27/8/19

اردو ناولوں میں تانیثی حسیت مضمون نگار: صالحہ صدیقی





اردو ناولوں میں تانیثی حسیت
صالحہ صدیقی
بین الاقوامی سطح پر 1960-1980تک کا زمانہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،یہ وہی دور ہے جب عالمی سطح پر زندگی سے متعلق ہر شعبہ خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی, معاشرتی ہو یا انتظامی, حالات میں وسیع پیمانے پر الٹ پھیر اور تبدیلیاں رونما ہوئیں ،جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ۔اس تبدیلی سے جہاں ایک طرف برسوں سے چلا آرہا نظام درہم برہم ہوا بہت سے نقصانات ہوئے وہیں دوسری طرف کچھ اچھے نتائج بھی حاصل ہوئے ،نئے علوم و فنون کا جنم ہوا اس ردّوبدل کی جنگ میں کچھ تحریکات بھی رونما ہوئیں ساتھ ہی زندگی کے بارے میں نئے فلسفیانہ زاویۂ نظر کی بھی ابتدا ہوئی ۔ان حالات نے عورتوں کی زندگی کو بھی اثر انداز کیا جس سے ان کی زندگی سے متعلق بے شمار مسائل جن پر برسوں سے غور و فکر نہیں کیا گیا تھا ان مسائل کے حل تلاش کر نے کی سعی کی جانے لگی جس کے لیے ادبی تحریکوں و رحجانوں کا سہارا لیا گیا ۔ان تحریکات میں ایک تحریک ’تانیثیت ‘ بھی شامل تھی۔ تانیثیت کی تحریک کی شروعات فرانس کی سیمون دی بوآر( دی سکنڈ سکس ) کی آمد کے ساتھ باقاعدگی سے ہوا ۔جب انھوں نے یہ صدا بلند کی کہ عورت اور مرد دونوں کو علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر آنا چاہیے ۔سیمون دی بوآر کی یہ آواز بین الاقوامی سطح پر گونجی اور دنیا کے ہر زبان و ادب اور تہذیب وتمدن پر اثر ڈالااور اس سمت میں غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا ۔جس کے نتیجے میں عورتوں سے متعلق ایک نئی بحث و مباحث اور تحریروں کا کارواں رواں دواں ہو گیا ۔ اگر ہم ’تانیثیت ‘ کے معنی و مفاہیم کی طرف غور کریں تو ہم دیکھتے ہے کہ لفظ ’تانیثیت ‘ (Feminism)ایک جدیداصطلاح ہے ۔جو لاطینی زبان کے لفظ "Femina"سے مشتق ہے۔جس کے معنی ’نسوانی اوصاف رکھنا‘ ہے۔"Feminism"لفظ کا استعمال کب اور کیسے ہوا؟یہ ایک اختلاف کن مسئلہ ہے ،لیکن یہ خیال کیا جاتاہے کہ اس لفظ کا سب سے پہلا استعمال فرنچ میڈیکل ٹکسٹ میں1871 میں کیا گیا ۔اس لفظ کا استعمال ابتدا میں ایسے لوگوں کے لیے کیا جاتا تھا جن میں کسی وجہ سے نسوانی اوصاف پیدا ہو جاتے تھے۔
بقول فریڈ مین کہ :
"The term "Feminist" seems to have first been used in 1871 in a French Medical text to describe a cessation in development of the sexual organs and characteristics in male patients who were perceived as thus suffering from "Feminization" of their bodies.
                                                (Feminism.2002,pg-2)
کچھ عرصے کے بعد فرانس کی ایک تخلیق کار Alexander Dumas Filsنے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے لفظ "Feminist"کا استعمال ایسی عورتوں کے لیے کیا جو بےباک اور بہادر مزاج رکھتی تھیں ۔ابتدا میں "Feminist"کا استعمال نسوانی اوصاف کے بیان کے لیے کیا گیا ،لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کے معنی میں بدلاؤ آیا اور یہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو’حقوق نسواں ‘ کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔اور آہستہ آہستہ یہ ایک رحجان سے تحریک تک کا سفر طے کرنے لگی ۔ پھر یہ اصطلاح ’تانیثیت یا تانیثی تحریک ‘ کے نام سے فروغ پانے لگی۔’تانیثیت ‘ کی کوئی مستقل تعریف نہیں ملتی، بلکہ مختلف اہل قلم نے اس کو مختلف زاویے سے پیش کرنے اور اس کی تشریح و توضیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندستان میں خصوصاً ہندی ادب میں اس تحریک کو ’استری ویمرش ‘ کے نام سے لمبے عرصے سے فروغ ملتا رہا ہے اور بے شمار کتابیں مثلا (1) استری سنگھرش کا اتحاس :رادھا کمار (2) استری سنگھرش کے سو ورش : قصوم ترپا ٹھی (3) بھارت میں استری اسامانتا : گوپا جوشی (4) آزاد عورت کتنی آزاد : شیلندر ساگر (5) مہیلا ادھیکار : ممتا مہروترا (6) سپنو کی منڈی : گیتا شری (7) عورت ہونے کی سزا : اروند جین (8) استری ویمرش کی اتر گاتھا : انامیکا (9) عورت کے لیے عورت : ناصرہ شرما (10) ناری شوشن : ڈاکٹر نیروپما ہرش وردھن وغیرہ منظر عام پر بھی آچکی ہیں۔ ہندی ادب میں اس صنف کا دائرہ اردو کے مقابلے بہت وسیع ہے ۔جبکہ اردو ادب میں گزشتہ چند برسوں میں اس کی جانب توجہ کی جارہی ہے ۔ لیکن اردو میں بھی اس تحریک کا بنیادی نظریہ عورت کو بہ حیثیت انسان تسلیم کروانا ہے۔عورت کو کسی ایک دائرے تک محدود نہ رکھ کر اس کو مختلف شعبوں میں عزت واحترام کے ساتھ اس کو وہ تمام حقائق دیے جائیں جس کی وہ مستحق ہے۔مختصراً یہ کہ اردو ادب میں اس تحریک کو جسے ’تانیثیت ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ،جو خصوصاً عورتوں کے مسائل سے متعلق ہے۔ یہ تحریک صدیوں سے چلی آرہی عورتوں کی زبوں حالی کے خلاف علم احتجاج بلند کرنا ہے ۔جس کی جھلک ہمیں دور حاضر کی تخلیقات خصوصاً ناول میں بھی نظر آتی ہے۔اردو ناولوں میں تانیثی حسیت پر غور و فکر سے قبل اس صنف کا جائزہ اہم ہے ۔
قصہ کہانیاں کہنا سننا اپنے دن بھر کے واقعات کو ایک دوسرے سے بانٹنا انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ایک وقت تھا جب طویل داستانوں کا دور تھا جب لوگوں کے پاس فرصت تھی اور یہی ان کی وقت گزاری کا سامان بھی تھا ۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسانی زندگی کی ترقی اور سائنسی ایجادات واختراعات نے جب انسان کو گمراہی و غفلت سے باہر نکال کر زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرایا تو فطری طور پروہ خوابوں و خیالوں کی دنیا اور مافوق الفطری عناصر پر مبنی قصوں و کہانیوں سے دور ہونے لگا اور اس کی دلچسپی ان قصوں سے ختم ہونے لگی۔روز مرہ کی زندگی میں بڑھتی مصروفیات نے اسے طویل داستانوں سے دور کر دیا ۔کیونکہ اب ان کے پاس اتنا وقت نہیں رہا کہ وہ ان کا مطالعہ کر سکیں۔ لیکن جب ان کو وہ قصہ نظر آیا جو حقیقت پر مبنی تھا اور جو زندگی اور سماج کی حقیقتوں کا ترجمان بھی تھا اور جس کا مطالعہ داستان کے مقابلے کم وقت میں ممکن تھا، جس میں آس پاس کے ماحول کے علاوہ معاشرے کے نشیب و فراز اور تبدیلیوں کا خاکہ پیش کیا جاتا تھا ،تو عوام نے اس صنف کو بخوشی قبول کرلیا اور دن بہ دن ترقی کے مراحل طے کر کے ہر خاص و عام میں مقبول ہوتی چلی گئی ۔اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناول اپنے دور کی تہذیبی اقدار کی کشمکش کا رزمیہ ہوتا ہے۔اور ان حقائق کی پیشکش کے لیے ناول نگار اپنے تخیل کے ذریعے’ قصہ پن‘کا رنگ گھولتا ہے اور قارئین کے لیے دلچسپ بناتا ہے۔ ناول ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں ایک انسان اپنی زندگی سے متعلق تمام رنگ دیکھ سکتا تھا ،اس قصے نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ،لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول کی غیر معمولی مقبولیت کا راز اس کی اسی جمہوریت پسندی میں مضمر ہے ۔ایک ناقد کے نزدیک ناول کی جو خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں وہ ہیں :
ناول جزبے کے تحت حیات انسانی کے اتار چڑھاؤکی کہانی ہی کا نام ہے۔یہ رزمیہ سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایک عام انسان کی زندگی کی تصویر ہوتی ہے اوررزمیہ کا موضوع فوق البشر کی زندگی ہے اور پھر ناول کا انسان معمولی جذبات و تاثرات کا تابع ہوتا ہے ۔فوق البشر کے جذبات بھی غیر معمولی دلیرانہ یا شدید ہوتے ہیں ۔ناول ڈرامے سے بھی مختلف ہے کیونکہ ڈرامے میں جذبات کی کشاکش دکھائی جاتی ہے اور ناول کا موضوع ایک ایسی زندگی ہے جو جذبات کے تسلسل اور رَو کا قدرتی نتیجہ ہو ۔ڈرامے میں زندگی کی ترجمانی عمل سے اور ناول میں بیان سے کی جاتی ہے۔
مولوی نذیر احمد کے نزدیک :
جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے اس وقت سے مرنے تک اس کو جو بھی باتیں پیش آتی ہیں۔ اور جس طرح اس کی حا لت بدلا کرتی ہے ان سب کا بیان ہی ناول ہے۔
یہ صنف اپنے اچھوتے پن کی وجہ سے اور اس میں کچھ نیا ہونے کی وجہ سے ’ناول ‘ کہلایا۔ ناول کے لفظی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی فرماتے ہیں کہ :
ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے،اس کی شکل (Novella) ہے۔جو اردو میں انگریزی کے واسطے آیا اور اس وقت جب انگریزی میں ایک صنف ادب کی حیثیت سے ناول کی روایات پختہ ہو چکی تھیں ۔لیکن اٹلی والے نظم و نثر میں روز مرہ زندگی کے معمولی واقعات کو مسلسل اور مربوط انداز میں ناویلا کے نام سے یاد کرتے تھے،کبھی کبھی ان قصوں کی بنیاد رزمیہ کہانیوں پر رکھی جاتی تھی اور کبھی گھریلو واقعات سے ناویلا کا تانا بانا تیار ہوتاتھا۔ بالعموم ایسی داستانیں پھیری لگا کر گانے والے پیشہ ور خانہ بدوش فقیروں کی زبان،یا پھر ان لوگوں کے ذریعہ سے جو داستان گوئی بطور پیشہ اختیار کر لیتے تھے۔اور طویل داستانوں کو حِفظ کر لیتے تھے۔آہستہ آہستہ ملکی و قومی ادب کے سرمایہ میں شامل ہونے لگیں ۔فرانس میں اس قسم کی داستانوں کے قدیم ترین نمونے Chansons de geste یادلاوری کے گیت ہیں
(اردو نثر کا فنی ارتقا ’ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ مشمولہ : ناول فنی نقطۂ نظر سے ،ص ،76)
ناول اردو ادب کی اہم شاخ ہے جس میں ادب کی ممتاز شخصیات نے طبع آزمائی کی ہے ۔یہ ایک مشکل فن ہے جس میں کچھ فنی لوازم بھی موجود ہیں جس کے بغیر بہترین ناول کی تخلیق ممکن نہیں ۔ ناول کے اجزائے ترکیبی میں (1) قصہ (2) پلاٹ (3) کردار نگاری (4) مکالمہ نگاری (5) منظر نگاری (6) نقطۂ نظر کا ہونا لازمی ہے ۔جس کے بغیر ناول کا تصورممکن نہیں اگر ہم اردو ناول نگاری کے ابتدائی سفر کی بات کریں تو اردو ناول نگاری کا دور 1857 کے انقلاب کے بعد شروع ہوتا ہے ۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب ملک میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو ان کی تہذیب و معاشرت کا اثر بھی زندگی کے مختلف شعبوں پر رونما ہوا۔اور ان تبدیلیوں کا اثر ہمارے ادب پر بھی پڑا۔ طویل داستانوں کا طلسم ٹوٹنے لگا تھااور حقیقی قصوں و واقعات نے اپنی جگہ مستحکم کی ۔اسی دور میں سرسیداحمد خاں جیسے مصلح ہوئے، خصوصاً مسلم عورتوں کی اصلاح ،فلاح و بہبود کے لیے سرسید اور ان کے رفقا نے نمایاں کردار ادا کیا۔ معاشرے میں عورتوں کو ان کا صحیح مقام دلانے کی حمایت میں سر سید نے تعداد ازدواج ،پردے کی بے جا رسم اور بہ آسانی طلاق دیے جانے کی مخالفت کی وہ تعلیم نسواں کے بھی ہم نوا تھے ،جس کا اظہارو حمایت انھوں نے 1870 میں تہذیب الاخلا ق کے ذریعے عورتوں کی تعلیم ،رفاہ عورت ،اور کثرت ازدواج وغیرہ کے عنوانات سے مختلف مضامین تحریر کر کے کیا۔ انھوں نے پہلے شمارے میں لکھا تھا کہ :
 ہندستانی مسلمانوں کو کامل درجے کی سویلز یشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سولائزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ دنیا میں معزز اور مہذب قوم کہلائیں ۔
(بھارتیہ سماج و سنسکرت :کیلاش ناتھ شرما ،ص 211)
 انگریزوں کے ہندستان میں قابض ہو جانے،مغل حکومت کی بادشاہی کا سورج غروب ہو جانے اورجنگ آزادی کی شکست نے مسلمانوں کو ذہنی اور معا شرتی طور پر معذور کردیا تھا تعلیم و تربیت سے دوری اور فکری نظام نہ ہونے کے باعث وہ پستی کی آخری منزلوں تک پہنچ گئے تھے ،اس گمراہی و غفلت سے نجات دلانے کے لیے سرسید احمد خاں نے مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی جو آج اردو ادب میں سر سید تحریک کے نام سے مشہور ہے ۔اس تحریک کا اصل مقصد ہی ہندستانی مسلمانوں کو دینی معاشرتی اور اخلاقی پستی سے باہر نکالنا تھا۔ 1904 میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے’ خاتون‘ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیا گیا ،اس کے علاوہ کچھ وقفے کے بعد شیخ عبداللہ نے باقاعدہ علی گڑھ میں عورتوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیا جو ویمنس کالج کے نام سے آج بھی موجود ہے ۔جس نے ملک بھر میں عورتوں کی تعلیم کو عام کیا ۔
اس آزادی کی جدو جہد میں بہت سی مذہبی و اصلاحی تحریکات بھی رونما ہوئیں جس میں آریہ سماج اور برہمو سماج وغیرہ نے عورتوں کی ترقی کی نئی راہیں ہموار کی ۔جس سے سماجی اور مذہبی کاموں میں عورتیں بھی شرکت کرنے لگیں،جو اس سے پہلے نہیں تھی،1914میں ڈاکٹر اینی بسنٹ نے تمام ہندستانیوں کو مخاطب کرکے یہ اپیل کی کہ اگر وہ اپنے ملک کی نجات اور فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے عورتوں کی اصلاح کرنی پڑے گی ۔1917 میں عورتوں کی جدید انجمن مارگریٹ کزنس جو عورتوں کی حمایت کی بہت بڑی لیڈر تھی مدراس میں مسز اینی بسنٹ کے تعاون سے قائم کی ۔اس کے بعد عورتوں کی آزادی کی تحریک تیزی سے بڑھنے لگی جن میں مسز اینی بسنٹ ،سروجنی نائیڈو ،کستوربا گاندھی ،بی امان ،اور مسز وجے لکشمی پنڈت وغیرہ پیش پیش رہی ہیں، یہی نہیں بلکہ آزادی کی جدو جہد میں وہ وقت بھی آیا جب وقتی طور پر عورتوں اور مردوں کو بھی یکجا کر دیا تھا ۔اس کے بعد توعورتوں کی حمایت میں کئی تحریکیں اور اسکیمس شروع ہوئیں ،آل انڈیا ویمنس کانفرنس کا افتتاح ہوا ، جس سے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے عورتوں کو کئی بنیادی حقوق حاصل ہوئے ،جس کے تحت 1926 میں پہلی بار ہندستانی عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا ، آزادی کی جد وجہد میں شریک ہونے کا موقع نمک ستیہ گرہ کے ذریعہ ملا، ساتھ ہی عورتوں کو آزادی اور مساوات کی بھی اب باتیں شروع ہو گئی۔1931 میں انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس جو کہ کراچی میں منعقد ہوا تھا اس میں عورتوں کو بہت سے بنیادی اور دستوری حقوق دینے کا اعلان کیا گیا،اس اعلان سے ہندستانی عورتوں کا ایک نیا باب شروع ہوا ،انڈین نیشنل کانگریس کے اعلان نامہ میں کہا گیا تھا :
 جنس کے اختلاف پر کوئی تخصیص نہیں برتی جائے گی ۔
لیکن عورتوں کی لڑائی اس کے بعد بھی جاری رہی ،ان حقوق کے ملنے سے ان میں ایک نیا جوش پیدا ہوا ،ان میں غیر متوقع تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں ۔عورتوں نے تعلیمی تحریک میں بھی حصہ لیا ،اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ادبی حلقوں میں اپنا علیٰحدہ مقام پیدا کیا ،تعلیمی تحریک چونکہ بنگال سے شروع کی گئی تھی ، اس لیے ہمیں بنگالی ادب میں عورتوں کی خدمات کا بہت بڑا سرمایہ ملتا ہیں ۔اس سلسلے میں رابندر ناتھ ٹیگور کی بہن سورن کماری دیوی بنگال کی پہلی ناول نگار خاتون کا شرف رکھتی ہیں ،اس کے علاوہ آشا لتا ،آشا پورن دیوی ،اور لیلا مجمد ار وغیرہ کا نام بھی بنگالی ادب میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اسی طرح ہندی ادب میں بھی ہمیں ایک طویل فہرست خواتین ادیباؤں کی نظر آتی ہے ،جن میں ہوم دتی دیوی ، اوشا دیوی ،کرشنا ساہا ،ست دیوی ملک اور مہادیوی ورما کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔اگر ہم اردو ادب کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سر سید احمد خاں کے علاوہ حالی نے بھی اصلاح کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کو سنجیدگی سے لیا اور اسے فروغ دینے پر زوردیا۔ خواتین پرحالی کی لکھی گئی کتابوں میں’مناجات بیوہ ‘،’چپ کی داد ‘،اورمجالس النسا ‘کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔ صالحہ عابد حسین کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ :
حالی سے پہلے اردو شاعری میں عورت کا کوئی خاص مقام نہ تھا ۔اس کا ذکر آتا بھی ہے تو محض محبوب کی حقیقت سے وہ بھی کوئی اونچے کردار و اخلاق کے حامل نہیں ہوتی بلکہ اس کی حرکتوں میں شریف عورت سے زیادہ طوائف جھلکتی ہے ۔اس کی اصل صفات ایثار، قربانی،جفا کشی ،محنت، وفا،پرستش،محبت،خدمت کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ماں، بہن، بیوی، اور بیٹی کی حیثیت سے اس کا بلند کردار ساری دنیاکی تاریخ میں عموماً اور ہندستان میں خصوصاً رہا ہے اس کا اشارہ بھی شاید کہیں مل سکے“۔ (مقدمہ مجالس النسا)
حالی عورت کو انسانیت کا بلند ترین مقام عطا کرتے ہیں۔ وہ ایک عورت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ عورت کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں اور ہنر مندی کو بھی بہت اہم مانتے تھے خصوصاً اس بات پر کہ عورتوں کے لیے بعض اوقات علم سے زیادہ ہنر سود مند ثابت ہوتا ہے حالی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ :
علم بادشاہ ہے اور ہنر اس کا وزیر ہے،جیسے بادشاہ بغیر وزیر نکما ہوتا ہے اسی طرح علم بغیر ہنر کے دنیا میں کام نہیں آتا “۔
اس کے علاوہ شبلی، ذکاءاللہ وغیرہ نے سماج کی اصلاح کے ساتھ ہی ادب کی بھی اصلاح کو لازمی سمجھا۔ان حضرات میں ایک اہم نام ڈپٹی نذیر احمد کابھی شامل تھا۔نذیر سے اردو ادب میں ناول نگاری کی بنیاد پڑی ۔جس طرح انگریزی میں رچرڈسن کی تخلیق ’پامیلا‘سے ناول نگاری کا آغاز ہوا اسی طرح اردو میں نذیر احمد کی ’ مرأة العروس1869 ‘،’توبتہ النصوح1877 ‘،’بنات النعش1873‘،’ابن الوقت 1888‘،اور’ ایامیٰ، رویائے صادقہ ‘جیسے ناول اردو ناول کا نقطۂ آغاز کہے جا سکتے ہیں ۔ نذیر احمد نے ان تمام ناولوں کو طبقۂ نسواں کے مسائل کو اور ان کی اصلاح کے لیے لکھے تھے ۔ نذیر احمد کا عورتوں کے بارے میں ایک خاص تصور جو ان کے ناولوں کے مطالعے کے بعد نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ نذیر احمد ایک عورت کے لیے شرافت ،نیکی، پارسائی،تمیز و تہذیب ،اخلاق،امور خانہ داری ،اور خدمت گزاری جیسے اوصاف کو لازمی سمجھتے ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ان تمام اوصاف کو بیک وقت ایک عورت میں تلاش کرتے ہیں، ان کے یہاں عورت کا تصور نیک اور بد کے درمیان تضاد پر ہوتا ہے ۔ ترنم ریاض ایک مقام پر رقم طراز ہیں کہ :
دلچسپ بات ہے کہ اس دور میں خواتین ادیبوں کی تحریروں کا ایجنڈا کسی خاتون نے نہیں ،بلکہ ایک مرد نے تیار کیا اور وہ شخصیت ڈپٹی نذیر احمد ہیں ،نذیر احمد نے مرأة العروس میں اصغری کے کردار کے ذریعے ایک رول ماڈل تیار کیا اور یہ رول ماڈل اردو ادب میں خاصی دیر تک ڈولتا رہا ، اصغری کا کردار ،جو دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم تاریخ ،سائنس ،جغرافیہ، اور جنرل نالج ،سے مالا مال تھا۔ مسلمان اردو داں طبقے میں ایک ماڈل کی حیثیت سے تقریباً آدھی صدی تک مقبول رہا ۔
( خواتین اردو ادب میں تانیثی رحجان ،مشمولہ : ’شاعر ‘( ممبئی شمارہ 11،2003 ‘ص،34)
اس طرح تانیثی نقطۂ نظرسےاردوناول پراولین نقوش نذیراحمد کے ناولوں میں رونما ہوتے ہیں۔ انھوں نےعورتوں کے مسائل کو بھی اپنے ناولوں میں پہلی بار منظر عام پر لانے کی جرأت کی۔
بقول علی احمد فاطمی :
نذیر احمد نے اردو میں پہلی بار ناول کی صنف کو روشناس کرایا اور پہلی بار مسلمانوں کے متوسط گھرا نوں کی روز مرہ کی زندگی،تربیتی مسائل،اور بالخصوص عورتوں اورلڑکیوں کے تہذیبی و تعلیمی مسائل پر روشنی ڈالی ۔کسی ناول میں بیوہ کا مسئلہ اور کسی میں شادی کا مسئلہ اور کسی میں ہنر مندی کے مسئلہ کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا اور حد یہ ہے کہ ہریالی کے کردار میں نذیر نے طوائف کو بھی بڑے سلیقے سے پیش کیا۔
( علی احمد فاطمی ’ تحریک نسواں اور اردو ادب ‘ص 47)
نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں بعض اہل قلم کا اصرار بھی ہے کہ ان کے قصے ناول نہیں تمثیلیں ہیں مگر یہ درست نہیں ،البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ناولوں میں کچھ نقائص موجود ہیں لیکن ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ہمارے اردو ادب کے ابتدائی ناول ہیں ۔اس سے پہلے ان کے سامنے اردو میں ناول کا کوئی باقاعدہ نمونہ موجود نہیں تھا ۔اوراردو میں وہ اس صنف کا بیج پیدا کر رہے تھے ۔ظاہر ہے ایسے حالات میں کچھ کمیاں رہ جانی لازمی ہے بس یہی ان کے یہاں ناولوں میں بھی موجود ہے ان کا یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ انھوں نے خیالی اور مافوق الفطری عناصر سے دامن چھڑا کے اصلی دنیااور حقیقی زندگی سے روشناس کرایا ۔اور اپنے ناولوں میں مسلم گھرانے کے مسلم تہذیب و معاشرت کے جیتے جاگتے مرقعے پیش کر دیے ۔اگر چہ ان کے خالص اصلاحی ناولوں نے ان کے فن کو نقصان بھی پہنچا یا ۔
نذیر احمد کے بعد اردو ناول نگاری کی دنیامیں دوسرا اہم نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا آتا ہے۔ان کے یہاں بھی ہمیں تانیثی رحجان کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ،ان کی تصانیف میں ’فسانۂ آزاد‘،’سیر کہسار ‘’جام سرشار‘، اور’ کامنی ‘وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ان کے یہاں ایک آزادی کی فضا ہے۔ان کی کہانیوں میں داستانی رنگ و آہنگ نمایاں ہیں۔ انھوں نے لکھنوی تہذیب اور زوال آمادہ تہذیب و معاشرت کو بہت قریب سے دیکھا تھا جس کو انھوں نے اپنی تصانیف کے سانچے میں بھی ڈھالا ۔اس لیے ان کی تصانیف میں ہم لکھنؤ کی بھی جیتی جاگتی تصویر دیکھ لیتے ہیں۔سرشار کو سب سے زیادہ شہرت و بلندی فسانۂ آزاد کے ذریعے حاصل ہوئی ۔جس میں اودھ کی زوال آمادہ جاگیر دارانہ تہذیب ،انگریزی حکومت کے قیام کے اثرات ،نوابوں و امرا کی مصنوعی زندگی کی حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ان کے دو جاندار کردار آزاد، اور خوجی اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں ہمیں اس دور کی تہذیب و معاشرت،اور سماج میں عورت کا مرتبہ اور اس کی اہمیت کا بھر پور اندازہ مل جاتا ہے۔انھوں نے محلوں سے لے کر متوسط گھرانوں کی لڑکیوں اور طوائفوں کی زندگی کو بھی اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ۔بقول فہمیدہ کبیر:
طبقہ اعلیٰ کی عورتوں کے علاوہ سرشار دوسرے طبقوں کی عورتوں اور سماج میں ان کے مرتبے سے بھی بخوبی واقف ہیں۔مثال کے طور پر نچلے طبقے کی عورتوں کو لیجیے ۔امرا اور نوابین کی زندگی سے ان کا جو تعلق تھا اس کی بڑی کامیاب تصویریں انھوں نے اپنے ناولوں میں پیش کی ہیں ۔ نوابوں اور امیروں کا مہریوں اور ماماوں سے عشق سرشار کے عہد کی بہت بڑی حقیقت ہے اور یہ حقیقت ان کی نظر سے پو شیدہ نہیں ان کی فطرت سے سرشار نے گہری واقفیت کا ثبوت دیا ہے ۔ نوابین کی فطری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا اچھی طرح جانتی ہیں۔جسم فروشی ان کا خاص پیشہ ہے ۔ جس کی بدولت اُمرا اور جاگیر داران کے جال میں پھنستے ہیں ۔ نوابوں سے ان کے تعلق کی بنیاد دولت کی لالچ اور بیگم بننے کی خواہش کے سوا جذبے پر نہیں ہوتی ۔“( اردو ناول میں عورت کا تصور ،ص44)
 سرشار نے اپنے ناولوں میں عورتوں کا جو تصور پیش کیا اس سے ان کے عہدکی عورتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اس وقت سماج میں عورتوں کا کیا مقام و مرتبہ تھا ،سرشار اپنے ناولوں میں دو طرح کی عورتوں سے ہمیں متعارف کراتے ہیں جن میں ایک طرف وہ ازواجی رشتے میں بندھی تعلیم سے محروم ، معاشی و اقتصادی حقوق سے محروم ایک بے رحم زندگی گزارتی ہے تو دوسری طرف ایک ایسی عورت پیش کرتے ہیں جو طوائف کی صورت میں محلوں اور نوابوں کی خواب گاہوں تک رسائی حاصل کرتی ایک بے باک عورت کا تصور ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ عورتوں کی تعلیم کے بھی ہم نوا تھے ،تعلیم سے متعلق ایک مقام پر کچھ یوں رقم طراز ہیں :
عورت اگر تربیت یافتہ ہوگی تو اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے عمدہ تعلیم دے گی ،اخلاق سکھائے گی ، اچھی اچھی باتیں بتائے گی “(فسانۂ آزاد، ’جلد اول ‘ص326)
فسانۂ آزاد میں سرشارکا کردار حسن آراانتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اس کردار کے ذریعے سرشار نے اپنے ذہن میں محفوظ مثالی خاتون کا کردار پیش کیا ہے ۔سرشار ایک ترقی پسند ذہن رکھتے تھے اس عہد میں جب عورتوں کی تعلیم کا رواج نہ تھا اور نہ کوئی انتظام ،شرفاکی عورتیں بھی گھر کی چہار دیواری تک محدود تھی ،جن کو تعلیم دینا معیوب سمجھا جاتا تھا اس وقت بھی وہ عورتوں کی تعلیم کو اہم سمجھتے تھے یہی نہیں بلکہ وہ دیگرعلوم و فنون میں بھی عورتوں کو مردوں کے برابر تصور کرتے تھے جس کا اظہار انھوں نے اپنے کردار حسن آرا کے ذریعے یوں پیش کیا ہے کہ :
جو میاں اور بیوی دونوں تعلیم یافتہ ہوں تو خوب ہی مزے سے کٹے....ہاں مورکھ عورتیں چاہے اس کی فکر نہ کریں مگر ہمیں تو شاق گزریں ۔لطف یہ ہے کہ میاں کتاب پڑھ رہے ہیں اور بیوی مزے سے سن رہی ہے بیوی نے پڑھا کبھی میاں کو سنایا کبھی اخلاق پر بحث ہو رہی ہے کبھی شعر و شاعری کا چرچا ہے ....یہ ان کو صلاح نیک دیں وہ ان کو مشورہ دیں اَن پڑھ لاکھ ذکی ہو پھر بھی جاہل ....ہماری دلی آرزو یہ ہے کہ ہم مدرسۂ نسواں قائم کریں میں نے ایک لکچر لکھا ہے ۔ میاں آزاد اگراصلاح دے دیں تو میں کسی دن یہاں کی شریف زادیوں کو جمع کرکے لکچردوں شاید کسی کے دل پر اثر کرے اور کوئی نتیجہ نکلے ۔
(بحوالہ : فسانہ

¿ آزاد جلد اول ،رتن ناتھ سرشار: ص :297,322)
سرشار نے اپنے ناولوں میں مضبوط عورت کا تصور پیش کیا ۔ان کے ناولوں میں حسن آرا کے علاوہ ثریا ،سپہر آرا،روح افزا ،نازک ادا ،بہار النسا ،گیتی ،گلشن آرا،مہ لقا ،کلیرسا،غفورن،جانی بیگم ، عباسی مہری وغیرہ اہم کردارہیں ۔اردو ناول میں سرشار کے بعد عبد الحلیم شرر بھی کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے گرچہ اصلاحی اورسماجی ناول بھی لکھے ہیں لیکن ان کی پہچان دراصل تاریخی ناول نویسی کی بنا پر ہوئی،شرر نے اسلام کے تا ریخی واقعات کو اپنا سر چشمہ بنایا اورعروج اسلام کا نقشہ،آباواجداد کی فتوحات وغیرہ کواپنےتاریخی ناولوں میں بڑے جذبات و احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ان کے ناولوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ان میں جو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ان میں (1)فردوس بریں ،(2)فلورافلورنڈا،(3)منصور موہتا(4)ملک العزیز ورجینا،(5)حسن انجلینا، (6)ایام عرب (7)زوال بغداد،(8)فتح اندلس،(9)عزیز مصر،(10)بابک خرمی (11) شوقین ملکہ (12) فلپانا وغیرہ شامل ہیں ۔شرر نے معاشرتی ناول بھی لکھے جن میں (1) اسرار دربار حرام پور (2) آغا صادق کی شادی (3) بدر النساءکی مصیبت کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔انھوں نے جس وقت ناول لکھنے کی شروعات کی وہ ایک کشمکش کا دور تھا ۔جس میں مشرق و مغرب کی تہذیب و تمدن کا باہمی تصادم عروج پر تھا۔لیکن ان سب کے باوجود بھی مسلمان عورتوں کے مسائل کو انھوں نے اپنے ناولوں میں جگہ دی ۔ ان مسائل میں جاگیردارانہ معاشرت کی عورتوں پر زیادتی،تعلیم نسواں،توہم پرستی،مغربی تہذیب اورتعلیم سےدوری،آداب معاشرت سے عورتوں کی ناواقفیت ،جیسے مسائل درپیش تھے۔ لہٰذا ان مسائل نے ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کی اصلاح کے لیے انھوں نے قلم کا سہارا لیا ۔سرشار نے اپنے ناولوں میں بے شمار نسوانی کرداروں کو پیش کیا جن کے ذریعے ہم ان کے عہد کی ہو بہ بہو تصویر دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن ان کے یہاں مذہبی کرداروں کی بہتات ہے مثلا ان کے کردار اگر مسلمان ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورت تو وہ ایماندار ،راست باز ،جانباز ،بہادر ،اور تلوار کے دھنی ہوتے ہیں اور اگر وہ کردار غیر مسلم یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہوئے تو وہ بد اخلاق،کمزوریوں اور بد اخلاقیوں سے لبریز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے ناول کا مرکزی کردار خاتون دنیا کی سب سے حسین و جمیل ،نازک ،نیک خیال اور اچھائیوں کا مجسمہ ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہیں کہ ان کے خواتین کردار جیسے موہنا ،فلپانا ،عاتکہ ، زمرد، وغیرہ سب حقیقی کردار نہیں بلکہ قدیم داستانوں اور اساطیری کہانیوں کے کردار معلوم ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں بقول ڈاکٹر احسن فاروقی :
ان کے کردار میں انفرادیت کا کوئی پتہ نہیں اکثر کردار متضاد اور غیر فطری نظر آتے ہیں ،مرد عورتیں بچے سب ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں ....عورتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی چھو کر بھی نہیں گزرے ان کے ناولوں میں سے کسی میں بھی ایک بھی زندہ کردار نہیں ملتا۔
(بحوالہ : اردو ناول کی تنقیدی تاریخ ،ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ص،82,122-123)
لیکن ان سب کے باوجود بھی انھوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کی تعلیم و تربیت ان سے متعلق بعض دیگر مسائل پر جیسے مسئلہ بیوگی ،پردے کی خرابی ،اور بچپن میں بچیوں کی شادی جیسے سماجی مسائل کو عام کیا ۔ ناول نگاری کی فہرست میں ایک اہم نام مرزاہادی رسوا کا آتا ہے جنھوں نے اپنی جدت پسندی ،وسعت نظر،باریک بینی،فنی اوصاف،اور قوت مشاہدہ سے اردو ناول نگاری کی نئی راہ ہموار کی۔ انھوں نے شعوری طور پر اردو ناول کوفنی اوصاف کا حامل بنانے کی بھی کوشش کی، رسوا کا زمانہ متضاد کیفیت کا حامل تھا،اس وقت دو تہذیبی قدریں شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہی تھی،ملکی تہذیب نزاعی کیفیت سے دوچار ہورہی تھی۔اور مغربی تہذیب اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نمودار ہورہی تھی۔یہ زمانہ سیاسی،تہذیبی،معاشی ،سماجی،اور ادبی غرضکہ ہر لحاظ سے بحرانی و عبوری تھا ۔سلاطین و نوابین اور عوام سبھی لوگ معاشی زبوں حالی کے شکار تھے۔ رسوا نے انھیں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھاجو کبھی صاحب تخت و تاج تھے اور پھر وہی بھیک مانگنے کے لیے بھی مجبور کر دیے گئے، اپنے زمانے کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے مرزا رسوا لکھتے ہیں :
یہ شریف گردی کا زمانہ ہے اور اپنے ہاتھوں کسی قسم کی تعلیم نہیں،اچھی صحبت نہیں پھر بنے تو کیوں کر بنے۔انھیں بھیک مانگنے والوں میں وہ لوگ ہیں جن کے بزرگ بر سر حکومت تھے۔
( بحوالہ :مرزا محمد ہادی رسوا ’ اختری بیگم ۔کراچی ،نفیس اکیڈمی ، ص ۔99)
غرض کہ اس عہد میں سیاسی ،سماجی اور معاشی انتشار،افراتفری،لوگوں میں ذہنی بے اطمینانی اور فرار کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی،بقول آل احمد سرور :
ناول لکھنے کے لیے ایک سنجیدہ شعور اور خیال کی ایک گہرائی اور گیرائی ضروری ہیں
( بحوالہ :آل احمد سرور ’ ناول کیا ہے ‘ دوسرا ایڈیشن ‘ ص ۔5 )
مرزارسوا نے پانچ ناول لکھے جن میں (1) افشائے راز (2)اختری بیگم (3) ذات بیگم (4) ذات شریف (5) شریف زادہ (6) امراؤجان ادا شامل ہیں ۔رسوا کا پہلا ناول افشائے راز نامکمل ہے ۔مرزا رسوا کے ناولوں میں نہ صرف موضوع اور مواد کے تجربے ملتے ہیں بلکہ ان میں تمام فنی لوازم کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے اس کے علاوہ ان کے ناولوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ عورتوں کی زوال آمادہ تہذیب میں طوائفوں کی زندگی کو نئے زاویے سے حقیقی ترجمانی کی جس کی مثال ان سے پہلے اردو ادب میں نہیں ملتی ۔اس زمانے میں عورتوں کے حالات کی ایسی تصویر کشی اور کہی نہیں ملتی کہ شریف آدمی طوائفوں کی زلفوں میں سکون تلاش کرتا جب کہ بیویاں گھر کی زینت کا سامان بن کر اپنی قسمت کا رونا روتی ۔ اردو فکشن میں ان کا ناول ’ امراؤ جان ادا ‘ جسے ہم پہلا تانیثی ناول بھی کہہ سکتے ہیں اس سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جس میں انھوں نے نہ صرف اس زمانے کی عکاسی کی بلکہ اس عہد کا ترجمان بنادیا۔اس ناول میں ہم اس عہد کی سماجی ،سیاسی،تہذیبی حالات و واقعات کی ہوبہ ہو تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ان کے دیگرناول ’شریف زادہ،اوراختری بیگم میں انھوں نے عورت کے نت نئے مسائل کو اجاگر کیا لیکن ’امراؤجان ادا‘ان کا شاہکار ناول ہے اور ان کے اس ناول کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ آج تک کسی اور کو نصیب نہ ہوسکی ۔ان کا یہ ناول شاہکار ہے، جس نے اردو ادب میں رسواکو امر کردیا ۔اس ناول میں انھوں نے ایک ایسی لڑکی کی زندگی کی ترجمانی کی ہے جو گناہ آلود سماج و سوسائٹی میں زندگی بسر کرنے والی بے بس و لاچار اپنے اندر پوشیدہ ایک نیک اور شریف عورت کو بے نقاب کیا ہے ۔ڈاکٹر یوسف سر مست ’ امراؤ جان ادا ‘ کے بارے میں ایک مقام پر فرماتے ہیں :
امراؤ جان ادا ‘اپنی اس خصوصیت سے آغاز ہی سے نہ صرف قاری کی دلچسپی کو اپنی طرف منعقد کرلیتا ہے بلکہ قاری خود بھی اپنے آپ کو اس ماحول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔آغاز ہی سے لکھنؤ کی تہذیبی اور تمدنی زندگی اپنی خصوصیات سمیت آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں ۔
(ڈاکٹر یوسف سرمست ،’بیسویں صدی میں اردو ناول ‘ صفحہ111)
بقول علی عباس حسینی :
مرزا صاحب کا یہ ناول (امراؤ جان ادا) مجموعی حیثیت سے اردو کا شاہکار ہے اور اس پر ہماری زبان جتنا بھی فخر کرے بجا ہے ۔
(علی عباس حسینی ’ ناول کی تاریخ ا و رتنقید‘ ص،337)
اردو ناول میں ایک اہم نام راشدالخیری کا ہے جنھوں نے عورتوں کے مسائل پر قلم اُٹھایا جس کی بنا پر ان کو ’ مصورغم ‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ۔ کیونکہ انھوں نے اپنے ناولوں میں عورت کی دردناک تصویریں پیش کی ہیں ۔عورت کی تعلیم و تربیت،گھریلو نظام،عورت کی سماجی حیثیت شوہر و بیوی کے حقوق وغیرہ جیسے مسائل ان کے ناولوں کے اہم جز رہے ہیں جن کو انھوں نے اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے۔ان کے اہم ناول صبح زندگی، منازل السّائرہ،شب زندگی،طوفان حیات،جواہر قدامت،سراب مغرب،شام زندگی، بنت الوقت، تیغ کمال،اور حیات صالحہ وغیرہ بہت مقبول ہوئے یہ ان کے اصلاحی ناول کہے جا سکتے ہیں۔ ان تمام نا ولوں میں انھوں نے اپنے عہد کے متوسط گھرانوں کی عورتوں کے حالات و واقعات اور ان پر ہورہے ظلم و تشدد کو بیان کیا ہے ۔
اردو فکشن کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے ،فکشن کو اپنی سر زمین سے جوڑنے کا سہرا منشی پریم چند کے سر ہے جنھوں نے بے شمار افسانے اور بارہ ناول لکھ کر اردو فکشن میں بقائے دوام حاصل کیا ۔ پریم چند نے اپنے ناولوں کے ذریعے حقیقت کی ترجمانی کی۔ ان کے تقریباً تمام ناولوں میں تانیثیت کی بھر پورعکاس ہے ۔انھوں نے ان گنت کردار پیش کیے جو مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے مسائل و مطالبات بھی جدا گانہ ہیں۔ان کے ناولوں میں بازارحسن،بیوہ،غبن ، نرملا، پردہ مجاز، میدان عمل،چوگان ہستی،اور گﺅدان خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان کے ناولوں میں ہمیں حقیقی زندگی کی عورتیں اور ان کے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کے دور کی عورتیں دبی ، کچلی،اورظلم وجبرکا شکارتھیں۔ جن کو کوئی انفرادی حیثیت حاصل نہیں تھی۔بچوں کی پرورش،شوہر کا حکم ماننا ان کا دل بہلانا عورتوں کا اولین فریضہ تھا۔جہیز جیسی بدترین رسم کا بول بالاتھا جو کہ آج بھی اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے۔قاضی عبید الرحمٰن ہاشمی نے پریم چند کی تخلیقات میں عورتوں کی تصویر کشی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ :
پریم چند کے دور تک ماں کے علاوہ عورت کے دو خاص روپ نظرآتے ہیں ۔ بیوی اورمحبوبہ اور ان دونوں سے وابستہ جذبات و احساسات میں اصلیت و صداقت اکثرنا پید ہوتی ہے۔ پریم چند کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے عورت کو اس کی مختلف النوع شکلوں حالات اور کشمکش میں دیکھنے دکھانے کی کوشش کی ہیں ۔یہاں رانیاں بھی ہیں ،ٹھکرانیاں اور راجپوتنیاں بھی،مہارانیاں،مامائیں،مزدوراور کسان عورتیں،شہری تہذیب کی نمائندہ،تعلیم سے بہرہ ور،فیشن زدہ عورتیں اورطوائفیں بھی،البتہ جو بات پریم چند کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کی محکم روایت کے خلاف عورت کو اپنی تخلیقی کائنات میں اس کی اصلی معصومیت اور نیک نفسی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
(میراث ہنر ،ص67 ،پریم چند ،بیوہ، جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی 1955 ص،65)
پریم چند نے اعلیٰ طبقوں کی عورتوں میں راجپوت شہزادیوں،اوررانیوں کی زندگی کو اپنے کردار امادے ،لاچھل دیی،چوگان ہستی کی رانی جانوی اور اندو وغیرہ کے ذریعے پیش کیا جو اپنے خاص معیارومرتبہ،ریتی رواجوں کے ساتھ ہمارے سامنےآتی ہے۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں متوسط طبقے کی عورتوں کوخاص جگہ دی اور منفرد زاویے سے ان کی عکاسی کی ہے جن میں پہلا گروہ متوسط طبقے کا وہ ہے جو مغربی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہے جن کا رہنا سہنا،کھانا پینا مغربی طرز پر ہے جو خود مختار بھی ہے اور بعض معاملات میں مردوں کی برابر بھی ہے جو قومی و ملی مسائل پر بھی غور وفکر کرتی ہے اور دوسرے گروہ میں خالص مشرقی ذہن رکھنے والی خواتین شامل ہے ، جو اپنی زندگی کا تانا بانا گھرکی چہار دیواری میں امور خانہ داری،شوہرکی خدمت میں ہی بنتی ہیں لیکن ان عورتوں میں کچھ ایسی بھی شامل ہیں جو اس زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی اورسماجی زندگی میں بھی دلچسپی رکھتی ہے ۔تیسرا گروہ ان خواتین کا ہے جو سماجی اور سیاسی اصلاح چاہتا ہے لیکن جو اپنے طبقے میں خود کی کوئی جگہ بنانے میں کسی طرح کامیاب نہ ہوسکا۔اس گروہ میں طوائف عورتیں بھی شامل ہیں ۔اسی طرح ایک طبقہ عورتوں کا وہ بھی ہے جو کاروباراورسرمایہ داری سے بھی جڑا ہوا ہے ۔اس کے علاوہ پریم چند کے ناولوں میں عورتوں کے نچلے طبقے میں وہ عورتیں شامل ہیں جن کو اچھوت مانا جاتا ہے جودیہی زندگی گزارنے والی کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والی ہیں ۔اس سلسلے میں دھنیا،منی،جگو،پنیا،سلیا،چوہیا،سونا،روپا،چھینا،مہاراجن،نہری وغیرہ بے شمار کردار شامل ہیں ان میں کچھ کردار تو اردو دنیامیں لافانی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس سلسلے میں کشن پرشاد کول کا کہنا ہے کہ :
پریم چند نے عورتوں کا وہی معیار پیش کیا ہے ،جو بھاگوت گیتا ،پرُانوں،اور ہزاروں سال پہلے کی کتابوں میں ملتا ہے۔
(بحوالہ :نیا ادب ،کشن پرشاد کول،ص175)
اس طرح ہم کہہ سکتے ہے کہ پریم چند کے ناولوں کے کردار ہندستان کی عورتوں کے حقیقی ترجمان ہیں ،بقول سید مقبول حسین :
پریم چند کے ناولوں میں عورتوں کے کردار مردوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔“      ( بحوالہ : زمانہ کانپور ،پریم چند نمبر ،ص 242)
پریم چند کے بعد کرشن چند کا نام آتا ہے جنھوں نے تقریبا ً تین درجن ناول لکھے انھوں نے کشمیر کی خوبصورت وادیوں کے پیچھے پوشیدہ دردناک حقائق کو اپنے ناولوں کا موضوع بنانے کے ساتھ ممبئی کی گھٹن وغلاظت کو بھی اپنے نا ولوں کا موضوع بنایا ۔ان کا ناول’چاندی کا گھاؤاور’ایک عورت ہزار دیوانے‘ تانیثی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں ۔
اس عہد کے ایک اور نامور قلمکار راجندرسنگھ بیدی کا نام بھی بہت اہم ہے حالانکہ انھوں نے بیشتر افسانے لکھے جن میں عورتوں کی فطرت اور ان کی نفسیات کو انھوں نے اپنا موضوع بنایا ۔لیکن ان کا ایک ناولٹ جو اردوادب میں شاہکار ہے اور وہ ہے ’ایک چادر میلی سی ‘ جو کہ1964 میں شائع ہوا۔اس میں انھوں نے عورتوں کی زندگی اور ان کے مسائل کے ان چھوئے پہلوؤں ،کو اجا گر کرنے کی سعی کی ہے ۔
 اردو ناول نگاری میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی پیش پیش رہی ۔اور انھوں نے اردو ناول کے دامن کو نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا ۔عورتوں نے ترقی پسند تحریک کے زمانے میں بھی اپنی نمایا ں خدمات انجام دی،اورتخلیقی،تنقیدی،اور تحریری خدمات کو بھی انجام دیتی رہی ۔قاضی عبدالغفار،صغرا ہمایوں مرزا،نذرسجادحیدر،رضیہ سجاد ظہیر، صالحہ عابد حسین ،رشید جہاں،عصمت چغتائی،قرةالعین حیدر،جمیلہ ہاشمی،خدیجہ مستور،بانوقدسیہ،رضیہ فصیح احمد،جیلانی بانو،واجدہ تبسم،صغرا مہدی،عفت موہانی ،نادرہ خاتون ،اے آر خاتون،زبیدہ خاتون،بشریٰ رحمٰن،رضیہ بٹ،فاطمہ مبین،وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔ان خواتین ناول نگاروں نے اپنی صلاحیتوں اپنی قابلیت،وسیع النظری کے بل پر اپنی علیٰحدہ شناخت قائم کی اور اپنے قاری کے دلوں پر راج کیا ۔کچھ خواتین قلمکاروں نے تو گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی باہر کی دنیا میں انقلاب برپاکیا ،اور یہ ثابت کیا کہ ہنر ہی کی پہچان ہوتی ہے،ہنر کو دیواروں میں مقید نہیں کیا جا سکتا ۔
اردو ناول نگاری میں عصمت چغتائی اور قرةالعین حیدر جیسی ادیباﺅں نے خواتین ادیباﺅں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ان عورتوں نے بڑی بے باکی ،اور دلیری کے ساتھ عورتوں کے مسائل کو اجاگر کیا ۔اور مردانہ معاشرے میں عورتوں کو ان کی اہمیت و افادیت اور ان کے حقوق کے لیے صدائیں بلند کی ۔عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں تانیثیت کی بھرپورعکاسی کی ہے اور جس طرح انھوں نے عورتوں کی تصویر کشی کی وہ کسی اور خاتون تخلیق کار کو نصیب نہ ہو سکی ۔انھوں نے متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کو خصوصاًاپنے ناولوں کا حصہ بنایا ، اوران کے جذباتی اور جنسی پہلوؤں کواجاگرکیا۔عورت کے احساسات و جذبات ،سماج میں اس کی حیثیت،اس کی نفسیات وغیرہ کو بہت خوبصورتی سے پہلی با رکوئی خاتون الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر منظر عام پر لے کر آئی۔ ان کے کچھ افسانے ایسے بھی تھے جن کی وجہ سے ان پر فحش نگاری کا الزام بھی عائد ہوا،جس کی مثال ان کاافسانہ ’لحاف ‘ ہے ۔ ان کے ناولوں میں ’ٹیڑھی لکیر‘ اور ’دل کی دنیا‘ تانیثی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے تمام معاشرتی برائیوں،اور مسائل کو عورت کے ذریعے پیش کیا۔بقول اے رحمن ثاقب :
عورت اور مرد برابر ہیں “ کا نعرہ بیسویں صدی کی ابتدا میں شدت اختیار کر چکا تھا۔ اس کو فنی جامہ پہنانے والی ادیباؤں میں عصمت آگے رہی ہیں ،اور اپنی تحریروں میں ہر مقام اور منزل سے عورت کی مساویت کی پر جوش حمایت کرتی رہی ہیں۔
(عصمت چغتائی اور جنگلی کبوتر کے نسوانی کردار ،مشمولہ ،رسالہ،ممبئی۔18،ستمبر1978 ص ،8)
 خواتین ناول نگاروں میں ایک ممتاز حیثیت رکھنے والی قلمکار قرة العین حیدر ہیں جو اردو فکشن میں عظیم الشان حیثیت کی حامل خاتون ہیں۔ان کی شہرت زیادہ تراس نئی تکنیک کے سبب ہے جسے شعور کی رو کہا جاتا ہے ،ان سے پہلے اردو ادب میں اس تکنیک کے استعمال کا عمدہ نمونہ نہیں ملتا ۔ان کا ادبی کارنامہ تقریباًچھ دہائیوں سے بھی زیادہ عر صے پرمحیط ہیں۔ان کا ادبی کینوس نہایت وسیع ہے ۔ یہی نہیں ان کے موضوعات کے دائرے میں بھی تنوع پایا جاتا ہے ۔ان کے ناول اور افسانوں دونوں ہی میں سیاسی، سماجی،تہذیبی،ثقافتی،اور نفسیاتی زندگی کی عکاسی ملتی ہے ،یوں تو ان کے سبھی ناول اپنی جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں ،لیکن ان کے مقبول و معروف ناولوں کی فہرست میں’میرے بھی صنم خانے‘،’ سفینۂ غم دل ‘،’ آگ کا دریا‘آخر شب کے ہم سفر‘،’ کار جہاں دراز ہے‘ ،گردش رنگ چمن‘ اور چاندنی بیگم‘شامل ہیں ۔انھوں نے اپنے ناولوں میں عورت کے کئی روپ دکھائے ہیں ۔قرةالعین حیدرایک مقام پر یوں رقم طراز ہیں کہ :
ازل سے اب تک عورت ہی وہ مخلوق ہے جس کی قسمت میں ساری بد نصیبیاں لکھی ہوئی ہیں ۔ یہ عورت ہی ہے جو ساری عمر مرد کی مختلف قسموں سے محبت کرنے کے بعد بھی ٹھکرا دی جاتی ہے ۔ کبھی مرد اسے شوہر کے روپ میں ٹھکرا دیتا ہے ۔کبھی بیٹا ماں کے روپ میں، محبوب محبوبہ کے روپ میں لیکن عورت اس کے باوجود ان تمام مختلف رویوں سے بے انتہا پیارکرتی ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو اپنی بے چارگی ،اپنی مجبوریوں اور مایوسیوں کا رونا رونے کے لیے گرجا گھروں،مندروں ،تیرتھ استھانوں،درگاہوں،اور مزاروں میں جاتی ہے ،اور اپنی بے بسی کا شکوہ کرتی ہے ۔
( یادوں کی دھنک جلے ‘،ص، 136)
لہٰذا اردو ناول نگاری کا جو سلسلہ نذیر احمد نے شروع کیا تھا ،اب وہ حقیقت کے ساتھ سماج کا آئینہ دار بھی بننے لگا،عورتوں نے اپنے مسائل کی کھل کر ترجمانی کی۔جہاں ایک طرف مرد قلمکاروں نے عورتوں کی زندگی کو موضوع سخن بنایا جن میں اقبال مجید (ناول : نمک ،اس دن )، شفق (ناول : بادل، کابوس )،عبد الصمد (ناول :دو گز زمین ،مہاتما،خوابوں کا سویرا ،مہا ساگر ،دھمک )،شموئل احمد ( ناول : مہاماری ،ندی )،غضنفر ( ناول : پانی ،مم)،پیغام آفاقی (ناول ، مکان ) ،مشرف عالم ذوقی (لے سانس بھی آہستہ ،نالۂ شب گیر،)وغیرہ کے نام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں وہیں دوسری طرف وقت کے ساتھ بے شمار خواتین ناول نگار جن میں جمیلہ ہاشمی ،خدیجہ مستور ،بانو قدسیہ ،رضیہ فصیح احمد ،صغرا مہدی، جیلانی بانو، واجدہ تبسم ،ثروت خاں،وغیرہ نے اس صنف میں دست آزمائی کی،جس سے بے شمار نئے مسائل ونئے تقاضے کے ساتھ بہت سے ناول وجود میں آئے، جن میں جمیلہ ہاشمی کا ناول’تلاش بہاراں‘کا مرکزی کردار’کنول کماری ٹھا کر‘ایک ایسی خاتون ہے جو نسائی حسیت سے لبریز ایک ایسی عورت کا پیکر ہے جس میں جمیلہ ہاشمی نے اپنے احساسات و تخیلات کو سمویا ہے ،انھوں نے اپنے اس کردار میں عورت کی مظلومیت ،محکومیت،جبر و استحصال،مجبوری و محکومی کو ہی نہیں پیش کیا بلکہ اس ناول کے ذریعے عورتوں کو یہ بھی پیغام دیا کہ رونے اور ظلم سہنے کی بجائے اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کوبھی بیدار کرے ،اور نہ صرف مسائل کا سامنا کرے بلکہ مردانہ سماج کے سوتیلے رویوں کے خلاف بھی آواز بلند کریں ۔بقول ڈاکٹر سید جاوید اختر :
ناول کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کا موضوع ’تلاش بہاراں‘نہیں بلکہ عورتوں کی آزادی اور عظمت اس کا بنیادی موضوع ہے ۔ یوں بھی چار سو اٹھارہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں گنتی کے آخری چند اوراق فسادات اور انسان دوستی کا تذکرہ پیش کرتے ہیں جب کہ بقیہ ساری روداد ہندوستانی عورت کی مظلومیت اور بے کسی کی تصویر کشی ہے۔ کنول کماری ٹھاکر کے کردار کو مرکز بنا کرعورت کی عظمت اور آزادی کا خواب دیکھا گیا ہے۔
(بحوالہ : ڈاکٹر سید جاوید اختر ’اردو کی ناول نگار خواتین (بسمہ کتاب گھر ،دہلی 2002، ص 147)
اس طرح جمیلہ ہاشمی نے اپنے اس ناول میں ہندوستانی سماج میں عورت کی زندگی کو پیش کیا ہے ، اس ناول کے تمام کردار خالص ہندوستانی عورتوں کی زندگی کے المناک پہلوؤں کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ہندوستان میں صدیوں سے عورتوں کے ساتھ غیر منصفانہ رویوں ان پر جبر و استحصال کی طویل داستاں کوبیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح اردو کی ایک اوراہم ناول نگار خدیجہ مستور ہیں جنھوں نے ’عورتوں‘ کی آزادی اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کی ، لیکن انھوں نے باغیانہ تیور کے بجائے نرم اور سبک آواز میں پر اثر پیرائے میں اپنی باتیں رکھی۔چونکہ بحیثیت خود ایک عورت ہونے کے ناطے وہ عورتوں کے جذبات واحساسات،ان کے مسائل کو بخوبی سمجھتی تھیں لہٰذا انھوں نے نئے زاویے سے اپنی باتوں کو مردوں کے ہی انداز میں پیش کیا۔
آنگن‘ خدیجہ مستور کا شاہکارناول ہے جو1962میں منظرعام پرآیا´۔اس ناول کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ خدیجہ مستور نے مختلف طبیعتوں،مختلف مزاجوں،اور مختلف نظریات و افکار، اور مختلف خیالات و احساس رکھنے والی عورتوں کو پیش کیا،اس ناول کا بنیادی پیغام یہ دینا ہے کہ تعلیم و تربیت ،تجربے و مشاہدے کے لحاظ سے سوچ اور رویے تو عورتوں کے مختلف ہو سکتے ہے لیکن بنیادی طور پر ان تمام کا ہی فکری دائرہ ’عورت ‘ کا ہے ۔
بانو قدسیہ کا نام بھی تانیثی فکرکے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔ان کا اہم ناول’ راجہ گدھ ‘تانیثی حسیت کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے یہ ناول 1981 میں منظر عام پر آیا۔یہ ناول سمندر کی سی گہرائی رکھنے والا فکر انگیز ناول ہے ۔جس میں عورت کے ذ ہنی اور نفسیاتی درد و کرب کی ترجمانی کی گئی ہے ۔’راجہ گدھ ‘دراصل ایک علامت ہے جو مرد کی جنسی ہوس پرستی اور حرص ، رشوت،دھوکہ،فریب ،لوٹ،مار،جھوٹ، دغا، کااستعارہ ہے۔اسی طرح گدھ ایک نجس اور مردہ خور پرندہ ہے ،گویا وہ ایک گدھ کے مانند ہے ،جس میں حرام حلال کی تمیز مٹ چکی ہے ۔
رضیہ فصیح احمد نے بھی تانیثی تناظر میں اہم ناول لکھے جن میں ’آبلہ پا‘اور ’ انتظار موسم گل ‘ اہمیت کے حامل ہیں جن میں خاص طور پر سماج میں عورت کے ساتھ دوہرے رویے کے خلاف صدا بلند کی گئی ہے۔ان دونوں ناولوں میں اعلیٰ طبقے کی سماجی زندگی کو برتری دی گئی ہے ۔’آبلہ پا ‘ کا کردار ’صبا‘ ایک اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والی تعلیم یافتہ ،سنجیدہ،ذہین،اور سلیقہ مند لڑکی ہے جو اپنی معصومیت سے نو تشکیل پاکستانی معاشرے میں مردوں کے مکر و فریب کے جال میں پھنس جاتی ہے۔اس کےعلاوہ اس ناول میں ہم دیکھتے ہے کہ رضیہ فصیح احمد نے اپنے ان دونوں ہی ناولوں میں زمیندار طبقے کی عورتوں پر ظلم و جبر، اور استحصال کے ساتھ عورتوں کی باغیانہ آواز کو بھی دکھایا ہے کہ عورت پر جب صبر کا باندھ ٹوٹتا ہے تو وہ کس قدر باغی ہو سکتی ہے ۔
صغرا مہدی کا نام تانیثی ادیباؤں میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔جنھوں نے اردو فکشن میں بطور تانیثی مصنفہ کے اپنا اہم مقام حاصل کیا اور اپنی شناخت قائم کیے۔ان کے ناولوں میں’پروائی‘،دھند‘،راگ بھوپالی‘اور’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘اہم ہیں ۔ان کے ان تمام ناولوں میں تانیثیت کی گونج صاف سنائی دیتی ہے ۔ان ناولوں میں صرف ملکی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی مثلاً امریکہ، کنیڈا، انگلینڈ، جیسے ترقی یافتہ ممالک کی دوڑتی بھاگتی زندگی کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان ناولوں میں داخلی اور خارجی دونوں ہی حسیت کو پیش کیا گیا ہے ۔
جیلانی بانو نے اپنے ناولوں’ایوان غزل‘،اور’ بارش سنگ‘کے ذریعے نسائی ادب میں اہم مقام پیدا کیا۔ یہ دونوں ناول بہت مقبول ہوئے۔ بقول وہاب اشرفی :
مختصراًیہ کہا جاسکتا ہے کہ’ایوان غزل ‘ایک ایسا ناول ہے جس میں حیدرآباد کے تہذیبی اور معاشرتی سقوط کا المیہ پیش کیا گیا ہے۔اس میں معاصر ماحول اور تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی اقدار کے کئی اہم پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔مہاتما گاندھی کے سول نافرمانی تحریک سے شروع ہو کر ملک کے المیے پر ختم ہونے والا یہ ناول ایک طرف اپنے ہندوستان کے تہذیبی معاشرتی،نقوش سمیٹے ہوئے ہے تو دوسری طرف معاشرے کے اعلیٰ طبقات کی عورتوں کی زندگی بھی اس میں نمایاں ہے ۔
(بحوالہ: تاریخ ادب اردو ’جلد سوم ‘،ص 1299)
واجدہ تبسم نے اپنے ناول ’نتھوکی عزت ‘اور ’کیسے کاٹوں رین اندھیری ‘ کے ذریعے تانیثی فکر و شعور،احساسات وجذبات اورخاص کرمردانہ بالادستی کو جھنجھوڑنے کا کام کیا ۔واجدہ تبسم نے حیدرآباد دکن کی مسلم تہذیب و ثقافت کے پس منظر میں پو شیدہ عورت کی بے بسی ،لاچاری،مظلومی،محکومی،اس کی حیثیت اور مجبوریوں کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ۔واجدہ تبسم کے ناولوں میں طوائفوں کی زندگی بھی اہم جزو رہی ہے ۔اسی طرح ثروت خاں کا پہلا ناول ’اندھیرا پگ، تانیثی حسیت میں اہم مقام رکھتا ہے۔ جس میں انھوں نے راجستھانی سماج میں بیوہ عورتوں کی حیثیت و مقام کو پیش کیا ہے ۔انھوں نے اپنے اس ناول کے ذریعے ان حقیقتوں کو سامنے لا کھڑاکیا جو اب تک پو شیدہ تھیں ۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ناول سماج و معاشرے کاآئینہ بن کر عوام کے سامنے رونما ہوا۔وہ قصے کہانیوں کی فرسودہ و مافوق الفطری عناصر سے کوسوں دور حقیقت کا ترجمان بننے لگا ۔عورتوں کی دست آزمائی سے وہ زندگی کے اورزیادہ قریب ہونے کے ساتھ ساتھ ان چھوئے پہلوؤں کا بھی ترجمان بننے لگا ۔اور اس میں موضوعات کی وسعت اس قدر بڑھی کہ زندگی سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس پر قلم کاروں نے دست آزمائی نہ کی ہو۔اس طرح ہر ناول اپنے عہد کا ترجمان بننے لگا۔ جس میں ہم اس عہد کے مسائل ،اس عہد کی تہذیب و معاشرت،اس عہد کے تقاضے اور سیاسی و سماجی حالات و ان میں عورتوں کے حالات و مسائل کی ہو بہ ہو تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ناول نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بھی بدلا ہے ،اور نئے موضوعات کو ہمیشہ جگہ دی ہے تانیثیت کی بھر پور نمائندگی بھی ہم اس صنف میں دیکھ چکے ہیں ۔فلپ ہینڈرسن اپنی مشہورتصنیف ’جدید ناول ‘میں لکھتا ہے کہ :
یہ امر مسلم ہے کہ عظیم ترین ناول کا مقصد جیساکہ ہمیشہ رہاہے آج بھی انسانیت کا انقلاب ہے تاکہ اس انسانیت کے انقلاب سے سوسائٹی یا سماج کو بدلا جا سکے۔
لہٰذا ناول نگاری انسانی زندگی کاترجمان بنتا رہاہے ۔اس کا دامن بھی بہت وسیع ہوچکا ہے اورآج ناول صرف مردوں تک محدود نہیں،بلکہ عورتوں نے اپنی خدمات شامل کر کے اس صنف کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔جن کو فراموش کرنا اردو کے ایک بڑے ذخیرے کو فراموش کرنے کے مانند ہے ۔
Saleha Siddiqui
157/12, Rajapur, Allahabad, (UP)
Pin-211002
Mob. 09899972265


سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون 2016


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



1 تبصرہ:

  1. أپ نے جس طرح سے ناول کے ابتدا اور اس کے ارتقا کو اپنے مطالعے کے مطابق پیش کیا ہے أپ کی غاٸرانہ نظریے کا پتہ دے رہی ہے۔ أپ کا یہ مضمون قابل قبول ہے أپ نےحوالے کے ساتھ پورا مضمون تالیف و ترتیب کیا جو کہ کسی تحقیقی مضمون کی جان ہے۔ناول کو پوری زندگی کا ترجمان کہا جاتا ہے أپ نے بہت ہی عمدہ نظریہ ناول کے متعلق پیش کیا ۔۔

    جواب دیںحذف کریں