16/3/20

فارسی میں درباری شاعری: ایک مطالعہ مضمون نگار: شریف حسین قاسمی



فارسی میں درباری شاعری: ایک مطالعہ

شریف حسین قاسمی

فارسی شاعری کا معتد بہ حصہ درباری شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ درباری یا مدحیہ شاعری ہر صنف سخن البتہ بیشتر قصائد کی صنف و صورت میں فارسی ادب میں محفوظ ہے۔ مزید برآں فارسی شاعری کے قدیم ترین باقیات میں بھی اس نوعیت کے کلام کے نمونے شامل ہیں۔ الغرض فارسی ادب کی تاریخ میں اس کی شاندار، عظیم اور مسلسل روایت ہر لحاظ سے قابل قدر و توجہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے فارسی شاعری پر ہر کتاب میں یہ موضوع زیربحث آیا ہے۔
پیش نظر تحریر کا مقصد اس نوعیت کی شاعری کی مکمل و مفصل تاریخ بیان کرنا اور اس کے محاسن و عیوب کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا نہیں ہے۔ غرض صرف اتنی ہے کہ فارسی سماج میں اس قسم کی شاعری کے مقام و مرتبے اس کے اثرات، ممدوح و مادح کے تعلقات اور خود اس طور کی شاعری پر سماج کے ردعمل کو اجمالی طور پر بیان کردیا جائے۔
فارسی شاعری کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کا بادشاہوں اور ان کے درباروں سے وابستہ افراد کا اوائل ہی سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ فنونِ لطیفہ کے اس اہم پہلو کو دربار نے زندگی اور اعتبار بخشا ہے، اسے ایک نظم و ضابطہ عطا کیا اور ا س کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فارسی دنیا کا شاید ہی کوئی فرمانروا خاندان ایسا ہوگا جس نے فارسی شاعری کی حتی المقدور اور کبھی مقدور سے بڑھ کر، سرپرستی نہ کی ہو۔ شعرا نے بھی اس شاہی سرپرستی سے خاطرخواہ فائدہ اٹھایا اور یک گونہ اطمینان اور یکسوئی سے شعر و شاعری کو چار چاند لگانے میں منہمک ہوگئے۔ دربار کی اس سرپرستی کا یہ نتیجہ نکلا کہ فارسی شاعری بڑی حد تک درباروں سے وابستہ ہوگئی اور شعرا درباروں کا ایک جزوِ لاینفک قرار پائے۔ نظامی عروضی سمرقندی نے اپنی معرکۃ الآراتصنیف ’چہارمقالہ‘ میں شاہی دربار کے ان چار ارکان کا ذکر کیا ہے: دبیر، شاعر، طبیب اور منجم۔
یہ عرض کردینا بے جا نہیں کہ سلاطین کی بارگاہ میں شاعر کو روشناس کرانے والا شخص رود کی (م 329/940) ہے۔ فارسی میں قصیدہ نگاری جو شاہی دربار میں شاعر کی رسائی کا بدیہی نتیجہ رہی ہے، رودکی سے شروع ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے رود کی آدم الشعرا اور سلطان الشعرا مانا جاتا ہے۔
درباروں سے وابستہ شعرا خاص خاص موقعوں پر قصیدے لکھتے، ممدوح کی موجودگی میں پڑھتے یا کسی توسط سے اس کی خدمت میں پیش کرتے اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے تھے۔ یہ نوازشیں اور انعام و اکرام کبھی کبھی اس حد تک وافر ہوتے تھے کہ آج اس پر یقین کرنے میں تذبذب اور تعجب ہوتا ہے۔ قصیدہ نگار شعرا کسی جشن جیسے عیدین، ملی، سماجی (نوروز) اور سرکاری اہمیت رکھنے والے مواقع پر، لشکر کشی اور فتح و کامیابی پر مبارکباد اور مدح میں قصائد کہتے تھے۔ اسی طرح کسی افسوسناک واقعے کے رونما ہونے پر مرثیے لکھتے، سقوطِ بغداد پر سعدی، شیرازی کا مرثیہ فارسی ادب میں ایک المیہ شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمارات کی تعمیر اور دیگر تاریخی اور سماجی نوعیت کے واقعات کی مناسبت سے تاریخی قطعے لکھتے۔ تاریخی نوعیت کے قصائد میں بیانات سب کے سب محض لفاظی نہیں ہوتی تھی۔ محمود غزنوی (حکومت: 998-1030) کے درباری شعرا عنصری اور فرخی کے تاریخی قصائد میں اکثر بیانات تاریخ سے حرف بہ حرف ملتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر لحاظ سے قدرت مند فرمانرواؤں کے درباروں کی ظاہری شان و شوکت اور عظمت و شکوہ فارسی قصائد کے روپ سروپ میں جلوہ گر ہے۔
بڑی تعداد میں ایسے قصائد بھی نظر آتے ہیں جو مذہبی نوعیت کے ہیں۔ حمد باری تعالیٰ، نعمت پیغمبر صلعم اور منقبت میں سب شعرا نے طبع آزمائی کی ہے۔ یہ خود قصائد کا ایک قابلِ لحاظ حصہ ہیں۔ اس نوعیت کے قصائد کسی کی فرمائش پر نہیں کہے جاتے تھے بلکہ یہ شاعر کے اپنے مذہبی و عقیدتی عقیدتی میلانِ طبع کا سرجوش ہیں۔ خود مرثیے کا منقبتی شاعری کے زیرعنوان مطالعہ کیا جانا مناسب ہے۔ پند و نصائح سے لبریز قصیدے بھی موجود ہیں۔
قصائد میں استعمال ہونے والی تعبیرات، زبان و الفاظ کی دلکشی، باشکوہ الفاظ کا استعمال وغیرہ ایسی خصوصیات ہیں، جو مدحیہ شاعری کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ قصائد میں شعرا نے جو ایک خاص پرتکلف، مبالغہ آمیز اور تعبیری انداز اپنایا، اس کی وجہ سے قصیدے سے زیادہ کوئی دوسری صنف سخن اس رویے کی مشکل ہی سے متحمل ہوسکتی ہے۔ فی الحقیقت مبالغے کا اگر لطف لینا ہو تو قصیدوں میں اس کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھیے۔
بعض قصیدے خطابیہ کہلائے جاتے ہیں یعنی شاعر بغیر کسی تمہید کے سیدھے مدح و ستائش سے قصیدہ شروع کرتا ہے، لیکن عام طور پر قصائد ایک تمہید، تشبیب یا نسیب سے شروع کیے جاتے ہیں اور ایسے قصائد کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس تمہید میں مختلف قدرتی مناظر، بہار و خزاں، صبح و شام کے مناظر، ابرو باد کا ذکر، گوناگوں اشیا، معشوقوں کے سراپا، وصال و فراق اور اسی نوعیت کے دیگر موضوعات نظم کیے جاتے ہیں۔ قصیدے کے اس ابتدائی حصے میں غنائی پہلو نہایت مستحکم اور موثر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ناقدین سخن نے اس حصے کو غزل کا ابتدائی نقش کہہ دیا ہے۔ یہاں شاعر کو موضوع کے انتخاب میں کافی آزادی ہوتی ہے، وہ اپنے ہنر کی خاطرخواہ داد دے سکتا ہے اور قصیدے کو فکر، خیال اور موضوع کی اس یکسانیت سے نجات حاصل ہوجاتی ہے جو محض مدح کی وجہ سے اس صنف میں در آجایا کرتی ہے۔
یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ درباری شاعری (ممدوح کی تعریف و ستائش) کے نمونے قصیدے کے سوا دیگر اصناف سخن میں بھی گاہ گاہے نظر آتے ہیں۔ ایسی مثنویاں جو درباروں یا کسی وزیر و امیر کی خواہش پر نظم کی گئی ہوں، ان کے آغاز میں ممدوح کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے۔ امیر خسرو دہلوی اور حافظ کی چند غزلیات میں بھی درباری شاعری کی فضا برقرار ہے۔ اس نوعیت کا کلام فارسی شاعری کی تقریباً ہر صنف سخن میں موجود ہے، لیکن بہرحال قصیدہ ہی مدحیہ شاعری کے  لیے مخصوص رہا ہے۔
قصائد کے صلے میں شعرا کو جس داد و دہش سے نوازا گیا، اس کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ صاحب قدرت ممدوح کے مزاج کے خلاف خیال و تصور پر شاعر کو وحشت ناک سزاؤں  کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ اسے قتل کردیا جاتا تھا، بینائی چھین لی جاتی، قید کردیا جاتا اور پھر شہر یا ملک بدر کردیا جاتا تھا۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ صورت یہ ہوتی تھی کہ ایسے سزایاب شاعر سے اراکین و وابستگان دربار بھی دوری اختیار کرلیتے تھے، اسے نظرانداز کرتے تھے۔ وہ اپنوں میں بیگانہ ہوجاتا تھا، یہ سماجی بائیکاٹ ظاہر ہے موت سے بدتر تھا۔ میرزا محمد امین مخاطب یہ میر جملہ روح الامین شہرستانی، جہانگیر سے وابستہ تھے۔ دربار میں معتبر و محترم تھے۔ بادشاہ ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا۔ ارکان حکومت نے ان سے ملنا جلنا اور ان کے گھر آجانا جانا ترک کردیا۔ میر جملہ یہ خاموشی سے برداشت نہیں کرسکے۔ انھوں نے اس شعر میں اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور خوب کہا   ؎
کنارہ جوی ازین مشت استخواں شدہ اند
سگان این سر کو ہم مزاج دان شدہ اند1
]اس مٹھی بھر ہڈیوں سے کنارہ کرنے لگے، اس کوچے (جہاں ان کی رہائش مرجع خاص و عام تھی) کے سگ (ان کے ہاں روز کے آنے والے) بھی مزاج داں ہوگئے ہیں[
یہ بھی دلچسپ صورت حال رہی ہے کہ ایک دربار سے وابستہ شاعر اگر کسی دوسرے دربار یا اس سے وابستہ افراد کی مدح کرتا، تو اسے عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس پالا بدلنے والے کو اس عمل پر سزا بھگتنی پڑتی تھی۔ اس ضمن میں حکیم عارف ایجی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ شاہزادہ سلیم (بعد میں جہانگیر) کے دربار میں بڑے مرتبے کے حامل تھے۔ انھوں نے جہانگیر کے ایک دوسرے عظیم المرتبت منصب دار میرزا عبدالرحیم خانخاناں (م1063/ 1626) کی مدح میں ایک قطع کہا۔ شاہزادے کو ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ انھیں قلعۂ گوالیار میں قید کردیا گیا۔ حکیم عارف نے معذرت نامہ سلیم کی خدمت میں کسی کے توسط سے گزرانا، جس کا ایک شعر یہ ہے   ؎
شہا، شہریارا! بہ خاک در تو
بجز مدح تو نیست در دفتر من
]شہزادے! تمھارے آستانے کی قسم، میری بیاض میں آپ کی مدح کے سوا کچھ اور نہیں[
یعنی عارف نے اسے بے بنیاد قرار دیا کہ انھوں نے خانخاناں کی مدح کی ہے اور انھیں معاف اور آزاد کردیا گیا۔2
مجمع الشعرای جہانگیر شاہی کا مصنف یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ : الحق بادشاہوں کو شعر و شاعری اور اپنی مدح و ستائش سے اس قدر تعلق خاطر ہونا ہی چاہیے کہ اگر ان کا کوئی شاعر دوسرے کی مدح کرے، اس پر برا مانیں، اسے بادشاہوں کے غایت ادراک اور کمال فہم پر محمول کرنا چاہیے۔
اس کے برخلاف ایسا بھی ہوا ہے کہ عرفی شیرازی نے ایک ہی قصیدے میں اپنے دو سرپرستوں حکیم ابوالفتح گیلانی (م: 997 / 1588) اور عبدالرحیم خانخاناں (م: 1063/ 1626) کی مدح کی ہے اور کسی بھی عاقبت بد کا شکار نہیں ہوا۔
یہ پہلو بھی بڑا دلچسپ اور انوکھا ہے کہ بعض واقعات سے پتا چلتا ہے کہ شعرا کا اپنے سرپرستوں اور ممدوحین سے محض واجبی تعلق نہیں تھا۔ وہ ان کی تکالیف سے رنجیدہ خاطر ہوتے تھے اور یہی حال سرپرستوں کا تھا، انھیں بھی اپنے سے وابستہ شعرا و ادبا سے ایک انس پیدا ہوجاتاتھا۔ وہ ان کی دلجوئی کرتے تھے۔ ان کے مرنے جینے میں، فاصلے ہی سے سہی، شریک ہوتے تھے۔ اسی باہمی اور دوطرفہ رابطے اور وابستگی کا نتیجہ تھا کہ درباری شاعری، جب تک دربار کا وجود برقرار رہا، رائج رہی اور اس میں مبالغہ آمیز مدح و ستائش کے خلاف دھیمی لے کے باوجود، پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی رہی۔
شعرا کے اپنے ممدوحین سے انتہائی تعلق خاطر سے متعلق یہ واقعات توجہ کے لائق ہیں:
دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں (م: 1555) کے ایک بلند پایہ امیر، میرویسی تھے۔ یہ شاعر بھی تھے۔ ایک بار ہمایوں کے دانت میں درد ہوا۔ اس نے (اس مقولے کے مطابق کہ : علاج دندان اخراج دندان) وہ دانت نکلوا دیا۔ میر ویسی اپنی جاگیر میں تھے۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو اویس قرنی کی تقلید میں اپنے ولی نعمت کی طرح اپنا ایک صحت مند دانت نکلوا دیا۔ ان کا یہ عمل ظاہر ہے بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت میں اضافے کا باعث ہوا۔3
ایک اور افراطی اقدام کا ذکر کیا گیا ہے۔ سہراب بیگ ایران کے شاہ عباس ثانی (حکومت: 1642-1666) سے وابستہ تھے۔ اس بادشاہ کی رحلت پر سہراب بیگ نے فرط افسوس میں زہر کھالیا اور فوت ہوگیا۔ 4
میرزا محمد رضا مشہور بہ سیار جوینی، شاہ عباس ماضی (حکومت: 1588-1629) سے بہت قریب کا تعلق رکھتے تھے۔ بادشاہ نے خود ان کی شادی کرائی۔ شکریے کے طور پر رضا نے یہ مستزاد رباعی خدمتِ شاہ میں پیش کی۔ یہ منظومہ خود بادشاہ کی زندگی کے اہم پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور یہ ایسا ہی شخص کہہ سکتا تھا جو بادشاہ سے قریب تو ہو، لیکن اس کی صمیمیت اسے بادشاہ کے غیظ و غضب سے محفوظ رکھ سکے      ؎
ای شاہِ جہان، جہان بہ کامت بادا
تا ھست جہان
دایم می خوشدلی بہ جامت بادا
بامغ بچگان
از وصل بتی کامروایم کردی
در آخر عمر
عمر ابد و عیش دوامت بادا
با لالہ رخان 5
دنیا کے بادشاہ! یہ دنیا جب تک قائم ہے، آپ کی آرزوؤں کے مطابق رہے۔
مسرت کی شراب ہمیشہ آپ کے جام میں رہے اور مغ بچوں کے ساتھ آپ اس کا لطف اٹھائیں۔
مجھے آپ نے آخر عمر میں ایک یت (بیوی) عنایت کردیا، میری زندگی کامیاب ہوگئی۔
آپ بھی لالہ رخوں کے جھرمٹ میں ساری عمر عیش و عشرت سے بسر کریں۔
قصائد کے مطالب کا ممدوح پر کوئی اثر بھی ہوتا تھا کہ نہیں، اس ضمن میں یہ واقعہ تقریباً ہر اس تذکرے میں مرقوم ہے جس میں رودکی کے احوال لکھے گئے ہیں۔ ابوعبداللہ جعفر بن محمد رودکی (م: 329/ 940) جواں سال بادشاہ نصر بن احمد امیر سامانی (حکومت: 864-892) کے دربار سے وابستہ تھا۔ یہ سامانی بادشاہ ہرات میں خیمہ زن تھا۔ یہاں کی آب و ہوا اسے اس قدر  پسند آئی کہ چار سال ہوگئے۔ وہ اپنے پایہ تخت بخارا لوٹنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ہمراہی تنگ آگئے۔ وہ رودکی کے پاس آئے اور درخواست کی کہ کچھ ایسا عمل کرے کہ بادشاہ اپنے وطن لوٹ جائے۔ رودکی نے موقع و محل دیکھ کر ساز کے ساتھ اپنا یہ قصیدہ پردۂ عشاق میں بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا       ؎
بوی جوی مولیان آیدھمی
بوی یار مہربان آید ھمی
ریگ آموی و درشی ھای آن
زیرپایم پرنیان آیدھمی
اور  جب وہ اس بیت پر پہنچا   ؎
میر سرواست و بخارا بوستان
سرو سوی بوستان آید ھمی
امیرنصر پر ایسا اثر ہوا کہ وہ تخت سے کھڑا ہوگیا اور بغیر جوتے پہنے رکاب میں پیر رکھا اور بخارا کا رخ کیا۔
ابوطالب کلیم (م: 1061/ 1651) شاہجہان کے دربار کا ملک الشعرا ہے، اس نے شعر و شاعری کے موثر ہونے کے بارے میں کہا ہے       ؎
در سنگِ خارا نیز اثر می کند سخن
کوہ از صدا ھمین سخن اظہار می کند
]بات سنگ خارا پر بھی اثر کرتی ہے، پہاڑ کے نزدیک زور سے بولیے، آواز گونجتی اور لوٹتی ہے، یہ اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔
یہ چند ابیات، درج بالا معروضات کی ترجمانی کرتے ہیں   ؎
رودکی نے نصربن احمد سامانی کی سخاوت و دلیری کی مدح میں کہا    ؎
حاتم طایی تویی اندر سخا
رستم دستان تویی اندر نبرد
نی کہ حاتم نیست باوجود توراد
نی کہ رستم نیست در جنگ تو مرد6
عنصری سلطان محمود غزنوی کی ستائش میں کہتا ہے     ؎
دھان گشاد و میان بست و ایستاد فلک
بہ مدح و خدمت شاہ سپہ کش صفدر
سخاوت و سخن و طبع و رای او گویی
ز خاک و آب و زباد آمدند واز آذر7
آذری اصفہانی نے احمد شاہ بہمنی کی تعمیر کردہ عمارت ’دارالامارہ‘ کی ستائش میں یہ اشعار کہے اور ساٹھ ہزار روپے انعام میں پائے    ؎
حبّذا قصر مشید کہ ز فرط عظمت
آسمان یا یہ ای از سدّۂ این درگاہ است
آسمان ھم نتوان گفت کہ ترک ادب است
قصر سلطان جہاں احمد بہمن شاہ است8
میر محمدباقر اشراق نے نعت پیغمبر صلعم میں کہا ہے       ؎
ای ختم رسل! دو کون پیرایۂ تست
افلاک یکی منبرِ نہ پایۂ تست
گر شخصِ ترا سایہ نباشد، چہ عجب
تو نوری و آفتاب در سایۂ تست
جمال الدین محمد بن حسام متخلص بہ حسام سلطان محمد شاہ بن تغلق شاہ کے لیے ایک قصیدے میں درازی عمر کی دعا کررہے ہیں    ؎
الٰہی تا جہان باشد، نگہدار این جہانبان را
محمد شاہ تغلق شاہ سلطان ابن سلطان را 9
امیر خسرو دہلوی  اس دنیا کی ناپائیداری، شاہی حشمت اور فرمانروائی سے متعلق طام جھام کے عارضی ہونے کی حقیقت یاد دلا رہے ہیںاور اس پر بھروسہ نہ کرنے اور اس کو اہمیت نہ دینے کی نصیحت کررہے ہیں   ؎
کوس شہ خالی و بانگ غلغلش درد سر است
ہر کہ قانع شد بہ خشک و تر، شہ بحر و بر است
بہر این مردار چندت گاہ زاری گاہ زور
چون غلیوا جی کہ شش مہ مادہ و شش نراست10
میرزا خنجر چغتائی ہمایوں بادشاہ کے امرا میں شامل تھے۔ انھوں نے ایک مثنوی اپنے احوال میں کہی ہے۔ یہ اکبر کو پیش کی اور بادشاہ کی تعریف و تحسین کرنے کے بعد اسے نصیحت کی       ؎
گر ھمایی پرید زین گلشن
برسر ما توباش سایہ فگن
سخن من کہ بی ریا باشد
گر نصیحت کنم روا باشد
شاہ باید کہ او گہ و بیگاہ
از خود و خلق خود بود آگاہ11
یہ بھی ہوتا تھا کہ دربار میں انعام کا اعلان ہوگیا، اب خزانچی وہ انعام ادا نہیں کررہا، شعرا قصیدے یا قطعے میں بادشاہ سے اس صورت حال کی شکایت کرتے تھے۔ حاجی حیدری شاگرد تھے ملا لسانی کے۔ اس کے ساتھ یہی صورت حال پیش آئی۔ انھوں نے بادشاہ کے حضور میں شکایت کی   ؎
مشکلی دارم شہا! خواھم کنم پیش تو عرض
زانکہ زین مشکل مرا صد داغِ حسرت بر دل است
سیم و زر انعام کردی لیک از خازن مرا
ھم گرفتن مشکل و ھم ناگرفتن مشکل است12
]بادشاہ سلامت! ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں جو خدمت میں عرض کرنی چاہتا ہوں، اس لیے کہ اس مشکل سے میرا دل داغدار ہے۔ آپ نے مجھے سونے چاندی سے نوازا، لیکن خزانچی سے یہ رقم حاصل کرنی میرے لیے مشکل ہوگئی ہے اور اگر یہ رقم نہ ملی تو دوسری مشکل یہ ہے کہ یہ حکم عدولی ہوگی[
حواشی
.1        سفینۂ خوشگو، دفتر دوم: بندراین داس خوشگو، بہ تصحیح دکتر سید کلیم اصغر، کتابخانہ، موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، تہران 1389، ص 263
.2         مجمع الشعرای جہانگیر شاھی: ملاقاطعی ھروی، بہ تصحیح دکتر محمد سلیم اختر، موسسۂ تحقیقات علوم آسیای میانہ و غربی، دانشگاہ کراچی، پاکستان، ص 326
.3         ایضاً، ص 326
.4         سفینۂ خوشگو، دفتر دوم، ص 314
.5         ایضاً، ص 305
.6         لباب الالباب: محمد عوفی، بہ تصحیح ادوارد، جی، براؤن، انتشارات ھرمس، تہران، 1389، ص 387
.7         ایضاً، ص 411
.8         شمع انجمن: نواب صدیق حسن خان، بہ تصحیح دکتر محمد کاظم کہدویی، مرکز انتشارات دانشگاہ نیرد، 1386، ص 30
.9         سفینۂ خوشگو، دفتر دوم، ص 201
.10      ایضاً، ص 214
.11      ایضاً، ص 213
.12      ایضاً، ص 209

Shareef Husain Qasmi
D-23, H. Nizamuddin East
New Delhi - 110013
ماہنامہ اردو دنیا، مارچ  2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں