17/3/20

مثنوی عالم- عالم آرا بیگم کی ایک نایاب مثنوی مضمون نگار: سنجر ہلال بھارتی





مثنوی عالم- عالم آرا بیگم کی ایک نایاب مثنوی
سنجر ہلال بھارتی
تلخیص
نواب واجد علی شاہ کی محلات میں جنھیں خاص مقام حاصل ہے، ان میں عالم آرا بیگم کا نام سرِ فہرست ہے۔ نواب خاص محل اور نواب اعظم بہو کے خطاب سے نوازی گئیں۔
انتزاعِ سلطنت (1856) کے بعد بادشاہ کے ہمراہ عالم آرا بھی کلکتہ (مٹیابرج) تشریف لائیں اور یہیں 1894 میں پیوندِ خاک ہوئیں۔
عالم آرا بیگم ایک نہایت ’زودگو‘ باصلاحیت اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کا شمار بنگال کی اوّلین صاحب دیوان شاعرہ میں ہوتا ہے۔ ان کا ایک دیوان ’بیاضِ عشاق‘ اور ایک مثنوی ’مثنویِ عالم‘ بطور یادگار دستیاب ہے۔ یہ مثنوی پہلی بار 1885 میں کلکتے سے شائع ہوئی اور بے حد مقبول ہوئی۔ اس میں کل دو ہزار سے زائد اشعار ہیں۔ اس کی ضخامت 140 صفحات کو محیط ہے۔
عالم آرا کو زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی۔ یہی سبب ہے کہ واقعات و کردار چلتے پھرتے اور متحرک لگتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ بڑا گہرا اور نظر دوررس تھی۔ وہ جزئیات پر ایسی تفصیلی نگاہ ڈالتی ہیں کہ قاری اس میں محو ہوجاتا ہے۔ معاملہ موسیقی کا ہو یا باغ کی دیدہ زیبی کا، فوقِ فطرت کی بوالعجبی کی بات ہو یا نجومیوں کے زائچہ دیکھ کر پیش گوئی کی— وہ کسی بھی مقام پر جامعیت اور اصلیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔
مثنوی کی زبان، الفاظ کا در و بست اور بے ساختگی و سلاست اپنے عروج پر ہے۔
کردارنگاری، جذبات نگاری، منظرنگاری، معاشرت کی ترجمانی وغیرہ میں یہ مثنوی اپنی نظیر آپ ہے۔ عالم آرا کی مثنوی کا اصل محرک دراصل محاوراتِ نسواں کا تحفظ تھا اور یہی چیز اس مثنوی کی جان ہے۔ مکالمے برجستہ اور محاورے چست ہیں۔ میرے خیال میں زبان و بیان، طلسمی پلاٹ اور اپنی اصلیت و سادگی کے اعتبار سے اس مثنوی کا شمار اوّل درجے کی مثنویوں میں ہونا چاہیے۔

کلیدی الفاظ
مثنوی عالم، کلکتہ، مٹیابرج،  واجد علی شاہ، کردارنگاری، منظرنگاری، جذبات نگاری، معاشرت، زبان، روزمرہ، محاورات، مکالماتی حسن، روانی، بیساختگی، محاوراتِ نسواں
——————

بنگال میں اردو مثنوی کے عہد بہ عہد ارتقا کی کوئی مکمل تاریخ نہیں ملتی، اور نہ ہی آج تک کوئی اس کی حتمی فہرست ہی جاری کرسکا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ شعرا کے دواوین اور کلیات میں جو چھوٹی چھوٹی مثنویاں ہیں، ان تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ کچھ نایاب مثنویاں نجی کتب خانوں اور سرکاری و نیم سرکاری لائبریریوں میں مخطوطے کی شکل میں موجود  ہیں، لیکن ان نسخوں کا کوئی اشاریہ نہ ہونے کی صورت میں یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن نئی نئی  مثنویوں کا سراغ ملتا رہتا ہے۔
ایسی ہی ایک نایاب مثنوی ’مثنویِ عالم‘ ہے جو واجد علی شاہ اختر کی محلِ خاص نواب عالم آرا بیگم کی تحریر کردہ ہے، جو پہلی بار کلکتہ سے 1885 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد اس کے مزید تین ایڈیشن نکلے جس کی طرف واضح اشارہ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری نے کیا ہے   ؎
’’عالم کی ایک مثنوی بہت مقبول ہوئی۔ اس کا پہلا اور سب سے اچھا ایڈیشن کلکتے میں چھپا۔ اس کے بعد بھی تین ایڈیشن ادیب مرحوم کے کتب خانے میں میری نظر سے گزرے۔‘‘ (تذکرۂ قدیم شاعراتِ اردو،  1996، ص 224-225)
عالم آرا بیگم انتزاعِ سلطنت کے بعد بادشاہ کے ہمراہ 1856 میں کلکتہ (مٹیابرج) چلی آئیں اور یہیں 1894 میں پیوندِ حاک ہوئیں۔
میرے پیش نظرجو مثنوی ہے، یہ ستمبر 1891 مطابق ماہ صفر المظفر 1309ھ (بار دوم) مطبع نامی لکھنؤ سے شائع ہوئی جس میں کل 140 صفحات ہیں اور اشعار کی مجموعی تعداد 2109 ہے۔ مثنوی فاعلاتن مفاعلن فعلن یعنی بحر خفیف مسدس مخبون/ محذوف/ مقصور میں ہے۔ زیربحث مثنوی کو 11 عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ ابتدا کے 8؍ اشعار حمدیہ، 6 نعتیہ، 10منقبتی (حضرتِ علیؓ کی شان میں) اور 9 اشعار مناجات کے ہیں۔ ہر صفحے پر 117 ابیات درج ہیں۔ مثنوی کے آخر میں پانچ اشعار واجد علی شاہ کی شان میں ملتے ہیں جن میں حکومتِ دوام کی دعا مانگی گئی ہے۔ وہ یوں ہیں       ؎     
ختم قصہ تو ہوگیا عالم
رات دن مانگ اب دعا عالم
رہے جب تک کہ مہر و مہ میں نور
مہدیِ دیں کا جب تلک ہو ظہور
نوجواں بادشاہِ خوش اقبال
والیِ لکھنؤ خجستہ خصال
جو کہ مشہور جانِ عالم ہے
رونقِ بوستانِ عالم ہے
رہے رونق فزائے خطۂ ہند
فخرِ ایران بنائے خطۂ ہند
مثنوی کا قصہ
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جس کا نام سرشار شاہ تھا۔ وہ بڑا عادل اور رعایا پرور تھا۔ اس کی حکومت ہفت اقلیم میں تھی لیکن اس کی کوئی اولاد زندہ نہ رہتی تھی۔ اس غم میں بادشاہ نڈھال رہتا تھا۔ ایک روز اس کے مصاحب نے یہ خوش خبری دی کہ اس کی ملکہ پھر امید سے ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس بار بچے کی پیدائش پر شہر کے صاحب کرامت بزرگ (کرامت شاہ) کی گود میں ڈال دیں اور اس کا نام وہی تجویز کریں۔ وہ وقت آخر آگیا اور ملکہ نے بیٹی کو جنم دیا۔بزرگ نے اس کا نام ’جہاں افروز‘ رکھا اور اسے اپنی منہ بولی بیٹی بنا لیا۔ ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی سنائی کہ وہ ایک سو تیس سال زندہ رہے گی اور اپنے والدین کی راحت کا سبب بنے گی۔ کچھ دنوں کے بعد بادشاہ کے وزیر اور سوداگر کے گھر میں لڑکیاں تولد ہوئیں۔ بادشاہ نے وزیر زادی کا نام ’بزمِ افروز‘ اور سوداگر بچی کا نام ’دل پذیر‘ رکھا۔ پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ دونوں لڑکیاں شہزادی کے ساتھ ہی محل میں پرورش پائیں گی۔ وقت گزرتا گیا اور جب شہزادی 12 سال کی ہوئی تو دل میں طرح طرح کے خیالات انگڑائی لینے لگے۔ دونوں ہم جولیاں شہزادی کی دم ساز تھیں۔ ان میں دل پذیر بڑی شوخ و طرار اور بے باک تھی۔ اس نے شہزادی کو ایک دن اکسایا کہ ایسے گھر میں اسیر رہتے رہتے دم گھٹتا ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ آپ کے والد نے جو باغ ’باغِ بہشت‘ آپ کے نام بنوایا ہے، اس کی سیر کی جائے۔ شہزادی نے اپنے والد سے اس خواہش کا اظہار کیا تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور یہ تلقین کی کہ دن بھر وہاں سیر و تفریح کرے لیکن شام ہونے سے قبل اپنے محل کو لوٹ جائے کیونکہ باغ شہر سے کوسوں دور ہے۔ اس طرح تینوں دن بھر باغ کی سیر کرتیں اور شام ہوتے ہی محل کو لوٹ آتیں۔  ایک روز دلپذیر نے شہزادی سے کہا کہ درویش کے پاس جاکر بتائیں کہ ایک گوشے میں دل نہیں لگتا لہٰذا وہ اڑن تختہ منگادیں۔ درویش نے ماجرا سنا اور اس نے شہزادی کو ایک عمل سکھایا جس کے بل پر رات کو دیووں کا تخت منگوا لیا جاتا اور تینوں سہیلیاں سیر سپاٹے کرتیں۔ ایک دن جہاں افروز (شہزادی) دونوں سہیلیوں کے ہمراہ تخت پر اڑتی کسی باغ میں جاپہنچی۔باغ کا منظر بڑا دیدہ زیب اور پربہار تھا۔ تینوں پھرتی پھراتی شہزادہ (سلطان شاہ) کی خواب گاہ کی جانب جانکلیں۔ شہزادے کے حسن و جمال پر شہزادی قربان ہوئی اور وزیر زادی، وزیر زادہ (خوش رو) پر فدا ہوئی۔ شہزادی کے دل پر عشق کا وار تیز تھا۔ گھر لوٹنے پر نیند اڑگئی اور شہزادے کی فرقت میں آنکھیں برسات ہورہی تھیں۔ کسی طرح دن ختم ہوا اور رات آئی۔ تخت رواں پر سوار تینوں باغ میں آپہنچیں۔ سلطان شاہ کو سوتے میں اپنی انگوٹھی اسے پہنا دی اور اس کی انگوٹھی نکال  لی۔ وزیرزادہ جاگتاتھا۔ اس نے دُزدیدہ نگاہوں سے یہ سب کچھ ہوتے دیکھ لیا تھا۔ اس نے شہزادے کو رات کا واقعہ کہہ سنایا۔ شہزادے کو استعجاب ہوا تو وزیر زادے نے بتایا کہ آج کی رات وہ پھر آئے گی۔ سونا نہیں۔ رات ہوئی اور تینوں سہیلیاں باغ کے حوض کے قریب آبیٹھیں اور ستار بجانے لگیں۔ ستار کی بازگشت سے وزیر زادے کے ہمراہ شہزادہ وہاں پہنچا اور شہزادی کو دیکھتے ہی مبہوت رہ گیا۔ اس طرح پے در پے ملاقاتوں نے ایک دوسرے کو بے حد قریب کردیا۔ ایک رات شہزادہ، شہزادی کے انتظارمیں بے قرار ہورہا تھا تبھی ایک مہیب اژدہا اس کے سامنے نازل ہوا جس پر شعلہ جادو (ساحرہ) سوار تھی۔ وہ شہزادے پر عاشق ہوئی اور اسے اپنی آغوش میں بھرلیا۔ اسی دوران شہزادی تحت رواں سے باغ میں اتری اور شہزادے کو غیر سے گرم پہلو ہوتے دیکھ کر سکتے  میں آگئی۔ لیکن دلپذیر نے سمجھایا کہ یہ ا س کی بے وفائی نہیں بلکہ شہزادہ آفت میں گھرا ہے۔ اس طرح دیونی اپنے اژدہے پر سوار شہزادے کو لے کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ شہزادی کا براحال تھا۔ دونوں سہیلیاں بمشکل اسے محل میں لائیں۔ اُدھر شعلہ جادو نے شہزادے کو ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں مقید کیا۔ شہزادے کا یہ حال تھا کہ فاقے پر فاقہ کرتے اس کی قوتِ گویائی سلب ہونے لگی۔ دیونی اس کی دل بستگی کے لیے وزیر زادے کو بھی وہاں اٹھا لائی۔ شہزادے اور وزیرزادے کے غائب ہونے پر سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ اِدھر شہزادی اور اس کی دونوں سہیلیوں کا روتے روتے برا حال تھا۔ والدین پر ان کے عشق کا راز فاش ہوا لیکن اب وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ طے پایا کہ کرامت شاہ کو طلب کرکے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ لیکن ان کی عدم موجودگی راہ میں حائل تھی۔ آخردونوں ہم جولیوں نے جوگن کا روپ دھارا اور شہزادے کی تلاش میں نکل پڑیں۔ ایک دن دونوں کا گزر ایک لق و دق صحرا سے ہوا۔ دونوں نے وہاں بیٹھ کر ستار بجانا شروع کیا۔ اسی صحرا میں پہاڑ پر ایک عالی شان مکان تھا جہاں برہان شاہ (شاہِ ساحراں) رہتا تھا۔ اس نے ستار کی آواز سنی تو دل تھام کر رہ گیا۔ اپنے مصاحبین کے ہمراہ پہاڑ سے نیچے اترا تو دیکھتے ہی نقش بردیوار رہ گیا۔ عشق کی اَنی اس کے سینے میں چبھی اور وہ بے قرار ہواٹھا۔ اس نے جو گن بننے کی وجہ دریافت کی تو انھو ںنے پورا ماجرا کہہ  سنایا۔ یہ سنتے ہی اس نے دیوشمشاد کو حکم دیا کہ ساحرہ کو قید کرکے پیش کرے۔ دیو نے حکم کی تعمیل کی اور شعلہ جادو کو سزا دی گئی۔ اُدھر شہزادی غمِ فرقت میں بے حال تھی۔ راجا اندر کا بھتیجا (چندرسین) برسوں سے شہزادی پر فریفتہ تھا۔ موقع غنیمت جان کر شہزادی کو لے کر فرار ہوگیا۔ دونوں ہم جولیاں برہان شاہ کو لے کر اپنے وطن روانہ ہوئیں۔ شہزادہ اور وزیر زادہ بھی ہمراہ چلے۔ جب اپنے وطن پہنچے تو شہزادی کے غائب ہونے کی خبر نے ششدر کردیا۔ دونوں سہیلیاں شاہ صاحب کو تلاش کرکے سارا حال کہہ  سنایا۔ شاہ صاحب نے ایک دیو کو حکم دیا کہ چندرسین کو قید کرلائے۔ وہ حکم پاتے ہی راجہ اندر کے دربار میں اترا۔ شاہ صاحب کو دیکھتے ہی راجا اندر حواس باختہ ہواٹھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا بھتیجا شہزادی کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہے۔ یہ سنتے ہی راجہ اندر نے جنوں کو حکم دیا کہ چندرسین کو حاضر کیا جائے۔ آن کی آن میں نشے میں دُھت چندرسین کو راجا کے حضور پیش کیا۔ بزم افروز اور لپذیر، شہزادی کو دیکھ کر لپٹ کر زار و قطار رونے لگیں۔ شاہ صاحب نے اسے سینے سے لگایا۔ راجہ اندر نے اپنے بھتیجے کو حبسِ دوام کی سزا سنائی۔ اس طرح تینوں بچھڑے۔ آپس میں مل گئے اور سب کی مرادیں برآئیں۔ یعنی شہزادی (جہاں افروز)  شہزادہ (سلطان شاہ) سے، وزیرزادی (بزم افروز) وزیر زادہ (خوش رو) سے اور سوداگر زادی (دلپذیر) شاہِ ساحراں (برہان شاہ) سے وابستہ ہوئیں اور خوش و خرم زندگی گزارنے لگیں۔
کردار نگاری
اس مثنوی کے فعال کردار شہزادی (جہاں افروز)، وزیرزادی (بزم افروز)، سوداگر بچی (دل پذیر) ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ضمنی کرداروں میں بادشاہ سرشار شاہ، سکندر شاہ، شہزادہ سلطان شاہ، وزیرزادہ خوش رو، درویش کرامت شاہ، شعلہ رو (ساحرہ)، برہان شاہ، اندر سین کا بھتیجا چندر سین وغیرہ ہیں۔ یہ سب کردار مثنوی کو آگے بڑھاتے ہیں اور تحیر کی فضا قائم رکھتے ہیں۔ چونکہ مصنفہ  ایک خاتون ہیں اس لیے لازمی طور پر خواتین ہی کو ترجیح دی گئی ہے اور وہ ہر معاملے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ عالم اپنی مثنوی میں سرشار شاہ (بادشاہ) کا تعارف یوں کراتی ہے  ؎
کہ کسی ملک میں تھا اک سلطان
عادل و خوش جمال والا شان
نام سرشار شاہ تھا اس کا
حسن مانند ماہ تھا اس کا
ہفت اقلیم میں حکومت تھی
جاہ و دولت تھی شان و شوکت تھی
جس طرح میر حسن نے شہزادہ بے نظیر کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں، عالم آرا نے بھی شہزادی جہاں آرا افروز کو ہر فن میں طاق اور برتر دکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مثنوی کی ہیروئن ہے لہٰذا تمام پر ترجیح دینا تقاضائے فن بھی ہے۔ وہ دیگر علوم کے علاوہ غزل گوئی اور فن موسیقی میں بھی کمال رکھتی تھی۔ اس کی خوش گلوئی پر لحنِ داؤدی قربان تھا۔ گویا دوسری بے شمار خوبیوں کا وہ مرقع تھی۔ دیکھیے یہ ابیات     ؎
موسقی علم بن کا بندھا جو خیال
سم پہ آنے لگے اٹھارہ شال
گائیں یوں سُر کو تان کر ٹپّا
مٹ گیا زور و شور شوری کا
دھن اگر آگئی الاپنے کی
کردیا بجو باورے کو سڑی
لیتی تھی ایسی آن بان سے تان
کہ پکڑتا تھا تان سین بھی کان
شعر کہنے کا ایسا رنگ ہوا
قافیہ شاعروں کا تنگ ہوا
غز اکثر رواروی میں کہی
تازہ معنی کی قید تو بھی رہی
اللہ اللہ کیا رواں تھی طبع
طبع کیا بحرِ بیکراں تھی طبع
مثنوی کی ہیروئن (جہاں افروز) کا کردار میر حسن کی ’سحرالبیان‘ کی بدر منیر سے زیادہ توانا اور جاندار ہے۔ وہ عشق پیشہ، گداز طبع اور وفادار ہے۔ وہ سیر و تفریح کی بے حد شوقین ہے۔ یوں تو وہ شہزادے کی فرقت میں بے قرار رہتی ہے تو اس کا نسائی پہلو کھل کر سامنے آتا ہے اور نارسائی سے اس کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں لیکن وہی عورت جب ضد پر آتی ہے تو پہاڑ کی طرح اٹل ہوجاتی ہے۔ شہزادی کا تدبر اس وقت قابلِ دید ہوتا ہے جب وہ چندر سین کی قید میں اسیر ہوتی ہے۔ بڑی ہوشیاری سے وہ ایک سال کی مہلت مانگتی ہے  ؎
ہم غریب الوطن ہیں اور تنہا
ظلم و بے داد کب ہے ہم پہ روا
سوچ تو ہم فلک ستائے ہیں
کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں
قید میں تیرے پھن گئی مجبور
بھاگ جانے کا بھی نہیں مقدور
بات کا ماننا بھی ہے دستور
شرط میری یہ ایک کر منظور
روز وعدے کے آج سے گن تو
ہم کو مہلت دے اک برس دن تو
جب گزر جائے گا یہ سال تمام
پھر نہیں ہم کو تجھ سے جائے کلام
تیری الفت کا دم بھریں گے ہم
جو کہے گا وہی کریں گے ہم
ایک روز اڑن تختہ لے کر شہزادی جب اپنی ہم جولیوں کے ہمراہ باغ میں پہنچتی ہے تو شہزادہ بے اختیار ہوکر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ یہاں شہزادی خاموش نہیں رہتی بلکہ ایک باعصمت خاتون کی طرح چیخ مار کر ہاتھ لگانے سے روکتی ہے۔ ہر چند کہ اسے بھی شہزادے سے عشق ہے لیکن ناموس و حیا کا تقاضا ہے کہ وہ نوکِ زبان پر بات نہ لائے جب تک کہ حالات سازگار نہ ہوجائیں۔ لہٰذا شہزادی کا ہاتھ جھٹکنا ایک فطری اور نسائی عمل ہے۔ دیکھیے اس کا انداز     ؎
پھر تو شہزادے نے پکڑ کے ہاتھ
کہا اٹھو چلو ہمارے ساتھ
ہم بھی انسان ہیں قیاس کرو
آدمیت کا کچھ تو پاس کرو
دل دکھانا کسی کا کب کا روا
چاہیے آدمی کو خوفِ خدا
نہیں معلوم کون ہیں، کیا ہیں
آپ کب کے مرے شناسا ہیں
اک دُلاہٹ کے پاس سے بیٹھو
سنبھلو صاحب، حواس سے بیٹھو
جب کنیز مشورہ دیتی ہے کہ شہزادہ بارہ دری میں چلنے پر اصرار کررہا ہے تو چلنے میں کیا ہرج ہے۔ یہ سن کر شہزادی جواب دیتی ہے   ؎
ہے مثل ندّی ناؤ کا سنجوگ
دم میں پھر ہم کہاں، کہاں یہ لوگ
یہ وہاں چل کے کر کہیں کچھ اور
اس کو بھی مان لیجیو فی الفور
تیرا کہنا یہ ہم نے مانا خیر
دیکھنا ہوتی ہے وہاں کیا سیر
اس میں حرمت کسی کی جائے تو جائے
دل تمہارا مزے تو مفت اٹھائے
بدلے لیں یہ تو آج کے کل کے
میں سمجھ لوں گی تجھ سے گھر چل کے
بزم افروز (وزیرزادی) ایک ٹائپ کردار ہے۔ وہ شہزادی کی دم ساز ہے اس لیے وہ اس کے ساتھ ہر جگہ رہتی ہے۔ دلپذیر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور سیر سپاٹے کرنا اس کا مشغلہ ہے۔ البتہ وہ اس وقت بڑی ذہین نظر آتی ہے جب شہزادہ کو اس کی قید سے آزاد کران کے لیے جوگن کا روپ دھارتی ہے۔
مثنوی کا بے حد فعال کردار سوداگر بچی (دلپذیر) کا ہے جو سحرالبیان کی نجم النسا سے مماثل ہے۔ وہ اتنی شوخ و طرار ہے کہ اس پر عشق کا جادو نہیں چلا۔ وہ دوراندیش  اور باریک بین ہے۔ وہ پوری کہانی میں شروع سے آخر تک چھائی ہوئی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے چلبلے پن سے ہی کہانی میں جان پڑتی ہے۔ اس کردار کو عالم آرا نے کچھ یوں پیش کیا ہے   ؎
ان میں تھی دل پذیر مہہ پارہ
چست و چالاک و شوخ و عیّارہ
دل ربائی میں ایک آفت تھی
فتنہ پرداز تھی، قیامت تھی
نچلی رہتی نہ تھی کبھی دم بھر
گبرو ترسا کی تھی وہ غارت گر
اس کی ہر بات میں نزاکت تھی
نئے انداز کی ظرافت تھی
کبھی وہ زہر تھی، کبھی تریاک
بے تکلف، شریر او ربے باک
تینوں ہم جولیاں اڑن تختے پر سوار شہزادے کے باغ میں جاتی ہیں، تو دلپذیر ہی کی پہلی نظر شہزادے اور وزیرزادے پر پڑتی ہے۔ وہ دونوں کو لے جا کر دکھاتی ہے اور سوئے میں شہزادے کی انگوٹھی بدل لیتی ہے۔اسی طرح شہزادی کو قید سے چھڑانے کے لیے دلپذیر جوگن بنتی ہے۔ اپنے بدن پر بھبھوت ملتی ہے اور مرگِ چھالا پہن کر صحرا کی خاک چھانتی پھرتی ہے۔ زبان پر ’ہربھجو ہر بھجو‘ کا ورد ہوتا ہے۔ جب برہان شاہ اس پر عاشق ہوجاتا ہے تو وہ اپنی بھرپور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دامِ الفت میں پھنسا کر قید سے نجات دلاتی ہے جسے شعلہ رُو (دیونی) قید کرلیتی ہے۔
مختصر یہ کہ پوری مثنوی پر دلپذیر چھائی ہوئی ہے۔ وہ شوخ و طرار بھی ہے اور حاضر جواب بھی، جو اپنی حاضرجوابی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
شہزادہ (سلطان شاہ) ایک غیرمتحرک اور مجہول کردار ہے جو اپنے ہم راز وزیرزادہ (خوش رُو) کے اشارے کا محتاج ہے۔ خوابیدہ حالت میں اس کی انگلی سے خاتم نکال لی جاتی ہے لیکن اسے خبر تک نہیں ہوتی۔ اس طرح باغ میں شہزادی کو دیکھ کر اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے جسے شہزادی جھڑک دیتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ خوبرو ہے۔ اسے لکھنے پڑھنے کے سوا کسی چیز میں رغبت نہیں، نہ ہی عشق سے کوئی واسطہ، نہ ہی سیر وتفریح سے کوئی غرض۔ اس کی خوبصورتی کو مثنوی نگار نے یوں پیش کیا ہے   ؎
ایک فرزند تھا جو نورِ نگاہ
جاں و سلطان و نام سلطان شاہ
رتبہ اس کا بلند حسن پہ تھا
مہر و مہ سے دو چند حسن میں تھا
حق نے صورت عجب بنائی تھی
دیکھنے میں کبھی نہ آئی تھی
کچھ فقط باپ ہی نہ مرتا تھا
اک جہاں اس کو پیار کرتا تھا
لکھنے اور پڑھنے کے سوا وہ ماہ
تھا کسی کام سے نہ کچھ آگاہ
رُچ نہ تھی اس کو دلبری کی طرف
رُخ نہ کرتا تھا وہ پری کی طرف
بلکہ سیدھا تھا اس قدر وہ ماہ
کہ خمِ زلف سے نہ تھا آگاہ
فوق الفطری کرداروں میں شعلہ جادو (دیونی) ایک جیتا جاگتا کردا رہے۔ اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے   ؎
ساحرہ دیونی تھی وہ خوں خوار
قد و قامت تھا یا درخت چنار
ہاتھ دونوں شجر کے دو ڈالے
بس ہو جس کا وہ چھانٹ ہی ڈالے
پوپلا منہ مسوڑھے نیلے تھے
جوڑ سارے بدن  کے ڈھیلے تھے
گال پچکے تھے، ناک بیٹھی تھی
جسم کی کھال سیری اینٹھی تھی
سینہ پر کینہ اس پہ دو تھے کدو
لنبے لنبے لٹکتے تھے ہر سو
بھٹنی نانک متی کا گولا تھا
روئی سے نرم تھی ٹٹولا تھا
پیٹ جیسے لوہار کی ہو کھال
ناف میں باندھ لو خرِ دجّال
پیڑو اونچا تھا اس کے نیچے پہاڑ
کہیے ٹانگوں کو واقعی دو تاڑ
نام شعلہ تھا سارا جسم شرار
وقنا ربنا عذاب النار
عالم آرا کی کردار نگاری کا وصف ہے کہ انھوں نے کرداروں کی مناسبت سے ان کی ہیئت اور زبان بھی استعمال کی ہے۔ شعلہ جادو کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا ہے کہ اس کی پوری تصویر پورے خد و خال کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
مثنوی میں چھوٹے چھوٹے دوسرے کردار بھی موقع و محل کے اعتبار سے آتے گئے ہیں اور اپنی جھلک دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ چند کردار تو محض زیب داستان کے لیے لائے گئے ہیں جو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن وہ ٹائپ کردار ہیں اور بے جان ہیں۔
منظرنگاری
’مثنویِ عالم‘ میں جہاں کردارنگاری کے واضح نمونے ملتے ہیں، وہیں منظرنگاری کا کمال بھی اپنے عروج پر ہے۔ اس مثنوی میں مثنوی نگار نے اس غضب کی منظرنگاری کی ہے کہ سارے مناظر نظروں کے سامنے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شہزادی جب بادشاہ سے اجازت لے کر اپنی ہم جلیسوں کے ہمراہ باغ کی سیر کو جاتی ہے تو وہاں وہ ایرانی پھولوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی پھلوں کا یوں ذکر کرتی ہیں   ؎
پٹریاں تھیں چمن کی سب رنگین
نسترن تھی کہیں، کہیں نسرین
زور کیفیتوں پہ تھا لالہ
ساغرِ مے لیے تھا متوالا
ارغواں جیسے لال انگارہ
چشم نرگس کی محو نظارہ
برگ سوسن میں تھی مسی کی بہار
گل پیادہ کہیں کہیں اسوار
راست بازان سرو تھے لبِ جو
فاختہ ان پہ کرتی تھی کو کو
یہاں ایک ایسے باغ کا منظر دکھائی دیتا ہے جو خیالی نہیں بلکہ شمالی ہند کے شہروں میں عموماً ملتا ہے۔ باغ کی ایسی واضح اور حقیقی تصویر دوسری مثنوی میں نہیں ملتی۔ اس باغ میں شہزادی کی ہم جولیاں دونوں وقت ملنے کی درخواست کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر اور ٹھہر کر باغ کا لطف لیا جائے۔ ذیل کے ان اشعار میں مثنوی نگار نے کس ہنرمندی سے سماں باندھا ہے۔ دیکھیے   ؎
غنچہ و گل چٹکتے کھلتے ہیں
دیکھتا دونوں وقت ملتے ہیں
آشیانوں میں طائر آتے ہیں
کیا چہکتے ہیں غل مچاتے ہیں
کھیت کرتا ہے چاند بھی اس دم
شبِ مہ کا تو دیکھیے عالم
گائنوں کو بلا کے کچھ سن لیں
بیلا کھِلتا ہے پھول بھی چن لیں
شہزادے کے باغ میں شہزادی کا اپنی ہم جولیوں کے ساتھ جانا اور دیکھتے ہی دل پر عشق کا تیر چلنا، پھر ملاقات کے لیے بے قراری، یہ ایسے خوش کن مناظر ہیں جو آنکھوں کے سامنے رقصاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہزادی کے دل میں وصل کی آرزو میں خود کو آراستہ کرنا۔ یہ منظر بھی بے حد دیدنی اور پرکیف ہے   ؎
تازہ زخمِ جگر کا گھاؤ ہوا
جس سے گھر بگڑیں وہ بناؤ ہوا
سرمہ مِسّی لگا کے کھائے پان
لال ہونٹوں پہ رنگ لائے پان
چُن کے افشاں عروس نو وہ نہیں
ہوئیں بن ٹھن کے چست ماہ جبیں
کرتی انگیا کا وہ ستم جوبن
جس پہ سورج کی سب ٹکی تھی کرن
بھاری جوڑے وہ بانکپن کی بہار
بازوؤں پر وہ نورتن کی بہار
بجلیاں برق چھالے موتی کے
ہیکلیں اور مالے موتی کے
وہ نیا شوق دل لگانے کا
ذوق وہ دیکھنے دکھانے کا
بارات نکلنے کا منظر بڑا دیدہ زیب ہے۔ نوشاہ ہاتھی پر سوار دولھن کے گھر کی طرف چلتا ہے تو انسانوں کا ایک جم غفیر اس کے ساتھ چلتا ہے۔ اتنی بھیڑ کہ چلنے کو راستہ نہیں مل پاتا ہے۔ اسی طرح رخصتی کا منظر بھی بڑا دل دوز ہے۔ جب دولھا، دولھن کو پالکی میں سوار کرتا ہے تو ہر طرف غم و اندوہ کا بادل چھا جاتا ہے۔ رخصتی کا وقت بھی عجیب ہوتا ہے کہ ہر کوئی چشم نم دکھائی دیتا ہے اور لب پر دعائیں ہوتی ہیں     ؎

دولھے نے لے کے گود میں ایک بار
کیا سکھ پال میں دولھن کو سوار
دل پہ سب کے ہوا جو غم کا وفور
روکے سب نے مچایا شور و نشور
وقت وہ کچھ عجیب ہوتا ہے
سانحہ یہ غریب ہوتا ہے
چہچہوں میں وہ جان کھونے لگی
ہنستے ہنستے قلق سے رونے لگی
صبح  کا وقت نور کا تڑکا
چاند کا منہ سفید رنگ اڑا
شب کو جن پہ تھی سو طرح کی بہار
صبح پژمردہ وہ پڑے تھے ہار
ہوا دولھا سوار ہاتھی پر
کچھ عجب تھی بہار ہاتھی پر
لاکھوں من چاندی اور سونے کے
پھول سکھ پال پر نثار کیے
کس جھمکڑی سے سمدھن تھیں سوار
ہوئی رخصت برات مثلِ بہار
وصل کا منظر شوق کی مثنویو ںکی طرح عریاں نہیں۔ بس اشارے کنائے میں مثنوی نگار نے دل کی بات کہہ ڈالی ہے۔ مثلاً     ؎  
کیا لکھوں واردات جو گزری
جس کی خواہش تھی وہ بھی ہوگزری
غرض کہ  عالم آرا نے قصہ نگاری کے بیشتر لوازم پورے کیے ہیں۔ مثلاً سلطنت کی شان و شوکت، بادشاہ کی محرومی، باغ کی رونق، جوگیوں اور رمالوں کے زائچے، شہزادی کی ولادت اور جشن کا ماحول، جوگنوں کی ہیئت کذائی، شعلہ رو کی ہیبت ناکی، شہزادے کی خواب گاہ کا حسین منظر، ہم جلیسوں کی چھیڑچھاڑ، شادی کا جشن وغیرہ۔ گویا تمام جزئیات کی سچی تصویر ہمارے سامنے پیش کردی ہے۔ عالم آرا کو منظر نگاری پر حددرجہ کمال حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ  قاری پڑھتے ہوئے ان مناظر میں کھو سا جاتا ہے۔
جذبات نگاری
اس مثنوی میں عالم آرا نے فطرتِ انسانی کے متعدد اور گوناگوں پہلوؤں کو بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ ہر مقام پر انھوں نے توازن و تناسب اور اثر و نفوذ برقرار رکھا ہے جہاں انھوں نے لکھنوی تہذیب و تمدن کے پس منظر میں مختلف کرداروں کو اصل کے قریب کردیا ہے، وہیں ان کے جذبات کو بھی نہایت خوبی سے برتا ہے۔ مثلاً جب تینوں ہم جولیاں شباب کو پہنچتی ہیں تو ان کے حرکات و سکنات پر انّاکڑی نظر رکھتی ہے، بالخصوص دونوں لڑکیوں (وزیرزادی اور دلپذیر) پر کیونکہ اسے ڈر تھا کہ یہی دونوں شہزادی کو بہکا سکتی ہیں۔ ایک دن شہزادی جب محل سے باہر جانے کی خواہش ظاہر کرتی ہے تو انّا کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ ہو نہ ہو یہ دونوں کی کارستانی ہو۔ لہٰذا بھنک ملنا تھی کہ اس نے دونوں کو خوب لتاڑا۔ سنتے سنتے دلپذیر سے جب رہا نہ گیا تو وہ کڑک کر یوں جواب دیتی ہے   ؎
میں ادب کرتی ہوں تمھارا بس
اب یہ نخرے نہیں گوارا بس
کھل گئی جس گھڑی کہ میری زباں
کچھ اٹھا رکھوں گی نہ میں بھی ہاں
مجھ کو جو رنج ہے وہ کس سے کہوں
نوج پہ بوڑھے چونچلے میں سہوں
آپ کی آنکھ میں جو کھٹکی ہوں
کیا  رومّے سے میں بھی اٹکی ہوں
یا کہ درباری سے ہے آنکھ لڑی
یا کسی مرد پر پھسل میں پڑی؟
کرتا شنگرفی میں رنگاتی ہوں
جھرّی پیڑو کی میں دکھاتی ہوں
میری خاطر ہزاری روتا ہے
بوڑھے چونڈے میں وسمہ ہوتا ہے
یہ سن کر انّا کب خاموش رہنے والی تھی۔ اس نے بگڑ کر کرارا جواب دیا   ؎
سن کے انّا کو نون مرچ لگی
بولی جھلّا کے کیوں ری چھتّیسی
مرنے جوگی ہوئی تو نا شدنی
ایسی باتوں سے کیا ہے جی میں ٹھنی
تجھ سی جنتی نہ تیری ماں دختر
تیرے بدلے نہ نکلا کیوں پتھر
شہزادی جو پاس ہی کھڑی تھی، اس نے انّا کو ڈانٹا   ؎
یہ میری غم گسار ہیں دونوں
دل سے مجھ پر نثار ہیں دونوں
تجھ کو کھڑ پچ انھیں سے رہتی ہے
جو نہ کہنا ہے ان کو کہتی ہے
بے سبب جب سے تو اٹکنے لگی
میری نظروں میں بھی کھٹکنے لگی
یہاں شہزادی کا غصہ ہونا فطری ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شہزادی اپنی ہم جلیسوں کو کبھی اس طرح ڈانٹ نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ محض ہم جولیاں نہیں بلکہ شہزادی کی ہم راز اور ہم خیال بھی ہیں۔
جب شہزادی کے کلیجے میں عشق کی اَنی چبھی تو وہ بے حال ہو اٹھی۔ شہزادے کی یاد میں ہر دم گم صم رہنا اور غمِ فرقت میں پُرنم رہنا اس کا معمول بن گیا۔ اب اس کے غم کا مداوا اس کے وصل میں پوشیدہ تھا۔ پاؤں رکھتی کہیں تھی، پڑتے کہیں تھے    ؎
کہیں پڑتا تھا پاؤں رکھتی کہیں
جی میں آتا تھا بیٹھ رہے ہیں
دھیان سر کا نہ تھا نہ کچھ تن کا
پاؤں ہر اک ہوا تھا سومن کا
قدم آگے کا پیچھے پڑتا تھا
دل پڑا ایڑیاں رگڑتا تھا
چال ہر دم نئی وہ چلتی تھی
چلتی کیا خاک تھی، مچلتی تھی
دل ہوا تھا جو مائلِ دلدار
چھوڑنا اس کا سخت تھا دشوار
ایک روز اچانک جب راجہ اندر کا بھتیجا چندر سین شہزادی کو اڑا لے جاتا ہے اور اس سے ہم کلامی و ارتباط چاہتا ہے تو شہزادی الجھ پڑتی ہے اور خنجر نکال کر انتباہ کرتی ہے کہ اگر اس نے ہاتھ لگایا تو وہ خود کو ہلاک کرے گی۔ دیکھیے یہ منظر   ؎
ہاتھ اس کا جھٹک کر اس نے کہا
آج کیا ہے قریب میری قضا؟
گر زبردستی ایسی تونے کی
جان لے یہ کہ جان میں نے دی
یہ کہا اور کھینچی اس نے کٹار
خون ہوگا مرا جو کی تکرار
بس چندر سین ہوگیا ٹھنڈا
حال شہزادی کا جو یہ دیکھا
ان اشعار میں ایک عورت کے جذبات کی سچی عکاسی ملتی ہے۔ وہ واقف ہے کہ اس کے جسم و جان پر کسی اور کا اختیار ہے۔ وہ کسی اور کی امانت ہے، لہٰذا ناموس اور حیا اس کا زیو رہے۔
کرامت شاہ کو جب شہزادی کے غائب ہونے کی اطلاع ملتی ہے تووہ تڑپ اٹھتا ہے اور راجا اندر کے دربار میں جاکر اپنے غم و غصے کا اظہار یوں کرتا ہے   ؎
اس طرح سے درِ سخن کھولے
طیش میں آکے شاہ جی بولے
تم پھنسے ناچ رنگ میں ایسے
واہ بے ہوش ہوگئے کیسے
نہ رہی نیک و بد کی خاک خبر
ظلم ہونے لگے خلائق پر
ایسا غافل نہ چاہیے حاکم
ظلم مظلوم پر کرے ظالم
بیٹی سرشار شاہ کی ہو اسیر
اس کا ماتم کریں صغیر و کبیر
بن گئی ہے وہاں تو جانوں پر
نہ پھری جون تمہارے کانوں پر
کرامت شاہ کا غصہ یہاں فطری ہے کیونکہ شہزادی اس کی منہ بولی بیٹی ہے اور جسے جنوں اور دیووں پر قبضہ ہے۔ وہ شاہِ ساحراں ہے۔ پھر اس کی موجودگی میں شہزادی کا غائب ہونا اس کی شان کے منافی ہے۔
شاہ صاحب کی کوششوں سے جب شہزادی چھوٹ کر اپنے محل میں داخل ہوتی ہے تو ماں باپ کے جذبات امنڈ آتے ہیں۔
بادشاہ شہزادی کو سینے سے لگا کر رو پڑتا ہے تو اُدھر ماں کا دل فرطِ الفت سے بھر آتا ہے    ؎
شاہزادی کی ماں کا تھا یہ حال
پیشِ خالق کھلے تھے سر کے بال
سجدے کرتی تھی وہ بہ عجز و نیاز
کی ادا جلد شکر حق کی نماز
دفعتاً مل گئی جو دل کی مراد
دین و دنیا رہی نہ اس کو یاد
بچھڑی بیٹی جو یک بیک پائی
فرطِ الفت سے چھاتی بھر  آئی
دل جو امڈا تو بے قرار ہوئی
نہ ہوا ضبط اشک بار ہوئی
یہاں ایک ماں کے فطری اور سچے جذبات کی مکمل عکاسی کی گئی ہے جس میں تصنع اور تکلف کا شائبہ تک نہیں۔
معاشرت کی تصویر کشی
’مثنویِ عالم‘ میں اپنے عہد کے تہذیب و تمدن، عوام الناس کے اخلاق و اطوار اور رسم و رواج کی بڑی عمدہ تصویر ملتی ہے۔ اودھ کی تہذیب، بچے کی ولادت پر نجومیوں کا زائچہ دیکھنا اور پیش گوئی کرنا، عشق و معاشقے کی گرم بازاری، شادی کی چہل پہل، مانجھا بھیجنا، چھڑی کھیلنا، دولھن کا منہدی رچانا وغیرہ کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ مثنوی ایک آرٹ گیلری بن گئی ہے جہاں لکھنؤ کی معاشرت کی بے شمار جیتی جاگتی تصویریں ہماری نظروں کے سامنے رقصاں نظر آتی ہیں   ؎
مانجھا جاتا ہے سمدھیانے میں
زغواں زار ہے زمانے میں
زاد رنگت نے ایسا پایا رواج
ہر خزف ریزہ بن گیا پکھراج
منہ جو ہوتا ہے عاشقوں کا زرد
ہے اسی روز کی جمی ہوئی گرد
شادی سے قبل منہدی رچانے کی رسم بھی معاشرے میں رائج ہے جس کی خوبصورت ترجمانی اس مثنوی میں یوں ملتی ہے    ؎
الغرض آیا روز سا چق کا
شاہ صاحب نے اہتمام کیا
چو گھڑے نقرئی طلائی واہ
پھسلے جس پر بشر کا پائے نگاہ
وہی مٹکی میں تھا بصد تزئیں
ناڑے میں مچھلیاں گلے میں بندھیں
وہ پری بادلے کی چھڑیاں تھیں
جن میں بس موتیوں کی لڑیاں تھیں
جس نے ان خوانوں پر نظر ڈالی
صاف آنکھوں میں آگئی لالی
اس طرح دیکھا جائے تو پوری مثنوی میں ہماری معاشرت کی بھرپور مرقع کشی ملتی ہے جو یقینا عالم آرا کے فن کی معراج ہے۔
مثنوی کی زبان
عالم آرا بیگم کوئی عام خاتون نہ تھیں بلکہ آخری تاجدارِ اودھ نواب واجد علی شاہ کی محلِ خاص تھیں اور لکھنوی تہذیب کی پروردہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ پاکیزہ ترین نسوانی روزمرہ ہوگا۔ بقول گیان چند جین   ؎
’’زبان کا جہاں تک تعلق ہے، یہ داستانی دبستان کی چوٹی کی مثنویوں میں سے ہے۔‘‘ (ص 577)
جبکہ کوکب سجاد میرزا کا کہنا ہے:
’’زبان رواں اور اچھی ہے لیکن فصیح و بلیغ کہنے میں کلام ہے!‘‘
اگر زیرِ بحث مثنوی کا جائزہ لیا جائے تو یہ منکشف ہوگا کہ ’مثنویِ عالم‘ دراصل اپنی زبان ہی کے لیے مشہور ہے۔ الفاظ کے برمحل استعمال اور محاوروں کی چستی نے اس مثنوی میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ عالم آرا نے اس میں جابہ جا بامحاورہ زبان استعمال کی ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ تحریر میں اثر و نفوذ باہر سے نہیں آتا بلکہ اس کے لکھنے والے کے قلب میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ شہزادی کی انّا وزیرزادی اور دلپذیر کی حرکتوں کو دیکھ کر کڑھتی رہتی ہے۔ وہ گویا ہوتی ہے   ؎
تم نے اتنی کہاں اڑائی ہیں
جس قدر میں نے بھون کھائی ہیں
دونوں یہ لڑکیاں جو ہیں شتّاہ
ان کے دم میں نہ آنا تم واللہ
بکتے بکتے ہوئی ہیں دیوانی
ان کے دیدوں کا ڈھل گیا پانی
تھگلی بادل میں یہ لگائیں گی
دیکھنا کیسے گل کھلائیں گی
زبان و بیان کی خوبیوں کے ساتھ مثنوی میں مکالماتی حسن کی بھی کمی نہیں۔ موقع و محل کے لحاظ سے مثنوی نگار نے کرداروں کے درمیان جو مکالمہ پیش کیا ہے وہ نہایت برجستہ اور دلچسپ ہے۔ مثلاً برہان شاہ اور جوگنوں کے درمیان ہوئے مکالمے کی خوبی ملاحظہ کیجیے   ؎
عرض کی اس نے کیوں لیا یہ جوگ؟
بولیں وہ پڑگیا ہے ایک بجوگ
وہ لگا کہنے، ہے کسی سے لگاؤ؟
کہا چل دو زیادہ سر نہ پھراؤ
پوچھا ویرانہ کیوں تمھیں بھایا
بولیں اک بوم کا پڑا سایا
پوچھا کیوں پھر رہی ہو آوارہ
کہا تقدیر سے ہے کیا چارہ
اس مثنوی میں زبان اور طرزِ بیان کے علاوہ لکھنؤ کا روزمرہ، محاورات و اشارات قاری کو اکثر اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ہر صفحے پر محاورے اور بیگماتی زبان کی کارفرمائی ملتی ہے۔ چند اشعار بطورِ نمونہ پیش خدمت ہیں    ؎
عہد و پیمان بھولے سب یکسر
پڑگئے چھ پہر میں یہ پتھر
دشت بستے ہیں گھر اجڑتے ہیں
اس میں لینے کے دینے پڑتے ہیں
زخم سینے کے سب ہوئے آلے
اب تو جینے کے پڑگلے پالے
اس نے اپنی ہوا یہ باندھی ہے
رنج دینے میں سب کی آندھی ہے
برق چمکی ہے، ابر چھایا ہے
خُم لنڈھانے کا وقت آیا ہے
عالم آرا کا اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے جابہ جا ہندی کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو کرداروں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ہندی الفاظ کا برمحل استعمال اس خوبی سے کیا ہے کہ مثنوی میں جان پڑگئی ہے اور کردار جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ ذیل کے ابیات دیکھیں   ؎
آدمی وہ نہیں جو ٹھنڈا ہو
ایک جا بیٹھ کے مرنڈا ہو
آپ کی آنکھ میں جو کھٹکی ہوں
کیا رونّے سے میں بھی اٹکی ہوں
ابھی میں اپنے گھر کو جاؤں گی
بھتّی انّا کی آج کھاؤں گی
تجھ کو کھڑپچ انھیں سے رہتی ہے
جو نہ کہنا ہے ان کو کہتی ہے
باغ میں آکے خار میں ہوں پھنسی
میں تو کواّ گہار میں ہوں پھنسی
حال تقدیر کے بجوگ کا ہے
سانحہ آگے اس کے جوگ کا ہے
اگر فنی محاسن اور زبان و بیان کی خوبیوں کے نقطۂ نظر سے اس مثنوی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ یہ دوسری معروف مثنویوں کی طرح اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ عالم آرا کا مشاہدہ بڑا گہرا اور نظر تیز ہے۔ وہ جزئیات پر دسترس رکھتی ہیں۔ مثنوی کی زبان، الفاظ کا در و بست اور روانی و بے ساختگی اپنے عروج پر ہے۔ کہیں کہیں فحش اشعار چپکے سے داخل ہوگئے ہیں لیکن یہ مومن اور شوق کی مثنویوں کی طرح بے محل نہیں بلکہ کرداروں کی مناسبت سے ضرورتاً پیش کیے گئے ہیں۔ عالم آرا بیگم کی مثنوی کا اصل محرک دراصل محاوراتِ نسواں کا تحفظ ہے اور یہی چیز اس مثنوی کی جان ہے۔ میرے خیال میں زبان و بیان، طلسمی پلاٹ اور اپنی اصلیت و سادگی کے اعتبار سے اس مثنوی کا شمار اوّل درجے کی مثنویوں میں ہونا چاہیے۔
v
Dr. Sanjar Helal Bharti
Anglo Persian Department Calcutta Madrasah
21, Haji Md. Mohsin Sq
Kolkata- 700016 (W.B)

 سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں