17/3/20

شاہ غلام حسین چشتی ایلچ پوری ایک صوفی شاعر ایک ولی اللہ (1721-1795) مضمون نگار: حیدر بیابانی



شاہ غلام حسین چشتی ایلچ پوری
ایک صوفی شاعر ایک ولی اللہ (1721-1795)
حیدر بیابانی
تلخیص:
شاہ سید غلام حسین چشتی ؒ علاقۂ برار (ودربھ) کے ایک صوفی شاعر گزرے ہیں۔ وہ برار کے دکنی ایوانِ شاعری کے اہم ستون ہیں۔ ولی دکنی کے بعد برج بھاشا کا جتنا اثر شاہ صاحب کے کلام میں نظر آتا ہے اتنا شاید کسی اور شاعر کے کلام میں ہوگا۔ شاہ حسین کے دکنی کلام پر علاقائی زبان مراٹھی (دراوڑی بھاشا) کا بھی کافی اثر دکھائی دیتا ہے۔
آپ کا کلام علاقۂ برار میں بہت مقبول رہا ہے۔ آج بھی ان کی کئی طویل نظمیں علاقے میں نہایت پسند کی جاتی ہیں۔ اور زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ اردو زبان میں منظوم سفر نامہ لکھ کر شاہ صاحب نے اولیّت کا درجہ پا لیا ہے۔ اس کے علاوہ اُن سے پہلے ہندو مسلم ایکتا پر لکھی گئی کسی کی کوئی نظم شایدہی کہیں ملے۔
کلیدی الفاظ:
شاہ سیّد غلام حُسین ولی دکنی، ولی اللہ، توشیحی نظم، منظوم سفر نامہ، دکنی زبان،برج بھاشا، صنائع بدائع، عارفانہ صوفیانہ شاعری، ہندی بحور واوزان، کرشن ساہتیہ۔
——————
شہر اچل پور جو صوبۂ  مہاراشٹر کے علاقۂ  ودربھ میں ضم ہوئے خطۂ برار کا وہ شہر ہے جو ودربھ کے وجود میں آنے سے پہلے سلطنت ِبرار کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔ ست پڑا پہاڑ کے دامن میں بسا یہ شہر ماضی میں شاعروں، ادیبوں، صوفیوں اور فنکاروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ دہلی سے حیدر آباد دکن جانے والے قدیم و واحد راستے میں واقع اس بستی سے بڑے بڑے بادشاہوں، سورماؤں، سپاہ سالاروں  اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ چوروں، ڈاکوؤں اور ٹھگوں کا گزر بھی ہوا ہے۔
گمان غالب ہے کہ برار میں اسلام کی آمد شاہ دولہا رحمن غازی ؒ کے معرکۂ جہاد (392ھ بمطابق 1002) سے ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں حدیث کی روشنی سورت (گجرات) سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے اچل پور میں نمودار ہوئی جس کے ثبوت میں یہاں عظیم الشّان تاریخی مدرسوں کا قیام اور ملک و بیرون ملک سے آئے مایہ ناز مدرسین کی آمد اور ان کے مزارات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہندو دیو مالائی گرنتھوں میں اس کا نام اچل پور ہی ملتا ہے۔ مختلف ادوار میں اسے اڑس پور، ایلچا پور اور ایلچ پور بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اور اب پھر سے اچل پور کے نام سے جانا جانے لگا ہے۔
اچل پور کی ادبی تاریخ بھی اپنے اندر بلا کی آب و تاب رکھتی ہے۔ مراٹھی زبان کی پہلی نثر بعنوان ’لیلا چرتر‘ یہیں لکھی گئی جو سوامی چکر دھر مہاراج کے فرمودات پر مبنی ہے جسے اُس زمانے میں ماہم بھٹ نے تحریر کیا ( اس تحقیق پر ڈاکٹر کولتے کو ناگپور یونیورسٹی سے ڈی۔لٹ کی ڈگری بھی تفویض ہوئی ہے ) سوامی چکر دھر مہاراج جو مہاانو بھئو پنتھ کے بانی گردانے جاتے ہیں۔ جہاں تک اردو شعر و ادب کا سوال ہے یہ شہر ہمیشہ ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں پر قائم شدہ مدرسہ ملک بھر کا مرکز نگاہ بنا رہا دور  دور سے عالم و فاضل مدرسین حضرات یہاں تشریف لائے اور عربی و فارسی زبان میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ملک بھر سے طالب علم اور تشنگانِ ادب اپنی پیاس بجھانے یہاں آتے جاتے رہے۔ اس طرح کے علمی ماحول کے ہوتے یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ادیب و شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں ودربھ کا پہلا اردو نثر نگار حاجی امام الدّین عرف حاجی محمد عبداللہ (کتاب شہادت الانوار 1279ھ مرتبہ سید غلام علی بیابانی)  اور پہلا صاحب دیوان ہندو شاعر انبا پرشاد طرب (کتاب کلیات طرب 1327ھ مرتبہ سید غلام علی بیابانی ) اسی شہر کی ہواؤں کے پروردہ تھے۔
اچل پور (برار) کے صوفی شاعر شاہ سید غلام حسین (1721 سے 1795) بڑے پائے کے بزرگ اور مستند شاعر گزرے ہیں جن کی کئی تخلیقات زبان زد خاص و عام ہیں اور جو مخطوطات کی شکلوں میں خطیبیہ لائبریری جامع مسجد میں محفوظ و موجود ہیں۔ شاہ غلام حسین غضب کے کاتب بھی تھے۔ اپنے حجرے میں بیٹھے قرآن پاک کی کتابت کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے کئی مخطوطات خود ان کی خوبصورت کتابت میں شہر کے مختلف لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ ان کا صوفیانہ کلام آج بھی شہر اور اطراف ِشہر بڑی عقیدت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو سلام کرتے ہوئے ایک توشیحی نظم یوں کہی گئی ہے      ؎
ش::
شمار اُن کا ہے اگلے وقت کے روشن مناروں میں
گنیں اہل ادب ان کو قلم کے شہسواروں میں
۱:
اچل پور ان کا مسکن تھا، ادب کا جو ٹھکانہ تھا
یہیں پر زندگی گزری یہیں کا آب و دانہ تھا
ہ:
ہوئے تھے اُن پہ نازل علم و فن کے ایسے سی پارے
کہ جن کو پڑھ کے روشن ہوگئے ان پر طبق سارے
غ:
غلام ابنِ علی تھے وہ، ولی اللہ تھے بے شک
ادب پر حکمرانی تھی، قلم کے شاہ تھے بے شک
ل:
’’لگن نامہ‘‘، لکھا کیا خوب، کیا جادو بیانی ہے
ہے ایسی نظم کہ جس کی نہ کوئی نظم ثانی ہے
ا:
انھیں دل سے عقیدت تھی شۂ رحمن غازی سے
وہ منزل پا گئے اپنی رہ رحمن غازی سے
م:
مبارک نام والے تھے، مبارک کام تھے ان کے
خدا کی بندگی کو وقف صبح و شام تھے اُن کے
ح:
حکومت کرگئے ہر دل پہ اپنی بردباری سے
گزاری زندگی ساری کی ساری دین داری سے
س:
’’سفر نامہ‘‘، بھی اک منظوم ان کے نام ایسا ہے
زبانِ ریختہ میں سب سفر ناموں سے پہلا ہے
ی:
یہ جو ’’یک رنگ نامہ‘‘، ہے محبت کا سبق پہلا
ہے اردو شاعری میں ’’قومی ایکتا‘‘ کا ورق پہلا
ن:
نمائندہ کلام ان کا، چنندہ ان کی تحریریں
رہیں گی تا قیامت یونہی زندہ ان کی تحریریں

حیدر بیابانی
لگن نامہ
’لگن نامہ‘ شاہ صاحب کی وہ نظم ہے جو ان کی اپنی زندگی میں ہی بے حد مقبول و مشہور ہوچکی تھی۔ یعنی گھر گھر پڑھی اور سنی جاتی تھی اور آج بھی اُسی طرح پسند خاص و عام ہے۔ ہر میلاد کی محفل میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی اور بڑی عقیدت و احترام سے سنی جاتی ہے۔ دیوان حسین میں شامل اس نظم کے قدیم نسخے سالار جنگ میوزیم لائبریری حیدر آباد، انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ اور کتب خانہ جامع مسجد ممبئی میں موجود ہیں۔ اس کے ایک مخطوطے کا ذکر قومی کونسل کی کتاب ’’تذکرئہ مخطوطات (از ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ) میں بھی ملتا ہے۔ اس کی نقل بھی اس کتاب میں موجود ہے لیکن غالباً مخطوطہ آخر و اول ناقص ہونے کی صورت میں یہ خداداد جہاں نما کا ہوسکتا ہے۔ ایسا شک ظاہر کیا گیا ہے۔
’لگن نامہ‘ یہ پوری نظم تمثیلی انداز لیے ہوئے ہے۔ انسان کو ایک دلہن کا روپ دے کر اُسے آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس دنیا کو عالم فانی قرار دے کر اس کو دلہن نما انسان کا میکہ مانا ہے۔ جہاں چند دن کا ٹھکانہ ہے لیکن سسرال یعنی عالم بالا اصل اور دائمی ٹھکانہ ہے۔ اس ٹھکانے پر جانے کے لیے اپنے اچھے اعمال کا سودا لے جانا نہایت ضروری ہے تاکہ سسرال میں دلہن کی قدر و قیمت ہو اور اس کا ٹھکانہ جنت نشان بن جائے۔ شیطان کو سوتن سے تعبیر کیا گیا ہے، ایک ایسی سوتن جو کبھی نہیں چاہتی کہ سجنی (انسان) کا ساجن (یعنی اللہ سے ملن ہو۔ اس لیے سجنی کو اپنے ساجن کے حصول کے لیے دنیا میں رہ کر ہر طرح کی کوششیں کرلینی چاہیے۔ یعنی اچھے اعمال کے ساتھ اپنے میکے سے رخصت ہونا چاہیے تاکہ اپنے ساجن کا قربت و خوشنودی پاسکے اس طرح شاعر نے اپنے علم اور معرفت کے ذریعے اس نظم کو صوفیانہ کلام کا بہترین نمونہ بنادیا ہے۔ نظم کا اسلوب ہندی کویتاؤں کی طرح ہے دکنی لہجے میں متروک الفاظ کے استعمال کے باوجود نظم بڑی سلیس اور رواں دواں ہوگئی ہے۔ ہندی، دکنی، براری اور کہیں کہیں مراٹھی زبان کی لفظیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی تراکیب بھی بڑی عمدگی سے نظم ہوئی ہیں     ؎
تمنا کو اے سہیلیاں میٹھا بچن سُنادوں
ٹک کان دھر سنو تو پیوں سوں لے جا ملا دوں
پیو کے اُپر تمہیں سب تن من اپس کا وارو
پیو کون سمجھ کے دل میں یک دم نکو بسارو
پیو کے چرن کی ماٹی سرمہ نین میں بھادو
مثلِ عبیر اُس کو ماتھے اوپر لگا  دو
پیو باج کوئی سانچا ساتھی ملے نہ دوجا
کیوں تجھ کوں اے دیوانی دنیا کا عشق سوجا
جو بن پو ہورہی کیوں بدمست اے دیوانی
جو بن کے آونے میں چلنے لگی اوتانی
جوبن ڈھلے گا تیرا، جیوں دوپہر کا سایا
دو دن کی زندگانی جوبن رہے نہ مایا
اس مایکے کے گھر سوں ہرگز نہ دل لگانا
جانا ہے ساسری کوں آخر وہی ٹھکانا
پھر مایکے کے گھر میں آنا نہیں دوبارا
کچھ سات اپنے لے کر چل ساسری کے ٹھارا
جب ساسری کے گھر میں پیو سوں ملاپ ہووے
تب مایکے کے گھر کے سپنوں سوں یاد دھووے
ساس اور ماں کے گھر کی پت کوں نبھا کے چلنا
اس دو پنے میں اپنی ست کوں نبھا کے چلنا
دونوں میں ہو کے شامل ہرگز دوئی نہ بھانا
دونوں کوں ایک تن میں آپس میں کر دکھانا
دل پیو کا ہات لینا دونوں میں رہ کے ہل مل
اپنا جنم نبھانہ کہ پیو کی یاد تل تل
مہری وہی ہے گرتی جس میں گرت پنا ہے
پوہڑ کے ہاتھ نیچے گھر بار سب فنا ہے
گرتی کے حق میں روزے ہے فاطمہٰ کا دامن
پوہڑ کی خاصیت ہے جیسے چڑیل ڈاین
دیکھو تمہیں سہلییاں گرتی کے کیا بنی ہے
من پیو کو موہنے کوں اوس پانی موہنی ہے
ساری سوہاگنوں میں وو ہے بڑی سوہاگن
پیو کے سہاگ کانت گہنا سو ہاوے جس تن
درکار نئیں ہے جگ میں اوس کو سوہاگ ابرن
ہے مہر پیو کی ذرہ کئی کئی ہزار ابرن
سوکن سکھی دوہا گن دن رات کڑکڑاوے
دونوں کا ایک ہونا ہرگز اوسے نہ بھاوے
دوکھ درد کی اگن میں نا دیکھ سکھ چلے ری
صدقے سوں پیو کے سر کی کچھ اس کانا چلے ری
سن اے سکھی ایانی میٹھا بچن یو میرا
سوکن کہاں ہے تیری اور پیوہے کون تیرا
توں مایکے کے گھر کو ں نادان ہو نہ جانے
بھئی ساسرے کے گھر کوں اب لگ نہیں پھچانے
چاروں حرف کے معنی میں تجھ کوں کھول بولوں
جو ہر شناس آنگے جوہر کا مول بولوں
پیو نام حق کا برحق تجھ دل میں نت بست ہے
سوکن تریچ تن میں شیطاں کی شیطنت ہے
دنیا کی زندگانی ہے مایکے کا پھیرا۔۔۔ٗ
آخر کا گھر مدامی و و  ساسرا ہے تیرا
سارا ظہور جگ کا ہے تجھ بدن کے بھیتر
ظاہر ہے پیو کی صورت تیرے نین کے بھیتر
 مصحف میں نحنُ اقرب رب نے خبر دیا ہے
پتلی میں تجھ نین کوں یو بھید کیا کیا ہے
اس بھید کو سمجھ کر اللہ کا دید کرنا
بازار بھر رہا ہے سودا خرید کرنا
ایمان نقد پونجی تیرے کنے عجب ہے
مت جائے بات خالی سودے کا وقت اب ہے
اندھی رہے گی وو کوئی غفلت سوں اس جگت میں
اندھیچ وہ اُٹھے گی آخر کوں آخرت میں
اللہ پیو کوں اپنے حاصل یہینچ کرنا
شیطاں اگر ہے سوکن کچھ دل میں ڈر نہ دھرنا
دنیا کے مایکے سوں ہر گز نہ کر محبت
آخر کے ساسرے میں پیو بن نہ مانگ جنت
ہر حال اے سہیلی رکھ چاہ اپنے پیو کی
بوڑھے بڑے کے پیچھے لے راہ اپنے پیو کی
بالک پنا اپس کا سب کھیل میں گنوائی
آخر ہوئی جوانی پیو کا مزہ نہ پائی
تجھ عمر کے چمن کی ہوئی ہے بہار آخر
تجھ قد کے جھاڑ اوپر دستا ہے بار آخر
تجھ تن کے باغ بھیتر باد خزاں پڑی ہے
گرتے ہیں پھول جھڑ جھڑ ہنگام پت جھڑی ہے
نرگس نین سوں تیرے یو جوت اب جلے گی
سوسن زبان تیری لذّت کوں تل ملے گی
خوش    رنگ   مثل    لالہ  چہر ا   تر ا      رنگیلا
جیوں رنگ گلِ اشرفی ہووے ترنج پیلا
ہے   ایک   جانور  کا   تجھ    جھاڑ   پر    بسیرا
ہووے اڑان اُس کا اب سانجھ یا سبیرا
رہتا نہیں ہے دایم اس پینجرے کے بھیتر
یک دن ہے پینجرے میں یک دن ہوا کے اوپر
پھر پینجرے کے بھیتر آتا نہیں دوبارا
سٹ پینجرے کوں خالی جاتا ہے جان ہارا
اس رمز کوں سمجھنا یو جانور سو کیا ہے
اور  اوس کا پینجرا بھی رہنے کا گھر سو کیا ہے
کانو سوں دل کے سن لے کیا خوب یو بچن ہے
ارواح جانور ہے اور پینجرا بدن ہے
دائم رہے نہ ہرگز ارواح تجھ بدن میں
قائم رہیں نہ پھولاں کھل کھل کے پھول بن میں
اپنے چمن کے پھولاں مالی اپیچ توڑے
اس جھاڑ بارور کوں اس باج کون جھوڑے
وہ پھول بھی اپیں ہے مالی بھی وہ اپیں ہے
وو جھاڑ بھی اپیں ہے ڈالی بھی وہ اپیں ہے
قمری بھی وو اپیں ہے بلبل بھی وو اپیں ہے
گلشن بھی وہ اپیں ہے، سنبل بھی وو اپیں ہے
جنگل بھی وو اپیں ہے اور باغ بھی اپیں ہے
لالہ بھی وو اپیں ہے اور داغ بھی اپیں ہے
چاروں طرف جگت میں بھر پور سب ووہی ہے
تجھ مکھ پو اے سہیلی یو نور سب ووہی ہے
دانے پرو کے دم کے تسبیح دل کی سجنا
سمرن سوں اپنے من کی اللہ ھو کو بھجنا
ہووے گی عمر آخر موہن سوں من لگالے
اپنے لگن کا نامہ لکھ کر لگن لگالے
لکھتا ہوں پیو طرف سوں تیرے لگن کا نامہ
نوبت لگن کی ہو کر بجتا رہے دمامہ
رکھ دل میں چاہ پیو کی میرے کنے تو آئے
ساری بتھا اپس کی سب کھول کر سنائے
پیو آپ جانتا ہے بندی کے دل کی خواہش
کئی کئی طرح سوں اُس کوں کرتا ہے آزمائش
تجھ میں اگر سہیلی کچھ سات پانچ نئیں ہے
رکھ دل میں سانچ اپنے کچھ اُس کوں آنچ نئیں ہے
سر پر چھڑا کے اپنے پیو کا سہاگ لے چل
اب لگ رہی ابھاگی اب نیک بھاگ لے چل
سنتی اگر نہیں توں اُس آخری سگن کوں
پنڈت بچار پوتھی بولیا ہے اس سگن کوں
پیو کی طرف سُوں آیا دولہن کوں جب بولاوا
سنگت کی سب سہیلیاں رو رو کریں بدھاوا
اور سب سکھیاں سہیلیاں دے نیوتا بولایاں
شادی کے گھر میں وو سب دلگیر ہوکے آیاں
کپڑوں کا بیونت کر کر دولہن کے تن برابر
اُس کا برن کیاں سب تیار سی سلا کر
چوّا، عبیر، چندن خوشبوئی سب لگا کر
جوڑے کوں تہہ کیاں ہیں کیا خوب چن چناکر
دولہن کوں گود میں لے باہر اُٹھا کے لایاں
کلمے کے گیت گا گا مل مل بدن نہلایاں
کاجل، مسی لگا کر جوڑا اوسے پنہایاں
مثل پری بناکر لے تخت پر اوڑایاں
پھر کر نکاح پھڑنے دولہن کا تخت رکھ کر
مجلس کو زیب دینے باندھیاں صفاں برابر
قاضی نکاح پڑھنے ہو کر امام آیا
وارث، وکیل مطلق اور شاہداں بولایا
وارث وکیل نے جب اپنی زباں سوں بولا
دولہن کا مہر کہتے دل میں اُٹھا ملولا
سب شاہداں نے بولے جب کلمہ شہادت
باندھیا نکاح قاضی ہے سب کوں عام رخصت
سارے سکھیاں سہیلیاں دولہن کا تخت لے کر
دینے چلے ہیں جلوہ نے کوٹھری کے بھیتر
اس تنگ کوٹھری میں جلوہ لگا سولایاں
آپس نکل کے باہر جلدی سوں پٹ لگایاں
اس ٹھار پر بچاری دولہن پڑی اکیلی
کوئی ایک بھی رہی نئیں اس کی سکھی سہیلی
ہے کوٹھری اندھاری اس میں دیوا نہ باتی
پیو بن نہیں ہے کوئی اس وقت سنگ ساتی
اس تنگ کوٹھری میں پیو باج ہے اندھارا
جو پیو سوں ہووے لٹ پٹ اس کوں دسے اوجالا
سورج کے ڈوبنے میں دستی ہے رین کالی
وو چاند پاس ہے تو ہے چاندنی اوجالی
پیو کے بدل پپیہا پیو پیو پوکارتا ہے
کیا خوب دوستی توں دم پیو کا مارتا ہے
توں بھی لگن اپس کے پیو سوں لگا سہیلی
پیو ہے سنگات تیرے توں مت رہے اکیلی
چشتی حسین نے اب مرشد سوں فیض پایا
تیرے لگن کا نامہ کیا خوب لکھ سنایا
چشتی حسین فدوی پیران پیر کا ہے
 درویش سیدوں میںمیران میر کا ہے
چشتی حسین دل سوں پیو کا غلام ہے گا
اُس کے لگن کا نامہ تمت تمام ہے گا
سفر نامہ (منزل )
’سفر نامہ ‘ کی روایت بہت قدیم ہے۔ قبل مسیح سے سفر نامے لکھے جارہے ہیں۔ لیکن عربی سیاحوں نے اس صنف سخن کو بام عروج پر پہنچایا۔ اردو زبان میں دو لفظوں پر مشتمل اس صنف ادب کا نام ’سفر نامہ‘ عربی اور فارسی زبانوں کا مرہون منت ہے۔ ’سفر‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور ’نامہ‘ فارسی زبان کا۔ ایک شخص ایک مقام سے دوسرے مقام تک جائے تو وہ سفر کہلائے اور دوران سفر یا بعد از سفر اس سفر میں پیش آنے والے حالات ضبط تحر یر میں لائے تو وہ ’نامہ‘ (مضمون یا کتاب) ہوجائے۔
اردو میں طبع زاد سفر ناموں سے پہلے ترجمہ شدہ سفر ناموں کا بول بالا تھا۔ اب تک اردو نثر یا نظم میں پہلا طبع زاد سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ (1948) کو سمجھا جاتا رہا ہے جو محمد یوسف کمبل پوش حیدر آبادی نے اپنے انگلستان کے سفر کے بارے میں تحریر کیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے اچل پور برار کے استاد شاعر شاہ غلام حسین چشتی نے ایک منظوم ’سفر نامہ‘ منزل منزل کے عنوان سے لکھ دیا تھا۔ 88 اشعار پر مشتمل یہ سفر نامہ اردو کا پہلا سفر نامہ ٹھہرتا ہے۔ اب جبکہ نئی ایجادات موٹر، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ کے ہوتے سفر میں بہت آسانیاں ہوچکی ہیں لیکن شاہ صاحب نے اچل پور سے اورنگ آباد کا سفر پونے چار سو کلو میٹر، بیل گاڑی سے کیا۔ سفر کو وسیلہ ظفر جان کر کیا جانا الگ بات ہے لیکن آپ نے یہ سفر اپنے پیر و مرشدشاہ اسماعیل کے پیر و مرشد نظام الدین اورنگ آبادی کی زیارت کی غرض سے کیا تھا۔ باوجود پیرانہ سالی کے انھوں نے یہ سفربڑے جوش و خروش اور عقیدت کے جذبے کے ساتھ کیا اور اس کی روداد خوبصورتی سے منظوم کردیا۔ شاہ صاحب کا یہ سفر اپنی عمر کے آخری پڑاؤ یعنی 1785  سے 1705 کے درمیان میں ہوا۔ یہ سفر نامہ دورانِ سفر ہی لکھا گیا تھا۔ دوران سفر جہاں جہاں قیام ہوا اور منزلیں بدلیں وہاں وہاں منظوم سفر نامہ کی بحریں بھی بدلتی گئیں۔ تاریخی اعتبار سے یہ سفر نامہ جس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اتنا ہی لسانی حیثیت سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔
منزل
پیروئے مصطفیٰ نظام الدین
صوفی باصفا نظام الدین
میری حاجت روا کرو یا پیر
تم ہو مشکل کشا نظام الدین
مجھ مسافر کو راہ دیکھلا دو
ہادیٔ رہنما نظام الدین
درس کی بھیک دیو بھوکے کوں
ہوں تمہارا گدا نظام الدین
اب تمھارے طواف درگہ کا
شوق دل نے کیا نظام الدین
چھوڑ دے کر مکان ایلچپور
ایلچ پور میں مسافر ہوا نظام الدین
شاہ رحمں میرے ہیں پشتیاں
ہو تمھیں پیشوا نظام الدین
پیر میرے ہیں شاہ اسمٰعیل
تم ہو پیر ان کے یا نظام الدین
ہے مسافر غریب پنچھی کوں
آب و دانہ نوا نظام الدین
روز بستی نوی نظر آوے
لوگ نا آشنا نظام الدین
ہے غلامِ حسین فدوی پر
فضل کرنا بجا نظام الدین
منزل
ناظم کشور دیں شاہ نظام الدیں ہیں
مرشد صدر نشیں شاہ نظام الدیں ہیں
درۃ التاج شہاں بادشاہ ہر دو جہاں
زینت تخت نگیں شاہ نظام الدین ہیں
شرف ملکوت سما اشرف مخلوق زماں
فخرِ انسانِ زمیں شاہ نظام الدین ہیں
صاحب نام و نشاں رونق درگاہ و مکاں
اہلِ تمکین و مکیں شاہ نظام الدین ہیں
قطع منزل سوں زیارت کوں چلا جلد حسین
دن بدن دل میں قریں شاہ نظام الدین ہیں
منزل
رہا پیچھے اب ایلچپور یا مرشد نظام الدین
انگے آیا ہے بالا پور یا مرشد نظام الدین
تمھارے درس خاطر چھوڑ میں رحماں نگر نکلا
نگر دل کا رکھو معمور یا مرشد نظام الدین
تمھاری ذات میں دیکھوں ظہور اب شاہ رحمں کا
سراپا ہو رہوں پر نور یا مرشد نظام الدین
دیکھوں تصویر اسمٰعیل کی تمنا کی صورت میں
رہوں نت شوق سوں مسرور یا مرشد نظام الدین
حسین آوے نہ قدرت سوں مقدر اس کوں لایا ہے
اوسے بس اسقدر مقدور یا مرشد نظام الدین
منزل
ہمیں قسمت نے ایلچپور سوں جنگل میں لایا ہے
ہے بالا پور پیچھے اب یو بالا گھاٹ آیا ہے
ہمیں اس گھاٹ کے چھڑنے کی سختی سوں نہیں کچھ غم
نظام الدین سا رہبر دستگیر اب ہم نے پایا ہے
ہلاک راہ کا اور دھوپ کی گرمی کا کیا ڈر ہے
ہمارے سر پر اسمعٰیل اہل اللہ کا سایا ہے
خدا حافظ ہے اس کا خوف یک ذرّہ نہیں اس کوں
عقیدت سوں جو فدوی پیر کامل کا کہایا ہے
ووہی حافظ، ووہی ناضر، ووہی حاصر ووہی ناظر
حسین اب دل میں اپنے دھیان موئے سوٗں لگایا ہے
منزل
نظام الدین کا ہم کوں اس سفر میں آسرا دستا
بجز ان کے ہمیں رہبر نہیں کوئی دوسرا دستا
نوا جنگل، نوے جھاڑاں، نوی بستی، نوے لوگاں
نوا کھانا، نوا پینا، نوا آب و ہوا دستا
چلے ہم گھاٹ چھڑ کر دستگیری سوں وو مرشد کے
نہیں اس راہ کے چلنے سوں ڈر میداں صفا دستا
نہایت آرزو ہے ان کا درسن ہووے بیگی سوں
ہمارے دل کا عالم بے قرار و مبتلا دستا
حسین آتا ہے سرسوں سر اوپر اس کے قدم رکھنا
نہایت خاکساری سوں تمھارا خاک پا دستا
منزل
نظام الدین سوں ہم نے دل لگائے
اب امڑا پور کے منزل سوں دھائے
لیے ہیں راہ بنیاد خجستہ
اتر کر پیم گنگا پار آئے
سکونت کرکے ایلچپور نگر میں
دم رحمن غازی ہم جگائے
ہمیں اصلاً خطر نئیں اس سفر سوں
نظام الدیں سا رہبر ہم نے پائے
ہیں اسمٰعیل ہم بندوں کے خاوند
حسین اب ہات میں ان کے بگائے
منزل
نظام الدیں ولی مشکل کشا ہیں
ہمارے مرشدِ حاجت روا ہیں
نظام الدیں نے ٹالے کل بلایاں
دعائے وافع قہر و بلا ہیں
نظام الدیں کا ہم کوں آسرا ہے
ولئی والئی ہر دوسرا ہیں
نظام الدیں امیر ناظم دیں
نظام ملک قلبِ اولیاء ہیں
نظام الدیں سوں مانگے درس کی بھیک
حسین ان کے ہمیں عاجر گدا ہیں
منزل
راہ اس شہر کی پہاڑی ہے
جنگل اوپر تمام جھاڑی ہے
خار کے جھاڑ کی قطار وسے
باڑ ہے پن نہ ایک باڑی ہے
ملک ویران بے چراغ و خراب
کم ہے بستی بہت اوجاڑی ہے
آب کمیاب مثل آبِ حیات
چاہ نئیں، ہے تو بے گھڑاڑی ہے
کوچ ہے اب پلاس کھیڑے سوں
راہ میں موضع وبھاڑی ہے
جلدی ہم آویں یا نظام الدین
پن سواری ہمن کی گاڑی ہے
پیر کے عشق میں چلا ہے حسین
گرچہ وو عاشق بڑاڑی ہے
منزل لاڑ سانگوی
کھانا اب لاڑسانگوی کا ہے
پانی اس دودنا ندی کا ہے
صاف شیریں ہے دو دنا کا آب
آب و تاب اس میں دودھ گھی کا ہے
ہم غریباں مسافراں کتیں
آسرا حضرت نبی کا ہے
ہے مدد حضرت نظام الدین
سر اوپر سایہ اُس ولی کا ہے
آج پہنچے گے منزلِ مقصود
اے حسین اب ہلاس جی کا ہے
منزل خجستہ بنیاد
مجھ دل میں بسی ہے پیر کی یاد
سینے کا نگر ہوا ہے آباد
دروازئہ من ہوا ہے روشن
آیا نظر خجستہ بنیاد
داخل ہوئے آکے اس نگر میں
کرنے کوں طواف جد امجاد
درگاہ پناہ جاں کی دیکھی
ہے عالمِ جاں چھان چھان شاد
فتراء میں نطام الدیں ولی کے
درویش ہوا حسین آزاد
مدح
نظام الدیں ولی کی خانقاہ آباد کر یا رب
جو دشمن ہوئے اس گھر کا اسے برباد کر یارب
مراد ہمناکے صاحبزادہا کے دل کی بر آوے
جو ان کا دوست ہے ان کا درد ناشاد کر یارب
نگر سینے کانت بستا رہے ان کی محبت سوں
مریداں طالباں کا جان و دل آباد کر یا رب
عقیدت سوں جو آوے چل کے اس مرشد کے روضے میں
اُسے درگاہ سوں اپنے عطا ارشاد کر یارب
حسین احقر فقیروں میں دسیا ہے طالب مولٰے
اوسے ہر دو جہاں کی قید سوں آزاد کر یارب
مدح
آج ہم روضے چلے کرنے کوں شاہاں کا طواف
مکہّ خوردِ زیارت گاہ مرداں کا طواف
دولت آباد اب ہمیں دکھنے لگا ہے دور سوں
ہے مگر وھاں سانکڑی سلطاں سے سلطاں کا طواف
شاہ مومن سوں بھی اس بستی کوں ہے امن و اماں
مومناں کے حق میں ہے جیوں دین و ایماں کا طواف
جب گیا درگاہ میں برہان الدیں کے میں فقیر
ہو نماز جمعہ سوں فارغ کیا وھاں کا طواف
ہیں گے چودا سو ولی کے بادشاہ برہان الدیں
اب ہوا حاصل مجھے اُس دین برہاں کا طواف
خادم برہان دیں ہیں شاہ زین الحق ولی
زینت حق ہے ہمیں ان حق شناساں کا طواف
زرزری زر بخش کی بخشش سوں تن من زر ہوا
دل اوپر اب فرض ہے اس زیور جاں کا طواف
حضرتِ قتال راجو قاتل کفّار ہیں
عشق کے شہدا کریں شمشیرِ براں کا طواف
ہیں حسن شیر اس مکاں میں برزخ شیر حسن
حسن میں دستا ہے ان کے شیر یزداں کا طواف
حضرتِ خواجہ حسین و حضرتِ خواجہ عمر
ایک گنبد میں کیئے ہم دونوں بھایاں کا طواف
سید احمد کبیر و اکبرِ والا نسب
خوب ہے اس سید پیر کبیراں کا طواف
دفن ویراں میں ہوئے ہیں حضرت گنج رواں
دل کی بستی میں کرو اس گنج ویراں کا طواف
حضرت گلّہ رواں کی یاد میں گلرواں
گلہّ قرباں ہوکروں اس گلہّ قرباں کا طواف
ہیں وو ظاہر خاکسار ازروئے باطن شہسوار
خاکساری سوں کروں ان خاکساراں کا طواف
اوس مکاں کے اولیاء کا کاں تلک لکھنا بیاں
دل سوں اب کرنا بجا ہے سب محباّں کا طواف
پھر چلوں حضرت نظام الدیں بڑے مرشد کنے
کرکے حاصل اس اس نظام دینِ د وراں کا طواف
لے کے رخصت جاووں پھر رحماں نگر کی راہ لے
شہر داخل ہووں کر کر شاہِ رحماں کا طواف
حال دل سب جاکے بولوں شاہ اسمٰعیل کوں
صدق دل سوں جاکروں اس پیرِ پیراں کا طواف
پیر کے قدموں کے نیچے نت رہوں تا زندہ گی
وقت مرنے کے کروں اس شمس تاباں کا طواف
روضۂ جنت نشاں مرشد کا جب دیکھوں حسین
قمریٔ دل جاکرے اس سرو بستاں کا طواف
منزل گشتن
ہم گئے تھے چھڑ کے بالا گھاٹ پوں
اب اُتر آئے ہیں دیول گھاٹ سوں
گئے تھے ایلچپور سوں تنہا ہمیں
فضلِ مرشد سے پھرے اس ٹھاٹ سوں
دین کا سودا بنج گھر کوں چلے
دل لگا رحماں نگر کے ہاٹ سوں
جاکر یں گے شاہ رحماں کا طواف
پار ہو بچھن ندی کے پاٹ سوں
اے حسین اب شاہ اسمعٰیل پاس
جائیں گے ہم چشم دل کے باٹ سوں
یک رنگ نامہ :
            اردو میں ہندو مسلم ایکتا کے گیت سب سے پہلے کبیر نے گائے لیکن اب جبکہ ہندی والوں نے کبیر پر پورا ادھیکا ر جمالیا ہے تو ہمیں اردو زبان میں بھائی چارے اور قومی یکتا کی پہلی آواز شاہ غلام حسین کے کلام میں سنائی دیتی ہے۔ گویا ہندو مسلم یک رنگ نامہ اردو کی سب سے قدیم نظم ہے جس میں ہندؤں اور مسلمانوں کو یک جہتی کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ اور بڑے عارفانہ انداز میں دونوں کے مذاہب میں شامل کیے گئے ان آڈمبروں کا مذاق اڑایا گیا جو ان کی پہچان بن گئی ہے۔
یو دونوں جنھے ایک جاگا سوں آئے
جگت میں مسلمان ہندو کہائے
گھڑا ہے کمار ایک ماٹی کے بھانڈے
ہوا کون ملاں، ہوا کون پانڈے
یو دونو جھنے کیوں بہکتے چلے ہیں
کدھر سوں، کدھر کوں بھٹکتے چلے ہیں
مسلمان مسجد میں سجدے کوں وہاویں
وو ہندو بھی پوجا کو دیول میں جاویں
وہاں جاکے ماٹی کی دیوار دیکھیں
اپس گھٹ کوں چھانے تو دیدار دیکھیں
مسلمان تسبیح لنبی پھراویں
وو ہندو بھی مالا بھکل کر دیکھاویں
دیکھاتے ہیں لوگوں کو دانے پھرا کر
اپس من کا منکانہ ہیریں ہرا کر
مسلمان اللہ کا نام بولیں
وو ہندو بھی ہر ہر جپیں رام بولیں
زباں سوں کہے دل سوں اپنے بساریں
وو حاضر کو غائب سمجھ کر پوکاریں
مسلمان جاہو ویں مکے کے حاجی
وو ہندو بھی جاہو ویں کاسی کے باسی
گھروں گھر پھریں ڈھونڈتے ہو دیوانے
اپس گھر میں دیکھں تو جانے پچھانے
مسلمان سب غسل کر پاک ہو ویں
وو ہندو بھی اسنان کر تن کوں دھوویں
اپس کوں بناکر پھریں ہو کے چھیلا
کریں تن کو اُجلا رکھیں دل کوں میلا
مسلمان پھڑتے ہیں مسئلے کتاباں
وہ ہندو کریں بید پوتھی کے باتاں
بغل میں پھریں مکر (کا) لے کے دفتر
نہ سمجھے پرت پنتھ کا ایک اچھّر
مسلمان کوں گور میں لے دبادیں
وو ہندو کو لے کر اگن میں جلا دیں
پڑی ڈھیر ماٹی نکل جیو گیا ہے
دبا کیا دیا اور جلا کیا دیا ہے
مسلمان سنت کرا گوشت کھاویں
وو ہندو چھدا کان چوٹی رکھاویں
وہیں سوں اسی بھانت کیوں ہو نہ آئے
یہیں آکے جھگڑا دوئی کا مچائے
دوئی عشق کے پنتھ میں نئیں ہے یارو
مسلمان ہندو یو اچھرّ بچارو
تمہیں کفر و اسلام کی بات سمجھو
اندھیارے اوجالے کوں دن رات سمجھو
اسی رات میں دن ہے اور دن میں ہے رات
مری بات سمجھو تو ہے بات میں بات
مسلمان ہندو تمھیں فرض جانو
پچھانت کوں دنیا میں جیوں قرض جانو
بھی اندھے رہیں گے جو کوئی اس جگت میں
اوٹھیں گے وواند ھیچ ہو آخرت میں
اسی جگ میں آنا نہیں پھر دوبارا
چلا جائے گا جان یو جان ہارا
اسی گھٹ میں اللہ کوں پہچان لینا
بھروسا نہیں جان کا جان لینا
ووہی ذات میں سب کے پرگھٹ ہوا ہے
اُسی نور سوں پور گھٹ گھٹ ہوا ہے
ووہی کل شی محیط ایک ہے گا
اُسی ایک کا سب طرف بھیک ہے گا
ترے گھٹ میں شہ رگ سوں نزدیک ہے رب
کہا اوس نے قرآن میں نحن و اقرب
تری ذات میں دو اپیں ذات ہے گا
سمجھ  و ھو معکم ترے سات ہے گا
اپس گھٹ میں تحقیق کر یک حرف کوں
یو دفتر کوں سٹ دھو کے لے یک حرف کوں
عجب کنت کنزاً کا سانچا رتن ہے
غلام حسین و حسن کا بچن ہے
الغرض یہ کہ شاہ غلام حسین نے اپنے براری دکنی لہجے کی شاعری کو نئے مدارج عطا کیے ہیں اور بہت سارے میدانوں میں اولیت کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو شاہ صاحب کے والدین کا وطن جائس (اتر پردیش) تھا اس لیے آپ کے کلام میں برج بھاشا کا کافی اثر ہے اور دوسرے آپ کی پیدائش و پرورش اچل پور میں ہوئی یہی وجہ ہے مقامی (دکنی براری) زبان شاعری میں غالب نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں مراٹھی زبان کے چھینٹے بھی مزہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے عربی و فارسی تراکیب کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔
            زیر نظر تینوں نظموں میں زبان و بیاں کی وہی خوبیاں ہیں جو ان کے تمام کلام میں موجود ہیں۔ بعض لسانی خصوصیات بڑی توجہ طلب ہیں خصوصاً وہاں جہاں علاقائی و مقامی لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ آپ نے کہیں کہیں املے میں تحریف بھی کی ہے اور گاہے گاہے تلفظ میں بھی فرق رکھاہے۔ بطور نمونہ چند الفاظ تحریر ہیں۔ جیسے کو، کو کوں اور  اور سے کو سوں۔
کوں : کو
سوں : سے
اُپر: اوپر
نئیں : نہیں
پو : پر
آوے : آئے
جیوں: جیسے
دونو: دونوں
وو : وہ
اوسے : اسے
آنگے: آگے
دستا: دکھتا
یو: یہ
پھچانے: پہچانے
چھڑا : چڑھا
توں : تو
ووہی : وہی
سوہاگ: سہاگ
کانو : کانوں
بولیا : بولا
بولاوا : بلاوا
کیاں: کیا
اوسے: اسے
پھڑنے: پڑھنے
اوٹھا: اُٹھا
بولا یا : بلایا
صفاں : صفیں
باندھیا:باندھا
دولھن : دلہن
لگاسو: لگاکے
اندھاری: اندھیاری
دسے : دیکھے
اوجالا:اُجالا
دیوا : دیا
پوکارتا: پکارتا
دیکھلادو: دکھلادو
دستی : دکھتی
کہایا: کہلایا
چھڑنے: چڑھنے
دیو : دو
آویں : آئیں
بلایا : بلائیں
نوا : نیا
نوی : نئی
زندگانی : زندگانی
پن : پر
کاں : کہاں
دود: دودھ          
تمنا: تم کو
ہمنا: ہم کو
کہائے: کہلائے
ملاں : ملا
دیکھاتے: دکھاتے
بید : وید
جیو : جی
ہے گا : ہوگا          


نظموں میں چند مقامی دکنی الفاظ یوں در آئے ہیں جیسے
باج ۔۔۔بھی۔۔۔ بغیر  :  ابرن۔۔ زیور      ٹھار۔۔۔ٹھکانہ      سنگات۔۔ساتھ     بھایاں۔۔۔بھائی   
بیگی۔۔۔جلدی      بساریں۔۔۔بھلائیں            چھان۔۔۔اچھا      گرتی۔۔۔گرہستی   اپیں۔۔۔خود
اس طرح شاہ صاحب نے اپنے کلام کو رنگا رنگ دھنکی کی صورت آسمان ادب پر تان دیا جس کی رنگا رنگی ہر زمانے میں قائم و دائم رہے گی خود وہ اپنے کلام کے بارے میں گویا ہیں کہ
’’ از خرمن ِ اہل کمال دانہ ہا آوردہ ام ‘‘

حوالہ جات :
*          دیوان حسین مرتبہڈاکٹر سید عبدالرحیم
*          مضامین   ازسید غلام علی بیابانی
*          مقالات  ازڈاکٹر نعیم الدین
*          اچل پور کے چند قدیم شعرا     مرتبہ  سیدہ وسیم دردانہ باسط
*          اردو میں شعری و نثری اصناف    مرتبہ  پروفیسر مجیدار بیدار
*          چراغ برار   ازخطیب امجد حسین امجد
*          تذکرئہ مخطوطات شائع کردہقومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی

Hyder Bayabani
Basera, Achalpur City - 444806
Distt: Amravati (MS)
Mob: 8055056961

 سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں