14/11/23

محقق قاضی عبدالودود:عارف حسن وسطوی


قاضی عبدالودوداس عہدآفریں اور عبقری شخصیت کا نام ہے جس پر نازاں وفرحاں ہونا باعثِ افتخار ہے۔ علم وفضل، ذہانت وفطانت،عالمانہ شان وشوکت اوراعلیٰ علمی وادبی کارناموں کی بدولت قاضی عبدالودود صف اوّل کے محققین میں شمارکیے جاتے ہیں۔قاضی صاحب کے طرزِ فکر اورطرزِاظہارکامنطقی ربط معاصرین میں انھیں ممتاز مقام عطاکرتاہے۔یوں توکہنے کے لیے قاضی عبدالودود نے محمودشیرانی کی تحقیقی روایت کو تسلسل بخشا، شیرانی صاحب کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے تحقیق میں غیر جذباتی اندازِ نظر کو پیش نظررکھا، نئے مآخذ کی تلاش اور اوّلین مآخذ کی اہمیت پر زور دیا،بہ الفاظ دیگرتحقیق کے معیارکو بلند کیا،اسی مناسبت سے وہ تحقیق کے معلم ثانی بھی کہلائے،یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر لیکن قاضی عبدالودود کا امتیازواختصاص اپنی جگہ پر۔بقول رشید حسن خاں:

’’روایت کو تسلسل حاصل نہ ہو تو وہ ایک وقفے کے بعد بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ تحقیق کی جو روایت شیرانی صاحب نے قائم کی تھی، اس کے تسلسل کے لیے یہ ضروری تھا کہ خبر اور نظر، دونوں کے اعتبار سے کوئی ایسا شخص ہو جو پچھلی روایت میں  اضافے کرسکے اور جو معیار سامنے آچکا ہے، اس کو اور بلند کرسکے۔ اس کے بغیر روایت کو وہ توانائی حاصل نہیں  ہو پاتی جس کے بل پر وہ اپنے حلقۂ اثر کو وسیع کیا کرتی ہے اور اپنے عناصر کو تابناک رکھتی ہے۔ قاضی صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کا یہ بڑا ثبوت ہے کہ ان کے اثر سے اس روایت کا تسلسل باقی رہا اور ان اہم اضافوں کے ساتھ جن کے بغیر توسیع نہیں ہو پاتی۔‘‘

(رشید حسن خان، تدوین: تحقیق روایت، ص 205-6،ایس اے پبلی کیشنز،دہلی1999)

قاضی عبدالودود کی تحقیق کا سب سے بڑا کارنامہ اس جمود کو توڑنا ہے جس میں اردوکے بڑے مصنفین، ناقدین اورمحققین کی نگارشات کوان کے یہاں پائی جانے والی کمزوریوں کے حوالے سے آشکارکرناتقریباً ناممکن تھا۔ یہ قاضی عبدالودود کا ہی جگرتھا کہ انھو ں نے اردوتحقیق وتنقید میں دلائل کے ساتھ ایسی جرح کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں ایک صحت مند تنقیدی بصیرت پیداہوئی۔ یوسف حسین خاں کے الفاظ میں ’’قاضی صاحب نے اردومیں تحقیق کو باضابطہ ایک شعبہ بنادیا ہے اوراسے تنقید سے نہ صرف ممیز بلکہ ممتاز بھی کردیا ہے۔‘‘اورعابدرضا بیدارکے لفظو ںمیں’’گھٹنوں کے بل چلنے والی اردوتحقیق کو قاضی صاحب نے پاؤں کے بل چلنا سکھایاہے۔‘‘اور علی جواد زیدی تواس نتیجے تک آپہنچے کہ یہ اردوکی خوش بختی ہے کہ قاضی صاحب نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں کے ساتھ کسی دوسری زبان یا دوسرے علوم کو فیض پہنچانے کے بجائے اردوتحقیق کا دامن تھام لیا۔وہ لکھتے ہیں:

’’ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری اورمرض لائے۔ بیماری کی وجہ سے محنت ممنوع تھی۔باہر سفروغیرہ پر بھی نہ جاتے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ بیرسٹری کی ڈگری صرف زیب افسانہ رہ گئی۔لیکن کیمبرج کے علمی ماحول،فرانس کے علمی حلقوں سے تعارف اورگھربیٹھے مطالعے کی سہولتوں نے انھیں کتابوں کے طلسم خانے میں لا کھڑاکیا۔یہ اردوکی خوش قسمتی تھی کہ کسی اورطرف جھکنے کے بجائے یہ اردوکی طرف جھک پڑے۔‘‘(آج کل اردو تحقیق نمبر1967 ص24)

 قاضی عبدالودود نے اپنے مضمون ’اصولِ تحقیق‘ میں تحقیق کے لیے جو صفات مخصوص کی ہیں ان میں چندکا ذکر لازمی ہے۔

  ’’بعض موضوعات ایسے ہیں کہ ان پر آزادی سے کچھ لکھناضرررساں ہوسکتا ہے۔اگراس کے لیے آمادہ نہیں توایسے      موضوع پر قلم اٹھانانامناسب ہے۔کسی محقق کے لیے یہ نہایت نازیبابات ہے کہ اسے خوف راست گفتاری سے بغض رکھے۔‘‘

   ’’ہربات یکساں اہمیت نہیں رکھتی،لیکن بات اہم ہویا غیر اہم،محقق کو حقِ تحقیق اداکرنا چاہیے۔‘‘

   ’’محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے۔اوراستعارہ وتشبیہ کا استعمال صرف توضیح کے لیے کرناچاہیے۔ آرائش گفتارکی غرض سے نہیں۔‘‘

تحقیق میں قطعیت، دوٹوک اندازبیان، غیرمصالحانہ رویہ، حق گوئی،راست گوئی،بے باکی،بڑی سے بڑی شخصیت سے مرعوب نہ ہونے والی کیفیت یہ وہ صفات ہیںجوہمیشہ قاضی عبدالوددوکی شخصیت پر غالب رہیں۔ قاضی صاحب نے تحقیق کو جونیاآئین اور نیا ضابطہ دیا اس کی زد میں ایسے باکمال شعراوادبا اور محققین بھی آئے ہیں جنھیں ایک عام محقق وناقدچھونے کی بھی جسارت نہیں کرسکتا۔ میر، غالب، شاد، محمدحسین آزاد، ابوالکلام آزاد، مولوی عبدالحق وغیرہ یہ سب اس کی مثالیں ہیں۔ قاضی عبدالودود کا کمال یہ ہے کہ وہ شخصیت کوکبھی سامنے نہیں رکھتے۔ ان کی نگاہ میں بس نگارشات ہوتی ہیں۔ گویا ان کا تعلق متن سے ہے، متن کی کمزوری چاہے مصنف کی طرف سے سامنے آئے یا مرتب کی جانب سے، قاضی عبدالودود کی نگاہ میں دونوں قابل گرفت ہوتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے قاضی صاحب اس کی تصحیح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مثال توبہت مشہور ہے کہ محمدحسین آزاد نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’آبِ حیات‘ میں ایک ہی شعر کو دوالگ الگ صفحات میں دوالگ الگ شاعروں کے نام سے موسوم کیا ہے۔اس تحقیقی غلطی کی سب سے پہلے نشاندہی قاضی عبدالودودنے ہی کی تھی۔ ’آبِ حیات‘کی دوسری تحقیقی غلطی کی بھی سب سے پہلے نشاندہی قاضی عبدالودود نے ہی کی جس میں یہ کہا گیا کہ میرضاحک کے انتقال کے بعد ان کے فرزند میرحسن نے سوداسے یہ گزارش کی کہ میرضاحک کے خلاف اپنی ہجویات چاک کرڈالیں۔جبکہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ میرضاحک کا نتقال سوداکے انتقال (1195 ہجری) کے بعد ہوا۔

قاضی صاحب تحقیق میں چھوٹی اوربڑی چیزوں میں تفریق کے بالکل قائل نہ تھے۔ان کے نزدیک اہمیت صداقت کی تھی۔ان کا تصورتھا کہ تحقیق میں احتیاط کی چھلنی بارباراستعمال کرنی پڑتی ہے۔اوریجنل تخلیقات کو سامنے رکھے بغیر محقق اپنا فرض منصبی ادانھیں کرسکتا ہے۔ ماہرغالبیات مالک رام نے’ذکرِغالب‘ مرتب کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’مرزاغالب 8 رجب کو پیدا ہوئے۔‘‘ قاضی عبدالودودچھوٹی باتوں کی بھی گرفت منطقی استدلال کے ساتھ یوں کرتے ہیں کہ’’8رجب کو مرزاغالب نہیں، ایک بچہ عزت النساء بیگم کے بطن سے پید ا ہواتھا جو تخلص ساتھ لے کر دنیا میں نہیں آیا تھا۔حالاتِ زندگی کا اس طرح شروع کرنا عہدحاضرکی روش نہیں ہے۔‘‘

قاضی عبدالودود ایک بت شکن محقق تھے۔انھوں نے بڑے بڑے لوگوں کی فروگزاشتوں کو آشکارکرنے میں کبھی گریز نہیں کیا۔انھو ں نے تحقیق  میں سست روی، سہل نگاری اورڈھیلے پن پر روک لگائی اوریہ سکھایا کہ تحقیق ایک مشقت طلب کام ہے۔یہ خونِ جگرچاہتا ہے۔ آنکھ بند کرکے یقین کرنے والی کیفیت جگہ جگہ ٹھوکریں کھانے کی دعوت دیتی ہے۔ بہت چھان پھٹک کر اور شواہد یکجاکرنے کے بعد ہی کوئی بات صفحۂ قرطاس پر منتقل کی جائے۔ایک دوسری مشہورمثال مجنوں گورکھپوری کے حوالے سے ہے۔مجنوں گورکھپوری نے ’میراورہم‘ میں ایک شعرمیرکے نام موسوم کیا۔شعرہے کہ         ؎

شکست وفتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر

مقابلہ تودلِ ناتواں نے خوب کیا

قاضی صاحب نے میرکے تمام دیوان چھان مارے اوریہ فیصلہ صادرکیا کہ ’’یہ شعرکلیات میرمیں کہیں نہیں ہے۔‘‘ اتناہی نہیں قاضی صاحب نے بتایا کہ یہ شعرکسی قدرمختلف شکل میں ایک دوسرے غیرمعروف شاعرنواب محمدیارخاں امیر کا ہے۔اصل شعراس طرح ہے        ؎

شکست وفتح میاں!اتفاق ہے،لیکن

مقابلہ تودلِ ناتواں نے خوب کیا

خواجہ احمد فاروقی نے اپنی تصنیف ’میرتقی میر:حیات اور شاعری‘ لکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ہنوز میر پر ایسی مبسوط اور محققانہ کتاب نہیں لکھی گئی۔ قاضی صاحب نے خواجہ صاحب کی کتاب کا دوٹوک مطالعہ پیش کیا اوران کی تحقیقی خامیوں کی نشاندہی کی۔ ایک مثال پیش ہے۔

خواجہ احمد فاروقی نے اپنی کتاب ’میرتقی میر:حیات اور شاعری‘  میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:

’’میر نے اپنے تذکرے میں 160 قلمی چہرے پیش کیے ہیں، لیکن ان رنگارنگ صورتوں میں خود ان کے چہرے کی بھی اصلی جھلک موجود ہے۔ میر نے بعض صفات پر بہت زور دیا ہے اور ان کو اکثر شاعروں کی سیرت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

(میرتقی میر:حیات اور شاعری،ص635)

اس پر قاضی صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

مصنف میر‘ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نکات الشعرا میں بالاستقلال کتنے شعرا کا ذکر ہے۔ ان کی تعداد160 نہیں، 103ہے اور ان میں بکثرت ایسے ہیں جن سے متعلق عبارت نثر ہے ہی نہیں، یا ہے تو برائے نام۔ ایسے شعرا جن کے قلمی چہرے پیش کیے ہیں، کم ہیں۔‘‘

(عیارستان:قاضی عبدالودود، ص26)

قاضی صاحب تحقیق میں حق پسندی کے قائل تھے۔ اردو تحقیق کی مبادیات، طریقۂ کاراوراصول و ضوابط پر انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔ قاضی عبدالودود نے تحقیق کے لیے لازمی اجزاکو چارحصوںمیں منقسم کیاہے: موضوع کا انتخاب، موادکی فراہمی، پیرایۂ اظہار، اخلاقیات۔ قاضی عبدالودود کا میدان تحقیق زیادہ وسیع اورمتنوع ہے۔آپ نے اردو اورفارسی دونو ں ادبیات میں اپنے اشہبِ تحقیق کو دوڑایا۔نئی منزلیں حاصل کیں اورتحقیق کے دریچے وا کیے۔ ان کے مطالعے کا میدان لسانیات، شاعری، نثر، لغات، تذکرہ،تاریخ اورسوانح بھی رہا ہے۔قاضی عبدالودود نے ارزاں تحقیق کے راستے بند کیے اورمعیاری تحقیق کو اعتباربخشا۔بقول پروفیسرآفتاب احمد آفاقی:

’’اردوتحقیق میں قاضی صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انھو ں نے جہاں ایک طرف ادب کے عقائد وتصورات کے حصار کو توڑاوہیں یک طرفہ مطالعے اورمبالغے پرکاری ضرب لگائی۔انھو ں نے پہلی بارتحقیق کی ایسی تعریف متعین کی جو جدید،سائنٹیفک اورمدلل تھی۔‘‘

(بہارکا اردوادب، ص191)

پروفیسرمحمد حسن نے اپنے ایک مضمون ’قاضی عبدالودود : ایک قاموسی شخصیت‘ میں قاضی عبدالودود کی تحقیق میں عرق ریزی، جانفشانی، لفظ کے تلفظ، اس کی ساخت اوراس کے صحیح استعمال پر استدلال کا ذکرکرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ علی گڑھ اسٹیشن پر پٹنہ واپس آنے کے لیے قاضی صاحب کے سازوسامان ہاوڑامیل پر سوارکیے جاچکے تھے،گاڑی بھی چھوٹنے والی تھی اورقاضی صاحب پلیٹ فارم پر اس بحث وتکرارمیں اُلجھے رہے کہ لفظ ’رومانوی‘ میں ’و‘ اضافی ہے اورغلط استعمال ہے۔رومانی ہونا چاہیے۔  بظاہر یہ واقعہ ایک تمسخرکی فضابندی کرتا ہے لیکن اس کے باطن میں قاضی عبدالودودکی تحقیقی ریاضت کا جو عمل دخل ہے اورعلم وادب کو اوڑھنا بچھونا بنانے کا جو کرشمہ ہے وہ اب نایاب ہے۔

تحقیق کے لیے جو چیزیں درکار ہوتی ہیںوہ سب قاضی صاحب میں بدرجۂ اتم موجودتھیں۔ ان کے تحقیقی تبصرے ان کی علمیت اور کثرت مطالعہ کے گواہ ہیں۔ قاضی صاحب نے پہلی بار یہ احساس دلایا کہ بنیادی وسائل و ذرائع مستند و قابلِ اعتبار ہونے چاہیے۔’آوارہ گرد اشعار‘، ’جہانِ غالب‘ اور ’تعینِ زمانہ‘ ان کے طویل مضامین ہیں۔ ’آوارہ گرد اشعار‘ میں انھوں نے ایسے اشعار جمع کیے ہیں جن کے شاعر کا کچھ علم نہیں۔ ایسے مشہور اشعار پر انھوں نے مختلف مآخذ سے ضروری تفصیل لکھی ہے۔ ’جہانِ غالب‘ میں  غالبیات سے متعلق ان کی تحقیقات ہیں۔ غالبیات پر یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔ بہ قول رشید حسن خاں:

’’قاضی صاحب نے بہت سے نئے مآخذ کا اس وقت پتہ دیاجب اس کا علم اکثرلوگوں کو نہیں تھا۔ان کی تحریریں ان کے وسعتِ مطالعہ کی شاہد عادل ہیں۔کم ایسے مآخذ ہوں گے جو ان کی نظرسے نہ گزرے ہوں۔‘‘

(رشید حسن خاں: تدوین ’تحقیق حکایت‘ ص 201)

قاضی صاحب کے مطالعے کا میدان نہایت وسیع تھا۔ انھوں نے کلاسیکی شعراء کے دواوین خاص طور پر میر، انشا، مصحفی، جرات اور سودا کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔ اردو زبان و ادب کے علاوہ فارسی زبان و ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ قدرت نے انھیں حافظہ بھی غضب کا عطا کیا تھا۔ کوئی بات ایک دفعہ پڑھ لیتے وہ ان کے ذہن نشین ہوجاتی۔ بہ قول مختارالدین احمدآرزو:

’’قاضی صاحب کا حافظہ بہت قوی تھا۔ اردو فارسی کے غیر مشہور اشعار کے اگر چند لفظ ان کے سامنے پڑھ دیے جائیں  تو وہ نہ صرف شعرسمجھ جائیں  گے بلکہ یہ بتادیں  گے کہ یہ شعر کس کا ہے، مطبوعہ دیوان میں موجود ہے یا کسی خاص قلمی نسخے میں ہے، کن کن بیاضوں اور تذکروں میں اس کا اندراج ہے۔ وہ یہ بھی بتادیں  گے کہ یہ شعر صحیح یا غلط طور پر کن کن شعرا کی طرف سے منسوب ہے۔‘‘

(مختارالدین احمد، (مضمون) قاضی عبدالودود، (مشمولہ) یادگار نامہ قاضی عبدالودود، ص 65-75، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،2000)

تحقیق میں قاضی صاحب کی سخت گیری اورجارحانہ اندازکا شکوہ عام ہے۔قاضی صاحب سے ناقدین کو یہ بھی شکایت رہی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی اورمعمولی باتوں کی بھی گرفت اس اندازمیں کرتے ہیں کہ بعض اوقات یہ طبیعت پر گراں گزرجاتی ہے۔کچھ حد تک ان باتوں کو تسلیم کرنے میں دشواری بھی نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہی جارحانہ رخ اورسخت گیری ادبی تحقیق اورادبی مطالعے کو اعتبار و وقار بھی بخشتی ہے۔اوراپنے بعد کے محققین وناقدین کومزید چھان بین اوراحتیاط کے ساتھ قلم اٹھانے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔قاضی صاحب کے اسی طرز تحریرStyle کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں:

’’پچھلے چند برسوں میں بلا شبہ اردو تحقیق کا مذاق عام اوراس کا معیارزیادہ بلند ہوا ہے۔اس کے لب ولہجے اورنگ وآہنگ میں بھی تبدیلی آئی ہے اوراس کی اہمیت کا احساس اورعرفان بھی پیدا ہوا ہے۔ا س تبدیلی کا سہرا بڑی حد تک قاضی عبدالودود کے تحقیقی مضامین کے سرہے جن کی سخت گرفت اورتیزابی لب ولہجے نے اچانک تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے والو ںمیں نئی ذمے داری اورزیادہ سخت ڈسپلن کا احساس پیدا کیا۔قاضی عبدالودود نے اپنے مضامین میں صرف اعتراضات نہیں کیے بلکہ نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ غلط بیانیوں یا نیم صداقتوںکے مقابلے میں نہایت عرق ریزی اوردیدہ وری سے صحیح حقائق کو پیش کرکے تحقیقی کام کی ایک نئی سطح پیش کی۔ان کا معیار بلند اورمطالبے سخت ہیں لیکن وہ ان مطالبوں اور معیاروں کو پہلے خوداپنے لیے اختیارکرتے ہیں،پھر ان کا تقاضا دوسروں سے کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ صحت مندتحقیقی رجحان کی شکل میں سامنے آیا۔‘‘

(آج کل، اردو تحقیق نمبر1967 ص24)

قاضی عبدالودود کے تحقیقی موقف کی حمایت گیان چند جین نے بھی کی ہے۔دراصل قاضی صاحب کی تحقیق میں جو کاری ضرب ہے اس کی اکثرناقدین ادب نے دبے یا کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ان پر یہ الزام بھی عائد ہے کہ وہ محض نقص نکالنا جانتے ہیں۔معمولی لغزشوں کو بھی بڑی غلطیوں کے طورپر پیش کرتے ہیں۔گیان چند جین کا اعتراف ہے کہ قاضی صاحب کے یہاں پذیرائی بھی ہے۔اس کی مثال انھوں نے قاضی صاحب کی تبصروں پر مشتمل سب سے اہم تصنیف ’عیارستان‘ کے حوالے سے دی ہے۔ ’عیارستان‘ تین مختلف کتابوں کے تجزیاتی مطالعے اورتبصرے پر مشتمل ہے۔ یہ کتابیں ہیں: دیوان فائز:مرتبہ۔مسعود حسن رضوی، مرقع شعرا :مرتبہ رام بابوسکسینہ اور میرتقی میر:حیات اور شاعری۔ مرتبہ: خواجہ احمد فاروقی۔ پروفیسرگیان چند جین اپنے ایک مضمون ’بت شکن محقق‘میں لکھتے ہیں:

’’انھوں(قاضی عبدالودود) نے معاصرین کے تحقیقی کاموں پر جو تبصرے کیے ہیں ان میں غالباً سب سے پہلا سید مسعودحسن رضوی کا مرتب کردہ دیوان فائز کا جائزہ ہے۔یہ جو خیال کیا جاتا ہے کہ قاضی صاحب ہمیشہ خامیوںپرہی نظررکھتے ہیںاس جائزے کو دیکھ کر غلط ہوجاتا ہے۔تبصرے کی ابتدا میں ہی انھو ںنے اعتراف کیا ہے کہ ’’یہ بات بے خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس قسم کی دوسری کتابیں جو انجمن ترقی اردونے شائع کی ہیں ان میں بہت کم ایسی ہیں جن کے مرتبین نے اتنی تلاش وتحقیق سے کام لیا ہے...کتاب کی ترتیب میں جو جانفشانی انھوں نے کی ہے اس کی دادنہ دینا ظلم ہے۔‘ ‘

(معاصرپٹنہ۔قاضی عبدالودود نمبر، مرتبہ کلیم الدین احمد ص71)

قاضی صاحب کے بے مثل محقق بننے میں دو عوامل خاص طورپر اثرانداز رہے ہیں۔مطالعے کی کثرت اور حافظے کی قوت۔قاضی صاحب کی صحبتوں میں بیٹھنے والوں نے ان کے مطالعے کی کثرت اورخدادادحافظے کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔مختارالدین احمد اپنے ایک مضمون ’قاضی عبدالودود‘ میںان کی ذہانت اوروسعت مطالعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:

’’ایک بارایک مجلس میں جس میں متعدد ادیب و شاعر موجود تھے ذکر چھڑا کہ اردوکے ہزاروں شعرایسے ہیں جو زبان زد ہیں لیکن عام طورپر معلوم نہیں کہ کس کے شعرہیں۔ لوگوں نے یکے بعد دیگرے دس شعر پڑھے۔ قاضی صاحب نے فوراً بتادیا کہ یہ شعرکس کے ہیں۔ اب ان کی باری آئی۔انھو ںنے جو شعر پڑھے ہم لوگ کسی کا جواب نہ دے سکے۔ان شعروں میں ایک یہ بھی تھا جو زبان زد خاص وعام ہے‘‘       ؎

ترچھی نظروںسے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو

کیسے تیرانداز ہو سیدھا تو کرلو تیر کو

بعد میں انھوں نے یہ بتایا کہ یہ شعروزیرلکھنوی شاگردناسخ کا ہے۔گوبعض تذکروں میں خودناسخ کے نام سے درج ہے۔

(معاصرپٹنہ، قاضی عبدالودود نمبر، مرتبہ، کلیم الدین احمدص 152)

قاضی صاحب تحقیق وتنقید کے ساتھ نثرسے متعلق بھی اپنی الگ رائے رکھتے ہیں۔وہ نثرمیں سادگی،منطقی ربط،صراحت اوروضاحت پر مکمل زوردیتے ہیں۔ نثر میں آرائشی پیرایۂ اظہار اورشاعرانہ اسلوب قاضی عبدالودود کے نزدیک معیوب ہے۔ اسی غیرمصالحانہ رخ اورنظریے کی وجہ سے محمدحسین آزاد اورمولانا ابوالکلام آزادکی نثر قاضی عبدالودودکے نزدیک مثالی قرار نہیں دی جاسکی۔اسمخصوص نظریے کے تناظر میں خودقاضی عبدالودود کی نثرناقدین ادب کے نزدیک ’خشک‘ اور ’غیردلچسپ‘ قرار پائی، لیکن قاضی صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان اعتراضات کو یکسرمستردکردیا کہ ’’میں جوکچھ لکھتا ہوں وہ ہندوپاک کے گنے چنے دس افراد کے لیے ہیں۔‘‘ اس جملے سے طنطنہ اورانانیت کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے قطع نظراس بات کا اقرارلازمی ہے کہ قاضی صاحب کے اعلیٰ علمی وتحقیقی کاموں نے یہ اصول ضرور وضع کیے کہ تحقیق وتنقید کوئی بچے کاکھیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل مشقت طلب طرززندگی ہے،جس میں ڈھلنے سے پہلے خوداحتسابی اورڈھلنے کے بعد حقائق کے اظہارکے لیے بے باکی اورجرأت مندی اولین شرط ہے۔

 

Md. Arif Hasan

Central Bank of India

Cinema Road, Hajipur

Distt.: Vaishali- 844101 (Bihar)

Mob.: 7654443036


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...