دیکھا گیا تھا،مگر اس کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ اتحاد بھی جاتا رہا۔مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

تحریک کی واپسی سے ہندووں اور مسلمانوں کے اتحاد کی عمارت میں دراڑ سی پڑگئی، جو دوران تحریک بڑی جانفشانی سے کھڑی کی گئی تھی۔تاہم جو چیز واضح شکل میں دیکھی جاسکتی تھی، وہ خود مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی تفریق تھی جب تحریک سے مایوسی کی وجہ سے بعض افراد نے فرقہ وارانہ سیاست کا رخ کیا،جبکہ دوسرے اتحاد کی سیاست پر مبنی قوم پرستی کے ہی وفادار رہے،آزاد نے مؤخرالذکر راستہ اختیار کیا۔“(ص87)

یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد ہندوستانی سیاست کا رخ بڑی تیزی سے بدلا اور جہاں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والا اتحاد جاتا رہا،وہیں خودمسلمان مجموعی طورپر دو دھڑوں میں بٹ گئے۔مسلمانوں کی سطح پر تحریک خلافت کا یہ پہلو بڑا دلچسپ ہے کہ بہت سے وہ لوگ، جو اس سے قبل لبرل طرزِ سیاست کے حامی اور اس کے پیروکاروں میں تھے،انھوں نے اس کے بعدفرقہ وارانہ سیاست کا دامن تھام لیا،جبکہ ان لوگوں کی اکثریت مشترکہ قومی سیاست اور نظریے کی حامی رہی،جنھوں نے اس تحریک میں شمولیت یا اس کی قیادت خالص مسلم مسئلے کی حیثیت سے کی تھی۔تحریکِ خلافت کی موزونیت یا ناموزونیت اور اس کے حاصلات و نتائج پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے، مصنف نے ان سے استفادہ بھی کیا ہے،مگر اردو میں ایک اہم کتاب قاضی عدیل عباسی کی ہے ’تحریک خلافت‘ (ط:ترقی اردو بورڈ /قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی 1978) کے نام سے۔قاضی عدیل عباسی خود بھی بڑے سرگرم مجاہد آزادی رہے، تحریک خلافت کے دنوں میں وہ مشہوراخبار ’زمیندار‘ کے ادارۂتحریر میں تھے، انھوں نے زیادہ مبسوط، مفصل اور جامع انداز میں اس تحریک کا جائزہ لیا ہے۔

کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ہے ’یکجہتی کی سیاست:آزاد اور انڈین نیشنل کانگریس 1923-1934‘،اس باب میں مصنف نے تحریک خلافت کے بعد دس سالوں کے دوران سیاسی حالات،ہنگاموں اور قومی سطح کے اتار چڑھاۂ کا جائزہ پیش کیا ہے،جس میں شدھی تحریک،موپلا بغاوت، مولانا آزاد کو کانگریس کی صدارت کی تفویض اور کانگریس کے دو دھڑوں میں مفاہمت قائم کروانے کی ان کی کوششوں،تحریک خلافت کے تئیں ان کی رائے میں تبدیلی،فرقہ وارانہ ہنگاموں کے حل کے تئیں ان کے عملی اقدامات اور نظریہ،نہرورپورٹ کا ظہور اور اس کے تئیں مسلمانوں کے شکوک و شبہات، ان کے چودہ نکاتی مطالبات،مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا ظہور، ان کے نظریات اور طرزِ فکر و عمل،گول میز کانفرنس،کمیونل اوارڈ اور سائمن کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ وغیرہ کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔مصنف نے بڑی گہرائی سے ان واقعات کا مطالعہ کیا، ان کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملایا اور ان میں مولانا آزاد کے کردار پر خصوصی روشنی ڈالی ہے۔

چوتھا باب ’اشتراکِ اقتدار کا تصور اور تہذیبی شناخت ‘ کے عنوان سے ہے،جس میں 1935تا 1940 کے دورانیے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔یہ دور ہندوستانی سیاست کے لیے تو اہم تھا ہی،ساتھ ہی مولانا آزاد کے لیے بھی بڑی آزمایش کا دور تھا،کہ اس زمانے میں سیاسی حالات خالص فرقہ وارانہ خطوط پر پلٹا کھا رہے تھے،ہر دن گویا ایک نئی آندھی آتی تھی،جس میں فکر و دانش کے بڑے بڑے پیڑ اکھڑ کر اِدھر یا اُدھر گر رہے تھے، فہم و فکر کا توازن قائم رکھنا اچھے اچھوں کے لیے مشکل ہورہا تھا۔مصنف نے اس باب میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1936-37کے عام انتخابات، ان کے نتائج اور مختلف ریاستی حکومتوں کے قیام میں مولانا آزاد کے رول،یوپی میں مسلم لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے سلسلے میں مولانا آزاد کے موقف اور دیگر کانگریسی لیڈران کے عمل،مسلمانوں کی حکومت میں حصے داری کے تئیں مولانا آزاد کی کوششیں، مسلمانوں کی بے اطمینانی کو دور کرنے کے لیے کانگریس کی عوامی رابطہ مہم، اردو ہندی تنازعات اور ان پر مولانا آزاد کے نقطۂنظر،مختلف کانگریسی ریاستوں کے سماجی،سیاسی و ثقافتی حالات، لیگی الزامات اور ان کی حقیقت، فرقہ وارانہ مسائل کو حل کرنے پر مولانا آزاد کی خصوصی توجہات اور 1940میں مولانا کے دوبارہ کانگریس صدر منتخب ہونے تک کا احاطہ کیا ہے۔اس باب کے مطالعے سے ہمیں 1935 سے 1940 کے دوران ہندوستان میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ مسائل،ان کے تئیں کانگریس اور مسلم لیگ کے مجموعی رویے اور مولانا آزاد کے خصوصی رویے،طرزِفکر اور عملی اقدامات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

پانچویں باب میں ’متحدہ اور وفاقی ہندوستان کی طرف‘ کے عنوان سے 1940 سے 1947 یعنی آزادی و تقسیم ہند تک کے سیاسی احوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس باب کی شروعات مصنف نے کانگریس کے رام گڑھ سیشن اور اس میں مولانا کے تاریخی صدارتی خطبے کے مختلف نکات و اجزا پر گفتگو سے کی ہے اور خصوصاً اس عرصے میں بدتر ہوتے فرقہ وارانہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔اس میں دوسری جنگ عظیم کے تئیں کانگریس کے موقف اور اس پر مختلف رہنماؤں میں اختلاف پر بھی بحث کی گئی ہے۔اسی طرح عدم تشدد کے مسئلے پر مولانا آزاد کے گاندھی سے اختلاف اور اس مسئلے پر کانگریس پارٹی میں اندرونی خلفشار،عبوری حکومت میں شمولیت کے مسئلے پر مسلم لیگ اور جناح سے ان کی مکاتبت اور جناح کے ہتک آمیز رویے کا بھی ذکر کیا ہے۔

اس باب میں مصنف نے جنگ عظیم دوم کے مسئلے پر برطانوی حکومت کی ’اگست پیش کش‘ اور اس پر کانگریس و مسلم لیگ کے موقف،ہندوستان کی کامل آزادی کے مسئلے پر گاندھی اور کانگریس کی ستیہ گرہ مہم،مولانا آزاد کی ستمبر 1940 میں گرفتاری اوردسمبر 1941 میں رہائی، کرپس مشن کی آمد اور مذاکرات، 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک اور اس کے تئیں مولانا کا موقف،مولانا کی گرفتاری اور 1945 میں رہائی،اس عرصے میں ملک کے سیاسی حالات میں تیز تر تبدیلی اور فرقہ وارانہ حالات کی سنگینی،شملہ کانفرنس اور اس کے نتائج،فرقہ وارانہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے مولانا کا منصوبہ، اس حوالے سے گاندھی کو ان کا خط اور ان کا جوابی رویہ،کیبنٹ مشن کی آمد اور اس سے مولانا کے مذاکرات اور ملک کی تقسیم کو ٹالنے کی ان کی آخری حد تک کوشش کا جائزہ پیش کیا ہے۔

رضوان قیصر کی زیر مطالعہ کتاب کا چھٹا باب ہے’قوم کے لیے علمی،سائنسی اور ثقافتی اداروں کی تعمیر‘، اس باب میں انھوں نے آزادی کے بعد بحیثیت وزیر تعلیم مولانا کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔اس کی شروعات انھوں نے آزادی سے قبل کی عبوری حکومت میں بحیثیت وزیر تعلیم مولانا کی شمولیت کے پس منظر پر اشارے کے ذریعے کی ہے اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے ان کی جو خدمات رہیں،ان پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔یہ باب اردو والوں کے لیے خصوصاً بہت معلومات افزا ہے،کہ آزادی کے بعد دس سال کے عرصے میں تعلیم کے میدان میں جو پیش رفتیں ہوئیں، ابتدائی و اعلیٰ سطح پر تعلیم کو بہتر اور منظم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے،جو اہم ادارے قائم کیے گئے،ثقافتی و سائنسی اداروں کے قیام میں مولانا نے جو دلچسپی لی؛ ان سب سے متعلق اہم اور مستند حوالوں کی روشنی میں دستاویزی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

رضوان قیصر نے ‘اختتامیے’ میں اپنی کتاب کے مباحث کو سمیٹتے ہوئے مولانا کی سیاسی فکر اور ان کے طرزِ عمل کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مولانا کی سیاست حقیقت پسندانہ تھی؛چنانچہ ہر موقعے پر انھوں نے عوام پسندانہ مصلحتوں کی بجاے زمینی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر کوئی بھی موقف اختیار کیا،البتہ مصنف کی نظر میں تحریک خلافت کا موقع ایسا تھا،جب وہ عوامی حمایت پسندی کے جوش میں بہہ گئے؛حالانکہ اس کے پس پشت بھی دراصل ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ اور اس میں تمام ہندوستانیوں کو شامل کرنے کا مقصد کارفرما تھا۔اسی طرح مصنف نے اس سوال پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کیا مولانا آزاد اپنی سیاست میں ناکام رہے؟وی این دتا اور ایان ہنڈرسن ڈگلس کے تجزیوں کا سہارا لیتے ہوئے وہ تقسیمِ ہند کو صرف آزاد کی بجاے مجموعی طورپر کانگریس پارٹی کی قوم پرستانہ تحریک کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔

کتاب کے مترجم ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی(سابق استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) اردو کے سینئر ادیب،ناقد اور دانشور ہیں،منجھے ہوئے مترجم ہیں اور درجنوں کتابیں انھوں نے ترجمہ کی ہیں،ان کے تراجم متن کی بھرپور عکاسی کے ساتھ سلاستِ زبان و بیان کا بھی عمدہ نمونہ ہوتے ہیں،ایک نمونہ یہ کتاب بھی ہے۔کہیں کہیں کچھ کمپوزنگ کی ہلکی پھلکی غلطیاں رہ گئی ہیں،جو سوا چارسو صفحوں کی کتاب میں مستبعدبھی نہیں ہیں، اختتامیے میں البتہ صفحہ نمبر396 پر شیخ الہند کا نام ’حسن محمود‘ لکھا ہوا ہے،اسے ٹھیک کرنا چاہیے؛ کیونکہ ان کا درست نام ’محمود الحسن‘ ہے،اوریجنل متن میرے پیش نظر نہیں،اگر وہاں بھی یہی لکھا ہے،تو وہاں بھی اصلاح ہونی چاہیے۔ دوسری بات کتاب کے اردو نام کے تعلق سے ہے،اس کا پہلا جز ہے ’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کی مزاحمت‘، یہاں لفظ ’کی‘ مفہوم کو دھندلا رہا ہے،اس کی جگہ اگر’کے خلاف‘ ہوتا، تو زیادہ بہتر اور واضح ہوتا ’استعماریت اور فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف مزاحمت‘۔ تیسری بات حواشی کے تعلق سے ہے،ادارے نے غالباً مصنف کے طریقۂ کار کو فالو کرتے ہوئے ہر باب کے حواشی اس کے آخر میں دیے ہیں،تحقیقی کتابوں اور مقالات میں تحشیے کا یہ طریقہ بھی رائج اور درست ہے، مگر غلطی یہ ہوئی ہے کہ مختلف ابواب میں کئی حواشی سرے سے درج ہی نہیں کیے گئے ؛چنانچہ دوسرے باب میں حاشیہ نمبر 1 سے 13 تک تسلسل درست ہے،اس کے بعد سیدھے حاشیہ نمبر 28 اور آگے کے حواشی آجاتے ہیں،گویا حاشیہ نمبر 14 سے لے کرحاشیہ نمبر 27 تک درج ہی نہیں کیے گئے۔یہ مسئلہ دوسرے ابواب میں بھی ہے،البتہ وہاں ایک دو حاشیے چھوٹے ہیں،یہ بھی بڑی غلطی ہے اور اس کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ بہرحال مجموعی طورپر کتاب بہت عمدہ، معلومات افزا اور مولانا آزاد پر اردو لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔


٭٭٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...