22/10/18






طامس ہڈرلی طامس
اردو کا پہلا روزنامچہ نویس

محمد مشتاق تجاروی

تھامس ہڈرلی (Thomas Heatherly)اردو کے مشہور انڈویوروپین شاعراور مرزا غالب اور عارف کے شاگردکپتان الیگزینڈر ہڈرلی کے بڑے بھائی تھے۔ اردو میں وہ اپنا نام طامس لکھتے تھے اور یہی ان کا تخلص بھی تھا۔ان کے والد جیمس ہڈرلی بھی مشہور آدمی تھے اور مرزا غالب کے دوست تھے۔نواب جھجر کے یہاں ملازم تھے۔ طامس ہڈرلی اردو اور فارسی کے اچھے عالم تھے اور انگریزی تو ان کی مادری زبان تھی۔
اردو ادب میں طامس کی اہمیت دو وجہ سے زیادہ ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی الگزینڈر ہڈرلی آزاد کا دیوان مرتب کرکے شائع کیاجو اردو کے انڈوپوروپین شعرا کی صف اول کے شاعر تھے۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ اب تک کی دریافت کے مطابق وہ اردو کے سب سے پرانے روزنامچہ نویس ہیں۔انھوں نے 1843 سے1853 تک روزنامچہ لکھا۔ان کا روزنامچہ پروفیسر نثار احمد فاروقی نے شائع کر دیاہے۔ اس کا اصل نسخہ دہلی یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔
پروفیسر نثار احمد فاروقی کے مطابق اردو کا سب سے پرانا روزنامچہ مولوی مظہر علی سندیلوی کا ہے۔اس سے قبل جو روزنامچے لکھے جاتے تھے وہ فارسی میں لکھے جاتے تھے۔حتی کے 1857 میں جیون لال،معین الدین اور عبداللطیف کے روزنامچے بھی فارسی میں لکھے گئے۔اس اعتبار سے طامس کے روزنامچے کی خاص اہمیت ہے۔ ساتھ ہی اس سے نہایت اہم تاریخی اور ادبی معلومات فراہم ہو تی ہیں۔یہ روزنامچہ بالکل ذاتی نوعیت کا ہے اور اس میں اپنے ذاتی مسائل کا ہی بیان ہے لیکن ضمنا تاریخی معلومات آگئی ہیں مثلا ماہ اپریل 1849 میں کوہ نور ہیرا کے ولایت جانے کا تذکرہ ہے۔اسی طرح لاہور کی جنگ کا تذکرہ ہے وغیرہ۔
طامس ہڈرلی کی صحیح تاریخ پیدائش تو نہیں معلوم لیکن وہ 1874 میں رٹائرڈ ہوئے تھے اگر ان کی عمر اس وقت 55 سال مانی جائے تو ان کی ولادت 1819 کے قریب ہوئی ہوگی۔ اس طرح وہ اپنے چھوٹے بھائی الیگزینڈر ہڈرلی سے دس سال بڑے تھے۔
طامس کے والد جیمس ہڈرلی نواب جھجر کے معتمد خاص تھے۔اس لیے ان کو بھی آسانی سے نواب صاحب کے یہاں ملازمت مل گئی۔50 روپیہ مہینہ مشاہرہ مقرر ہوا۔ 1843 میں وہ اسی ملازمت پر تھے۔ پھر بعد میں 18، مارچ 1845 کو وہ کل ریاست کے منصرم خزانہ مقرر ہوگئے۔1
رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی عملی زندگی کاآغاز نواب فیض علی خاں کے بیٹے یعقوب علی خاں کے تحویل دار خزانہ کی حیثیت سے کیا تھا اور سو روپیہ ان کامشاہرہ تھا۔2 لیکن طامس کی ڈائری سے اس کی بہت تائیدنہیں ہوتی۔جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
1845 میں جولائی کے مہینہ میں نواب صاحب نے ان کو بڈھوانہ کا تحصیل دار مقرر کرنا چاہا۔لیکن انھوں نے انکار کر دیا جس کی وجہ سے نواب صاحب خفا ہو گئے۔3
نواب صاحب کی ناراضگی کے ایام میں طامس نے ایک مہینہ کی رخصت لی اور الور چلے گئے۔4 الور میں وہ کم وبیش ایک ماہ رہے۔ اور یہاں اپنے لیے ایسی جگہ بنالی کہ پھر ان کے خاندان کے متعدد لوگ الورمیں ملازم رہے۔ اپنے سفر الور کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھاہے:
’’بباعث قبول نہ کرنے تحصیل داری بڈھوانہ کے نواب صاحب خیلے آزردہ خاطر ہو گئے۔چوں کہ ہم بھی ان کی عنایت پر ناز کرتے تھے لہذا ہم نے ایک ماہ کی رخصت سرکار سے لی اورارادہ الور جانے کا کیا اور والد بزرگوار سے بھی اجازت حاصل کرلی۔‘‘
طامس نے اپنے سفر الور اور وہاں ایک مہینہ قیام کے حالات اس طرح لکھے ہیں:
’’13 اگست دو روز میں انتظام دیہات مستاجروں کا کر کے آج بطرف الور روانہ ہوا اور براہ گریانی، ریواڑی، باول اورپیپل کھیڑہ 17؍ تاریخ کو الور آکر سرائے میں فروکش ہوا۔
19 اگست کو لال دروازہ میں ایک مکان کرائے کا لیا اور مرزا اسفندیار بیگ صاحب سے ملاقات حاصل کری۔
22 سے 23 اگست کو پیٹر بنتری(شاید صحیح بنسلی ہے) کپتان پلٹن اور جان رسٹل صاحب اور جناب آغا صاحب سے ملاقات کری۔
5ستمبر کو ٹھاکر گلاب سنگھ کیسرولی والا اور ٹھاکر لکھدیر سنگھ جی سے ملاقات کری۔یہ اول ملاقات لکھدیر جی سے ہوئی۔
10 ستمبر کو مہاراجہ نبے سنگھ بہادر سے معرفت اسفندیار بیگ صاحب ملاقات ہوئی۔
12 ستمبر کو والد صاحب کا خط آیا کہ نواب صاحب بہت بیمار ہیں۔
13 ستمبر کو مہاراؤ راجہ صاحب کے محل میں لڑکا پیدا ہوا یعنی شیودان سنگھ جی پیدا ہوئے۔ہم نے راؤ راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر نذر گذرانی اور مبارک باد دی نذر منظور ہو ئی چار گھڑی تک محفل رقص میں حاضر رہا۔عبداللہ کا ناچ تھا۔
15 ستمبر کو والد کا خط قاصد لایا کہ نواب فیض علی خاں صاحب بہادر نے وفات پائی۔اسی روز راؤصاحب کے پاس جاکر رخصت ہوا۔راؤ صاحب نے خلعت دے کر فرمایا کہ جب چاہوآؤ تمہارا گھر ہے۔‘‘5
اس اندراج سے اندازہ ہو تا ہے کہ طامس 17 اگست سے 15 ستمبر تک الور میں رہے۔الور سے متعلق ان کی ڈائری اہم حوالہ ہے اس لیے اس کی متعلقہ عبارت پوری نقل کردی۔اتفاق یہ کہ الور کے مشہور حکم راں مہاراجہ شیودان سنگھ کی پیدائش انھیں دنوں میں ہوئی اس طرح مہاراجہ کی تاریخ پیدائش کے لیے یہ ایک معاصر دستاویز بن گئی۔
نواب صاحب کی وفات کے بعد طامس پھر اپنی ملازمت پر واپس چلے گئے۔لیکن اس کے بعد جلد ہی 9مئی 1846 کو طامس نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی جگہ اپنے بھائی الگزینڈر ہڈرلی کو ملازم کروا دیا۔6 اور خود دوسرے علاقوں میں روزگار تلاش کر نے لگے۔طامس کا اپنا مستاجری کا کام تھا،اس کے سلسلے میں جھجر آنا رہتا تھا۔ایسے ہی کسی سفر میں ایک مرتبہ جھجر آئے تو یہاں نواب صاحب نے ان کی منصر می کے زمانے کا حساب مانگ لیا۔ لیکن طامس پہلے ہی حساب کرکے صافی نامہ لے چکے تھے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوا۔7
طامس نے ملازمت کی تلاش میں اپنی جد و جہد کااپنی ڈائری میں تفصیلی تذکرہ کیاہے۔وہ نوکری کی تلاش میں کئی جگہ گئے، دہلی میں نواب اکبر علی خاں کے ذریعہ بھی کوشش کی لیکن انہیں ملازمت کی جگہ نئے نئے تجربات ہی ملتے رہے۔ آخر ایک مرتبہ مایوسی کے عالم میں لکھا کہ’’مگر ہمارے مقسوم آج کل کوئی روزگار نہیں‘‘۔8
کافی دن کی تلاش وجستجو اور بڑی تگ دوکے بعد بھی ان کو کوئی معقول روزگار نہ مل سکا آخر پھر جھجر میں ہی نوکری کرنی پڑی اور اس دفعہ وہی نوکری کرنی پڑی جس سے انکار کرکے مرحوم نواب صاحب کو پہلے ناراض کر چکے تھے یعنی بڈھوانہ کی تحصیل داری۔ 6 مارچ 1848 کو اسی بڈھوانہ میں تحصیل داری کی نوکری کر لی۔ ڈائری میں لکھا ہے ’’6 مارچ کو نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار بڈھوانہ کا کیا۔ شکر خدا کا بعد مدت روزگار کی صورت نظر آئی۔‘‘9
طامس کے لیے یہ ملازمت کا فی مشکل ثابت ہوئی۔آئے دن سازشیں اور الزامات کا سلسلہ تھا۔ ایک مرتبہ تو نواب صاحب خود تحقیقات کے لیے بڈھوانہ آئے۔ طامس کی گرفتاری کا بھی حکم دیا۔ با ضابطہ فوجی پہرہ میں حساب ہوا۔ طامس کے بقول وہ اس میں بچ گئے لیکن ان پر24ہزار روپیہ ہرجانہ عائد ہوا۔10اس واقعہ کے بعد 17،فروری 1851میں طامس نے اس ملازمت سے دوبارہ استعفیٰ دے دیا۔ نواب صاحب ان کا استعفیٰ منظور نہیں کر رہے تھے لیکن طامس صاحب دہلی آکر بیٹھ گئے۔نواب صاحب کومجبورا ان کااستعفی قبول کر کے ان کو صافی نامہ دینا پڑا۔اس وقت نواب صاحب کسی وجہ یا غالبا کسانوں کی بچول(دھرنا یا ہڑتال) کی وجہ سے دباؤ میں تھے طامس نے اس کا فائدہ یہ اٹھایا کہ اپنے والد کے لیے تا حیات پنشن لکھوا لی۔11
15جولائی 1852 کو طامس پھرجھجر میں ملازم ہوئے اور اس دفعہ باول کے تحصیل دار مقرر ہوئے۔ طامس کی ڈائری میں لکھا ہے کہ
’’شکر اس خالق اور رزاق کا کہ آج مدت کے بعد صورت روزگار نظر آئی۔یعنی نواب صاحب نے ہم کو تحصیل دار پرگنہ باول کا کیا۔‘‘12
17 مئی1854 میں طامس نے جھجر کی ملازمت ترک کردی اور جے پور کے قریب کھیتڑی کے مختار ہو گئے۔ 1855 میں لارڈ لارنس نے ڈھائی سو روپیہ ماہوار پر انھیں گوپال گڑھ (علاقہ میوات) کا تحصیل دار مقرر کیا گیا۔1862 میں وہ ڈپٹی کلکٹر ہو گئے اور ان کا تبادلہ الور ہو گیا۔پھر اسی عہدے پر بھرت پور پہنچے اور یہاں مہتمم مال گذاری میں صدر مقرر ہوئے 400 روپیے تنخواہ مقرر ہوئی۔ 1874 میں رٹائرڈ ہوئے اور میرٹھ میں مستقل سکونت اختیار کر لی وہیں 1891 میں ان کی وفات ہو گئی۔جارج پیش شور جو ان کے بہنوئی بھی تھے انھوں نے قطعہ تاریخ وفات کہا۔ 
طامس اردو کے بہترین نثر نگار تھے جس کا ثبوت ان کی ڈائری ہے۔وہ اردو کے شاعر بھی تھے نثار احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ وہ عارف کے شاگرد تھے لیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔13 البتہ ان کی ڈائری میں عارف سے ملاقات کا تذکرہ ہے۔ لکھا ہے:’’22 اکتوبر1847، کو سوارہو کر دہلی آیا اور لالہ اجودھیا پرشاد کے مکان پر قیام کیا اور نواب زین العابدین خاں عارف سے ملاقات کی۔‘‘14
مرزا غالب سے بھی یقیناًتعلق تو رہا ہوگا چونکہ ان کے والد مرزا کے پرانے دوست تھے۔15 اور چھوٹے بھائی ان کے شاگر دبھی تھے اور باہم خط وکتابت بھی تھی اور یہ خود نواب زین العابدین خاں عارف سے ملنے بھی جاتے تھے جس کا ذکر ان کی ڈائری میں بھی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی ان سے زیادہ قربت نہیں تھی اس لیے غالب نے یوسف مرزا کے نام ایک خط میں لکھا ہے۔
’’خدا کی قسم طامس ہڈرلی صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے۔ ہاں الک صاحب سے ہے سو ان کے نام کا خط کھلا ہوا تم کو بھیجتا ہوں۔ پڑھ کر بند کر کر ان کو دو اور ان سے ملو اور جو کچھ وہ کہیں مجھ کو لکھو۔‘‘16
طامس ہڈرلی اردو کے نثر نگار ہونے کے ساتھ اردو کے شاعر بھی تھے۔کسی تذکرہ نگار نے بطور شاعر ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔پروفیسر نثار احمد فاروقی نے ان کی ڈائری کے ساتھ ان کا ایک انتخاب کلام بھی شائع کیا ہے جو کسی انگریز نے کیا تھا لیکن ان کا نام درج نہیں ہے۔ان کی شاعری کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کے کلام میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔اس کی اہمیت یہی ہے کہ وہ ایک اینگلو انڈین شاعر کا کلام ہے۔اور اس کی دریافت سے ان شاعروں کی فہرست میں اضافہ ہو جاتا ہے جو غیر ملکی خمیر کے تھے مگر انھوں نے ہندستان میں رہ کرایسی محنت اور محبت سے اردو زبان کی تحصیل کی تھی کہ اس میں بے تکلف شعر کہہ سکتے تھے۔17
دل چسپی کے لیے ان کے چند اشعار ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں ان میں معنی آفرینی کی کمی تو ہے لیکن لطف زبان قابل قدر ہے ؂
بنا لیتے ہیں دیوانہ کوئی کیسا ہی عاقل ہو
وہ کیا جادو بھرا ہے شہر حسن آباد کیا جانے
مثل مشہور ہے طامس کہ’جی خوش تو جہاں خوش ہے‘
خوشی گر سارا عالم ہو دل ناشاد کیا جانے
چاہ کے تم کو یہ طامس نے نتیجہ پایا
ہوئے عزت کے کئی،جان کے خواہاں کتنے
مت جا طیش میں پیارے،نازک بدن ہے تیرا
ڈھلتا ہے دن ٹہر جا،ہے آفتاب منہ پر
دانتوں پہ تیرے اختر قربان لاکھ دل سے
صدقے ہزار جاں سے ہے ماہ تاب منہ پر
میرے پہلو سے جو اٹھ کر وہ دل آرام گیا
صبر وہوش وخردوطاقت و آرام گیا
طرفہ دکھلائی یہ پستی و بلندی اس نے
ہم گھر اس کے گئے وہ لب بام گیا
ٹوکتا ہے تو مجھے کس لیے ہر بار رقیب
اس کے کوچے میں گیا میں،تجھے کیا کام،گیا
باغ ہستی میں یہ مخلوق ثمر ہیں طامس
پختہ و تر کوئی پژمردہ و خام گیا
اڑ گئی نیند کہ ایک پل نہیں لگتی ہے پلک
جا لڑی آنکھ یہ کس طالع بے دار سے آج
دل کو توڑا میرے،گھر تھا یہ ترا،خوب کیا
اپنے گھر کا تو مختار،برا کیا مانوں
اور جی چاہے تو دوچار سنالے پیارے
تیری الفت سے ہوں لاچار، برا کیا مانوں
نہ پھر تو مانگ کے کوچے میں آدھی رات کو اے دل
زبان شانہ سے آتی ہے یہ صدا تو کون ہے
لالہ چمن میں کشتہ ہے تیرے دہان کا
لاکھا جما ہے کیا ہی غضب رنگ پان کا
چکر میں ہیں جسے مہ و خورشید دیکھ کر
ہوں گے بڑے ستم جو یہ بالا ہے کان کا
اوڑھا ہے چاند تارے کا اودا دوپٹہ آج
پیارے زمیں ہو کیوں نہ جواب آسمان کا
کیا ہی لسّانی سے باتوں میں وہ الجھاتا ہے
اللہ اللہ رے کافر تری تقریر کے پیچ
عقل کہتی ہے میں حیران ہوں جاؤں تو کدھر
عشق لینے نہیں دیتا مجھے اوسان کہیں
صدمہ عشق سے سب ہو گئے درہم برہم
دل کہیں،ہوش کہیں،عقل کہیں،جان کہیں
چھوڑ کر یار کے کوچے کو پھروں صحرا میں
کوئی مجنوں کی طرح میں بھی ہوں نادان کہیں
تاخت تاراج کیا تیغ نگہ نے دل کو
کچھ ہمیشہ سے نہ تھا ملک یہ ویران کہیں
عاشق ہوں ایک ایسے دل ربا پر
الفت جسے،نہ ڈھب دل بری کا
دن کو بھی وہی ذکر وہی شب کو تصور
اے دل تو عجب ذاکر و شاغل نظر آیا
شرم کب تک بس خدا کے واسطے توڑو حجاب
یہ بھی کوئی بات ہے صاحب تکلم زیر لب
فقیری بھیس،طامس نام،عرب کا یا عجم کا ہے
مگر ہندوستاں کا ہے نہ یاں کا ہے نہ واں کا ہے
حواشی
(1) اردو کا ایک ہند برطانوی شاعر اور اس کا روزنامچہ، از نثار احمد فاروقی،مشمولہ مجلہ نقوش،لاہور،فروری 1961،ص27
(2) رام بابوسکسینہ:یوروپین اینڈانڈویوروپین پویٹس آف اردو اینڈ پرشین،نول کشور پریس،1941،ص70
(3) اردو کا ایک ہند برطانوی شاعر اور اس کا روزنامچہ،ص25
(4) ایضا،ص25
(5) ایضا،ص24-25
(6) ایضا،ص27
(7) ایضا،ص27
(8) ایضا،ص29
(9) ایضا،ص30
(10) ایضا،ص33
(11) ایضا،ص33
(12) ایضا،ص35
(13) یوروپین اینڈانڈویوروپین پویٹس آف اردو اینڈ پرشین، ص70
(14) ایضا،ص29
(15) مرزا غالب:غالب کے خطوط،مرتبہ خلیق انجم،غالب انسٹی ٹیوٹ،دہلی ص 2/2-781
(16) ایضا،ص 2/782
(17) اردو کا ایک ہند برطانوی شاعر اور اس کا روزنامچہ،ص13

Dr. Mufti Mohammad Mushtak
Assistane Prof. Dept of Islamia Studies
Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...