28/8/19

پختہ اور ناپختہ ناولوں میں فرق مضمون نگار: پیغام آفاقی




پختہ اور ناپختہ ناولوں میں فرق
پیغام آفاقی
 آپ ناولوں میں کیا ڈھونڈتے ہیں ؟ دانشوری کی روشنی یا محض نئے خیال کی سنسنی۔ کچھ ناول اور افسانے دنیا میں پیدا ہونے والی نئی سوچ اور نئی تبدیلیوں کو افسانوی سانچے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ ان میں پڑھنے والے کو ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ اپنے ماحول سے اکتائے ہوئے ناپختہ ذہنوں کو ان میں آزادی کی راہیں بھی نظر آتی ہیں۔ اور ان کے لیے ایسے ناول اور افسانے نئے فلسفوں اور دنیا کے نئے انکشافات سے آشنا ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لیکن ایسی تخلیقات کے حدود یہ ہیں کہ وہ صرف نئے آئیڈیاز کو اپنا محور بناتے ہیں۔ ایسے ناول نگار اور ان کے ناقد ایسے ناولوں کو دنیا کو نئے انداز میں دیکھنے کا نتیجہ بھی بتاتے ہیں ۔
دانشوری اور خیال آفرینی دو مختلف چیزیں ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تخلیق کار کو صرف نئے آئیڈیاز کو پیش کرنے تک محدود رہنا چاہیے یا ان نئے آئیڈیاز کو دانشوری کے ترازو میں تولنا اور دیکھنا چاہیے۔ دراصل تولنے کے عمل میں ہی ناول کی دانشوری کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ ناول کے اندر تولنے کا عمل ناول کے عمل میں دکھائی دیتا ہے نہ کہ لفظی موازنے میں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چیز دوسرے کے مقابلے میں کمزور ہے تو اس کا اظہار عملی طور پر مضبوط کے مقابلے میں کمزور کو ہارتے ہوئے دکھاکر کیا جائے گا اور یہ ہار حقیقت پر مبنی ہوگی نہ کہ راوی کی مرضی پر۔ دانشوری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نئے خیال کو دنیا اور زندگی کی مکمل ساخت کی روشنی میں جانچا جائے۔ ناول کی عظمت دانشوری میں پنہاں ہوتی ہے نا کہ محض خیال آفرینی میں۔ زندگی کی مجموعی صورت حال میں تبدیلی کے جائزے میں پنہاں ہوتی ہے نا کہ محض زندگی اور دنیا میں ہونے والے نئے نئے تجربات کی عکاسی اور پیشکش میں ۔
لہٰذا محض آئیڈیاز کی بنیاد پر لکھے گئے ایسے ناولوں کی حیثیت صحافت سے زیادہ نہیں جو مجموعی زندگی میں سچے اور دیر پا اضافے کے عکاس نہیں بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیانہ تحریروں یا ناولوں کے مقابلے میں سچے اور فنکارانہ ناول دیر سے وجود میں آتے ہیں۔ نئے خیالات اور نئے واقعات اپنے آپ میں پرکشش اور معنی خیز تو ہوتے ہیں لیکن وہ ناول کا مواد تب بنتے ہیں جب ان کو دنیا کی مجموعی حقیقت کے تناظر میں رکھ کر تول لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک تو اس آئیڈیا یا واقعے کے پورے سیاق و سباق کا سامنے آنا ضروری ہوتا ہے دوسرے خود ناول نگار کا اس واقعے سے اتنی دوری پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے جہاں سے وہ اس آئیڈ یا واقعے کو معروضی طور پر بھی دیکھ سکے – اس سے ناول نگار کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اس واقعے کو خوردبینی اور دوربینی دونوں طریقے سے دیکھ سکے۔
دانشوری سے مالامال ہر ناول دراصل زندگی کی زمین سے کہیں نا کہیں اسی طرح جڑا ہوتا ہے جیسے کسی پیڑ کی جڑیں ہوتی ہیں جو کہیں نا کہیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ دانشوری جذباتیت کو باقاعدہ اپنا حصہ بناتی ہے، تحیر کو ٹھہر کر اس وقت تک دیکھتی ہے جب تک حیرت کا عنصر ختم نہ ہوجائے، رفتار کو اپنے بڑے کینوس پر دیکھتی ہے کہ اس کی ہلچل کسی دور کی سڑک پر جاتی گاڑی کی طرح خراماں خراماں آگے بڑھتی ہوئی شے میں تبدیل ہوجاتی ہے - کردار اپنے سفر میں ان گلیوں سے بھی گزرتے ہیں جہاں وہ دندنانے کے بجائے پورے ہوش و حواس میں آکر چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چیخیں غالب کے اشعار کی طرح کتاب کی تحریر بن جاتی ہیں ۔
اسی طرح اگر کسی ناول نگار کو کسی معاشرے کا تجربہ و مشاہدہ نہیں ہے اور وہ کسی معاشرے کے پس منظر کا سہارا لیے بغیر کسی اجنبی ملک، معاشرہ اور زبان سے کچھ ایسے خیالات کو اٹھا لائے جو اس کے اپنے معاشرے کی آب و ہوا کے لیے اجنبی ہو تو ایسے خیالات بظاہر تو انقلابی، تازہ، روشن، خیال انگیز اور دلچسپ محسوس ہوسکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت گلدان میں رکھے ہوئے کسی اجنبی پھول کی شاخ سے مختلف نہیں ہوگی۔ ایسی تحریر بھی دانشوری سے خالی ہوگی کیونکہ دانشوری ایک ایسی صفت کا نام ہے جس کا چراغ حقیقت کے تیل سے ہی جلتا ہے - حقیقی دنیا اور زندگی سے کٹی ہوئی دانشوری کا کوئی تصور کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ایک عملی صفت ہے ۔
لب لباب یہ کہ ادبی فہم کا تقاضا ہے کہ ناولوں میں سنسنی پیدا کرنے والے اور انتہائی تیز رفتار سے بدلتے وقت کی طرف بڑھتے دکھائی دینے والے ناولوں اور ان عظیم ناولوں میں فرق کو سامنے رکھا جائے جو نئی تبدیلیوں اور سنسنی خیز خیالات کی حقیقت کو تولنے اور جانچنے کے بعد لکھے جاتے ہیں اور جو اپنی زمین میں اس طرح مضبوطی سے گڑے ہوتے ہیں کہ پڑھتے وقت وہ زمین انھیں ایک پس منظر مہیا کرتی ہے - ایک ایسا پس منظر جو اس ناول کے ایک نامیاتی حصے کی حیثیت رکھتا ہے۔
دانشوری کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک عام پڑھے لکھے آدمی کے لیے کچھ ناولوں کو پڑھنا ناگزیر ہے۔ اسی طرح کچھ عظیم ناولوں کا لکھا جانا معاشرے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ایسے ناولوں کے علاوہ کچھ ناول اضافی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ کی حیثیت محض تفریحی ہوتی ہے۔
معاشرے کی جزئیات کی عملی اہمیت اور خصائص پر روشنی ڈالنے والے تمام شعبہ ہائے علوم جن میں فلسفہ، مذہب، سماجیات، سائنس، معاشیات، نفسیات اور ادب شامل ہیں سب سے زیادہ بڑے کینوس اور متحد وڑن کی ذہنی تربیت دینے والا ذریعہ صرف ناول ہی ہے کیونکہ یہ وہ ذریعہ ہے جو زندگی کو عمل و حرکت کی شکل میں اس کے پورے کل کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس میں بیک وقت سارے دوسرے علوم کی عملی قدر و قیمت اور اعتبار کی جانچ ہوتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ اس میں علوم کے علاوہ براہ راست سماج میں پیدا ہونے اور سماج کی تشکیل میں شامل ہونے والے کرداروں کی عملی شکل اور ذہنیت کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناول واقعات کا دنیا کے مجموعی کل کے ترازو اور پس منظر میں تجزیہ بھی ناول ہی میں ہوتا ہے کیونکہ اس میں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے واقعات کی آغاز سے انجام تک کی پوری تصویر نظر آتی ہے۔ اس طرح اس کے اندر وہ مجموعی تصویر نظر آتی ہے جس کو واقعات کے دوران یا ان کے اثرات کے پوری طرح سامنے آنے سے پہلے لکھے گئے صحافتی مضامین میں پیش نہیں کیا جاسکتا – یہ ممکن ہے کہ کوئی محتاط تخلیقی ذہن واقعات کے دھارے کے درمیان بھی بیٹھ کر اس واقعے کی حقیقت کو اپنے فن کی گرفت میں لے لے، اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس میں کامیاب ہونا شرط ہے - اس اعتبار سے دیکھا جائے توحقیقت پرست ناول معاصر صورت حال کے علاوہ تاریخی صورت حال کو پیش کرنے میں بھی خود تاریخ سے زیادہ وسیع کینوس رکھتے ہیں کیونکہ وہ ماضی بعید میں گزرے واقعات کو صرف دستاویزوں کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ انسانی نفسیات کی روشنی میں بھی ان واقعات کو پرکھتے ہیں جبکہ تاریخ یہ کام نہیں کرتی۔ اپنے معاشرے کے بارے میں اس طرح کے ناولوں کو پڑھنا دانشوری کے مقام تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے ۔
ناول کے اندر معاشرے سے متعلق اجزا کو حقیقی تناسب میں دیکھنا ضروری ہے۔ کسی معاشرے کی مجموعی ساخت میں چند پہلو عام طور سے ہوتے ہیں۔ مثلاً : ہر معاشرے میں کوئی نہ کوئی حکومت موجود ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ کسی معاشرے کی شکل و صورت کو طے کرنے میں ان کا رول کم ہوتا ہے اور کسی میں زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کا رول ہوتا ضرور ہے۔ کہیں حکومتیں نسبتاً ایماندار ہوتی ہیں اور کہیں نسبتاً زیادہ کرپٹ ہوتی ہیں۔ کہیں وہ معاشرے میں افراد کی زندگی کے فلاح کی کافی پابند ہوتی ہیں اور کہیں وہ تمام مظالم کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ یہ حکومتیں حکمرانوں اور بیوروکریسی کے افراد کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں اور یہ افراد کچھ فیصلے کھلے میں اور کچھ فیصلے بند کمروں اور قلع نما دیواروں کے پیچھے لیتے ہیں ۔ ان افراد کی سوچ، ان کی نیت، ان کے مفاد اور ان کے مجموعی کردار کو سمجھے بغیر کوئی قابل اعتبار ناول نہیں لکھا جاسکتا ، جو افراد معاشرے کے سبھی طبقات کے بارے میں حقیقی تجربہ نہ ہونے کے باوجود ناول لکھتے ہیں وہ دراصل گمراہ کن خیالی باتوں کو ناول کی شکل میں پیش کرتے ہیں جو دلچسپ تو ہو سکتے ہیں لیکن قابل اعتبار نہیں ۔
جو بات اوپر حکومتوں کے بارے میں کہی گئی ہے وہی بات تاجروں اور سرمایہ داروں کے طبقے پر بھی صادق آتی ہے ۔ حکومتوں کی طرح تاجروں کا بھی ایک بڑا طبقہ معاشرے کا حصہ ہے جس کے فیصلے عام لوگوں کی زندگی اور معاشرے کے سفر کو براہ راست متاثر کرتے ہیں ۔ یہ تاجر جہاں دکانوں میں سامان بیچ رہے ہوتے ہیں وہاں تو بڑے پر امن نظر آتے ہیں لیکن ان دکانوں کے پیچھے یہ سامانوں کی ذخیرہ اندوزی سے لے کر ان کی قیمتیں طے کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کرتے ہیں ان طریقوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کی بھوک اور ان کے خون تک کی تجارت کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ ان تاجروں کے پیچھے بیٹھے سرمایہ دار ان ساری قوتوں پر حاوی ہوتے ہیں جو قوتیں زندگی اور معاشرے کی شکلوں کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ لہذا کسی بھی حقیقی ناول کی تشکیل میں اس پورے نظام کی آگاہی ہونی چاہیے ۔ اگر ناول نگار ان حقیقتوں کو گہرائی سے نہیں جانتا اور پھر بھی اپنے ناول کو حقیقی ناولوں کے طور پر پیش کر رہا ہے تو دراصل وہ معاشرے کو گمراہی میں مبتلا کرنے کے عمل میں لگا ہوا ہے ۔
اوپر کے ان دو طبقات کے علاوہ ایک اور طبقہ ہے جس کی حقیقت سے کم ہی لوگ آگاہ ہوتے ہیں اور وہ طبقہ میڈیا اور دانشوروں کا طبقہ ہوتا ہے۔ یہ طبقہ عموما ً عوام کو جاہل سمجھتا ہے اور اپنی گرفت اور چمک دمک اور عوام کے اعتبار کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اکثر حکومتوں اور تاجروں کی حمایت کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو پیش کرنے کے بجائے اسے چھپاتا ہے اور عوامی زندگی کی حقیقت کو یعنی عوام کی حالت اور ان کی سوچ کو کوڑے کباڑ کی طرح نظر انداز کرتا ہے ۔
ان آسمانوں کے نیچے عوام کی وہ کثیر تعداد زندگی گزارتی ہے جسے ہم شہروں اور گاں میں گھومتے پھرتے اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہنستے بولتے دیکھتے ہیں۔ دنیا کے ان پہلوں کے علاوہ ہم دنیا کو ایک اور طریقے سے بانٹ کر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کا ایک حصہ وہ ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے گوکہ اس دنیا میں بھی قانون بڑے پیمانے پر توڑے جاتے ہیں اور ایک حصہ وہ ہوتا ہے جہاں جرائم کی حکومت ہوتی ہے ۔ یہ دونوں دنیائیں اکثر ایک دوسرے میں پیوست رہتی ہیں مثلاً عام آبادی حکومت کے ذریعے نافذ کیے گئے قوانین کے دائرے میں جیتی دکھائی دیتی ہے لیکن وہیں گھروں کے اندر مردوں کی بے لگام حکومت چلتی ہے جہاں مردوں کی مرضی ہی قانون کا درجہ رکھتی ہے ۔
ان کے علاوہ دنیا کے مختلف ادارے جیسے پولس، عدالت، ہسپتال، تعلیمی درسگاہیں، عبادت گاہیں اور مذہبی ادارے جن کو عام آدمی اپنی زندگی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتا ہے ان کے سامنے کے چہرے کچھ اور ہوتے ہیں اور اندر کا چہرہ کچھ اور ہوتا ہے۔ مثلا عدالت سے ہر آدمی انصاف کی توقع رکھتا ہے لیکن عدالتوں کے برسوں تک چکر لگانے کے بعد وہاں انسان کو کچھ اور ہی دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہی حال دوسرے اداروں کا ہے ۔
لہذا ایک حقیقی ناول لکھنے کے لیے ناول نگار کا معاشرے کے ان تمام پہلوں کا گہرا علم ہونا ضروری ہے۔ بہت سے ناول نگارتو ایسی دنیا میں رہتے اور جیتے ہیں کہ معاشرے کے ان پہلوں کی گہرائی میں پہنچنا ان کے بس کی بات ہی نہیں۔
مکمل طور پر حقیقت پسند ناولوں کے علاوہ کچھ ناولوں کے پڑھنے کو ہم اختیاری/اضافی قرار دے سکتے ہیں۔ ان میں وہ ناول شامل ہوں گے جو پوری زندگی کے کل کی روشنی میں اپنے کرداروں اور واقعات کو نہیں دیکھتے لیکن زندگی کے کسی ایک اور جس پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں وہاں وہ مقامی حقیقت کا گہرا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے ناول پڑھنے والے کے اپنے معاشرے کے کسی ایک پہلو سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں اور کسی دیگر معاشرے کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ کسی بھی انسانی معاشرے کی حقیقی تصویر کسی دوسرے معاشرے کو سمجھنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کچھ ناول زندگی کے بارے میں کوئی نیا نظریہ اور فلسفہ پیش کرتے ہیں ۔ ایسے ناولوں سے بھی ذہن اس طرح روشن ہوتا ہے کہ خود اپنا معاشرہ زیادہ روشن ہوکر سامنے آتا ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کا سابقہ دوسرے معاشروں سے پڑتا ہے یہ ناول ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایسے ناولوں کو زندگی کو سمجھنے کے لیے اختیاری اس لیے کہا گیا کہ ان کو پڑھنے سے زندگی کے بارے میں قاری کی جانکاری کا کینوس وسیع تر ہوتا ہے اور زندگی کے جس پہلو سے قاری کا تعلق ہوتا ہے اس پر خصوصی طور پر لکھے گئے ناول اس مخصوص قاری کو زندگی کی بصیرت سے مالامال کرتے ہیں ۔
ناولوں کی تیسری قسم تفریحی ناولوں کی ہوتی ہے ۔ یہاں تفریحی ناولوں سے مراد سامان تفریح سے بھرے ہوئے ناول نہیں ہیں۔ یہاں مراد ناولوں کے بغرض تفریح مطالعے سے ہے ۔ کوئی ناول چاہے دنیا کے کسی بھی حصے کی زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہو اس کا مطالعہ اپنے آپ میں ایک نئی طرح کی زندگی جینے کا مزہ دے جاتا ہے – اس خانے میں دنیا کے تمام حقیقی ناولوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ عموما ًپختہ ذہن قاری بہت سستے تفریحی ناولوں سے حظ نہیں اٹھا سکتے۔ وہ جذباتی ناولوں سے بھی حظ نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن ایک حقیقی ناول چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے کے بارے میں ہو پختہ ذہنوں کے لیے اپنے اندر ایک سحر رکھتا ہے ۔
جہاں تک انسانی کرداروں کا تعلق ہے دنیا کے سارے کردار قاری کے اپنے معاشرے کے لیے بامعنی ہوسکتے ہیں کیونکہ دنیا کے سارے انسان فطرتاً ایک جیسے ہیں۔ لیکن چونکہ دنیا کے مختلف معاشرے ایک دوسرے سے اپنی نوعیت میں الگ ہوتے ہیں اس لیے دوسرے معاشروں کا عکس قاری کے اپنے معاشرے کو سمجھنے میں محض اضافی حیثیت ہی رکھتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کسی دوسرے معاشرے کی چند خوبیوں اور اوصاف کی بنا پر وہ معاشرے قاری کے لیے اچھی مثال بنیں اور اس کے اندر اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی خواہش اور جذبہ پیدا کریں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی اور معاشرے کی خوبیاں اسی معاشرے کی مجموعی صورت حال اور حقیقت کی پیداوار ہوتی ہیں ہر چند کہ ان سے سبق لیا جاسکتا ہے اور ممکنات دیکھے جاسکتے ہیں ۔
 ناولوں کے دانشوری والے خاصے کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ ہر ناول میں ان معنوں میں ایک نئی دنیا ہوتی ہے جن معنوں میں ہر انسان کو دنیا الگ شکل میں نظر آتی ہے۔ یعنی ہر ناول میں دنیا کا ایک نیا تجربہ ہوتا ہے جو بنیادی طور پر ناول نگار کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس طرح ناول دنیا کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس عمل میں قاری کو دنیا کی فطرت کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور اس کی دانشوری میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ایک حقیقی ناول دنیا اور اس کے نظام، اس کے افراد اور اداروں کے مطالعے کو اپنا موضوع بناتا ہے اور کرداروں اور اداروں کے تجزیہ کے ذریعے اپنے قاری کواس میں ہورہے واقعات کا تجزیہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ناولوں کو اس طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کسی زندگی کے کل کے ناول ہیں یا جس کے ناول ہیں ۔ عظیم ناول اپنے ماحول کے کل کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور فارم، فلسفہ اور حقیقت کے عرفان میں اسی کل کو پیش کرتے ہیں ۔ عظیم ناولوں کا تجربہ زندگی کے جز کا تجربہ نہیں بلکہ کل کا تجربہ ہوتا ہے۔ ایک عظیم ناول اس کے آگے تک جاتا ہے۔ وہ موجود دنیا کے کل کو اس کے مکمل امکانی دائرے میں رکھ کر اس کی بہتر شکل کو دریافت کرتا ہے اور اسے قاری کے ذہن میں ایک ایسے خواب کی شکل میں قائم کردیتا ہے کہ اس خواب کی قوت موجود دنیا کی تبدیلی کے عمل کو اپنی تعبیر کی طرف کھینچنے لگتی ہے ۔
ایسے ناولوں کے بر عکس کچھ ایسے ناول بھی ہوتے ہیں جن کی دنیا دراصل مکمل حقیقی دنیا کے محض ایک جییا حصہ یا پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ ایسے ناول قاری کو اس کی اپنی زندگی اور دنیا سے نکال کرکسی اور دنیا کی سیر کراتے ہیں لیکن اس سے کشید کیا ہوا تجربہ اس کی اپنی دنیا کے کل کا تجربہ نہیں ہوتا۔ ایسے تجربات دلکش، پرلطف اور ریفریشنگ تو ہوتے ہیں لیکن ان کی اہمیت سیر سپاٹے جیسی ہوتی ہے جس سے قاری کے علم میں اضافہ تو ہوتا ہے لیکن اس کا درجہ دانش کا نہیں ہوتا۔ ایسے ناولوں میں ایک تخلیقی سرشاری کا بھی احساس ہوتا ہے جو عظیم ناولوں کا خاصہ ہے لیکن ایسے تجربات کی اہمیت حاشیائی ہوتی ہے۔ انسان کی دانشوری کے محور تک پہنچنے کے عمل میں ان کی اہمیت جزوی ہوتی ہے۔ ایسے ناول زندگی کی سرحدوں کو پھیلاتے ہوئے نئے آفاق کی تلاش بھی کرتے ہیں ، لیکن ان کی اہمیت بہر حال حاشیائی ہوتی ہے ۔
زیادہ تر مشہور و مقبول ناول حاشیائی خاصے کے ہوتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ رومانی ناولوں کی طرح کلی حقیقت کی گرفت سے قاری کو نکال کر باہر لے جاتے ہیں۔ ایک ان دیکھی دنیا کی سیر یقینا ایک ناپختہ ذہن کے لیے اپنی حقیقی دنیا کی دریافت نو سے زیادہ آسان اور دلچسپ ہوتی ہے۔ ایسے ناول نئے نئے خیالات اور موضوعات کو اپنے حصار میں لیتے ہیں ۔ اس ماحول میں قاری کو اپنی حقیقت کے قید و بند سے آزاد تجربات و خیالات کا لطف لینے کا موقع بھی ملتا ہے ۔
لیکن دانشوری پر مبنی عظیم ناولوں کی نظر قاری کی زندگی کی ان گانٹھوں کو کھولنے پر ہوتی ہے جن سے فرار کا راستہ ان گانٹھوں کی نوعیت کو سمجھنے اور کھولنے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا ۔ اس لیے یہ عظیم ناول زندگی کے مرکز سے شروع ہوکر دنیا کے ہر طرح کے پھیلا اور نئے خیالات اور نئے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ ان میں مرکز بھی ہوتا ہے اور ان میں حاشیے بھی شامل ہوتے ہیں۔
دنیا میں عظیم ناول بہت کم وجود میں آتے ہیں اور ان کی مقبولیت بھی کافی وقت لیتی ہے کیونکہ ان میں گہری سنجیدگی ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس ایسے ناول اور ناول نگار جلد مشہور ہوجاتے ہیں جو حاشیائی ناول لکھتے ہیں لیکن حاشیائی ناول بیشتر وقتی رحجانات، وقتی مسائل اور جذباتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن کے کچھ ناول محض زندگی کو ایک نئے انداز میں دیکھنے کی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں لیکن اس نئے پن کی نوعیت بھی ایک خاص طرح کی رومانیت لیے ہوتی ہے یعنی یہ ایک مخصوص خیال کی سنسنی خیزی سے اپنے اندر رنگ بھرتے ہیں ۔
کئی ناول ایسے ہوتے ہیں جن میں آپ کسی ایک کردار کی زندگی کے کسی ایک بڑے واقعے کا تفصیلی بیان پڑھتے ہیں۔ ناول کے واقعات کے اتار چڑھا کے دوران آپ کا زندگی کے مختلف حقائق سے کردار کے ذریعے ایک نئے انداز میں نبٹنے کا طریقہ سامنے آتا ہے جس کی آپ توقع نہیں کرتے ۔ ایسے ناول بھی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں لیکن یہ محض مثال پیش کرتے ہیں اور امکانات کو روشن کرتے ہیں۔ اگر یہ مجموعی زندگی کا تجزیہ نہیں پیش کرتے تو ان کی حیثیت بھی محض ایک منفرد اور تنہا تجربے کی ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات آپ کے ذہن کو سوچنے پر اکساتے ہیں اور زندگی کو نئے انداز سے دیکھنے کا حوصلہ دیتے ہیں ۔ ان کی اپنی ادبی و بصری اہمیت مسلم ہے۔
ناول اور ناول نگاری کی سب سے اعلی قسم وہ ہے جس میں ناول نگار کا ذہن پورے معاشرے کے تناظر میں ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے اور کردار کی سوچ و حرکت کو دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میں کردار کے ہر فیصلے اور واقعات کے ہر موڑ کا تعلق مکمل معاشرتی پس منظر سے قائم رہتا ہے۔ اور ان فیصلوں اور حرکات کی سمت و توازن کا تعین معاشرے کی ساخت اور کردار کی اپنی سوچ و پیش قدمی کے درمیان کی ہم آہنگی یا بصورت دیگر انحراف سے قائم ہوتا ہے۔ اگر کردار اپنے پس منظر کی حقیقت سے بغاوت کرتا ہے تو بھی اس کو اپنی بغاوت کو کامیاب بنانے کے لیے معاشرے کی حقیقتوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے اور محض جذبات اور خوابوں کی رو میں بہے تو اس کا یہ عمل رومانی قرار پائے گا۔ ایک حقیقت پرست ناول اور رومانی یا نیم رومانی ناول کا فرق یہیں سے واضح ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور ناول جس قدر حقیقت سے دور ہوتا جائے گا اسی قدراس کی دانشوری کے خاصے میں نقص پیدا ہوتا جائے گا۔
ایسے ناول جو کسی ایک بڑے واقعے یا ایک اہم معاشرتی تبدیلی کو مرکز بنا کر لکھے جاتے ہیں ان میں اکثر جذباتی اور رومانی عناصر در آتے ہیں۔ اس کی وجہ عموماً ناول کے لیے منتخب واقعات سے عوام کی جذباتی یا رومان پرورتصوراتی لگا ہے۔ ناول نگار عوام کو قاری کی حیثیت سے اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے اکثر اسی جذباتی یا رومانی لگا کو اپنے ناول کی ساخت کی ریڑھ کی ہڈی بنا لیتے ہیں – نتیجتاً پورا ناول حقیقی ہونے کے بجائے جذباتی اور رومانی رنگ اختیار کرجاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ایسے جاسوسی ناولوں کی بھی ہوتی ہے، جن کا تانا بانا حقیقت سے نہیں بلکہ ایک مصنوعی تجسس سے بنا جاتا ہے۔ ایسے ناول دلچسپ، رواں، اور زبان و بیان کی شیرینی سے تو لبریز ہوسکتے ہیں لیکن یہ قاری کو حقیقت پسند بننے میں معاون نہیں ہوتے بلکہ اکثر ان کے ذہن کو سطحی سوچ کا حامل بنا دیتے ہیں۔ ایسے ناولوں کو پڑھتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا بے حد ضروری ہے کہ انھیں محض تفریح کے لیے پڑھا جائے اور ان کو حقیقی ناولوں کا درجہ نہ دیا جائے۔ اس کے برعکس ایسے ناولوں کو جو حقیقت پسند ہوتے ہیں اور ایسے ناول نگاروں کے ذریعے لکھے گئے ہوتے ہیں جنھیں دنیا کی ہر سطح کی حقیقی زندگی اور ان کی پیچیدگی کا بھر پور اور قابل بھروسہ تجربہ ہوتا ہے ان کے ناولوں پر اسی طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے جیسے سائنس کی کتابوں پر کیا جاتا ہے ۔
اسی لیے اردو میں تقسیم ہند اور اس سے متعلق قتل و غارتگری اور اس کے بعد سے اب تک ملک میں ہونے والے فسادات یا فرقہ پرستی اور طبقاتی کشمکش پر لکھے جانے والے ناولوں کو بھی بہت احتیاط سے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وقت بہ وقت عوامی سطح پر مقبول ہونے والی سیاسی تحریکوں سے تعلق رکھنے والے ناولوں کو بھی احتیاط سے پڑھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر ناول نگار کا رشتہ توازن مکمل حقیقت سے ٹوٹ گیا اور وہ واقعات یا تحریکوں کی جذباتی رو میں بہہ گیا تو اس کے ناول میں حقیقت کے عناصر کم ہوتے چلے جائیں گے۔ حقیقت صرف کسی واقعے یا شے کا نام نہیں ہے بلکہ اس واقعے یا شے کے اس وزن کا بھی نام ہے جو اس سے اسی طرح وابستہ رہتا ہے جیسے زمین کی کشش ہر ایک شے کے وزن کو طے کرتی ہے۔ یعنی جس طرح ہر چیز کا وزن بھی اس کی حقیقت کی ایک جہت ہے اسی طرح ہر واقعہ یا شے کا وہ وزن اور اس کی اہمیت بھی اس کی حقیقت کی ایک اہم جہت ہے جو وہ واقعہ یا شے مکمل معاشرے کے تناظر میں رکھتی ہے۔ محض ناول نگار کی نظر میں اس واقعے یا شے کے بہت اہم یا غیر اہم ہوجانے سے وہ شے اہم نہیں ہوجاتی اور اگر ناول نگار اس کو ذاتی پسند و ناپسند یا جذباتی لگا کی وجہ سے اہمیت دیتا ہے تو یہ ناول کی حقیقت پسندی کو مجروح کرے گا۔
اس لیے ہر ناول میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ خود ناول نگار کی جذباتی پختگی کس درجے کی ہے اور وہ اپنے معاشرے، فرقے، طبقے اور زمین کے تئیں کتنا غیر متعصب اور معروضی نقطہ نظر رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جس زندگی کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے اس کا عملی تجربہ اس کو کتنا ہے اور اس کی لکھی ہوئی باتوں کی چولیں ایک دوسرے میں محض تخیل میں ملتی ہیں یا وہ حقیقی ہیں ۔
 ناول اسٹرکچر کے لحاظ سے روپ رنگ میں اسی طرح ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں جیسے انسان ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔ اصل فرق ذہن اور بصیرت سے شروع ہوتا ہے جو مختلف ناولوں میں مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ کسی مقرر کی فصاحت اور گفتگو کی دلچسپی قطعی اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ عالم یا دانشور ہے۔ اس فیصلے تک پہنچنے کے لیے اس مقرر کے پس منظر کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کی گفتگو کی جذباتی سطح اور رنگ سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی باتوں اور سوچ میں کتنی پختگی ہے – ٹھیک اسی طرح ناولوں کی بصیرت کا اندازہ بھی انتہائی سنجیدگی سے کیا جانا چاہیے ۔

Paigham Aafaqui
Flat No. 1
Police Station
Rajouri Garden
Delhi-27



سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون 2016


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ: