18/10/18





سرسید کے پنجاب کے پانچ سفر
اصغر عباس


1987 میں’سرسید اقبال اور علی گڑھ‘ کے عنوان سے مونوگراف شائع ہوا اس میں سرسید کے پنجاب کے تین سفر کا ذکر ہے لیکن علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میرے لیے انیسویں صدی کے علم وخبر کا بہترین سرچشمہ ہے جس پر میں ایک پیاسے کی طرح پہنچتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید نے پنجاب کے تین نہیں پانچ سفر کیے تھے۔ یہاں ان کا مختصر احوال پیش کررہا ہوں۔
پنجاب کی سرزمین سرسید کے قدوم میمنت لزوم سے پہلی بار 1873 میں سرفراز ہوئی۔ وہ 25 دسمبر 1873 کو بنارس سے جہاں وہ سب ججی کے عہدہ پر مامور تھے، علی گڑھ آئے اور یہاں سے 25 دسمبر 1873 کی ڈاک گاڑی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔اس سفر میں ان کے ہم کاروں میں مولوی سمیع اللہ خاں، سید محمد محمود، سید زین العابدین، مرزا عابد علی بیگ، محمد حمید اللہ خاں، سید ظہور حسین، خواجہ محمد یوسف، منشی وجیہ الدین ہیڈماسٹر بلند شہر، منشی محمد یار خاں اور منشی مشتاق حسین ساتھ تھے۔ یہ ٹرین 26 دسمبر کو صبح دس بجے امرتسر پہنچی۔یہاں سرسید اور ان کے رفقا کا استقبال کرنے والوں میں آغا کلب عابد، خان محمدشاہ، میاں محمد خاں، شیخ الٰہی بخش سوداگر، شیخ غلام حسین، شیخ خدا بخش، منشی مہدی علی خاں، میاں غلام حسن، میاں اسد اللہ خاں، شیخ غلام صادق، حاجی محمد سیف الدین، میاں یوسف شاہ، وزیر شاہ اور شیخ سکندر خاں تھے۔ ان عمائدین امرتسر نے سرسید اور ان کے قافلہ کی شیرینی سے تواضع کی۔
26 دسمبر 1873 کو یہ ٹرین بارہ بجے دن میں لا ہور پہنچی۔ یہاں سرسید اور ان کے احباب کا خیرمقدم کرنے والوں میں برکت علی خاں، سردار محمد حیات خاں، نواب عبدالمجید خاں، شیخ غلام محمد سبحانی، ڈاکٹر رحیم بخش، فقیر سید قمر الدین، منشی محمد لطیف،سید فضل شاہ ریلوے ڈپارٹمنٹ، منشی محمد شمس الدین ایڈیٹر پنجابی اخبار، سیدنادر علی شاہ ایڈیٹر کوہ نور، منشی ہر سکھ رائے مالک مطبع کوہ نور، مولوی احمد شفیع چیف محرر، وہاب الدین ہیڈ ماسٹر، سید عالم شا ہ تحصیلدار، محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی اسٹیشن پر موجود تھے۔
سرسید اور ان کے رفقاء کا قیام بازار انارکلی میں شیخ رحیم بخش سوداگر کی کوٹھی میں تھا۔ 26 دسمبر 1873 کی شام میں مولوی سمیع اللہ خاں اور سید محمود نے بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خاں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی چھتری اور اس کے دیگر مقامات کو دیکھا۔ 28 دسمبر 1873 کو سرسید اوران کے ساتھیوں نے شالی مار باغ دیکھا۔ 
29 دسمبر 1873 کو صدر کمیٹی کاجلسہ ساڑھے بارہ بجے دن میں راجہ دھیان سنگھ کے دیوان خانے میں ہوا۔ اس جلسہ میں جدید اردو تنقید کے بانی مبانی مولانا الطاف حسین حالی موجود تھے۔ وہ حیات جاوید میں لکھتے ہیں :
’’جس گرم جوشی کے ساتھ اہل لاہور نے ریلوے اسٹیشن پرسرسید اور ان کے ہمراہیوں کا استقبال کیا اور جس چاؤ اور امنگ اور فیاضی اور فراخ حوصلگی کے ساتھ ان کی مدارات کی اور جس شوق سے لوگ بیرونِ لاہور سے سرسید کی آمد سن کر لاہور میں آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید اور ان کے کام کی عظمت کا نقش عموماً اہل پنجاب کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ مگر 29 دسمبر کو جو لکچر سرسید نے راجہ دھیان سنگھ کے دیوان خانے میں جہاں کئی ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، دیا اس کا سماں مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ سامعین پر ایک سکتے کا عالم تھا اور کوئی ایسا نہ ہوگا جو زار و قطار نہ روتا ہو اور جو اپنی بساط سے زیادہ چندہ دینے پر آمادہ نہ ہو۔‘‘
اسی جلسہ میں ہمارے زمانے کے رسالہ ’ادبی دنیا‘ لاہور کے ایڈیٹر صلاح الدین احمد کے والد احمد بخش بھی موجود تھے۔ وہ ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے لیکن انھوں نے اپنی بساط سے کہیں زیادہ زر تعاون پانچ سو روپیہ مدرسۃ العلوم کو دیا تھا۔ اس جلسہ کو مولوی سمیع اللہ خاں، سید محمود اور سردار محمد حیات خاں نے بھی خطاب کیا۔ جلسہ کے اختتام کے بعد سردار محمد حیات خاں کی رہنمائی میں سرسید اوران کے ساتھیوں نے جہانگیر کا مقبرہ دیکھا۔
30 دسمبر 1873 کو ’انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب‘ نے سرسید کے اعزاز میں جلسہ کیا۔ اس زمانے میں اس کے سکریٹری سنسکرت اور انگریزی کے عالم نوین چندر تھے۔ انھوں نے سرسید کا استقبال کیا۔ انجمن کی جانب سے محمد حسین آزاد نے سرسید کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا جس میں ان کی دانشورانہ خدمات کا بڑے والہانہ انداز میں اعتراف کیا گیا ہے۔ سپاس نامہ کی تحریر محمد حسین آزاد کی ہے۔ اسی سفر کے دوران سرسید کی ملاقات اقبال کے استاد سید میر حسن سے ہوئی۔
31 دسمبر 1873 کو سرسید ا ور ان کے رفقا 8 بجے کی میل ٹرین سے لاہور سے علی گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان لوگوں کے ساتھ برکت علی خاں امرتسر تک آئے۔ سرسید اور ان کے ساتھی آغا کلب عابد کی کوٹھی میں فروکش ہوئے۔ امرتسر میں سرسید اپنے احباب محمد شاہ خاں، خواجہ محمدجان، شیخ غلام حسن منشی، محمد مہدی خاں اور سردار دیال سنگھ کے مکانوں پر ان سے ملنے کے لیے گئے۔
سرسید دربار صاحب بھی گئے۔ دربار صاحب میں جہانگیر کے مقبرے کے قیمتی پتھر نصب ہیں جس نے اس زیارت گاہ کی زینت بڑھادی ہے۔ شب میں آغا کلب عابد کے یہاں رات کا کھانا کھاکر یہ حضرات علی گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ امرتسر اسٹیشن تک آغا کلب عابد اور برکت علی خاں ساتھ آئے۔
دوسری بار سرزمین پنجاب 1884 میں سرسیدکے قدموں سے مفتخر ہوئی۔ اس سفر سے پہلے اردو میں نسائی تحریک کے قائد اول سید ممتاز علی کو 11 نومبر1883 کے خط میں سرسید لکھتے ہیں: 
’’میرا ارادہ ماہ دسمبر میں پنجاب آنے کا ہے مقصد صرف خلیفہ محمد حسن صاحب سے پٹیالہ میں، گورداس پور میں سردار محمد حیات خا ں سے ا ور لاہور میں آپ (سید ممتاز علی) سے اور برکت علی خاں سے ملنے کا ہے۔ غالباً ہمارے دوست محمد اسمٰعیل خاں رئیس دتاولی بھی ساتھ ہوں گے۔ میں تو مناسب نہیں سمجھتاکہ میرے وہاں آنے کی بابت کچھ زیادہ چرچا کیا جائے۔اس کی دھوم دھام کیا۔ ہاں اگر کالج کے لیے کچھ چندہ مل جائے تو جو دھوم دھام چاہو کرو۔‘‘
علی گڑھ سے 22 جنوری 1884 کو حاجی محمد اسمٰعیل رئیس دتاولی، سرسید کی بہن کے نواسے سید محمد علی، سرسید کے سفر نامہ پنجاب کے مرتب سید اقبال علی کے ہمراہ سرسید دہلی پہنچے۔ اس پارٹی میں یہاں اکرام اللہ خاں رئیس دہلی بھی شامل ہوگئے۔ 23 جنوری 1884 کو یہ حضرات لدھیانہ آئے۔ یہاں ان لوگوں کا قیام نواب علی محمد خاں کی کوٹھی میں تھا۔ 24 جنوری 1884 کو سرسید اور ان کے ہمراہی جالندھر کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں سرسید اور ان کے رفقاء کنور ہر نا م سنگھ اہلووالیہ کی کوٹھی میں ان کے مہمان ہوئے۔ 25 جنوری 1884 کو یہ قافلہ امرتسر کے لیے روانہ ہوا۔ یہاں ان کا قیام ہوٹل میں تھا۔ 27 جنوری 1884 کو سرسید اور ان کے ساتھی گورداس پور کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں سردار محمد حیات خاں نے ان کی میزبانی کی۔ 
گورداس پورمیں سرسید یہاں کے گوردوارے میں بھی گئے جہاں انھیں دستار اور خشک وتر میوے پیش کیے گئے جسے انھوں نے بڑے ادب و احترام سے لیا۔ 29 جنوری 1884 کو سرسید اور ان کی پارٹی دوبارہ امرتسر گئی اور اسی ہوٹل میں مقیم ہوئی۔ جہاں پہلے قیام کرچکی تھی۔ 
اس سفر میں سرسید اور ان کے ساتھیوں کا گذر لدھیانہ، جالندھر، گورداس پور اور امرتسر کے اسٹیشنوں سے ہوا اور ہر اسٹیشن پر سرسید کے فدائیوں اور چاہنے والوں کا ایک انبوہ کثیر ان کے استقبال کو موجود ہوتا تھا۔ اُن مقامات پر انھیں ڈھیروں سپاس نامے بھی پیش کیے گئے۔ 
30 جنوری 1884 کو سرسید اور ان کے ساتھی لاہور پہنچے۔ سید اقبال علی سرسید کے سفر نامہ پنجاب میں لکھتے ہیں: ’’لاہور کے ا سٹیشن پر ایسا سماں دکھائی دیا جیسا کہ الف لیلیٰ کے قصوں میں بیان ہوا ہے۔‘‘ یہاں سرسید سے ملنے سیال کوٹ سے اقبال کے استاد سید میر حسن بھی آئے تھے۔ اخبار انجمن پنجاب اپنی 9 فروری 1884 کی اشاعت میں لکھتا ہے : ’’مولوی سید احمد خاں بہادر 30 جنوری کی شام کو وارد لاہور ہوئے اور کڑی باغ میں مہاراجہ کپورتھلہ کی کوٹھی میں قیام فرمایا۔ اسی روز سے ان کی قیام گاہ زیارت گاہ بن گئی ہے۔‘‘ پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں انھیں عصرانہ دیا گیا۔ جلسہ میں محمد حسین آزاد نے نظم پڑھی۔ لاہور کی متعدد تنظیموں نے انھیں مدعو کیا اور سپاسنامے پیش کیے۔ آغا محمد باقر کا بیان ہے کہ’’ ان سب سپاسناموں کو میرے باوا جان محمد حسین آزاد نے بڑی عقیدت سے لکھا تھا‘‘۔ ان میں پنجاب کی پردہ دار بیبیوں کی جانب سے جو سپاس نامہ محمدحسین آزاد نے لکھا تھا اس کے جہاں تہاں سے اقتباس پیش کررہا ہوں۔
’’یا حضرت، آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک پنجاب میں بہت تھوڑی بیبیاں پڑھی لکھی ہیں۔ گھر میں بیٹھی اللہ اللہ کرتی ہیں اوراسی نعمت میں خوش ہیں جتنا سنتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو بہت سمجھایاہے اور بہت جتایا ہے کہ یہ لوگ اپنی بد نصیبی سے جس مفلسی اور بدحالی میں پڑے ہیں یہ سب بے علمی کے سبب ہے۔ آپ کی ہدایتوں سے لوگ بہت سمجھ گئے اورتھوڑا ہو یا بہت ان باتوں کا خیال ہوگیا ہے۔ آپ نے سب کو بھلائی کا راستہ بتایا۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔‘‘
ہم سنتے ہیں کہ آپ نے علی گڑھ میں ایک مدرسہ بنایا ہے۔ اس میں بہت لوگ بڑے بڑے علموں کی کتابیں پڑھتے ہیں ا ور بڑی عزت کی نوکریاں پاتے ہیں۔ اللہ آپ کی اور آپ کی اولادکی عزت بڑھائے۔
ہم نے سنا ہے کہ آپ نے بہت اچھی اچھی نئے نئے علموں کی کتابیں ان کے لیے تیار کرائی ہیں اور آپ اخبار بھی چھاپتے ہیں۔ ان کے پڑھنے سے لوگوں کی بہت آنکھیں کھل گئی ہیں اور دل بڑے ہوگئے ہیں۔ خدا آپ کی نیت میں برکت دے۔ 
ہم نے سنا ہے کہ آپ نے اپنے مدرسہ میں ہمارے بچوں کے لیے رہنے سہنے کے گھر اور کھانے پینے اور آرام کی سب چیزیں بہت اچھی طرح بنوا دی ہیں اور آپ اور آپ کے دوست ہر وقت ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور دین آئین، نماز روزے کے لیے بھی تاکید کرتے ہیں۔ اس بات کو سن کر جس طرح پہلے بچوں کو با ہر بھیجنے سے ہمارا جی ڈرتا تھا اب خاطر جمع ہوگئی ہے۔ اسی طرح آپ کا اور آپ کے بچوں کا اللہ نگہبان رہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کو جان سے سوا پیاری ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ماں اپنے بچوں کو باپ سے کتنا زیادہ چاہتی ہے۔سمجھ لیجیے کہ ہمارے دل مردوں سے کتنا زیادہ آپ کو دعائیں دیتے ہوں گے۔ 
آپ پیر و مرشد ہیں،سید ہیں۔ آلِ رسول ہیں اور سب کی بھلائی کے لیے محنت کرتے ہیں۔ یہ نذرانہ غریبانہ کہ ماتھے کا پسینہ اور آنکھوں کا تیل ٹپکا کر جمع کیا ہے۔ آپ کے لائق نہیں لیکن مان کا پان ہے اور سچے دل کی نیاز ہے۔ امیدوار ہیں کہ قبول ہو۔‘‘
سرسید کے دوسرے سفر پنجاب کی مفصل روئداد سرسید کا سفر نامہ پنجاب مرتبہ سید اقبال علی میں موجود ہے۔اس کے علاوہ محرم علی چشتی کے ا خبار رفیق ہند، پنجابی اخبار، رہبرہند، اخبار کوہ نور، اخبار انجمن پنجاب، عربی اخبار شفاء الصدور اورانگریزی اخبار ٹریبیون میں اس سفر کی تفصیلات موجود ہیں۔
4 فروری 1884 کو سرسید اور ان کے احباب لاہور سے علی گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ 4بجے شام کو یہ لوگ جالندھر پہنچے اور یہاں سردار بکرمان سنگھ کی کوٹھی میں ان کے مہمان ہوئے۔یہاں سرسید نے لکچربھی دیا اور انھیں سپاسنامہ بھی پیش کیا گیا۔
جالندھر سے 4 فروری 1884 کی شب میں سرسید اوران کے رفقاء پٹیالہ کے لیے روانہ ہوئے۔ رات میں یہ لوگ راج پورہ اسٹیشن پہنچے اور یہاں ریاست پٹیالہ کے ڈاک بنگلہ میں قیام کیا اور علی الصباح پٹیالہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں سرسید کے آنے کا مقصد خلیفہ سید محمد حسن اور خلیفہ سید محمد حسین سے ملاقات تھی۔یہ دونوں حضرات علی گڑھ کالج اور سرسید تحریک کے زبردست حامیوں میں تھے۔ پٹیالہ میں سرسید اور ان کے احباب خلیفہ سید محمد حسن کی کوٹھی میں مقیم اور ان کے مہمان ہوئے۔ یہاں دو دن ٹھہرنے کے بعد6 فروری 1884 کو مظفر نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ اس شہر میں نواب مصطفی خاں شیفتہ کے بیٹے نواب اسحاق خاں انڈین سول سروس کے عہدہ پر مامور تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ لاہور سے مراجعت کے بعد سرسید اور ان کے رفقاء مظفر نگر میں ایک دن قیام کریں یہ لوگ نواب اسحاق خاں کی کوٹھی میں فروکش ہوئے۔ انھوں نے بڑی محبت سے پارٹی کی تواضع کی۔ مظفر نگر کے اسکول میں سرسید کا لکچر ہوا اور انھیں عربی اور اردو میں سپاسنامے پیش کیے گئے۔ دوسرے دن یہ لوگ مظفر نگر سے علی گڑھ پہنچے۔
سرسید کا پنجاب کا تیسرا سفر محمدن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے اجلاس لاہور میں شرکت کے لیے تھا۔اس اجلاس کے صدر سردار محمد حیات خاں تھے۔ یہ 27دسمبر 1888 سے 30 دسمبر 1888 تک لاہور میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں 347 ممبر اور کئی سو وزیٹر شریک ہوئے۔ جلسہ میں سرسید نے تعلیم نسواں کے سلسلہ میں مفصل تقریر کی۔ نسائی تحریک کے قائد اول سید ممتاز علی بھی کانفرنس میں شریک تھے۔ کانفرنس میں کالجوں کے غریب طلباء کی امداد کے لیے کمیٹیاں بنائی گئی اور شادیوں کے اخراجات میں تخفیف کے لیے تجاویز پیش ہوئیں۔ کانفرنس میں مدرسۃ العلوم کے ہر دل عزیز پرنسپل تھیوڈوربک بھی شریک تھے جنھوں نے انگریزی میں تقریر کی جس کا برجستہ اردو ترجمہ شیخ عبدالقادر نے کیا۔ سرسید نے شیخ عبدالقادر کی نفیس اردوکی بڑی تعریف کی اور انھیں گلے لگا لیا۔
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں شرکت کے لیے سرسید 25 دسمبر 1888 کو علی گڑھ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں اکثر ممبران کانفرنس اس گاڑی پرسوار ہوتے گئے۔ امرتسر اسٹیشن پر سرسید کے وفد کے لیے حاضری چنی گئی۔ جب یہ ٹرین لاہور اسٹیشن میں داخل ہوئی تو اسٹیشن پر ہزاروں افراد سرسید کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ان پر پھولوں کی اتنی بوچھار کی گئی کہ سارا لاہور اسٹیشن پھولوں سے ڈھک گیا۔ اس کانفرنس کے مہمانوں کی رہائش اورآسائش کا اہتمام سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی کے ممبراوران کے دوست محمد برکت علی خاں نے کیا تھا۔ مہاراجہ کپورتھلہ کی کوٹھی میں سرسید اور ان کے ساتھیوں کے قیام کا انتظام تھا۔ اس میں تقریباً ساٹھ مہمان فروکش تھے یہ کوٹھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک فرانسیسی جنرل نے بنائی تھی۔ جس کمرے میں سرسید مقیم تھے وہاں ہمہ وقت ان کے پنجابی دوستوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس سفر میں بھی لاہور کے کالجوں کے طلبا نے انھیں سپاس نامے پیش کیے۔ سرسید نے اعتراف کیا ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس لاہور کا یہ اجلاس خوبیوں اورشان و شوکت اور انتظام کے لحاظ سے سب کانفرنسوں سے اول رہا اور اسی طرح وہ عملی کارروائی میں بھی قابل توصیف اور لائق تقلید ہوا۔‘‘
سرسید کا پنجاب کا چوتھا سفر اپریل 1894 میں ہوا۔ لاہور میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے حامیوں اور مخلصین نے سرسید کو لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔ اس وفد میں ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، محمد مزمل اللہ خاں، مرزا عابد علی بیگ، ذکاء اللہ کے بیٹے عنایت اللہ بی اے، نذیر احمد بی اے اور سرسید کے مخلص رفیق سیدممتاز علی جن کے نام سرسید کے سب سے زیادہ خطوط مکاتیب سرسید میں موجودہیں، شامل تھے۔
یہ ڈیپوٹیشن 14 اپریل 1894 کو علی گڑھ سے لاہور کے لیے بمبئی میل سے روانہ ہوا اور 15 اپریل 1894 کو لاہور پہنچا۔ اسٹیشن پر تقریباً ڈھائی تین ہزار سرسید کے عقیدت مندوں نے ان کا استقبال کیا۔ سارا اسٹیشن پھولوں کا بچھونا ہوگیا تھا۔ اسٹیشن سے سرسید کی فرودگاہ تک دونوں طرف لوگ جھنڈیاں لیے کھڑے تھے۔انجمن حمایت ا سلام لاہور کے سکریٹری بھی بہ نفس نفیس اس وفدکے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور اس ڈیلیگیشن کے اعزاز کے لیے جتنے جلسے ہوئے ان سب میں وہ شریک تھے۔ انجمن حمایت ا سلام کے کارکنان اور انجمن کے کالجوں کے طلباء اسٹیشن سے سرسید کی قیام گاہ تک ساتھ گئے۔اس وفد کے اعزاز میں جو اجلاس ہوئے ان میں پہلے جلسہ کے صدر سردار محمد حیات خاں تھے اور دوسرے اجلاس کے صدر محمد شاہ دین ہمایوں تھے۔ مذکورہ جلسوں میں سے کسی جلسہ میں بہ سبب ناسازیِ طبع سرسید شریک نہ ہوسکے۔ ان کو جتنے سپاسنامے پیش کیے گئے ان کے بھی وہ جواب نہ دے سکے۔ اپریل کے گرم موسم میں وہ علی گڑھ سے لاہور بہ حالت علالت گئے تھے تاکہ علی گڑھ کالج کے لیے ابیض نورانی جمع ہوسکے۔ اس سلسلے میں ڈیپوٹیشن کو بڑی کامیابی ہوئی اور وزنی جیب کے ساتھ وہ علی گڑھ واپس ہوا۔
سرسیدکے چوتھے سفر پنجاب کے دوران پنجاب کے بعض اخبارات نے اعتراض کیا تھا کہ اہل پنجاب کو مدرسۃ العلوم کے بجائے پنجاب کے اسکولوں کی امداد کرنی چاہیے۔ سرسید کواس کا بھی افسوس تھا کہ لوگوں کے خیال میں معلوم نہیں کس سبب سے یہ بات جم گئی تھی کہ حامیان مدرسۃ العلوم مدرسہ حمایت الاسلام کے مخالف ہیں۔ سرسیدنے لکھا ہے کہ وہ جو خود’’جو مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کی کوشش میں مصروف ہیں کسی ایسے کام سے جو مسلمانوں کی تعلیم و ترقی اورتہذیب سے متعلق ہو، مخالفت ہونی محالات سے ہے، مگر ہاں یہ ان کی مستقل رائے ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اعلیٰ تعلیم و تربیت سے ہوگی۔‘‘ لیکن پنجاب میں سرسید کی مخالفت کا سب سے بڑا مرکز محرم علی چشتی کا اخبار رفیق ہند تھا حالانکہ وہ سرسید کے دوسرے سفر پنجاب کے دوران ان کے ا ستقبال میں پیش پیش تھے اور انھوں نے اس موقع پر اپنے اخبار کا خصوصی ضمیمہ بھی شائع کیا تھا جس میں سرسید کو بے نظیر رہنما، اپنی صدی کا سب سے جلیل ا لقدر عالم اور موجودہ اور آئندہ نسلوں کا قائد بتایا گیا تھا۔ لیکن 1894 میں وہ سرسید کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ اس انقلاب احوال کا معمہ ابھی تک لاینحل ہے۔ میری نظر سے رفیق ہند کے اس دور کے جتنے شمارے گذرے ہیں ان میں سرسید کے مذہبی افکار کو بنیاد بنا کر ان پر لعن طعن کی گئی ہے۔ لیکن سرسید کے مذہبی افکار تو 1870 سے معلوم و معروف تھے۔ اغلب خیال ہے کہ انھیں سرسید سے کوئی ذاتی توقع تھی جو پوری نہ ہوئی ہو اور اسے انھوں نے مذہبی رنگ دے دیا ہو۔ اورسرسید اوران کے احباب اخبار رفیق ہند کی ملاحیوں کا نشانہ بنے ہوں لیکن ان سب کے باوجود پنجاب میں سرسید کی مقبولیت میں شمہ بھر کمی نہیں آئی اور اہل پنجاب نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ موسم سرما میں سید محمود اور محسن الملک کے ساتھ آئیں گے۔پنجاب کے اخبار ’اخبار عام‘ نے سرخی جمائی ’’سرسیدپنجاب سے فائز المرام واپس ہوئے‘‘ یہی نہیں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں سرسید نے انجمن حمایت اسلام لاہور کا ان کے برادرانہ برتاؤ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
19 اپریل 1894 کو مدرسۃ العلوم کا یہ وفد لاہور سے علی گڑھ کے لیے روانہ ہوا۔ آٹھ بجے امرتسر پہنچا۔ ایک دن وہاں قیام کیا۔ 20 اپریل 1894 کو جالندھر پہنچا وہاں ایک روز ٹھہر ا۔ جالندھر سے قریب بارہ بجے رات کو علی گڑھ پہنچا۔ دوران سفر ہوشیار پور، گجرات، راولپنڈی، سیال کوٹ، جموں اور ملتان کے سرسید کے عقیدت مندوں نے ان سے التجا کی کہ مدرسۃالعلوم کا یہ وفد مذکورہ مقامات پر بھی آئے لیکن ابتدائے سفر سے سرسید کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ وفد ان جگہوں پر نہ جا سکا۔ اثنائے سفر میں جب ٹرین پانی پت پہنچی تو یہاں تقریباً چار پانچ سو افراد سرسید کے چاہنے والے موجود تھے۔ انھوں نے نہایت تکلف سے اس وفد کی تواضع کی۔
سرسید پانچویں دفعہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ میں شرکت کے لیے پنجاب گئے۔ یہ جلسہ 22 اور 24 فروری 1895 کو لاہور میں ہوا۔سرسید، محسن الملک، حاجی محمد اسماعیل، رئیس دتاولی، مولانا شبلی اور خواجہ غلام الثقلین 20 فروری 1895 کو علی گڑھ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی اثنا میں پانی پت اور کرنال میں سرسید کے معتقدین نے ان سے درخواست کی کہ وفد ایک دن کرنال میں قیام کرے۔ 20 فروری 1895 کو شام سات بجے یہ ڈیلیگیشن کرنال پہنچا۔یہاں اس کا قیام رستم علی خاں کی کوٹھی میں تھا۔ پانی پت سے مولانا الطاف حسین حالی مع دیگر اعزہ کے کرنال آئے۔ سجاد حسین کرنال میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے۔ دورانِ قیام وہ سرسید اور ان کے رفقاء کے ساتھ ساتھ رہے۔ 21 فروری 1895 کو رستم علی خاں کے دوسرے مکان میں وفد کے لیے خیر مقدمی تقریب ہوئی۔ جلسہ کی صدارت خان بہادر الطاف حسین نے کی۔ مولانا الطاف حسین حالی نے کرنال اورپانی پت کی جانب سے سرسید کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔ میرا قیاس ہے کہ یہ سپاس نامہ حالی کا ہی تحریر کردہ تھا۔ لیکن یہ ان کے کلیات نثر حالی میں موجود نہیں ہے۔ اس سپاسنامہ کا جواب سرسید نے دیا۔ اس کے بعدمحسن الملک نے تقریر کی۔ خواجہ سجاد حسین نے کرنال اور پانی پت کی جانب سے علی گڑھ کالج کے لیے زر تعاون پیش کیا۔ 21 فروری کی شام کو یہ ڈیپوٹیشن لاہور کے لیے روانہ ہوا اور 22 فروری کی شام کو ساڑھے چار بجے لاہور پہنچا۔ استقبال کے لیے انجمن حمایت اسلام کے سکریٹری مولوی شمس الدین ا سٹیشن پر چشم براہ تھے۔ ان کے ہمراہ انجمن حمایت اسلام کے معززین اور کارکنان کے علاوہ انجمن اسلام کے کالجوں کے طلبا کا ہجوم تھا۔
لاہور پہنچ کر سرسید کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ وہ انجمن کے جلسوں میں شریک نہ ہوسکے۔ محسن الملک نے 24 فروری 1895 کو انجمن کے جلسہ کو خطاب کیا۔ ’’انجمن حمایت اسلام کے دسویں سالانہ جلسہ کی مختصر کیفیت‘‘ کے عنوان سے پنجاب گزٹ سیال کوٹ نے لکھا ’’یہ جلسہ بڑی خوبی کے ساتھ سر انجام ہوا۔ وہ عالی جناب سرسید احمد خاں، محسن الملک اور مولوی شبلی نعمانی کی تشریف آوری کی وجہ سے تھا۔ پچھلے جلسوں کی بہ نسبت ہجوم زیادہ تھا اورکامیابی بھی زیادہ ہوئی۔ اس جلسہ میں ایک ایسے مستقل سرمایہ کے فنڈ کی بنیاد پڑی جو انجمن حمایت اسلام کو زیادہ گدائی سے بچاوے گا وہ یہ کہ ایک فنڈ ’سرسید فنڈ‘ کے نام سے قائم ہوا ہے جس میں سو حصے دار مقرر کیے گئے ہیں۔ ہر ایک حصہ سو روپیہ کا ہے۔ پس اس حساب سے ہر حصہ دار سو سو روپیہ جمع کرکے انجمن حمایت اسلام کے سپرد کردے گا۔ اس سے دس ہزار جمع ہوجاوے گا جس سے انجمن ایک خاص جائداد خریدے گی اور انجمن حمایت اسلام کے کالجوں کو استقلال ہوجائے گا۔‘‘
علی گڑھ کالج کے وفد کی واپسی 24 فروری 1895 کو شام ساڑھے سات بجے لاہور سے ہوئی اور 25 فروری 1895 کو بارہ بجے یہ وفد علی گڑھ پہنچا۔
سرسید جس تحریک کے پیغام کو لے کر پانچ بار پنجاب گئے تھے وہ کوئی عارضی مصلحتوں اور جزوی اصلاحات یا ہنگامی ضروریات کے تحت پیدا نہیں ہوئی تھی وہ ایک تہذیبی تحریک تھی جس کا مقصد تمام تر زندگی کی تطہیر تھا۔ اس میں تغیر اور تسلسل دونوں پر نظر تھی۔ سرسید نے جو کچھ کیا اس سے بہتر طریقہ آج اکیسویں صدی میں بھی اب تک سامنے نہیں آیا۔ اس تحریک کا خیر مقدم اہل پنجاب نے بڑے جوش وولولہ سے کیا۔ حالی نے لکھا ہے کہ قومی خدمات کی داد جو سرسید کو ملنی چاہئے تھی اس کا حق پنجاب کے برابر کسی صوبے سے ادانہ ہوسکا۔
خدا کی برکتیں پنجاب اور پنجاب والوں پر
جنھوں نے ہر سفر میں تجھ کو آنکھوں پر بٹھایا ہے
(حالی)
مراجع و مآخذ:
1۔ حیات جاوید۔ الطاف حسین حالی۔اکادمی پنجاب لاہور
2۔ سرسید اقبال اور علی گڑھ۔ اصغر عباس۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1987
3۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1873، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
4۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ1874،مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
5۔ سرسید کا سفر نامہ پنجاب۔سید اقبال علی۔مجلس ترقی ادب لاہور
6۔ مکتوبات سرسید جلد دوم اسماعیل پانی پتی۔
7۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ1883، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
8۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1884، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
9۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1887،مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
10۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1888، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
11۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ1889،مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
12۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1893، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
13۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1894، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
14۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1895، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
15۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1896، مولانا آزاد لائبریری، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
16۔ اخبار ’الوقت‘ گورکھپور، 1892،کریمیہ لائبریری،ا نجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی
17۔ اخبار ’گورکھپور‘، گورکھپور1893، کریمیہ لائبریری،انجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی
18۔ اخبار ’رفیق ہند‘، لاہور 1892،کریمیہ لائبریری،انجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی
19۔ مقالات محمد حسین آزاد۔ مجلس ترقی ادب، لاہور
20۔ مکتوبات آزاد، مجلس ترقی ادب، لاہور
21۔ کلیات نظم حالی۔ مرتبہ ڈاکٹر افتخاراحمد صدیقی، مجلس ترقی ادب، لاہور

Asghar Abbas
Gulshan Dost, Sir Syed Nagar
Civil Lines
Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 9358209974



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. ماشاء اللہ استاد محترم پروفیسر اصغر عباس صاحب کی نئ تحقیق سرسید احمد خاں کے سفر پنجاب کے تعلق سے ہم قارئین تک پہنچی ہے. استاد محترم چونکہ سرسید کے متعلق ہمیشہ غور وفکر کرتے رہتے ہیں گرچہ اس کام کے لیےدرازئ عمر کو بھی درکنار کرتے ہوئے دور دراز کاسفر تن تنہا بھی کر لیتے ہیں اور عوام کے سامنے جو کچھ تحریر میں پیش کرتے ہیں اس میں استنباط اور مضبوط دلائل ہوتے ہیں انکی سرسید اور رفقاء سرسید تحقیق پر مقالے ہم طلباء کے لیے بصیرت افروزی کے ساتھ علم کی روشنی فراہم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ استاد مکرم کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور انکے علم وعمل میں بھی برکت اور اخلاص عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بحق نبی اکرم صل اللہ علیہ والہ واصحابہ و سلم و بفیض حضرت نظام الدین اولیاء و امیر خسرو رحمت اللہ علیہ

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...