24/9/18

پانی پت کی چند مایہ ناز علمی و ادبی ہستیاں۔ مضمون نگار رؤف خیر




پانی پت کی چند مایہ ناز علمی و ادبی ہستیاں
رؤف خیر
پانی پت کی جنگوں کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اس کی ادبی و مذہبی شناخت میں جن شخصیات نے اپنا حصہ ادا کیا ہے وہ بھی تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔ان میں سب سے قد آور شخصیت شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کی ہے۔مرزا غالب کو روشناسِ خلق کروانے میں حالی کی خدمات کے اہل نظر تو معترف ہیں ہی خود غالب کو بھی اس کا احساس رہا خوش گمان غالب یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے تھے ؂
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج 
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں 
شہ کا مصاحب ہونے سے ذوق کا مقام و مرتبہ اس دور میں اونچا تھا۔ مومن اپنی ذہانت و رومانیت کی وجہ سے مقبول خاص و عام تھے۔غالب کے بارے میں عام خیال یہی پایا جاتا تھا کہ اپنا کہا خود سمجھیں یا خدا سمجھے۔اسی لیے غالب گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل کی منزل سے گزررہے تھے۔سچ پوچھیے تو غالب پر حالی کا بڑا احسان ہے جہاں حالی نے ’یادگارِ غالب ‘ کے ذریعے غالب کو یادگار بنادیا، وہیں سر سید احمد خان کو بھی ’حیاتِ جاوید‘ بخشی۔غالب کی طرح سرسید بھی اپنے دور میں سیاسی و مذہبی،سماجی و اصلاحی اعتقادات و اقدامات کی وجہ سے عوام میں نامقبول ہی رہے۔وہ تو خواجہ الطاف حسین حالی ہیں جنھوں نے غالب و سرسید کی بلند قامتی کا احساس کروایا۔سرسیدکی ایما پر ’مدوجزراسلام ‘ (مسدس حالی) جیسا شاہ کار ادب کو دیا اسے سرسید بھی اپنے لیے ’شاہ نیکی‘ خیال کرتے تھے۔جدید نظم اور جدید تنقید کے بنیاد گزاروں میں بھی حالی کا نام لیا جاتا ہے۔ ’مقدمۂ شعرو شاعری‘ کے ذریعے حالی نے شعری منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا۔حالی نے شعر کی خصوصیات میں سادگی،اصلیت جوش کی اہمیت دکھائی وہیں شاعر کے لیے رہنما اصول (بلند تخیل، عمیق مطالعۂ کائنات اور تفحصِّ الفاظ ) کا بے مثال تحفہ دیا۔
پانی پت کی دوسری بڑی شخصیت پروفیسر وحید الدین سلیم پانی پتی کی ہے 1859میں پیدا ہونے والے سلیم1928میں اپنے پیچھے کئی کارنامے چھوڑ گئے۔ پانی پت سے آگے بڑھے تو علی گڑھ میں سرسید احمد خاں کی خدمت میں جٹے رہے۔فرماں رواے حیدرآباد میر عثمان علی خاں بہادر نظام سابع نے حیدرآباد کو مثالی مملکت بنانے میں سرسید کا تعاون چاہا تو انھوں نے اپنے خاص معتمد ومعتبرحضرات جیسے مہدی علی خان اور وحید الدین سلیم کو اپنی سفارش کے ساتھ بھیجا۔مہدی علی خان محسن الملک ہوگئے اور وحید الدین سلیم عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہوگئے۔ دوسرے صدر شعبۂ اردو ہوئے پھر دارالترجمہ میں وضع اصطلاحات کمیٹی کے خاص رکن ٹھہرے۔
خواجہ احمد عباس بھی پانی پت کی خاک سے اٹھنے والے اور حالی کے خاندان کے مشہور و ممتاز فرد تھے۔ان کا ناول ’انقلاب ‘شاہ کار سمجھا جاتا تھا۔وہ پکے سیکولر قلم کار تھے۔گاندھیائی فلسفے کے ہم نوا مگر کمیونسٹ تھے۔جب مرے تو وصیت کی کہ ان کی میت کو ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات ادا کی جائیں۔ہفتہ وار بلٹز میں وہ ’آزاد قلم‘ کالم لکھتے تھے جو ان کی حق گوئی وبے باکی کا ترجمان تھا۔ راج کپور کے لیے کئی فلمیں لکھیں جو کامیاب ثابت ہوئیں۔ ’میرا نام جوکر ‘نے کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ انھوں نے اپنے طور پر جو آرٹ فلمیں بنائیں وہ شاہ کار ٹھہریں۔ان کے افسانے ناول منفرد ہوا کرتے تھے۔ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے تھے اور دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔پانی پت میں موجود ان کی موروثی جائیداد کو ان کے جیتے جی کسٹوڈین نے پاکستان سے آنے والے شرنار تھیوں کو الاٹ کردیا تھا۔ خواجہ احمد عباس نے دس سال تک مقدمہ بازی کرکے کسٹوڈین سے وہ جائیداد بالآخر حاصل کی جس کے وہ یقیناًمستحق تھے مگر چونکہ وہ سیکولر ذہنیت کے حامل ادیب بھی تھے چنانچہ انھوں نے اپنا وہ گھر انہی شرنار تھیوں کو معمولی رقم کے عوض بیچ بھی دیا۔
ڈاکٹر کمار پانی پتی نے اپنی کتاب ’عہد ساز ادبی شخصیتیں ‘حصہ اول میں لکھا :
’’میں سوچتا ہوں کا ش اس گھر میں کوئی لائبریری ہوتی یا کسی اردو ادارے کا کوئی دفتر ہوتا اور یہ اردو گھر خواجہ صاحب کے ادبی وقار کی علامت بن جاتا ‘‘
پانی پت کے ایک اور مشہور و ممتاز نظم گوشاعر بشیشر ناتھ کنول گزرے ہیں اگرچہ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں مگر نظم کی وجہ سے انھیں زیادہ شہرت ملی۔ 
کنول قومی یک جہتی کے علم بردار بھی تھے۔چنانچہ اپنی ایک نظم میں وہ کہتے ہیں ؂
راستہ کیا ہے وہ جس کی منزل نہ ہو
سوے منزل نہ جاؤ قدم روک لو 
ہند و سکھ ہو مسلماں ہوعیسائی ہو
یوں چلو مل کے جیسے سگے بھائی ہو 
میری آواز اگر سن سکو تو سنو 
تم سبھی ایک ہو،ایک ہو، ایک ہو 
افسوس 13فروری 1990کو پانی پت کے اس بے باک شاعر کا کریا کرم کیا گیا۔اسی سال ڈاکٹر کمار پانی پتی نے کنول کے فکروفن کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کتاب ’جام ہاتھوں میں رہا ‘ ترتیب دی۔
پانی پت اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کا بھی گڑھ رہا ہے۔دینی و مذہبی اداروں میں عربی کا بھی زور تھا۔آزادی سے پہلے پانی پت میں سات ہزار کی آبادی تھی جس میں چار ہزار مسلمان اور تین ہزار غیر مسلم تھے مگر جیسے ہی ملک تقسیم ہوا مسلمان بچتے بچاتے پاکستان ہجرت کر گئے۔
ایک زمانہ تھا پانی پت میں غیر مسلم بھی اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں شعر کہا کرتے تھے 1918میں پیدا ہونے والے کندن لال اخگرشاہانی فارسی اور تاریخ میں ایم۔اے تھے۔ دوآبہ کالج جالندھر اور دیال سنگھ کالج کرنال میں وہ لکچرر تھے۔وہ فتح محمد فاتح کے شاگر د تھے۔اردو میں ان کے چھے شعری مجموعے گستاخیاں، رعنائیاں، رنگینیاں، تجلیاں،بے باکیاں اور گل باریاں شائع ہوچکے ہیں۔ ادبی مرکز نے پانی پت سے ان کا ایک مجموعہ ’گلبانگِ پارسی‘ بھی شائع کیا۔اخگر شاہانی کے بعض اردو شعر تو ضرب المثل ہوکے رہ گئے ہیں اور ان کے احباب کی زبانوں پر ہیں۔جیسے ؂
وقت کے ساتھ میں نہیں چلتا 
وقت ہی میرے ساتھ چلتا ہے 
کسی کے دل میں اترنا تو مجھ کو آتا ہے 
کسی کے دل سے اترنا مجھے نہیں آتا
ڈاکٹر کمار پانی پتی سے ان کی مراسلت رہی۔وہ بزم سخن کرنال کے بانی مبانی تھے۔کسی ادبی شخصیت کی آمدپر یا مہینے دو مہینے بزم کی نشستیں ہوتی تھیں تو وہ احباب کو جمع کرتے تھے اور ان کی آمدو رفت کا خرچ برداشت کرتے تھے۔اخگر شاہانی کے بچے کیرل میں ملازمت کرتے تھے اور وہیں Settleہوگئے تھے۔اخگر صاحب کرنال چھوڑ کر کیرل بادلِ نخواستہ گئے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کے فارسی کلام کا مجموعہ گلبانگِ پارسی جلد چھپ جائے جس کی کتابت ہریانہ کے معروف خوش نویس رام نرائن مستانہ پانی پتی کررہے تھے۔اخگر شاہانی نے اپنے فارسی شعری مجموعے کا پیش لفظ فارسی میں لکھا اور اس کا انتساب اپنے استاد فتح محمد صاحب فاتح ساہیوال۔ پاکستان کے نام کیا۔ 9اپریل 1988کو پیش لفظ لکھنے کے چند ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا مگر ان کے وفادار دوست ڈاکٹر کمار پانی پتی نے گلبانگِ پارسی بہت جلد 1989ہی میں شائع کرکے اخگر صاحب کی آتما کی شانتی کا سامان کردیا۔
اخگر شاہانی کی پہلی غزل کا مطلع ہے :
دوش من درخواب دیدم دلبر گلفام را 
بادلِ خودجفت دیدم راحت وآ رام را
جملہ ایک سو غزلوں پر مشتمل گلبانگِ پارسی اخگر شاہانی کی فکری خلاقی کا مظہر ہے۔ان میں بعض غزلیں دس اشعار پر ’بعض نو بعض سات یا پانچ اورتین غزلیں دودو اشعار پر بھی ہیں۔ ان کی چالیسویں غزل کے دوشعر ان کی فکری پرواز کے غماز ہیں ؂
رامش گری کمال بکردہ زِتان سین
اِمروزتاجدار اوو شنود گمبراست 
شب چوں نظر بہ سوے نجوم فضاکنم 
ہراخترایں زند کہ اوتابندہ اخگر است 
کتابت کی غلطیاں دور ہوجاتیں اگر یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوجاتا۔حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ پانی پت جیسے مقام پر رہتے ہوئے اخگر شاہانی نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی مذاق کو بھی زندہ رکھا۔
ہریانہ کے پہلے راج کوی لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی کی حق گوئی وے باکی سے متعلق ڈاکٹر کمار پانی پتی نے ’عہد ساز ادبی شخصیتیں ‘میں لکھا کہ جوش ملیح آبادی نے جب ہندوستان میں شراب کی پابندی کے خلاف نظم کہی تھی کہ ؂
انسان کے لہو کو پیو اذنِ عام ہے 
انگور کی شراب کا پینا حرام ہے!
آفتاب پانی پتی نے جواباً سخت لہجے میں جوشؔ کارد کیا۔اور چوٹ کی ؂
کیا ان سے درس لیں گے مری قوم کے جواں 
عیا شیوں میں کٹ گئیں جن کی جوانیاں 
گویا ’یادوں کی برات‘کی طرف اشارہ ہے۔ویسے شراب بندی کے خلاف جوش نے لال قلعے کے مشاعرے میں پنڈت جواہر لال نہرو کی موجودگی میں وہ گستاخانہ نظم سنائی تھی تو گوپال متل نے فی البدیہہ اس کا جواب دیا تھا۔ لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی گاندھیائی فلسفے کے ہم نوا اور حب الوطنی سے سرشار تھے۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جیسے:
کلام آفتاب۔1915،سیلابِ اشک۔1921، نغمۂ روح۔1921، آفتابِ وطن۔1931، زخم وطن۔ 1934، جذباتِ آفتاب۔1940، جوشِ وطن۔1941، جذبات کی دنیا۔1955، حبِ وطن۔1961 اور شمشیرِ وطن۔1966
پانی پت کی خاک سے اٹھنے والا رام ریاض ایک غیر معمولی ذہین شاعر تھا۔چوتھی دہائی میں پیدا ہونے والا رام ریاض تقسیم ملک کے ہنگاموں میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے جھنگ پاکستان پہنچ گیا۔کچھ دن ٹیچری کرنے والا رام ریاض ایم اے کرچکا تھا بھٹو کے دور میں وہ فیملی پلاننگ محکمے میں PPOکے عہدے پر فائز تھا مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ دیگر ملازمین کے ساتھ ملازمت سے سبک دوش کردیا گیا۔ظاہر ہے نس بندی کو ضیاء الحق نے غیر اسلامی قرار دے دیا ہوگا۔
رام ریاض بڑا اچھا شاعر تھا۔اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ادبی حلقوں اور مشاعروں کا وہ کامیاب باغی شاعر شمار ہوتا تھا۔اس کے چند مشہور شعر ہیں ؂
تیرے او ر میرے ستارے جو نہیں ملتے ہیں 
تجھ میں اور مجھ میں کوئی فرق تو بنیادی ہے 
میں تیری مدح تو کرسکتا ہوں لیکن اس میں 
میرے فن کی ہی نہیں خلق کی بربادی ہے 
اجاڑسڑکوں پہ خاموش بہتا رہتا ہے
ہمارے خون کو عادت نہیں اُبلنے کی 
ہنسی خوشی سے گزارو کہ رُت نہیں آئی
حصارِ حبس سے باہر ابھی نکلنے کی 
سب اپنالہو چاٹ کے ہوجاتے ہیں خاموش 
دیتا ہے یہاں کون دہائی،مرے بھائی 
دشمن تجھے کیسے نظر آنے لگے دشمن 
تونے ابھی دیکھے نہیں بھائی،مرے بھائی 
رام ریاض اپنے مولد پانی پت آنے کا بڑا خواہش مند تھا مگر 1986میں وہ فالج کا شکار ہوگیا اور چارسال بعد ستمبر 1990میں دنیا سے منہ موڑ گیا۔
ڈاکٹر دولت رام صابر پانی پتی ایک پُرگو شاعر تھے وہ مولانا تاجور کے شاگرد تھے۔ڈاکٹر قمر رئیس نے فرمایا تھا:
’’زبان کی دروبست سے سادگی و پرکاری پیدا کرنا اور مصرعوں کو کچھ اس طرح تراشنا کہ وہ برجستہ مکالموں کا مزہ دینے لگیں،مشکل فن ہے مگر مولانا تاجور کا ایک بہترین شاگرد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ڈاکٹر موصوف (دولت رام صابر ) نے اس مشکل کام کو خاصا آسان بنا رکھا تھا ‘‘
ان کا شعر ہے ؂
کس شان کی حامل ہے مری دشت نوردی 
جوتا بھی جو پاؤں میں نہیں ہے تو نہیں ہے 
اس کے دوسرے مصرعے پر باضابطہ طرحی مشاعرہ ہوا جس میں کئی ممتاز شاعر وں نے طبع آزمائی کی جیسے مہندر پرتاپ چاند، ڈاکٹر رانا گنوری، ڈاکٹر جی آرکنول، اخگر پانی پتی، عرش صہبائی، شمس تبریزی، سید ضیاعلوی، مسلم طاہری، سراج پیکر، یعقوب اعظم،محترمہ ممتاز نازاں،پریم لتا اور ڈاکٹرکمار پانی پتی وغیرہ۔
ڈاکٹر کمار پانی پتی کی وجہ سے اردوادب کے نقشے میں پانی پت کا نام زندہ و تابندہ ہے۔ادبی مرکز کا قیام اور اس کے تحت شعروادب کی محفلیں برپا کرنا اور کتابوں کی اشاعت ان کا مشغلہ رہا وہ یہ ساری خدمات اردو کی محبت میں کرتے رہے ہیں۔ان کا ایک شعری مجموعہ’آج انسان بننے کا وعدہ کرو ‘ 2014میں منظر عام پر آیا۔اس کا صرف رسم الخط ہندی ہے ورنہ کمار صاحب تو خالص اردو کے آدمی کہلائے جا سکتے ہیں ؂
بے بسی زندگی کی آس میں ہے
کیا بتاؤں کہ کیا گلاس میں ہے
خود خزاں پوچھتی ہے رہ رہ کر 
فصل گل آج کس لباس میں ہے 
میرے قدموں سے لپٹنے کو ترستی منزلیں 
ڈھونڈتی پھرتی ہیں مجھ کو بستی بستی منزلیں
جانے کس برحق زمانے کا پتہ دیتی رہیں
عزمِ محکم کے اشاروں پر برستی منزلیں
شہرحالی و سلیم کی ہونہار بیٹی کماری رچی ملہوترہ سونو ایم اے انگلش تھی اور اپنے والد ڈاکٹر کمار پانی پتی کی طرح بڑی خوش ذوق اور خوش سخن تھی۔اُسے دکھ تھا تو بس یہ کہ اچھی خاصی قابلیت کے باوجود اسے کسی اچھے ادارے میں اچھی سرکاری ملازمت نہیں مل سکی وہ ایک خانگی اسکول میں معمولی تنخواہ پر ٹیچری کررہی تھی۔ اسی ناکامی نے اسے زندگی ہی سے مایوس کردیا اور اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ 12اکتوبر 1975کو پانی پت میں پہلی سانس لینے والی رچی سونو 11دسمبر 2013کو آخری سانس لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔سارا پانی پت اداس ہوگیا۔ ڈاکٹر کمار نے اپنی چہیتی بیٹی کی شعری تخلیقات کو ’آنسوؤں کے موتی‘ نامی کتاب میں جمع کرکے اُسے بے نام و نشاں ہونے سے بچالیا۔رچی ملہوترہ سونو اپنے شعری رویے کے بارے میں خود لکھتی ہے ؂
شعر لکھتی ہوں کاٹ دیتی ہوں 
کیوں کہ دل کو وہ چھو نہیں پاتے 
چاہتی ہوں کہ ان میں کچھ بھردوں 
آج کے یگ کو جو بدل ڈالے 
دن رات میں پھانسی پہ لٹکتی ہی رہی ہوں 
تقدیر کے جنگل میں بھٹکتی ہی رہی ہوں 
دشمن تو کسی کی بھی نہیں تھی میں مگر کیوں 
ہر شخص کی آنکھوں میں کھٹکتی ہی رہی ہوں 
رچی سونو نے زندگی سے بھرپور رومان پرور زندگی کی عکاسی کی ہے ؂
مجھے پیارسے اپنی بانہوں میں کس کر
کوئی جارہا ہے مرے دل میں بس کر 
میں تیری حقیقت سے واقف ہوں پیارے
نہ مار اتنی شیخی مرے یار بس کر 
میں ناگن ہوں نس نس میں ہے زہر میری 
مزہ دیکھ تو بھی مجھے آج ڈس کر 
رچی ملہوترہ سونو کی جدائی پرا پنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کرنے والوں میں کئی قلم کار ہیں جیسے اخگر شاہانی، ڈاکٹر شباب للت،وکاس پانی پتی،پرنسپل سکھ دیو، پریم لتا USAسمن بجاج،آشا متل اور سب سے بڑھ کر ان کے دکھی پتاجی ڈاکٹر کمار پانی پتی۔
پانی پت میں علما و فضلا کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی جنھوں نے بھید بھاؤ کے بغیر دین و اخلاق کے ذریعے انسانوں کو انسانیت اور بھائی چارگی سے زندگی گزارنے کا درس دیا۔’’یہ گلیاں ہیں مولانا حالی کی گلیاں ‘‘میں ڈاکٹر دھرم دیو سوامی نے ایسی تما م علمی و ادبی شخصیات کا اجمالی ذکر کیا ہے۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی ادھر تو ادھر مولانا ثناء اللہ امرتسری دوٹکرکے علما ئے کرام گزرے ہیں جن کی علمی و مذہبی فتوحات نے تہلکہ مچایا ہے۔ثناء للہ پانی پتی کے فرزند مولوی احمد اللہ پانی پتی بھی اپنی شناخت رکھتے تھے اور نابغۂ روزگار عالم و شاعر مرزا مظہر جان جاناں دہلوی (1698-1780)کے مرید ہوگئے تھے۔حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیا پانی پتی کا سلطان فیروز شاہ تغلق بھی معتقد تھا اور ان کی ملاقات کو پانی پت آیا کرتا تھا۔ شیخ جلال الدین سماع کا اہتمام کرتے تھے اورا ن کالنگر عام تھا۔ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی شمس الاولیا کہلاتے تھے۔ بیشتر صوفیہ کی طرح یہ بھی خاندانِ سادات سے تھے یعنی علوی تھے۔عبدالسلام پانی پتی، عبدالغفور لاری پانی پتی، مولانا عبدالرحمن جانی بھی صاحبِ تصانیف گزرے ہیں۔ فقہ و تصوف میں منفرد مقام کے حامل عبدالقادر پانی پتی، شیخ الجنی کے بیٹے مولانامحمد پانی پتی تھے۔حضرت سید غوث علی شاہ پانی تپی نے مولوی قلندر علی جلال آبادی سے حدیث،فقہ،منطق،دینیات پڑھیں۔وہ بوعلی قلندر کے مزار کے قریب رہا کرتے تھے۔شیخ گدا پانی پتی،شیخ مودودلاری پانی پتی بھی صاحبِ حال بزرگ پانی پت کی رونق رہے۔ ان صوفیہ کے مزارات پر عوام کا ہجوم عرسوں کے مواقع پر دکھائی دیتا ہے۔قوالیاں بھی ہوتی ہیں۔
ان کے علاوہ صاحبِ تصانیف علماء میں امان اللہ پانی پتی،قاضی ثناء اللہ عثمانی پانی پتی،عبدالرحمن پانی پتی،شیخ علی بن محمود پانی پتی،عنایت اللہ خاں راسخ پانی پتی،محمد بن محمود،محمد علی انصاری پانی پتی (مصنفِ تاریخ مظفری) ہیں۔نظام پانی پتی نے سنسکرت کے آثار ’جوگ وششٹ‘ کا فارسی میں ترجمہ کیا اور بادشاہِ وقت جہانگیر کو پیش کیا تھا۔
سعد اللہ مسیحا ے پانی پتی نے رامائن کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔شاہ اللہ پانی پتی نے ’سیرا الاقطاب ‘ لکھی۔ شرف الدین بوعلی قلند ر پانی پتی نے بھی ایک مثنوی اور کلیات یادگار چھوڑیں۔ شاہ جہاں کے دور کے شاعر ملاظاہری پانی پتی نے فارسی شاعری میں اپنا لوہا منوایا۔
قاضی عبدالرحمن تحسین پانی پتی خواجہ الطاف حسین حالی کے گہرے دوستوں میں تھے اور غالب کے شاگرد تھے۔ اردو کی بہ نسبت فارسی میں شعر کہتے تھے 1877میں انتقال کیا۔ پانی پت کے مشہور رسالہ حیاتِ نو میں ان کی ایک فارسی غزل سرنامے کے طور پر شائع کی گئی ہے۔یہ رسالہ حالی مسلم ہائی اسکول پانی پت سے شیخ محمد بدرالاسلام فضلی کی ادارت میں نکلتا تھا۔قادر پانی پتی اور میر قاسم پانی پتی فارسی میں شعر کہا کرتے تھے۔
قلندر بخش ترابی پانی پتی اور قلندر بخش زیرک پانی پتی دونوں فارسی میں شعر کہتے تھے۔ترابی کا انتقال ستر برس کی عمر میں ہوا اور عظیم آباد میں مدفون ہیں۔زیرک کی تعلیم و تربیت شاہ جہاں آباد اور لکھنؤ میں ہوئی۔ان کے بارے میں آیا ہے کہ ان کا دماغ آسمان پر رہتا ہے یعنی وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
(بحوالہ ڈاکٹر دھرم دیو سوامی۔’یہ گلیاں ہیں مولانا حالی کی گلیاں‘ ادبی مرکز پانی پت 1992) 
مختصر یہ کہ پانی پت شروع ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔مشاہیر کے کارنامے قصہء پارینہ ہوکر رہ گئے ہیں اور موجود ہ صورتِ حال دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔

Dr. Raoof Khair
Moti Mahal, Golconda
Hyderabad - 5500008 (Telangana)
Mob.:9440945645
Email: raoofkhair@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...