26/8/19

تیرہویں صدی ادب لطیف کا نمائندہ رسالہ مضمون نگار: محمد رضوان خان



تیرہویں صدی 
ادب لطیف کا نمائندہ رسالہ


محمد رضوان خان



ادب ِ لطیف ایک ایسا رویہ ہے جو اپنے ذہن وفکر کی توانائی اور خیالات کی بلند آہنگی کی بنا پر رجحان کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ادب لطیف سے مراد ایسا ادب ہے جس میں خیالات کو لطیف بنا کر پیش کیا گیا ہو۔ جو اسلوب کی جدت، تراکیب کی شگفتگی اور الفاظ کی میناکاری کے ساتھ خوب صورت طرز ادا اور حسن اظہار سے معمور ہو، جو ادب کو اپنے مخصوص زاویۂ نظر سے دیکھنے اور پر کھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کسی بھی فکر و رجحان کی بہتر اشاعت و تبلیغ میں اخبار و رسائل کا اہم رول ہوا کرتا ہے۔ کیوں کہ ماہ نامے ہفتہ وار اور روزنامے، عوام اور خواص کی دل چسپیکا اہم مظہرہوتے ہیں ۔ خصوصےت کے ساتھ رسائل وجرائد کے مدیران اگر خود صاحب قلم ہونے کے ساتھ فکری طور پر کسی مخصوص رجحان کے حامی ہوں تو پھراس کی ترسیل کا کام آسان ہوجاتا ہے اور فکری ابلاغ میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔ تیرہویں صدی(دہلی) دل گداز( لکھنو،مخزن(لاہور)صلائےعام(دہلی)نقاد(آگرہ) نیرنگِ خیال(لاہور)نگار(لکھنو کراچی)اور ہمایوں(لاہور)کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ میرنا صر علی، عبد الحلیم شرر، سر عبد القادر، دل گیر، حکیم یوسف حسن، نیاز فتح پوری، یلدرم، مہدی افادی، سلطان حیدر جوش اور میاں بشیر احمد نے اپنے رسائل کی مدد سے ادب لطیف کے فروغ میں اہم کردار انجام دیا۔ مذکو رہ بالا رسائل کے مدیران کا اختصاص یہ ہے کہ ان کا شمار ادب لطیف کے اولین معماروں میں ہوتا ہے۔ بایں حال سرسیدکی علی گڑھ تحریک اور ان کا تہذیب الاخلاق آب وتاب کے ساتھ فکری مشن پر چھایا ہوا تھا۔ ان حالات میں Compatativeکے طور پر کام کرنا یقینا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ادب و نظریات کی ترویج واشا عت کے کئی دور گذرے ہیں اور ان میں ادبا وشعرا کو کئی پڑاؤسر کرنے پڑے ہیں۔ یہ اپنے تشکیلی دور سے آج تک مختلف رجحانات، تحریکات، اسالیب اور نظر یات کے سہارے ہم تک پہنچے ہیں۔ ایک دور تشکیلی ہے۔ اس میں کئی ادبی اور لسانی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ علی گڑھ تحریک، رو مانی تحریک ،ترقی پسند تحریک ، حلقۂ اربابِ ذوق اور تحریک ادب اسلامی نے اپنے اپنے طور پر زبان اور اصنافِ ادب کے فروغ کے لیے راہیں ہموار کیں، تاہم ہنوز اردو زبان و ادب نے تمام ارتقائی منازل طے نہیں کیے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بات بھی خاطر نشان رہنی چاہیے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں ہی ہندوستانی معاشرت اور سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا تھا، کیوں کہ مغل حکومت کے زوال کے بعد ملک کی باگ ڈور انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔ لہٰذا انھوں نے تجارتی مقاصد کو بروئے کار لاتے ہوئے غا صبانہ ذہنیت کے ساتھ تقریباً ملک بھر میں قبضہ کر لیا۔ نتیجے کے طور پر مغربی افکارو نظر یات کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع میسر آیا۔ اس کے ردِّ عمل میں تین اہم فکری رجحانات وجود میں آئے۔ انیسویں صدی میں سید احمد بریلوی اور سر سید احمد خان، دیا نندسر سوتی اور راجہ رام موہن رائے، لارڈ ولزلی اور ڈلہوزی کے افکار و نظر یات ہندوستان کے منظر نامے پر مرتب ہوئے۔ چوں کہ سید احمد بر یلوی نے مسلم قوم کے جذبہۂ جہاد کو متحرک کیا، دیا نند سر سوتی نے قدیم آریائی سماج کے احیا کی کوشش کی، جب کہ راجہ رام موہن رائے اور سرسید احمد خان نے روشن مستقبل کے پیش نظر زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے اور جدید علوم و فنون کے حصول کی صلاح دی۔ سر سید احمد خان کی تحریک کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب پورا ملک غلامی، محکومی اور جمودو تعطل میں گھرا ہوا تھا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو علوم و فنون کے سہارے ترقی کے راستے بتائے اور مستقبل کی راہ ہموار کی ۔اس طور پریہ مسلمانوں کے لیے ایک فکری اور عملی تحریک بھی تھی، جس نے دونوں اعتبار سے نشاةِ ثا نیہ کا اہم فریضہ انجام دیا۔ چونکہ مسلمان اس وقت سیا سی، معاشی اور فکری اعتبار سے زوال کا شکار ہوچکے تھے،لہٰذا سر سید احمد خان نے، جن کی ذات جدیدیت اور قدامت دونوں کے امتزاج سے عبارت تھی، مسلمانوں کے روشن مستقبل کے خاکے میں مغربی علوم سے رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ چوں کہ علی گڑھ تحریک کی محرک1857 کی جنگ آزادی ہے، جس نے مسلمانوں کو بدتر حالت گذار نے پر مجبور کیا، ایسے میں علی گڑھ تحریک کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا ۔ چوں کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی دونوں اعتبار سے محکوم ہوچکے تھے۔ علی گڑھ تحریک جن بنیادوں پر قائم تھی اس کا نصب العین، طریقۂ کار اور مقصد بالکل واضح تھا۔ اس کا سب سے فعال زاویہ نظر ادبی تھا اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی، بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِبیان اور روحِ معا نی بھی متاثر ہوئے۔ چوں کہ سر سید اور ان کے رفقا کا نظر یہ ادب کے تعلق سے یہ تھا کہ ادب برائے زندگی ہو، یعنی ادب مقصد ، اجتما عیت ، ارضیت اور ضرورتِ حال کے مطابق ہو۔ ادب ہماری زندگی پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوکہ ہمارے اخلاق و عا دات و اطوار، اور ہمارے ثقافتی، معا شرتی اور تہذیبی احوال کی اصلاح ہو۔ ادب کے ذریعے ہمارا ذوق پرا گندہ نہ ہو، بلکہ ذوقِ سلیم پیدا ہو اور ادب سے انبساط کے ساتھ ذہنی آ سودگی بھی میسر آئے۔ ان مقاصد کو ہم اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کر سکتے ہیں: مقصدی، اخلاقی اور اجتماعی۔ مگر رفتہ رفتہ مقصدیت کا غلبہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ادب کی لذت، چاشنی اور اس کا اثر جاتا رہا اور نتیجے کے طور پر سپاٹ ادب تخلیق کیا جانے لگا۔ یہ اثر با لکلیہ نثر و نظم دونوں پر پڑا۔ اس کے نتیجے میں یعنی ردِّ عمل کے طور پر رومانی تحریک وجود میں آئی۔ رومانوی تحریک دراصل یورپ میں اٹھی تھی جس کا مقصد ادب برائے ادب تھا، ادب برائے زندگی نہ تھا۔ ادب کسی ایسے مقصد کے تحت نہیں لکھا جانا چاہیے جس کے نتیجے میں ادب کی حلاوت و لذت مغلوب ہو جائے بلکہ اسے ذہنی مسرت حاصل کرنے کے لیے تخلیق کیا جائے، جو کسی بھی طرح کے مقاصد سے ما ورا ہو۔ نثری ادب پر رومانوی تحریک کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا۔ اس کا زیادہ اثر تنقید پر پڑا اور وہ بھی تا ثراتی تنقید پر، یعنی وہ ادب کی دوسری نثری اصناف پر اثر اندا ز نہ ہوسکی۔ لہٰذا رومانوی تحریک کے ساتھ ہی ادب لطیف کا رجحان پروان چڑھا اور یہ رجحان بھی سر سید تحریک کے مقصدی اور افادی ادب کے غلبے کا ردِّ عمل تھا۔ اور اس کے میر کا رواں محمد حسین آزاد، میر ناصر علی دہلوی اور عبد الحلیم شرر تھے۔ ان حضرات کا نظر یہ تھا کہ جذبۂ تخیل کو دبا نا انصاف بر مبنی عمل نہیں ہے، بلکہ اس جذبے کو راہ یاب کرنا چا ہیے۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ علی گڑھ تحریک کی نثر خشک کلاسیکیت بر مبنی ہے، لہٰذا انہوں نے خشک کلا سیکی نثر کا طلسم توڑا اور ادب کی خارجی مادیت کا رخ داخل کی رومانیت سے مملو کر دیا۔ ادب لطیف کے رجحان سے جڑے مصنّفین میں شررکا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو نظم کی جامد ہیئت کو توڑ کر نظم نگار کے خیالات کو ردیف و قافیے کی پابندی سے آزاد کیا اور نظم معریٰ کی داغ بیل ڈالی کیوں کہ شرر،سر سید کے پا بند فکری اظہار سے ماورا ہوکر آزاد روی اور جذبہ و خیال کی جوئے تیز کے ساتھ اپنے زاویۂ فکر کے اظہار کو ہی رومانی زاویہ تصور کرتے ہیں، لہٰذا ان کا ماننا ہے کہ شاعر کو اپنے جذبے اور اظہار خیال میں رد یف و قا فیے کا اسیر نہیں ہونا چا ہیے۔ اس اعتبار سے ہم دیکھیں تو شر ر نے اپنی رومانیت پسندی کو نہ صرف اصناف ِنثر میں ظاہر کیا، بلکہ شاعری میں بھی برتنے کی کوشش کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ادب لطیف کا یہ رجحان سر سید کی زندگی ہی میں رونما ہونے لگا تھا اور اس کا دائرہ کار محدود نہ تھا۔ وہ اس طور پر کہ محمد حسین آزاد نے لاہور سے، میر ناصر علی نے دہلی سے اور شر ر نے لکھنؤ سے اپنے اپنے طور پر اس رجحان کی تر ویج و اشاعت شروع کر دی۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سر سید تحریک کے ردِّ عمل کے طور پر ادب لطیف کارجحان پر وان چڑ ھا اور یہ حقیقت ہے کہ اس کا اثر ادب کی تمام اصناف پر، بطور خاص نثر پر پڑا۔ ادب لطیف نے 1935 تک اپنے اثرات قا ئم کیے اور ادب کی متعدد نثری اصنا ف پر لکھنے والے تیار ہوگئے۔ اس رجحان نے بھی جب مقصد کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا تو اس کے ایک طے شدہ منصوبے (جسے ترقی پسند تحریک اپنا منشور قرار دیتی ہے) اور اعلا نیہ طور پر کام کرناشروع کر دیا۔ انہوں نے ادب کو سماج کا ترجمان بنانے کی پر زور حما یت کی اور اس وقت کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے بحران کو ادب کا موضوع قرار دیا۔ گویا ادب برائے ادب کو ایک مرتبہ نئے منشور کے ساتھ ادب برائے زندگی سے وابستہ کر دیا گیا۔ لیکن یہ وابستگی ایک خاص سیاسی نظریے کی تشکیل آ فر یدہ تھی۔ لہٰذا 1960کے آتے آتے جدیدیت کے نام پر ایک رجحان نمودار ہوا جس نے ترقی پسندیت کو اکھاڑ پھینکا۔ اس تمہیدی گفتگو کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ادب لطیف سے قبل تحریکوں اور رجحانات کا پس منظر ہمارے پیش نظر رہے کہ ادب لطیف کے فکری اور اسلوبیاتی رجحان کی وضاحت اپنے ماقبل اور ہم عصر فکری رویے کے ذکر کے بغیر بہتر طریقے سے شاید نہیں کی جاسکتی تھی۔
 میر ناصر علی دہلوی (1847-1993سید نصیر الدین محمد المنصور الدین ناصر علی کا گھرانہ علم وادب میں ممتاز تھا۔ ان کے آبا و اجداد ترکستان سے ہندوستان آئے تھے۔ ان کا شمار سرسید احمد خان، آزاد، حالی اور شرر کے ہم عصروں، میں ہوتا ہے۔ وہ دہلی کے ایک ایسے مذہبی گھرانے کے چشم چراغ تھے جن کا محبوب مشغلہ ہندوستان میں عیسائی مشنریوں سے مذہب اسلام کی حقانیت کے موضوع پر مناظرے کرنا تھے۔ میر صاحب نے والد صاحب کو بتائے بغیر انگریزی تعلیم حاصل کی اور اتفاق سے انہی پادریوں سے انگریزی پڑھی جو ان کے والد سے مناظرے کرتے تھے۔ انھوں نے دہلی کالج میں تعلیم پائی۔ پچیس سال تک سرکاری ملازمت کی۔ گورنمنٹ کی طرف سے انھیں خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ ان کا ذاتی کتب خانہ بہت بڑا تھا۔ انھوں نے ایک پریس بھی مطبع ناصری کے نام سے قائم کیا تھا۔ سرسید اور حالی کے تہذیب الاخلاق کے جواب میں انھوں نے پہلے 1876 میں آگرہ سے’ تیرہویں صدی‘ نکالا جو 1880 میں’ زمانہ‘ کے نام سے شائع ہونے لگا۔ 1885 میں ’افادہ ایام‘ کی شروعات کی اور 1888 میں اسے بند کرکے’ ناصری‘ کی اشاعت شروع کی اس رسالے کے قلم کاروں میں مرزا حیرت دہلوی کا نام بھی تھا۔ ان کا رسالہ’ صلائے عام‘ تقریباً بیس سال تک شائع ہوتا رہا اور بہت مقبول ہوا۔ اس رسالہ میں بیش تر مضامین ان کے اپنے ہوتے تھے۔ ساری عمر کی پونجی انھوں نے اس میں لگادی تھی۔
میر ناصر علی نے سرسید احمد خان کے نیچری عقائد پر اپنے مخصوص انداز میں سخت تنقید کی البتہ وہ ان کی تعلیمی تحریک سے صد فیصد متفق اور اس کے پر جوش حامی تھے۔ نیاز فتح پوری نے میر صاحب کو اردو کا پہلا اور آخری انشائیہ نویس کہا ہے۔ ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سرسید کے دور میں اس اسلوب کو زندہ رکھا جس کا تعلق اردو نثر کی دیرینہ روایت سے تھا۔ میر ناصر علی کی وفات دہلی میں ہوئی وہ بڑے انشاءپر داز تھے اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے تھے۔ اپنی طویل ادبی زندگی میں انھوں نے بہت کچھ لکھا۔ فارسی میں قر سید نصیر الدین محمد المنصور الدین ناصر علی قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی تھی جس پر انھیں ترکی کے سلطان کی طرف سے خلعت ملی تھی۔
چوں کہ سرسید تہذیب الاخلاق میں علی گڑھ تحریک اور اپنی نیچری فکر کو حاوی رکھتے تھے، جس کے نتیجے میں ان دونوں موضوعات پر بیش تر مضا مین ہوتے تھے۔ میرناصرعلی کو اس بات سے شدید اختلاف تھا، کیوں کہ وہ رومانی اور جمالیاتی فکر و احساس کے حامل تھے، اس لیے لوگوں کے ذہن پر نیچر کے گہرے اثر کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :
نیچر سے مجھے نفرت ہے تو اس لیے کہ اس میں عالمِ خیال کا پتہ نہیں ، نگاہ سے آگے تصو ّر کا کام نہیں۔ یہ تو جو سامنے ہے وہیں تک ساتھ۔ خیال سے واسطہ نہیں۔ انسان اسے لے کر کیا کرے۔ بندگان نیچر سے کون کہے کہ دنیا کی مصیبتیں انسان اسی عالم خیال کی بدولت برداشت کرسکتا ہے۔“ (رسالہ ’تیرہویں صدی، 1298)
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ میرناصر علی کو سر سید کے نظریۂ یچر سے کس حد تک اختلاف تھا۔ ساتھ ہی اس سے ’تیرہویں صدی ‘کے نئے فکر و اسلوب کا ترجمان ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حقیقت سے چشم پوشی قطعی ممکن نہیں ہے کہ تیرہویں صدی نے نئے فکر و احساس اور اسلوب وبیان کی نشاة ثانی کی ہے۔ اس رسالے نے مختصر مدت میں لوگوں کے اذہان کو بدل ڈالا ،فکر کو اپنا ہمنوا بناےا اور اسلوب کو تازگی بخشی ،جس کے نتیجے میں بیش ترقلم کا روں نے ادب لطیف کے نئے فکری رجحان اور اسلوب کی تازگی وشگفتگی کو برتنا شروع کردیا ۔ چوں کہ’ تیرہویں صدی‘ 1879 میں شائع ہواتھا اور نامناسب حالات کے تحت چند سالوں کے اندر بند بھی ہوگیا، اسی دوران 1887 میں عبد الحلیم شرر نے ’دل گداز‘ شائع کیا، جو شر رکے حید ر آباد چلے جانے کے سبب بند ہوگیا، مگر جلد ہی دوبارہ حیدر آباد سے شائع ہوا ۔ پھر نامساعد حالات کے بنا پر اسے مستقل بند کرنا پڑا، مگر شرر نے جب لکھنو میں مستقل سکو نت اختیارکی تو ایک بار پھر ’دل گداز‘ کو لکھنو سے شائع کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ’ دل گداز‘ کے بند ہونے اور شائع ہونے کا سلسلہ جاری رہا، جب کہ حیدر آباد کو دکن کا سیا سی مر کز ہو نے کے ساتھ ادبی مرکز کی بھی حیثیت حا صل تھی اور یہی حیثیت اودھ میں لکھنوکو حاصل تھی۔ دفتری زبا ن فا رسی اور بول چال کی زبان اردو تھی، لہٰذا اس دور کے دواہم مراکز سے رسالے کا شائع ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ مگر رسالہ’ تیرہویں صدی‘ کے چند سالوںمیں بند ہوجانے کے بعد دوبارہ شائع ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ اس وجہ سے قلم کاروں پر ’تیرہویں صدی ‘کے مقابل دل گداز کا اثر زےادہ نظر آتا ہے۔ چونکہ رسالہ ’تیرہویں صدی‘ نے ابتداءً زمین تیار کرنے کا کام کیا، فکر پیدا کی، رجحانات کو عام کیا ،لوگوں کے دل ودماغ مےں اس فکر ورجحان کو ایک سطح تک عام کردیا۔ اب مسئلہ تھا اس فکر کے استحکام کا، جسے بعد کے رسالوں نے بخوبی انجام دےا۔ اس اعتبار سے بعد میں ادب لطیف کے لکھنے والوں پر’ دل گداز‘ کا کچھ زیادہ ہی اثر دکھائی دیتاہے۔ ویسے ’تیرہویں صدی‘ ادب لطیف کا اولین فکری نما ئندہ رسالہ ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ تیرہویں صدی کے متصلاً بعد’ دل گداز‘ شائع ہوا،جب کہ شر رنے’ تیرہوےں صدی‘ کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا تھا اور برسوں دیکھا پرکھا تھا، تو کیا یہ بعید ہے کہ اس رسالہ کا شرر کے ذہن وفکر پر کچھ اثر نہ پڑا ہوگا؟ ممکن ہے اس کے زیراثر شرر نے اس فکر کی ترجمانی کے لیے Extention کے طور پر ’دل گداز‘ جاری کیا ہو، تاکہ اپنے طور پر اس رسالہ کے بند ہونے کے بعد اس فکر کی تر سیل کا کام جاری رہے۔ امکان کی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے ’دل گداز‘ شائع کیا ہوگا، مگر اتنا تو ضرور ہے کہ شر’ر تیرہویں صدی‘ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے ہوں گے۔ کیوں کہ ان کا منفرد اسلوب ہر جگہ پہچا نا جاتاتھا۔ اسی اسلوب میں شرر نے کئی مضامین لکھے جو تیرہویں صدی میں شائع بھی ہوئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شرر کی فکر کو مستحکم کرنے میں اس رسالہ کا اہم ہاتھ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شرر کا یہ اسلوب نمایاں بھی نہ ہوتا۔ شرر کا ایک مضمون جو ’تیرہویں صدی‘ میں شائع ہوا تھا اس کا ابتدائی حصہ دیکھیے:
اسلوب میں عالم خیال عجیب نعمت ہے۔ زندگی اس کے بغیر الجھن اور ہستی اجیرن معلوم ہوتی ہے۔وہ فرش مخمل عیش ہے جس پر سوتے چلے جائیے۔ وہ دامن یار ہے جسے پکڑ کر نہ چھوڑیئے۔ شوق اس کے بغیر بیکار اور آرزو گنہگار ہے۔ ادائے مغاں کا لطف اس میں، شیوئہ شاہداں کی کیفیت اس میں۔ وہ ساز ہے جس کے بغیر کوئی اچھا ، اچھا نہیں لگتا ۔ یہی نشاط ہے جو خالص ہے اور جسے انسان اپنا کہہ سکتا ہے۔ بدمستی ِ شبینہ اسی سے جاتی ہے۔ خواب سحر گہی کا مزہ اسی کی بدولت ہے ۔“ (رسالہ ’تیرہویں صدی، 1298)
 میر ناصر علی کا رسالہ’تیرہویں صدی‘1296 (1879) میں شائع ہوا اپنے عہد میں نکلنے والے رسائل میں یہ رسالہ بہت سی خصوصیات کی بناپر امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نئے ذہنی وفکری رجحان کا علم بردار تھا۔ اس کے خیالات نئے تھے۔ احساسات جمالیاتی اور روحانی تھے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اسلوب میں بھی جدت ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ رسالہ تیرہویں صدی سے ایک نئے ادبی دور کی ابتدا ہوتی ہے، یہ رسالہ اپنے نئے رنگ خیال او رمتنوع فکری اسلوب کی بناپر کافی مقبول ہوا جس کے اثر سے اس دور کے بڑے بڑے مصنّفین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ عبدالحلیم شرر کی تحریروں میں شاعرانہ اور عاشقانہ اسلوب کی جو چاشنی دکھائی دیتی ہے دراصل وہ اسلوب تیرہویں صدی کی ہی دین ہے۔ یہ رسالہ دو حصوں پر مشتمل رہتا  تھا۔ پہلے حصہ میں میر ناصر علی دہلوی کی، فکر انگیز تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں جو اسلوبیاتی اور جمالیاتی اسلوب نگارش سے مملوہوا کرتی تھیں۔ اور دوسرے حصے میں دوسرے اہل قلم کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں اس حصے میں اکبر الہ آبادی اور امجد علی شہری مستقل لکھنے والوں میں تھے۔ ناصر علی شاعرانہ نثر کے سب سے پہلے ادیب شمار کیے جاتے ہیں اور رسالہ ’تیرہویں صدی‘ سب سے پہلا رسالہ اس رسالہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں اور شائع ہونے والے مضامین میں اسلوب کی جدت آفرینی، شگفتہ تراکیب اور الفاظ کی میناکاری پائی جاتی تھی۔ جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عہد میں فنی لوازمات کا کس حد تک لحاظ رکھا جاتا تھا۔ شاعرانہ نثر اور حسن وعشق کی رنگینیاں، لطافتوںں کے ساتھ شعریت پیدا کرنے کی شعوری کوشش کس قدر کی جاتی تھی۔ اس رسالہ میں شائع ہونے والے مضامین اور اسلوب کے تعلق سے یہ کہنا کافی ہوگا کہ شرر کی تحریروں میں جو شاعرانہ اور عاشقانہ اسلوب نظر آتا ہے اسی اسلوب میں لکھے گئے مضامین تیرہویں صدی میں شائع ہوتے تھے۔ لہٰذا دورِ حاضر میں ایسے ادب کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے جس میں لطافت خیال کے ساتھ نزاکت ِخیال بھی بدرجہ اتم موجوود ہو، کیوں کہ ادب لطیف صرف اسلوب ہی نہیں ہے ،بلکہ اپنے خاص طرز کا فلسفہ بھی رکھتا ہے اور اپنے منفرد اندازِ نظر کے ساتھ ادب میں کار فرما ہوتا ہے ۔ اسی مشن اور مقصد کے ابلاغ کے لیے ادب لطیف کے علم برداروں نے مختلف رسائل وجرائد شائع کےے ،تاکہ بہتر اور پر زور ذریعے سے اس کی افہام اور ترسیل کی جائے۔ ان میں رسالہ تیرہویں صدی، دل گداز،صلائے عام ،ہفتہ وار محشر، ہفتہ وار مہذب، ماہنامہ الفرقان، ماہنامہ دل افروز اورماہنامہ مورخ وغیرہ اہم ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ شہرت دوام’ صلائے عام‘ اور’ دل گداز‘ کو حاصل ہوئی ،جس کا آج بھی ادب لطیف کے اہم اور سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے رسائل میں شمار کیا جاتا ہے ۔

مستفادات
.1             ا نشائے لطیف،ل احمد اکبرا ٓبادی
.2             اردو ادب میں رومانوی تحریک،ڈاکٹر محمد حسن
.3             کلاسیکیت اور رومانیت، علی جاوید 
.4             اردو نثر میں ادب لطیف،ڈاکٹر عبدالودود خان   
.5             اردو ادب کی تحریکیں،ڈاکٹرانور سدید
.6             اردو ادب، ڈاکٹر سید عبداللہ
.7             علی گڑھ تحریک، آل احمد سرور
.8             ذوق اور شعور ادب، سید احتشام حسین
.9             اردو جامع انسائکلوپیڈیا جلد دوم

Mohd Rizwan Khan,
 Dept. of Urdu,
 University of Delhi, Delhi-07, Mob:9810862283
E mail:afeefrizwan@gmail.com 


ماہنامہ اردو دنیا، دسمبر 2015



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں