تلخیص
وسط ہند کی جن سابقہ مسلم ریاستوں نے اردو زبان وادب کی ترقی و ترویج میں اپنا رول ادا کیا ہے ان میں جا ؤرہ کو منفرد مقام حاصل ہے۔1808سے 1947 تک یہاں چا رنوابین نواب عبد الغفور خان، نواب غوث محمد خان، نواب محمد ا سمٰعیل خان، نواب محمد افتخار علی خان نے فرمانروائی کی ہے۔ سبھی حکمرانوں نے اردو کی آبیاری میں مر بیا نہ کدو کاوش کی ہے۔بے شک مذکورہ نوابین ادیب اور ادب نواز تھے۔ اس دورمیں شعرا واد با کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی اہمیت کے پیش نظر جاؤرہ کانام ’گلشن آباد‘رکھا گیا۔ آج بھی یہاں کے شعرا کے لیے گلشن آبادی کی نسبت باعث افتخار ہے۔جاؤرہ میں نظام الدین نظام کی شاعرانہ اور ادیبا نہ عظمت مسلم ہے۔وہ اعلیٰ پایے کے مدون اور مرتب بھی تھے۔ اپنے مرشد برہنہ شاہ حیدر آباد ی کا ’باغ شاداب‘اور عزیز شاگرد انبا سہائے فرحت کا ’دیوان گلشن‘ مرتب کر کے شائع کروایا۔ ان کی دوبہنیں ضیا و حیا بھی اعلیٰ درجے کی شاعرات تھیں۔ ان کے علاوہ رفعت جہاں گلشن آبادی اور رمزگلشن آبادی کی شاعری محفلوں کو زعفران زار بناتی تھی۔پیر محمد یوسف خان گلشن آبادی کا شمار جاؤرہ کے عمائدین میں ہوتا ہے۔ وہ مصنف، شاعر، محقق،مفسر اورمترجم تھے’پیر ہن یوسفی‘ ان کا اہم کام ہے۔
نواب افتخار علی خاں کا زمانہ ریاست اور اردو زبان کی ترقی کا زمانہ تھا۔’ گوپال افتخار گئوشالہ‘ اسی زمانے کی یاد گار ہے۔ مشرف یار خان شرف اس وقت کے اہم شاعر وادیب تھے۔انھیں داغ دہلوی نے’ وقار الاعظم‘کے خطاب سے نوازا تھا۔
ما قبل آزادی جاؤرہ میں اردو شاعری کا خوشگوار ماحول تھا۔ اس شاندارروایت کو برقرار رکھنے میں متین، مفتی احمد علی گلشن آبادی،شفیع گلشن آبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔آزادی کے بعد اردو کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔اس کے باوجود خطیب گلشن آبادی، سیف الدین گلشن آبادی، بیدل افتخار گلشن آبادی، شکیب اثر، ساحرافغانی،محمد خضر تیموری کے علاوہ اکیسویں صدی کے شاعروں میں ناداں، شفیع، عارف، رفعت، کوکب، خیالی، شباب، معین وغیرہ اپنی بساط بھر کاوش پیہم کر رہے ہیں۔
اسی طرح قیام ریاست کے اوائل سے ہی سے والیان ریاست نے نثر کی طرف بھی خاص توجہ کی۔نوابوں سے متعدد نثری تصانیف منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ نظام الدین اور پیر محمد یوسف اعلیٰ پایے کے نثر نگار تھے۔
ریاست نے طباعت اور اشاعت کے شعبے میں بھی اہم کارنامے انجام د یے۔ خوش نویسی کی تربیت بھی بڑی عرق ریزی سے دی جاتی تھی جو طباعت میں معاون تھی۔
اردو کو مقبول عام بنانے میں وہاں کے مشاعروں اور محفلوں نے بھی نمایاں کردارادا کیا ہے۔ جاؤرہ میں اس کی شاندار روایت آج بھی برقرار ہے۔ نواب اسمٰعیل خان کے زمانے میں حسین ٹیکری کا قیام1886 میں عمل میں آیا۔ اسی وقت سے عقیدت مند زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے اور مسالمہ، مناقبہ،محفل مراثی کی روایت قائم ہے۔ یہاں کی تعزیہ داری اور بارہ ربیع الاول کانعتیہ مشاعرہ بھی مقبول عام ہے۔
اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے سیاق میں جب جاؤرہ کی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی ثروت مندی اور برومندی عیاں ہو جاتی ہے۔ اب بھی وہاں اردو ادب کا گراں قدر خزانہ بطور مسودہ،مخطوطہ، قلمی نسخہ اور نایاب کتب موجودہے، جو محتاج اشاعت ہے۔
کلیدی الفاظ
جاؤرہ، والیانِ ریاست، نوابین، گلشن آباد، نواب عبدالغفور، عالم گیر خان عالم، نظام، باغ شاداب، حیا گلشن آبادی، گلدستہ نضارت، مشاہیر نسواں، نواب افتخار علی خاں، شفیع گلشن آبادی، خطیب گلشن آبادی، شکیب گلشن آبادی، معظم خان ساحر افغانی، سیر محتشم، عقل و شعور، ماسٹر عبدالقادر سحر، ماہنامہ جرائد،
—————
قلب ہندمیں واقع ’ایم -پی‘ کی جن ریاستوں نے اردو زبان وادب کی آبیاری اور سرپرستی کی ہے ان میں جا ورہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ فی الواقع نوابین جاورہ نے جس انداز سے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں ان کی وجہ سے سابقہ ریاست جاورہ ’جزیزہ ٔاردو‘ کہلانے کا استحقاق رکھتی ہے۔ 1808 میں عبد الغفور خان کو اندور کے مہاراجہ ہولکر نے دلیرجنگ کے خطاب سے سرفراز کیا اور انھیں یہ ریاست مرحمت فرمائی تو وہ نواب کہلائے۔یہاںکے چار نوابوں نے فرمانروائی کی ہے جن کے ادوار حکومت حسب ذیل ہے ں۔
1 افتخار الدولہ نواب عبد الغفور خان بہادردلیر جنگ (1808 سے 1825)
2 محتشم الدولہ نواب غوث محمد خان بہادر شوکت جنگ(1825 سے1865)
3 احتشام الدولہ نواب محمد اسمعٰیل خان بہادر فیروز جنگ (1865 سے1895)
4 فخرالدولہ نواب محمد افتخار علی خان بہادر صولت جنگ( 1895 سے1947)
1947 میں آزادی کے بعد یہ ریاست حکومتِ ہند میںضم ہو گئی۔ اس وقت یہ رتلام ضلع کی ایک تحصیل ہے۔
یہاں کے والیان ریاست نے اردو زبان وادب کی ترقی و ترویج میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ نوابین نے ملک کے دیگر علمی وادبی مراکز سے اہل علم و ہنر اور شعراوادبا کو اپنے یہاں مدعو کیا جن کی آمد کا سلسلہ آزادی تک جاری رہا۔ جو حضرات یہاں آئے وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے اور یہاں کی تہذیب و تمدن اورادب و ثقافت کے رنگ میں رنگ گئے۔ سبھی نوابین ادیب اور ادب نواز تھے جن کی خدمات مشہور ہیں۔ نواب عبد الغفور خاں، صاحب ِقلم اور بہترین شاعر تھے۔ان کا ادبی سرمایہ دست برد زمانہ کی نذر ہوگیا۔ان کی مد ت ِحکومت کل آٹھ برس کو محیط ہے۔ان کے متعلق مورخ اشفاق احمد زاہدی کی یہ تحریر بڑی اہمیت کی حامل ہے :
’’کچھ عرصہ تک ریاست اندور میں ہی قیام رہا باوجود اس کے کہ اب ان کی اپنی علیحد ہ ایک ریاست ہو گئی تھی۔وہ ریاست اندور کے انتظام میں بدستور سابقہ مصروف رہے اور انھوںنے مہاراج ہلکر کے ساتھ اپنے قدیم تعلّقات بہ پابندی وضعداری قائم رکھے۔ سریمنت مہاراج اندور اور ماں صاحبہ نے ان کی عزت میں فرق نہ آنے دیاچنانچہ1821 میں افتخارالدولہ جاؤرہ تشریف لائے۔ گڑھی میں محلات تعمیر کراکر رہنے سہنے لگے۔ ریاست اندور سے چلے آنے کاایک فائدہ یہ ہوا کہ نواب صاحب بہادر بالقابہ کو اپنی ریاست کی طرف توجہ کرنے کا پورا وقت مل گیا۔انھوں نے ریاست کے انتظامات میں از سرِ نو تر میم و تنسیخ شروع کردی۔‘‘1؎
انھیں کے دور میں جاورہ کانام گلشن آباد رکھا گیا۔اس کا محمد ابرار علی صدیقی نے اپنی کتاب ’آئینہ دلدار‘ میں اس طرح ذکر کیا ہے :
1270ہجری میں ریاست جاورہ کو گلشن آباد کے نام سے موسوم کیا گیا چنانچہ اس سلسلے میں پیر جی محمد یوسف خان صاحب نے یہ قطعہ تاریخ کہا تھا۔ ؎
شجرۃ المحتشم باغ جہاں
ہے طفیل غفور عالی نسب
فکر تاریخ میں جو کی یوسف
بلبلوں نے کہا ذرا ہے ادب
گلشن آباد ہو گیا اس سے
کیا ہے پھولا پھلا درخت عجب2؎
نواب عبد الغفور کا انتقال 1825 میں ہوا تو نواب غوث محمد خان فرانروائے جاورہ ہوئے۔ان کے زمانے میں جاورہ کی خوشحالی میں اضافہ ہوا بعض مورخین نے ان کے دور کو عہد زریں تسلیم کیا ہے۔ ان کے دور اقتدار میں تعلیم کی جانب خصوصی توجہ مبذول کی گئی۔انھوں نے شمالی ہند سے آنے والے شعرا و ادبا کی بڑی پذیرائی کی۔ان میں منشی عظیم بیگ کانام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔وہ مرزا محمد رفیع سودا کے شاگرد رشید تھے۔ ’سیر سلاطین دہلی‘ان کی اہم کتاب ہے جو تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کی علمی، تنظیمی اور انصرامی خصوصیت کو مورخوں نے صدق دل سے اعتراف کیا ہے۔ ’تاریخ مالوہ ‘کے مصنف محمد شہامت علی خان ان کی علم دوستی اور ادب پروری کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’نواب محتشم الدولہ محمد غوث خاں بہادر شوکت جنگ نے قدم مسند ریاست میں رکھا اس والا جاہ نے فراہمی میں اہل فضل و ہنر کی سعی کی۔تیاری مقالات و گنج بازار وغیرہ میںبیشترہمت مصروف ہوئی۔ جاورہ مثل رام پور دارالعلوم ہوا۔کثرت علماء و شعرا سے ثانی دہلی ا ور لکھنؤ ہو گیا۔‘‘
’ بغاوت ِمالوہ‘بھی ان سے منسوب ہے ’تاریخ یو سفی دربار جاورہ‘میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے :
’’عزیزالقدر محمد یوسف خان منشی گیرائی سرکار جاؤرہ بعافیت باشد۔در سنہ 1857 حین غو غائے رستخیز بہ باغیان فرجام و مفسدان بد سرانجام کہ عالمی از وساوس شان مطمئن نبود ایشان پائے ثبات در زمین ارادت قائم داشتہ بکارہائے خیر اندیشی پرداختہ مابدولت را خوش داشتند کہ د و جلدوآن حسن خدمتی وثیقہ ہذا کہ متضمن بہ نیک نامی است عطا فرمودیم و خلعت بر آن مستزاد۔‘‘3؎
’بغاوت مالوہ‘ کا ذکرگارسان دتاسی نے اپنے خطبات اخبار عالم میں کیا ہے۔نواب صاحب اردو،فارسی اور انگریزی کے عالم تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔انھیں داستان سننے کا بڑا شوق تھا لہٰذا ان کے دربار میں داستان گو ملازم تھے۔
ان کے دور میں نامور شعرا موجود تھے۔عالمگیر خاں عالم، صاحب دیوان شاعر تھے۔ان کا دیوان ’الموسوم بمذاق عشق ‘قابل ذکر ہے۔پیر محمد یوسف خان اردو شعرو ادب کے اہم ستون تھے۔ان سے منسوب 15کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔انھوں نے اپنی عمر طولانی میں تین نوابوں کا دور دیکھا۔’پیرہن یوسفی‘ ان کی قابلیت و صلاحیت کی ضمانت ہے۔دراصل یہ مثنوی معنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ ہے جوان کی عربی،فارسی اور اردو میں مہارت پردال ہے۔مثال کے طور پران کے چند اشعارجو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیے گئے ہیں ملاحظہ کیجیے ؎
ـمن بہر جمعیتے نالاں شدم
بخت خوش حالاں وبدحالاں شدم
(میں ہر اک مجلس میں جا نالاں ہوئی
نیک بختوں اور بدوں سے میں ملی)
دہر کہ آواز ہم زمانے شد جدا
بے نوا شد گر چہ دارد صد نوا
(ہم زباں سے جو ہوا اپنے جدا
لاکھ ساماں رکھے پر ہے بے نوا)
ان کے دور کے شعرا میں نظام کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔وہ صاحب دیوان شاعر تھے ان کا اصل نام نظام الدین اور تخلص نظام تھا۔ وہ جاورہ میں 1830 کو پیدا ہوئے۔ ’دیوان نظام‘ (’ترانۂ دلخواہ‘) 1881 میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیاتھا مگر 1932میں شائع ہوا۔یہ دیوان 264صفحات پر مشتمل ہے۔انھوں نے اپنا تعارف بطور تعلّی اس طرح پیش کیا ہے ؎
گروہِ شاعرانِ ہند میں ہے آج کل چرچا
مری شیریں مقالی کا مری نازک خیالی کا
نظام اپنے زمانے کا میں نعمت خانِ عالی ہوں
کہ شہرہ تا بہ ایراں ہے میرے مضمونِ عالی کا
جاورہ میں نظام کی شاعرانہ عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا ہے۔ان کے کلام میں فصاحت،بلاغت اور ندرت کے خلاقانہ جوہر ہیں۔چھوٹی اور بڑی بحروںمیں انھوں نے اظہار خیال کیا ہے۔چھوٹی بحرکے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
دل میرا بے قرارہے کس کا
داغ دل یادگارہے کس کا
کچھ خبر بھی ہے ناقۂ لیلیٰ
پیچھے پیچھے غبار ہے کِس کا
عرق شرم ہے نہیں شبنم
رخ گل شرمسار ہے کس کا
ابر گریہ ہے کیوں خدا جانے
دیدہ اشک بار ہے کس کا
تربت قیس ہے کہ گور نظام
دشت میں یہ مزار ہے کس کا
بحر طویل میں بھی انھوں نے اپنے فن کا جوہر دکھلایا ہے ؎
ترا تیرِ نظر ہے خدنگ اجل کبھی جس کا نشانہ خطا نہ ہوا
اسی تیر سے اے بت فگن دلِ زار نظام نشانہ ہوا
جو نظام وہ دشمنِ مہرو وفا ہے ہمیشہ سے بانیِ جوروجفا
مری آہ و فغاں اسے نغمہ ہوئی مرا گریہ و نالہ ترانہ ہوا
انھوں نے ہر مروجہ صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ان کی ایک رباعی ملاحظہ کیجیے ؎
طفلی میں نشاط سے ہی سروکار رہا
اور پھر عہدِ جوانی میں غمِ یار رہا
پیری میں خیالِ توبہ ہر بار رہا
موت آئی توپھر ہوش نہ زِنہار رہا
وہ ایک اعلیٰ پایے کے مدون اور مرتب بھی تھے۔ انھوںنے مشاہیر شعراکے دو اوین کو بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا اور انھیں شائع کروایا۔ ان میں بڑی اہمیت کا حامل ’باغ شاداب‘ ہے جو شاہ برہان الدین المتخلص بشر عرف برہنہ شاہ حیدرآبادی کا دیوان ہے۔اس کے متعلق ’باغ شاداب ‘کے صفحہ دو پر یہ تحریر رقم ہے:
’’اِن کے کلام کو مرتب کرکے اور کلام کو ردیف وار ترتیب دے کر اور جگہ جگہ سے اکٹھا کرکے اور بعد تحقیق کے شائع کراکے اسے منظرِ عام پر لانے کا سہرا سید نظام الدین نظام کے سر ہے۔اس کی طباعت آپ نے جاؤرہ سے بھوپال جاکر کرائی جبکہ وہ خود رتلام کے اخبار کے سابق ایڈیٹر تھے اور رتلام سے ’رتن پرکاش‘ اخبار جب نکلتا تھا تو وہاں کے چھاپہ خانہ کے مہتمم رہے۔ علاوہ ازیں اس دورمیں مطبع ’احتشام المطابع جاؤرہ ‘ کے مہتمم تھے باوجود اس کے خصوصی طور پر آپ نے بھوپال جاکر شائع کرائی اور نام اس کا ’باغِ شاداب‘ رکھا۔‘‘
اس سے متعلق نظام نے یہ تحریر فرمایا ہے :
’’بشرصاحب کاورود جاورہ ہوتا رہتا تھا اور وہ مہینوں قیام فرماتے۔ان کی شان میں مشاعرے مناقبے، مسالمے منعقد ہوتے۔اہل جاورہ کو صوفیوں اور درویشوں سے ازحد انسیت تھی۔نظام ان سے مستفید ہوئے۔‘‘
لالہ انبا سہائے فرحت کا دیوان ـ’گلشن فرحت‘ کے نام سے1888 میںترتیب دے کر زیور طبع آراستہ کروایا جس کی بڑی شہرت اور پذیرائی ہوئی۔
اس دور میں نظام کی دو بہنیں سلطان جہاں ضیا اور سکندر جہاں حیا تھیںجن کا شمار اہم شاعرات میں ہو تا تھا۔ داغ دہلوی کے زمانے میں ان کے کلام ’ماہ درخشاں‘ اور’پیام یار‘ لکھنؤ سے شائع ہوتے تھے۔دونوں صاحب دیوان شاعرات تھیں۔ ضیا نواب رام پور کی اہلیہ تھیں 1942 کے تذکرہ شاعرات میں ان کا ذکر ہے۔ ’گلدستہ ٔ نضارت ‘میں شامل ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
تما شائی تمہارے حسن کے ہر سو نکلتے ہیں
حرم میں اہل ایماں دیر میں ہندو نکلتے ہیں
ضیا کے مدعی سمجھے سخن اپنا ہی ذومعنی
نئے انداز میں اس میں نئے معنی نکلتے ہیں
ضیا کی ایک مشہور عام غزل محفلوں میں گائی جا تی ہے اس کے مطلع کا یہ شعر ہے ؎
میرے دوست زندگی بھر مجھے یوں ہی پیار کرنا
میں تجھے دغا نہ دوں گی میرا اعتبار کرنا
انھوں نے ایک قصیدہ کہہ کر نواب شاہجہاں بیگم والیہ ریاست بھوپال کی خدمت میں بھیجا تھا ازراہ قدر دانی انھیں ڈیڑھ سو روپیہ بطور انعام ملا۔
حیاگلشن آبادی ضیا سے چھوٹی تھیں۔ وہ بھوپال میں سلطانیہ گرلس ہائی اسکول میں فارسی کی استاذ تھیں۔ وہ صاحبِ دیوان شاعرہ بھی تھیں۔1942 میں طبع شدہ ’گلدستہ نضارت ‘میں حیا کے یہ اشعار موجود ہیں ؎
اس نے دل توڑ دیا تار نفس ٹوٹ گیا
اے حیا دیر سے تھا ناک میں دم خوب ہوا
جو کچھ دل میں ہے لکھ دوصاف ان کو
حیا عرض مطلب میں حیا کیا
گلدستہ ٔ نضارت میں ان کی856 اشعار پر مشتمل ایک مثنوی موجود ہے۔ انھیں کے کچھ اشعار دیکھیے ؎
تیرا سودا تھا کہ سر میں آتش
کوئی غم تم کو نہ تھاافسوس کل کی بات ہے
دل آگ ہے اور لگائیں گے ہم
کیا جانیں کسے جلائیں گے ہم
مدت گزر گئی نہ لکھا اس کو حالِ دل
خود اپنی بیخودی سے حیا شرمسار ہے
658 صفحات پر مشتمل’مشاہیر نسواں‘ میں ملک اور بیرون ملک کی شاعرات کے کلام شامل ہیں۔ ان میں حیا ،ضیا کے علاوہ رفعت جہاں گلشن آبادی کا تذکرہ ہے جن کی غزلیں آج بھی محفلوں کو با رونق بناتی ہیں۔ اس زمانے کی ایک اورشاعرہ کا ذکرملتا ہے وہ ہیں حسن آرا۔وہ 1885 میں پیدا ہوئیں اور ان کی وفات 1944 میں ہوئی۔ ان کا تخلص تھا رمز گلشن آبادی۔ان دنوں خواتین کا شاعری کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اس لیے وہ مشاعروں میں بہت کم شامل ہوتی تھیں اپنا کلام اپنے بیٹے مدبر علی خان کو مشاعروں میں پڑھنے کے لیے دیتی تھیں۔ وہ بیدل گلشن آبادی کی شاگردہ تھیں۔ انھوں نے غزل، مخمس اور مثلث میں طبع آزمائی کی ہے۔ علاوہ ازیں تضمینیں بھی کہی ہیں۔ان کا مجموعہ کلام شائع نہیں ہو سکا ایک قلمی نسخہ ڈاکٹر سیّدسرور علی گلشن آبادی کے پاس موجودہے۔انھوں نے علیم سے بھی اصلاح لی تھی اس کا اعتراف ا نھوں نے اپنے اس شعر میں کیا ہے ؎
لب ہل سکے نہ رمز کبھی بزم شعر میں
گر مہرباں علیم ساصاحب ہنر نہ ہو
بطورنمونہ ان کے کچھ اشعار دیکھیے ؎
آزادغم سے تھے تو تماشا تھا ایک جہاں
اب عشق نے ہمیں کو تماشہ بنا دیا
کہنے میں دل کے آ کر برباد ہو نہ جانا
ہے رمز کیا بھروسہ ناداں کی دوستی کا
لالہ انبا سہائے فرحت گلشن آبادی،ایک کائستھ خاندان کے سپوت تھے۔ ان کی پیدائش 1865 میں ہوئی۔ انھوں نے کمسنی میں ہی شاعری کی شروعات کی اور مختصرسی مدت یعنی 19سال کی عمر میں وہ صاحب ِدیوان شاعر بن گئے۔وہ فرخ گلشن آبادی کے چہیتے شاگرد ہوگئے۔استادنے دیوان فرحت شائع کی اور اس کی تاریخ اشاعت بھی کہی ؎
ترا دیواں ہو فرحت نور دیدہ
سوادِ چشم ہو اس کی سیاہی
ہوئی تاریخ تقریبِ دعا میں
کہ فرحت پر رہے فضلِ الٰہی
انھوں نے وفو ر ِ جذبات میں اپنے شاگردِ رشید کے کلام کی اشاعت پرایک تقریظ تحریر کی تھی اس سے ہونہار شاگرد کی علمیت،لیاقت اور صلاحیت کا اندازہ ہو تا ہے۔
فرحت کے بڑے بھائی لالہ گورسہائے عشرت پایے کے شاعر تھے انھوں نے بھی ’دیوانِ فرحت‘ کی تاریخ کہی ہے ؎
خدا کے فضل سے دیوانِ فرحت
ہوا جب ختم دِل نے پائی راحت
بہت اچھّا لکھا ہے روز مرہ
زباں اردو ہے اردو میں فصاحت
مجھے تاریخ کی تھی فِکر از حد
نہ تھا آرام دِل کو ایک ساعت
یکایک ہوکے خوش ہاتف نے مجھ سے
کہا شاباش تحسین واہ فرحت
چھوٹی بحر میں فرحت کے خوب اشعار ہیں ؎
ستمِ بے حساب نے مارا
ہر گھڑی کے عتاب نے مارا
جس نے دیکھا اْسی کے ہوش اُڑے
صورتِ لاجواب نے مارا
کسی کروٹ نہیں مجھے آرام
دلِ پر اضطراب نے مارا
نگہِ شوق نے کیا بِسمل
زلف کے پیچ و تاب نے مارا
ان کے بڑے بھائی عشرت گلشن آبادی بھی خوش فکر شاعر تھے۔فرحت کا سہرا بہت مقبول ہے اسے چندا رقاصہ نے گایا تھا۔مقطع کا شعر دیکھیے ؎
مرحبا سب نے کہا آفریں سب نے فرحت
بزم میں ناچ کے چندا نے جو گایاسہرا
فرحت اپنی دلکش شاعری کی وجہ سے مقبول عام تھے۔ گلشن آباد کی ادبی تاریخ میںانھیں ہمیشہ فخر روزگارشاعر کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔
نواب افتخار علی خان کی پیدائش 1883 میں ہوئی۔انھوں نے عربی،فارسی اور اردو کی تعلیم میاں مسعود سے حاصل کی۔ اندورکالج،اندور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے سات سالوں تک ریاست کے کاموں کو سیکھا۔امپیرئل کیڈٹ دہرادون میںریاستی امور کی تربیت پائی۔1895 سے 1947 تک وہ برسر اقتدار رہے۔ان کے عہد میں ریاست کی ترقی کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی بھی خوب ترقی ہوئی۔ ’گوپال افتخار گئوشالہ‘ اسی زمانے کی یاد گار ہے۔مشرف یا ر خان شرف اس زمانے کے اہم شاعر و ادیب ہوئے ہیں۔وہ 1865 میں جاؤرہ میں پیدا ہوئے ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا۔رتلام ضلع کے جن دو مسلم طالب علموں نے سب سے پہلے میڈل میں کامیابی حاصل کی تھی ان میں ایک نام آپ کا بھی تھا۔ انھوں نے ذاتی طور پر فارسی اور اردو میں مہارت حاصل کی تھی۔ فطرتاًوہ شاعر تھے۔اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ شاعری کرنے لگے تھے وہ گلشن آباد کے شیدائی تھے۔ان کی خط و کتابت داغ دہلوی سے تھی۔گلدستہ ’گلشن داغ‘میں ہر ماہ مصرعہ طرح پر غزلیں شائع ہوتی تھیں۔نومبر 1899 میں مصرعہ ’ نامہ بر راضی نہیں انعام پر ‘مشرف نے اس طرح گرہ لگائی تھی ؎
اثر کیا ہوا دل ناکام پر
جان دیتا ہے تمھارے نام پر
باوفا تم کہتے ہو اغیار کو
مر نہیں جاتے تمہارے نام پر
داغ دہلوی نے انھیں ’وقار الاعظم‘ کا خطاب دیا تھا ان کے یہ اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ؎
اس عاشقی نے زیر و زبر کر دیا جہاں
موسیٰ ہے کوہ طور پر یوسف ہے چاہ میں
اس کے سائے میں ہے بہار زیست
گلشن آباد رشک جنت ہے
ماقبل آزادی جاورہ میں اردو شاعری کا خوشگوار ماحول تھا، آزادی کے بعد صورت حال میں تبدیلی آئی ہے مگر جو پرانے لوگ باحیات تھے ان حضرات نے اس شاندار روایت کو برقرار رکھا۔ان میں متین الدین خان متین ایک اہم نام ہے۔وہ سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔جاورہ کے ایک مشاعرے میں سیماب صاحب نے متین کی غزل سنی تووہ ورطۂ حیرت میں آ گئے اور کہا ’’اس کم سنی میں فکر کا یہ عالم ممکن ہے یہ شاعر یا تو دیوانہ ہو جائے گا یابہت ممکن ہے مر جائے ‘‘ان کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ وصل کی تمنا میں اس قدر سجدہ ریز ہوئے کہ ان کی ناک گھس گئی اور جب وہ بات کرتے توناک سے ان کی آواز نکلتی تھی۔ نواب صاحب کے درباری محفل میں وہ شامل ہوتے تھے اور دربار سے وابستہ مغنیہ بشیرن کووہ اپنا کلام لکھ کر دیتے تھے اور گانے کی فرمائش کرتے تھے۔مسودے کی شکل میں ان کا کلام آج بھی جاورہ میں موجود ہے۔ نمونتاً کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
خطا معاف ہو یا رب کہ بے خطا ہوں میں
کسی کو ڈھونڈتا،تاعرش آگیا ہوں میں
نصیب جو نہ ہوئی شیخ کو لب کوثر
تری نگاہ کے صدقے میں پی گیا ہو ں میں
وہ ایک دِن کہ میسر تھی تیری دید مجھے
کہ آج نقشِ کفِ پا کو ڈھونڈتا ہوں میں
مفتی احمد علی احمد گلشن آبادی (1883-1956) کہنہ مشق شاعر تھے۔ان کے لڑکے سید عبد الواحد (ع-واحد) جو اس وقت ترکی میں مقیم ہیں۔انھوں نے اپنے والد کا مجموعہ کلام ’باد کہن‘ کے نام سے شائع کروایا ہے جس کا پیش لفظ صدیق الرحمن قدوائی نے لکھا ہے۔ واحد کا پہلا مجموعہ کلام’لندن کی دوسری شام‘1985 میں منظر عام پرآیا اور’عقل شر ر‘کی اشاعت 2004 میں ہوئی۔ان کا ایک مطلع ملاحظہ کیجیے ؎
وقت کے مصائب سے د ل برا نہیں ہوتا
نقش ریت پر کوئی دیر پا نہیں ہوتا
حفیظ جونپوری کے کلام پر ان کی تضمین کاکمال دیکھیے ؎
دھوپ ہوتی ہے نہ چھاوںبری ہوتی ہے
روز و شب شام و سحر دل شکنی ہوتی ہے
مسکرا لیتے ہیں گو دل پہ بنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
شفیع گلشن آبادی 1908 کو جاورہ میں پیدا ہوئے۔ان کی طبیعت پچپن سے ہی شاعری کی طرف مائل تھی۔وہ بیدل گلشن آبادی کے شاگرد تھے اوراکبر حسین اکبر سے بھی استفادہ کیا تھا۔وہ تاریخ گوئی کے ماہر تھے۔ان کا انتقا ل 25اکتوبر 1984 کو 76برس کی عمر میں ہوا۔انھیں قدرت نے لحن داؤدی عطا کی تھی۔انھوں نے اپنے استاد کی شان میں قصیدہ کہا ہے جس کے چند اشعار اس طرح ہیں ؎
اے محمدنور خاں بیدل امامِ شاعری
تیرے پیچھے ہم پہ واجب ہے قیامِ شاعری
پاس تیرے جو بھی آیا تشنہ کامِ شاعری
تونے خود بھر کر پلایا اسکو جامِ شاعری
تیرا میخانہ کھلا تھا اور اذنِ عام تھا
یا ر اور اغیار سب پیتے تھے جامِ شاعری
جل رہا تھا یہ شاعری کا چراغ
آزادی کے بعداردو شعرو ادب میں نمایاں نام خطیب گلشن آبادی کاہے۔ان کااصل نام غلام ربانی ہے لیکن و ہ اپنی عرفیت نبّن صاحب کے نام سے معروف تھے۔ ان کی پیدائش 1915 میں جا ورہ میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی۔ ’گلستان ‘و ’ بوستان‘ پڑھنے کے بعد انھوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور بار ہائی اسکول سے آٹھویں پاس کرنے کے بعد علی گڑھ چلے گئے۔ وہاں سے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد ایف اے میں داخلہ لیالیکن طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے علی گڑھ چھوڑ کر جاؤرہ آگئے جہاں وہ ملازمت کرنے لگے اور ترقی کرتے کرتے تحصیل دار ہوئے اور شاہی مطبخ کے سپرنٹنڈنٹ بھی۔مگر اس میں ان کا دل نہیں لگا اور وہ مستعفی ہو کر کاشتکاری کرنے لگے۔ عربی، فارسی، فقہ، حدیث، تاریخ اور علوم متداولہ میں ان کا شمار ماہرین میں ہوتا ہے۔ وہ صف اوّل کے ادیب اور اعلیٰ پایے کے شاعرہیں۔ علی گڑھ کے زمانۂ طالب علمی میں وہ مخمور دہلوی، بے خود دہلوی، احسن مارہروی، رشید احمد صدیقی کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ جاؤرہ میں انھوں نے ناداں کی شاگردی اختیار کی۔ فن عروض میں انھیں مہارت حاصل تھی۔انھوں نے شاعری میں قدیم رنگ سخن کو ترجیح دی ہے۔ بقول پروفیسر آفاق احمد صدیقی:
’’ان کے یہاں سادگی اور خلوص کی درو مندی ہے۔ جذبہ کی صداقت کے ساتھ احساس جمال موجود ہے۔ وہ مشاہدہ حق کی گفتگو بادہ و ساغر کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘‘ ؎
لڑکھڑانے لگے ہیں ابھی سے قدم
تشنہ کامو! ابھی میکدہ دور ہے4؎
وہ قادرالکلام شاعر تھے۔ انھیں زبان و بیان پر بھر پور قدرت حاصل تھی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’قطرہ قطرہ خون‘ 1992 میں شائع ہوا اور دوسرا مجموعہ’مشاہدہ ‘2001 میں شائع ہوا۔ وہ سیدھے سادے الفاظ میں اظہار خیال کاہنر بخوبی جانتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے ؎
پوچھا تھاایک شخص سے گھر کا ترے پتا
کتنے فسانے شہر میں مشہور ہوگئے
کسی کی زلف جب بکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے
خیالوں میں بڑی پیچیدگی معلوم ہوتی ہے
انگڑائیاں زمانے کی اللہ کی پناہ
ہر موڑ پر حیات کے نقشے بدل گئے
ہم نے کھیلی ہے خون سے ہولی
جب چمن میں بہار آئی ہے
انھوں نے حمدیہ اشعار اور حمدیہ قطعات کثیر تعداد میں کہے ہیں۔ نعت اور منقبت کو بھی خوب سے خوب تر انداز میں پیش کیا ہے۔ حمد و نعت اور منقبت کا مجموعہ ’نذرانہ‘ کے نام سے تیسرا مجموعہ کلام 2002 میں شائع ہوا۔ ’محامد باری تعالیٰ‘ چو تھا مجموعہ کلام 2003 میں شائع ہوا۔گلشن آباد کے اس فخر روزگار شاعر2006 نے اپنی زندگی کا 91سالہ طویل سفر تمام کیا اور اپنے وطن جاؤرہ میں سپرد خاک ہو ئے۔
سیف الدین سیف گلشن آبادی 19 جنوری1939 کو جاؤرہ میں پیدا ہوئے۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اس وقت ان کی شاعری پروان چڑھی جب جا ؤرہ میں اردو شاعری اپنے عروج پر تھی۔ ان کے کلام کا مجموعہ’ندائے سیف‘پہلی بار1995 میںبعد میں کچھ اضافے کے ساتھ 2020 میں شائع ہوا۔83سال کی عمر میں 7جولائی بروز جمعہ 2023 کو انھوں نے آخری سانس لی۔ انھیں شاعری میں انفرادی اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ’ندائے سیف‘ سے کچھ منتخب اشعارملاحظہ کیجیے ؎
دل پاش پاش ہے جو ستمگر کے سامنے
شیشے کی کیا بساط تھی پتھر کے سامنے
عظمت خاندان ہوتی ہے
اچھی سیرت سے شان ہوتی ہے
خون جس پر گرے شہیدوں کا
وہ زمین آسمان ہوتی ہے
محبوب کا نازک بدن ہو وہ بھی نوک خار پر
سر ہو جس کا دار پر دراصل وہ سردار ہے
یہ کیا ہے دور سیاست کہ جس میں
پنپنے لگی دل میں فرقہ پرستی
مجبوریوں کی آج کوئی انتہا نہیں
میرے لیے ہی میرے چمن میں جگہ نہیں
بیدل افتخار گلشن آبادی شاداں اندوری کے شاگرد تھے۔ انھوں نے مقامی اور بیرونی مشاعروں میں شرکت کی۔ ان کے شعری مجموعے کا اجرا1991 میں شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کے ہا تھوںہوا۔
جاؤرہ کے شیدائی گرگ باران دیدہ انسان شکیب گلشن آبادی آزادی سے پہلے جاؤرہ کی جاہ و حشمت کے چشم دید گواہ ہیں۔ آزادی کے بعد کی صورت حال سے نبر د آزما ہیں۔ جاؤرہ میں ان کی ہستی سالارکارواں کی ہے۔انھیں شعر و ادب سے از حد شغف ہے۔ اپنی پیرانہ سالی میں بھی اردو زبان وادب کے لیے تگ و دو کر تے رہتے ہیں۔ وہ اچھے نثرنگار ہیں۔ دراصل وہ اس وقت محافظ اردو ہیں۔ وہ 1934 میں جاؤرہ میں پیدا ہوئے۔ عنفوان شباب میں شاعری کی۔ ان کے کلام ملک اور بیرون ملک کے معتبر اور موقر رسالے میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ساحر لدھیانوی کی نظم’تاج محل‘ کی پیروڈی لکھی ہے ؎
ملکہ عالیہ ممتاز محل جان وفا
آج کیا بات ہے نا ساز ہیں دشمن کے مزاج
آپ جب بھی ہمیں مغموم نظر آتی ہیں
قسمیہ سیکڑوں آفات گزر جاتی ہیں
کچھ تو فرمائیے آخر یہ فضیحتہ کیا ہے
دست نازک میں ملکہ یہ جریدہ کیا ہے
مابدولت کو دیجیے ملاحظہ کر لیں
شکیب صاحب نے نعت میںبھی طبع آزمائی کی ہے۔ ماہ نامہ’ضیاء وجیہ‘رامپور میں شائع شدہ ایک نعت ملاحظہ کیجیے ؎
اک اشارے سے قمر جب شق ہوا
عقل کا چہرہ وہیں پر فق ہوا
ان کا کلمہ باعث رونق ہوا
پڑ ھ لیا فوراًدرود مصطفی
خوف کا جنگل جو لق و دق ہوا
نعرہ ٔ تکبیر لب پہ آگیا
خوف سے دشمن کا سینہ شق ہوا
خضر صورت شکیب صاحب ابھی باحیات ہیں اورادبی سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
آزادی کے معاً بعد جن ادبی ہستیوں نے جاورہ کی فضا کو خوش گواربنایا ان میں مرزا غفار بیگ المتخلص اثر کانام نمایاں ہے۔ وہ 1949 میں پیدا ہوئے۔ان کی تعلیم و تربیت ادبی ماحول میں ہوئی اور عنفوان شباب سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا۔ مشاعروں میں ان کی بڑی مقبولیت تھی۔ انھوںنے اپنے ملک کے علاوہ باہری ممالک امریکہ اور کینیڈا میں بھی اپنا کلام سنایا۔1995 میں آپ کا مجموعہ کلام ’چراغ کی لو‘ ناگپور سے شائع ہوا۔ بطور تاثر ڈاکٹر منشاء الرحمن خاں منشا نے جو قلم بند کیا ہے اس کی بڑی اہمیت ہے۔شکیب کی شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے منشاصاحب فرماتے ہیں :
’’ اثر صاحب ایک بالغ نظر انسان اور حساس اہل دل فنکارہیں، سلاست، سادگی اور صداقت ان کے کلام کے نمایاں جو ہرہیں۔ ہر شعر میں پختگی وشائستگی اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہے۔‘‘5؎
درج ذیل اشعار سے ان کی انفرادیت کا اندازہ ہوتا ہے ؎
اختلاف با ہمی خود موت کا پیغام ہے
بانس ٹکراتے ہیں آپس میں تو لگ جاتی ہے آگ
زندگانی کا سفر بھی کس قدر دلچسپ ہے
مشکلیں اپنی جگہ پہ حادثہ اپنی جگہ
آہیں کچھ ایسی دِل پہ مسلط رہیں اثر
جیسے کسی ’چراغ کی لَو‘ پر دھواں رہے
ہم خریدیں تو محبت ہے جو اہرسے گراں
ہم جو بیچیں تو وہی پیسہ کی دھڑی ہے یارو
اثر صاحب کی 16اکتوبر 2016کو رحلت ہوئی۔
معظم خان ساحر افغانی کا شمار جاؤرہ کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔انھوں نے غزل، نظم، قصیدہ، رباعیات اور قطعات وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔رسائل میں آپ کی تخلیقات برابرشائع ہو تی رہیں نیز ریڈیو اور ٹی -وی پر بھی ان کے پروگرام نشر ہو تے رہے ہیں۔محتاجِ اشاعت کلام کامسودہ ان کے عزیز و اقارب کے پاس موجود ہے۔اس سے منتخب چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
کاندھے سے اس کابوجھ اْٹھانے کے بعد بھی
دیوار عمر بھر رہی چھت کے دباؤ میں
میں لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر
سفر سفر ہے، مرا انتظار مت کرنا
گھر سے نکلے ہیں آنسوؤں کی طرح
واپسی کا کوئی سوال نہیں
عمر کے آخری ایّام میں ان کی حالت نا گفتہ بہ تھی دم واپسیں پر بے کسی کا یہ عالم تھا ؎
شدید جنگ ہے اس وقت دو تقاضوں میں
دوا خریدیں کہ بچوں کے واسطے روٹی
محمد خضر میرزاتیمور ی، خضرجمال گلشن آبادی کا شمار جاؤرہ کی معزز ادبی ہستیوں میں ہو تا ہے۔وہ 13اکتوبر1934 میں جاؤرہ میں پیدا ہوئے۔علم داد خان کے شاگرد تھے۔محکمہ ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ان کی نظم ’ماں ‘بہت مشہور ہے ؎
میری محسن میری استاد میری پیاری ماں
تیرے قدموں میں نظر آتے ہیں جنت کے نشاں
تیری آنکھوں میں محبت کے کنول کھلتے ہیں
تیرے ماتھے پہ تقدس کے دیے جلتے ہیں
تیری تقدیس ہے حوران بہشتی کا غرور
تیرے ہلکے سے تبسم سے فضا ہے پر نور
فخر آدم ہے تری ذات سراپا برکات
بزم تخلیق پہ احسان ہیں تیری خدمات
وہ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد عرصہ دراز تک جاؤرہ میں فروکش رہے۔موذی مرض کوویڈ19- سے متاثر ہوئے اور 23اپریل 2021کو جاں بحق ہو گئے۔
آزادی سے پہلے جاؤرہ میں اردو زبان وادب پر بہار تھی۔لیکن آزادی کے بعد اس پر خزاں خیمہ زن ہو گئی اور بحر ادب کی موجوں میں وہ روانی نہیں رہی۔ ’وسط ہند میں اردو ادب‘ کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر مہتاب عالم نے بجا فرمایا ہے:
’’ 1947سے 1960تک کا زمانہ جاؤرہ میں اردو ادب اور ثقافت کے لحاظ سے مایوس کن رہا۔ یہاں کے ادبا اور شعرا کی ایک بڑی جماعت تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر جانے کے بعدجاؤرہ کی ادبی فضا میں ایک جمود سا طاری ہو گیا تھا۔ اس ادبی جمود کو توڑنے میںصاحب زادہ سلطان حامد خان ثروت کا نام قابل ذکر ہے۔‘‘6؎
فی الحال محب اردو کی ایک بڑی جماعت اس کی گرتی ہوئی دیوار کو بچانے کے لیے سرگرداں ہے۔شعرا حضرات ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ان میں کچھ بزرگ شعرا بھی ہیں۔ اکیسوی صدی کے شعرا میں ناداں، شفیع، عشرت ،پرویز عارف، رفعت،شمیم فرحت،سیدصابر کوکب، سید مقصود علی خیالی، شباب گلشن آبادی،معین گلشن آبادی وغیرہ اپنی بساط بھر کاوش میں مصروف عمل ہیں۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ جاؤرہ کی موجودہ نسل تو اردو رسم الخط سے نابلد ہوتی جا رہی ہے۔
قیام ریاست کے اوائل ہی سے شاعری کے ساتھ ساتھ والیان ریاست نے نثر کی آب یاری کی طرف بھی توجہ مبذول کی۔ بانیِ ریاست نواب عبدا لغفورادیب اور ادب نواز تھے۔ نواب غوث محمد خان صاحبِ سیف و قلم تھے۔ ان سے متعدد کتابیں منسوب ہیں۔’ سیر محتشم‘ 650 صفحات پر مشتمل ایک سفرنامہ ہے۔ جس میں مصنف نے جاؤرہ سے دہلی،لکھنؤ، کانپور،بریلی اور شاہجہاں پور وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس دور کی مقتدر ہستیوں کی ملاقات کو قلم بند کیا ہے۔’ مجمع السلاطین ‘اور’ فرس نامہ‘ ان کی اہم کتابیں ہیں۔’ شکار نامہ محتشمی‘ غیاث الرحیم شکیب کے پاس ایک مخطوطے کی شکل میںآج بھی موجود ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس کی کیف و کم کے مدنظر اسے 19 ویںصدی کی اردو نثر کانمونہ قرار دیتے ہوئے یہ اظہار خیال کیا ہے :
’’ قلمی شکار نامہ 1814 میں مکمل ہوا اور غوث محمد خان کا انتقال 1815 میں ہو گیا اور رجب علی بیگ سرور اور مرزا غالب کے دنیا کو خیر باد کہنے سے چند سال پہلے آپ دنیا سے رخصت ہو گئے یعنی اردو ادب کے ان دونوں ستونوں کے ہم عصر کہے جا سکتے ہیں۔‘‘7؎
نواب اسمعٰیل خان کے دورمیں نظام الدین نظام قابل ذکر نثر نگار تھے۔ وہ تقر یباً 15 کتابوں کے مترجم، مصنف اور مؤلف ہیں ان میں ’عقل وشعور‘ اور’ عطار د نگار‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اس پر ’سب رس‘کے تمثیلی انداز بیان کا گمان ہوتا ہے۔اس کتاب کے مرکزی خیال پر اظہارخیال کرتے ہوئے شکیب صاحب تحریر فرماتے ہیں :
’’ ایک خیالی اور روایتی ملک کانام فر ونستاں ہے۔ اس میں ایک شہر دانش آباد ہے۔ وہاں کے بادشاہ کے شہزادے کا نام خرد پرور ہے۔ بادشاہ کو خرد پرور کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوتی ہے اپنے وزیروں سے مشورہ کرتا ہے ہر ایک وزیر بادشاہ کے سامنے اپنی تقریر کے ذریعے اظہار کرتا ہے اور بادشاہ کو مشورہ دیتا ہے۔وزیروں کی تقریرنثر نگاری کا مرقع ہے۔ نظام صاحب کی علمیت اور وسیع مطالعے کی دلیل ہے تاریخ کے حوالے،حکایتیں، مسابقیں کے اقوال زریںبر محل اشعار،پند ونصائح اور پھر تحریر میں روانی کا ا لتزام۔8؎
مذکورہ کتاب کی اہمیت اور افادیت پر وہ مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’عقل و شعورکا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1873 میں شائع ہوئی تو انگریز حکومت نے اس کی محکمہ تعلیم اور سررشتہ پنجاب کے لیے 500جلدیں خریدیں اور مؤلف کو 300روپے انعام دیا۔‘‘ 9؎
یہ کتاب منشی نول کشور پریس سے طبع ہوئی۔ 1914 کا ایڈیشن شکیب صاحب کے پاس موجود ہے۔اس کے علاوہ ’عطارد نگار‘ 135سالہ قلمی نسخہ بھی آپ کے پاس موجود ہے۔
پیر جی محمدیوسف کا شمار اس دور کے اہم نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ مؤرخ،مفسر،مترجم اور مؤلف تھے۔ تاریخ یوسفی در بار جاؤرہ، شرح یوسفی، سوانح محمد یوسف خاں گلشن آبادی 1903 میں مکمل ہوئی جوقلمی تھی۔ یہ نسخہ 1954 میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان کو سید مطیع اللہ راشد برہان پوری سے دستیاب ہوا تھا۔جسے 1999 میں کراچی (پاکستان) سے شائع کرایا۔
افتخار علی خان کے زمانے میں مشرف یار خان اردو کے کہنہ مشق ادیب تھے’ زراعت مالوہ‘ اور ’ڈائمنڈ جوبلی‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔اس کے علاوہ ایک ’تذکرہ‘ کا بھی ذکر ملتا ہے۔1932 میں جب وہ سبکدوش ہوئے تو ’تاریخ جاؤرہ‘ اور ’تاریخ ہندوستان‘ لکھنے کا سلسلہ جاری کیا تھا جو مکمل نہیں ہو سکا۔ جاؤرہ میں تاریخ پر بڑی مستند کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اشفاق احمد زاہدی کی کتاب’تاریخ جاؤرہ‘ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو 03 جنوری1947 کو شائع ہوئی..... ہندستان کی آزادی تک،یہاں ملک کے گوشے گوشے سے مشاہیر ادب کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ جن کی ریاست میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ ان عظیم ہستیوں میں خواجہ حسن نظامی، علامہ راشد الخیری، عظیم بیگ چغتائی اور ان کی بہن مشہور زمانہ ادیبہ عصمت کی آمد اور قیام کا ذکرملتا ہے۔ فی زمانہ نثر نگاری کے میدان میں غیاث الرحیم شکیب کاقلم رواں دواں ہے۔ پہلے وہ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھتے تھے جو رسائل میں شائع ہو تے تھے۔جاؤرہ کے ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس سیاق میں ان کے ان گنت مضامین ہیں۔ ڈاکٹر شبانہ نکہت انصاری نے ان کے منتخب مضامین کو’جاؤرہ سے جاؤرہ تک‘ کے نام سے مرتب کرکے دسمبر 2021 میں قومی اردو کونسل دہلی کے مالی تعاون سے شائع کرایا ہے۔ اس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے عرض مرتبہ میں وہ تحریر کر تی ہیں :
’’ غیاث الرحیم شکیب نے شہرجاؤرہ کے حالات شخصیات اور نوادرات پر بڑی باریک بینی، تلاش، جستجو اور تحقیق کے بعد قلم اٹھایا ہے۔ اسی تلاش و جستجو اور تخلیقی ریاضت کے سبب انھوں نے ایسے گراں قدر گوہر نایاب دریافت کیے ہیں جن سے تاریخ ادب اردو کے کئی ا بواب کھلتے ہیں۔ ایسے گوہر نایاب کا دستیاب ہو جانا خصوصاً شہر جاؤرہ کی ادبی تاریخ اور عموماً تاریخ ادب اردومیں اضافے سے تعبیر کیا جائے گا۔‘‘10؎
جاؤرہ کی نثر نگاری میںماسٹر عبد القادر سحر’ بھی ہیں، ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’تقدیر کے بندھن ‘ اردوا کادمی بھوپال سے شائع ہوا ہے۔ انھوں نے کئی فلمی کہانیاں لکھی ہیں جو فلمائی بھی گئی ہیں۔ جاؤرہ کی ادبی تاریخ کے مطالعے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جس قدر شعری سرمایہ ہے اس کی بہ نسبت نثر کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔ اس میں بھی تاریخ، ترجمہ، تشریح، تفسیر وتالیف زیادہ ہے۔ اور تخلیقی ادب پر بہت کم قلم اٹھا یا گیا ہے۔
جاؤرہ میں اردو کی ترقی و ترویج میں طباعت واشاعت کا اہم کردار ہے۔ والیان ریاست نے اس طرف بھر پور توجہ دی ہے۔ نواب غفور خان نے اپنے زمانے میں دار الطبع قائم کیا۔ جس میں کتابیں، رسائل اور سرکاری کا غذات کی اشاعت ہوتی تھی۔ وہ دیگر کتابوں کی اشاعت میں مالی تعاون بھی فراہم کرتے تھے۔ مولوی غیاث الدین کی ’غیاث اللغات‘کو ایک ہزار ورپے کی معاونت کی تھی۔ نواب افتخار علی خان کے زمانے میں ’ ماہنامہ جرائد‘، ’فرمان اور ا حکام‘ کے بعد بہت سی کتابیں شائع ہوئیں جن میں ڈپٹی نذیر احمد کا( قرآن کا تر جمہ) بھی شامل ہے۔ نواب کے پسندیدہ کلام کے مجموعے ’گلدستہ نضارت‘ کی اشاعت بھی ہوئی۔ ہندوستان کے سابق ہوم منسٹر کیلاش ناتھ کاٹجو کے والد پنڈت تربھون ناتھ کی تصنیف،’دستور ریونیو‘ کے علاوہ ڈاکٹرعبدالعلیم کی تصنیف’اردو تھیٹر‘ اسی پریس سے شائع ہوئی۔ آزادی کے بعد کئی برسوں تک اس چھاپہ خانہ کا وجود برقراررہا۔ سلطان حامدخان ثروت کے وقت میں ’سفیر مالوہ‘اور’پکار‘ جیسے اخبارات کی اشاعت اسی چھاپہ خانہ سے ہوئی۔ اگلے زمانے میں طباعت کے سیاق میں خوش نویسی بڑی اہمیت کی حامل رہی۔جس کی تعلیم و تربیت بڑی عرق ریزی سے دی جا تی تھی اس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی سے جاؤرہ کی خوشخطی کی بڑی دھوم اور بڑا چرچا تھا۔
اردو زبان و ادب کو مقبول عام بنانے میں مشاعروں اور محفلوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جاؤرہ میں اس کی شاندارروایت آج بھی برقرار ہے۔ابتدائی دور ہی سے والیان ریاست نے مشاعروں کی سرپرستی کی ہے۔ شکیب صاحب ان مشاعروں کے چشم دید گواہ ہیں چنانچہ اس کی رودا دوہ اس طرح پیش کرتے ہیں :
’’1942 میں ریاست اپنے عروج پر تھی شعر و شاعری کا دور تھا۔ہرہفتے مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ کیونکہ ریاست کے دفتروں میں جمعہ کی تعطیل رہتی تھی۔ اس لیے جمعرات کو رات نوبجے سے مشاعرہ شروع ہو تا۔دو،تین بچے رات میں ختم ہوتا۔ ساٹھ،ستر شاعر اور سامعین کی بھی کافی تعداد موجودہوتی۔11؎
بار کچہری کے سامنے نظر باغ میں ادبی اہمیت کے حامل مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مشاہیر شعرا کی تشریف آوری ہوتی تھی۔ نواب اسمعٰیل خاں کے زمانے میں حسین ٹیکری کا قیام 1886 کو عمل میں آیا۔ اس وقت سے عقیدت مند زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج بھی وہ جاری و ساری ہے۔ اس کے صحن میں مسالمہ، مناقبہ،محفل مراثی کی روایت آج بھی قائم ہے۔ حضرت ابو سعید شاہ کے آستانے پر عرس کا سلسلہ ریاستی دور سے چلا آ رہا ہے۔ اس میں مشاعرہ مناقبہ، محفل سماع اور قوالی کا اہتمام ہوتا ہے۔ جاؤرہ کی تعزیہ داری دور دور تک مشہور ہے۔ بوہرہ سماج کی مجالس میں مرثیہ خوانی ہوتی ہے جس میں بیرون ملک سے مرثیہ خواں آتے ہیں۔ ربیع الاول کا نعتیہ مشاعرہ مقبول عام ہے۔ یہاں حضور کا عرس نصف صدی سے زائد عرصے تک ہوتا آرہا ہے۔ اس کے اہتمام میں جمیل احمدخاں صاحب مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اب اس کا انصرام مقصوداحمد میاں کے ہاتھوں میں ہے۔
اردو زبان وادب کے فروغ میں تعلیمی اداروں کی کا وشیں قابل ذکر ہیں۔ریاستی دور کے آغاز میں مکاتب و مدارس کھولے گئے۔نواب اسمٰعیل خان نے ماہر تعلیم سیّد بخش کو دہلی سے جاؤرہ مدعو کیا۔ماسٹر واسودیو کا بطور ہندی استاد تقرر کیا۔ نواب افتخار علی کے دو ر میں با ر ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں کا ٹجو ہائی اسکول میں تبدیل ہو گیا۔ اسلامیہ اسکول میں شاندارسرسید لائبریری قائم ہوئی۔اس کے علاوہ ادیب کامل و ماہر کے مرکز کومنظوری ملی۔ 1960 میں شہیدبھگت سنگھ کالج قائم ہوا جس میں شعبۂ اردو کی بھی شروعات ہوئی۔ اوائل ہی سے پروفیسر عبدالباقی اور پروفیسر وسیم الدین جیسے صاحب علم کا تقرر ہوا۔1980 میں ایم اے ا ردو کی کلاس کی شروعات ہوئی بعد میںپروفیسر فہمیدہ منصوری کا تقرر ہوا۔ان کے تبادلے کے بعد شعبۂ اردو کی ترقی رک سی گئی۔شعبہ مہمان پروفیسر کے سپرد ہو گیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے اساتذہ آتے رہے۔ ان میں سیماانور،ڈاکٹر سجاد انصاری، ڈاکٹراسرار اللہ، ڈاکٹر ناظم حسین،ڈاکٹر روبینہ عرشی،ڈاکٹرمحمد افضل منصوری وغیرہ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ایک زمانے کے بعد ڈاکٹر نارائن پاٹیداراور ڈاکٹرشبانہ نکہت انصاری کااسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر پی ایس سی کے ذریعے تقرر ہوا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں اساتذہ تدریس کے ساتھ ساتھ تحریر ی کاموں میں سرگرم عمل ہیں۔ان کے مضامین موقر رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔فی الحال اس شعبے میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ طلبا کے داخلے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس شعبے کی کار کردگی بہتر ہے۔پانچ طلبا و طالبات نے تحقیقی مقالات تحریر کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں :
مقالہ نگار
عنوان
نگراں
سنہ
1
ثریہ خان
قرۃالعین حیدر کے ناولوں کا تنقیدی جائزہ
پروفیسر وسیم الدین
1986
2
خورشید جہاں بیگم
پریم چند کا ناوِل میدانِ عمل کا تنقیدی جائزہ
پروفیسر وسیم الدین
1986
3
افشاں پروین
گلشن آباد میں شاداں اندوری کا سلسلۂ تلمذ
پروفیسر وسیم الدین
1987
4
فردوس فاطمہ
خطیب گلشن آبادی ـ:حیات و شاعری
پروفیسر وسیم الدین
1989
5
ڈاکٹر سید سرورعلی
ڈاکٹر بشیر بدر کی غزلوں کا منظر نامہ
پروفیسرفہمیدہ منصوری
1998
اس کالج کے فارغ التحصیل طلبا وطالبات قرب وجوار کے اسکولوں میں اردو تدریس پر مامور ہیں۔ ڈاکٹرسید سرور علی،نازنین منصوری اور رخسانہ نے نیٹ کے مسابقتی امتحان میں کا میابی حاصل کی ہے۔ اسی کالج کے ہونہار طالب علم ڈاکٹر سید سرور علی نے ’ جاؤرہ میں اردو شعر و ادب کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ ‘کے عنوان سے مقالہ لکھ کر 2022 میں وکرم یونیورسٹی سے پی ایچ -ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کی صورت حال کے مد نظر ڈاکٹر مہتاب عالم نے جاؤرہ کوقابل تقلید قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
ــ’’آزادی کے بعدجاؤرہ ان معنوں میں اردو تعلیم کے حوالے سے مدھیہ پردیش کے دوسرے شہروں کے لیے قابل تقلید ہے کہ یہاں پرآج بھی بارہ اردو پرائمری اسکول تین مڈل اسکول اور تین ہائر سکنڈری اسکول ہیں جن میں اردو طلبا ایک بڑی تعدادمیں تعلیم حاصل کرتی ہے۔‘‘12؎
)نوٹ :ڈاکٹرسید سرورعلی کے مطابق جاؤرہ میں پا نچ ہائر سکنڈری اسکول ہیں جن میں اردو بحیثیت مضمون پڑھائی جاتی ہے۔)
مجموعی طور پر اردو زبان وادب کی ترقی و ترویج، ثروت مندی اور برومندی میں ریاست جاؤرہ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کے پیشِ نظراگراسے مدھیہ پردیس کا ’جزیرۂ اردو‘ کہاجائے تو درست ہوگا۔ اب بھی اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ بطور مسودہ،مخطوطہ اور قلمی نسخہ پردہ خفا میں ہے جو محتاج تحقیق و اشاعت ہے۔ اگر یہ ما یہ ناز ادبی سرمایہ منظرعام پر آجائے تو اردوادب کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔
حواشی
- تاریخ جاؤرہ۔اشفاق احمد زاہدی، ص 25-26
- آئینہ دلدار،محمد ابرار علی صدیقی،ص 38
- فی التاریخ بست ہفتم، اپریل 1860
- بحوالہ ڈاکٹر نارائن پاٹیدار،ادبی نشیمن،لکھنؤ دسمبر تا فروری 2023
- چراغ کی لو، تاثرات- منشا الرحمن خان منشا،ص نمبر10
- ’وسط ہند میں اردو ادب‘ ا زڈاکٹر مہتاب عالم، ص 504
- جاؤرہ سے جاؤرہ تک،مرتبہ شبانہ نکہت انصاری،ص 19-20 دسمبر 2002
- جا ؤرہ سے جاؤرہ تک،مرتبہ شبانہ نکہت انصاری، ص 121-122
- ایضاً، ص نمبر،126
- ایضاً، ص 16
- جاؤرہ ہے جاؤرہ تک۔مرتب ڈاکٹر شبانہ نکہت انصاری،ص 98
- وسط ہندمیںاردو ادب اوّل - ڈاکٹر مہتاب عالم، ص 506
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں