بلاشبہ بھوپال حرمِ
عظمت و جلال، مرکز ارباب فن و کمال اور گہوارۂ حسن و جمال رہا ہے مگر قابل قدر اور
لائق فخر بات یہ بھی ہے کہ طنزیات و مضحکات کے اعتبار سے بھی یہ عدیم المثال کہاجاسکتا
ہے، یہاں اعلیٰ درجے کے طنز و مزاح نگار بھی مصنۂ شہود پر آئے اور اپنی شگفتہ نگارشات
سے اردو دنیا میں دھوم مچائی۔ ویسے تو بھوپال کے شگفتہ نگاروں کی لمبی چوڑی فہرست ہے
جن میں جوہر قریشی، عنبر چغتائی، تخلص بھوپالی، جہاں قدر چغتائی، شفیقہ فرحت، فضل جاوید،
مصطفی تاج، قیوم جاوید، خالد عابدی وغیرہ نے خوب ناموری پائی مگر بھوپال میں اردو طنز و مزاح کے باوا آدم ملا رموزی ہیں جنھوں نے اردو
دنیا کو گلابی اردو سے سرفراز و نہال کیا۔ اس سلسلے میں رشید احمد صدیقی اپنی کتاب
’طنزیات و مضحکات‘ میں بہت پہلے لکھ گئے ہیں:
’’گلابی اردو میں ملا رموزی صاحب نے مشہور فارسی و عربی ضرب الامثال، اشعار اور عقولوں کے اردو ترجمہ میں اپنے اجتہاد و تصرف سے جو ندرت و شگفتگی پیدا کی ہے وہ ادبیات اردو میں زعفران زار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔‘‘
(ص 150)
اور محمد احمد سبزواری
نے اپنے مضمون ’بھوپال کی کہانی ایک پرانے بھوپالی کی زبانی‘ میں ان کے احوال اس طرح
درج کیے ہیں:
’’چھاؤنی (چھاؤنی ولاتیاں) میں ایک افغانی بزرگ محمد صالح کی رہائش
تھی، ان کے تین بیٹے تھے۔ بڑے صدیق، دوسرے صادق اور تیسرے ساجد۔ بڑے صاحبزادے ابتدائی
تعلیم کے بعد کانپور چلے گئے اور وہاں سے فاضل الٰہیات کی سند لے کر آئے اور ملا توحیدی
کے نام سے اخباروں اور رسالو ںمیں لکھنا شروع کیا مگر کوئی خاص شہرت نہ پائی لیکن جب
ملا رموزی کے نام سے گلابی اردو شروع کی تو طول و عرض میں مشہور ہوگئے۔ یہ دراصل علما
کی اس قدیم اردو کا چربہ تھا جس میں وہ عربی اور بالخصوص قرآنی آیات کا ترجمہ کیا
کرتے تھے۔ ملا نے اس کو سیاسی مسائل پر تنقید و تبصرہ کے لیے ظریفانہ اور طنزیہ رنگ
دے کر اپنی علمی قابلیت کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ عش عش کرنے لگے... بلا بسیار اور
زودنویس تھے۔ ان کی کوئی دو تین درجن کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ بے شمار مضامین
رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوئے ہیں۔ ملا رموزی ان اولین لکھنے والوں میں شامل تھے
جو اپنی تخلیقات کا معاوضہ پیشگی وصول کرلیا کرتے تھے۔‘‘
(بحوالہ ’فکر و آگہی‘ بھوپال، نمبر ص 366)
دراصل ’اودھ پنچ‘ کے
تتبع میں آزادی سے پہلے بہت سے رسالے والوں
نے کالم نگاری شروع کردی تھی جن میں انگریز حکومت اور مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف طنز
و تشنیع کے نشتر چھوڑے جاتے تھے۔ ملا رموزی کا کالم ’گلابی اردو‘ 1915 میں شروع ہوا
جو ان کے اسلوب کے انوکھے پن اور سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے نہایت مقبول ہوا اور ان
کے کالم برصغیر کے کئی اخباروں میں دھڑا دھڑ شائع ہونے لگے اور مقبولیت ان کے قدم چومنے
لگی۔ ویسے ملا رموزی بڑے نستعلیق اور خلیق انسان تھے۔ ابراہیم یوسف ان کے بارے میں
رقمطراز ہیں:
’’یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے اور ہر اس شخص سے مرعوب رہا کرتے تھے جن کا نام اخباروں میں چھپتا تھا۔ ایک بزرگ دبلے پتلے کچھ نکلتا ہوا قد، بالوں دار ٹوپی، شیروانی، بھوپالی کٹ پاجامہ، سلیم شاہی جوتا پہنے اور سائیکل کو بطور و اکنگ اسٹک استعمال کرتے تھے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ کسی نے ہم سے کہہ دیا تھا کہ یہ بڑے مشہور مصنف ہیں۔ ان کا ہم پر رعب پڑنا ناگزیر تھا۔ ہم ان کو عقیدت سے دیکھتے، سلام تک کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ کبھی یہ بزرگ رک کر ہمارے والد صاحب سے گفتگو کرنے لگتے، کیا گفتگو ہوتی اس کا تو ہمیں علم نہ ہوتا لیکن دورانِ گفتگو میں کبھی وہ بزرگ قہقہے لگاتے اور ہمارے والد صاحب نہایت خلوص وسعادت مندی سے ان قہقہوں کو قبول کرتے، کبھی ہمارے والد قہقہے لگاتے اور وہ بزرگ بے حد مسکین صورت بنائے کھڑے رہتے۔ کچھ دیر قہقہوں کا یہ تبادلہ ہوتا رہتا کہ پھر وہ بزرگ اپنا راستہ لیتے اور ہمارے والد مسکراتے ہوئے گھر میں تشریف لے جاتے۔ ایک روز جمعہ کا دن تھا۔ ہم تیزی سے نماز جمعہ ادا کرنے جارہے تھے کہ وہی بزرگ سائیکل ٹیکتے نظر آئے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے سلام جھاڑا۔ رکے اور فرمانے لگے کہاں جارہے ہو! ہم نے عرض کیا نماز پڑھنے اور تم نے شیروانی نہیں پہنی۔ جی وہ مسجد قریب تھی، ہم نے سوچا، ہم ہکلائے۔ کبھی تم آفاق حسین کے سامنے بھی بلا شیروانی پہنے جاتے ہو۔ جی وہ! جب تم آفاق حسین کے سامنے بلا شیروانی پہنے نہیں جاتے تو پھر خدا کے دربار میں بلا شیروانی پہنے کیوں جارہے ہو۔ جاؤ شیروانی پہن کر آؤ اور ہم واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ آفاق حسین صاحب مرحوم جہانگیر یہ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے جن کو لڑکے بید ماسٹر کہا کرتے تھے۔
(بحوالہ ’فکر و آگہی‘ بھوپال نمبر، ص 755)
اس تحریر پر تاثیر
سے نہ صرف ملا رموزی کے عادات و اطوار اور خصائل و شمائل واضح ہوجاتے ہیں بلکہ بھوپال
ریاست کی تہذیب و شائستگی کی جھلک بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
حضرت ملا رموزی کو
عام طو رپر ’گلابی اردو‘ کا موجد مانا جاتا ہے اور وہ خاتم بھی کہلانے کے مستحق ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ’گلابی اردو‘ صرف ایک ذریعہ تھی ورنہ ملا صاحب کا فن گلابی اردو کے
پردے میں سیاسی اور سماجی نشتر زنی کا متقاضی رہا ہے۔ وہ اس طرح نکتہ چینی کے حربے
کو آزماتے تھے کہ طنزیہ تیروں کی بوچھار صفحۂ قرطاس پر بکھر جاتی تھی۔ ہمارے بیشتر
ناقدین نے ’گلابی اردو‘ کو ہی موضوعِ نقد بنا کر انھیں خراجِ تحسین ادا کیا ہے۔ حالانکہ
ملا صاحب جب گلابی اردو سے قطع نظر کرکے صاف اور سلیس اردو میں خامہ فرسائی کرتے تھے
تو اس میں غیرمعمولی صفائی اور روانی در آتی تھی اور چونکہ قدرت نے ان کے مزاج میں
مزاح کا عنصر رکھ دیا تھا، اس لیے عبارت اور بھی دو آتشہ ہوجاتی تھی۔ کہنے کا مطلب
یہ ہے کہ گلابی کے علاوہ عام رنگ میں بھی ان کی کئی تصانیف ہیں۔ ایک نفاست پسند شاعر
کے بارے میں ان کی تحریر کا یہ نمونہ ملاحظہ کریں۔ شاعر صاحب تخلیقی کرب میں مبتلا
ہیں بھلا کیسے؟
’’قوت واہمہ کے برابر سائز کی ایک دلہن سے زیادہ رنگین کاپی اور سوئی
سے کچھ موٹی پنسل سے غزل اس طرح فرماتے ہیں کہ دماغ سے دوسری ساری ذمہ داریاں کافور
ہوجاتی ہیں اور رگ رگ پر غزل کہنے کا رعشہ محسوس ہوتا ہے۔ کیا مجال جواب بیوی بچے یار
احباب گفتگو کرسکیں بلکہ ایک تارک الدنیا کی طرح باغ یا کسی ویرانے میں جانے کا اہتمام
ہوتا ہے۔ پھر کسی ویرانے میں مرے ہوئے شعراء کا ایک ڈیڑھ دیوان کھولے بیٹھے ہیں، کبھی
گنگناتے ہیں، کبھی جھومتے ہیں، کبھی ویرانے میں ٹہلتے ہیں، مگر مصرع موزوں نہیں ہوتا،
گھر آتے ہیں، ایک آراستہ کمرے میں نظربند ہوکر عنبر اور لوبان روشن کرتے ہیں، عطر
اور لونڈر بار بار سونگھتے ہیں تب کہیں ع
ہائے جانی تیر مارا
دل نشانہ ہوگیا
کی قسم کے چند اشعار
ہوجاتے ہیں۔‘‘
مشاعرہ گاہ میں ان
کی حاضری دیکھیں کہ ملا رموزی کس طرح جزئیات نگاری کا حق ادا کرتے تھے:
’’مشاعرہ میں شرکت کے لیے کیا نکلتے ہیں گویا دولہا بن کر دلہن بیاہنے
جارہے ہیں مشاعرہ گاہ میں اس طرح لوچ اور لچک کے ساتھ داخل ہوتے ہیں گویا خانۂ خدا
میں سجدہ کرنے والے ہیں۔ صدر مقام پر رونق افروز ہوتے ہیں۔ ہر آیند و روند کے آداب
و تسلیمات کے لیے نصف سے زیادہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بے وجہ چھوٹا سا رومال منہ سے لگا
کر کھانستے ہیں۔ کبھی تیور بنانے کی مشق کرتے ہیں، کبھی خفیہ طور پر داد کے جواب میں
تسلیمات بجا لانے کا ڈھنگ وضع کرتے ہیں، غزل پڑھنے کے اصرار کو اپنی نزاکت مآبی سے بڑھائے جاتے ہیں اور جب
شروع فرماتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے گویا نفاست کلام نفاستِ جسم بن گئی ہے۔ گھر واپس آتے ہی تو خود کو ایک غزل کی تھکن سے بیمار محسوس
کرتے ہیں۔‘‘
(بحوالہ رسالہ ’فکر و آگہی‘
بھوپال، ص 756)
فی الحقیقت ’گلابی
اردو‘ تو ان کے ابتدائی دور کی رندانہ مستی کی مانند تھی جو ان کے مذہبی شغف اور قرآن
پاک کے ترجموں سے متاثر ہوکر عالم وجود میں ا ٓ ئی۔ پروفیسر سید اعجاز حسین نے ان کے
بارے میں لکھا تھا:
’’ملا رموزی کے یہاں عام طو رپر سیاسی واقعات کی طرف اشارے ہوتے ہیں،
وہ کبھی کبھی طنزیاتی انداز میں ان پر تبصرہ بھی کرجاتے ہیں۔ ان کے دل میں مذہب اور
قوم کا درد ہے اور وہ مکمل اصلاح چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کا تذکرہ کرتے وقت ایک جوش
اور زور نمایاں ہوجاتا ہے۔ وہ اس میں کسی طرح کی اخلاقی، معاشی اور سیاسی کمزوری دیکھنا
نہیں چاہتے۔‘‘ مثلاً
’’اے ہندو مسلمانوں میں فساد
کرانے والو!
اور آگاہی ہے واسطے
تمھارے کہ تحقیق قریب آگئی ہے، وہ گھڑی کہ شروع ہو جنگ بڑی یورپ کی، اور نقصان پہنچے
تم کو یہ سبب عادتِ بد تمھاری کے اگرچہ نہ ہوگی اور البتہ تحقیق نہ ہوگی جنگ بڑی یورپ
کی مثل جنگ 1914 کے پھیلی ہوئی، مگر چاہیے تم کو میل جول بڑھاؤ، آپس میں تانہ شرمائیں
تم کو قومیں ترقی یافتہ، پس تحقیق کہ جب تک نہ ہوں گے شاعر اردو کے ذی علم اور تجربہ
کار، اس وقت تک ڈھلتی رہیں گی غزلیں
غیرعقلی اور افسردہ، پس جب حصہ ادب اردو کو اور شعراء اردو کا ہوگا بیچ ہاتھوں تحقیق کے تو ترقی کرے گی غزل اردو کے موافق ترقی یافتہ عقل اس زمانہ ہٰذا کے۔‘‘
(بحوالہ ’چنگاری‘ کالم نگاری،
ص 74)
بہرکیف ان کی تحریریں
اس زمانے میں بڑے شوق سے پڑھی جاتی تھیں اور لوگ ان کے مضامین کو سر آنکھوں پر رکھتے
تھے۔ اسی زمانے کے ادبی صحافت کے بارے میں ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ ’زبان‘ کا
ٹھیاواڑ کے رسالے میں ’نکات‘ کالم میں انھوں نے لکھا تھا:
’’صحافتِ اردو میں ابھی تک تو رسالوں کے خاص نمبروں کی گھوڑ دوڑ ہورہی
تھی۔ اب پنجاب کے اخباراتِ اردو نے سنڈے ایڈیشن کا مرض پھیلایا ہے۔ اس میں ہوتا یہ
ہے کہ اتوا رکے دن جو عیسائیوں کا مقدس دن ہے، یہ تمام اسلامی اخبارات اپنے اخباروں
کو دونی ضخامت اور رنگین صفحات کے ساتھ شائع کرتے ہیں اور اسی کو سنڈے ایڈیشن کہتے
ہیں اور یہ سنڈے ایڈیشن والے وہی پرجوش مسلمان ایڈیٹر ہیں جو آئے دن علی گڑھ والوں
کو اس لیے برا کہتے ہیں کہ وہ ’مسلم یونیورسٹی‘ میں بجائے جمعہ کے اسلامی تعطیل کے
اتوار کی عیسوی تعطیل مناتے ہیں۔ کیوں صاحب! یہ بجائے اتوار کے اگر تمام اسلامی اخبارات فرائی ڈے ایڈیشن شائع
کریں تو کیا اس میں انگریزی اخبارات کی تقلید نہ رہے گی؟ اور کیا سنڈے کی طرح فرائیڈے
انگریزی لفظ نہیں ہے، مگر وہ تو اپنی مسلمانوں کو لفظ سنڈے میں مزہ ملتا ہے۔ خدا ان
سنڈوں مسٹنڈوں سے زبان اردو کو محفوظ رکھے، جو آئے دن ایسے الفاظ کو اردو کا جزو بنائے
جارہے ہیں۔‘‘
پورا اقتباس حالانکہ
طنزیہ ہے مگر ان کا درد بھی پوری طرح جھلکتا ہے۔ ملا رموزی بارہ چودہ سال تک ’گلابی
اردو‘ یعنی صنفِ نثر میں گلہائے رنگارنگ کھلاتے رہے، لیکن بعد میں شاعری کے میدان میں
بھی گلابی رنگ کے ساتھ کود پڑے اور جہاں تک راقم الحروف کا خیال ہے، ان کی آخری تصنیف
’گلابی شاعری‘ ہے۔ اگر ہم ان کی ’گلابی اردو‘ اور اس میں پیش کردہ مسائل و موضوعات
کو موجودہ حالات کی روشنی میں جانچنے پرکھنے کی سعی کریں تو یہ سعیٔ لاحاصل ہوگی اور
ان کے ساتھ ہرگز بھی انصاف نہ ہوگا اور ذی فہم لوگوں کو لازمی طو رپر یہ کہنا پڑے گا
کہ ع
اگلے وقتوں کے ہیں
یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
پھر عصر حاضر میں ایسے
پراگندہ طبع لوگ بھی کہاں ہیں جو ’گلابی اردو‘ میں ڈوب کر دور کی کوڑی لاسکیں۔ اب تو
مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہنے والے بھی مشکل سے دستیاب ہوں گے۔
Mukhtar
Tonki
Kali Pattan
Road
Pul Mohd
Khan
Tonk- 304001
(Rajasthan)
Mob.:
9214826684
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں