ندا فاضلی کے دوہے
عبد السمیع
ندافاضلی کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ بہت وسیع ہے اگر یہ کہا جائے کہ شہرت اور مقبولیت کا سفر ندا فاضلی سے زیادہ ان کی تخلیقات نے طے کیا ہے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ میں نے اپنا مطالعہ ان کے دوہے تک محدود رکھا ہے۔ دوہا سنسکرت،اودھی اور ہندی کے اثر سے اردو میں آیا ہے۔ اس صنف کو کبیر، سور،تلسی، میرا، ان سے پہلے رحیم اور رسخان وغیرہ نے ایک خاص مقام پر لاکھڑا کیا تھا۔ ہندوستانی اصناف سخن میں دوہے کو وہی اہمیت حاصل ہے جو عربی اور فارسی میں غزل کو ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوہا فنی اعتبار سے بھی غزل سے بہت قریب ہے۔غزل کا فنی امتیاز یہی ہے کہ اس کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے ، اگر غزل کے مطلع کو دوہا کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں تو سوائے تہذیبی وراثت اور عروض و بحر کے، دونوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ دوہا ہندی عروض کے ساتھ ہندوستان کی شعری ، لسانی اور تہذیبی وراثت کا پابند ہے جبکہ کلاسیکی اردو غزل کی شریانوں میں عربی اور فارسی شعروادب کا خون رواں ہے۔ موضوعاتی سطح پردوہا کا رشتہ کبھی رباعی، کبھی قصیدہ اور کبھی شہرآشوب سے قائم ہوجاتا ہے۔ دوہا کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ابتدا سے ہی عوامی زندگی سے وابستہ رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی لفظیات اور تلازمات بھی عوامی زندگی سے ماخوذ ہیں۔ اس لیے اس کی زبان سادہ مگر پراثرہوتی ہے۔ یہ صنف مرصع کاری کی متحمل نہیں۔ ندافاضلی کا شعری مزاج بھی سادہ کاری سے تشکیل پایا ہے۔
دوہا ہمیشہ سے سماجی مسائل کو پیش کرتا رہا ہے۔اس کا شاعر سامنے کی باتوں کو مانوس الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس میں تازگی اور انوکھا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوہا میں اشیا اور مسائل کی قلب ماہیت ہوجاتی ہے تو شاید بے جا نہ ہو۔ ندا فاضلی کو اپنے زمانے کے حالات اور اس کی کربناکی کا ادراک تھا، وہ اپنے دوہوں میں انسانی اور معاشرتی مسائل کوپیش کرتے ہوئے کھردرے الفاظ کو بھی رچاؤ اور خوش سلیقگی کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔یہ دوہا ملاحظہ کیجیے
سودا لینے ہاٹ میں، کیسے جائے نار
چاقو لے کے ہاتھ میں بیٹھا ہے بازار
سودا، ہاٹ، نار، چاقو، بازار جیسے الفاظ روزمرہ کا حصہ ہیں۔ ہاٹ اور بازار میں جو نسبت ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ ہاٹ عام طور پر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں شام میں لگتا ہے۔ بازار بھی اسی قسم کی چیز ہے لیکن اس کا دائرہ کچھ بڑا ہوتاہے۔ دوہے میں لفظ ’نار‘ ناری یا عورت کی نمائندگی نہیں کررہا ہے بلکہ یہ لفظ ایسے تمام لوگوں کو محیط ہے جن میں معصومیت اور خارجی دنیا سے ناآشنائی ہوتی ہے۔جو چالاکی اور عیاری سے کام لینا نہیں جانتے اور اپنی فطری معصومیت کے سبب تمام لوگوں کو اپنی طرح بے ضرر سمجھتے ہیں۔ دنیا جس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ، اس کی اخلاقی اور تہذیبی قدریں جس طرح سے پامال ہوئی ہیں ،اسے بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ تبدیلی ایک ناگزیر عمل ہے۔ مثبت تبدیلی انسانی زندگی کو پائیدار ترقی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی تبدیلی تہذیب و تمدن کو زیربار کرتی ہے۔ ندا فاضلی نے یہاں سامنے کی مثال کے ذریعہ تبدیلی کے نظام کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مختلف مذاہب کی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے ایک نیا جہان معنی آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ مذہب کو اس کی روحانیت کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسانی اقدار سے روگردانی نہیں کرتا لیکن مادہ پرستی نے مذہب کو بھی نام ونمود کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ ندا فاضلی کا یہ دوہا اسی جانب اشارہ کرتا ہے
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالیشان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
ندافاضلی جس روایت کے پاسدار ہیں اس کی فکری اساس نظیر، سور، تلسی، کبیر ، وارث شاہ اور بلھے شاہ کے ساتھ ساتھ سرمد اور منصور کے افکار پر قائم ہے۔ندا فاضلی کا شاعرانہ تیور بھی وہی ہے جو مذکورہ لوگوں کے یہاں ہے۔ کبیر مسجد اور مندر کو ایک جیسا پاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ دونوں مقامات ابتدا میں روحانیت سے عبارت رہے لیکن جب ان میں مادیت کے عناصر نمو پانے لگے تو یہ رفتہ رفتہ اپنے اساسی مقصد سے منحرف ہوگئے اور یہ صرف رسم کی صورت میں باقی رہ گئے۔ ندافاضلی کومندر و مسجد اور دوسری عبادتگاہوں میں وہی گورکھ دھندہ نظر آتا ہے جسے کبیر نے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ انھیں مسجد کے عالیشان ہونے کا شکوہ اور بچہ کے بے مکان ہونے کا احساس ہے تو مندر کا چڑھاوا اور نذر ونیاز بھی روحانیت اورانسانی اقدار سے خالی نظر آتی ہے
اندر مورت پر چڑھے، گھی ، پوری، لوبان
مندر کے باہر کھڑا ، ایشور مانگے دان
ندا فاضلی کی شاعری میں مذہب کی سیاست جس طرح سے بے نقاب ہوئی وہ ہماری شعری روایت میں نئی تو نہیں ہے لیکن ان کا اسلوب کلاسیکی روایت سے الگ ہے۔ وہ قاری کو اپنی سمجھ اور اپنے تجربات و مشاہدات پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ندا فاضلی زندگی اور مذہب دونوں میں اجتہاد کے قائل ہیں۔ وہ کلیہ اور کلیشے کو نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ قاری سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات سے دنیا کو دیکھے، پرکھے پھر اس کی صداقت کو قبول کرے
وہ صوفی کا قول ہو یا پنڈت کا گیان
جتنی بیتی آپ پر، اتنا ہی سچ مان
صوفی، قول، پنڈت ،گیان یہ الفاظ مذہب سے وابستہ ہیں۔ پہلے دو الفاظ اسلامی روایت سے متعلق ہیں، ہندوستان میں یہ دونوں الفاظ مذہبی انتہا پسندی کے مقابلے میں مذہب کا متوازن سماجی اقدار پیش کرنے کی روایت سے منسلک ہیں۔ پنڈت اور گیان کا تعلق سناتن دھرم سے ہے۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت میں پنڈت اور گیان ’صوفی اور قول‘ کے متوازی قرار دیے گئے ہیں۔ قول اور گیان کے دائرے میں وہ تمام ملفوظات اور اشلوک آجاتے ہیں، جنھیں مختلف مذاہب کے علما نے مختلف اوقات میں عوام کو ’راہ راست‘ پر لانے یا ’حصول نجات‘ کے لیے کچھ اصول وضع کیے تھے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان ملفوظات میں کتنی صداقت ہے۔ نیز ان کی صداقت آج کتنی معنویت رکھتی ہے۔ اگر ان کی معنویت موجودہ زندگی میں ہے تو اس کا ادراک بھی انسان کو اس کے اپنے تجربے اور مشاہدے سے ممکن ہے۔ اس دوہے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہے کہ خواہ مخواہ کے جھمیلوں میں پڑنے سے بہتر ہے کہ وہ خود کو اپنے مشاہدے تک محدود رکھے۔ ندا فاضلی نے مذہبی اجارہ داری اور مادہ پرستی کو کئی دوہوں میں پیش کیا ہے
ساتوں دن بھگوان کے، کیا منگل کیا پیر
جس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر
سب کی پوجا ایک سی، الگ الگ ہر ریت
مسجد جائے مولوی، کوئل گائے گیت
چاہے گیتا باجیے یا پڑھیے قرآن
میرا تیرا پیار ہی، ہر پستک کا گیان
اس میں شک نہیں کہ مذہب انسان کوکئی سطحوں پر متاثر کرتا ہے۔مذہب کے اس پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں کہ افکار و خیالات کی بنیاد پر وہ انسان کو خانوں میں تقسیم بھی کرتا ہے۔ تقسیم کے اس عمل میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے کا مقصد مضمر ہے۔ یہ تفریق بہتر سے بہتر زندگی کے حصول کو آسان بنانے کا ذریعہ بھی ہے لیکن تقسیم اور تفریق کے اساسی مقصد کا سہارا لے کر مذہب کی سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ مذہب کی صداقت اور فوائد سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ اسی وقت کارآمد ہوسکتا ہے جب تک مذہب اپنی روحانیت کے ساتھ ہماری زندگی میں شامل رہے۔ مذہبی رسوم میں مذہب کی روح پیوست ہو ایسا لازمی نہیں۔ بہت سے رسوم جغرافیائی اثرات سے بھی مذہب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ’رسم اذاں‘رہ جاتی ہے جبکہ ’روح بلالی ‘ ختم ہونے لگتی ہے۔ آج ہم جس ماحول میں سانس لے رہے اس میں روحانیت کی شدید ضرورت ہے۔ روحانیت کسی ایک مذہب سے مخصوص نہیں بلکہ اس کا تعلق احساسات سے ہے۔ انسان جب مذہب، نسل، رنگ اور جغرافیائی امتیاز سے بلند ہوکر انسانی اقدار کی بنیاد پر زندگی کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے یہ دیواریں پست اور بے معنی معلوم ہونے لگتی ہیں۔
ندا فاضلی کی شاعری بالخصوص دوہوں کے موضوعات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی نگاہ عرفان ذات، انسانی دکھ پر رہتی ہے ساتھ ہی وہ انسانی قدروں کی پامالی ، خاندانی رشتوں کی بے حرمتی اور مذہبی اجارہ داری کے خلاف ایک محاذ قائم کرتے بھی نظر آتے ہیں۔انسان کو اپنی مٹی اور تہذیب سے جو والہانہ عشق ہو سکتا ہے اس کی بہترین صورت ندا فاضلی کی شاعری میں موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب کا جو مقام ہے اور اس کے نام پر جس طرح کا استحصال کیا جاتا ہے، ندافاضلی کے دوہوں کی مدد سے اس کی ایک دھندلی تصویر پیش کی جا چکی ہے۔ انسانی زندگی میں مذہب ایک بڑی صداقت کے طور پر شامل ہے لیکن مذہب سے الگ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس سے انسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ضروریات زندگی میں بھوک مٹانے کے لیے روٹی اورتن کے لیے کپڑامبادیات کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کے بعد انسان سر چھپانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ دربدری اور بے سروسامانی میں انسان جس کرب سے گزرتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں ، ایسے حالات میں انسان خدا کو یاد تو کرتا ہے لیکن یاد کے اس اضطراری عمل میں فریاد، شکوہ اور آہ و زاری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے گھر ، اپنے گاؤں اور اپنی مٹی کو کبھی نہیں بھول پاتا، اس سے الگ ہوکر اس کے حصول کی خواہش سے دل ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوتا۔ ڈار سے بچھڑا ہوا شخص بار بار اس کی جانب لوٹ جانا چاہتا ہے۔ وہاں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کشش محسوس کرتا ہے اور معمولی سی شے (جس کی موجود گی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی)کے گم ہوجانے کا ماتم ایسے کرتا ہے جیسے کوئی بہت قیمتی شے کھو گئی ہو۔ندا فاضلی کے یہاں اس قسم کی ناسٹلجیائی کیفیت ملتی ہے، جس میں کچھ کھو جانے کا درد محسوس کیا جاسکتا ہے
گھر کو کھوجیں رات دن، گھر سے نکلا پاؤں
وہ رستہ ہی بھول گیا، جس رستے تھا گاؤں
سنا ہے اپنے گاؤں میں رہا نہ اب وہ نیم
جس کے آگے ماند تھے سارے وید حکیم
بوڑھا پیپل گھاٹ کا، بتیائے دن رات
جو بھی گزرے پاس سے سر پر رکھ دے ہاتھ
گھر کو کھوجیں رات دن کا مطلب بہتر اور آسودہ زندگی کی تلاش ہے۔ تلاش ایک ایسا راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ ایک معنی میں یہ لاحاصلی کا سفر بھی ہے۔ اس سفر میں مسافر اپنے اس گھر کو بھول جاتا ہے جس میں اس نے اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات بسر کیے۔ گھر کی تلاش میں گھر سے نکلنا دراصل لامکانی کا سفر ہے جس میں واپسی کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ اسی لیے شاعر نے اس راستے کے کھوجانے کا ذکر کیا ہے جس پر چل کر پہلے گاؤں اور پھر گھر پہنچا جا سکتا تھا۔ اب جبکہ کے گاؤں کی طرف جانے والا راستہ ہی گم ہوچکا ہے تو گھر تک پہنچنا کیونکر ممکن ہے۔یہاں احساس زیاں تو ہے لیکن اس زیاں کا تعلق انسان کی اپنی فراست سے ہے۔ ندا فاضلی کا ایک شعری وصف یہ بھی ہے کہ وہ انسانی شکست و ریخت کے لیے قدرت یا نظام فطرت کو موردالزام نہیں ٹھہراتے۔ انسانی زندگی کے تمام حادثات کی ذمہ داری خود انسان پر عائد ہوتی ہے۔
گاؤں یا بستی صرف انسانی زندگی سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس میں چرند و پرند، راستہ، پگڈنڈی، کنواں، تالاب، پیڑ وغیرہ کے بغیر گاؤں کا تصور ممکن نہیں۔ نیم کے پیڑ کو انسانی پیکر عطا کرنے کی کوشش ہے۔ پہلے دوہے میں گھر اور گاؤں کے کھو جانے کا غم ہے تو دوسرے میں گاؤں کے نیم کی موت کا نوحہ ہے۔ گھر،گاؤں اور نیم صرف لفظ نہیں بلکہ ایک تہذیب کی علامت ہیں جن سے ہماری دیہی زندگی تشکیل پاتی ہے۔ ان سب کے کھو جانے کا ماتم دراصل ایک صحت مند تہذیب کے مٹ جانے کا دکھ ہے۔ تیسرا دوہا ہماری مشرقی روایت بالخصوص ہندوستانی تہذیب کے ایک بلیغ عنصر کا بیانیہ ہے۔ پیپل اور برگد کے درخت سایہ دار تو ہوتے ہی ہیں ان کے سایے میں نہ جانے کتنی زندگیاں نمو پاتی ہیں اور سانس لیتی ہیں۔ پیپل اور برگد شفیق بزرگوں کا استعارہ بھی ہیں۔ ہندوستانی اسطور میں ان کی جو اہمیت ہے ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسطوری اہمیت کے پیش نظر قابل احترام بھی ہیں۔ ندافاضلی نے اسی روایت کو پیش کیا ہے
بوڑھا پیپل گھاٹ کا، بتیائے دن رات
جو بھی گزرے پاس سے سر پر رکھ دے ہات
ذاتی زندگی کی مصروفیات اور اپنے آپ میں گم ہوجانے کی وجہ سے انسان آس پاس کی چیزوں سے لاعلم ہوتا جارہا ہے۔ لاعلمی کا دائرہ اشیا سے لے کر انسانی رشتوں تک پھیل چکا ہے۔ اپنی زندگی سے باہرکچھ نہ دیکھنے کا رویہ انسان کو تنہا بھی کرتا ہے۔ ندافاضلی کے یہاں جو تنہائی ہے اس کی وجہ عالمی معاشرے کی بدلتی صورتِ حال نہیں بلکہ اس کے لیے انسان کا اپنا رویہ زیادہ ذمے دار ہے۔ مٹتی ہوئی تہذیب کے پاسداروں کی ذمے داری اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ انھیں خود کو اپنی شناخت کے ساتھ زندہ بھی رکھنا ہے اور اپنے بعد آنے والی نسل کی تربیت بھی کرنی ہے۔ ندافاضلی کے یہاں تہذیب کی بازیافت کی کوشش ان معنوں میں نہیں ہے کہ اسے زندہ کرنے کے لیے اپنی صحت خراب کی جائے۔ اس تہذیب کی مثبت قدروں کو یادداشت کاحصہ بنانا بھی زندگی عطا کرنے کی ایک صورت ہے۔ ندا فاضلی کے یہاں یہ کوشش ان کی کئی نظموں اور غزلوں میں بھی نظرآتی ہے۔
ندا فاضلی کی شعر گوئی کا آغاز اس وقت ہواجب فرد اپنی ذات میں گم نئی دنیا تلاش کرنے پر مجبور تھا۔ ایسے حالات میں انسانی رشتے اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔ندا فاضلی نے جس معاشرے میں ہوش سنبھالا اس میں بے چہرگی ایک عام مرض تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں رشتوں کی گم ہوتی معنویت اور فرد کی بے چہرگی کا اظہار بار بار ہوتا ہے۔ دوہے ملاحظہ ہوں
مجھ جیسا اک آدمی، میرا ہی ہم نام
الٹا سیدھا وہ چلے، مجھے کرے بدنام
اوپر سے گڑیا ہنسے، اندر کاٹ کباڑ
گڑیا سے ہے پیار تو کیلیں نہیں اکھاڑ
ماٹی ماٹی سے ملے، کھو کے سبھی نشان
کس میں کتنا کون ہے، کیسے ہو پہچان
دکھ تو مجھ کو بھی ہوا، ملا نہ تیرا سات
شاید تجھ میں بھی نہ ہو، تیرے جیسی بات
ندا فاضلی نے اپنی شاعری میں جسم اور دماغ کی دوری کو کئی مقامات پر پیش کیا ہے۔ دوسرا دوہا بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ظاہر اور باطن میں کتنا فرق اور تضاد ہوتا ہے۔ ظاہری اشیا کی اپنی جمالیات ہوتی ہے۔ انسانی زندگی میں ان کی بھی اہمیت ہے۔ اگر کسی کو کوئی چیز یا کوئی شخص اچھا لگتا ہے تو اسے اسی طرح سے قبول کر لینا چاہیے۔ اس کی جڑوں میں جانا اور اس کے باطن میں جھانکنا عام طور پر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
ندافاضلی کی شاعری میں ہجرت، دربدری، اور اپنوں سے جدا ہوجانے کا غم کئی سطحوں پر نظر آتا ہے۔ وہ اس کا اظہا کبھی برملا تو کبھی اشارے کنائے میں کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ دکھ بانٹنے سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ دکھ کا موسم گزر جاتا ہے البتہ اس کی یادیں تازہ رہتی ہیں۔ ’ماں‘ معاصراردوشاعری میں مستقل موضوع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماں کی ممتا اور بدلتے معاشرتی منظرنامے میں پیچیدہ ہوتے انسانی رشتوں میں ماں کی اہمیت پر نظم لکھنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ اس سیاق میں ندا فاضلی کی ایک غزل جس کی ردیف ’جیسی ماں‘ ہے، قابل ذکر ہے۔ یہاں کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں انسانی دکھ اور اس دکھ کی جمالیات کا اظہار ہوا ہے
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
دکھ کی نگری کون سی، آنسو کی کیا ذات
سارے تارے دور کے سب کے چھوٹے ہات
سورج سے دھرتی تپے، چھایا ڈھونڈے کاگ
تن کے اندر من جلے دھواں دکھے نہ آگ
دنیا میں ماں کی ذات ایسی ہے جسے اولاد کا غم اپنے غم سے بڑا محسوس ہوتا ہے۔دوسرا دوہا دکھ کی شعریات سے متعلق ہے۔ دکھ کسی ایک مقام سے وابستہ نہیں ہے۔ اسی طرح آنسو کی پہچان اس کے نکلنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بذات خود آنسو کی کوئی پہچان نہیں۔ دکھ اور غم انسان تک جس آسانی سے پہنچ جا تا ہے، اس سے نجات حاصل کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ ندافاضلی نے تیسرے دوہے میں اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
یہ کہاجاتا ہے کہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے اس میں موجود ہر چیز پر انسان کا اختیار ہونا چاہیے۔ ندا فاضلی کا تصورکائنات اس سے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے لیکن اس کی ساری چیزیں سارے انسانوں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ دنیا قدرت نے بناکر انسانوں کے حوالے کردیا ہے۔ انسان کی اپنی صلاحیت اور اس کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی دنیا کس طرح سے بناتا ہے۔ یعنی جو شخص جتنی محنت اور تگ ودو کرے گا اسے اسی مقدار میں دنیا عطا کی جائے گی۔ ندا فاضلی کا خیال ہے کہ انسان اپنی استعداد ، قوت اور بصیرت میں اضافہ کرے تو منزل مقصود مل سکتی ہے
برکھا سب کو دان دے ، جس کی جتنی پیاس
موتی سی یہ سیپ میں، مٹی میں یہ گھاس
سا سے سا تک سات سر، سات سروں میں راگ
اتنا ہی سنگیت ہے جتنی تجھ میں آگ
چاقو کاٹے بانس کو، بنسی کھولے بھید
اتنے ہی سر جانیے، جتنے اس میں چھید
ندا فاضلی کے دوہوں کو نظرانداز کرکے ان کی تخلیقی حسیت کو بہتر طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس حسیت کا تعلق ایک شعری روایت سے ہے۔ جس سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم نے فاصلہ اختیار کیا ہے۔ ندا فاضلی نے اپنے طور پر اس فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ بنیادی طور پر اردو کے شاعر ہیں لیکن ہندی کا رس جس ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ ندافاضلی کی شاعری کے مطالعے سے اس حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے کہ ان کی غزل کا ایک رشتہ ان کے دوہے سے بھی ہے۔ فکری اور لسانی سطح پر دونوں اصناف ایک دوسرے سے گریزاں نہیں لیکن اس زاویہ نظر سے ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا۔
Abdus Sami
Astt. Prof. Dept of Urdu,
Banaras Hindu University (BHU)
Ajagara , Varanasi - 221005 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں