30/8/19

نظیراکبرآبادی اور ہندوستانی تیوہار مضمون نگار: اسما


نظیراکبرآبادی اور ہندوستانی تیوہار

 اسما

پوری اردو شاعری میں زبان و بیان پر بھرپور دسترس،الفاظ کے استعمال پر قدرت اور تہذیبی عناصر کی پیشکش کی جادوگری میں نظیر اکبر آبادی، میر، سودا،ذوق، غالب،آتش،ناسخ، انیس اور جوش ملیح آبادی کی صف میں شامل ہیں۔معمولی موضوعات کو غیر معمولی انداز میں پیش کرنے کا ہنر ان کی انفرادیت کی روشن مثال ہے۔انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور فکری وفنی امتیازات کی بنا پر شہرت دوام حاصل کی اور اپنے آپ میں ایک نابغہ روزگار کہلانے میں حق بجانب ٹھہرے۔
نظیر اکبر آبادی کی بنیادی حیثیت ایک شاعر کی ہے۔ انھوں نے انسانی زندگی کے تمام شعبۂ حیات کا نہ صرف گہرائی وگیرائی اور باریک بینی سے مطالعہ ومشاہدہ کیا بلکہ انسان کو کامیاب اور خوشگوار زندگی جینے کا سلیقہ و ہنر بھی سکھایا۔ان کی شاعری گل و بلبل،عشق و محبت کے فسانے سے بہت آگے انسانی زندگی کی مکمل تصویر کشی سے عبارت ہے۔جس میں ہر مکتبۂ فکر، طبقے اور مذہب کے ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و غریب سبھی لوگ اپنے خدوخال کو بآسا نی دیکھ سکتے ہیں۔
 نظیر نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی،لیکن جس چیز نے نظیر کو لافانی اور بے نظیرگردانا وہ ان کی نظمیں ہیں۔جس کا اعتراف مختلف نقادوں اور دانشوروں نے بھی کیا۔اس سلسلے میں پروفیسر مجنوں گورکھپو ری نظیرکو ان کی تظموں کے بل پر زندہ تسلیم کرتے ہو ئے لکھتے ہیں: ”سب سے پہلی بات جو پہلی ہی نظر میں معلوم ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر قصائد و مثنویات کو نظم میں شمار نہ کیا جائے اور نظم کی اصطلاح کو جدید معنوں میں استعمال کیا جائے تو نظیر اکبر آبادی اردو کے پہلے نظم نگار ہیں۔
 درج بالا اقتباس اس بات کا غمازہے کہ نظیر کی نظمیں انھیں اردو شاعری میں ایک مستقل دور کا بانی قرار دینے میں معاون ومددگار ہیں۔ نظیر کو اپنے وطن سے والہانہ لگاؤ اور اس کی مٹی سے بے لوث محبت تھی۔جس کی بنا پر اگر انھیں خالص ہندوستانی شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ہندوستان کی زندگی، تہذیب و ثقافت،رسم و رواج، تیوہاراور مقامی رنگ و آہنگ وغیرہ ان کی شاعری کے لازمی جز ہیں۔
نظیراردو کے پہلے ایسے شاعر ہیں جن کا کلام پڑھ کر ہندوستان کے حالات،طرززندگی،رسم و رواج اور تیوہار کے متعلق تمام معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔جہا ں مخصوص کرداروں پر مشتمل مختلف طبقات اور جماعتیں ہیں جن کے مابین اتحادو اتفاق،بھائی چارگی،آپسی رواداری اور قومی یکجہتی کی بہترین مثال تیوہاروں،تقریبوں جلسوں اور میلوں ٹھیلوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔جو عوام کی تفریح طبع اور مسرت کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی آئینہ دار بھی ہے۔جس کے ذریعہ انسانی جذبات و احساسات،رسم و رواج،رہن سہن اور طرز معاشرت سے مکمل آگاہی ہو جاتی ہے۔اردو شعرا نے کثرت سے ان موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے مگر اکثریت ایسے شاعروں کی ہے جن کے یہاں یہ عناصر کلی طور پر ناپید ہیں۔اس معنیٰ میں نظیر اکبر آباد ی کی شاعری کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ان کے یہاں ہندوستانیت کے اجزا صرف ملے جلے ہی نہیں بلکہ پوری طرح رچے بسے نظر آتے ہیں۔
جس دور میں نظیر نے شاعری کی ابتدا کی وہ عہد ہندو مسلم اتحاد کی بہترین تصویر پیش کرتا ہے۔ ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے تیوہاروں، رسم و رواج اور میلوں ٹھیلوں میں شریک ہوتے، ایسے ہی ماحول میں نظیر کی شاعری پھلی پھولی اور پروان چڑھی جس کا رنگ و آہنگ تا عمر نظیر کی شاعری پر چھایا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم نظیر کی شاعری کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی شاعری یک رخی نہیں بلکہ کثیر الجہات اور ہمہ گیر ہے۔
تیوہار خواہ کسی بھی مذہب و ملت سے متعلق ہو ہر شخص بلا امتیاز مذہب و ملت نہ صرف اس میں شریک ہو سکتا ہے بلکہ اپنی خوشی کا اظہار بھی کر سکتا ہے۔یہ تیوہار انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔نظیر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعہ عوام کو مذہبی کٹر پن کے محدود دائرے سے نکال کر انسانیت کے بلند مرتبے پر گامزن کیا۔نتیجتاً ہندوستانی نہ صرف سماجی نوعیت کے میلوں ٹھیلوں، صوفیوں کی عام محفلوں،عرسوں اور مزاروں کی زیارت میں شرکت کرنے لگے۔بلکہ بلا امتیازو مذہب و ملت ایک دوسرے کے مذہبی تیوہاروں میں شریک ہو کر باہمی اتحاد اور رواداری کا ثبوت دینے لگے۔اسی جذبے کے تحت اردو کے مسلمان شعرا نے ہولی، دیوالی، راکھی، جنماشٹمی،شیو راتری جیسے تیوہاروں اور شری رام چندر اور گرو نانک جیسی شخصیات کی شان میں نظمیں لکھیں۔
نظیر کی سب سے اہم خوبی ان کی بے تعصبی، رواداری اور وسیع المشربی ہے۔جس نے تفریق کی تمام دیواریں ڈھا دیں۔ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی سب ان کی نظر میں یکساں ہیں۔انہوں نے جہاں عید،شب برات، بقر عید، حضرت سلیم چشتی پر جوش و ولولہ خیز نظمیں لکھیں وہیں ہولی،دیوالی،بسنت، نانک،اور کنھیا جی وغیرہ کی توصیف میں بھی ایسی ایسی نظمیں لکھیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی مذہبی ہندوکے دل سے نکلے ہوئے وہ نغمے ہیں جو بے پناہ عقیدت و ارادت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جن تیوہاروں، میلوں،ٹھیلوں،عرسوں اور تقریبوں پر نظمیں کہی ہیں وہ پر اثر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں بے مثال ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے یہاں عید، بقرعید،شب برات پر لکھی گئی نظموں سے کہیں زیادہ ہولی،دیوالی،بسنت، مہادیوجی، اور شری کرشن پر لکھی نظمیں ان کے جذبہ عقیدت کی مظہر ہیں۔
عید‘سے متعلق نظیر اکبر آبادی نے تقریباً4 نظمیں لکھیں جس میں اس تیوہار کی مذہبی حیثیت پر تو کوئی خاص توجہ نہیں ملتی البتہ اس پہلو سے قطع نظر صرف امیدو رجا، وصل و ملاقات اور میل ملاپ کا پہلو نظر آتا ہے۔نظیر نے تیوہاروں پر نظم لکھتے وقت انسانی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ و مشاہدہ کیاہے اور جس نقطہ نظر کی عکاسی کی اس میں سب برابر کے شریک رہے۔یعنی ہر شخص اپنے مقام و مرتبے اور اپنی ذہنی سطح سے اس تیوہار کو اپنے مقصد کی  تکمیل کا ذریعہ سمجھتا ہے۔کسی کو تیوہار کے بہانے شراب و کباب وافر مقدار میں میسر ہوتی ہے تو کسی کو محبوب سے وصال،وہیں زاہدوعابد کے لیے یہ دن بھی ریاضت و عبادت کا دن ہے۔ اس بات کو نظیر نے بڑے حسین انداز میں پیش کیا ہے
ہے عابدوں کو طاعت و تجرید کی خوشی
اور زاہدوں کو زہد کی تمہید کی خوشی
رند عاشقوں کو ہے کئی امید کی خوشی
کچھ دلبروں کو وصل کی کچھ دید کی خوشی
 ایسی ہے شب برات نہ بقر عید کی خوشی
 جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
نظیر چونکہ ایک عاشق مزاج اور خوش طبع شاعر بھی ہیں لہٰذا ان کی پوری توجہ محبوب سے ملاقات اور اس کے حسن کی خوبصورتی بیان کرنے میں صرف ہوتی ہے۔عید پر لکھی گئی نظموں میں ایک نظم محبوب سے کیے گئے شکوے شکایت سے پر ہے۔یعنی عید کے دن بھی نظیر    ٓ محبوب کے دیدار سے محروم ہیں۔اس موقع پرایک عاشق کے دل میں جو خیالات اس محرومی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اس کی پوری عکاسی ’نظم عید‘ میں ابتدا تا آخر بیان کی گئی ہے۔ ایک بند دیکھیے:
یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ
کرتا ہے جس طرح کہ دل بے قرار،آہ
عالم نے کیا ہی عیش کی لوٹی بہار آہ
ہم سے تو آج بھی نہ ملا وہ نگار آہ
ہم عید کے دن بھی رہے امید وار،آہ
اس طرح پوری نظم شکایتوں کا پلندہ ہے۔یہ نظم تیوہاروں سے متعلق نظیر کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔نظیر نے نظمیں لکھتے وقت اس کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے جہاں نادر تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال کیا ہے وہیں جگہ جگہ مزاح و ظرافت کا بھی سہارا لیا ہے۔جس سے قاری کی دلچسپی برابر قائم رہتی ہے اور بعض اشعار اور بند تو ایسے دلچسپ ہیں کہ ان کو پڑھ کر نہ صرف بے ساختہ لب مسکرا اٹھتے ہیں بلکہ شاعر کی خوش مزاجی پر داد دینے کو جی چاہتا ہے:
کوئی مست پھرتا ہے جام ِ شراب سے
کوئی پکارتا ہے کہ چھوٹے عذاب سے
کلاّکسی کا پھولا ہے لڈوکی چاٹ سے
چٹکاریں جی میں بھرتے ہیں نان و کباب سے
ایسی نہ شب برات نہ بقر عید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی
عید‘ کی طرح ’شب ِبرات‘ بھی مسلمانوں کا ایک اہم تیوہار ہے۔جس پر نظیر نے 4 نظمیں قلم بند کیں۔جو عقیدت کے جذبات سے سرشار ہیں۔اس کے مختلف پہلوؤں  پر نظیر نے اپنے منفرد اور دلکش انداز میں روشنی ڈالی ہے۔وہ اپنے مقصد اور نقطہ نظر کی وضاحت نہایت سیدھی سادی مگر پر زور اور ناقابل تردید دلائل و براہین کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔نظیر نے شب برات کو ’مردوں کے روح کی مددگاری ‘کا سبب قرار دیا ہے۔مردوں کے ساتھ ساتھ زندہ لوگوں کے لیے بھی یہ تیوہار سود مند ہے۔ کیونکہ انھیں بھی مختلف قسم کے عمدہ و لذیذ حلوے کھانے کو مل جاتے ہیں۔نظم شب برات کے پہلے بند میں اس تیوہار کی مقصدیت پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے:
کیوں کر کرے نہ اپنی نموداری شب برات
چلیک،چپاتی،حلوے سے ہے بھاری شب برات
زندوں کی ہے زباں کی مزے داری شب برات
 مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات
لگتی ہے سب کے دل کو غرض پیاری شب برات
نظیرالہ آبادی نے اپنی نظموں میں امیرو غریب کی تفریق کو بھی موضوع گفتگوبنایا ہے۔دونو ں کی تصویریں نظم ’شب برات‘ میں اس موثر انداز میں پیش کی ہیں کہ ایک حساسّ دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر سماج میں یہ طبقاتی کشمکش کیوں ہے؟آج کے دن بھی ان کو غربت و افلاس سے نجات نہیں مل پاتی۔اس حقیقت کو نظیرنے یوں عیاں کیا ہے:
اور مفلسوں کی ہے یہ تمناّکی فاتحہ
دریا پہ جا کے دیتے ہیں بابا کی فا تحہ
بھٹیاری کے تنور پہ نانا کی فاتحہ
حلوائی کی دکان پہ دادا کی فاتحہ
یاں تک تو ان پہ لاتی ہے ناچاری شب برات
اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظیر نے اپنی نظموں میں امیرو غریب، ادنیٰ و اعلیٰ اورمفلس و کنگال سب ہی کی حقیقت پر مبنی مرقعے پیش کیے۔یہاں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے کوئی حل نہیں دیا بلکہ انسانیت کے دونوں پہلوؤں کو اس طور پر پیش کیا کہ قاری خود نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو جائے۔ تلقین و تنبیہ کا یہ رویہ پر اثر بھی ہے اور لائق داد بھی۔
نظیرنے تیوہاروں کے باب میں جہاں مختلف رنگ رلیوں کا ذکر کےا ساتھ ہی اس سے ہونے والے نقصانات کی بھی نشاندہی کی۔یعنی تیوہاروں کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔ساتھ ہی اس موقع پر ایک دوسرے کو ایذا پہنچانے اور دشمنی نکالنے کے مسئلے کی طرف بھی توجہ دلائی۔اس طرح کی نظموں میں انسانی ہمدردی کا بھرپور جذبہ نظر آتا ہے۔
نظیرنے اپنی نظموں کا دائرہ کسی خاص طبقے یا فرد تک محدود نہیں رکھا۔بلکہ تمام مذاہب کو یکساں اہمیت دی اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہندؤں کے رسم و رواج کی طرف زیادہ توجہ صرف کی۔حمدو نعت،معجزہ، حضرت علی، عباس، عےد اور شب برات کے ساتھ ساتھ ہولی، دےوالی، راکھی، بسنت،کنھیا جی کے جنم اور مہادیو جی وغیرہ عنوانات پر مبنی عقیدت سے پر نظمیں قلم بند کیں۔ انھوں نے ہندوں کی عوامی تقریبات پر بہت کچھ لکھا جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظیر ان تقریبات میں پورے وجود کے ساتھ شریک کار رہے۔اس سلسلے میں محمد محمود ر ضوی مخمور اکبر آبادی نظیر کی شخصیت اور ان کی شاعری کے حوالے سے بڑی اہم بات لکھتے ہیں کہ:”وہ (نظیر) ہندووں کی معاشرت کے بھی اتنے ہی بڑے ماہر ہیں جتنے مسلمانوں کے،بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ہندو شعراءمیں ایسے بہت کم نکلیں گے جو ہندو معاشرت دانی میں نظیر کا مقابلہ کرسکیں۔ان کی نگاہ کی وسعت انھیں ہر طبقے کی حالت سے بخوبی واقف رکھتی ہے کچھ ہندو مسلمانوں ہی پر منحصر نہیں ہندوستان کی ہر قوم کی معاشرت کا ان کو یکساں علم و تجربہ ہے۔ “ (روح نظیر،محمود اکبر آبادی،اتر پردیس اردو اکادمی،لکھنو،دوسرا ایڈیشن2003،ص17)
ہولی کا تیوہار خاص ہندوستانی سرزمین اور آب و ہوا سے وابستہ ہے جس پر نظیر کی 13 نظمیں ملتی ہیں۔یہ نظمیں عید و شب برات پر لکھی گئی نظموں سے کہیں زیادہ فنکاری کی آئنہ دار اور حیات کے جوش و خروش سے مملو ہیں۔ان نظموں میں عوامی زندگی کے ولولے اور جذبات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ایسی ہولی جہاں رنگ و پچکاری بھی ہے اور رقص و موسیقی بھی،راگ راگنیوں کا اہتمام بھی ہے اور بھانگ کھیلنے والوں کا ازدہام بھی۔
ہوا جو آکے نشہ آشکار ہولی کا
بخار باب سے مل کر ستار ہولی کا
سرور رقص ہوا بے شمار ہولی کا
ہنسی خوشی میں بڑھا کاروبار ہولی کا
زباں پہ نام ہوا بار بار ہولی کا
دراصل جن تیوہاروں میں امیدو آرزووں کے پورے ہونے کے امکان زیادہ ہیں ان کا ذکر کثرت سے ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے تیوہاروں کے مقابلے ہولی پر کئی گنا نظمیں اور غزلیں دستیاب ہیں۔ہولی کی ہر نظم میں جزئیات کا عمیق مطالعہ و مشاہدہ کار فرما ہے۔یہ نظمیں رجائیت سے پر نظیر کے شاعرانہ مزاج اور افتاد طبع پر دال ہیں۔
نظیر کی دیوالی پر لکھی گئی نظموں میں دیوالی کے مختلف پہلوؤں مثلاًدیوی لکشمی کی پوجا،گھروں کی سجاوٹ،میلوں ٹھیلوں،جواڑوں کی جوئے کا
 اور اس کے نتیجہ میں درپیش ہونے والے واقعات و حالات کا نقشہ اس خوبی سے اتارا ہے کہ تمام جزئیات سے آگاہی ہو جاتی ہے اور اس دور کی تصویریں ہو بہو آنکھوں کے سامنے رقص کرتی نظر آتی ہیں۔چند اشعار دیکھے:
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے جی کو سماں بھا گیا دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا
دیوالی کے حوالے سے نظیر کی تقرےیاً تمام نظمیں رجائیت سے پر ہیں۔جس میں معاشرتی پہلو کی جانب توجہ زیادہ ہے۔
نظیر کا تعلق چونکہ ہر مذہب اور ہر طبقے سے یکساں طور پر تھا۔یہی وجہ ہے کہ محض قدرت  بیان یا پر گوئی کے سبب انھوں نے مذہب کے مختلف پیشواں، تیوہاروں، رسموں اور کھیلوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ ان میں عقیدت و محبت کا سبب کا بیان کیا اور خود بھی اس میں عملی طور پر شریک رہے۔ ان کے یہاں اگر ایک طرف الٰہی نامہ اور مختلف اولیا اکرام پر نظمیں ملتی ہیں تو دوسری جانب بلد یوجی کا میلہ،جنم کنھیا جی اور گرو نانک کا بیان بھی ملتا ہے۔ انھوں نے بلدیوجی کے میلے پر ایک طویل نظم لکھی جس کا ہر بند ان کے قلندرانہ مسلک و مشرب کا بیش بہا نمونہ ہے۔ یہ نظم ان کی بیانیہ نظموں میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔جس میں نظیر کی شاعرانہ صلاحیت اپنی پوری قوت، سادگی اور تنوع کے ساتھ نمایاں ہے۔اس نظم میں سچی بے رنگ تصویریں بھی واقعاتی صحت اور شاعرانہ نزاکت و لطافت کے پس منظر میں رنگی نظر آتی ہیں۔
اتنے لوگوں کے ٹھٹھ لگے ہیں آہ
 جو کہ تل دھرنے کی نہیں ہے جگہ
لے کے مندر سے دو دو کوس لگا۔
باغ و بن بھر رہے ہیں سب ہر جا
 بھیڑ،انبوہ اور دھرم دھکا
جس طرف دیکھیے !ہا ہا ہا
رنگ ہے روپ ہے جھمیلا ہے
اور بلدیوجی کا میلا ہے۔
نظم ’بلدیوجی کا میلا‘حیات و مشاغل حیات سے نظیر کی الفت و محبت کو عیاں کرتی ہے۔جہاں زندگی کے شباب کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ نقطہ نظر کی بھی وضاحت ہے۔ ساتھ ہی ہندو مذہب کی تلمیحات کا ذکر بھی کثرت سے ملتا ہے۔اور الفاظ بھی اسی مناسبت سے در آئے ہیں۔اس کے علاوہ حضرت سلیم چشتی کے مزار پر ہونے والے عرس کے موقع پر بعنوان ”عرس حضرت سلیم چشتی“لکھی۔جس کا ایک ایک لفظ شاعر کی عقیدت و محبت کا گواہ ہے۔
ہیں دو جہاں کے سلطان حضرت سلیم چشتی
عالم کے دین و ایمان حضرت سلیم چشتی
سر دفتر مسلمان حضرت سلیم چشتی۔
مقبول خاص یزداں حضرت سلیم چشتی
 سردار ملک عرفاں حضرت سلیم چشتی
غرض یہ کہ تیوہاروں پر لکھی گئی جتنی بھی نظمیں ہماری نگاہوں سے گزرتی ہیں ان کے مطالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلم تیوہاروں پر لکھی گئی نظمیں فکر و فن،واقعہ نگاری اور منظر کشی کے اعتبار سے نہایت ولولہ خیز اور زندگی سے پر ہیں۔البتہ ےہ بات بھی اپنی جگہ قابل تسلیم ہے کہ نظیر  کے زور بیان اور جذبات  نگاری کا پر زور مظاہرہ ہندومذہب پر لکھی گئی نظموں میں زیادہ عیاں ہے۔ بالخصوص ہولی پر لکھی گئی نظموں میں بعض تومحاکاتی رنگ لیے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں سےدطلعت حسین نقوی کا قول بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
نظیر کی نظمیں جو ہندووں کے تیوہاروں یا غیر مسلم عظیم کرداروں کے موضوع پر ہیں۔ان میں نظیر کا فن انتہائی نقظہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ان کے کلام میں مذہبی بے تعصبی کا انداز پایا جاتا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
 تمام نظمیں انسانی دوستی،درد مندی،حقیقت کی آگہی اور غائر بینی کی عمدہ مثالیں ہیں یہ نظمیں موضوع ومواد کی ہم آہنگی سے منظر کشی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں۔ جس میں جزئیات نگاری بھی ہے اورجذبات نگاری بھی ہے،مثنوی کا رنگ بھی ہے اور ڈرامائی کیفیت بھی،واقعہ نگاری بھی ہے اور رسوم و رواج کی حقیقی و معاشرتی تصویر یں بھی۔یہ تمام نظمیں پر اثر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں بے نظیر بھی ہیں۔جس میں ہندوستانی زندگی اور معاشر ہ سانس لے رہا ہے۔ نظیر کی نظموں کی یہی وہ خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے دوسرے شعرا بھی ان سے متاثر نظر آتے ہیں۔اور ان کی لیاقت و صلاحیت کے اور معترف بھی ہیں۔ان کی شاعری انسانی مساوات کا بہترین مرقع ہے۔جس میں زندگی،شاعری،مذہب اور اخلاق غرض ہر شعبہ حیات کو بآسانی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بقول رام بابو سکسینہ ”ان کے مزاج میں چونکہ مذہبی تعصب اور ناروا داری نہ تھی بلکہ کٹر پن کو نہایت نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اسی وجہ سے وہ ہندوں سے بہت خلط ملط رہتے تھے اور ان کے رسم و رواج ان کی زبان،ان کے خیالات،ان کے تیوہار اور معتقدات تک کو ایسے دلچسپ طریقے سے اس قدر صحت کے ساتھ بیا ن کر گئے کہ ہم کو ان کی ہمہ دانی پر تعجب ہوتا ہے“(ہسٹری آف اردو لٹریچر۔رام بابو سکسینہ، مطبع منشی نول کشور لکھنؤ ص343)
 بحیثیت مجموعی نظیر نے اپنی شاعری اور نظموں کے ذریعے عملی طور پر قومی یکجہتی کی تعمیر و تشکیل کا جو نمونہ پیش کیا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں ناپید ہے۔نظیر کی نظموں کے تاریخ وار جائزے سے یہ بھی آگاہی ہوتی ہے کہ ان کے زمانے نے تو انہیں قابل اعتنا نہیں گردانا لیکن ما بعد کے انصاف پسند ذہنوں نے جب ان کا مطالعہ کیا تو انہیں ان کا صحیح مقام بھی دلوایا۔
زبان و بیان کے سلسلے میں نظیر کی انفرادیت اس طرح قائم ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ نہیں رکھا بلکہ اپنی زبان خود وضع کی۔لفظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔نظیر جس طرح چاہتے ہیں لفظوں کو استعمال کرتے ہیں۔نظیرکا کمال ہی یہ ہے کہ لفظوں کے لیے انہیں کنوئیں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انھوں نے اپنے لیے ایک نیا طرز ایجاد کیا۔
Asma
R-49 A, Frist Floor, Sir Syed Road
Jogabai Extn. Batla House, Jamia Nagar
New Delhi - 110025


 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں