20/8/19

اردو ناول میں اسلوب کے تجربے مضمون نگار: شہناز رحمن





اردو ناول میں اسلوب کے تجربے


شہناز رحمن


فکشن تنقید کے جو اصول و معائر ای ۔ایم فارسٹر نے متعین کر دیے تھے اب تک وہ وہیں جوں کی توں قائم ہیں۔ جب کہ فکشن کی تخلیقی سر گر میوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امتداد وقت کے ساتھ ساتھ ناول اور افسانے کی خارجی اور داخلی ساخت میں نت نئے اضافے اور تجربے ہوئے ہیں ۔لیکن ان تجربات کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی بلکہ مغربی فکشن سے تقابل کیاجا تا رہا جس کی وجہ سے یہ شکوہ زبان زد رہے کہ اردو فکشن حسن و معنویت سے محروم ہے ۔اکا دکا جو سنجیدہ تحریریں موجود ہیں ان میں واقعات کی نوعیت یا اشخاص قصہ پر تبصرہ کرنے کے علاوہ بات آگے نہیں بڑھتی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فارم ،تکنیک ،ہیئت یا اسالیب بیان ،فکشن کی مافیہ سے تعلق ہی نہیں رکھتے ۔پچھلے کئی سالوں میں ناول کے مقابلہ افسانے میں تکنیک اور زبان و بیان پر سنجیدگی سے بحث کی جانے لگی ہے لیکن ناول کا فن ہنوز معرض التو ا میں ہے ۔اس کے دو اسباب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ کتب بینی اور وقت کی قلت کی وجہ سے ناول کی تنقید کا دائرہ وسیع ہو نے کے بجائے محدود ہوتا جا رہا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ فکری و فنی اعتبارسے ناول میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتی ہیں جو قاری کو اپیل کر سکیں ۔ اردو ناول پر”ناول کیاہے ‘‘ (احسن فاروقی )”اردوناول نگاری کی تاریخ اور تنقید“(علی عباس حسینی )”اردو ناول کی تاریخی تنقید “(احسن فاروقی )جیسی کتابیں وجود میں آئے ہوئے زمانہ ہو گیا جن کی بدولت اردو ناول کی روایتی تنقیدمستحکم ہوئی تھی۔پلاٹ ،کردار نگاری ،زمان و مکاں جیسی بحثیں ناول کے حوالے سے کی جانے لگی تھیں اور ”بر صغیر میں اردو ناو ل “(خالد اشرف )ہو یا ”ہند وپاک میں اردو ناول “(انور پاشا )اور ”بیسوی صدی میں اردو ناول “(یوسف سرمست )”اردو ناول: آغاز و ارتقا(عظیم الشان صدیقی )یااردو ناول آزادی کے بعد (اسلم آزاد )ان جیسی تمام کتابیں متذکرہ بالا رسمی اور روایتی کتابوں کی مر ہون منت ہیں جن میں ناول کو پرکھنے کے اصول بنائے گئے تھے اور انھیں کتابوں سے استفادہ کر کے کم و بیش بعد کے لکھنے والوں نے ایک اصول و ضابطے کے تحت ناولوں کے تجزیے کیے ۔اسلم آزاد نے اپنی کتاب میں ناولوں کے جوتجزیے کیے ہیں ان میں روایتی تنقید کے اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔اس کے بعد کے زمانے میں مختلف ناول  نگاروں کی تخلیقات کا تجزیہ کرتے ہوئے کچھ فنی مباحث بھی اٹھا ئے گئے ،جن میں ناول کی ہیئت ،اسلوب ،اور بیانیہ کی بحث یا تکنیک کے تنوع کی مثالیں دینے کی کوششیں ملتی ہیں ۔لیکن اسالیب میں کیے گئے تجربات کا پہلوشروع سے لے کر اب تک توجہ طلب ہے ۔لہذا اس مضمون میں نئے ناولوںمیں اسلوب کے تجربے اور روایت کے تسلسل پر حتی الامکان بات کر نے کی کوشش کی جائے گی اور ناول کے سیاق و سباق میں اس کی معنویت کو بھی اجاگر کیا جائے گا ۔اگر ناول تنقید کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہترین ناولوں کی تعداد کے مناسبت سے تنقید اتنی کم بھی نہیں کہ مایوسی کی فضا پیدا ہو ۔کیوں کہ مختلف اوقات میں ناول پر منعقد کرائے گئے سیمینار کے مباحثوں کی روداد ددیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ کمیاں تو فن کاروں سے بھی سرزد ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے چند مخصوص ناولوں کے علاوہ غیر روایتی ناولوں اور بحث طلب نکات پر گفتگو کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔

جن تخلیقات کا سہارا لے کر اس فن نے ارتقاءکی منزلیں طے کیں اور بنیادیں مستحکم کیں ان میں مراة العروس ،توبة النصوح ، امرا جان ادا ،گدان،ٹیڑھی لکیر، آگ کا دریا ،ایک چادر میلی سی ،آنگن ،خوشیوں کا باغ،وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
نذیر احمد کے ناولوںکواردو قارئین کا ایک بڑا گروہ خام مواد کے طور پر دیکھتا رہا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ لوگوں نے ان میں ناول کی ہیئت اور ساخت کے ابتدائی نقوش تلاش کر کے کامیاب ناول قرار دیا ہے۔ مثلاًپروفیسر ابو الکلام قاسمی نے ”نذیر احمد کے نا ولوں میں بیانیہ اور منشائے مصنف کے مسائل “کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں جوبحث اٹھائی ہے اگر چہ اس کا لب لباب یہ ہے کہ بیانیہ میں مصنف کے بجائے راوی زیر بحث آتا ہے لیکن نذیر احمدکے دیباچوں میں دیئے گئے بیانات کا غلبہ ان کے ناولوں کی ساخت پر اس قدر چھایا ہوا رہتا ہے کہ قاری آزاد نہیں رہ پاتا لیکن دوسری طرف ناول کے فن سے متعلق میلان کندیرا کی ایک رائے نقل کر کے نذیر احمد کے ناولوں کوبہترین ناولوں کا نمونہ بھی قرار دیتے ہیں ۔اپنے ناولوں میں اصلاح پسند مقصدیت کے علم بردار نذیر احمد بطور مصنف باربار مداخلت کر تے رہتے ہیں اس لیے قاری بھی منشائے مصنف کا تابع ہو کر متن پڑھتا ہے لیکن اس کے باوجود نذیر احمد کی ناول نگاری میں فنی استحکام کی خوبیاں موجود ہیں ۔یہ حقیقت بھی ہے کہ نذیر احمد کا اسلوب اگر خطیبانہ ہے تو اس کی وجہ ان کا اصلاحی رویہ تھا جس نے جزئیات کی طور پر جگہ جگہ طویل خطابیہ مکالمے ناول کوعطا کر دیئے ہیں جو پلاٹ میں جھول پیدا کرتے ہیں اور قاری کو اکتاہٹ سے بھی دو چار کرتے ہیں ۔ان کے اس خطیبانہ اسلوب کی وجہ سے ناول کے آرٹ کی ساری تاثیر ضائع ہو جاتی ہے ۔
اس موقع پر نذیر احمد کے ناولوں کا ذکر تو یوں کیا گیا کہ ان کے ناول فن ناول نگاری کے نقش اول ہیں ۔ لیکن مرزا ہادی رسوا کا ناول ”امرا جان “اسلوب میں تجربے کی ایک عمدہ مثال ہے ۔اس میں پہلی بار واحد متکلم کی تکنیک کا سہارا لے کر قصے کو بیان کیا گیا اور یہ احتیاط برتی گئی کہ تکذیب بیان کی صورت کہیں  پیدا نہ ہو نے پائے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت تک جب غائب راوی اور متکلم راوی کے حدود و دائرہ کار اتنے واضح نہ تھے اس کے باوجود” امرا جان“کے واحد متکلم سے بمشکل ہی ایسی کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے جو متکلم راوی کے منصب کے خلاف ہو ۔بلکہ متکلم راوی کے زبانی واقعہ بیان ہونے کی وجہ سے واقعیت کا عنصر مزید گہرا ہو گیا جس کی وجہ سے اتفاق یہ ہوا کہ اردو ناول کے معصوم قارئین ایک لمبے عرصے تک اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ واقعات کا بیان کنندہ خود مرزا رسوا ہیں ۔یہاں تک کہ بعض قارئین نے لکھنؤ کی گلیوں میں امرا جان کو تلاش بھی کیا ۔لیکن گذشتہ برسوں میں(Narratology) بیانیات کی بحث عام ہونے کے بعدجب راوی کے اقسام اوراس کی مراعات واضح ہو گئیں تب اس غلط فہمی کا ازالہ ممکن ہو سکا اور اردو داں طبقہ اس حقیقت سے آشنا ہوا کہ اس ناول کا واحد متکلم بحیثیت کردار رسوا کے نام سے واقعہ بیان کر رہا ہے ۔لیکن بعض مواقع ایسے بھی آئے ہیں کہ ایک غائب راوی واقعہ بیان کرنے لگتا ہے ۔رام دئی سے وابستہ واقعات غائب راوی کے ذریعہ ہی بیان ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔اسلوب میں تجر بہ کاری کی دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جب رسوا نے یہ ناول لکھا اس وقت ناول نگاری کے جو نمونے موجود تھے ان میں مثالی کرداروںکی پیشکش تھی اور وہی پسند کیے جارہے تھے جن میں شر شار کا مشہور زمانہ کردار ”خوجی “اپنی مخصوص مزاحیہ حرکات کی وجہ سے بہت مقبول تھا ۔ایسے میں رسوا کو ناول کی مقبولیت کو لے کر خدشہ لاحق ہونا چاہیے کہ ان کے اس انداز پیشکش کو لوگ قبول کریں گے یا نہیں ۔لیکن انھوں نے نذیر احمد اور شرشار کے کرداروں سے مختلف کردار تخلیق کیے جنہیں کسی حد تک ہمہ جہت قرار دیا جا سکتا ہے ۔لہذا انھوں نے روایت سے مختلف سادہ اور عام فہم روز مرہ محاورے استعمال کرنے کی بھی کوشش کی اس اعتبار سے ”امرا جان “کو اسلوب میں تجربے کی پہلی مثال کہہ سکتے ہیں ۔محمد حسن نے اس ناول کے اسلوب کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ :
انداز بیان اور لطف زبان کے اعتبار سے بھی امرا جان ادا اردو کے چند کامیاب ترین ناولوں میں ہے ۔۔“اور اس اعتبار سے امرا جان کا اسلوب ناول کی جان ہے ۔“۱
            گدان کے متعلق یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ پریم چند نے اس کے ذریعہ اردو ناول میں حقیقت نگاری کی بنیاد ڈالی ۔لیکن اس حقیقت نگاری کا تعلق موضوعات اور واقعہ کے حوالے سے تھا ۔جب کہ اگر فکشن شعریات کا جائزہ لیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ حقیقت کا عنصر فکشن کے لیے شرط اول ہے ورنہ صرف لطف و انبساط یا حقیقی حالات سے نظریں چرا کر جینے کے لیے داستانوں کا وجود بہت پہلے سے تھا ۔دوسری چیز یہ کہ ناول میں وہی واقعات بیان ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد علت و معلول پر ہو ۔اس شرط کے بعد ناول میں حقیقت نگاری کے سوا کوئی اور گنجائش نہیں بچتی اس لیے ناول اور حقیقت نگاری ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوجا تے ہیں۔ پریم چند کا کما ل یہ ہے کہ انھوں نے حقیقی واقعات کو پیش کرنے کے لیے ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو متعلقہ واقعات کے لیے با لکل مناسب اور ایک نیا تجربہ تھا۔
 نئے زاویے سے مطالعہ کرنے والے کچھ نقادوں نے حقیقت نگاری کو بطور نظریہ قبول کرنے میں تردد محسوس کیا۔اورحقیقت نگاری کو اسلوب اور تعمیر متن کے ایک طریقہ کار کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اس ضمن میں انگریزی کے کئی نقادوں کے بیانات موجود ہیں اردو میں بھی کچھ لوگوں نے اس نکتہ کو واضح کرنے کی سعی کی ہے ۔لیکن کسی بھی نئے نظریہ یا تجربہ کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ جب تک ایک بڑے حلقہ میں عام نہ ہو جائے اس وقت تک اسے اعتبار یا قبو لیت کی سند نہیں ملتی لہذا یہی مسئلہ حقیقت پسند اسلوب کے ساتھ بھی در پیش ہے ۔لیکن یہ ایک الگ بحث ہے ۔
ٹیڑھی لکیر“ کوبیشتر نقادنفسیاتی ناول کی حیثیت سے تسلیم کرچکے ہیں۔ اردو فکشن کی تاریخ میں عصمت چغتائی پہلی ناول نگار ہیں جنھوں نے آزادانہ طور پر ایک کردار کی نفسیات پر پورا ناول تخلیق کر دیا ۔اس سے پہلے رسوا ،عزیز احمداور کرشن چندر وغیرہ کرداروں کی پیشکش میں نفسیاتی پہلوں کی عکاسی کر چکے تھے لیکن عصمت نے جس طرح شمن کے مختلف حرکات و عوامل کے ذریعہ ناول کو دلچسپ بنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔اسی طرح اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ”آگ کا دریا “ایسا ناول ہے جسے اردو ناول کی آبرو کا درجہ حاصل ہے ۔اسے اس بلند مقام تک پہنچانے میں اس کی فنی خوبیوں کا بڑا رول ہے ۔کم و بیش تمام بڑے ناقدین نے اسے موضوع ،ہیئت،ساخت و بافت ،اسلوب ،تکنیک اور مختلف النوع تجربات کا نمونہ قرار دیا ہے۔اس ضمن میں اردو ناول میں موضوع اور پیشکش کے تجربات کی ایک اہم کڑی ”ایک چادر میلی سی “کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اس ناول کی وجہ سے اساطیری اور دیو مالائی عناصر بیدی کے اسلوب کی پہچان بن گئے ۔اسی طرح” خوشیوں کا باغ “لکھ کر انور سجاد نے علامتی اور تجریدی انداز نگارش کی ایک عمدہ مثال پیش کی ہے ۔
متذکرہ بالا ناولوں کو اردو ناول کی صحت منداور غیر متنازعہ ادبی روایت کا حصہ قرار دینے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ عام قارئین کے علاوہ معتبر ناقدین نے بھی ان ناولوں کی اہمیت کو تسلیم کیاہے ۔ ان ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں نئی معنویت تلاش کسی بھی زمانے میں کی جا سکتی ہے ۔اس عرصہ میں اور بھی ناول لکھے گئے لیکن ان میں یکسانیت و تکرار کی آلودہ فضاموجود ہے اس لیے ان کا ذکر بھی غیر ضروری ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد لکھے گئے نالوں میں کس حد تک نئے تجر بات کیے گئے اور روایت کی سطح کوکتنا برقرار رکھا گیا ۔نئے ناولوں کے متعلق وثوق کے سا تھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں دائمی اور آفاقی موضوعات پیش کیے گئے۔ لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کہ ان ناولوں میں اسلوب کے مختلف النوع تجربے موجود ہیں۔ خصوصاً 1980کے بعد کے فن کاروں نے کسی نظریہ کی بالا دستی سے آزاد ہو کر تخلیقی کارنامے پیش کیے ۔یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ اردو شعر و ادب کا ایک طویل عرصہ ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش میں گزرا بے شمار افسانے اور کئی ناول نظریاتی دا پیچ کا شکار ہو کر رہ گئے ۔لیکن1980 کے بعد کے فنکاروں نے ان نظر یات سے برأت کا اعلان کر کے ایسا ادب تخلیق کیا جس میں فن پارہ اور قاری کے درمیان کوئی تیسری چیز حائل نہ ہو ۔
1980 کے بعد ” دوگز زمین،مہاتما ،شکست کی آواز ،(عبدالصمد )مکان ،پلیتہ (پیغام آفاقی )پانی ،دویہ بانی ،شوراب ،مانجھی (غضنفر )بولو مت چپ رہو ،فرات (حسین الحق) کسی دن ،نمک (اقبال مجید ) نمرتا ،آڈینٹیٹی کارڈ (صلاح الدین پرویز )خواب رو ،نادید (جو گندر پال )فائر ایریا (الیاس احمد گدی )پڑا (غیاث احمد گدی )بیان ،لے سانس بھی آہستہ (مشرف عالم ذوقی ) ندی ،مہا ماری ( شموئل احمد ) کانچ کا بازیگر ،بادل ،کابوس (شفق )نمبر دار کا نیلا( سید محمد اشرف )انقلاب کا ایک دن (زاہدہ زیدی)وغیرہ منظر عام پر آئے ۔
دو گززمین “میں بیان کردہ واقعات و مسائل کے پیش نظر اگر اسے روایت کے تسلسل کا ایک نمونہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ہے ۔کیوں کہ جدیدیت کے زیر سایہ جو افسانے اور ناول لکھے گئے تھے ان میں شاعرانہ خوبیوں کی حامل تحریریں لکھ کر تجربہ کار ہونے کا دعوی کیا گیا تھایا روایتی طریقہ کار اور فکشن کے اجزاءکے ساتھ کو ئی مفاہمت نہیں کی گئی تھی ۔ایسے میں عبدالصمد کے ناول میں بیانیہ کے شرائط کی موجودگی لائق تحسین ثابت ہوئی ۔یہ ضرور ہے کہ اس ناول میں ماضی قریب کے رویوں کی بازگشت موجود ہے کیوں کہ جدیدیت نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ناول کے وقوعے عام فہم کے بجائے علامتوں اور استعاروںمیں ملفوف ہوں ،ثابت و سالم کردار وں کی جگہ مسخ چہرے اوربے نام کردار ہوں ۔ظاہر ہے یہ تمام عناصر بے وجہ داخل نہیں کیے گئے بلکہ نئے معاشرے کی چلتی بھرتی زندگیاں شناخت کے مسئلے سے دو چار تھیں اس لیے فن کاروں کے لیے الجھن کا سبب بنیں اورنئی تبدیلیوں کی وجہ یہ جدیداحساسات بن گئے۔
دوگز زمین “کے کرداروں کے لیے بھی شناخت کا مسئلہ در پیش تھا لیکن مصنف نے نہ تو شاعرانہ حربے اختیار کیے ہیں اورنہ ہی لسانی کرتب دکھائے ہیں بلکہ اپنے زمانے کے مسائل کو واضح کرنے کے لیے روایتی اسلوب یعنی وضاحتی بیانیہ میں قصہ بیان کیا ہے اور ایسے کردار منتخب کیے ہیں جو اس پلاٹ کے لیے پوری طرح موزوں معلوم ہوتے ہیں ۔قصہ کا محل وقوع بہار کا ایک مشہور گاں ہے جو اپنے تمام حال احوال سے ایک مانوس جگہ معلوم ہوتا ہے اس اعتبار سے مصنف نے اس روایت کی تجدید کی ہے جو فنی اصالت منوانے والوں کے دور میں کہیں کھو گئی تھی۔اس ناول میں اسلوب کا کوئی نیا تجربہ تو نہیں کیا گیا سوائے اس کے کہ کئی جگہ تضادکی صورت ابھرتی ہے، ان تضادات کی عمل آوری اور معنویت کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں :۔
عبد الصمد ہر بات کو Binary opposition میں دکھاتے ہیں چاہے وہ بات کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو ۔۔ناول کے شروع میں دو تین بار یہ ذکر آتا ہے کہ اختر حسین حویلی کے اندر بہت کم آتے جاتے ہیں اس وقت یہ تفصیل برائے تفصیل معلوم ہوتی ہے لیکن عرصے بعد جب یہ بتا یا جاتا ہے کہ سیاست سے تھک ہار کر اختر حسین کمرے میں بند ہوگئے ہیں تب پہلی تفصیل کی معنویت اجاگر ہوتی ہے ۔پورا ناول میں اسی طرح Binary opposition کے تار و پود سے بنا گیا ہے ۔قصہ گوئی کا ایک فنی طریقہ کار یہ ہے کہ سامع چاہتا ہے کہ اسے صورت حال کی پوری تفصیل معلوم ہو جائے لیکن ماہر قصہ گو صورت حال کی کچھ تفصیل مہیا کرتا ہے اور کچھ کو معرض التوا میں  رکھتا ہے ۔التوا کا وقفہ کتنا ہو ،اس رمز کو ماہر قصہ گو ہی جانتا ہے ۔اس وصف میں عبدالصمد اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں۔“۲
           
 ”دوگز زمین “کا بیانیہ خشک ضرور ہے مگر کہیں لغزش نہیں ہوئی ۔یعنی یہ کہ غائب راوی نے خلاف منصب کوئی بیان نہیں دیا یا مختلف خیال کے افراد کے سیاسی و سماجی اور فکری تصادم کو کسی دستاویز کی طرح پیش نہیں کیا ہے۔ایک شخص کو بنیادی حوالہ بنا کر واقعہ کو تین نسلوں تک پھیلانا آسان کام نہیں تھا لیکن مصنف نے ایک وسیع کینوس پر مختلف النوع خیالات کو ایک دھاگے میں پرو دیا ہے ۔اس ناول کے مطالعے سے جو غالب تاثر ابھرتا ہے وہ سیاسی ہے ۔ناول سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :۔
ماموں اتنا خیال تو رہے کہ جسے آپ گالی دے رہے ہیں کم از کم اس کے دروازے سے تو ہٹ جائیے ۔
بیٹا حامد مجھے تم سے صرف یہ کہنا ہے کہ بنگالیوں پر کبھی بھروسہ نہ کرنا ۔یہ دراصل ہندو ہیں ،تم کسی بنگالی کی چمڑی کھول کر دیکھو اندر تمہیں ہندو خون ملے گا ۔
ماموں اب تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو خون کو مذہب اور ذات کے خانوں میں بانٹ سکے ۔اگر کبھی ایجاد ہو گیا تو میں ضرور آپ کے مشوروں کے مطابق عمل کر کے دیکھوں گا ۔
خیر مانو نہ مانو ،تمہیں اختیار ہے ۔میں تو ان لوگوں کو بہت دنوں سے دیکھ رہا ہوں اور انہیں خوب پہچانتا ہوں ۔یہ کھاتے پاکستان کا ہیں اور گاتے کسی اور کا ۔
یہ کسی کی بھیک نہیں مانگتے ،اپنا کھاتے ہیں اور جس کا کھاتے ہیں ،اسی کا گن گاتے ہیں ۔،،
بہر کیف خدا تمہیں خوش رکھے ۔میں یہ کہنے کو آیا تھا کہ تمہاری بہن شہناز بی ۔اے پاس کر گئی ہے ۔
اے مبارک ہو ۔آپ نے پہلے کیوں نہ بتادیا ،ہم لوگ تو خواہ مخواہ سیاست میں الجھ گئے ۔میں ضرور آں گا ۔۔“۳
اسی نوعیت کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو
بھئی یہ زمانہ ترقی کا ہے ۔ہر چیز ترقی کر رہی ہے تو سیاست کیوں پیچھے رہے گی ۔سیاست تو ایک ترقی یافتہ صنعت بن چکی ہے ۔یہ دور تو پیشہ ورانہ سیاست کا ہے ۔
اجودھیا بابو نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ۔
’ ’ہم لوگ تو اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے نا۔۔۔۔سیاست اور دنیا بھلے ہی بدل جائے ۔“۴
اس طرح چند ٹکڑوں کو ناول سے منتخب کر کے پوری صورت حال کو واضح تو نہیں کیا جا سکتا تاہم ایک مخصوص رویہ کی توضیح ضرور ہو سکتی ہے لیکن سیاست جیسے خشک مسئلہ کو ناول کے جزئیات و واقعات میں شامل کرنے کے لیے تخلیقی عوامل کی جہتوںکو سمت عطا کرنا بڑادشوار گزار ہوتا ہے ۔اسی لیے ابو الکلام قاسمی سیاسی ناولوں کی نوعیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
۔۔۔اگر پلاٹ ،کرداروں کی پیش کش اور مناسب ترین تکنیک کو فنی وحدت میں ڈھال نہ لیا جائے اس وقت تک ناول کے لیے سیاسی دستاویز اور محض سماجی مسائل کا رکارڈ بننے کا خطرہ لاحق رہے گا۔چنانچہ صرف ایسے ناولوں کو سیاسی ناول کا نام دینا چاہیے جو سیاسی فینو مینا بیان کرتے ہوئے اس کا تجزیہ کرتا ہو،اس کی تعبیرات پیش کرتا ہو اور فنی ہنر مندیوں کے ذریعہ انسان اور کائنات کے بارے میں انکشاف اور بصیرت کی فضا تخلیق کر سکتا ہو ۔“۵
            ان معروضات کی روشنی میں ”دو گز زمین “کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے سیاسی واقعات کو ناول کے ساخت سے ہم آہنگ کر کے بنیادی حوالے کی حیثیت عطا کر دی ہے ۔مثلاً کرداروں کا ہمہ وقت سیاسی مسائل پر گفتگو کرنا حتی کہ محبت اور جذبات کے معا ملات میں بھی سیاست داخل ہو جاتی ہے اور تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود دو مختلف خطوں کے افراد ازدواجی رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔
پیغام آفاقی کا ناول ”مکان“نئے ناولوں میں قابل ذکرہے ۔یوں تو اس کا موضوع اہم ہے جو تفصیل طلب بھی ہے لیکن موضوع پر بحث گاہے گاہے مختلف تنقیدی تحریروں میں ہوتی رہی ہے جو پہلو نظر انداز ہوا ہے وہ ہے اس ناول کا اسلوب اور فنی طریقہ کار ۔ اس مقالے کا عنوان اسلوبیاتی مطالعہ پر مبنی ہے اس لیے موضوع سے صرف نظرکرنا وقتی ضرورت بھی ہے ۔ اسلوب کی سطح پر اتنی بات کی جا سکتی ہے کہ اس میں پلاٹ کی تنظیم میں روایتی انداز کو روا رکھا گیا ہے یعنی ناول مسئلے کے الجھا سے شروع ہو تا ہے ۔اور نہایت ہی معروضی انداز میں ابتدائی چند سطروں میں ناول کے مرکزی کردار اور دوسرے ضمنی کرداروں سے تعارف اورمسئلہ کی بنیادی نوعیت سامنے آجاتی ہے ۔وہ سطریں ملاحظہ ہوں:۔
یہ ایک سنگین معاملہ تھا ۔نیرا کا مکان خطرے میں تھا اس کا کرایہ دار کمار اس سے اس کا یہ مکان چھین لینا چاہتا تھا ۔وہ اب تک اپنے اس مکان میں بڑے چین سے تھی اس کے ساتھ اس گھر میں صرف اس کی ماں تھی مکان کے آدھے حصے میں وہ کرایہ دار جو کرایے کی ایک معمولی رقم دیتا تھا ۔نیرا میڈیکل کی طالبہ تھی اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ اسی مکان میں ایک نرسنگ ہوم کھولنا چاہتی تھی ۔۶
مندرجہ بالا اقتباس سے بظاہر تو صرف ناول کی ابتدا اوراس کے خارجی صورت حال کا اندازہ ہو تا ہے۔تاہم یہ بات بھی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتی کہ راوی نے ایک ساتھ کئی معلو مات قاری کے ساتھ شیئر کی ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا کوئی مقصد تو ہو گا ۔ ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کمار کی شخصیت پر ایک دوصفحے صرف کرتا پھر نیرا کی اور پھر اس کی ماں کی ۔( عین ممکن ہے مصنف نے لاشعوری طور پر یہ طریقہ اختیار کیا ہو)لیکن مصنف نے غائب راوی کے ذریعہ خبریہ انداز میں کئی نکات ایک ساتھ بیان کروا کے مسئلہ کی سنگینی اور شدت میں اضافہ کر دیاہے جس سے قاری متجسس ہو اٹھتا ہے ۔ اس ناول میں مصنف نے باالواسطہ کردار نگاری کی عملی صورت پیش کی ہے جس کا استعمال عموماً کم ملتا ہے ۔بالواسطہ طریقہ میں راوی یا مصنف کردار کی خوبیوں یا خامیوں کے متعلق کچھ نہیں بتا تا بلکہ وہ اپنے حرکات و عوامل کے ذریعہ خود اپنا تعارف پیش کرتے ہیں ۔دوسرا طریقہ یہ کہ ایک کردار کے خیالات اورقیاسات دوسرے کردار خود کا تعارف کرا دیں مثلاًمکا ن کا وہ ( الوک )کردار جس سے ملنے نیرا مدد کی امید لے کر جاتی ہے ۔ نہ تو راوی اس کا تعارف کراتا ہے اور نہ ہی وہ کردار خود۔ بلکہ نیرا پہلی بار الوک سے ملنے کے لیے جانے سے پہلے ازخود باتیں کرتی ہے اس کی خودد کلامی کے ذریعہ قاری الوک کے کردار اور رویے سے متعارف ہو جاتا ہے ۔
اس ناول کے وسط میں ایک کشمکش پیدا ہوتی ہے ،قاری پرامید و بیم کی ایک کیفیت طاری ہوتی ہے کہ مسائل کیا رخ اختیار کریں گے ،ان کا کوئی حل ہے یایہ عقدہ بھی زندگی کی طرح لا ینحل ہو گا ۔اس کے بعدمختلف طرح کے جزئیات و مسائل سے گزرتے ہوئے نقطہ عروج پرپہنچ کر مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔اس لحاظ سے ”مکان“میں روایت کی بازیافت بھی موجود ہے یعنی یہ ناول آغاز ،وسط اور انجام والی تکنیک کا حامل نظر آتا ہے۔ مکان نیرا کو واپس تو نہیں ملتا لیکن سماجی نظام کی بدعنوانیوں کے خلاف لڑتے ہوئے وہ زندگی کے فلسفہ سے آگاہ ہو جاتی ہے ۔اس لیے مکان کے حصول سے دست بردار ہو کر حالات سے مفاہمت کر لیتی ہے ۔لیکن مدعی کو شکست خوردہ کر کے ہی سکون کی سانسیں لیتی ہے ۔
مکان میں داخلی خود کلامی ،تحلیل نفسی اور ڈرامائی صورت حال کی عمدہ صورتیں موجود ہیں ۔ کئی صفحات پر مشتمل طویل خود کلامی اگرچہ اکتا ہٹ کا باعث بنتی ہے لیکن اس کے ذریعہ کرداروںکی ژرف نگاہی اور نفسیاتی دروں بینی کو پیش کرنے کا ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے ۔اس میں بھی دوگز زمین کی طرح ہی ہمہ داں راوی کے ذریعہ بڑے موئثرانداز میں واقعات بیان کیے گئے ہیں۔موضوع کی مناسبت سے ایسا لسانی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے کہ کرداروں کی فلسفیانہ مو شگافیاں ماوراءفہم نہیں معلوم ہوتی ہیں ۔جب کہ کرداروں میں میڈیکل کی طالبہہ نیرا ، پولس آفیسر ،سبزی فروش ،اور اسی طرح کے کردار ہیں لیکن ان سے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ۔ اس ناول میں چند لوگوں نے تانیثیت کے پہلو بھی تلاش کیے ہیں لیکن بار بار گر کرشہسواری کی امید رکھنے والے مناظر کی وجہ سے اسے تانیثیت کا حامل نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ نیرا کی خود کلامی میں در آنے والے شکشت خوردہ جملے تانیثیت کے جارحانہ انداز کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
حسین الحق کاناول ” فرات “نئی نسلوں میں پیدا ہونے والی ذہنی ،جذباتی اور اخلاقی تبدیلیوں پر مبنی ہے ۔ناول کا مرکزی کردار وقاراحمدکی پوری زندگی مجتہدانہ ڈگر پر چلتی ہے ۔ حصول مال اور معزز شہری بننے کی خواہشات انھیں اجازت نہیں دیتیں کہ اولاد کی پرورش و پرادخت پر توجہ دے سکیں ۔وقت گزرنے کے بعد وہ تہذیبی ورثہ کے تحفظ کے لیے فکر مند نظر آتے ۔اس فکر مندی میں وہ بسااوقت خود سے ہم کلام ہوتے ہیں ۔اس ناول کے موضوع کی مناسبت سے واحد غائب راوی نے وقار احمد کے داخلی جذبات کی عکاسی کے لیے خو د کلا می کا طریقہ خوب اپنا یا ہے ۔کیوں کہ غائب راوی کو یہ اختیار نہیںہوتا کہ کسی کردار کے پوشیدہ جذبات کو تیقن کے ساتھ بیان کر سکے ۔اسی لیے اس نے اس تکنیک کا استعمال کیا اور جس طرح فلموں میں کسی کرادار کا ہم زاد اس کے مد مقابل آکر محو گفتگو ہو جاتا ہے اسی طرح وقاراحمد کا ہمزاد ان سے باتیں کرتا ہے ۔ وقار احمد کے پوشیدہ خیالات کو عیاں کیے بغیر ناول میں وہ ہمہ گیریت پیدا کرنا مشکل ہوتا جو خود کلامی کے ذریعہ ممکن ہو سکی ہے ۔لیکن اس احتیاط کے باوجودکچھ ایسی لغزشیں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے ناول میں وہ تہہ داری اور گہرائی نہ پیدا ہو سکی جس کے بنا پر اس کے اسلوب کو منفرد و ممتاز قرار دیا جاتا ۔اگر اس ناول کے راوی نے قاری کے فہم و ادراک پر شک نہ کیا ہوتا اور ہر جگہ وقار احمد کے وسیلے سے غیر ضروری تفصیل فراہم نہ کی ہوتی تو اس میں وہ رمزیت و اشاریت بھی مفقود نہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ ناول اسلوب کے تجربے کی ایک عمدہ مثال ہونے سے محروم ہو گیا۔راوی نے وقار احمد کا تعارف کراتے ہوئے اور ان کی جائے پیدائش ”سہسرام “کی تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے قاری کو مرعوب کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے بیانات کو موثر بنانے کے لیے بعض جگہ اساطیر و علامات کا بھی سہارا لیا ہے لہذا اس اعتبار سے حسین الحق کے اس ناول کو چند کامیاب اور قابل ذکر ناولوں میں شمار کر سکتے ہیں کہ انھوں نے ایک نئے موضوع کی پیشکش کے لیے بیانیہ طرز اختیار کیا ۔
سید محمد اشرف کے ”نمبردار کا نیلا “ کا موضوع نہ تو انوکھاہے اور نہ ہی اس میں کوئی جدت ہے۔لیکن موضوع کو زیر بحث لائے بغیراس ناول میں اختیار کردہ اسلوب بیان کی خوبیاں اجاگر نہیں کی جاسکتی ہیں۔( اس موضوع کی معنویت کو ”الیاس شوقی “اور رفیعہ شبنم عابدی “نے اپنے مضامین میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے )ناول کے ابتدا میں راوی بیان کرتا ہے کہ نیلوں کی تباہ کاریوں سے گاں کے سارے کسان خوف زدہ رہتے ہیںبڑی جتن کے بعد ایک دن گاں والے تمام نیلوں کو مارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ایک بچہ زندہ بچ جاتا ہے ۔گاں کا نمردار اودل سنگھ اسے اس خیال سے پال لیتا ہے کہ ”اول تو یہ گ ماتا ہے ۔دوسرے یہ کہ یہ بڑا ہو کر اجنبیوں کو اپنے سینگوں سے لہو لہا ن کر کے انھیں اپنے کھروں سے کچل سکتا ہے ۔“سماجی نظام کے رویوں اور بدعنوانیوں پر تنقید و تبصرہ کر نا فکشن کو مرغوب موضوع رہا ہے ۔سید محمد اشرف نے بھی اس ناول میں اپنے زمانے کی دہشت گردی، سیاست اور صاحب اقتدار طبقہ کی چالاکیوں اور مکاریوں کو موضوع بنایا ہے ، بیان کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔کیوں کہ کردار نگاری کا پورا ارتکازایک جانور نیلاپر ہے جس کی حر کات و سکنات کو گرفت میں لینا غیر معمولی اور مشکل عمل ہے اسی لیے بعض مواقع پر(خصوصاً نیلا کی جنسی تنا کو بیان کرتے ہوئے ) توازن مشتبہ بھی ہو گیا ہے ۔لیکن اگر اردو فکشن کی ابتدائی جڑوں کی طرف رجوع کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے فیبل میں اسی طرح کے بیانات ملتے ہیں اورعربی میں کلیلہ و دمنہ کے واقعات بھی اسی طرز کے حامل ہیں۔ اس طرح نیلا کی وجہ سے یہ ناول تمثیل سے قریب نظر آتا ہے۔ نیلا کو کردار بنانے کی وجہ سے ہی سید محمد اشرف کا بیانیہ علامتی ،تہہ دار اور ہر سطر ذو معنی ہو گیا ہے ۔لیکن مہملیت یا ابہام کی صورت کہیں پیدا نہیں ہو نے دی ہے بلکہ فکشن کا تربیت یافتہ قاری نیلا کے حوالے سے مذکور واقعات و حادثات پر غور کرنے کے بعد فوراً اس کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اسی لیے ناول کے اسلوب کی جدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں :۔
نمبردار کا نیلا میں حقیقت نگاری کی رسومیات سے گریز اور لفظی تفنن پر اصرار اگر ایک طرف اسے قدیم و جدید بیانیے سے الگ کرتا ہے تو دوسری طرف اسے مابعد جدید بیانیے سے قریب کرتا ہے ۔“۷                       
ما بعد جدید کی ژو لیدہ بحثو ں سے صرف نظر کرنے کے باوجود ناول کی زمانی ترتیب زمان و مکاں کے حوالے ،پلاٹ کی ترتیب و تنظیم جزئیات و واقعات کی نوعیت اور ثابت و سالم کرداروں کی پیش کش کی وجہ سے اسے مابعد جدید بھی کہہ سکتے ہیں ۔مصنف نے اس معاشرے کے دہشت گروں پر طنز کیا ہے کہ جس طرح ان کے گرگے اپنے آقاکے اشاروں پر ناچتے ہیںاسی طرح نیلا بھی ۔لیکن ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہی ہتھیار نما افراد آستین کا سانپ بن جاتے ہیں۔یا تو کبھی کبھی وہ خود نیلا کی طرح استحصال کی زد میں آجاتے ہیں جس طرح نیلا نمبردار کے یہاں رہنے کی وجہ سے خود کودوسرے جانوروں میں اجنبی محسوس کرتا ہے اس کی اپنی پہچان گم ہو جاتی ہے وہ دوسروں کی طرح چلنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔گویا کہ اپنی بنیادی شرشت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
 یوں تو1980 کے بعد کے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں بیشتر قابل ذکربھی ہیںمثلاًبساط اور تین بتی کے راما (علی امام نقوی )وشواش گھات (جتیندر بلو) پانی (غضنفر )آخری داستان گو (مظہر الزماں خاں )دل من (یعقوب یاور )لیکن ان تمام پر بحث کر نے میں مضمون کی طوالت مانع ہو رہی ہے اس لیے صرف ان ناولوں پر گفتگو کی گئی ہے جو مختلف تنقیدی تحریروں کے حوالے سے صرف موضوع کی تفہیم کے ضمن میں زیر بحث آتے رہے ہیں ۔
حواشی ۔
۱۔         امرا جان ادا ،تعارف۔محمد حسن ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی ،2012،ص: ۳۱
۲۔        معا صر ناول :ہیئت و اسلوب کے چند پہلو ،خورشید احمد،مشمولہ آزادی کے بعداردو فکشن،مرتب ابوالکلام قاسمی ،ساہتیہ اکادمی دہلی ،2001،ص: ۷۶
۳۔        دو گز زمین ،عبدالصمد ،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاس ،نئی دہلی ،2013۔ص:۵۳۱
۴۔        ایضاً،ص:۶۴۱
۵۔        آزادی کے بعداردو فکشن،مرتب ابو الکلام قاسمی ،ساہتیہ اکادمی دہلی ،۱۰۰۲،ص:۲۴
۶۔        مکان ،پیغام آفاقی ،نام فکشن اکیڈمی ،جامعہ نگر نئی دہلی ،1989،ص:۷
۷۔        معا صر ناول :ہیئت و اسلوب کے چند پہلو ،خورشید احمد،مشمولہ آزادی کے بعداردو فکشن،مرتب ابو الکلام قاسمی ،ساہتیہ اکادمی دہلی ،2001،ص: ۷۶

Shahnaz Rahman
Moin Hostel S.N Hall
A.M.U Aligarh 202002
shahnaz58330@gmail.com

سہ ماہی فکر و تحقیق۔ اپریل تا جون 2016



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں