15/11/23

تلنگانہ میں اردو کا منظرنامہ:شمس الہدی دریابادی

 

ہندوستان متعددزبانوں، تہذیبوں اور نسلوں کا ملک ہے۔کثرت میں وحدت یہاں کی بڑی خوبی ہے۔ظاہر ہے کہ کثیر لسانی ملک میں لنگوافرینکا کے طور پر رابطہ کے لیے کسی زبان کا ہو نا ضروری ہے۔آزادی سے قبل وہ زبان اردو تھی جو شمال سے جنوب اورمشرق سے مغرب تک نہ صرف بولی اور سمجھی جا تی تھی بلکہ انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی رائج تھی۔1947میں ہندوستان آزاد ہوا مگر تقسیم کے ساتھ، پاکستان وجود میں آیا اُس نے اردو کو اپنا لیا۔ ہندوستان نے ہندی کو دفتری اور قومی زبان کادرجہ دیا۔ اس کے مکمل نفاذ کو ممکن بنانے تک آئندہ پندرہ برسوں کے لیے انگریزی کا سہارا لیا گیا۔ 1948میںسقوط حیدرآباد کے بعد یہاں بھی اردو ترک کر کے انگریزی کو اپنایا گیا گرچہ ڈیڑھ دوسال تک جامعہ عثمانیہ نے ذریعۂ تعلیم کے طور پر اردو کو برقرار رکھامگر تعلیمی سال 1951 سے اردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ 1949 کو دار الترجمہ میں آگ لگ جانے یا لگائے جانے سے اردو زبان کا بیشتر سرمایہ جل کر ختم ہو گیااور دار الترجمہ کا کا م بھی بند ہو گیا۔ رہی سہی کسر 1956 میں تمام ہوئی جب ریاستوں کی تنظیمِ جدید لسانی بنیادوں پر ہوئی۔ ریاست (حیدر آباد) تین مختلف لسانی ریاستوں آندھراپردیش (تلگو) مہاراشٹر ا (مرہٹی) اور کر ناٹک (کنڑ) میں تقسیم ہو گئی۔ حیدر آباد شہر اور اس سے ملحق تلنگانہ آندھراپردیش میں شامل ہوا۔ اس تلگو ریاست کا صدر مقام شہر حیدرآباد قرار پایا۔ سقوط حیدر آباد اورتین ریاستوں میں اس کے انضمام کے بعد اردو زبان کا تیزی سے زوال شروع ہوا، معاش سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اردو میں کام کرنے والے ملازمین کو برطرف کردیا گیا یا انھیں انگریزی میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کو تلگو سیکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ انتظامی اور عدالتی امور کے لیے انگریزی کے ساتھ ہندی اور تلگو کا استعمال شروع ہوا۔ تعلیمی اداروں سے اردو غائب ہونے لگی اور اردو ذریعۂ تعلیم کے ادارے کسمپرسی کا شکار ہو کر بند ہونے لگے۔ حکومت کی توجہ اور سر پرستی سے اردو محروم ہونے لگی، نئے حکمرانوں کی اکثریت اردو جانتی نہ تھی اور جو اردو جانتے تھے وہ اردو کو جاگیر دارانہ نظام کی پیداوار سمجھ کر اردو مخالف تھے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ کر اسے ملک کی تقسیم کا ذمے دار قرار دیا جانے لگا،اردو کو بدیسی زبان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی نیز اردو کارسم الخط تبدیل کرنے کے لیے تحریکیں اٹھیں۔

مایوسی کا دور

    ہندوستان کی آزادی اور سقوط حیدرآباد کے بعد ہونے والی لسانی تبدیلوں کا نتیجہ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں دہائیوں کے دوران اس صورت میں سامنے آیا کہ عوام میں اردو کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی، اب اردو کی وہ وقعت نہ رہی جو پہلے تھی۔ یہ ایک ماضی کی یاد گار بن کر رہ گئی اردو کے حق میں یہ زمانہ بڑا ہی مایوس کن رہا۔ محسوس ہو تا تھا کہ اردو زبان چند برسوں کی مہمان ہے۔ اردو میں تعلیم حاصل کرنا تو در کنار اسے بحیثیت ایک زبان سیکھنے میں بھی لوگوں کو پس و پیش تھا۔ روزگار کے لیے انگریزی، ہندی اور تلگو سیکھنا ضروری ہو گیا تین زبانوں کے بعد چو تھی زبان سیکھنے کی کہاں سکت رہتی ہے مزید بر آںیہ کہ اردو سیکھنے کا فائدہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اسے اپنی مادری زبان کہنے والے بھی اردو لکھنے پڑھنے سے کترانے لگے۔غیر محسوس طور پر احساس ندامت اور احساس کمتری داخل ہو گئی نتیجہ یہ ہوا کہ اردو نہ جاننا فخر کی بات سمجھی جانے لگی۔ غلط اردو بولنا اور اردو زبان میں بے تحاشا انگریزی الفاظ کا استعمال فیشن بن گیا۔ اردو کا چلن آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا تھا چنانچہ اب ایسی نسل پروان چڑھنے لگی جو اردو سے نابلد تھی۔ اس پر آشوب دور سے قبل کہ اردو کا خاتمہ بالشر ہو جائے محبان اردو اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے اپنے طور پر اس کی بقا کی کوششیں شروع کر دیں، ارباب اقتدار کو متوجہ کیا اور واقعہ یہ ہے کہ اردو اپنی شیرینی، لطافت اور شعری سرمایے کی بنیاد پر جاں کنی سے باہر نکل آئی۔

اردو کی بقا کی کوششیں

بیسویں صدی کے اواخر میں محبانِ اردو کی کوششیں اور اس کے اثرات ظاہر ہو نے لگے۔ اردوکی تہذیب اور علمی ورثے کا احساس بھی اجاگر ہونے لگا۔کسی حد تک احساس کمتری دور ہو نے لگی۔ارباب اقتدار بھی مطالبات پر متوجہ ہو ئے اور ایک مرتبہ پھر حیدرآباداورتلنگانہ میں اردو کی ترقی و ترویج کے امکانات روشن ہونے لگے۔چنانچہ مایوسی کا دور ختم ہو کر امید کی فضا قائم ہو گئی۔

ذرائع ا بلاغ

ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، اخبارات،رسائل اورسوشل میڈیا کسی بھی زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آل انڈیاریڈیو، حید ر آباد سے ہر دن کم از کم دو تا تین گھنٹے اردو پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں ریڈیو پروگرام انتہائی مقبول ہوا کرتے تھے مگرعصر حاضر میں ٹیلی ویژن اور اب تو سوشل میڈیا نے ریڈیو کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ٹیلی ویژن سیریل دیکھنے کے لیے سڑکیں سنسان ہو جا تی تھیں اور ایک با رونق شہر،شہر خموشاں میں بدل جا تا تھا۔ ہندوستانی سنیما (جسے اب ہندی فلمیں کہا جا تا ہے)کی مقبولیت کا راز اردو مکالمے اور نغمے ہی ہیں۔بہرحال ٹیلی ویژن اور فلموں  کے ذریعے نہ صرف تلنگانہ بلکہ پورے ملک کے کروڑوں لوگوں تک اردو پہنچ رہی ہے۔

جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے 1860 سے لے کر 1947 تک حیدرآباد سے جملہ78 چھوٹے بڑے اخبارات شائع ہو ئے جن میں پہلا اخبار’آفتاب ہند‘ (ایڈیٹر: قاضی محمدقطب) اور آخری  اخبار ’امن‘ (ایڈیٹر: سوامی واسدیو شاستری) تھا(بحوالہ، حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات : محمد اعجاز الدین حامد(

اس وقت  حیدر آباد سے روزنامے منصف، سیاست،  اعتماد، راشٹریہ سہارا اور ہفتہ واری اخبارگواہ شائع ہوتے ہیں۔ یہ اخبارات عموماً بارہ تا بیس صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں۔  اتوار اور دوسرے مخصوص موقعوں پر صفحات کی تعداد تیس سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ان اخبارات میں ہر دن کم از کم چار صفحات کا ضمیمہ یا میگزین شامل رہتا ہے۔ مگر کووِڈ نے بچت کی کئی صورتیں پیدا کر دیں،اس کے اثرات اخبارات پر بھی پڑے لہذا ضمیمے اور کئی خصوصی شماروں کو ای ایڈیشن تک محدود کر دیا گیا۔ خبروں کی پیش کش اور مضامین کے معیار کے اعتبار سے یہ اخبارات تلگو یا ہندی اخبارات سے کسی  طرح کم نہیں ہیں۔ حیدر آباد سے شائع ہونے والے ان اخبارات کی مجموعی تعداد اشاعت ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایک اردو اخبار کو آٹھ تا دس لوگ پڑھتے ہیں۔ اس طرح ہر دن آٹھ تا دس لاکھ لوگ اردو اخباروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ شمالی ہند کے برعکس یہاں ایک بڑا طبقہ انگریزی اخبار کے ساتھ اردو اخبار بھی خریدتا اور پڑھتا ہے لہذا اردو زبان کی ترویج اور اس کے رسم الخط کے تحفظ میں یہ اخبارات بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حیدر آباد سے دو ماہنامے ایسے ہیں جو زائد از نصف صدی سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ ادارہ ادبیات اردو سے شائع ہو نے والاماہانہ ادبی رسالہ ’’سب رس‘‘ جسے آزادی سے قبل جنوری1938 میں مشہور محقق ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے جاری کیا تھا، دوسرا زندہ دلان حیدر آباد کا ترجمان’شگوفہ‘۔ یہ رسالہ نومبر 1967  میں ڈاکٹر مصطفی کمال نے جاری کیا تھا،یہ دونوں رسالے آج تک پابندی سے شائع ہو رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی حیدر آباد سے چند رسائل شائع ہوتے ہیں جیسے شاداب، خوشبو کا سفراور قومی زبان وغیرہ۔

مشاعرے، ادبی اجلاس اور سمینار

مشاعرے کی حیثیت کسی ادارے سے کم نہیں، مشاعرے باذوق سامعین کی شعری طمانیت کا باعث بننے کے ساتھ نئے لوگوں کو اردو سے روشناس کراتے ہیں۔ حیدر آباد میں ہر سال متعدد مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ادبی ٹرسٹ، شنکر جی، صنعتی نمائش اور زندہ دلان حیدر آباد کے مشاعرے پابندی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اردو سے محبت اور شعری ذوق کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں کی عوام ہزاروں کی تعداد میں ٹکٹ خرید کر مشاعرہ سنتے ہیں۔ملک و بیرون ملک سے شعراکو مدعو کیا جا تا ہے۔ گورنر، وزرا، سرکاری عہدہ داران اور عمائدین شہر ان مشاعروں میں بہ طور خاص شرکت کرتے ہیں۔

حیدر آباد میں علمی و ادبی اجلاس اور سمینار و سمپوزیم منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ یوم محمد قلی قطب شاہ، یوم زور، یوم زندہ دلان حیدر آباد اور انجمن ترقی پسند مصنفین نیز محفل اقبال شناسی اس کی مثال ہیں۔حالیہ چند بر سوں سے تاریخی باغ عامہ(Public Garden)  میں ہر ماہ کی پہلی اتوار کو مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر اردو میں طبی معلوماتی لکچر دیتے ہیں جنھیں سننے کے لیے بڑی تعداد میں عوام خصوصاً بزرگ حضرات شہر کے مختلف گوشوں سے پہنچتے ہیں۔

 اردو والوں کو مل بیٹھنے اور اردو کی محفلیں منعقد کرنے کے لیے شہر میں اردو کے نام سے کئی مراکز قائم ہیں مثلاً اردو گھر، اردو ہال، اردو مسکن اور ایوان اردووغیرہ جہاں ڈیڑھ تا دو سو لوگ جمع ہو سکتے ہیںان میں اردو کی مجلسیں منعقد ہوتی رہتی ہیں اور کسی نہ کسی عنوان سے پرگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

 ادارے، تعلیم اور ذریعۂ تعلیم

حیدر آباد کی تین یونیورسٹیوں میں شعبۂ اردو موجود ہے۔ یونیورسٹی آف حیدر آؓباد اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو فعال ہیں جہاں سمینار اور سمپوزیم وغیرہ منعقد ہو تے رہتے ہیں البتہ جامعہ عثمانیہ کا شعبۂ اردوتعطل کا شکار ہے کیونکہ تما م اساتذہ سبکدوش ہو چکے ہیں۔چند عارضی اساتذہ سے وہاں کا شعبۂ اردو لشٹم پشٹم چل رہا ہے۔ریاست تلنگانہ کی دو یونیورسٹیوں، کریم نگر کی ساتوا ہنایونیورسٹی اور نظام آباد کی تلنگانہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو موجود ہے۔یہاں پر نوجوان   فعال اساتذہ ہیں جو قومی وبین الاقوامی سمینار اور دیگر ادبی اجلاس منعقد کرتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں حیدر آباد و دیگر شہروں میں کئی جونیر کالج و ڈگری کالج ایسے ہیں جہاں شعبۂ اردو اپنی کارکردگی کے ذریعے موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

2014  میں تلگو ریاست آندھراپردیش سے علٰیحدہ ایک دیگر تلگو ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آیا۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں آزادی سے قبل حیدر آباد کے نظام  برسر اقتدار تھے ظاہر ہے یہاں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن کی مادری زبان اردو ہے ان میں سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کائستھ برادری کے لوگ بھی شامل ہیں۔تلنگانہ میں جن کی مادری زبان تلگو ہے وہ بھی اردو سمجھتے اور بولتے ہیں۔بہر حال تلنگانہ کی تشکیل کے بعدحکومت  تلنگانہ نے اقلیتوں کی تعلیم کے لیے فوری ایک مستحسن قدم یہ اٹھایا کہ 2015  میں Telangana Minorities Residential Educational Institutions Society (TMREIS)  قائم کیا۔ در اصل یہ نوودیاودیالیہ کے طرز پر اقلیتوں کے لیے رہائشی اسکول ہیں۔ ہر اسمبلی حلقے میں ایک اسکول کی منظوری دی گئی یہ تمام اسکول ریاستی وزارت اقلیتی بہبود کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔لڑکے اور لڑکیوں کے علٰیحدہ اسکول ہیں، ہر طالب علم پر حکومت تلنگانہ سالانہ 80ہزار روپے خرچ کرتی ہے جہاں غذائیت سے بھرپور کھانا، کتابیں، یونیفارم، ا سٹیشنری اور دوائیں وغیرہ مفت فراہم کی جا تی ہیں۔ اچھی اور معیاری تعلیم کے لیے تجربہ کار اساتذہ ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ مسلمان بچے اور بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور اردو زبان و ادب کی تعلیم بھی داخلِ نصاب ہے نیز  اردو کا  لٹریری کلب بھی ہر اسکول میں رہتا ہے۔

تلنگانہ میں اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکول اور کالج بھی موجود ہیں،جن میں سرکاری اورنجی دونوں طرح کے ہیں۔ہندوستان کی واحداردو ذریعۂ تعلیم کی یونیورسٹی، مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد  میں ہے۔ پیشہ ورانہ کورسز،ملک بھر میں بی ایڈ اور پالی ٹیکنیک کالج،طلبا کےPlacement اور اردو کو سائنس، تکنیک و علوم کی زبان کا درجہ دینے والی اس روایتی اور فاصلاتی طرز تعلیم کی دانش گاہ نے قلیل مدت میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔حکومت ہند نے شاید مرحوم جامعہ عثمانیہ کے متبادل کے طور پر حیدر آباد کو اردو یونیورسٹی کی شکل میںیہ تحفہ عطا کیا  جو اردو والوں کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔انتہائی محروم ودیہی علاقوں کے اردو پس منظر والے طلبا کے لیے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے جو مواقع یہاں ہیں شاید ہی کسی یونیورسٹی میں میسر ہوں۔ چنانچہ بڑی تعداد میں خصوصاً مدارس کے فارغین اردو یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پورے ملک کے ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے 281 مدارس کی اسناد کو مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے تسلیم کیا ہے جس کی بنیاد پران مدارس کے فارغین یہاں داخلہ لے سکتے ہیں۔مدارس کی فہرست،شرائط،شعبہ جات،فیس اور ہوسٹل وغیرہ کی تفصیلات یونیورسٹی ویب سائٹ پر موجود تفصیل نصاب (Prospectus)  میں دیکھ سکتے ہیں۔یہ یونیورسٹی روایتی اور فاصلاتی دونوں طرز تعلیم کی ہے،فاصلاتی تعلیم کے لیے ملک بھر میں اس کے ریجنل سینٹر اور اسٹڈی سینٹر ہیں۔ اس یونیورسٹی کا آغاز ہی فاصلاتی تعلیم سے ہو ا تھا۔سنہ2004  میں ریگولرکو رسز کا آغاز ہوا جن میں شعبۂ اردو بھی شامل ہے۔یہاں کے شعبۂ اردو میں جموں وکشمیر، یوپی، بہار، تلنگانہ، آندھراپردیش، مہاراشٹر،کرناٹک اورکیرالا غر ض کہ ملک کے طول و عرض سے طلبا آتے ہیں۔حیدر آباد کے علاوہ لکھنؤ اور سری نگر کیمپس میں بھی شعبۂ اردو موجود ہے۔ان دونوں کیمپس کے ریسرچ اسکالرس کے داخلے،تحقیقی مقالوں کے Pre-Submission اورViva وغیرہ حیدر آباد کے شعبۂ اردو کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔ مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تحت تین ماڈل اسکول بھی ہیںجہاں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ یہ ماڈل اسکول حیدر آباد،دربھنگہ اورنوح میں واقع ہیں۔

حیدر آباد میں فاصلاتی طرز تعلیم کی ریاستی امبیڈکر اوپن یو نیورسٹی ہے جہاں سے انگریزی،اردو اور تلگو میڈیم میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔اس یونیورسٹی میںبی اے اوربی ایس سی کی تعلیم کے لیے اردو میڈیم کی سہولت موجود ہے۔چنانچہ اپنے مقام پر رہتے ہو ئے اردو کے ذریعے بی اے اوربی ایس سی کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیںعلاوہ ازیں حیدر آباد میںاردو آرٹس کالج،اسلامیہ گرلز کالج، کالج آف لینگویجز اور انوار العلوم کالج وغیرہ ایسے کالج ہیں جہاں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ برصغیر ہند وپاک میں دینی علوم کے مدارس کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ چنانچہ ہزاروں مدارس اردو زبان کی ترویج اور رسم الخط کے تحفظ میں جو کردار ادا کر رہے ہیں اُس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ میں ذاتی طور پر  افریقہ، یورپ اور امریکہ کے کئی مدارس کو جا نتا ہوں جن کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔اردو شعرا وادبا کی ایک طویل فہرست ہے جو ان مدارس کی پیداوار ہیں۔جنھیں ہم نہیں جا نتے ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جن سے ہم واقف ہیں۔ بہر حال تلنگانہ میں بھی درجنوں دینی مدارس ہیںجو اردو کی بقا اور تحفظ میں سرگرم عمل ہیں۔

اردو کتب خانے

حیدر آباد میںایسے مشہور ومعروف کتب خانے موجود ہیںجہاں اردو کابہت بڑا ذخیرہ ہے۔ سالارجنگ میوزیم،ادارہ ادبیات اردو،کتب خانہ آصفیہ (سینٹرل لائبریری)،ابوالکلام آزاد ریسرچ سینٹر، آرکیولوجیکل میوزیم  لائبریری، عثمانیہ یونیورسٹی لائبریری، سٹی کالج کا کتب خانہ، سعید یہ لائبریری و غیر ہ یہاں کے مشہور کتب خانے ہیں جہاں اردو کتابوں، رسالوں اور مخطوطات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔سالار جنگ میوزیم  مرکزی حکومت کی  تحویل  میں ہے جہاں  نادر و نایاب  اشیا کے ساتھ بیش قیمت مخطوطات اور کتابوں پر مشتمل کتب خانہ بھی ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں  ہر سال  نہ صرف سیاح آتے ہیں  بلکہ تحقیق کر نے والے اسکالرز بھی رجوع  ہو تے ہیں۔ ادارہ ادبیات اردو مشہور محقق محی الدین قادری زور کا قائم کردہ کتب خانہ ہے،رسالہ’’ سب رس‘‘یہاں سے شائع ہو تا ہے۔حیدر آباد میں متعدد ایسے علم دوست گھرانے بھی ہیں جو اپنے ذاتی کتب خانوں میں اردو کتابیں اور رسائل سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں مگر اب اردو کتابوں سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے نیزوسائل کی کمی کی وجہ سے ان کتابوں کی حفاظت کا بھی بڑ ا مسئلہ ہے۔

 فن خطاطی اوراردو کتابوں کی اشاعت و نکاسی

اردور سم الخط اور اُس کو تبدیل کرنے پر عموماً بحث ہوتی رہتی ہے۔ اردو والوں کی اکثریت رسم الخط کی تبدیلی کی مخالف ہے۔چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کو خطاطی کا فن سیکھنے پرآمادہ کیا جا تا ہے۔حیدر آباد میں کئی ایسے ادارے ہیں جہاں نوجوانوں کو خطاطی کا فن سکھایا جاتا ہے۔ جس میں ایک ادارہ، ادارہ ادبیات اردو بھی ہے۔

حیدرآباد اردو کتابوں کی اشاعت کا ایک بڑا مرکزہے جہاں سے بڑی تعداد میں اردو کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کی زیادہ تر دو کانیں چار مینار کے اطراف واقع ہیں۔علاوہ ازیں شہر کے دوسرے مقامات پر بھی دینی کتابوں کے ساتھ ساتھ شعر وادب کی کتابوں کی دوکانیں ہیں۔ انجمن ترقی اردو اور ادارہ ادبیات اردو نے فروخت کے مراکز قائم کیے ہیں۔ حیدرآباد میں ہر سال منعقد ہونے والی صنعتی نمائش میں اردو کتابوں کے اسٹال لگائے جاتے ہیں، یہ اسٹال بھی اردو کتابوں کی نکاسی کے ذرائع ہیں۔

 حکومتی اقدامات

ریاست تلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے۔ اس ریاست کی تشکیل کے بعدہر ضلع کلکٹریٹ میں ایک اردو مترجم کا تقرر عمل میں لایا گیا تا کہ حکومت کے منصوبے، پروجیکٹ، اعلانات،اقدامات اور دستاویزات کو اردو میں منتقل کیا جاسکے اور اردو داں طبقہ ان سے نہ صرف واقف ہو بلکہ مستفید بھی ہو سکے۔تلگو اور انگریزی اخبارات کے ساتھ ساتھ سرکاری اشتہارات اردو اخبارات کو بھی دیے جاتے ہیں۔ ہورڈنگ اور سائن بورڈ اردو میں دکھائی دیتے ہیں۔ شمس آباد بین الا قوامی ہوائی اڈہ اور میٹرو ٹرین میں ہدایات اور اعلانات اردو میں لکھے اور بولے جاتے ہیں۔اردو ذریعہ تعلیم کے سرکاری اسکولوں کے معیار میں بہتری لائی گئی ہے۔TMREIS اسکولوں کا قیام (جس کا ذکر پہلے آچکا ہے )بھی ایک مستحسن قدم ہے جہاں اردو پڑھنے کا انتظام ہے نیز اردو لیٹریری کلب بھی قائم کیا گیا ہے۔

    حکومت تلنگانہ نے اردو اکیڈمی قائم کی ہے جس کے توسط سے اردو کی ترقی و ترویج کے بہت سارے کام انجام پارہے ہیں۔ اردو کتابیں شائع کرنے کے لیے مصنفین کو جزوی مالی امداد دی جاتی ہے۔ اردو کتابوں، ادیبوں، شاعروںاور اساتذہ کوانعامات سے نوازا جاتا ہے۔  اردو کی درسی کتابیں شائع کرنے میں اردو اکیڈمی تعاون کرتی ہے،مشاعرے اور ادبی اجلاس منعقد کراتی ہے۔  اکیڈمی کی جانب سے ایک ماہانہ رسالہ ’قومی زبان‘ بھی شائع ہوتا ہے۔

 نئی نسل اور اردو

کسی زبان کے فروغ یا کم از کم باقی رہنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کیا وہ ذریعہ  تعلیم کی زبان ہے یا آیا نئی نسل اردو کو بحیثیت ایک زبان پڑھ رہی ہے۔ تلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے۔اردو والوں کی یہ ذمے داری ہے کے نئی نسل کو اردو سکھائیں چنانچہ اس کے لیے کیا کیا طریقہ کار ہو سکتے ہیں ان تمام کو بروئے کار لانے کی کوشش کریں۔یہ واضح رہے کہ شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تحت اردو سرٹیفیکیٹ کورس،تحسین غزل اور ڈپلوما ان فنگشنل اردو کے پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ عابد علی خان ایجو کیشنل ٹرسٹ اور ادار ادبیات اردو کی جانب سے بھی اردو سکھانے کا باضابطہ ااہتمام کیا جاتا ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات میںمختصر مدتی اردودرس و تدریس کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ مقررہ نصاب کی تکمیل کے بعد اردو دانی، اردو زبان دانی اور اردو انشا کے امتحانات سال میں دو مرتبہ منعقد کیے جاتے ہیںاور کامیاب طلبا کو اسناد دی جاتی ہیں نیز شہر کے کئی مقامات پر اردو کوچنگ کلاسس چلائی جاتی ہیںان میں  بڑی عمر کے لوگ بھی شریک ہوتے  ہیںاور ہاں !ہر چھوٹے بڑے دینی مدارس میںتو اردوداخل نصاب رہتی ہے ساتھ ہی مساجد میں جز وقتی صبح و شام کے دینی مکاتب ہوتے ہیں  جہاں بچوں کو اردو سیکھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

چند تجاویز

  •        اردو رسم الخط کی حفاظت اپنے اوپر لازمی سمجھیں۔
  •        دوکان،مکان،دفاتراور عوامی مقامات پر اردو میں بھی بورڈ آویزاں کریں۔
  •        اردو اخبارات و رسائل کے خریدار بنیں ورنہ اس کی اشاعت متاثر ہوگی پھر یہ کہ بہت سی اطلاعات اور خبریں ایسی ہوتی ہیں جو اردو اخبارات کے ذریعے ہی ہم تک پہنچتی ہیں اور شعرو ادب کے عصری منظر نامہ سے واقفیت کے لیے اردو رسائل کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔
  •        خطوط تواب ماضی کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں،دستی تحریر کا زمانہ نہ رہا اردو والوں کی اکثریت واٹس ایپ ، فیسبک،ٹویٹر اور انسٹاگرام وغیرہ پر لکھنے کے لیے رومن رسم الخط کا استعمال کرتی ہے جبکہ اردو رسم الخط کی حفاظت  کے لیے یہ ضروری ہے کہ اردو والے رومن کے بجائے اردو کواردو رسم الخط میں لکھیں۔
  •        شہروں کی کالونیوں اور گاؤںکے محلوں میں اجتماعی کوششوں سے اردو لائبریریوں کا انتظام کیا جائے، جن شہروں یا محلوں میں پہلے سے اردو لائبریریاں موجود ہیں انھیںمزید فعال اور بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔
  • اردو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت اپنا ئیں تا کہ مصنّفین اور ناشرین کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
  •  اگر کوئی اردو سیکھنا چاہے تو اس میں دلچسپی لیں،خود سکھایئں یا رہنمائی اور رہبری کریں۔
  •      سب سے بڑھ کر یہ ک۰ اردو والے اغراض کے بجائے اخلاص والے راستے پر چلیں۔

بہرحال تلنگانہ میں اردو کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اردو کا مستقبل روشن ہے مگر اردو والوں کو  فعال اور فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔


Prof. Shamsul Hoda Daryabadi

Head & Dept of Urdu

Maulana Azad National Urdu University

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 9032520784

Email.: drhodamanuu@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...