13/11/23

اردو میں تاریخی ناول نگاری کا آغاز:عمار شاہد

ناول افسانوی نثر کی ایک مقبول صنف ہے جس کا براہ راست تعلق حقیقی زندگی سے ہوتا ہے۔اس میں پیش کردہ واقعات وکردار  انسانوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ پروفیسر بیکر کے بقول :

’’ ناول نثری قصے کے ذریعے انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے ‘‘

(بحوالہ اردو ناول تعریف،تاریخ اور تجزیہ،پروفیسر صغیر افراہیم،ص 19)

انسانی زندگی کی جتنی بہتر اور واضح ترجمانی ناول کر سکتا ہے اردو ادب کی دیگر اصناف میں وہ وسعت نہیں ہے کہ وہ مکمل زندگی کا احاطہ کر سکیں۔کیونکہ زندگی بیکراں ہے اس کی کوئی حد متعین نہیں ہے،اس کے مختلف شعبہ جات ہیں،جس میں فرد سے لے کر افراد بھی ہیں معاشرہ، سماج،مذہب،سیاست،سائنس اور تاریخ وغیرہ بھی یہ وہ شعبہ جات ہیں جن سے انسانی زندگی عبارت ہے، ناول انہیں شعبہ جات کو موضوع بناتا ہے اور تخیل کے ذریعے انھیں اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری کو اس کے معائب و محاسن کا علم بحسن و خو بی ہو جاتا ہے۔

ناول میں موضوعات کا تنوع ہوتا ہے۔ اس میں تمام موضوعات کو پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔متنوع موضوعات کی پیشکش کی وجہ سے ناول کی مختلف قسمیں وجود میں آئیں،جب ناول میں انسانی معاشرت کو موضوع بنا کر پیش کیا گیا تو معاشرتی ناول کہلایا،سیاسی ماحول کا احاطہ کیا تو سیاسی،سائنس کو بیان کیا تو سائنسی اور تاریخ کو جب اپنے دامن میں سمیٹا تو تاریخی ناول کی قسم وجود میں آئی اور یہ قسم ناول کی موجودہ تمام قسموں میں سب سے اہم ہے۔ اس سے متعلق ’ناول کیا ہے ؟ ‘ کے مصنفین تحریر کرتے ہیں:

’’مواد یا موضوع کے لحاظ سے ناول کی سیکڑوں قسمیں ہو سکتی ہیں ہر ناول نگار کا ایک خاص تجربہ ہوتا ہے اور اس کی بنا پر اس کا ناول فن میں خاص اضافہ کرتا ہے،پھر بھی دس بارہ اقسام ایسے ملتے ہیں جو خاص طور پر نمایاں ہیں... تاریخی ناول شاید ناول کی نمایاں ترین قسم ہے۔یورپ میں سر والٹر اسکاٹ نے اس کو کمال تک پہنچایا اور اس کی پیروی میں ڈوما اور ہیو گو نے اس کمال کو قائم رکھا۔ اس قسم کے ناول کا کمال یہ ہے کہ کسی پرانے دور کا نقشہ اس حسن خوبی سے کھینچا جائے کہ وہ بالکل جیتا جاگتا ہمارے سامنے آجائے ۔‘‘

ناول کیا ہے،ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی، نسیم بک ڈپو لکھنؤ ص 96( 

ناول کی تما م قسموں میں تاریخی ناول کی نمایاں اہمیت ہے۔اس طرز کے ناول ماضی سے متعلق ہوتے ہیں اور ماضی کی دریافت تاریخ سے ہوتی ہے۔چونکہ تاریخ، عہد گزشتہ کے نمایاں انسانوں،ان کے کارناموں اور واقعات و حادثات کو قطعیت اور صداقت کے ساتھ بیان کرتی ہے جس میں ایک طرح کی خشکی ہوتی ہے۔ واقعات کے دوٹوک بیان کی وجہ سے تاریخ  میں دلچسپی کا عنصر مفقود ہوتا ہے۔تاریخی ناول میں انھیں واقعات کو تخیل کی بنیاد پر اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ عہد زندہ اور تابندہ نظر آنے لگتا ہے،اور اس کے ذریعے قارئین دلچسپی کے ساتھ تاریخ سے متعارف ہو جاتے ہیں۔ تاریخی ناول کے اسی کمال کی وجہ سے عالمی ادب میں اسے نمایاں مقام عطا کیا گیا اور کثرت سے تاریخی ناول تحریر کیے گئے۔ یورپ میں تاریخی ناول نگاری کا باقاعدہ آغاز سر والٹر اسکاٹ نے کیا جس کا پہلا ناول ’ دے ورلی ‘ ہے جو 1814 میں شائع ہوا۔ ہندوستان میں تاریخ کو بنیاد بنا کر ناول تخلیق کرنے کا سلسلہ بنگالی زبان سے شروع ہوا۔ بنکم چند چٹرجی نے پہلا تاریخی ناول ’درگیش نندنی‘  تحریر کیا جس کا سنہ اشاعت 1865 ہے۔ اردو ادب میں تاریخ کو بنیاد بنا کر ناول تحریر کرنے والوں میں اولیت عبدالحلیم شرر کو حاصل ہے۔ انھوں نے اردو ادب میں اس طرز کے ناول تحریر کرنے کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا تاریخی ناول ’ ملک العزیز ورجینا ‘ جو 1888 میں شائع ہوا۔

عبد الحلیم شرر سے قبل ڈپٹی نذیر احمد اور رتن ناتھ سرشار نے کئی ناول تخلیق کیے،جس میں نذیر احمد کا ناول توبۃ النصوح اور ابن الوقت کافی مقبول ہوا۔ رتن ناتھ سرشار کا ناول ’ فسانہ آزاد‘ نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔ ان کے ناول موضوعاتی طور پر اصلاحی اور معاشرتی بیان پر مشتمل ہیں ابتدا  میں عبد الحلیم شرر نے بھی روایتی انداز کے ناول تحریر کیے جن میں پہلا ناول ’ دلچسپ ‘ ہے جو 1886 میں شائع ہوا اور یوں ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا۔اس کے علاوہ ’ دلکش ‘ بدرالنسا ء کی مصیبت، آغا صادق کی شادی، طاہرہ،  غیب داں دلہن  اور ’اسرار دربارحرام پور ‘ وغیرہ۔یہ تمام ناول معاشرتی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ان ناولوں پر نذیر احمد اور سرشار کے اثرات مرتب ہیں جن کو قبول کرتے ہوئے شرر نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔گو کہ شرر کے یہ معاشرتی ناول اپنے عہد میں کامیاب ہوئے لیکن شرر نے اپنے نوک قلم کو موڑا اور تاریخ کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔تاریخ کو بنیاد بنا کر متعدد تاریخی ناول تحریر کیے جن کی کل تعداد چونتیس ہے۔ جس میں بنکم چند چٹرجی کا ناول ’درکیش نندنی‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ان کے مشہور تاریخی ناول حسب ذیل ہیں  درگیش نندنی،  ملک العزیز ورجینا، حسن انجلینا،  منصور موہنا،  فلورا فلورنڈا،  ایام عرب،  فردوس بریں، مقدس نازنین، فتح اندلس، قیس و لبنیٰ،  زوال بغداد،  رومۃ الکبری،  الفانسو،  فاتح مفتوح، جویائے حق،  عزیزہ مصر،  مینا بازار ، شہزادہ حبش  وغیرہ۔

شرر کے تاریخی ناول نگاری کی طرف مائل ہونے کے پس پشت خود ان کے عہد کا ماحول اور مسلمانوں کی زبوں حالی، مایوسی اور کسم پرسی تھی جس سے باہر نکالنے کے لیے اس عہد کے دانشوران ادب نت نئی کوششیں کر رہے تھے جس میں سر سید اور ان کے رفقا پیش پیش تھے اور شرر کے ذہن کو جلا بخشنے اور انھیں مکمل طور پر تاریخی ناول کی طرف آمادہ کرنے میں سر والٹر اسکاٹ کا مشہور ناول  ’ طلسمان‘ کا اہم کردار رہا ہے۔اسکاٹ نے اپنے اس ناول میں مسلمانوں کی شبیہ مسخ کی تھی اور ہلال و صلیب کے مقابلے میں مسلمانوں کو مجبور ومغلوب دکھایا تھا۔ شرر نے اس ناول کے رد عمل میں اپنا پہلا ناول ’ ملک العزیز ورجینا ‘ تحریر کیا اور خود اس ناول کے تحریر کرنے کے وجوہات بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’میں نے والٹر اسکاٹ کا ناول طلسمان پڑھا تیسری صلیبی لڑائی کو پیش نظر رکھ کر تصنیف کیا گیا تھا اس میں مسلمانوں کی اہانت دیکھ کر مجھے ایسا جوش آیا کہ اس عنوان پر ایک ناول میں بھی لکھوں۔چنانچہ یہی جوش نکالنے کے لیے میں نے ملک العزیز ورجینا شائع کرنا شروع کر دیا جو دلگدازکا پہلا ناول ہے ۔‘‘

)بحوالہ عبد الحلیم شرر بحیثیت تاریخی ناول نگار، علی احمد فاطمی،ص 261(

اس امر کا ذکر ملحوظ رہے کہ شرر نے 1887میں اپنا ایک ماہنامہ رسالہ ’دلگداز ‘ جاری کیا جس میں انھوں نے تاریخی ناولوں کو قسط وار شائع کیا ہے جس میں ملک العزیز ورجینا بھی ہے جو پہلے قسط وار دلگداز میں شائع ہوا اور پھر کتابی صورت میں 1888 میں شائع ہوا۔ شرر نے اپنے اس ناول میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور رچڑد شیر دل کو موضوع بناکر بیت المقدس کے حصول کے لیے ہونے والے ان کے مابین معرکوں کو پیش کیا ہے اور انھیں واقعات کو تاریخی شواہد کے مطابق بیان کیا ہے۔

عبد الحلیم شرر کا یہ تاریخی ناول اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد تھا، جس کی وجہ سے اس عہد میں کا فی مقبول ہوا۔ اس ناول کی مقبولیت نے شرر کو متعدد تاریخی ناول لکھنے پر مجبور کیا اور انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی اہم تاریخی ناول تحریر کیے۔ دنیائے ادب میں، انھیں مقبولیت انھیں تاریخی ناولوں کے ذریعے حاصل ہوئی۔

قارئین کی تاریخی ناول سے دلچسپی نے نہ صرف شرر کو مقبول بنایا بلکہ اس عہد کے دیگر ناول نگاروں کی بھی توجہ اس طرز نو کی طرف مبذول کرائی۔ شرر کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کے معاصرین نے بھی تاریخی ناول کے میدان میں طبع آزمائی کی جس میں پہلا نام حکیم محمد علی طبیب کا ہے۔

حکیم علی طبیب ہر دوئی کے رہنے والے تھے۔ پیشے سے ہردوئی میونسپلٹی میں صدر طبیب تھے اور طبیب ہی ان کا تخلص بھی تھا، شرر کے معاصرین میں سے تھے جس زمانے میں شرر دلگداز نکالتے تھے یہ ہردوئی سے ایک ماہنامہ رسالہ ’ مرقع عالم‘ نکالتے تھے۔ حکیم صاحب بیک وقت طبیب، فلسفی، مورخ، ادیب، صحافی اور ناول نگار بھی تھے۔اس عہد کے ملکی مسائل سے متاثر ہو کر قوم کی اصلاح کی طرف مائل ہوئے اور اپنے رسالے اور ناولوں کو قوم کی اصلاح کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا۔ انھوں نے معاشرتی اور تاریخی دونوں طرز کے ناول تحریر کیے۔ ان کے آٹھ ناول ہیں جن میں پانچ تاریخی اور تین معاشرتی ہیں۔عبرت، نیل کا سانپ، جعفر و عبایہ، رام پیاری اور ’ خضر خاں دیول دیوی ‘ ان کے تاریخی ناول ہیں۔

شرر کی طرح طبیب کے تاریخی ناولوں میں موضوعات کا تنوع ہے انھوں نے اسلامی تاریخ کے علاوہ یورپ کی تاریخ پر اپنے ناول ’عبرت‘ کی بنیاد رکھی اور ’رام پیاری‘ اور ’دیول دیوی ‘ میں ہندوستانی تاریخ کو موضوع بنایا ہے۔ حکیم محمد علی طبیب کی تاریخی ناول نگاری کی بابت ڈاکٹر عبدالحق تحریر کرتے ہیں :

’’ طبیب کے ناول تاریخی ہیں۔ ان ناولوں میں تاریخی شخصیتوں،تاریخی واقعات یا دوسرے تاریخی مواد کے ارد گرد پلاٹ تعمیر کیا گیا ہے اور واقعات کی تاریخی ثقافت کو بھی بڑی حد تک بر قرار رکھا گیا ہے۔ طبیب کے تاریخی ناولوں کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ان واقعات کے علاوہ جو براہ راست ناول کا موضوع ہیں ہمیں اس عہد کے دوسرے اہم تاریخی واقعات اور شخصیتوں کا علم بھی ان ناولوں کے ذریعے حاصل ہو جاتا ہے ۔‘‘

)محمد علی طبیب حیات اور تصانیف،ڈاکٹر عبد الحق، خواجہ پریس دہلی 1889(

شرر کے بعد حکیم محمد علی طبیب نے تاریخی ناول نگاری کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے نہ صرف اس کے خزینے میں مزید اضافہ کیا بلکہ اس روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔

اردو کے اولین تاریخی ناول نگاروں میں ایک اہم نام منشی امراؤ علی کا بھی ہے۔ یہ لکھنؤ کے رہنے والے تھے انھوں نے بھی تاریخ کو موضوع بناتے ہوئے ایک ناول ’رزم بزم‘ تخلیق کیا ہے جو مطبع نول کشور سے 1893 میں شائع ہوا۔ یہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے اس میں سلطان شہاب الدین غوری کو موضوع بناکر اس عہد کے ہندوستان کی تاریخ کو پیش کیا گیا ہے۔اس ناول میں فوج کی لڑائی راجہ جے چند کی شکست اور راجپوتوں کی دلیری اور شجاعت کا مرقع دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس ضمن میں ایک اور اہم نام منشی محمد مصطفی خان کا بھی ہے۔ انھوں نے دواہم تاریخی ناول تحریر کیے۔ پہلا ناول ’ مہر النسا‘ ہے جو 1897 میں شائع ہوا۔اس ناول میں انھوں نے جہانگیر اور مہرالنسا کے معاشقے کے مابین مغلیہ عہد کے ہندوستان کی تاریخ کو پیش کیا ہے۔اس ناول کے دیباچے میں منشی محمد مصطفی خاں وضاحت کرتے ہیں :

’’ خاندان مغلیہ کے شاہنشاہ سلیم (جہانگیر ) اور مہرالنسا (نور جہاں ) کی الفت و محبت کی داستان سے تو شاید ہی کوئی ناواقف ہو اور جہاں تک اپنا خیال ہے شاید ان کا دلچسپ فسانہ بڑی بڑی رنگ آمیزیوں کے ساتھ ملک میں شائع ہے مگر فکر و کوشش کسی کے ساتھ محدود و مخصوص نہیں ہے اس وجہ سے اس کو ایک نئی صورت میں پبلک میں پیش کرنا نا مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔۔۔۔۔اگر آپ انصاف کریں گے تو اس میں تاریخی تخلیقات۔ راستی حالات،سلاست مضامین التزام تہذیب پاکر ضرور قدر افزائی فرمائیں گے۔‘‘

)سلیم ومہرالنساء منشی محمد مصطفی علی خاں،نامی پریس لکھنؤ،ص 2(

ان کا دوسرا تاریخی ناول ’ماریہ سلطانہ‘ ہے جس میں انھوں نے پہلی صدی ہجری کے عرب کے حالات  اور تہذیب و معاشرت کا احاطہ کیا ہے۔

سجاد نبی خان بھی اولین دور کے اہم ناول نگار ہیں۔ ان کے دو اہم تاریخی ناول دستیاب ہیں۔پہلا ناول ’عفت آرا ‘ ہے جو 1897 میں شائع ہوا۔اس ناول میں انھوں نے جہاندار شاہ کے عہد کو موضوع بناکر شہر بغداد کی تاریخ و معاشرت کی بہترین عکا سی کی ہے۔ ان کا دوسرا اہم ناول ’ طارق بن زیاد‘ ہے جس کا سنہ اشاعت 1903 ہے۔ اس ناول میں انھوں نے طارق بن زیاد کے کارناموں اور فتح اسپین کو موضوع بنایا ہے جس کے تناظر میں اس عہد کی تاریخ کو بہت پر کشش انداز میں پیش کیا ہے۔

نوبت رائے بھی ابتدائی دور کے ناول نگار ہیں۔ 1866 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اردو ادب میں ان کی اصل شناخت بحیثیت شاعر کی ہے۔ انھوں نے دوناول ’حسین رانی‘ اور ’عروج و زوال‘ تحریر کیے ہیں۔ ان میں عروج و زوال کی حیثیت تاریخی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے پر تھوی راج چوہان اور محمد غوری کے مابین ہونے والی جنگوں کو موضوع بنایا ہے۔

ابتدائی عہد سے متعلق ایک اہم نام منشی محمد احسن وحشی کا بھی ہے ان کا بھی شمار اردو کے اولین تاریخی ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ’محبوس کنشت‘ ان کا اہم تاریخی ناول ہے جو نامی پریس لکھنؤ سے 1899 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں انھوں نے سبکتگین اور محمد غوری کے حملوں اور اس عہد کے ہندوستان کی تاریخ کو بنیاد بنا کر اس ناول کا تانا بانا بنا ہے۔1001 میں سومنات پر غزنوی کے حملے اور اس عہد کی ہندو تہذیب و معاشرت کی مکمل طور پر عکاسی کی ہے۔

سید عاشق حسین بھی ابتدائی عہد کے اہم تاریخی ناول نگار ہیں۔ انھوں نے متعدد اہم ناول تخلیق کیے۔ جس میں بیشتر ناول معاشرتی موضوعات پر ہیں تارا، نشیب و فراز، اسلم اور حبیبہ، جذب الفت، کاوش دل، شادی و غم اور ’مظفر اور راما بائی‘ ان کے اہم ناول ہیں۔ان کے ناولوں میں ’مظفر اور راما بائی‘ اور’نشیب وفراز ‘ تاریخی ناول ہیں۔ یہ ناول سیٹھ کندن لال پریس سے شائع ہوا۔ اس میں عاشق حسین نے اورنگ زیب کے سپہ سالار مظفر اور راما بائی کے معاشقے کو بنیاد بنا کر مغلیہ عہد کی تاریخ کو پیش کیا ہے۔مظفر خاں کی حیثیت تاریخی ہے یہ اورنگ زیب کا ایک جری، نڈر اور بہادر سپہ سالار تھا۔سید عاشق حسین نے اس ناول میں مظفر کے کردار کو دوبارہ زندگی بخشی اور اس کے کا رناموں کو اس طرح سے پیش کیا ہے جس طرح سے تاریخ میں درج ہے، اس کردار کو بہادری اور جواں مردی کا نمونہ بنا دیا۔ ’نشیب و فراز‘ میں ہمایوں کا عہد موضوع بیان ہے جس میں ہمایوں کی تخت نشینی،شیر شاہ سوری سے محاربے اور ایران کی تاریخ کو پیش کیا ہے۔

منشی احمد حسین خاں کا بھی شمار ابتدائی عہد کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اردو ناول کی روایت کو مزید آگے بڑھایا۔معاشرتی ناولوں کے ساتھ انھوں نے چند تاریخی ناول بھی تخلیق کیے ہیں۔ جن میں ’جواں مردی ‘، مہرالنساء ‘ اور’نادر شاہ‘ اہمیت کے حامل ہیں ان کے تینوں ناول مغلیہ عہد کے ایک طویل عہد کا احاطہ کیے ہوئے ہیں جس میں عہد جہانگیر سے لے کر نادرشاہ کے حملے اور اس کے بعد 1857کے خونین انقلاب کی تاریخ کو اپنے تینوں ناولوں میں سمیٹا ہے۔

حکیم محمد سراج الحق، عبد الحلیم شرر کے معاصرین میں سے ہیں۔ آپ رسالہ دلگداز کے پبلشر تھے۔شرر کی تقلید میں انھوں نے بھی دو تاریخی ناول تخلیق کیے جن میں پہلا ناول’ فیروزشاہ ‘اور دوسرا ناول ’ماہ دخت‘ ہے۔تاریخی اعتبار سے ناول ’ فیروزشاہ‘ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ناول 1930 میں شائع ہوا۔اس ناول میں فیروز شاہ بہمنی کے عہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس موضوع کے تناظر میں ناول نگار نے فیروز شاہ بہمنی اور راجہ دیورائے وال بیجا نگر کے محاربوں کے ساتھ سچے تاریخی واقعات کو نہایت ہی لطیف پیرائے میں بیان کیاہے۔

موہن لال فہم بھی اردو کے اولین تاریخی ناول نگار ہیں۔ آپ لکھنؤ کے رہنے والے تھے شرر کے ناولوں سے متاثر ہو کر آپ نے بھی متعدد تاریخی ناول تخلیق کیے ہیں جن میں’بزم اکبری‘ بلاس کماری،چاند سلطانہ،شیر دکن، مقدس دیوی، سیلاب خون، ٹرکی حرم سرا،اورنگ زیب عالم گیر اور چنچل کماری تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔

 موہن لا ل فہم کے ناولوں میں خالص ہندوستان نظر آتا ہے۔ ہندوستان کی عہد بہ عہد تاریخ،تہذیب وتمدن ان کے ناولوں میں مرکزیت رکھتے ہیں۔ناول بلاس کماری جو 1920 مطبع منشی نول کشور سے شائع ہوا۔ اس ناول میں عہد عالم گیر کا مرقع ہے جس میں انھوں نے راجپوت قوم کے اوصاف قومی پاسداری اور حب الوطنی کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک راجپوت لڑکی بلاس کماری کی عصمت و عفت کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے بہادری کے اقدامات کا نہایت شاندار بیان بھی ملتا ہے۔ ان کا دوسرا اہم ناول’چاند سلطانہ‘ ہے جو 1930 میں سیٹھ کندن لال پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔اس ناول کا موضوع دکن کی تاریخ سے متعلق ہے جس میں انھوں نے بیجا پور اور احمد نگر کے تاریخی حالات کو قلم بند کیا ہے۔ ان کا تیسرا اہم ناول ’سیلاب خون‘ پہلی جنگ آزادی کے واقعات، انگریزوں کی کارروائیاں، ملک کی تباہی نانا صاحب اور جھانسی کی رانی کے اقدامات کا احاطہ کیے ہوئے شیوا جی اور ان کے کارناموں کو موضوع بنا کر شیر دکن تخلیق کیا۔ اس ناول میں مغلوں اور مرہٹوں کے مابین ہونے والے معرکوں کو تاریخی جزئیات کی روشنی میں پیش کیا۔موہن لال فہم کے ناولوں میں مغلیہ عہد کے ہندوستان کی تاریخ نظر آتی ہے۔ اس عہد کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی اتھل پتھل، حکمرانوں کی کارروائیاں اور اس عہد کے اہم تاریخی واقعات کو ناول کے پیرائے میں نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا۔موہن لال فہم نے اگرچہ عبد الحلیم شرر کی تقلید میں تاریخی ناول نگاری کی ابتدا کی تھی مگر ان کے ناولوں پر شرر کے اثرات نہیں مرتب ہوئے۔ انھوں نے شرر سے علیحدہ اپنی ایک راہ نکالی اور موضوعات بھی اپنی ہی سر زمیں کی تاریخ کو بنایا۔ موہن لا ل فہم کی تاریخی ناول نگاری سے متعلق ڈاکٹر نزہت سمیع الزماں  رقم طراز ہیں :

’’ شرر کے مقابلے میں بنکم چند سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ شرر کے مقلدین نے ہندوستان کے مقابلے میں دوردراز کے علاقوں سے زیادہ دلچسپی دکھائی ہے لیکن فہم کے نالوں کا پس منظر ہندوستان کی تاریخ ہے۔ ان کی ذہنیت اور انداز تحریر پر بھی بنکم چند کا گہرا اثر معلوم ہوتا ہے ۔‘‘

) اردو ادب میں تاریخی ناول کا ارتقاء ڈاکٹر نزہت سمیع الزماں، نامی پریس لکھنؤ،نومبر 1982،ص149(

ایڈوکیٹ سراج الدین بھی اردو کے اولین تاریخی ناول نگاروں میں سے ہیں۔ان کا مشہور ناول داستان پاستان ہے جو حمیدیہ اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس ناول کا موضوع فتح اندلس اور اس عہد کی تاریخی صورت حال ہے جس کو ناول نگار نے بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا اور اس عہد کے تاریخی حقائق کو بھی بڑی مستعدی سے افسانوی انداز میں بیان کیا ہے۔

مذکورہ بالا ناول نگار اردو کے اولین تاریخی ناول نگار ہیںجن کا عہد 1888 سے 1930 تک ہے۔ ان میں عبدالحلیم شرر کی حیثیت اردو میں تاریخی ناول نگار کی بنا رکھنے والوں میں سے ہیں۔ شرر نے نہ صرف تاریخی ناول کی بنیاد رکھی بلکہ کثرت سے دو درجن سے زائد تاریخی ناول لکھ کر اردو میں تاریخی ناول نگاری کی روایت کا آغاز کیا۔

شرر کی اس تاریخی روایت سے متاثر ہو کر ان کے معاصرین نے بھی تاریخی ناول کے میدان میں طبع آزمائی کی اور بہ کثرت تاریخی ناول تخلیق کیے اور اردو تاریخی ناول کے خزانے میں اضافہ کیا۔ یہ تمام تاریخی ناول نگار اردو میں تاریخی ناول نگاری کے بنیاد گزار ہیں، جنھوں نے اس روایت کو رواج بخشا اور اردو میں تاریخی ناول نگاری کے فن کو فروغ دیا۔     

Ammar Shahid

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 8853656283

Email.: ammaralig1992@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...