25/9/18

ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ (تلنگانہ بورڈ کے حوالے سے) مضمون نگار رضوانہ بیگم






ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ
(تلنگانہ بورڈ کے حوالے سے)

رضوانہ بیگم


موجودہ دور کی مادہ پرستی، الکٹرانک سازوسامان اور لامحدود خواہشات نے سماج کے ہر فرد کو ایسی بھاگ دوڑ میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس کے پاس سوچنے اور غور کرنے کا وقت ہی نہیں بچا ہے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ ترقی کی سمت اور منتہا کیا ہے؟ تگ و دو کی یہ منزل کہاں ہے؟ نسل نو کا مستقبل کیا ہے؟ مشترکہ خاندان کا تصور بھی قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ ہر فرد آزاد ہے اور اپنے عمل کے نتائج کا ذمے دار خود ہے۔ ایسے حالات میں نو عمر بچوں کی تربیت اور شخصیت سازی ایک چیلنج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس چیلنج کو قبول کرنے کی ذمے داری خاندان کے ساتھ ساتھ اسکول کی بھی ہے۔ عہد قدیم میں تو خاندان کے شانہ بہ شانہ اسکول اس ذمے داری کو نبھاتا تھا۔ اسکول کا پورا تعلیمی نظام اخلاقی اقدار کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کیا جاتا تھا۔ تعاون، ہم آہنگی اور امن پسندی جیسے اوصاف کو علاحدہ طور پر نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اب باقاعدہ طور پر مہارت حیات کے نام سے اسکول کے نصاب میں کچھ ایسی مہارتیں شامل کی گئیں ہیں جو طلبا میں مثبت رویوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوں اور روزمرہ کی زندگی میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے قابل بنا سکیں۔ ان مہارتوں میں جذبات پر قابو، باہمی رشتوں کی فہم، آپسی ہم آہنگی، تعاون کو Co-scholastic abilites کی تربیت کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی علوم کے نصاب میں بھی مہارت حیات سے متعلق مختلف صلاحیتوں کو کسی نہ کسی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسکو ل کے درس و تدریس کے عمل میں زبان کی اہمیت مرکزی ہے اسی لیے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اسکو ل کی ساری تعلیم زبان کی تعلیم ہے۔ یوں تو زبان کا اپنا کوئی موضوع نہیں ہے لیکن عرش تا فرش جو موضوعات ہیں وہ زبان کے موضوعات ہیں۔ زبان خیالات کا پیکر ہے، فکر کی تجسیم کرتی ہے، معلومات کا آلہ کار ہے۔ اس لیے طلبا کی ذہن سازی، جذباتی تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں زبان کی تعلیم کا رول اہم ہے لہٰذا اسکول کی کسی بھی سطح کا نظام زبان کی درسی کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
میرے موضوع کا تعلق اردو زبان سے ہے۔ اردو زبان اپنے آغاز سے تا حال ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ کسی خاص علاقے یا ملک تک محدود نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک تہذیبی ورثہ ہے۔ اس کی شیرینی اس کی شناخت ہے۔
ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی تعلیم کی الگ الگ سطحوں کے لیے درسی کتب تیار کی جاتی ہیں۔ یہ درسی کتب ہر سطح کے تدریسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اسکول کے تعلیمی نظام کے یہ تین مدارج یعنی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی در اصل بچوں کی تعلیم اور شخصیت سازی کا ایک تسلسل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن بچوں کی شخصیت کی نشو ونما کے مختلف مدارج کے مطابق ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان کی دلچسپیاں، رویے، رجحانات، سب بدلتے رہتے ہیں جس سے آموزش کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے تعلیم کی ہر سطح کے اپنے علیحدہ اغراض و مقاصد ہیں اور ان اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے درسی کتب کے متون کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 
اسکول کی زندگی میں ثانوی سطح (نہم اور دہم) کی تعلیم طلبا کی زندگی کا بہت نازک اور اہم دور ہے۔ اس دور کے بیشتر بچوں میں ایسی جسمانی، جذباتی، ذہنی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں جسے وہ سمجھ نہیں پاتے اور ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے میں دشواریاں محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ ان کے برتاؤ میں بھی واضح طور پر تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لہٰذا ثانوی سطح کی درسی کتب کے لیے موضوعات کا تعین اورمتون کا انتخاب ان حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کیا جاتا ہے۔
اس ضروری پس منظر کے بعد میں تلنگانہ بورڈ کے ثانوی درجات کی درسی کتب کے حوالے سے بات کروں گی۔تلنگانہ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں پر بیشتر سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے بھی رائج ہے۔ یہاں میرا موضوع محدود ہے۔ تلنگانہ بورڈ کے ثانوی درجات کی درسی کتب کا جائزہ۔ ان درسی کتب کے نام ہیں : نوائے اردو -اول اورنوائے اردو -دوئم جو بتدریج جماعت نہم اور دہم کے لیے تجویز شدہ ہیں۔ اس کی اشاعت حکومت تلنگانہ حیدرآباد نے کی ہے۔ یہ کتابیں سال رواں یعنی 2018-19 کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ نہم اور دہم دونوں کتابوں میں شامل مضامین اور نظموں کی تعداد 28ہے۔
اپنے مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے میں نے دونوں کتابوں سے صرف حصہ نظم کو ہی تجزیہ کے لیے منتخب کیا ہے۔ دونوں جماعتوں میں شعری اسباق کی تعدادمجموعی طور پر 14ہے۔
نظم کے لغوی معنی ترتیب اور آراستگی ہے۔ یہ اردو زبان کی خوش بختی ہے کہ اس نے شعر و شاعری کے لیے ’نظم ‘کا لفظ اختیار کیا۔ اور یہی نظم کی ترتیب اور آراستگی کلام میں حسن پیدا کرتی ہے۔ حسین شے دیکھ کر کس کو خوشی نہیں ملتی؟ کس کو سکون حاصل نہیں ہوتا؟ اس طرح نظم کی تشکیلی ساخت، اس کی ہیئت ہی سکون کا باعث ہوتی ہے۔ ایک روتے ہوئے نوزائیدہ بچے کو یہ ترتیب اور آراستگی خاموش کر دیتی ہے۔ ماں کی آواز میں غنائیت اور نغمگی کا عنصر خواہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ترتیب اور آراستگی سے کہے ہوئے الفاظ خواہ کسی بھی زبان میں ہوں بچے کو پر سکون کر دیتے ہیں۔ یہ موزوں کلام کی خصوصیت ہے جو اردو میں نظم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نظم کے بھی الگ الگ پیرایہ اظہار ہیں جو نظم کے علاوہ غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، گیت اور رباعی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تلنگانہ کی نہم درجہ کی درسی کتاب میں درج ذیل شعری اسباق شامل ہیں:
کب تک میرے مولیٰ(شاذ تمکنت)، اے ابر رواں(اختر شیرانی)، مرغ اورصیاد(پنڈت دیا شنکر نسیم)، غزل(پروین شاکر)، جب کربلا میں عترت اطہار لٹ گئی (مرزا سلامت علی دبیر)، شام رنگین(حفیظ جالندھری) اور شیشہ کا آدمی(اختر الایمان)اس کے علاوہ دعا اور ترانہ ہندی (علامہ اقبال) کو دونوں جماعتوں کی کتب میں فہرست مضامین سے پہلے کے ہی صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔
درجہ دہم کی درسی کتاب کے لیے درج ذیل شعری اصناف منتخب کیے گئے ہیں۔ نعت(خواجہ الطاف حسین حالی)، قصیدہ (ذوق)، البیلی صبح(جوش ملیح آبادی)، غزل (غالب)، عورت (کیفی اعظمی)، غزل(مغنی تبسم)، خون کا رنگ(بیکل اتساہی) ان مذکورہ شعری کلام کو ضمیمہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 
تجزیہ کے لیے دو زاویے مختص کیے گئے ہیں۔ اول متون کا انتخاب، دوئم پیرایۂ اظہار اور الفاظ کا استعمال۔ ان دونوں زاویوں سے درسی کتب کے شعری کلام میں امن کی ترغیب کی نشاندہی مقصود ہے۔
امن ایک وسیع معنوں کا لفظ ہے، جس کا حصول تعاون، تحمل، ہم آہنگی، جیسے مثبت عوامل سے کیا جا سکتا ہے۔ امن شور و غل کا متضادنہیں بلکہ امن ایک اندرونی ذہنی کیفیت ہے جو محسوس کی جاتی ہے اور اس احساس سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون افراد کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ کوئی ایک عمل، ایک لفظ، صرف ایک لفظ اس سکون کو پامال کر سکتا ہے۔
درسی کتب میں مضامین کی فہرست سے پہلے اقبال کی دونظمیں شامل کی گئی ہیں، دعا اور ترانہ ہندی۔ یہ دونوں نظمیں اکثر اسکولوں میں صبح کے ترانہ کے طور پر گائی جاتی ہیں اور زیادہ تر اساتذہ اورطلبا کو یاد بھی ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں بھی انھیں شامل کیا جاتا ہے۔ بہت خوبصورت اور مترنم آوازوں میں ان نظموں کے ویڈیو کیسیٹس بھی دستیاب ہیں۔ غرضیکہ بچے ان نظموں سے بہت مانوس ہیں۔ درسی کتب کھولتے ہی ان نظموں کو دیکھ کر طلبا کو اپنی کتاب دلچسپ اور آسان لگتی ہے اور یہیں سے ان کے سکون اور تشفی کی منزل شروع ہوتی ہے۔ دونوں نظمیں بہت آسان بحروں میں ہیں، زبان بھی عام فہم ہے۔ بغیرترنم کے بھی اگر پڑھی جائیں تو لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک نفس مضمون کا سوال ہے، ان دونوں نظموں کا انتخاب خصوصی طور پر موضوع کی وجہ سے ہی کیا گیا ہے۔ ایک مثالی طالب علم، مثالی شہری اور مثالی انسان کیسا ہونا چاہیے، اس کے لیے شاعر بچے کی طرف سے دعا کر رہا ہے، دوسروں کے لیے رحم، ہمدردی اور تعاون کے جذبہ کے پیدا ہونے کی تمنا کر رہا ہے۔ اقبال کی دوسری نظم ترانہ ہندی کا موضوع حب الوطنی اور مذہبی رواداری ہے۔ ثانوی سطح کے طلبا میں ان جذبات کی پرورش بے حد ضروری ہے۔ وطن اور ہم وطنوں سے محبت ان میں ہمیشہ مثبت جذبات ہی پید ا کریں گے۔ 
اس کے علاوہ درجہ نہم کی درسی کتاب کی فہرست میں کل سات شعری اسباق ہیں جس میں چار نظمیں، ایک مرثیہ، ایک غزل اور ایک مثنوی شامل ہے۔ ان شعری اسباق کا انتخاب مختلف موضوعات اور پیرایہ اظہار کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے تاکہ طلبا موضوعات کے ساتھ ساتھ اصناف سے بھی روشناس ہو سکیں۔ پہلی نظم مناجات کی شکل میں ہے، دوسری نظم حب الوطنی کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے، تیسری نظم کا تعلق مناظر قدرت سے ہے اور چوتھی نظم کا موضوع سماجی اقدار ہے۔ جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے ایک غزل بھی شامل ہے۔ واقعہ کربلا سے متعلق ایک مرثیہ اور پرندے کی دانائی کے موضوع پر ایک مثنوی بھی شامل ہے۔
سب سے پہلے نظم ’کب تک مرے مولا‘ شاذ تمکنت کی ہے۔ اس نظم کا موضوع اور پیرایہ اظہار قاری میں رقتِ قلب اور ترحم پیداکرتا ہے۔ نظم میں ’کب تک مرے مولا‘ فقرے کی تکرار،صبر و تحمل کی انتہا ظاہر کرتی ہے۔
دوسری نظم اختر شیرانی کی ’اے ابر رواں‘ہے جو بے حد خوبصورت ہے اور غنائیت سے بھرپور ہے۔ بہ ظاہر یہ نظم ایک غریب الوطن کی اپنے وطن کے لیے بے چینی اور تڑپ کا اظہار کرتی ہے۔ شاعر وطن کی خوبصورتی اور عظمت کا اظہار جس بے ساختگی اور درد کے ساتھ کرتا ہے، وہ قابل تعریف اور تقلید ہے لیکن دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وطن سے دور جاکر اپنے وطن کی خوبیوں کا احساس زیادہ ہو رہا ہے۔ اس سے یہ زاویہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ افراد خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنا ’خوب‘ بھی کہیں کھو دیتے ہیں اور تازندگی محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر اسی کوہم اپنا شعار بنا لیں تو پھر تو ’جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں‘ کے مصداق ہو کر رہ جائیں گے۔ مستقبل کی بہتر اور عیش و عشرت کی زندگی کی خواہش اور کوشش میں اپنے حال کو بھی تکلیف دہ بنا دینے میں احساس محرومی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور احساس محرومی مثبت شخصیت کی تعمیر میں منفی رول ادا کرتا ہے۔ اس طرح یہ نظم حب الوطنی کے جذبے کے فروغ کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کی اذیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
درجہ نہم کی اس درسی کتاب کی تیسری مجوزہ نظم حفیظ جالندھری کی ’شام رنگین ‘ ہے جس کا موضوع اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ نظم طلبا میں تحسین کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’اگر طلوع آفتاب کا منظر حسین ہے تو غروب آفتاب کا نظارہ بھی خوبصورت ہے‘‘۔ شام کی کیفیت کی منظر کشی اسی قول کی تصدیق کرتی ہے اور حسن کو دیکھنے سمجھنے اور اس سے محظوظ ہونے کی نظر پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی کیفیت یا شے سے اگر لطف حاصل ہوتا ہے تو بڑے خوش کن جذبات پیدا ہوتے ہیں جو افراد کو پرسکون رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ شام کی کیفیت کی منظر کشی اور خوب صورت تشبیہات کے علاوہ اس نظم کا ایک اور اہم پہلویہ ہے کہ یہ شام کا وقت محنت کشوں کے لیے بڑی نعمت ہے وہ پورے دن کی سخت محنت کے بعد گھر لوٹتے ہوئے آرام کے تصور سے ہی خوش ہیں اور گاتے گنگناتے لوٹ رہے ہیں۔ یہ منظر سماج کے اس محنت کش طبقے کے لیے نرم گوشہ تو ضرور پیدا کرتا ہے۔
کتاب کی چوتھی نظم ’شیشہ کا آدمی‘ اخترالایمان کی ہے۔ اس نظم میں جدید دور کے افراد کی مفاد پرستی، خود پرستی، بے حسی اور سماج سے لاتعلقی کو طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آج کا مادہ پرست انسان اپنے خول سے باہر نہیں نکلنا چاہتا، وہ ڈرتا ہے کہ کہیں دوسروں کی پریشانیوں کا سامنا نہ ہو جائے اور ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھانا نہ پڑ جائے۔ اسی جذبہ کو شاعر طنزیہ انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے ؂
زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا
ضمیر جاگتا اور اپنا امتحاں ہوتا
شاعر اس طنز کے ذریعہ تعاون اور ہمدردی کی ترغیب کرتا ہے اور کچھ ا س طرح کا پیغام دینا چا ہتا ہے ؂
ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
غزل کو شاعری کی ایک صنف کی حیثیت سے درجہ نہم میں متعارف کرایا گیا ہے، جس کے لیے پروین شاکر کی ایک مشہوراور خوب صورت غزل کا انتخاب کیا گیا ہے جو بے حد مناسب ہے۔ غزل کو شامل کرنے کا مقصد اگر ایک طرف جمالیاتی ذوق کی تسکین اور تربیت ہے تو دوسری طرف شاعری کی ایک منفرد ہیئت سے بھی روشناس کرانا ہے۔ غزل کا آہنگ، اس کی علامتی زبان، پیکر تراشی، تشبیہات اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کی صفت بذات خود لطف اندوزی کا جواز پیدا کرتی ہے۔ مجموعی طور پہ یہ سارے عناصر اس عمر کے طلبا میں جستجو پیدا کرتے ہیں اور کسی حد تک تشفی بھی دیتے ہیں۔ موضوعات کے تعلق سے اگر بات کی جائے تو اس غزل میں ایک ماحولیاتی و حدت دکھائی دیتی ہے اور ریزہ خیالی کا احساس کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس غزل کو پڑھنے کے بعد طلبا پر ایک مجموعی تاثر مرتسم ہوگا......
نہم جماعت کی درسی کتاب میں صنف مثنوی کو بھی متعارف کرایاگیا ہے، جس کے لیے پنڈت دیا شنکر نسیم کی مشہور مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ کا ایک حصہ منتخب کیا گیا ہے۔ یہ بہت دلچسپ نظم ہے جو مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ ایک صیاد اور طائر کا منظوم قصہ ہے اور اس عمر کے بچے قصہ سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ صیاد نے طائر کو قید کر رکھا ہے۔ طائر کچھ ایسی فلسفیانہ باتیں کرتا ہے کہ صیاد اس سے متاثر ہوکر اسے آزاد کر دیتا ہے، جس سے دراصل یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طائر نے صیاد کو بے وقوف بنایاا ور آزادی حاصل کر لی لیکن طائر کی دلیل سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر کوئی بات سلیقے سے کہی جائے تو انسان اپنے تھوڑے سے فائدے کو ترک کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے پھر اسے بے وقوفی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ 
نہم درجہ کی درسی کتاب کا آخری شعری کلام مرزا سلامت علی دبیر کا مرثیہ ہے جو واقعہ کربلا کے دلدوز منظر کا ایک حصہ ہے، جس کا عنوان ہے ’’جب کربلا میں عترت اطہار لٹ گئی‘‘۔ مرثیہ کے اس حصہ میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے عزیزو رفقائے کار کے جام شہادت نوش کرنے کا بیان ہے۔ درسی کتاب میں مرثیے کو ایک شعری صنف کی حیثیت سے متعارف کرانے کے مقصد کے علاوہ ایک بڑا مقصد اسلامی تاریخ کی عظیم ہستیوں کی قربانیوں سے روشناس کرانا ہے، جنھوں نے سر کٹا دیا لیکن باطل کے آگے سر نہیں جھکایا۔ حق پرستی اور قربانی کی ایک ایسی مثال چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک حق پر چلنے والوں کے لیے مشعل راہ رہے گی۔
دہم جماعت کی درسی کتاب میں بھی کل سات شعری اسباق ہیں جن میں ایک نعت، ایک قصیدہ دو غزلیں اور تین نظمیں شامل ہیں۔ درجہ دہم کے لیے شعری انتخاب میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اصناف کو بھی دھیان میں رکھا گیا ہے۔
محمدؐ کی مدح کے بعد دکن کے صوفی بزرگ حضرت سید عاشق نہال چشتیؒ کی مدح میں ذوق کا شاندار قصیدہ ہے۔ دو غزلیں ہیں اس کے علاوہ مناظر فطرت ’’خواتین کی بااختیاری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘‘ جیسے موضوعات پر دو نظمیں، اس کے علاوہ ایک گیت بھی شامل درسیات ہیں۔
پہلی نظم خواجہ الطاف حسین حالی کا نعتیہ کلا م ہے جو مسدسِ حالی(مدو جزر اسلام) سے ماخوذ ہے۔ حالی نے اس نظم کے ذریعہ محمد ؐ سے اپنی عقیدت کے اظہار کے علاوہ قاری کے سامنے اس عظیم شخصیت کے اوصاف حمیدہ کو اس غرض سے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والوں کے ایمان و عقائد کا احیا ہو سکے اور وہ ان خصائل جمیلہ کی تقلید کرنے کی کوشش کریں۔ نوعمر بچوں کے لیے یہ کردار براہ راست ایک مثال ہے۔ شاید کہ ان کے دل میں کچھ اوصاف گھر کر جائیں۔ نظم میں بہت روانی ہے اور اوزان کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
دوسرا شعری کلام شیخ محمد ابراہیم ذوق کا قصیدہ ہے جو سید عاشق نہال چشتی کی مدح میں لکھا گیا ہے۔دہم جماعت کی درسی کتاب میں قصیدہ کی شمولیت کا مقصد شاعری کی ایک اور صنف اور اس کے لوازمات سے روشناس کرانا ہے۔ لوازمات سے یہاں مراد اس کی ہیئت، اجزائے ترکیبی، پرشکوہ الفاظ، زور بیان، تخیل کی پرواز اور صنائع بدائع کا جابہ جا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مرتبت اشخاص کے تذکرے کے لیے آداب و القاب اور لب و لہجے کے استعمال کا سلیقہ سکھانا بھی مقصود ہے۔ کن اسباب اور پس منظر کے تحت قصیدہ بام عروج تک پہنچا، یہ نکتہ بھی قصیدے کی تدریس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ذوق کے اس قصیدے کی تفہیم قاری میں شعور کی بالیدگی اور ادراک کی وسعت بھی عطا کرتی ہے۔ جو اس عمر کے طلبا کے لیے مطلوب ہیں۔
کتاب میں شامل پہلی نظم جوش ملیح آبادی کی ’البیلی صبح‘ ہے۔صبح کا منظر تو تقریباً ہر ذی روح کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے۔ لیکن جوش کے اظہار بیان نے اس منظر کو مزید رنگین بنا دیا ہے۔ پوری نظم کا لب و لہجہ بہت دلکش اور مترنم ہے۔ جوش کی پیکر تراشیوں اور تشبیہات نے اس نظم کو اتنا موثر بنا دیاہے کہ کوئی بھی قاری اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نظم کا پہلا مصرعہ ہی ’نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے‘ اتنا پرکشش اور معنی خیز ہے کہ قاری پوری نظم پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پوری نظم کو پڑھنے کے بعد قاری کے دل و دماغ پر بہت خوش کن جذبات مرتسم ہوتے ہیں جوایک متوازن شخصیت کے لیے سکون کا جواز ضرور پیدا کرے گا۔ نظم کا نرم و نازک لب ولہجہ مزاج میں نرمی کا باعث ہوگا۔ 
دوسری نظم ’عورت‘ ایسے شاعر (کیفی اعظمی)کی نظم ہے جس نے اپنی شاعری کے ذریعہ ظلم و استبداد کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور سماج کی بدلتی ہوئی اقدار کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ نظم کا پہلا ہی مصرعہ ’’اٹھ مری جان! مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے‘‘ جنسی برابری کا پیغام دیتا ہے۔ عورتوں کے تئیں سماج کے غیر منصفانہ رویے کا اظہار نظم کے ہر ایک شعر سے عیاں ہے۔ عورتوں پر ظلم و زیادتی کی روداد بیان کرتے ہوئے شاعر کا لب و لہجہ تند اور باغیانہ ہو گیا ہے جس سے شاعر کے حساس دل کا کرب عیاں ہوتا ہے۔ یہ نظم سماج کی نصف آبادی کے لیے مساوی حقوق کی اہمیت کو صرف واضح ہی نہیں کرتی بلکہ پرزور انداز میں حقوق کو چھین لینے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔
اس طرح یہ پوری نظم نو عمر طلبا کے دل و ذہن پر کاری ضرب لگائے گی اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی شکل میں عورت کا احترام اور اس کے حقوق کی پاسداری کے تئیں بیدار کرے گی۔
دہم جماعت کی درسی کتاب میں شامل دو غزلوں میں سے پہلی غزل مرزا سداللہ خاں غالب کی ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے غالب کی یہ غزل آسان غزلوں میں شمار کی جاتی ہے اور استفہامیہ انداز میں کہی گئی ہے۔ غزل کا چوتھا اورپانچواں شعر قطع بند ہے جس میں وحدت الوجود کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ ساتوں اور آٹھواں شعر صلہ رحمی اور ایثار کی ترغیب پر مبنی ہے۔ کچھ اشعار بہ ظاہر عشق و عاشقی کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں بھی حیات و کائنات کے معمولات کا ذکر معکوسی انداز میں ملتا ہے کیونکہ غالب کا ہی قول ہے ؂
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غرضیکہ دسویں جماعت کے طلبا کے لیے غالب کی اس غزل کا انتخاب نہایت موزوں ہے۔ اس کے آہنگ اور زور بیان سے تو طلبا محظوط ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس غزل کے موضوعات طلبا کی بصیرت کو وسعت بخشیں گے اورحیات و کائنات کے رشتوں کو سمجھنے میں بالغ نظری عطا کریں گے۔
نصاب میں شامل دوسری غزل جدید شاعر مغنی تبسم کی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی غزل ہے جو غزل مسلسل کے زمرے میں آتی ہے۔ اس غزل کا ہر شعر اللہ کی رحمتوں اور نوازشوں پر بندے کا اعتماد ظاہر کرتا ہے اور کسی بھی کیفیت میں مایوسی سے بچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ غزل کا مواد ایمان افروز ہونے کے ساتھ ساتھ راہ راست پر چلنے کے لیے بھی آمادہ کرتا ہے۔ خواہ کتنی بھی مشکلیں راہ میں آئیں، بندے کو اللہ کی ذات سے ناامید نہ ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
اس درسی کتاب کا آخری شعری سبق گیت کی شکل میں ہے جسے بیکل اتساہی نے لکھا ہے۔ گیت ایک منفرد صنف شاعری ہے جس میں غزل کی طرح غنائیت ہوتی ہے اور لہجہ بھی نرم و نازک ہوتا ہے لیکن نظم کی طرح گیت میں بھی ایک ہی موضوع پر مسلسل اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ اس گیت کا موضوع قومی یکجہتی ہے جسے ’خون کا رنگ‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتے دیکھ کر شاعر شدید رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ یہ ملک تو دنیا کے لیے امن کا پیغامبر تھا، محبت، امن اور اخوت کا درس دیتا تھا پھر یہ نفرت کا بازار کیوں گرم ہے؟لیکن شاعر پرُ امیدہے اس لیے وہ اس رویہ سے کنارہ کشی کرنے کے لیے تنبیہ کرتا ہے اور محبت، الفت اور رواداری کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس طرح یہ پوری نظم براہ راست امن و آشتی کا پیغام دیتی ہے۔
تلنگانہ بورڈ کی نہم اور دہم جماعتوں کی اردو کی درسی کتب کا تجزیہ کرتے وقت ایک اور اچھی بات سامنے آئی کہ ان کتابوں کے مجوزہ شعری اسباق کے شروع ہونے سے پہلے دوسرے شعرا کے کچھ منتخب اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں جو ان موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس سے سبق کا بہتر تعارف تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ موضوع کی تفہیم بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زاویہ نگاہ بھی وسیع ہوتا ہے۔
آخیر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ نہم اور دہم کی درسی کتب کے اسباق کے انتخاب میں قدیم اور جدید شعرا کے مناسب امتزاج کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
دونوں جماعتوں کی درسی کتب کے شعری مواد کے مطالعے سے مجموعی طور پر یہ حقائق بھی سامنے آتے ہیں کہ یہ شعری اسباق زبان دانی کے فروغ کے ساتھ صالح عمل کی طرف راغب کرنے کے لیے طلبا کی ذہن سازی بھی کرتے ہیں۔


Rizwana Begum 
179/9, Third Floor, Farhana Manzil
Zakir Nagar, Okhla
New Delhi - 110025




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: