8/10/18

عبدالغفور نساخ: فن اور شخصیت (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)۔ مضمون نگار: پروفیسر صغیر افراہیم








عبدالغفور نساخ: فن اور شخصیت
(تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)
پروفیسر صغیرافراہیم
سرزمین ہند ہمیشہ سے باہر سے آنے والوں کے لیے کشش کامرکز ومحور رہی ہے۔ ماضی بعید میں دور دراز سے آکر بس جانے والے مختلف رنگ ونسل کے لوگ، ہندوستانی رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ اس لیے اجنبیت یا حاکم ومحکوم کا احساس عارضی طور پر تو ضرور رہا مگر کبھی وہ شدت اختیار نہیں کرسکا۔ مئی 1857 میں ہندوستانیوں کو نہ صرف پہلی بار اجنبیت کا احساس ہوا بلکہ انھوں نے اپنی شکست بھی تسلیم کرلی جب کہ فرنگیوں کو اپنی فتح کااحساس اس مکمل تبدیلیِ اقتدار سے سو سال پہلے پلاسی کے میدان میں ہوچکاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے 1757 سے ہی اپنے خواب کی تکمیل کے منصوبے بنانے شروع کردیے تھے۔ نواب سراج الدولہ سے بہادر شاہ ظفر تک اُن (ایسٹ انڈیا کمپنی) کا نفسیاتی، تنظیمی، تعلیمی اور لسانی ڈھانچہ مکمل ہوچکا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے مفکرین اور رہبرانِ ملک وملت خاموش رہے ہوں مگر برصغیر کے طول وعرض میں معدودے چند مصلحین پیش آئند صورتِ حال کے پیش نظر عملی اقدامات کررہے تھے۔ بنگال کچھ زیادہ ہی بیدار تھا۔ اُس کے توسط سے ملک میں ہونے والی تبدیلی کو بھانپتے ہوئے سرسید احمد خاں نے مستقبل کے لیے منظم اور جامع خاکے ترتیب دیے۔ ملک کی اقتصادی اور سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے دانش ورانِ ملک وملت کے حضور میں سوالات قائم کیے کہ کیا ہمارے روایتی علوم وفنون جدید تقاضوں کو پورا کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں ان پر نئے سرے سے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ افراتفری، بے چینی، بے قراری اور اضطراب کے ماحول میں انھوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر ٹھہراؤ پر زو ردیتے ہوئے منتشر افکار ونظریات اور رُجحانات کو یکجا کیا۔ اتحاد واتفاق کے اسی تال میل نے تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ سرسید کے نظریۂ حیات کو استحکام بخشنے میں بنگال کے دانشور خصوصاً عبدالغفور نساخ کے بڑے بھائی نواب عبداللطیف اور اُن کی محمڈن لٹریری سوسائٹی بے حد معاون ثابت ہوئی ہے۔
سرسید احمد خاں اور نواب عبداللطیف، دونوں کی دور رَس اور دوربیں نگاہوں نے ملک میں برپا ہونے والے انقلاب کو بھانپ لیا تھا۔سرسید نے 1857 کے بعد اپنا لائحہ عمل تبدیل کیا اور نواب عبداللطیف نے اُس سے کچھ پہلے ہی اِس جانب توجہ دیتے ہوئے اینگلوپرشین کلاسیز کا آغاز کیا، پریسیڈنٹی کالج کھلوایا، مجلس مذاکرہ اسلامیہ کی داغ بیل ڈالی۔ انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ بدلتے ہوئے منظر نامے میں عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ جدید علوم وفنون خصوصاً انگریزی زبان سے واقفیت لازمی ہے۔ اس جانب قوم کو راغب کرنے کے لیے دوسرے دانش وروں اور مفکروں کو مدعو کیا۔ اِس کٹھن ڈگر پر خود بھی عمل کیا، بھائی (عبدالغفور) کو بھی اسی طرح کی تعلیم وتربیت دلانے کا جتن کیا۔
سرسید احمد خاں شروع سے ادبی میدان خصوصاً تخلیق، تحقیق اور تدوین میں بھرپور حصّہ لے رہے تھے۔ اُنھیں اِس کا احساس ہوگیا تھا کہ مذکورہ ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ہندوستانیوں کے تئیں عملی جدوجہد کے لیے بیدار کرنے والوں میں جو دانشور سرفہرست تھے، اُن میں بیش ترکا تعلق صوبہ بنگال سے تھا اور صوبہ بنگال کے ہی بے حد فعال رُکن نواب عبداللطیف نے اُن کی (سرسید) صلاحیتوں کے پیش نظر اُنھیں مذاکرے کی دعوت دی تھی۔6اکتوبر 1863 کو سرسید نے ’ضرورتِ ترقیِ علم وتہذیب درمیان اہل ہند‘، جیسے اہم اور جدید موضوع پر فارسی میں خطبہ پیش کیا جس کی دھوم اور گونج دُور تک پہنچی۔ نساخ بھی اِس علمی مذاکرے اور اُس پر ہونے والی پُرمغز گفتگو سے بہت متاثر ہوئے تھے۔وجہ یہ کہ اُنھیں اِس طرح کے موضوعات پسند تھے اور بحث ومباحثہ سے بڑی دلچسپی تھی۔ اُس وقت وہ بھائی کے گھر سے کچھ فاصلہ پر، ہوڑہ، (کلکتہ) میں تعینات تھے۔ دوسرے یہ احساس بھی کہ پدرانہ شفقت رکھنے والا بھائی گھر میں عالی شان مذاکرے کا اہتمام زوروشور سے کررہا تھا او روہ چاہ کر بھی اُس اہتمام وانتظام میں پوری طرح شریک نہیں ہوپارہے تھے۔ موضوع کی کشش اور مذاکرے میں شرکت کی شدید خواہش نے بھی اُنھیں ذہنی طور پر سرسید سے قریب کردیا، حالانکہ دونوں دانش وروں کے مزاج ومذاق اور عملی طریقہ کار میں بڑا فرق تھا۔ یہ فرق تو دونوں بھائیوں عبداللطیف اور نساخ میں بھی بے پناہ قربت کے باوجود برقرار رہا ہے۔
آئیے مختلف النوع سوالات قائم کرنے سے پہلے عبدالغفور کے منظر اور پس منظر میں بھی ذرا جھانک کر دیکھ لیں۔ اُن کا سلسلۂ نسب حضرت خالد بن ولید سے ملتا ہے جس کی گواہی ناول خالد بن ولید (اشاعت1995) کے مصنف قاضی عبدالستار اور’تہذیب الاخلاق‘ کے مدیر نورالحسن نقوی بھی دیتے ہیں کیونکہ یہ ناول منظر عام پر آنے سے پہلے قسط وار ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘ میں نہ صرف شائع ہوا بلکہ ادبی محفلوں میں موضوع بحث بھی رہا ہے۔ نساخ کے بزرگ شاہ عین الدین 1623 میں عہدِ جہانگیر میں بغداد سے دہلی آئے۔ اور وہاں تین دہائیوں تک قیام کیا۔ شاہ عین الدین کے بیٹے عبدالرسول کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے بنگال کے ضلع فریدپور کی جاگیرعطا کی، اِس سبب بھی دہلی سے خوش گوار رابطہ برقرار رہا۔
نسّاخ کی اپنی نگارشات کے علاوہ گیان چند جین، مختار الدین احمدآرزو، نذیر احمد، انصار اللہ نظر، حبیب الرحمن وغیرہ کی تحریروں کے مطابق ادبی معرکوں کو گرمانے، محفلوں کو گل افشائی گفتار سے زعفران زاربنانے والے ممتاز دانش ور ابومحمد عبدالغفور خاں خالدی جو عوام وخواص میں عبدالغفور نسّاخ کے نام سے مشہور ہوئے، 11فروری 1834 بروز منگل، اُس وقت پیدا ہوئے جب گھر کے مرد افراد عیدالفطر کی نماز پڑھ کر گھر واپس آئے تھے۔ ایسے میں عید کی خوشیاں شہر کلکتہ میں ہی نہیں بلکہ جنگل میں بھی منگل منانے کا سبب بن گئیں۔ شاید اِسی رعایت سے اُن کا تاریخی نام شمس الضحیٰ رکھا گیا۔ والد قاضی فقیر محمد شہر کلکتہ کے مانے ہوئے وکیل تھے۔ اُنھیں علمی اور ادبی ذوق ورثے میں ملا تھا۔ خود فقیر محمد کے والد قاضی محمد رضا دینی اور دنیاوی علم سے مالا مال تھے۔ قاضی فقیر محمد نے دو کتابیں (1۔جامع التواریخ، 2۔منتخب النجوم) لکھیں اور دوشادیاں کیں۔ پہلی بیگم سے عبداللطیف اور عبدالغفور، دوسری بیگم سے عبدالحمید اور عبدالباری تھے۔ عبدالغفور سب سے چھوٹے تھے۔ اُن سے بڑی ایک بہن تھیں جن کے تعلق سے کوئی خاص مواد نہیں مل سکا ہے۔ سبھی تینوں بھائی خصوصاً عبداللطیف اُنھیں جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ساڑھے چار برس کی عمر میں نسّاخ کی رسم بسم اللہ ہوئی۔ وہ مشکل سے دس سال کے تھے کہ یکم محرم 1259ھ کو والد اورپھر ایک ماہ بعد والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اِس سانحہ کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ میں رُکاوٹ آئی جس کو دیکھتے ہوئے عبداللطیف نے اُنھیں پھر سے مدرسہ عالیہ کلکتہ میں داخل کرادیا۔ اِس معروف مدرسہ کاقیام اکتوبر 1780 میں عمل میں آیا تھا۔ ابتداءً اِس کا نصاب تعلیم درس نظامیہ کے مطابق رکھا گیا۔ رفتہ رفتہ ضرورتاً اِس میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ نواب عبداللطیف نے خود یہاں تعلیم حاصل کی تھی۔ لہٰذا نسّاخ کو بھی وہ یہاں لائے۔ اُس دور میں یہ مدرسہ مشرقی علوم وفنون کے ساتھ مغربی تعلیم کابھی ایک اہم مرکز بن چکاتھا۔’اردوئے معلی‘ کے دوشماروں اور ’نقوش‘ کے آپ بیتی نمبر میں نسّاخ کے بچپن کی شرارتوں کے ساتھ اساتذہ خصوصاً مولوی کرامت علی، مولوی رمضان علی اور خواجہ محمدمستقیم کا ذکر دلچسپ انداز میں ہے جو ناطقہ بند کردینے والے اقدام کے باوجود اپنے ذہین شاگرد کو بیحد عزیز رکھتے تھے۔ البتہ بڑے بھائی سے اکثر شکایت کرتے تھے۔اُن کی طبیعت کی شوخی، تیزی، طراری اور بے باکی کے ڈھیروں افسانوی قصّے مشہور ہیں۔
نسّاخ کی سوانح بڑے بھائی عبداللطیف کے ذکر کے بغیر ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ نواب عبداللطیف رئیس اعظم کلکتہ کی پیدائش 12مارچ 1828 کو اور انتقال 10جولائی 1893 کو ہوا۔ ابتدائی تعلیم تاریخی روایت کے مطابق گھر پراور ثانوی تعلیم مدرسہ عالیہ کلکتہ میں ہوئی۔ عربی، فارسی کے ساتھ انگریزی اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا۔ 1849 میں ڈپٹی مجسٹریٹ اور پانچ سال بعد ڈپٹی کلکٹر درجہ اوّل ضلع 24 پرگنہ وجسٹس آف دی پیس صوبہ جات بنگالہ وبہار و اُڑیسہ ہوئے۔ کئی بار بنگال لیجیسلیٹیوکونسل کے ممبر رہے۔ اپریل 1863میں مجلس مذاکرہ اسلامیہ کلکتہ کی داغ بیل ڈالی۔ 1886 میں بھوپال کی حکمراں شاہجہاں بیگم کی درخواست پر قائم مقام وزیر ریاست بھوپال مقرر ہوئے مگر بنگال کی محبت اور نسّاخ کی چاہت نے اُنھیں وطن سے دور رہنے نہیں دیا کیونکہ نسّاخ تپ دق میں مبتلا تھے اور اسی مرض کے سبب 14جون 1889 بروز جمعہ کلکتہ میں انتقال ہوا۔ آبائی قبرستان تال بگان، درگاہ روڈ میں تدفین ہوئی۔ 55 سالہ بھائی کو رُخصت کرنے کے پانچ سال بعد وہ بھی بھائی کی بغل میں آرام فرما ہوئے۔دونوں بھائیوں کی چاہت کے قصے داستانوی رنگ اختیار کرچکے ہیں۔ عمر میں عبداللطیف، نساخ سے پانچ سال بڑے تھے لیکن اپنے بیمار چھوٹے بھائی کے انتقال کے پانچ سال بعد وہ اِس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اپنے دور میں عبداللطیف تہذیبی اور فلاحی منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے لیکن بعد میں ادبی اُفق نسّاخ کے حصہ میں آیا، جس کا دائرہ روز بروز بڑھتا گیا بلکہ اُن کی اہمیت اور افادیت آج بھی برقرار ہے۔
عبدالغفور کو بچپن سے شعروشاعری کاشوق تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی اساتذہ سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ جن شعرا کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا اُن میں رشید النبی وحشت اور حافظ اکرام الدین حشمت جو بعد میں ضیغم رامپوری کے نام سے مشہور ہوئے، بے حداہم ہیں۔ دونوں اپنے زمانے کے عالم وفاضل تھے۔ وحشت حضرت مجدد الف ثانی کے خاندان سے تھے، وہ مدرسہ عالیہ میں مدرس اور ضلع ہوگلی کے مفتی تھے۔ ادبی حلقے میں اُن کی حیثیت اُستاد شاعر کی تھی، اُن کا اثر نساخ نے قبول ہی نہیں کیا بلکہ بقول انصار اللہ نظر، وحشت کی مناسبت سے اپنے لیے مہجور تخلص اختیار کیا۔ تعلیم سے اُنسیت کم، اور شعروشاعری سے بڑھتی ہوئی رغبت کو دیکھ کر نواب عبداللطیف فکر مند ہوئے۔ انھوں نے 1847 میں ہی جب عبدالغفور کی عمر تیرہ برس کی تھی، ہوگلی کالج میں اینگلوپرشین شعبے میں داخل کرایاتھا۔ نساخ کو انگریزی سے زیادہ عربی فارسی سے رغبت تھی۔ وہ کالج میں بھی شعری محفلیں سجانے لگے تو1853 میں اُنھیں ہنری بیلی جو ایڈیشنل جج تھے، اُن کے پاس بھیج دیا گیا جن کے توسط سے کچہری میں محرری کی ملازمت مل گئی۔ کچھ دنوں بعد عدالت میں مترجم مقرر ہوئے لیکن وہ اِس چاکری سے مطمئن نہیں تھے۔ خوددار تھے، انا کو ٹھیس پہنچتی تھی لہٰذا سفارشی ملازمت چھوڑ کر گھر لوٹ آئے۔ بھائی کی مصروفیت اور اپنی بے کاری سے اُکتاکر شعبہ تعلیم کے پروفیسر مسٹر کاول (Cowell)کی فارسی میں مدد کرنے اور ایشیاٹک سوسائٹی سے لائی ہوئی کتابوں کی نقل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ کچھ عرصے کے بعد کپتان سینٹ جارج کو بھی فارسی پڑھانے لگے۔ پروفیسر انصار اللہ اُن کی ذہنی، فکری اور نفسیاتی تہوں کو کھنگالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نساخ اُن لوگوں میں سے تھے جن کے مزاج میں استقلال اور جن کے فکر وخیال میں ہمواری ہوتی ہے، جو زمانے کے حوادث سے گھبراکر اپنی روش بدل نہیں دیتے بلکہ ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں اور بالآخر گوہر مقصود حاصل کرلیتے ہیں۔ تحصیل علم کے فوراً بعد اُنھیں ملازمت نہیں ملی تو وہ دل برداشتہ ہوکر بیٹھ نہیں رہے بلکہ اپنے وقت کا بہتر مصرف نکال لیا اور اپنی صلاحیت کو مناسب تر معاملات پر صرف کرنے لگے‘‘۔ (مقدمہ زبانِ ریختہ، ص29)
نواب عبداللطیف اپنے بے حد حساس بھائی کے لیے فکر مند تھے۔ وہ ملازمت کے لیے اُن سے برابر درخواست دلواتے رہتے تھے۔ بالآخر18ستمبر 1860 میں انھیں عارضی طور پر ڈپٹی مجسٹریٹ کامنصب مل گیا۔ بریسال میں پوسٹنگ ہوئی اور دو سال بعد ہی وہ مستقل طورپر ڈپٹی مجسٹریٹ ہوگئے۔ مارچ 1863 میں ہوڑہ(کلکتہ) تبادلہ ہوگیا۔ جنوری 1864 میں راجشاہی منتقل ہوئے۔ اگست 1866 میں بھاگلپور کے ضلع بانکااور مارچ 1869 میں چھپرہ کے ضلع سارن میں تعینات ہوئے۔ 12اپریل 1870 کو پھر بھاگلپور آگئے۔ 2مئی 1870 کو مونگیر تبادلہ ہوا۔ وہاں سے پانچ ماہ بعد سلہت، 6جولائی 1874 کو ڈھاکاگئے جہاں وہ 10اپریل 1879 تک کام کرتے رہے۔ 28اپریل 1879 میں بیربھوم، 18ستمبر 1880 کو ہگلی، 6جون 1881 کو ڈھاکا، 29جولائی 1884 کو میدنی پور میں چارج سنبھالا۔
فروری 1864 میں سرسید کو نواب عبداللطیف کے گھر سے واپس جانے کے پانچ ماہ بعد مغل شہزادے مرزا ہمایوں بخت کی بیٹی سے نسّاخ کی شادی ہوئی۔ گیارہ ماہ بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا پیدائش کے دو گھنٹے بعد ہی انتقال ہوگیا۔ دسمبر 1866 میں بیٹا ابوالقاسم پیدا ہوا۔ تاریخی نام مظہر الحق، ادبی دنیا میں وہ شمس کلکتوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ شادی کے تین سال بعد جب وہ بھاگلپور کمشنری کے ضلع بانکا میں مقیم تھے، منھ سے خون آنے لگا، ویسے بچپن سے کبھی کبھار ایسا ہوتا رہا تھا اس لیے بہت گھبرائے نہیں لیکن جب کئی دنوں تک متواتر خون آیا اور مقامی حکیموں سے کوئی افاقہ نہیں ہوا تو دو ماہ کی رخصت لے کر کلکتہ آگئے اور بھائی کے مشورے سے پہلی بار1868 میں بغرض علاج دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ پٹنہ،الٰہ باد، علی گڑھ ٹھہرتے ہوئے دہلی پہنچے، اور باقاعدہ علاج کراکے آگرہ، علی گڑھ، کانپور، لکھنؤ ہوتے ہوئے بانکا لوٹ آئے۔ دوسری مرتبہ جنوری 1870 میں بغرض علاج پھر دہلی گئے۔ ادبی محفلوں میں شریک ہوئے، تاریخی عمارتوں کی زیارت کی۔آگرہ، باندہ، کانپور، اناؤ، لکھنؤ کی سیر کرتے ہوئے بھاگلپور واپس آگئے۔ تیسری مرتبہ اکتوبر 1880 میں کلکتہ سے دہلی کے لیے روانہ ہوئے اور چوتھی مرتبہ 2اکتوبر 1885 کو بغرض علاج دہلی گئے۔ دورانِ سفر متعدد شعرا سے ملاقات ہوئی جن میں غالب، مومن، شیفتہ، حالی اور داغ کی اہمیت ہے کہ نسّاخ ان سب سے متاثر تھے اور موصوف نے خود اِن کا ذکر کیا ہے۔ کیو نکہ ادبی مباحثہ کے علاوہ گفتگو کے اور بھی موضوع تھے مثلاً غالب کا مقدمۂ پنشن اور بھائی کے تعلق سے حالی سے، سرسید کی گفتگو نکلتی تو داغ سے منّی بائی حجاب خاص موضوع ہوتا۔
حیرت اس پر ہوتی ہے کہ نسّاخ نے زندگی کی پچپن بہاریں دیکھیں اور انہی بہاروں کا کرم تھا کہ تخلیقات کا انبار لگادیا۔ تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل ادبی ورثے پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے قبضے میں کوئی جن تھا جو آقا کے حکم پر ادبی شکل میں فوراً حاضر ہوجاتا تھا۔ غفور سے مہجور اور مہجور سے نسّاخ بننے کی بھی عجیب داستان ہے۔ انصار اللہ صاحب مختلف شہادتوں سے یہ جواز مہیا کرتے ہیں:
’’...وحشت نے مصحفی سے بھی فائدہ اُٹھایا تھا اور جرأت سے بھی۔ جرأت اور مصحفی طرزِ ناسخ کے خلاف تھے۔ اِسی لیے مولوی عبدالغفور نے غالباً اپنے اُستاد مولوی رشید النبی وحشت کے مشورے سے نساخ تخلص اختیار کیا‘‘۔ (مقدمہ زبانِ ریختہ، ص17) 
اور ایسا انھوں نے غالباً 1275ھ میں کیا ہے۔ اِس تناظر میں ہندوپاک کے محققین کی نگارشات سے دوزاویے اُبھرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اساتذہ کی نظرِ کرم اور احباب کے مشورے پر مہجور تخلص اختیار کیا۔ دوسرا یہ کہ مٹیا برج اور اُس کے قرب وجوار میں برپا دبستانِ لکھنؤ کی برتری اور خود ستائی کے احساس نے اُنھیں اپنا تخلص بدلنے پر مجبور کردیا۔ انصار اللہ صاحب اِس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اِسی مہجور نے نساخ ہوکر ناسخ کے دیوان ’دفترِ پریشان‘ کے جواب میں اپنا دیوان ’دفترِ بے مثال‘ ترتیب دیا مگر اِس کا جواز وجواب پیش کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ ناسخ کے مخصوص طرز میں مہارت پیدا کریں:
’’نساخ نے جب شیخ امام بخش ناسخ کا جواب دینا چاہا تو اُن کے طرز میں وہ استعداد بہم پہنچائی کہ باید وشاید لیکن اُن کی یہی کامیابی فی الاصل اُن کے حق میں تباہ کُن ثابت ہوئی۔ نقل کی انتہائی کامیابی یہ ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہوجائے لیکن اصل کی موجودگی میں اُس کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہے گی۔ ناسخ کا جواب پیش کردینے کی دُھن میں نساخ نے خود اپنی صلاحیتوں سے کما حقہٗ فائدہ نہیں اُٹھایا چنانچہ سب کچھ کرنے کے باوجود شاعر کی حیثیت سے اُن کی شخصیت کے انفرادی اور امتیازی خدوخال اُبھر کر سامنے نہ آسکے‘‘۔ (مقدمہ زبانِ ریختہ، ص21)
انصار اللہ صاحب کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ نساخ کاکلام منفرد بھی ہے اور اُس نے اپنے عہد کو متاثر بھی کیا ہے البتہ اِس میں ضرور صداقت جھلکتی ہے کہ زبان وکلام کی اصلاح کی غرض سے ناسخ نے تراش خراش کا جو سلسلہ شروع کیا اُس کی ضد میں مہجور، نسّاخ بن گئے۔ سید لطیف الرحمن ’نسّاخ سے وحشت تک‘ میں لکھتے ہیں:
’’نساخ اپنی شعرگوئی کے ابتدائی دور میں مہجور تخلص کرتے تھے بعد کو اس تخلص کو بدل کر نساخ رکھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے کلام میں جب پختگی آئی اور اُستادانہ رنگ میں شعر کہنے لگے تو اُنھیں ناسخ لکھنوی کا حریف اور حریف بھی غالب بننے کا خیال ہوا۔ اس خیال کے زیر اثر انھوں نے اپنا تخلص بدل کر نسّاخ رکھا جو ناسخ کا صیغہ مبالغہ ہے‘‘۔ (ص54)
اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر جاوید نہال’انیسویں صدی میں بنگال کااردو ادب‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ناسخ شکن کہلانے کے لیے انھوں نے نساخ تخلص اختیار کیا‘‘۔ابوذرہاشمی نے بھی اِس سلسلہ میں نئے زاویوں سے بحث شروع کی ہے۔ بہر حال تاویلیں بہت سی ہیں۔ ضد میں یا پھر اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے وہ ناسخ پر ’نسخ‘ کا قلم پھیر کر نسّاخ بنے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ لکھنوی دبستان نے اُن پر جو بے جا اعتراضات کیے، ردعمل کے طور پر انھوں نے اہلِ لکھنؤ کی زبان وکلام پر ویسے ہی جوابات دیے۔ یہ سلسلہ صرف ناسخ تک ہی نہیں رہا، انیس ودبیر سے ہوتا ہوا، آگے بڑھتا چلا گیا جس کی حمایت اور مخالفت میں ’اودھ پنچ‘ پیش پیش تھا اور جس کا حوالہ شبلی کی کتاب ’موازنۂ انیس ودبیر‘ میں بھی مل جاتاہے۔
نساخ بے حد ذہین، پُرگواور قلم برداشتہ تحریر کے مالک تھے۔ مذاقِ سخن لکھنوی، مائل بہ عمل دہلوی ہونے کے باوجود ادبی دنیا میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انھیں ادبی نکتہ چینی، معرکہ آرائی، جواب درجواب میں خوب مزا آتا تھا۔ بحث ومباحثہ کو تکرار کی شکل دینے میں ان کی طبیعت خوب مائل رہتی تھی۔ اِس ماحول میں وہ متواتر لکھتے رہتے تھے۔ گمان گزرتا ہے کہ شاید وہ نگارشات کو خلق کرنے کے لیے ہی یہ فضا تیار کرتے ہوں۔ اُن کے چار دیوان ہیں۔ 184صفحات پر مشتمل ’دفتر بے مثال‘ نسّاخ کا پہلا دیوان ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ تمام کتابوں کا پہلا ایڈیشن موجودہ کتابی شکل 18x22=8کے بجائے بڑے سائز میں منظرِ عام پر آیا ہے جسے جہازی، ڈبل فُل اسکیپ، امپیریل، سُوپر رائل یا ڈیمائی سائز کہا گیا ہے۔ 1860 میں ’دفتر بے مثال‘ ترتیب دیا گیا۔ 1863 میں مظہر العجائب پریس کلکتہ سے شائع ہوا۔ اس کا ترمیم شدہ ایڈیشن اکتوبر 1874 میں منشی نولکشور پریس لکھنؤ سے منظر عام پر آیا۔ مشکل زمینوں پر طبع آزمائی کے پیش نظر، رعایت لفظی اور صنائع سے خوب کام لیا گیا ہے۔ بقول شاعر:
کھود ڈالی کیسی ہی ہو وے زمینِ سنگلاخ
کِلک میں اپنی ہے عالم تیشۂ فرہاد کا
الفاظ کی پیچیدگی، محاورہ بندی، قوافی کا پُرتکلف انداز جس میں دبستانِ لکھنؤ کے مخصوص رنگ کو اپنانے کی وجہ سے معنوی خوبیاں کم، لفظی خوبیاں زیادہ ہیں۔بلکہ ناسخ اور ان کے رفیقوں کی اتباع کے ساتھ ساتھ اُن پر طنز کا آغاز بھی اِسی ’دفترِ بے مثال‘ سے شروع ہوتا ہے۔ دو غزلہ، سہ غزلہ بلکہ چہار غزلہ انداز کے ساتھ ممکن قافیوں کو آزماتے ہوئے ردیف کو بدل بدل کر اسی زمین میں غزلیں کہنے کے نساخ کے انداز پر محمدصدر الحق اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:
’’صنائع لفظی اور الفاظ کی بازیگری کو شاعری کی معراج گرداناتو نتیجہ ظاہر ہے کہ ناسخ کی طرح اُن کا کلام بھی روحانی کوائف اور قلبی تاثرات سے خالی ہی رہا، اور معشوق کے خارجی اوصاف جمالِ جسمانی اور لوازماتِ آرائش کا عنصر غالب رہا..... یہی وجہ ہے کہ فلسفیانہ خیالات اور حکیمانہ افکار تقریباً مفقود ہیں البتہ صنائع لفظی کو نسّاخ نے شاعری کا کمال تصور کرتے ہوئے نہایت فنکاری اور چابکدستی سے استعمال کیا ہے کیونکہ یہی چیز اُن کے لیے معراج شاعری تھی اور اسی رنگ میں کمال کا مظاہرہ کرکے اپنے ہم چشمکوں سے استادی کا اُنھیں لوہا منوانا تھا‘‘۔ (ص 175)
(نسّاخ: حیات وتصانیف‘‘ ڈاکٹر محمدصدر الحق، انجمن ترقی اردو پاکستان، طبع اول، 1979)
نسّاخ نے یہی دیوان مرزا اسداللہ خاں غالب کو تحفتاً بھیجا تھا جس کے جواب میں غالب نے ان کو ایک تعریفی خط بھی لکھا تھا۔ظاہر ہے کہ غالب کو شعری لفظیات سے مزین ایک بے بہا خزانہ جو دستیاب ہوگیاتھا، اور نساخ اسے اپنے لیے سند سمجھتے ہوئے اس کی نمائش کرتے رہتے تھے۔
دوسرا دیوان ’اشعار نسّاخ‘ہے۔ یہ 1867 میں ترتیب دیاگیا اور اکتوبر 1874 میں نولکشور پریس سے شائع ہوا۔ ڈیڑھ ہزار اشعار پر مشتمل اس دیوان میں غزلوں کے علاوہ رباعیاں اور قطعات بھی کثرت سے ہیں۔ ’دفتر بے مثال‘ کی طرح ’اشعار نسّاخ‘ بھی دبستان لکھنؤ کے طرز پر ہے تاہم اس میں لکھنوی دبستان کی زبان وکلام پر طنز بھی ہے۔ اُن کی شاعری کا یہ موڑ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ مشکل زمینوں سے نکل کر سادگی اور اثر آفرینی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ در اصل نواب واجد علی شاہ کے ساتھ مٹیا برج میں آنے والی لکھنوی تہذیب جو مرشدآباد کے قرب وجوار میں جلد ہی رچ بس گئی تھی، نسّاخ اُس سے متاثر تھے اور کلکتہ میں فروغ پارہی لسانی وتہذیبی تبدیلیوں کومتاثر بھی کرنا چاہتے تھے۔ ’’ایماں مجھے روکے ہے، جوکھینچے ہے مجھے کفر‘‘ والی تذبذب کی کیفیت جس میں احساس کمتری اور احساسِ برتری تحلیل ہوجاتے ہیں۔ غور کیجیے نساخ کو اپنے خاندانی بزرگوں پر جس طرح فخر تھا، اُس کے پیشِ نظر وہ دہلی اور اہلِ دہلی سے ایک اُنسیت اور محبت محسوس کرتے تھے۔ پھر اُس دور کے شعری مزاج کے مطابق حریف دیرینہ یعنی اہلِ لکھنؤ سے اُکتاہٹ اور بیزاری کی صورت میں جذبات وخیالات کا صفحہ قرطاس پر منتقل ہونا، قدرتی نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔ لہٰذا نساخ نے اپنے تذکرے ’سخن شعرا‘ کے صفحہ نمبر16 میں اُس کا اظہار اِن لفظوں میں کیاہے:
’’اختر تخلص، واجد علی شاہ بادشاہِ لکھنؤ... اِن دنوں کلکتہ کے موچی کھولے میں تشریف رکھتے ہیں‘‘۔
جہاں ایک طرف ’شاہِ اودھ‘ کے آشیانے کو ’موچی کھولے‘ سے نسبت دینا مذکورہ کشمکش اور تذبذب کی کیفیت کو واضح کرتا ہے، وہیں دوسری جانب نساخ کی ذہنی کشادگی اور عظمت اِس سے عیاں ہے کہ انھوں نے اپنے دوسرے دیوان ’اشعار نساخ‘ میں سادگیِ بیان اور نزاکتِ احساس کے ذریعہ دلی جذبات واحساسات کا بھی اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے ناسخ کی پیروی کم، مومن وغالب کا رنگ زیادہ جھلکتا ہے جو نہ صرف معتدل رُجحان کی طرف جھکاؤ کا غماز ہے بلکہ اِس رویہ سے اُن کی قادر الکلامی کا بھی پتہ چلتاہے۔
دبستانِ دہلی کے رنگ میں رنگا ہوا ’ارمغان‘ نسّاخ کا تیسرا دیوان ہے۔ اِس نام سے تاریخ 1292ھ نکلتی ہے۔128صفحات پر مشتمل یہ دیوان مکمل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد 1294ھ مطابق 1877 میں نظامی پریس کانپور سے شائع ہوا۔ اِسے ترتیب دینے سے قبل نسّاخ دوبار دہلی کا سفر کرچکے تھے۔ وہاں کی ادبی محفلوں میں شریک ہوئے تھے۔ کلام سُنا اور سُنایا تھا لہٰذا شعرائے دہلی کااثر لازمی تھا۔ غزلیات، رباعیات، قطعات وغیرہ میں سادگی وسلاست ہے۔ غالب، مومن، شیفتہ، حالی کی اتباع میں ہلکی پھلکی بحروں کا استعمال ہوا ہے۔ ناقدین نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے:
1۔ اس میں فارسی اشعار نہیں، خالص اردو کادیوان ہے۔
2۔ غزلیں طویل نہیں ہیں۔
3۔ صنائع وبدائع کی بازی گری بھی کم ہے۔
4۔ زبان میں نرمی، روانی اور سادگی ہے۔
چوتھا دیوان ’ارمغانی‘ بھی خالص اردو دیوان ہے اور اِس نام سے بھی تاریخ نکلتی ہے۔ 116صفحات پر مشتمل ’ارمغانی‘ 1884 میں ترتیب دیا گیا اور نومبر 1886 میں مطبع نامی لکھنؤ سے شائع ہوا۔ غزلوں، مطلعوں اور تاریخی قطعات میں اساتذہ دہلی کا انداز جھلکتا ہے۔ دیوان کا پہلا شعر ہے:
جلوۂ کوہِ طور نے مارا 
دلِ خاکی کو نور نے مارا
تذکروں میں ’قطعۂ منتخب‘، ’تذکرۂ سخن شعرا‘ اور ’تذکرۃ المعاصرین‘ خاصے اہم ہیں۔ ’قطعہ منتخب‘ نسّاخ نے 1860 کے آس پاس تالیف کیا۔ تقریباً چودہ سال بعد یہ تذکرہ جولائی 1874 میں نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ 106صفحات پر مشتمل ساڑھے پانچ سو قطعات کے اِس مجموعے میں نہ صرف کلام ردیف وار ہے بلکہ شاعر، نام اور تخلص بھی حروفِ تہجی کے لحاظ سے درج ہے۔ عبدالسلام ندوی نے اس تذکرہ میں اخلاقی، ثقافتی، بلکہ صوفیانہ رنگ کی بھی نشاندہی کی ہے جس سے وہ کوسوں دُور بھاگتے تھے۔مشہور محقق پروفیسر انصار اللہ نظر نے نسّاخ کے عاشقانہ مزاج میں رچے ہوئے فن پر توجہ مرکوز کی ہے۔ کتابت کی غلطیوں کو دُرست کرتے ہوئے مزید چار شعرا، خواجہ محمد وزیر، ہدایت اللہ خاں ہدایت، میر محفوظ علی ہمدم اور نواب محمدتقی ہوس کے ذکر کو دریافت کرتے ہوئے اس میں اپنے نوٹ کے ساتھ شامل کیا اور اسے قطعہ منتخب (تذکرہ نسّاخ کا خلاصہ) کے نام سے 1976 میں انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی سے شائع کرایاہے۔
’تذکرۂ سخن شعرا‘ کو نسّاخ نے 1864 میں تالیف کیا جو دس سال بعد اکتوبر 1874 میں منشی نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے اُترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کرایا۔ کیونکہ قدیم ادب کی تاریخ مرتب کرنے میں یہ تذکرہ واضح رہنمائی کرتاہے۔ تقریباً ڈھائی ہزار شعرا اور 39شاعرات پر مشتمل اِس تذکرے میں معروف شعرا کے فنی کمالات کے ساتھ غیر معروف شعرا کا بھی ذکر ہے حالانکہ اس ذکر میں نام، تخلص، وطن، ولدیت، استاد وشاگرد کے تعلق سے بطور نمونہ چند اشعار پر اکتفا کیا گیا ہے۔ لیکن نظروں سے اوجھل شعرا کا مختصر تعارف بھی مستقبل میں کارآمد ثابت ہوا۔ محققین کے مطابق اِس تذکرے کے منظر عام پر آنے کے بعد بنگال اور اس کے قرب وجوار کے شعرا کی تلاش وتحقیق میں سہولت میسر آئی ہے۔
فارسی زبان میں لکھا جانے والا ’تذکرۃ المعاصرین‘ مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ نسّاخ کا انتقال ہوگیا۔ یہ 24صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں 236فارسی گو شعرا کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر شبانہ نسرین کی تحقیق کے مطابق یہ تذکرہ مغربی بنگال اردو اکادمی میں موجود ہے۔ یہ وہ پہلا تذکرہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید احمد خاں آہی تخلص کے ساتھ فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے اور اُن کے کئی اشعار بھی اِس میں موجود ہیں۔
مذکورہ چار دیوان اور تین تذکروں کے علاوہ نسّاخ کی سولہ دیگر تخلیقات کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً سولہ صفحات پر مشتمل ’زبانِ ریختہ‘ مکمل تحقیقی رسالہ ہے۔ یہ 1874 میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ پروفیسر انصار اللہ کے مطابق یہ نسّاخ کی پہلی تصنیف ہے جو بعد میں شائع ہوئی۔ اس کا پورا نام ’رسالہ درتحقیق زبان اردوے معلی‘ اور تاریخی نام ’زبان ریختہ‘ ہے۔ اس میں اردو کی وجہ تسمیہ اور شاعری کے ارتقا کے اسباب مربوط انداز میں، نہایت اختصار کے ساتھ پیش کیے ہیں اور ممکنہ حد تک عہد بہ عہد ہونے والی تبدیلیوں کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔
’چشمۂ فیض‘ 48صفحات پر مشتمل نیشاپور کے مشہور فارسی شاعر فریدالدین عطار کی مثنوی ’پندنامہ‘ کامنظوم اردو ترجمہ ہے۔ غیر مستعمل اور متروک الفاظ سے مبرا صاف ستھری اور منجھی ہوئی زبان کا یہ ترجمہ جون 1876 میں منشی نولکشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ مثنوی کاآغاز اس شعر سے ہوتاہے:
حمد بے حد کے ہے قابل وہ خدا
جس نے مشتِ خاک کو ایماں دیا
دوسری مختصر مثنوی ’شاہد عشرت‘ اکتوبر 1874 میں نولکشور پریس سے شائع ہوئی۔ اشعار کی مجموعی تعداد 177ہے۔ ابتداء ساقی نامہ سے ہوتی ہے۔ 18صفحات کے اِس شہ پارے میں مثنوی گوئی کے تمام فن مثلاً سراپائے محبوب، جزئیات نگاری، منظر کشی وغیرہ موجود ہیں۔ اِن دونوں مثنویوں کے علاوہ نسّاخ ایک اور مثنوی بہ عنوان ’درمذمت شراب‘ لکھ رہے تھے لیکن ناگہانی موت نے اُسے مکمل ہونے نہیں دیا۔
34صفحات پر مشتمل ’باغِ فکر‘ قطعات کا ردیف وار مجموعہ ہے۔ جون 1887 میں لکھنؤ کے نامی پریس سے شائع ہونے والے اس مجموعے میں قطعات کے علاوہ مطلعے بھی ہیں جن میں صنائع بدائع کا خوب استعمال ہوا ہے۔
رسالہ ’قندپارسی‘ایک سو اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ جولائی 1872 میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ دیباچہ کے ساتھ ’قندپارسی‘ دس مشہور شعرا کا کلام اور کچھ غیر مشہور کلام کو بھی اس میں منتخب کیا گیا ہے۔
’گنج تواریخ‘ تاریخی قطعات کا مجموعہ ہے۔ ستاسی صفحات پر مشتمل، مشاہیر اسلام کی وفات پر کہے گئے تاریخی قطعات کا یہ مجموعہ اکتوبر 1874 میں نول کشور پریس، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس میں نساخ کی تاریخ گوئی کی مہارت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ بعد میں ’گنجِ تواریخ‘ کاضمیمہ ’کنزالتواریخ‘ کے نام سے مطبع نظامی کانپور سے شائع ہوا جس پر ابومحمد ثاقب کانپوری نے تفصیلی گفتگو کی۔ بعد میں اس گفتگو کوثاقب صاحب کے بیٹے پروفیسر ابوالخیر کشفی نے کراچی سے بھی شائع کیا۔ فارسی اور اردو قطعات پر مبنی یہ کتاب ادبی حلقے میں ’ضمیمہ گنج تواریخ‘کے نام سے مشہور ہے۔
’نصاب زبانِ اردو‘ کو نسّاخ نے کلکتہ یونیورسٹی کی نصابی ضرورت کے پیش نظر ستمبر 1862 میں ترتیب دیا جسے اگلے تعلیمی سال میں کلکتہ کالج پریس نے شائع کیا۔ ایک سو اسّی صفحات پر مشتمل یہ کتاب دو حصوں، نثر ونظم کے انتخاب پر مبنی ہے جسے انتظامیہ نے بھی پسند کیاتھا۔
’منتخبات دواوین شعرائے ہند‘ ردیف وار اساتذۂ اردو کی منتخب غزلوں کا رسالہ ہے۔ 1864 میں کالج پریس کلکتہ سے شائع ہونے والی یہ تالیف معروف شعرائے اردو کی غزلوں اور قصیدوں کا مجموعہ ہے جس کا ذکر ’تہذیب الاخلاق‘ کے اشتہار میں موجود ہے۔
’نصرۃ المسلمین‘ ردِّ وہابی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ چالیس صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں چوہتر رباعیاں ہیں۔ ان میں قرآن وحدیث کی مدد سے وہابیت کی تشریح، تفہیم اور تردید کی گئی ہے۔ اس سے متاثر ہوکر مشہور رباعی گو جگت موہن لال رواں نے کئی رباعیاں قلم بند کی ہیں، خصوصاًمہاتماگوتم بدھ پر رواں نے جوسلسلہ شروع کیا تھا اس پر مذکورہ کتاب کی گہری چھاپ ہے۔ ہمیں اِس کے حوالے حسرت موہانی کے تعلق سے اردوئے معلی میں اور اشتیاق عارف کے تعلق سے ’افکار‘ بھوپال میں ملتے ہیں۔
بیس صفحات کا رسالہ ’انتخاب نقص‘، نظامی پریس کانپور سے ماہ محرم 1879 میں شائع ہوا۔ اس میں دبستان لکھنؤ کے نامور شعرا، خصوصاً انیس ودبیر کے کلام پر اعتراضات ہیں۔ نساخ اہل لکھنؤ کی شیخی سے جسے وہ مٹیابرج میں دیکھتے،سنتے رہے، نالاں تھے۔ وہ گل افشانی گفتار، تصنع، بے جا محبت وعقیدت کو بھی پسند نہیں کرتے تھے حالاں کہ وہ خود اِس سے مبرّا نہیں تھے۔ پھر یہ کہ ادبی جھگڑوں اور معرکہ آرائیوں میں شامل ہوتے رہتے تھے۔ اِس کی مختلف کہانیاں مشہور ہیں جن سے گُریز کرتے ہوئے یہ کہ نسّاخ، میر وانیس کے کلام میں زبان، عروض، محاورے، معانی اور قواعد کی غلطیاں نکالتے جس سے جواب در جواب ہی نہیں، لکھنؤ اور غیر لکھنؤ کے تعلق سے تذلیل وتضحیک کا بھی سلسلہ شروع ہوا جس کے شکار کئی شاعر ہوئے، اُن میں یگانہ چنگیزی بھی شامل ہیں۔ اس ادبی حملے کے جواب میں نسّاخ کے کلام کا خوب مذاق اڑایا گیا اور جواب میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔ اعتراضات کے اِس سلسلے کو موضوع بحث بناتے ہوئے ڈاکٹر شبانہ نسرین ’نسّاخ اور تلامذہ نسّاخ کی ادبی خدمات‘ میں لکھتی ہیں:
’’کلام انیس ودبیر اور دوسرے شعرائے لکھنؤ پر نسّاخ کے بے جا اعتراضات پیش کرنا اور اس کے جواب میں اہل لکھنؤ کا جذباتی رو میں بہہ کر اشعار نسّاخ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دینا، ان سب کے پس منظر میں دونوں ہی کا احساس تعصب اور انتقامی جذبہ کام کررہا تھا۔ تنگ نظری اور خود پسندی کے دونوں ہی شکار تھے‘‘۔ (ص74)
فارسی رباعیوں کا ردیف وار مجموعہ ’مرغوبِ دل‘ کے عنوان سے انھوں نے راجشاہی کے دورانِ قیام لکھا تھا۔ 24صفحات کا یہ رسالہ پہلے کلکتہ میں شائع ہوا، پھر اکتوبر 1874 میں نولکشور پریس، لکھنؤ سے منظر عام پر آیا۔ رباعیوں کے اِس مجموعے پر جگت موہن لال رواں نے تفصیلی بحث کرتے ہوئے رائے قائم کی ہے کہ نسّاخ کو صنائع بدائع پر بھر پور عبور حاصل تھا۔
15صفحات کا رسالہ ’مظہر معمّا‘ کے عنوان سے بحر العلوم لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اِس میں انتیس فارسی کے اور دس اردو کے معمے ہیں۔ دلچسپ انداز میں سلجھائے گئے یہ معمے ’اشعارِ نساخ‘ اور ’ارمغان‘ میں بھی موجود ہیں۔
’ترانۂ خامہ‘ یعنی مرغوبِ جان ڈیڑھ سو اردو رباعیوں کا مجموعہ ہے جو مطبع بحر العلوم لکھنؤسے شائع ہوا۔ اس میں ’ارمغان‘ کی پینتالیس اور ’اشعار نسّاخ ‘ کی آٹھ رباعیاں بھی شامل ہیں، سبھی رباعیاں ردیف وار ہیں۔ مجموعے کی ترتیب میں حمد، نعت، منقبت وغیرہ کا خیال رکھا گیا ہے۔
’سفینہ منتخب‘ مرزا وصال شیرازی کے فارسی کلام کا انتخاب ہے جو نامی پریس لکھنؤ سے اپریل 1888 میں شائع ہواہے۔
’سوانح عمری نسّاخ‘ قلمی نسخے کی شکل میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال لائبریری، کلکتہ میں موجود ہے۔ یہ سوانح اُن کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکی۔ کئی دوستوں نے عہد کیا مگر کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے ہوئے اشاعت کو ٹال دیا۔ قیاس آرائیاں، کہانیوں کا سبب بنتی ہیں اور پھر وہ مفروضہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ تحقیق میں ان سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ تاہم محققین اس پر متفق ہیں کہ اس سوانح عمری سے اُن کی زندگی کے اہم واقعات اور حادثات کے ساتھ ساتھ اُن کی خوئے خود پسندی اور زعم انانیت بھی بے نقاب ہوتی ہے لہٰذا ’خودنوشت تاریخِ حیات نساخ ‘ کے عنوان سے عبدالسبحان، اُستاد زبان وادبیات فارسی، مولانا آزاد کالج، کلکتہ کی کوششوں سے عوام تک اس کی رسائی ہوسکی۔
اس روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیم اور جدید ادب کی حد بندی کے عہد میں عبدالغفور نسّاخ کانام ایک معتبر وجود کی مہر لگاتا ہے۔ اُن کی تخلیقات کادائرہ وسیع ہے۔ شاعری کے حصہ کو دیکھیں تو چار دیوان کے علاوہ قطعات کے تین، رباعیات کے تین، مثنویوں کے دو مجموعے اور ایک مختصر مجموعہ قصائد کا دستیاب ہے۔ نثر میں تین تذکروں کے علاوہ ایک ایک کتاب تحقیق، تنقید، تدوین اور سوانح پر موجود ہے۔ اِس کے علاوہ انھوں نے نصاب کو بھی ترتیب دیا ہے اور معمے بھی حل کیے ہیں۔ اُن پر خوب لکھا گیا ہے مگر اب بھی فکروفن کے بہت سے گوشے سامنے نہیں آسکے ہیں۔ شاید اِس وجہ سے کہ ہم ثانوی باتوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نسّاخ کی پیدائش، وفات وغیرہ کی صحیح تاریخ ووقت یا پھر بھائی، بہن، بیوی، بیٹی سے منسلک معمولی اختلاف طول پکڑتاہے۔ تخلیقات اور اُن سے وابستہ فکری اور فنی باتوں پر کم، ترتیب وتنظیم، اشاعت واشاعتِ ثانی پر زیادہ توجہ مرکوز ہوجاتی ہے جب کہ موصوف کے تعلق سے، عصرِ حاضر میں تحقیق کے یہ عنوانات خاصے اہم ہوسکتے ہیں:
1۔ نسّاخ کو معرکہ آرائی، ہنگامہ برپا کرنے اور شعر کہنے کا جنون تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی چاہ نے شاعرانہ جذبے کے ساتھ اُستادانہ جذبۂ برتری کو ہوادی مگر اِس نکتہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اُنھیں خود پر، اپنے کلام پر تنقید گوارا نہیں تھی۔
2۔ اِن نکات پر بھی تحقیق ہوسکتی ہے کہ نسّاخ کو شاگرد بنانے کا شوق تھا۔ جہاں بھی تبادلہ اور قیام ہوتا کچھ نہ کچھ شاگرد ضرور بناتے۔ پھر یہ بھی کہ خط یا اصلاح کافوری جواب دیتے تھے۔ یہ عمل داغ دہلوی کے یہاں بھی نظر آتا ہے لیکن ہمیں داغ کے شاگردوں کی فہرست اور انھیں لکھے گئے خطوط کا ذخیرہ دستیاب ہے مگر نسّاخ کے یہاں یہ گوشہ کچھ تشنہ سا ہے۔ اگر اِس جانب یکسوئی اور دلجمعی سے توجہ دی جائے تو بہت سی تجاویز اور کارآمد لسانی گفتگو سامنے آسکتی ہے۔ اِس سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ نسّاخ کی قصائد اور مراثی پر توجہ کیوں کم رہی؟ اور یہ بھی کہ تصوف اور اخلاق کے مضامین سے انھوں نے کیوں کر گُریز برتا۔
یہ گوشہ بھی تحقیق طلب ہے کہ باندہ جودہلی اور کلکتہ کے لیے انگریزوں کی بنائی ہوئی گزرگاہ سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر الگ واقع ہے اور جہاں وہ غالب کے عزیز اور شاگرد نواب باندہ علی بہادر ثانی علی سے ملنے جنوری 1870 میں گئے تھے۔ کانپور میں نواب پٹکاپور سے اور اناؤ میں حکیم ارشاد علی سے ملتے ہوئے وہ لکھنؤ آئے تھے۔ احسان آوارہ باندوی کی تحقیق کے مطابق یہ کہہ کر ہم دامن نہیں جھاڑ سکتے کہ باندہ سے لکھنؤ کے لیے، کانپور اور اناؤ ہوتے ہوئے بہت ہی صاف ستھرا راستہ تھا جس کا ذکر مرزا ہادی رسوا نے بھی کیاہے۔ ممکن ہے کوئی اور بھی وجہ ہو کیونکہ پہلی ہی ملاقات میں غالب نے نواب باندہ اور وہاں کے ماحول کا ذکر کیا تھا۔ تقریباً نصف صدی کے وقفے پر محیط اُستاد، شاگرد یعنی غالب اور نسّاخ کے سفر میں فرق ہے۔ غالب کا قصدِ سفر مالی مدد، عزیزوں اور شاگردوں سے ملاقات تھی جب کہ نسّاخ ملاقات سے زیادہ علاج کی غرض سے سفر پر نکلے تھے۔ نساخ سرکاری ملازم تھے، اس لیے اُن پر وقت مقررہ کی پابندی تھی لیکن اُس مختصر وقفے کے دوران جو واقعات پیش آئے اُن کے مختلف پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ نساخ کے تعلق سے کئی سوال سر اُٹھاتے ہیں جواُن کے فکری اور فنّی نہج کو سمجھنے کے لیے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ مطالبہ اِس لیے کہ میرے نزدیک نساخ کی نثری تخلیقات بھی پُرپیچ، پُراثر اور بے حد معلوماتی ہیں۔ ان میں انسانی نفسیات اور تاریخی واقعات کے ساتھ سماجی شعور جلوہ گر ہے۔ شاعر کی حیثیت سے دیکھیے تو صنعتِ ترصیع اور صنعتِ تضاد کے ساتھ، موقع ومحل کی مناسبت سے ممکنہ صنعتوں کو برتنے کا سلیقہ، لفظ ومعنی کا ارتباط اور مضمون باندھنے کا جو دلآویز انداز ہے، وہ نساخ کی تخلیقی قوت کے ساتھ لسانی ترتیب کا جواز فراہم کرتا ہے۔ انتخابِ الفاظ میں مہارت، عروض وبلاغت پر دسترس اور مصرعے موزوں کرنے کے سلیقہ نے اسلوب میں جدت او رطرزِ ادا میں نُدرت پیدا کی ہے۔ اُن کے کلیات کو کہیں سے بھی اُٹھا کر دیکھ لیجیے، معاصر اثرات کے ساتھ کلاسیکی شاعری کے حُسن کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ 
یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ ضخامت کے اعتبار سے نساخ کے کئی ادب پارے نہایت مختصر ہیں مگر موضوع کے لحاظ سے ان سب کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ سوانح، تاریخ، خطوط اور تذکروں میں نثری صفات کے سرچشموں سے قاری سیراب ہوتا ہے تو منظوم نگارشات میں تمام شعری کمالات کو خوبی سے تحلیل کردیاگیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ نسّاخ کے کلام میں صناعی، حُسن کاری اور الفاظ کی تراش کے علاوہ انسانی جذبات واحساسات کو متشکل کرنے کاعمل فطری اور لہجہ نرم وخوشگوار ہے جوہر دور میں قاری کی دلچسپی کا سبب بنتا رہے گا ؂
سچ سچ جو مُجھ سے پوچھیے تو فنِ شعر میں
نسّاخ اپنے وقت کے تم بھی امام ہو

Prof. Saghir Afraheim
Editor 'Tahzibul Akhlaq & Professor
Dept of Urdu, AMU
Aligarh - 202002 (UP)
Contact no: 09358257696


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...